- Gulraiz (18)
- EasyGo (16)
- BlackSheep (16)
- Qarar (12)
- SaleemRaza (10)
Forum Replies Created
-
AuthorPosts
-
19 Jan, 2017 at 8:07 am #21باوا جی – آداب پاکستان کی کون سی پارٹی ایسی ہے جو ٹکٹ کے پیسے نہی لیتے ؟ نون لیگ اور پیپلز پارٹی تو ٹکٹ کے پانچ کروڑ کے سے بھی زیادہ لیتے ہیں – جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم دو ایسی تنظیمیں ہیں جو پیسوں پر ٹکٹ نہی دیتے – دوسری بات جاوید ہاشمی کو یہ باتیں اب کیوں یاد آ رہی ہیں ؟؟ پہلے پی ٹی آی میں چنے لینے گئے تھے ؟
شامل صاحب، کہنے کو تو یہ معمولی سی بات لگتی ہے کہ ایم قیو ایم اپنے ارکان سے نہ صرف ٹکٹ کے پیسے نہیں لیتی تھی بلکہ انتخابی مہم پر بھی امید وار کا ڈھیلا خرچ نہیں آتا حقیقت میں یہ ایک غیر معمولی اور انقلابی روایات تھی جس کا تصور آج بھی ایم قیو ایم کے علاوہ ذہن میں آنا نا ممکن نظر آتا ہے اور اسی قسم کی انفرادیت اس کے زیر اعتاب آنے کی وجوہات میں شامل ہے
19 Jan, 2017 at 7:53 am #20کیا جاوید ہاشمی نے یہ بات ٢٠١٣ کے انتخابات کے حوالے سے کی ہے یا عمران خان نے کؤیی تازہ اپیل کی ہے؟ غالباً امکان یہی ہے کہ یہ ٢٠١٣ کی بات ہوگی جو ہاشمی صاحب کو اب یاد آرہی ہے؟
18 Jan, 2017 at 10:39 am #43دوسرے فورم سے اگر آپ کی مراد سیاست ڈاٹ پی کے ہے تو برا مت مانئے گا آپ لوگوں کی ہمت تھی جو وہاں تھے میرا گزر ہوا تھا ایک آدھ دفا تو قے کی حالت ہوگئی تھی پھر اس گلی میں جانا نہ ہوسکا. اس فورم سے خوف کھانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے کیوں کہ یہاں مسالہ تو فلحال ہے نہیں لہٰذا زیادہ ٹریفک کا امکان کم ہے کیوں کہ تعداد بڑھنے سے معیار برقرا رکھنا مشکل ہوجاتا ہے اپنے خیالات کو خوبصورت تحریر کا روپ دینے کی صلاحیت مجھے کم کم ہی نظر آتی ہے فیس بک پر اچھے خاصے پڑھے لکھے احباب وغیرہ بھی یا تو کسی اور کی تحریر آگے بڑھا دیتے ہیں یا ماشاللہ سبحان اللہ سے آگے نہیں جا پاتے باقی گالی گلوچ کے لئے تو کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی.باقی یہاں سلطان راہی والی بھڑکیں پڑھ کر ویسے ہی مسکراہٹ سی آگئی تھی
17 Jan, 2017 at 9:02 am #11گھوسٹ پروٹوکول بھائی میں کرکٹ کی زبان اور کھلاڑیوں سے ناواقف ہوں پتہ نہیں آپ نے “ان لائن بلوگگنگ کے سچن ٹنڈلکر” کہکر میری حوصلہ افزائی کی ہے یا لچ تلا ہے؟ ان لائن بلوگگنگ نے نہ صرف بہت ہی اچھے دوستوں سے متعارف کروایا ہے بلکہ دنیا کو ایک گلوبل ویلج بھی بنا دیا ہے. آپ اپنی مثال ہی لے لیں کہ ہم کس طرح ایک دوسرے سے آن لائن بلوگنگ سے متعارف ہوئے اور پھر کتنا قریبی تعلق نکل آیاباوا جی،توبہ توبہ میری یہ مجال کہ میں لچ تلوں وہ بھی آپ پر، میں دراصل پی کے پولیٹکس کی ایک سکرین شاٹ لوڈ کرنا چاہ رہا تھا مگر پکچر اپلوڈ نہیں ہوسکی ایک مرتبہ لوڈ ہہوگئی تو آپ کو سمجھ آجاے گا کہ میں نے آپ کو ٹنڈولکر سے کیوں تشبیہ دی تھی
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
15 Jan, 2017 at 10:27 pm #8والدین استاد ملاقات کے لئے جب بچوں کی نئی جماعت میں جیسے ہی قدم رکھا تو یہ دیکھ کر دم بخود رہ گیا کہ انٹرنس پر کینیڈا کے جھنڈے کا ڈور میٹ رکھا ہوا تھا جس پر قدم رکھتے ہے میرے قدم تو ڈگمگا گئے مگر جب اپنے سے پرانے “مہاجروں” کو ڈرھلے سے گھومتے دیکھا تو ہمت بندھی اندر کلاس روم کے درمیان میں پورے کینیڈا کے نقشہ پر مبنی ایک قالین بچھا ہوا تھا بچے اس پر آجا رہے تھے میں سوچ میں ہی پڑھ گیا کہ یہ کیسی قوم ہے جو اپنے جھنڈے اور نقشہ کی کویی عزت نہیں کررہی؟ یہی بچے بڑھے ہو کر کیا اپنے جھنڈے کی عزت کریں گے آخر ان کی “ویلیوز ” کیا ہیں ؟ تو اس کا واضح جواب کچھ روز قبل مل گیا ہوا یوں کہ کینیڈا کے وزیر اعظم نے اپنی زوجہ اور بچوں سمیت کچھ روز کی چھٹیاں لیں اور اپنے ایک ارب پتی دوست کے ای لینڈ پر گزارے اور اسکا ہیلی کوپٹر بھی استمعال کیا یہ خبر جب میڈیا پر آی تو بہت سارے لوگوں نے اس پر اعترازات اٹھانا شروع کردئیے کہ کیا وزیر اعظم کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ایک ذاتی دوست سے اس قسم کا فائدہ اٹھایں؟ کیا یہ معاملہ “مفادات کے ٹکراؤ” کا نہیں ہے اب سن نے میں آرہا ہے “مفادات کے ٹکراؤ” کا کمشن اس بات کا جائزہ لے گا کہ آیا وزیر اعظم نے کسی کوڈ کی خلاف ورزی تو نہیں کی؟ظاہر ہے پاکستان جیسے ممالک میں اول ذکر جیسا معاملہ ایک جذباتی شکل اختیار کرسکتا ہے مگر دوسرے معاملا پر بات کرنے کے لئے بھی کویی عقل اور دانشور فلحال تو تییار نہیں ہوگا
14 Jan, 2017 at 6:40 pm #6Itni geyaan ki baatien aap aksar is khoobsurti kay saath kartay hain tu kya yeh sense aapki kisi scholarly work say kam hay bro. Jitna acha sense of sarcasm aur humour aapka hay mainay buhut kam intelligent logun main daikha hay, to very frank be.باوا جی ان لائن بلوگگنگ کے سچن ٹنڈلکر ہیں
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
13 Jan, 2017 at 10:41 am #6وزیر اعظم کی کتاب کے جو صفحات موجود ہیں وہ بھی انکو اگر تختہ دار نہیں تو پابند سلاسل کرنے کے لئے کافی ہیں مگر شریف صاحب اپنے “صحافی ترجمانوں” کے ذرئیے قوم کو باور کرانے کی کوشش کرہے ہیں کہ میری جوانی کے گناہ معاف کرو اب مجھ میں اور میرے خیالات میں حقیقی تبدیلی آگئی ہے. میں ذاتی طور پر اس تبدیلی جس کی بہت بھاری قیمت قوم نے ادا کی ہے کو موقع دینے کہ حق میں ہوں کیوں کہ پیچھے ستر سالہ شیر خوار کچھ سیکھتا دھکائی نہیں دیتا
وزیراعظم نے کہا اُن کی زندگی کھلی کتاب ہے مگراسکے بعض صفحات غائب ہیں، سپریم کورٹ اسلام آباد: پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عوام سچ جاننا چاہتے ہیں لیکن دونوں فریق نہیں چاہتے کہ سچ سامنے آئے اس میں کبھی ایک رکاوٹ کھڑی کرتا ہے تو کبھی دوسرا جب کہ وزیراعظم نے کہا اُن کی زندگی کھلی کتاب ہے مگراس کے بعض صفحات غائب ہیں۔ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا، الزام میں کہاگیا کہ بیٹے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی، موقف اختیار کیاگیا کہ تحائف دینے والے کا ٹیکس نمبر موجود نہیں حالانکہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے اور عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے بھی عدالت میں تسلیم کیاکہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہیں۔ کہا گیا کہ وزیر اعظم اثاثے ظاہر نہ کرنے پر رکن پارلیمنٹ رہنے کے اہل نہیں رہے۔ وزیر اعظم کے وکیل نے ان کا قوم سے خطاب عدالت میں پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کا کسی آف شور کمپنی سے تعلق تھا اور نا ہے، نوازشریف کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں کوئی کمپنی نہیں، وہ کسی بھی آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر،شیئر ہولڈر یا بینیفشل بھی نہیں۔ درخواست گزاروں نے وزیر اعظم کی تقاریر میں تضاد کی بات کرکے ان کی نااہلی کی درخواست کی حالانکہ ان پٹیشنوں میں نوازشریف پر جھوٹ بولنے کا الزام ہی عائد نہیں کیا گیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے خود پر عائد الزامات کی درست وضاحت نہیں کی۔ نواز شریف نے تقریر میں کہا کہ ان کے والد نے بیرون ملک اسٹیل مل لگائی، انہوں نے اپنے خطاب میں بچوں سے متعلق کاروبار شروع کرنے کا نہیں کہا۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ جدہ فیکٹری کا سرمایہ بچوں نے کاروبار کے لئے استعمال کیا۔ https://www.express.pk/story/707438/13 Jan, 2017 at 10:04 am #24I am saddened to learn about this terrified news and pray for speedy recovery of both Atif and family.10 Jan, 2017 at 12:18 pm #10آپ لوگوں کو چھوٹے صوبوں کا بخار چڑھا ہوا ہے لیکن آبادی کے آدھے سے زیادہ حصّے کی کوئی پرواہ نہیں ، کیا آپ کو آجکل جو کچھ امریکہ میں ہو رہا ہے اس سے نہیں سیکھنا چاہیے ؟؟ جب اکثریتی ووٹ ایک لیڈر (صدارتی امیدوار) کو ووٹ دیتا ہے لیکن دوسرا امیدوار جو کہ کم قبول عام ہے وہ صدر بن جاتا ہے اس سے بڑی آبادی والے صوبوں (ریاستوں) میں بےچینی پیدا ہوئی ہے ، جہاں چھوٹے صوبوں کو مطمئن کرنا ہے وہاں بڑے صوبے کو بھی مطمئن کرنا ہے ، اگر کم آبادی والے بڑی آبادی کیخلاف قانون سازی کریں گے تو بڑی آبادی میں بے چینی کیوں نہ ہوگی ویسے امریکہ میں بھی دو ایوان ہیں سینیٹ متناسب نمائیندگی والا اور ہاؤس آف ریپریزنٹ ٹیٹو آبادی کے تناسب سے ، پاکستان میں بھی اگرچہ منی بل قومی اسمبلی میں پیش ہوتا ہے مگر سینیٹ کی منظوری کے بغیر پاس نہیں ہو سکتابھائی آپ تو چھوٹے صوبوں کو برابری کے حق دینے کے تصور سے ہی بے چین ہوگئے. اندازہ کریں کہ عملی طور پر یہ کتنا گھمبیر مسلہ ہوگا
10 Jan, 2017 at 11:30 am #12یہاں کینیڈا میں گورے اپنا سڑا ہوا سینڈوچ یا رات کا باسی پیزا کھاتے ہویے میرے لنچ کی طرف ندیدی نظروں سے دیکھتے ہیں اور جب میں یہ بتاتا ہوں کہ مجھے پتا ہی نہیں ہے کہ لنچ باکس میں کیا ہے تو حیران بھی ہوتے ہیں کہ کیوں بھائی کیا آنکھ بند کرکے لنچ پیک کیا تھا جب پتا چلتا ہے کہ زوجہ محترمہ نے لنچ باکس بنا کر پیک کیا تو ایک گورے نے بڑی حسرت سے کہا کے آخری دفا ١٧ سال قبل اسکی وائف نے کچھ بنایا تھا اس کے لئے تو اس نے کہا کہ ہنی تم زحمت نہ ہی کیا کرو .شروع میں میں یہ سوچتا تھا کہ شاید وہ میری قسمت پر رشک کرتے ہیں کچھ عرصہ میں احساس ہوا کہ وہ میری وائف کو میری ملازمہ سمجھتے ہے اس سے ہمددردی اور مجھے ظالم سمجھتے ہیں اور اپنے باسی لنچ پر جو وہ خود بناتے ہیں خوش ہیںپاکستانی معاشرے میں عورت نہ صرف بحیثیت بہو بلکہ ہر روپ میں چاہے وہ ماں ہو بہن ہو بیٹی ہو بیوی ہو مظلوم ہے بحیثیت ساس بھی اسکا احساس عدم تحفظ اسکو ظالم بن نے پر مجبور کردیتا ہے
10 Jan, 2017 at 11:07 am #11ایان چیپل اگر یہ کہ دیتا کہ پاکستان کی کرکٹ کو صحیح رخ دینے کے لئے میری مدد کی ضرورت ہے تو پارٹ وف سولیوشن بن سکتا تھا اور ایک آدھ سال میں ذلت کے ساتھ رخصت ہوتے ہویے اچھی خاصی رقم بھی کما سکتا تھا رہا پاکستان تو اسنے تو قسمت اور دعاؤں کے سہارے ہی کھیلنا ہے کرلو جو کرنا ہے
10 Jan, 2017 at 10:51 am #7گھوسٹ پروٹوکول صاحب ……میری اپنی نظر میں تو پارلیمانی نظام پاکستان کے لیے اچھا ہے ہی نہیں ……بلکہ یہ جو نظام ہے وہ بھی دوسرے ممالک سے ادھار لی گے چیزوں پر مشتمل ہے ….برطانیہ میں دارالعوام اور وزیراعظم ہے تو ہمارے پاس بھی ہے …امریکی سینیٹ میں ریاستوں میں برابری کی بنیاد پر دو سینیٹر لیے جاتے ہیں اور ان کا صدر ہے تو ہمارے ہاں ہر صوبے سے بیس بیس سینیٹر ہیں اور ایک صدر ہے ………لیکن اس سینیٹ کا کیا فائدہ اگر اسے مالی معاملات پر اختیار نہیں ….بلکہ اس کی پاس کردہ قراردادیں ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے برابر ہیں کیونکہ بائنڈنگ نہیں ….آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ موجودہ ہیت میں سینیٹ جیسا بیکار ادارہ کوئی نہیں دوسری بات …صدارتی نظام میں گورنر ہوتا ہے اور پارلیمانی میں وزیراعلی…ہمارے ہاں ماشاللہ دونوں ہیں ….جو کام گورنر کرتا ہے …یعنی کسی پاس کردہ قانون پر مہر لگانا …تو یہ کام تو ایک سیکشن افسر یا اسمبلی کا سیکرٹری بھی کر سکتا ہے ….آپ لاہور میں گورنر ہاؤس دیکھیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی …لیکن یہ صرف ایک سفید ہاتھی ہے جسے ٹیکس دہندگان اپنے پیسوں سے پال رہے ہیں امریکا کا صدر باہر سفر کرتا ہے تو کسی کو قائم مقام صدر نہیں بنایا جاتا …صدر یا وزیراعظم ہر وقت اپنے عھدے پر قائم ہوتے ہیں …مجھے تو یہ قائم مقام والا آئیڈیا ویسے ہی پسند نہیں …یہ اسی صوررت ٹھیک ہے جب تک کہ ایک بندہ حادثے کی صورت میں ذمہ داری ادا کرنے کے قابل نہ رہے میری نظر میں تو پاکستان میں صدارتی نظام زیادہ مفید ہوگا ..جہاں ایک صدر ہو اور ایک اسمبلی ہو …تصور کریں کہ نواز شریف …بلاول …عمران خان …الطاف حسین …سراج الحق …فضل الرحمن وغیرہ صدارتی الیکشن میں ایک دوسرے کے مقابل ہوں …اور پھر پچاس فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکنے پر پہلے دو امیدواروں کے درمیان رن آف الیکشن ہو …..اسی طرح سب صوبوں میں براہ راست گورنر کے الیکشن ہوں ……بلدیاتی اداروں میں میئر اور ناظم کا الیکشن براہ راست ہو ….مثال کے طور پر لاہور میں کسی للو پنجو کو میئر نامزد نہ کیا جائے بلکہ ہر پارٹی اپنا بہترین امیدوار لوگوں کے سامنے لائے اگر دوسرے ملکوں سے کوئی چیز کاپی کرنی ہی ہے تو امریکا کی طرح پارلیمنٹ سے وزراء نہ لیے جائیں بلکہ تجربہ کار لوگ جو ممبر نہ ہوں ان کو وزراء نامزد کیا جائے اور ان کے تجربے پر بحث ہو …ان کا سر عام پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی کے سامنے جاب انٹرویو ہو …. اور ان کی فائنل منظوری پارلیمنٹ سے لی جائے ….اسمبلی کا کام قانون سازی ہونا چایئے نہ کہ وزارت کے مزے لوٹنا یا سڑکیں نالیاں بنوانا ڈویژن کی بنیاد پر صوبے بنانا ایک ایسی تجویز ہیں جس کی حمایت نون لیگ بھی کرچکی ہے …پنجاب پہل کرے تو سندھ بھی تقسیم پر راضی ہوجائے گاقرار صاحب آپ کی باتوں میں مجھے بہت وزن محسوس ہوتا ہے اس قسم کی ریسترچترنگ صرف حقیقی عوامی قیادت جس کو عوام کا درد بھی ہو اور مستقبل بین بھی ہو، ہی کرسکتی ہے پاکستان ایسی قیادت سے کم سے کم ٢-٣ انتخابات دور ہے اگر فوجیوں کو وطن کے درد کا مروڑ اگل پندرہ بیس سال تک قابو میں رہے تو ایسی قیادت کا حصول بلکل ممکن ہے
10 Jan, 2017 at 10:36 am #6سینیٹ ایک بہت اہم ادارہ ہے یہ صوبوں میں عدم توازن کو کنڑول کرنے کے لئے انتہائی موثر ہے میرے خیال میں اسے مزید موثر بنانے کے لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلانے کی روایت ختم کی جانی چاہیے اس سے سینیٹ کی اہمیت کم ہو جاتی ہے مثال کے طور پر حکومت جو کہ قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت رکھتی ہے لیکن سینیٹ میں اقلیت میں ہے اس لئے باوجود کوشش کے وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلانے کے بغیر قانون سازی نہیں کر سکتی یا پھر سینیٹ میں موجود چھوٹے صوبوں کے نمائیندوں تحفظات دور کرکے ان کے لئے قابل قبول قانون سازی کریں ، پھر سینیٹ کے ذریعے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کو بھی وفاقی سطح پر ہونے والی قانون سازی میں اپنے منتخب نمائیندوں کے ذریعے حصّہ دار بن جاتے ہیں ، اسی لئے میری تجویز ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلانے کی روایت ختم کی جانی چاہیے یا پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ووٹنگ کے لئے متناسب نمائیندگی کا اصول اپنایا جائے اس طرح کسی کو صوبائیت کا کارڈ کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا صدر اور صوبائی گورنرز کے اختیارات میں کچھ اضافہ کرنا چاہئے انہیں بلکل مٹی کے مادھو نہیں بنانا چاہیے تاکہ انکے ذریعے وفاق اپنی ہدایات/گزارشات/تحفظات/مشورے صوبوں کو پہنچا سکیں لیکن یہ اختیارات اس قدر نہیں ہونے چاہییں کہ صوبائی حکومت کی خود مختاری کو چیلنج کرنا شروع کر دیں بڑی آبادی والے صوبوں کی نشستیں کم کرنے سے انکے انتخابی حلقے بہت بڑے ہو جائیں گے جبکہ میرے نزدیک یہ حلقے اب بھی بہت بڑے ہیں جسکی وجہ سے اوسط آمدنی والے لوگ تو الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے البتہ حلقہ بندی میں رقبے کو بھی اہمیت دے کر کم آبادی والے صوبوں کو مطمئن کیا جا سکتا ہےراشد صاحب آپ کے چند نکات تو میری باوا جی کے جواب میں کوور ہوگئے ہیں رہی بات کہ پہلے ہی حلقہ جات بہت بڑے ہیں تو مزید بڑے ہوجاییں گے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے جیسا کہ قرار صاحب نے فرمایا ہے کہ قومی اسسمبلی کے ارکان کی بنیادی ذمہ داری قانون سازی ہے نہ کہ سڑکیں یا گٹر کے ڈھکن لگوانا. اکیسویں صدی میں انیسویں صدی کی سوچ سے باہر نکلنا پڑےگا حکومتوں کو lean، efficient اور زیادہ effective ہونا پڑے گا
10 Jan, 2017 at 10:22 am #5اوا جی، صدر اور گورنر کے لئے ہیڈ وف اسٹیٹ اور ربڑ سٹیمپ سے زیادہ کی جسٹفکشن ہونی چاہیے اس کام کے لئے قوم کا قیمتی سرمایا کا ضیا نہایت افسوس ناک ہے مجھے خوشی ہے کہ درج بالا سے زاید آپ نے کویی ایسی افادیت نہیں گنوائی جو کہ نا گزیر ہو. ہیڈ وف اسٹیٹ یا ہیڈ وف پراونس ہونے کا اختیار صرف منتخب نمایندوں کو ہونا چاہئے اور ان ہی کا احتساب ہونا چاہیے.قانون سازی کے قومی اسمبلی کے ارکان قانونی ماہرین سے مدد حاصل کرسکتے ہیں اور منتخب حکومت کو حق حاصل ہونا چاہیے کہ جو قانون وہ مناسب سمجھے بناے یا ترمیم کرے کیوں کہ اسکا احتساب ہوگا. سینیٹ جو کہ خود ایک نامزد ادارہ ہے کا منتخب اسمبلی پر چیک اینڈ بیلنس کا کردار بذات خود ایک سوالیہ نشان ہےاب آجائیے صوبوں کے برابری کی نمایندگی والی بات تو اسکا ھل میرے تیسرے نقطہ میں تھا جس کے تحت قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد چاروں صوبوں میں یکساں کردی جائے دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ اسکا ایک فائدہ صوبائی مفادات کا تحفظ بھی ہے.تیسرا نقطہ قومی اسسمبلی کی نشستوں کی صوبوں میں یکساں تقسیم کی تجویز ہے آپ نے فرمایا کہ یہ مناسب نہیں ہے مگر کیوں نہیں ہے اس کی زیادہ وضاحت نہیں کی موجودہ نظام کے تحت چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی ہے مثال کے طور پر اگر بلوچستان کے سو فیصدی ارکان بھی کسی ایک شخص کی حمایت کریں تو وہ ساری امر بھی وفاق کا سربراہ نہیں بن سکتا مجودہ نظام کے تحت چھوٹے صوبوں کی پاکستان میں شمولیت برقرار رکھنے کا کیا انسینٹو ہے؟آپ اندازہ کریں اگر ہر صوبے کا وزن برابر ہوگیا تو صوبائیت کا تقریباً خاتمہ ہوجاے گا. نواز شریف کے لئے دوسرے صوبوں کے عوام بھی اتنا ہی اہم ہونگے جتنا پنجاب کے عوام. عمران خان کو راک ستارہ کی طرح صرف کنسرٹ کے لئے سندھ کا دورہ کرنے کے بجاے وہاں کے عوام کی حمایت کے لئے حقیقی کوشش کرنا پڑے گی.صوبوں کی تقسیم میرے خیال میں مسلہ کا ھل نہیں ہے پاکستان کثیرالسانی ملک ہے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اسمیں شرمندہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے مضبوط وفاق کے لئے اکائیوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے اور صوبوں کے مجموی سوچ میں سب سے زیادہ عمل دخل میری ناقص راے میں لسانی اکائی کا تعلق سب سے زیادہ ہے لےہذا آپ پنجاب کے ٤ حصّہ کردیں تو نواز شریف فیملی کے چار مزید افراد وزرا علی بن جاہیں گے یہی حال کے پی کے سندھ شہری یا سندھ دیہی کا ہوگا لےہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر صوبوں کے عوام کا مرکزی حکومت کی تشکیل اور امور مملکت میں انکا حصہ بڑھایا جائے9 Jan, 2017 at 12:46 am #6I just watched a series on future Robespierre development. Its mind boggling. With all the doubts in mind, facts are planet earth houses and feeds more people in known history. Average life expectancy is increasing. For 50 years, humans have developed capabilities to destroy planet multiple times but dint. Lethality and precision of conventional, nuclear,biological and chemical weapons have grown out of proportions but despite of massive conflicts, we have not witnessed use of them except one occasion which keep reminding about nuclear holocaust.That shows that counter forces also acting. I hope, in future human’s would be able to come out of fear of survival instinct instead develop mutual survival instinct as single human race.8 Jan, 2017 at 11:47 pm #12جی پی صاحب ..میں آپ سمیت اور امتیاز احمد صاحب اور کچھ دیگر حضرات کو پی ایم بھیجنا چاہ رہا تھا مگر شاید یہ سہولت اس ویب سائٹ میں موجود نہیں …اسلئے مین فورم میں میسج کرنا پڑا ..لیکن پیغام سب کے لیے تھا :-)جی شکریہ قرار صاھب. گھر والوں کو دعوت نامہ تھوڑی دینا پڑتا ہے
8 Jan, 2017 at 11:25 pm #7کیا چلی کی ہوائیا بھی ہماری جیسی ہے اتنا ہلکا جہاز کو بھی انٹرسپٹ نہیں کرسکے؟8 Jan, 2017 at 11:19 pm #10گھوسٹ پروٹوکول بھائی السلام و علیکم اور فورم پر خوش آمدید یقین کریں ابھی آپکو اور ڈسکی بھائی کو فون کرکے یہاں آنے کی دعوت دینے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا تاکہ ایم کیو ایم کا نقطۂ نظر بھی سامنے آتا رہے اگر ممکن ہو تو گلریز بھائی کو بھی یہیں بلا لیں. انکے مزاحیہ کومنٹس کے بغیر مزہ نہیں آئے گاشکریہ باوا جی، اس فورم کا تزکرہ قرار صاحب نے کیا تھا دو چار روز قبل. انوہن نے شیرازی صاحب کو دعوت نامہ پیش کیا تو ہم بن بلاے آ گئے. پرانے دوستوں کو پاکر خوشی تو ہورہی ہے. ڈسکی بھائی تو بہت مصروف ہیں گلریز بھائی سے میرا کویی رابطہ نہیں ہے. اگلے سال انتخابات کی وجہ سے امید ہے رونق میلہ لگا رہے گا
7 Jan, 2017 at 11:20 pm #3Arguably Stephen Hawkings is the most brilliant mind since Albert Einstein. The concerns he raised are very grave. The automation has squeezed many blue color jobs. The progress in Artificial Intelligence will do the same with white collar jobs. We the humans are clipping the tree that we are sitting on.Shirazi Bhai,In the heartless and profit driven corporate world of capitalism, white collar’s think that they are indispensable. The immense pleasure that a manager feel when he cuts man power using automation is unbelievable. I witness this on daily basis, its matter of time when technology will render these white collar elephants redundant.
-
AuthorPosts