- Advanced
- Find latest posts
- Find latest started threads
- Join Date: September 4th, 2018
Location: گلشن گلشن
- BlackSheep (52)
- کک باکسر (17)
- Ghost Protocol (5)
- Atif Qazi (4)
- حسن داور (3)
Forum Replies Created
-
AuthorPosts
-
8 Dec, 2018 at 11:19 pm #33یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اتفاق سریا کے جہاندیدہ”اباجی” نےاپنے بڑے کپوت کیلئےایسی سُپتری کا انتحاب کیا تھا جوان کے غبی دماغ بیٹے کو “باؤجی” کے سنگھاسن پر بٹھا کر کامیابی کی شاہراہ پر دوڑاتی رہی۔۔ شائد یہ خاندان گشتی جمہوریت کے جلوے دکھا کر چند دہائیاں مزیداپنی ٹِنڈیں ہری بھری رکھ سکتا تھا لیکن ایک بائیس منٹ کے انٹرویو نے ساری کایا پلٹ کر رکھ دی۔۔وہ بائیس منٹ۔۔۔ جب نِکے کپوتئے عرف ببلو نے الحمداللہ کہہ کر لندن فلیٹس کو ڈکارنے کی چول ماری۔۔بس وہی سے ارشد وحید چودہری کے محبوب قائد کےستارےگردشِ وبال بن گئے۔۔ قدموں کے نیچے نحوست و خجالت کے کئی جال بن گئے۔۔ہائے! وہ ظالم بائیس منٹ28 Nov, 2018 at 1:48 am #27انجام کیا ہوا پھر
الوک ناتھ جی! آپ کی نون لیگی شہ پاروں کے دماغوں میں بھوسہ ٹٹولنے کی عادت بڑھتی جارہی ہے۔۔حضور والا! ایہہناں نال جنھے وی متھا لایا اے اوہنے اپنا ای دماغ کھسکایا اے۔۔
21 Oct, 2018 at 9:55 pm #31آپ نے درست کہا ہے کہ تبدیلی کا سب سے پہلا مرکز ذات ہونی چاہیے. ہر کوئی اپنی اصلاح کر لے تو تبدیلی آ سکتی ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو بدلنے پر تیار نہیں ہیں اور دوسروں سے توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ بدل جائیں اور ہمارے مسائل حل ہو جائیں. یہ ہماری انتہائی احمقانہ سوچ ہے. ہماری سماجی اور تعلیمی پسماندگی اور غلامی کی وجہ سے یہاں کوئی بندہ اپنی اصلاح کرنے کو تیار نہیں ہے. ہم ہمیشہ کسی معجزہ کی تلاش میں رهتے ہیں کہ کہیں سے کوئی مسیحا آئے اور ہمارے حالات ٹھیک کر دے لیکن ہم خود سے ٹھیک نہیں ہونا چاھتے. کبھی ہم نواز شریف میں قائد اعظم ثانی ڈھونڈ تے ہیں، کبھی عمران خان کو مسیحا سمجھنا لگ جاتے ہیں اور کبھی فوجی جرنیلوں کو نجات دھندہ سمجھکر “رک جاو، ابھی نہ جاو” کے ترانے گانا شروع کر دیتے ہیں. اسکا مطلب ہے کے ہم نے اس وقت تک ٹھیک نہیں ہونا جب تک کوئی دوسرا قائد اعظم یا مسیحا ہماری مدد کرنے ھمارے درمیان نہ آ جائے. ہماری یہ غلامانہ سوچ اور تعلیمی، اخلاقی اور سماجی پسماندگی صرف اجتماعی شعور اجاگر کرنے سے ہی دور ہو سکتی ہے جو کہ بہرحال ایک وقت طلب کام ہے. جب ہمیں اجتماعی شعور آ جائے گا تو پھر کسی تبدیلی کی توقع ممکن ہے. اگر ہمیں قوموں کی صف میں زندہ رہنا ہے اور با عزت مقام حاصل کرنا ہے تو سب سے پہلے خود اپنے آپ کو بدلنا ہوگا. کھوکھلے نعرے لگانے سے یا کھوکھلے نعرے لگانے والوں کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلنے سے تبدیلی نہیں آ جائے گی. جب تک ہم خود اپنے آپ کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہونگے تب تک یہ خواری ہمارے حصے میں لکھی رہے گیبڈاوا جی! ایہنیاں سمجھدار گلاں!!!!۔۔۔ لگدا اے تسی اج لسّی نئیں پیتی۔۔۔۔
21 Oct, 2018 at 9:50 pm #29بھنورا صاحب ۔ ۔ ۔ ۔ سیاستِ وطن سے تو کوئی اچھی خبر آتی نہیں ہے تو پھر اچھا نہیں ہے کہ بندہ ڈوڈوں سے پیئے اور مست ماحول میں جئےاتنے خوبصورت “ڈوڈے” ہوں تو کون کم بخت نہیں پئے گا۔۔ ویسے آپ کے خیال میں مردانہ جبلت میں ” ڈوڈوں” کی کونسی شبیہہ زیادہ اشتعال پیدا کرتی ہے؟
21 Oct, 2018 at 9:32 pm #26اتھرا صاحب کے دھاگوں میں انٹیلیکچوئیل اوپئیم کے اتنے”ڈوڈے” چھپے ہوتے ہیں کہ ایک عام قاری چند سطریں پڑھنے کے بعد شعوری بد حواسی کا شکار ہو جاتا ہے اور مجبورا یہ گیت سننے لگتا ہے۔۔۔19 Oct, 2018 at 12:40 am #46بھٹو کے زمانے میں سیاست دانوں پر بھینس چوری کے مقدمے بنا کرتے تھے، اب بکری پر آ گئے ہیں۔ سیاست دانوں کی وقعت کم ہو رہی ہےسیاسی پنڈت تو اشارہ دیتے ہیں کہ جب مستقبل قریب میں حمزہ شہباز نون لیگ کی کمانڈ کرے گا تو یہ وقعت “کُکڑی”کی نچلی سطح تک چلی جائے گی۔۔
19 Oct, 2018 at 12:36 am #18بھائی جی! سدا ہسدے بسدے روو۔۔ آجکل نون لیگ کی محبت میں سرشار اکثردل ہسپتالوں میں بیمار ملتے ہیں لیکن حیرت ہے پھر بھی اسی لوہار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں جس کی چاہ میں خواہشاتِ توند کا بیانیہ اتنا خطرناک ہو جاتا ہے کہ بتدریج تمام رگوں کا پھڑکنا، تڑپنا اور لپکنا بھی مفقودالعمل نظر آنے لگتا ہے ۔۔تسی اپنا خیال رکھیا کرو۔۔17 Oct, 2018 at 12:56 am #46کیا کہہ رہے ہیں آپ تری پاٹھی جی ، لوگ تو اداس پھرتے ہیں سردیوں کی شاموں میں کیونکہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میںبھیروناتھ ترویدی جی!ہمارے پریم نگر میں صرف جون کے مہینے میں شامیں اداس ومجبور نظر آتی ہیں۔۔کیونکہ گاؤں کے اطراف میں موجود وہ بیلےو نباتاتی پناہ گاہیں جہاں عشق و مستی اپنے الجھنے سلجھنے کے نشان چھوڑتے ہیں وہاں پر “رکڑے” میدان بن جاتے ہیں اور یوں عشاق بیچارے ضبط و بیچارگی کا ساماں بن جاتے ہیں۔۔
17 Oct, 2018 at 12:26 am #44کسینووا صاحب، کیا کہتی ہے آپ کی دانشمندی کی پرواز کہ وہ کونسا راستہ ہے جس سے گزر کر جمہوریت اور صحافت اپنا مطلوبہ مقام حاصل کرتی ہیں ؟گھوسٹ پروٹوکول صاحب!۔۔۔۔موسم کی خنکی بڑھنے سے دانشمندی بھی “ہائبرنیٹنگ” سٹیٹس پر گم سم ہے۔۔تھوڑی گرم بانہوں کی حدت دستیاب ہو جانیں دیں ۔۔سرد شاموں کو گرم سانسوں سے پگھل جانیں دیں۔۔ پھر جب قلم عزم و یقیں سے چلے گا تو راستہ و مقام کا نشاں بھی ملے گا۔۔۔
17 Oct, 2018 at 12:06 am #43یہ کیا لفظ ہے حضرت؟ باقی جو آپ نے کہا ہے وہ ایک اور طرح کا سچ ہے ایسا سچ جو آج کل کی سرمایہ داری کے بمبو پر اٹھائے گئے جمہوری تمبو کے اندر سے سارا ابال نکال لیتا ہےیہ لفظ ماضی قریب میں “چترائی” کا لبادہ اوڑھے حکمرانوں کو میکاولئین داؤ پیچ سکھایا کرتا تھا۔۔ لیکن جناب نواز شریف نے اپنے خبطِ اقتدار میں “چترائی” کا اتنا احمقانہ استعمال کیا کہ نتیجتا فرہنگ سیاسیہ میں مجبورا اس لفظ کو “چدوائی” سے ری فریز کرنا پڑا۔۔۔
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
14 Oct, 2018 at 3:20 am #21آپ نے شلپا کا “استعارہ” پہلے استعمال کیا تھا اس کی وضاحت بھی آپ کردیں -ہوسکتا ہے مجھ سے سمجھنے میں غلطی ہوگئی ہو تو معزرت کرنے پر بھی غور کیا جاسکتا ہےجناب! آپکی غلطیوں کا امکان عروج پکڑتا رہے گا تاوقیکہ آپ اپنا سافٹ وئیر اپڈیٹ نہیں کر لیتے۔۔
14 Oct, 2018 at 3:16 am #20کیوں؟ کیا خرابی ہے شلپا میں؟؟ ویسے میں سلپری فش کے عمنوں میں یہ استعارہ لایا تھا اب آپ کہیں میسوجینسٹ ایکٹ کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟؟اتھرا صاحب! میرے خیال سے سلپری فش کے موثر تاثر کیلئے شلپا شرودھکر کی بجائے شلپا شیٹھی کا استعمال بہتر رہے گا۔۔
14 Oct, 2018 at 3:09 am #2پاکستانی جمہوریت اور صحافت لٹریری شاونزم کے احساس میں “می ٹو” کے بینر تلے اپنی ناسٹلجئین چُدوائی کو کیش کروا رہی ہیں۔۔۔کیا ستم ظریفی ہے کہ مشرف جیسا آمر تو صحافت کی آبلہ پائی پر مرہم رکھتے ہوئے اسےآزاد فضاؤں میں صوتی اثرات بکھیرنے کے قابل بناتا ہے اور جمہوریت کے برانڈڈ”ڈڈّو” سرکاری ٹی وی پر اپنے تھوبڑے کے سوا کسی مخالف بیانئیے کی پرچھائی تک دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔۔- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
14 Oct, 2018 at 12:03 am #5خاتین و حضرات! آج ہم اپنے پروگرام کا آغاز ایک سبق آموز کہانی سے کرتے ہیں۔۔ کہانی کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ آج سے کئی برس پہلے گجرات کے مضافات میں ایک جُگھی کے اندر ایک بچے کا جنم ہوا۔۔ وہ بچہ بچپن سے ہی “لافیں و ٹانگیں” مارنے میں ایکسپرٹ تھا۔۔ وہ ہمیشہ کمپرومائزنگ سچوئشنز میں اپنی کھبّی لت پھنسا کر مشہور ویلنز کے ڈائیلاگ بولنے کی پریکٹس کیا کرتا تھا ۔۔ دوست احباب عداوت سے اسے جیدا لُبھڑ کے نام سے پکارنے لگے۔۔جیدا لبھڑ ہمیشہ گاؤں کے معصوم لوگوں کا خوفناک قصہ کہانیاں سنا سنا کر خون خشک کرتا رہتا اور مجبورا گاؤں کے لوگ اپنے تخیلاتی جہاں کو ہارر ایفیکٹس سے بچانے کیلئے جیدے کو لُبھڑ ٹیکس دینے لگے۔۔یوں جیدا معصوم لوگوں کی سماعتوں پر استحصالی خراشیں لگاتے لگاتے راجدھانی کے اونچی اونچی فصیلوں میں فصلی بٹیرہ بن کر آباد ہو گیا۔۔ یہاں سیاست ، ملوکیت،اور “ریاضت” نے جیدے کی بےغیرت ِسخن پر مزید کیا اثرات مرتب کئے؟ جیدا اپنی چول بازی پر سنجیدگی کا رنگ و روغن کرنے میں کتنا کامیاب رہا؟ جیدے کی طوطا نما آنکھوں میں مزید کن حیوانی جلوؤں نے دستک دی؟ ان سب رازوں سے پردہ اٹھے گا۔۔ پروگرام کے آخر پر۔۔ خاتین و حضرات ملتے ہیں ایک بریک کے بعد۔۔۔11 Oct, 2018 at 1:41 am #25اتھرا صاحب! آپکی اتھری اور وکھری طبیعت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انویسٹمنٹ کیلئے ایک آئیڈیا ذہن میں آرہا ہے۔۔آپ کے علم میں ہے کہ وزیراعظم صاحب کے اعلان کردہ پچاس لاکھ گھروندوں کو زمین پر سجانے کیلئے مستقبل قریب میں کئی مقدر اپنے سکندروں سے ملاپ کرنے والے ہیں۔۔سو آپ بھی اپنے وژنری جرثوموں کو زیتون کا تیل لگا کر ایکٹیو کیجئے اور ایک عدد “ڈنکی کارگو ” کمپنی بنا کر اینٹوں، بجری، ریت وغیرہ کی ترسیل کیلئے کھوتوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیجئے۔۔ اچھی نسل کے کھوتے آج کل زیادہ تر احتساب عدالت کے باہر احتجاج کرتے ملیں گے۔۔ شائد کوئی درجن بھر آپکے “دھاگوں” میں بھی الجھے ہوئے مل جائیں گے۔۔جلدی کیجئے اور اپنے متوقع انٹر پرینئورئیل اثاثوں کو ضبط کرکے ایک آسودہ زندگی کے مزے اٹھا ئیے اور غریبوں کیلئے گھر بنا کر پُنّے کمائیے۔۔۔6 Oct, 2018 at 2:33 am #43کاسہ نوا بھاہی ہماری سوسائٹی او پر سے نیچے تک کرپشن میں دھنسی ہوئی ہے کہ اگر عام طریقے سے فنڈ بانٹ کر دے دیں تو سب کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے – شہباز نے بڑی رقم کی ذمے داری لے کر پنجاب کا چپہ چپہ موٹووے سے جوڑ دیا تین میٹرو اور ایک اورینج لائن بنایی – گیارہ ہزار میگا واٹ کے منصوبے مکمل کرنا مذاق نہیں – پھر کھیت سے منڈی سڑکیں اور گلی مھلے کے ترقیاتی کام الگ ہیں – اسے اگر اپنے کام کی داد لینے کا شوق ہے تو کیا غلط ہے – باقی اخلاقی کرپشن کے ریکارڈ تو دوسروں نے بناہے ہیں شہباز کو تو اس میں محاف ہی رکھیں – تحلیم اور صحت میں اتنا کام نہیں ہوا جتنا ہونا چا ہیے تھا – انفراسٹرکچر پر بہت خرچہ ہو چکا اب تحلیم اور صحت کو اگر نیی حکومت ترجیح بنا لے تو ملک کا بہت بھلا ہو مگر مجھے ان تلوں میں تیل نہیں لگتا –ما شاءاللہ ! کیا استدلال ہے۔۔ فنڈز کے عام استعمال سے کرپشن بڑھتی ہے اس لئے انہیں “صاف پانی” میں دھلے ہوئے خواص کی “آشیانہ اسکیم میں منتقل کر دینا چاہیئے۔۔۔اعوان صاحب! میری تو آپ سے سیاسی مباحثہ کرنے کی مجال نہیں ۔۔ لیکن آپکی آل شریف کیلئے پلاٹونک محبت پر رشک آ رہا ہے اور میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کبھی خواجہ چی گویرا بٹ صاحب کی انقلابی کال پر ٹینکوں کے نیچے لیٹنے کا مرحلہ آیا تودیگر نونی تو شائد حسبِ روایت تِتّر ہو جائیں لیکن آپ ضرور اس انقلابی شاہراہ پر لیٹے نظر آئیں گے۔۔
6 Oct, 2018 at 1:37 am #34توبہ توبہ تو جلد آپ کریں گے ان نااہلوں کی حمایت اور بزدل فوجیوں کے شیطانی کھل کا حصہ بن کر – شہباز پر تو رولز کے خلاف ٹیکھا دینے کا الزام ہے جہاں خٹک نے ٹیکھا ہی ترین کو دیا ہے وہاں کیا کرو گے – خٹک کی کرپشن کی د ا ستانینن زبان زد عام ہیں – جب آپ صرف دوسروں کو پکڑیں گیں تو آپ کا گریبان بھی گرفت میں ضرور اے گا – چلو نون سے ڈیل کا داغ تو ڈھل گیا مگر آپ کون کونسا داغ دھوووگے –اعوان صاحب آپ اس فورم پر نون لیگی پترکاروں کیئے ایک قابل تقلید نشانی ہیں اس لیے ہماری طرف سے خادم اعلی کو اسیر اعلی بنانے کی جمہوریت کُش کاروائی پر دلی پُرسہ اور تعزیت قبول کیجئے۔۔حقیقت یہ ہے کہ دیانت و فطانت جناب اسیرِاعلی کی “چی چی انگلی” پر ناچتی رہتی تھی۔۔ بارش کے گہرے پانیوں میں بوٹوں سمیت اتر کر فوٹو جینک ایمپریشن قائم رکھنا انکی انوکھی ادا تھی۔۔ منکوحہ عورتوں کو آدھی رات کو محمد رفیع کے نغمے سنا کر انقلابی حرم گاہ سجانا بھی ان ہی کا خاصہ تھا۔۔کبھی حبیب جالب کی روح کو تڑپاتے ہوئے کمال ڈھٹائی سے انقلابی ترانے گنگنانا اور پھر گواچی گاں کی طرح مائیک کو دولتی مار کر گرانا۔۔ کرپشن کے خلاف بھاٹی گیٹ پر پھانسی گھاٹ سجانا اورساتھ ہی اپنے “جوائی” کو صاف پانی میں اربوں کی ڈبکیاں لگوانا۔۔ بہاروں کے سپنے لئے گنجے سر پرجوانی کی سیج سجانا اور کِڑکی میں پھستے ہی “مجھے کینسر ہے” کی فریاد لگانا۔۔ آہاہ!!!۔۔۔ ایسا نگینہ پنجاب کی دھرتی کو ابھی نصیب ہوا یا بہت پہلے رنگیلے شاہ کے دربار میں نو ہزاری منصب میں فائز ہوا۔۔ صد افسوس
-
AuthorPosts