- This topic has 112 replies, 18 voices, and was last updated 4 years, 11 months ago by GeoG.
-
AuthorPosts
-
23 May, 2019 at 2:50 pm #101جو بات میری سمجھ نہیں آی کہ یہ جو درآمدات میں اضافہ ہوا ہے یہ کن سیکٹرز میں ہوا ہے؟ کیا یہ عام اشیا صرف کی درآمدات کی وجہ سے ہوا ہے ؟ یا پاور پلانٹس اور انفرا سٹرکچر میں سرمایہ کاری کی وجہ سے ہوا ہے یا خام مال کی درآمدات میں اضافہ سے ہوا ہے یا توانائی کی درآمدات کی وجہ سے ہوا ہے ؟
گھوسٹ صاحب۔۔۔۔۔
کیا آپ نے اپنے پہلے جملے میں ہی اپنے سوال کا خود جواب نہیں دے دیا۔۔۔۔۔
اان صفحات پر اتنی معلومات اکھٹا ہوچکی ہیں ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ نون لیگ کے دور میں ڈالر کی قیمت کم رکھ کر درآمدات بڑھائی گئیں جس سے مالی خسارہ بڑھتا گیاشاہد صاحب کے یہ کمنٹس بھی دیکھ لیں۔۔۔۔۔
کیا امپورٹس کو بڑھنے دیئے جانے کا مطلب ڈالر کو غیر منطقی طور پر کنٹرولڈ کئے رکھنا نہی؟ اگر ن لیگ کا سب سے بڑا قصور امپورٹس کو بڑھنے دیئے جانا تھا تو ن لیگ نے یہ کیسے کیا؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ڈالر کی قیمت کو نیچے رکھ کر امپورٹس کو سبسیڈائز کیا گیا جس سے امپورٹس ہر سال ۲۷ فیصد بڑھتی چلی گئیں۔ دوسری طرف ڈالر کو نیچے رکھ کر ایکسپورٹس کو مہنگا کیا گیا جس سے ایکسپورٹس پانچ سال میں ۵ ارب کم ہوئیں۔ اسی کو ڈچ ڈیزیز کہتے ہیں جس کا عاطف میاں نے ذکر کیا ہے۔ اور اس کے مطابق ہماری یہ ڈچ ڈیزیز اب سٹیرائیڈز پر ہے۔
آپ نے شاید نوٹ کیا ہوگا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہماری امپورٹس چھ ارب ڈالر کم ہو چکی ہیں۔ یعنی کرنٹ اکاؤنٹ کا جو ڈیفسٹ ن لیگ ۱۹ ارب پر چھوڑ کر گئی تھی وہ اب ۱۳ ارب پر آگیا ہے۔ اور ہمیں مستقبل میں اسے مزید کرنا ہوگا ورنہ ہمارا انجام ڈیفالٹ ہوگا۔باقی جہاں تک درآمدات میں حقیقی اضافے کی بات ہے تو کچھ مشینری کی مَد میں یقیناً ہوا ہوگا۔۔۔۔۔ لیکن کتنا ہوا ہوگا۔۔۔۔۔
دو یا تین ارب ڈالر۔۔۔۔۔ میرے خیال میں اِس سے زیادہ تو نہیں ہوگا۔۔۔۔۔
تین ارب ڈالر بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔۔۔۔۔
عام اشیا صرف یا لگژری گڈز پر تو ڈیوٹی میں اضافہ کیا جاسکتا تھا –اسکا ایک نتیجہ سمگلنگ اور کرپشن میں اضافہ کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے لہٰذا محض امپورٹ ڈیوٹی میں اضافہ بھی اتنی سادہ بات نہیں محسوس ہوتیایگزیکٹلی۔۔۔۔۔
یہ معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے۔۔۔۔۔
آپ ایک حد تک ہی اضافہ کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
23 May, 2019 at 4:21 pm #102پوسٹ نمبر بیاسی میں اپنا بیان پڑھ کر بتائیں کہ اس کا کیا مطلب ہےمیاں بلیور۔۔۔۔۔
آپ نے ایک سوئیپنگ اسٹیٹمنٹ دی تھی کہ جو بندہ ڈالر کو ایک سو پچاس پر لے گیا اُس کو خود کشی کرلینی چاہئے۔۔۔۔۔
تو آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ دو طرح کی کمی کی جاتی ہیں۔۔۔۔۔
ایک اِس طرح کرنسی کو ڈی ویلیو کیا جاتا ہے کہ ملک کا مرکزی بینک خود اپنی کرنسی کو باقاعدہ ڈی ویلیو کرتا ہے۔۔۔۔۔ جیسے دو ہزار اٹھارہ میں پانچ دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے روپے کی ویلیو کم کی گئی تھی۔۔۔۔۔ اِس حکومت کے آنے سے پہلے ہی تین دفعہ کمی کی جاچکی تھی۔۔۔۔۔ لیکن یہ کمی کوئی زیادہ نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
اور جو دوسرا طریقہ ہوتا ہے وہ آزاد منڈی کی قوتیں خود کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ابھی یہ جو اچانک حالیہ اضافہ ہوا ہے یہ غالباً اسٹیٹ بینک کی جانب سے نہیں کیا گیا بلکہ مارکیٹ فورسز خود ڈالر کی قیمت بڑھا رہی ہیں۔۔۔۔۔ اور اِس کے پیچھے کُلیہ وہی ہے کہ طلب اور رَسد کا معاملہ۔۔۔۔۔ اگر کسی چیز کی مارکیٹ میں سپلائی کم ہے اور خریدنے والے زیادہ تو قیمت خود بخود بڑھے گی۔۔۔۔۔ لیکن اگر سپلائی زیادہ ہے اور خریدنے والے کم ہیں تو قیمت خود بخود کم ہوگی۔۔۔۔۔ تو میرا اعتراض اِسی بات پر تھا کہ یہ اسد عمر یا کسی اور نے کمی نہیں کی ہے بلکہ یہ کمی منڈی کی قوتوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔۔۔۔۔ یا دوسرے معنوں میں بالواسطہ عام لوگوں کی جانب سے ہوئی ہے کہ وہ ڈالر خریدنا چاہ رہے ہیں لیکن مارکیٹ میں ڈالر کم ہیں، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔۔۔۔۔ اکثر اوقات مرکزی بینک(جیسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان) ایسی صورتحال میں اپنے ڈالر مارکیٹ میں ڈالتا ہے تاکہ رَسد(سپلائی) بڑھائی جائے اور قیمت کم کی جائے۔۔۔۔۔ لیکن اِس وقت پاکستان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس اتنے ڈالر نہیں ہیں کہ وہ مارکیٹ میں ڈال کر قیمت کو نیچے لیکر آئیں۔۔۔۔۔ یہی کام پچھلے پانچ سالوں میں آپ کی نون لیگ کرتی رہی تھی۔۔۔۔۔ قرض لے لے کر ڈالر مارکیٹ میں ڈالتے گئے۔۔۔۔۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ جب نون لیگ کی حکومت آئی تھی تو پاکستان کا بین الاقوامی قرضہ(ڈالر والا قرضہ) کوئی پچاس پچپن ارب ڈالر تھا لیکن آج یہ قرضہ سو ارب ڈالر سے اوپر ہے۔۔۔۔۔ کبھی اِس پر بھی غور کرلیں کہ یہ قرضہ آخر اتنا کیسے بڑھ گیا۔۔۔۔۔ ابھی دو چار دن پہلے کہیں دیکھا کہ تھا پاکستان کا کُل قرضہ پاکستان کے جی ڈی پی کا نوے بانوے فیصد پر پہنچ گیا ہے۔۔۔۔۔
اور ڈالر کی کرنسی میں ملنے والے یہ قرضے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ ایک کو پیرس کلب کہا جاتا ہے جس میں باقاعدہ امیر ملکوں کے آفیشئل ہوتے ہیں جو غریب ممالک کو یہ قرضہ دیتے ہیں، جبکہ دوسرے کو لندن کلب کہا جاتا ہے جو کہ پرائیوٹ امیر افراد(کمپنیاں) پر مشتمل ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور یہ تمام ادارے بھی ایک حد تک قرض دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اسحٰق ڈار کو جب اِن اداروں سے قرضہ ملنا بند ہوگیا تو انہوں نے پانچ پانچ سو ملین ڈالر کیلئے باقاعدہ بانڈز جاری کر کے بیچنا شروع کردیے جن کی سود کی شرح انتہائی بلند تھی، اور اِن بانڈز کی سَاورن گارنٹی حکومتِ پاکستان کی تھی۔۔۔۔۔ یعنی جنہوں نے بھی یہ بانڈز خریدے اُن کو اب حکومتِ پاکستان انتہائی زیادہ شرح پر سود ادا کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔۔۔ اور سب سے باریک کام جو انہوں نے ڈالا وہ یہ کہ اکثر قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کا وقت دو ہزار انیس بیس اور اکیس ہے۔۔۔۔۔ اب یہ جو حکومت اِس وقت مشکل میں ہے اُس کیلئے مالیاتی بارودی سُرنگیں کافی عرصہ پہلے بچھائی گئی تھیں۔۔۔۔۔
اب یہاں حکومت کے پاس دو آپشن بچتے ہیں کہ یا تو اِدھر اُدھر سے جو بھی قرض ملتا ہے(اور مزید قرض ملنا مسئلہ بن چکا ہے) اُس کو مارکیٹ میں ڈال کر ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کیا جائے یا اِس پریکٹس سے کافی حد تک پیچھے ہٹا جائے اور ڈالر کو ذرا کھلا چھوڑ دیا جائے کہ مارکیٹ فورسز تعین کریں کہ ڈالر کی قیمت کیا ہوگی۔۔۔۔۔ اور یہ دونوں آپشن ہی برے اور زیادہ برے ہیں، اِس میں کوئی شک نہیں۔۔۔۔۔ پہلے آپشن کا استعمال نون لیگ کی حکومت نے خوب کیا اور ڈالر کو ایک مصنوعی قیمت پر رکھے رہے، عوام میں بھی بلے بلے ہوگئی۔۔۔۔۔ لیکن اب قرض ملنا مشکل ہوچکا ہے، فرض کریں کہیں سے مل بھی جاتا ہے تو اُس کو مارکیٹ میں ڈال کر ڈالر کی قیمت کچھ حد تک کنٹرول کرلیں گے لیکن پھر ایک دو سال بعد عذاب پھر شروع ہوجانا ہے۔۔۔۔۔ اور دوسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت ڈالر کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں پیچھے ہٹ جائے لیکن اِس میں عوام کی چیخیں ضرور نکلنی ہیں۔۔۔۔۔
اور مَیں کوئی ماہرِ معاشیات نہیں ہوں۔۔۔۔۔ اِن معاملات کو بنیادی طور پر سمجھنا ذرا سے کامن سَینس کا تقاضہ کرتا ہے۔۔۔۔۔
لہٰذا کبھی کبھار بہتر ہوتا ہے کہ اپنے تعصبات کو ایک طرف رکھ بھی صورتحال کو دیکھ لیا جائے۔۔۔۔۔ لیکن جہانِ عقیدت میں ایسا مشکل ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔
مگر پھر بھی آپ سے دست بدست اِلتجا ہے کہ اِس قسم کے بلینکٹ اسٹیٹمنٹ نہ دیا کریں۔۔۔۔۔ پہلے کسی چیز کو سمجھا کریں پھر اُس پر اپنی رائے دیں۔۔۔۔۔ اب آپ دیکھیں کہ گھوسٹ صاحب کو اِن معاملات کا اتنا علم نہیں ہے تو وہ سوال پوچھ کر سمجھنا چاہ رہے ہیں، کوئی سوئیپنگ اسٹیٹمنٹ نہیں دے رہے۔۔۔۔۔ آپ کو بھی اگر کسی معاملہ کا علم نہیں ہو تو پہلے پوچھیں، اپنی عالمانہ رائے بعد میں دیں۔۔۔۔۔
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
- thumb_up 1
- thumb_up صحرائی liked this post
24 May, 2019 at 8:41 am #103گھوسٹ صاحب۔۔۔۔۔ کیا آپ نے اپنے پہلے جملے میں ہی اپنے سوال کا خود جواب نہیں دے دیا۔۔۔۔۔ شاہد صاحب کے یہ کمنٹس بھی دیکھ لیں۔۔۔۔۔ باقی جہاں تک درآمدات میں حقیقی اضافے کی بات ہے تو کچھ مشینری کی مَد میں یقیناً ہوا ہوگا۔۔۔۔۔ لیکن کتنا ہوا ہوگا۔۔۔۔۔ دو یا تین ارب ڈالر۔۔۔۔۔ میرے خیال میں اِس سے زیادہ تو نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ تین ارب ڈالر بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ایگزیکٹلی۔۔۔۔۔ یہ معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ آپ ایک حد تک ہی اضافہ کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔“عموما یہ جملہ پاکستان سے سننے کو ملتا ہے کہ “اللہ کا شکر ہے دنیا کی ہر چیز اب تو یہاں ملنے لگی ہے
بظاہر لگتا ہے ہر چیز کا ملنا نعمت سے زیادہ عذاب کی شکل اختیار کرگیا ہے24 May, 2019 at 12:34 pm #104میاں بلیور۔۔۔۔۔ آپ نے ایک سوئیپنگ اسٹیٹمنٹ دی تھی کہ جو بندہ ڈالر کو ایک سو پچاس پر لے گیا اُس کو خود کشی کرلینی چاہئے۔۔۔۔۔ تو آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ دو طرح کی کمی کی جاتی ہیں۔۔۔۔۔ ایک اِس طرح کرنسی کو ڈی ویلیو کیا جاتا ہے کہ ملک کا مرکزی بینک خود اپنی کرنسی کو باقاعدہ ڈی ویلیو کرتا ہے۔۔۔۔۔ جیسے دو ہزار اٹھارہ میں پانچ دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے روپے کی ویلیو کم کی گئی تھی۔۔۔۔۔ اِس حکومت کے آنے سے پہلے ہی تین دفعہ کمی کی جاچکی تھی۔۔۔۔۔ لیکن یہ کمی کوئی زیادہ نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ اور جو دوسرا طریقہ ہوتا ہے وہ آزاد منڈی کی قوتیں خود کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ابھی یہ جو اچانک حالیہ اضافہ ہوا ہے یہ غالباً اسٹیٹ بینک کی جانب سے نہیں کیا گیا بلکہ مارکیٹ فورسز خود ڈالر کی قیمت بڑھا رہی ہیں۔۔۔۔۔ اور اِس کے پیچھے کُلیہ وہی ہے کہ طلب اور رَسد کا معاملہ۔۔۔۔۔ اگر کسی چیز کی مارکیٹ میں سپلائی کم ہے اور خریدنے والے زیادہ تو قیمت خود بخود بڑھے گی۔۔۔۔۔ لیکن اگر سپلائی زیادہ ہے اور خریدنے والے کم ہیں تو قیمت خود بخود کم ہوگی۔۔۔۔۔ تو میرا اعتراض اِسی بات پر تھا کہ یہ اسد عمر یا کسی اور نے کمی نہیں کی ہے بلکہ یہ کمی منڈی کی قوتوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔۔۔۔۔ یا دوسرے معنوں میں بالواسطہ عام لوگوں کی جانب سے ہوئی ہے کہ وہ ڈالر خریدنا چاہ رہے ہیں لیکن مارکیٹ میں ڈالر کم ہیں، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔۔۔۔۔ اکثر اوقات مرکزی بینک(جیسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان) ایسی صورتحال میں اپنے ڈالر مارکیٹ میں ڈالتا ہے تاکہ رَسد(سپلائی) بڑھائی جائے اور قیمت کم کی جائے۔۔۔۔۔ لیکن اِس وقت پاکستان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس اتنے ڈالر نہیں ہیں کہ وہ مارکیٹ میں ڈال کر قیمت کو نیچے لیکر آئیں۔۔۔۔۔ یہی کام پچھلے پانچ سالوں میں آپ کی نون لیگ کرتی رہی تھی۔۔۔۔۔ قرض لے لے کر ڈالر مارکیٹ میں ڈالتے گئے۔۔۔۔۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ جب نون لیگ کی حکومت آئی تھی تو پاکستان کا بین الاقوامی قرضہ(ڈالر والا قرضہ) کوئی پچاس پچپن ارب ڈالر تھا لیکن آج یہ قرضہ سو ارب ڈالر سے اوپر ہے۔۔۔۔۔ کبھی اِس پر بھی غور کرلیں کہ یہ قرضہ آخر اتنا کیسے بڑھ گیا۔۔۔۔۔ ابھی دو چار دن پہلے کہیں دیکھا کہ تھا پاکستان کا کُل قرضہ پاکستان کے جی ڈی پی کا نوے بانوے فیصد پر پہنچ گیا ہے۔۔۔۔۔ اور ڈالر کی کرنسی میں ملنے والے یہ قرضے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ ایک کو پیرس کلب کہا جاتا ہے جس میں باقاعدہ امیر ملکوں کے آفیشئل ہوتے ہیں جو غریب ممالک کو یہ قرضہ دیتے ہیں، جبکہ دوسرے کو لندن کلب کہا جاتا ہے جو کہ پرائیوٹ امیر افراد(کمپنیاں) پر مشتمل ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور یہ تمام ادارے بھی ایک حد تک قرض دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اسحٰق ڈار کو جب اِن اداروں سے قرضہ ملنا بند ہوگیا تو انہوں نے پانچ پانچ سو ملین ڈالر کیلئے باقاعدہ بانڈز جاری کر کے بیچنا شروع کردیے جن کی سود کی شرح انتہائی بلند تھی، اور اِن بانڈز کی سَاورن گارنٹی حکومتِ پاکستان کی تھی۔۔۔۔۔ یعنی جنہوں نے بھی یہ بانڈز خریدے اُن کو اب حکومتِ پاکستان انتہائی زیادہ شرح پر سود ادا کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔۔۔ اور سب سے باریک کام جو انہوں نے ڈالا وہ یہ کہ اکثر قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کا وقت دو ہزار انیس بیس اور اکیس ہے۔۔۔۔۔ اب یہ جو حکومت اِس وقت مشکل میں ہے اُس کیلئے مالیاتی بارودی سُرنگیں کافی عرصہ پہلے بچھائی گئی تھیں۔۔۔۔۔ اب یہاں حکومت کے پاس دو آپشن بچتے ہیں کہ یا تو اِدھر اُدھر سے جو بھی قرض ملتا ہے(اور مزید قرض ملنا مسئلہ بن چکا ہے) اُس کو مارکیٹ میں ڈال کر ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کیا جائے یا اِس پریکٹس سے کافی حد تک پیچھے ہٹا جائے اور ڈالر کو ذرا کھلا چھوڑ دیا جائے کہ مارکیٹ فورسز تعین کریں کہ ڈالر کی قیمت کیا ہوگی۔۔۔۔۔ اور یہ دونوں آپشن ہی برے اور زیادہ برے ہیں، اِس میں کوئی شک نہیں۔۔۔۔۔ پہلے آپشن کا استعمال نون لیگ کی حکومت نے خوب کیا اور ڈالر کو ایک مصنوعی قیمت پر رکھے رہے، عوام میں بھی بلے بلے ہوگئی۔۔۔۔۔ لیکن اب قرض ملنا مشکل ہوچکا ہے، فرض کریں کہیں سے مل بھی جاتا ہے تو اُس کو مارکیٹ میں ڈال کر ڈالر کی قیمت کچھ حد تک کنٹرول کرلیں گے لیکن پھر ایک دو سال بعد عذاب پھر شروع ہوجانا ہے۔۔۔۔۔ اور دوسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت ڈالر کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں پیچھے ہٹ جائے لیکن اِس میں عوام کی چیخیں ضرور نکلنی ہیں۔۔۔۔۔ اور مَیں کوئی ماہرِ معاشیات نہیں ہوں۔۔۔۔۔ اِن معاملات کو بنیادی طور پر سمجھنا ذرا سے کامن سَینس کا تقاضہ کرتا ہے۔۔۔۔۔ لہٰذا کبھی کبھار بہتر ہوتا ہے کہ اپنے تعصبات کو ایک طرف رکھ بھی صورتحال کو دیکھ لیا جائے۔۔۔۔۔ لیکن جہانِ عقیدت میں ایسا مشکل ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی آپ سے دست بدست اِلتجا ہے کہ اِس قسم کے بلینکٹ اسٹیٹمنٹ نہ دیا کریں۔۔۔۔۔ پہلے کسی چیز کو سمجھا کریں پھر اُس پر اپنی رائے دیں۔۔۔۔۔ اب آپ دیکھیں کہ گھوسٹ صاحب کو اِن معاملات کا اتنا علم نہیں ہے تو وہ سوال پوچھ کر سمجھنا چاہ رہے ہیں، کوئی سوئیپنگ اسٹیٹمنٹ نہیں دے رہے۔۔۔۔۔ آپ کو بھی اگر کسی معاملہ کا علم نہیں ہو تو پہلے پوچھیں، اپنی عالمانہ رائے بعد میں دیں۔۔۔۔۔آپ کے بقول
روپے کی قدر میں پانچ دفعہ کمی کی گئی تین دفعہ نواز دور میں اور دو دفعہ موجودہ دور میں۔ یعنی دو دفعہ سٹیٹ بینک نے بکری کی طرح دندیاں نکالنے والے کی ہدایت پر روپیہ کی قدر گرای (پتا کروائیں اس کے دوچار ہزار ڈالر تو جمع نہیں تھے) میرا سوال یہ ہے کہ پھر آپ نے یہ کیوں کہا کہ ڈالر خودبخود اوپر گیا ہے؟
جو آپ نے غلط بیانی کی وہ میں نے پکڑ لی اور اب آپ اکانومی پر لیکچر تو دے سکتے ہیں مگر اپنی غلط بیانی پر شرمندہ نہیں ہورہے
لیکچر دینے کا شکریہ مگر ایک بات یاد رکھیں کہ نواز حکومت نے تین دفعہ کمی پانچ سال میں کی مگر ڈالر ایک حد سے آگےنہیں جانے دیا جبکہ موجودہ حکومت نے پہلے تین ماہ میں ہی ڈالر کو 120 تک پنہچا دیا تھا اوپر سے بکری کی طرح دندیاں نکال کر کہہ رہا تھا کہ آی ایم ایف کی ہدایت پر نہیں خود اپنی پالیسی کے تحت روپیہ کی قدر کم کی ہے
آتے ہی بغیر کسی تجربے اور ہنر کے روپیہ گھٹانا انتہای احمقانہ فعل تھا کیونکہ ان سے اب روپیہ کی گرتی ہوی قیمت کو روکنا ناممکن ہوچکا ہے، ضرورت کیا تھی یہ چول مارنے کی، مصنوی طریق پر ڈالر کو صرف ہم نے نہیں بلکہ ملائشیا اور درجنوں ممالک نے باندھ رکھا ہے، جب انکے پیر جم جاتے اور کوی اہل وزیر خزانہ مل جاتا تو تب یہ پنگا بھی لے لیتے؟؟
آپ کے بقول پنگے کا سائیز لے کر پنگا لینا چاہیے والی قول زریں پر عمل نہیں کیا گیا
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
- mood 1
- mood BlackSheep react this post
24 May, 2019 at 2:54 pm #105بلیور چندا۔۔۔۔۔مجھے ذاتی طور پر دیہاتی لوگ بہت پسند ہیں۔۔۔۔۔ کیونکہ اُن کے اندر ایک معصومیت کا ایک ٹچ ہوتا ہے جو کہ شہروں میں رہنے والے میرے جیسے لوگوں کے اندر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ دیہاتی لوگوں کو بہت سے معاملات کے بارے میں علم نہیں ہوتا لیکن یہ قطعاً کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔۔۔۔۔
لیکن ایک قسم کے لوگ مجھے کافی ناپسند ہیں۔۔۔۔۔ جو اپنے آپ کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے دُنیا جہاں کا علم حاصل کرچکے ہیں جبکہ پتا انہیں ککھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
آپ نے لکھا۔۔۔۔۔
آتے ہی بغیر کسی تجربے اور ہنر کے روپیہ گھٹانا انتہای احمقانہ فعل تھا کیونکہ ان سے اب روپیہ کی گرتی ہوی قیمت کو روکنا ناممکن ہوچکا ہے، ضرورت کیا تھی یہ چول مارنے کیآپ نے معاشیات جیسے انتہائی مشکل اور دقیق مضمون میں کتنی پی ایچ ڈیز حاصل کی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔
برائے مہربانی بتا کر میرے علم میں اضافہ فرمائیں۔۔۔۔۔
مصنوی طریق پر ڈالر کو صرف ہم نے نہیں بلکہ ملائشیا اور درجنوں ممالک نے باندھ رکھا ہے، جب انکے پیر جم جاتے اور کوی اہل وزیر خزانہ مل جاتا تو تب یہ پنگا بھی لے لیتےاِس پورے تھریڈ پر یہی بات ہورہی ہے کہ حکومت کے پاس اتنے ڈالر ہیں ہی نہیں کہ وہ ڈالر کو روک سکیں۔۔۔۔۔
اب کیا کریں۔۔۔۔۔ جعلی ڈالر چھاپنا شروع کردیں۔۔۔۔۔ یا ڈالر چھاپنے والی مشین کسی طرح امیریکہ سے چوری کر کے پاکستان لے آئیں۔۔۔۔۔
نواز حکومت نے تین دفعہ کمی پانچ سال میں کی مگر ڈالر ایک حد سے آگےنہیں جانے دیااِس پورے تھریڈ میں یہی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج جو یہ مشکل ہے یہ نواز حکومت کے کارنامے ہیں۔۔۔۔۔
قرض لے لے کر ڈالر کی قیمت کو روکتے رہے اور قرضہ بڑھاتے چلے گئے۔۔۔۔۔ اور آج اُن قرضوں کی اقساط چکانا بھاری پڑرہا ہے۔۔۔۔۔
اِس تھریڈ پر حصہ لینے والے تقریباً تمام ہی افراد بشمول لیگی حامیوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی ہے۔۔۔۔۔
لیکن آپ ابھی تک۔۔۔۔۔
ایک اور بات۔۔۔۔۔ مَیں نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ نواز حکومت نے تین دفعہ کمی تھی۔۔۔۔۔ مَیں نے لکھا تھا کہ دو ہزار اٹھارہ میں پانچ دفعہ کمی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اور یہ حکومت آنے سے پہلے تین دفعہ ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ آپ نے اپنی ذہانت کے بَل پر اُس کو نواز حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا۔۔۔۔۔
چندا۔۔۔۔۔ بیچ میں ایک نگران حکومت بھی تھی۔۔۔۔۔
صرف اِس سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ کی معلومات کا کیا لیول ہے۔۔۔۔۔ لیکن بڑے بڑے دعوے کروا لو آپ سے۔۔۔۔۔
موجودہ حکومت نے پہلے تین ماہ میں ہی ڈالر کو 120 تک پنہچا دیا تھا اوپر سے بکری کی طرح دندیاں نکال کر کہہ رہا تھا کہ آی ایم ایف کی ہدایت پر نہیں خود اپنی پالیسی کے تحت روپیہ کی قدر کم کی ہےبس چَولیں مارنی ہیں۔۔۔۔۔ پتا کچھ ہے نہیں لیکن چَولیں ضرور مارنی ہیں۔۔۔۔۔
جب یہ حکومت آئی تھی تو ڈالر پہلے ہی ایک سو بیس سے اوپر تھا۔۔۔۔۔
حوالہ لگاؤں؟
یعنی دو دفعہ سٹیٹ بینک نے بکری کی طرح دندیاں نکالنے والے کی ہدایت پر روپیہ کی قدر گرای (پتا کروائیں اس کے دوچار ہزار ڈالر تو جمع نہیں تھے) میرا سوال یہ ہے کہ پھر آپ نے یہ کیوں کہا کہ ڈالر خودبخود اوپر گیا ہے؟ جو آپ نے غلط بیانی کی وہ میں نے پکڑ لی اور اب آپ اکانومی پر لیکچر تو دے سکتے ہیں مگر اپنی غلط بیانی پر شرمندہ نہیں ہورہےذرا غور سے پڑھیں۔۔۔۔۔
میں نے لکھا تھا کہ یہ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافہ ہوا ہے یہ مارکیٹ فورسز کا نتیجہ ہے۔۔۔۔۔ حکومتِ پاکستان ایک طرح سے بے بس ہے۔۔۔۔۔
اگر آپ کے پاس دو چار ارب ڈالر فالتو پڑے ہیں تو حکومتِ پاکستان کو دے دیں۔۔۔۔۔ وہ فی الحال ڈالر کو روک لیں گے۔۔۔۔۔ لیکن کچھ عرصہ بعد یہ عذاب واپس شروع ہوجانا ہے۔۔۔۔۔
25 May, 2019 at 5:41 pm #106BlackSheepYou must learn to forgive!
- mood 1
- mood BlackSheep react this post
26 May, 2019 at 10:27 pm #107I am pretty certain that even if PKR goes to 200 vs Dollar exports will not rise more than 10 percent as our export base is very limited, you need to re-establish itمَیں اِس نکتہ کو چائنا کے حوالے سے دیکھتا ہوں کہ چائنہ آخر دُنیا بھر کی فیکٹری کیسے بنا ہے۔۔۔۔۔
تیس سال پہلے چائنا کسی صورت جاپان جیسا انتہائی صنعتی ملک، یا جنوبی کوریا ذرا کم صنعتی ملک کے آس پاس بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ لیکن میرے خیال میں چائنا کے پاس ایک بہت بڑا ایڈوانٹج تھا۔۔۔۔۔ اُس کی آبادی، جو کہ کافی غریب بھی تھی۔۔۔۔۔
لیکن ایک کام چائنا کی حکومت نے کیا، ڈاکٹر محمد یونس کے الفاظ میں مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھانا، وہ یہ کہ بہت ہی بڑی تعداد میں ٹینیکل اور ووکیشنل اسکولوں کا قیام تھا۔۔۔۔۔ اور اُن ہی اسکولوں کی مدد سے آج چائنا کے پاس بہت ہی بڑی تعداد میں اسکلڈ ورک فورس ہے۔۔۔۔۔ اِن لوگوں کے پاس خود روزی کمانے کی اسکل ہے۔۔۔۔۔
ویت نام نے بھی کچھ سال پہلے ایسا ہی کیا اور اب کچھ ایسا ہی سلسلہ انڈیا میں شروع ہونے جارہا ہے کہ وہ اپنی نوجوان آبادی سے فائدہ اٹھائیں۔۔۔۔۔ اِس میں کافی حد تک کریڈٹ انڈیا کی حکومت کو بھی جاتا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے ٹرانسفر پر اِصرار کرتی ہے۔۔۔۔۔ جیسا ابھی حالیہ انڈیا کی حکومت کا اَیپل کمپنی سے مطالبہ تھا کہ اگر اپنے آئی فون یہاں پیچنے ہیں تو انڈیا میں آئی فون بنانے کی فیکٹری بھی لگائیں۔۔۔۔۔ اور ابھی جو امیریکہ چائنا کی تجارتی جنگ چل رہی ہے اگر یہ بڑھتی گئی تو اِس سے کافی فائدہ انڈیا اٹھا سکتا ہے۔۔۔۔۔
اور مَیں بہت حد تک سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے پاس بھی بڑی حد تک یہ ایڈوانٹج ہے۔۔۔۔۔ لیکن پاکستان کے معاملے بہت ساری اسٹرنگز اٹیچڈ ہیں۔۔۔۔۔ سیاسی ناہمواری سے لیکر حکومت تبدیل ہونے سے پالیسیوں کا یک دم تبدیل ہوجانا، پاکستان میں لو پَیڈ جاب سے شرم کے تصور کا منسلک ہونا، ٹیکنیکل اسکولوں کے بارے میں ہماری شہری آبادی کا تحقیر آمیز رویہ اور رہی سہی کسر مذہب اور اِس سے منسلک انتہاء پسندی نے پوری کردی ہے۔۔۔۔۔ آسیہ بی بی کے کیس نے پاکستان کا امیج بین الاقوامی سطح پر کس قدر خراب کیا ہے، آپ کو بھی علم ہوگا۔۔۔۔۔
سیاحت ایک بڑی انڈسٹری بن سکتی ہے لیکن اِس کیلئے آپ کو پہلے کافی سارے لوازمات کی ضرورت ہوگی۔۔۔۔۔ مٹیریلسٹک لوازمات جیسے کہ سڑکیں وغیرہ کو اگر چھوڑ بھی دیں تو کچھ نظریاتی لوازمات جیسا کہ شراب پر پابندی کا ہٹانا اور حدود آرڈیننس کو ختم کرنا ہے۔۔۔۔۔ لیکن کیا نیم مذہبی مسلم لیگی بھی اِس کیلئے تیار ہیں۔۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا۔۔۔۔۔
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
26 May, 2019 at 10:31 pm #108blacksheep You must learn to forgive!مَیں اکثر کوشش کرتا ہوں کہ روکو مت، جانے دو پر عمل کیا جائے۔۔۔۔۔
لیکن جب لَن ترانیاں حد سے بڑھنے لگتی ہیں تو مَیں پھر اِسی جملہ کو یوں پڑھتا ہوں کہ روکو، مت جانے دو۔۔۔۔۔
26 May, 2019 at 10:32 pm #109blacksheep You must learn to forgive!Did you forgive the Non-Believer?
- mood 1
- mood BlackSheep react this post
26 May, 2019 at 11:22 pm #110مفتاح اسماعیل نون لیگ کا وزیرِ خزانہ تھا۔۔۔۔۔Todays Devaluation of rupee v/s dollar is a good decision by Care taker Govt.. i accept that my evaluation of 115 rupee/dollar was wrong and real value of rupee is above 120… Miftah ismail pic.twitter.com/w5z8hYwiNX
— Shahzeb Khanzada (@shazbkhanzdaGEO) June 11, 2018
26 May, 2019 at 11:30 pm #111مفتاح اسماعیل نون لیگ کا وزیرِ خزانہ تھا۔۔۔۔۔قدر کرلیں ان لوگوں کی .
بیلیور جیسے معصوم بلاگرز نہ ہوں تو آپ جیسوں کی انا آسمان پر کس طرح جایے گی27 May, 2019 at 1:56 am #112قدر کرلیں ان لوگوں کی .بیلیور جیسے معصوم بلاگرز نہ ہوں تو آپ جیسوں کی انا آسمان پر کس طرح جایے گیکیوں آپ کہیں جارہے ہیں کیا؟
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
- mood 1
- mood SaleemRaza react this post
27 May, 2019 at 10:14 pm #113مَیں اِس نکتہ کو چائنا کے حوالے سے دیکھتا ہوں کہ چائنہ آخر دُنیا بھر کی فیکٹری کیسے بنا ہے۔۔۔۔۔ تیس سال پہلے چائنا کسی صورت جاپان جیسا انتہائی صنعتی ملک، یا جنوبی کوریا ذرا کم صنعتی ملک کے آس پاس بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ لیکن میرے خیال میں چائنا کے پاس ایک بہت بڑا ایڈوانٹج تھا۔۔۔۔۔ اُس کی آبادی، جو کہ کافی غریب بھی تھی۔۔۔۔۔ لیکن ایک کام چائنا کی حکومت نے کیا، ڈاکٹر محمد یونس کے الفاظ میں مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھانا، وہ یہ کہ بہت ہی بڑی تعداد میں ٹینیکل اور ووکیشنل اسکولوں کا قیام تھا۔۔۔۔۔ اور اُن ہی اسکولوں کی مدد سے آج چائنا کے پاس بہت ہی بڑی تعداد میں اسکلڈ ورک فورس ہے۔۔۔۔۔ اِن لوگوں کے پاس خود روزی کمانے کی اسکل ہے۔۔۔۔۔ ویت نام نے بھی کچھ سال پہلے ایسا ہی کیا اور اب کچھ ایسا ہی سلسلہ انڈیا میں شروع ہونے جارہا ہے کہ وہ اپنی نوجوان آبادی سے فائدہ اٹھائیں۔۔۔۔۔ اِس میں کافی حد تک کریڈٹ انڈیا کی حکومت کو بھی جاتا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے ٹرانسفر پر اِصرار کرتی ہے۔۔۔۔۔ جیسا ابھی حالیہ انڈیا کی حکومت کا اَیپل کمپنی سے مطالبہ تھا کہ اگر اپنے آئی فون یہاں پیچنے ہیں تو انڈیا میں آئی فون بنانے کی فیکٹری بھی لگائیں۔۔۔۔۔ اور ابھی جو امیریکہ چائنا کی تجارتی جنگ چل رہی ہے اگر یہ بڑھتی گئی تو اِس سے کافی فائدہ انڈیا اٹھا سکتا ہے۔۔۔۔۔ اور مَیں بہت حد تک سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے پاس بھی بڑی حد تک یہ ایڈوانٹج ہے۔۔۔۔۔ لیکن پاکستان کے معاملے بہت ساری اسٹرنگز اٹیچڈ ہیں۔۔۔۔۔ سیاسی ناہمواری سے لیکر حکومت تبدیل ہونے سے پالیسیوں کا یک دم تبدیل ہوجانا، پاکستان میں لو پَیڈ جاب سے شرم کے تصور کا منسلک ہونا، ٹیکنیکل اسکولوں کے بارے میں ہماری شہری آبادی کا تحقیر آمیز رویہ اور رہی سہی کسر مذہب اور اِس سے منسلک انتہاء پسندی نے پوری کردی ہے۔۔۔۔۔ آسیہ بی بی کے کیس نے پاکستان کا امیج بین الاقوامی سطح پر کس قدر خراب کیا ہے، آپ کو بھی علم ہوگا۔۔۔۔۔ سیاحت ایک بڑی انڈسٹری بن سکتی ہے لیکن اِس کیلئے آپ کو پہلے کافی سارے لوازمات کی ضرورت ہوگی۔۔۔۔۔ مٹیریلسٹک لوازمات جیسے کہ سڑکیں وغیرہ کو اگر چھوڑ بھی دیں تو کچھ نظریاتی لوازمات جیسا کہ شراب پر پابندی کا ہٹانا اور حدود آرڈیننس کو ختم کرنا ہے۔۔۔۔۔ لیکن کیا نیم مذہبی مسلم لیگی بھی اِس کیلئے تیار ہیں۔۔۔۔۔ مجھے نہیں لگتا۔۔۔۔۔I couldn`t agree more than what you have stated except removing public ban on Liquor due to religious and therefore political compulsions, not even Foujis can do it, however I can agree that govt should make it more available to bring prices down hh .. it is as freely available (in Lahore, dont know about other cities) as you would like it to be and for foreigners there is no restriction anyway. Pakistan needs 30 odd progressive years to reach half way of Turkish cultural levels.
You may dislike Sharifs but they were the right people to take Pakistan on that progressive path, better relations with India, cut in Defense Budget, Techonology Parks and now that enough electricity is available, production cycle could have started again and the gap in trade deficit could have been narrowed in three four years.
I genuninely believe that Sharifs have been removed for two reasons, refusal to allocate extra defense budget to make up the funds which Trump stopped for our Fouji Rental services and Foujis were genuinely concerned that the Choran they have been selling for so long that there is no development during political govts eras will no more be sellable, if the last Govt survived.
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.