Viewing 20 posts - 41 through 60 (of 86 total)
  • Author
    Posts
  • casanova
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #41

    بھائی جی

    مردانہ فن ہو یا زنانہ ڈھلوانی تغیرات، تحقیق، جستجو اور مشق جاری و ساری رہنی چاہیئے. جس کا فن بلند ہوا وہ ہی اصل فنکار کہلایا. فن ہے تو مونو بھی ہے پولی بھی ہے اور ساتھ میں گیمی بھی ہو گی

    لگتا ہے اس سارے تھریڈ کا مقصد بھی مردانہ فن کی تسکینِ وفا کیلئے بہانے تراشنا ہے۔ایک دفعہ ایک لوکل سیکس گرو سے جنسی کاشت کاری کے مروجہ اصولوں پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے فرمایا  کہ عموما اس کا سیزن بلوغت کی انگڑایوں سے شروع ہو کر گوڈے گِٹّوں کی بے اعتناعی تک جاری رہتا ہے۔ اور اس کی زرخیزی کا درومدار صحمتمند ڈھانچے اور مخلاف صنف  کیلئے باتد بیر سانچے بنانے پر ہے۔  اس میدان کا سلطان بھی ہزار صراحیوں کو لبریز کرنے کے باوجود اپنے جبلی ہارمونز سے مغلوب ہو کر “دل مانگ مور” کی صدا لگا رہا ہوتا ہے۔ ہاں جب اپنی جسمانی و طبعی مستیوں کا عہد گزارنے کے بعد وہ فنی جمود کا شکار ہوتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ کبھی  ایسا بھی وحشتوں کا سفر تھا جب بچھی زمین پر گھوڑے دوڑاتے صبح کو شام کرتے تھے۔لیکن اب وہ اپنی طبعی محدودیت پر بھی خود کو شانت پاتا ہے کیونکہ یہ سب جذبے انسان کو مسیر ماحول، اتھرے مزاج، نازنیون کو لبھانے کے انداز، اور پہلوانی خوراک سے مہمیز ہوتے ہیں۔ سیکس گرو فرماتے تھے کہ انہوں نے نو سال کی عمر میں اپنے گھوڑے کی مالش شروع کرکے وفاؤں کی تلاش شروع کر دی تھی، پھر جوں جوں تجربہ بڑھتا رہتا ہے، شکار کو ڈھیر کرنے کی ایک خاص ترکیبِ دلربائی بھی پنپتی رہتی ہے۔ سو یہ کہانی ہر نفس کو میسر گردشِ روانی پر ہی منحصر ہوتی ہے۔

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #42
    ذاتی طور پر میں مونوگیمی کو فطرت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ انسان کی فطرت ہے جو ھل من مزید کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ ایک ہی بچہ پیدا کرکے خوش رہتے۔ ہم ایک لباس ساری زندگی نہیں پہن سکتے، ایک گاڑی کے ساتھ ساری زندگی گذارا نہیں کرسکتے، ایک دوست رکھ کر زندگی انجوائے نہیں کرسکتے لیکن خود کو مجبور کرتے ہیں کہ کسی ایک ہی پارٹنر کے ساتھ اتنی لمبی زندگی گذار دیں۔ مذہبی معاشرتی پابندیاں اپنی جگہ لیکن فطری طور پر انسان تنوع پسند ہے۔ الحمداللہ خاکسار نے زندگی فطرت کے اصولوں کے مطابق گذارنے کی کوشش کی ہے بجائے مذہبی یا معاشرتی طریقوں کے اور یہی وجہ ہے اس خادم کی خاب ژوند (میٹھی زندگی) گذارنے کی

    میری فکر کے مطابق اب تک کا واحد سچ

    لیکن مطلع و مقطع میں صنفی امتیاز کی سخن گسترانہ بات آن پڑتی ہے

    اس کا علاج بھی ہے کوئی اے چارہ گراں؟؟

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #43
    بڑا وکھرا اور اتھرا ٹاپک ہے۔ اس ٹاپک پر اپنے حصے کا پٹرول چھڑکتے ہوئے اتنا عرض کروں گا کہ اگر مردانہ فطرت کی “نیچرل سیلیکشن”کا سائینٹیفک سراغ لگایا جایا تو یہ جبلی و سفلی طور پرہُلڑ گیمی کو ترجیح کرتی ہیں۔ جب پیٹ کی آگ بجھی ہو، مادیت کی بساط بچھی ہو تو پھر واسنا کی اگنی اپنی تسکین کی تلاش میں تکیے کو بھی سنی لیونے بنا لیتی ہیں۔ چونکہ تھریڈ کے بیانئیے میں مردانہ وفائیں جنسی تسکین کے ساتھ ہی مربوط و مشروط ہیں تو یہ تحقیقی چسکا تو دھاگہ کی ڈوری سےچپکا رہے گا۔ میں صرف ٹاپک کی حاشیہ گری میں مزید انجکشن لگاتے ہوئے یہی کہوں گا کہ جنسی تسکین کی تلاش تو مردانہ “فن”کے اتھرےپن کے آغاز سے شروع ہو جاتی ہے اور جب تک یہ اپنی شہوانی و فسطائی منزلیں طے کرتا ہوا گچھو مچھو ہوکے لینڈ نہیں کر جاتا اس طرح کے موضوعات سے دل لگی جاری رہتی ہے۔اور اس دورانیہ میں مردانہ جبلت کی سروائیول کیلئے ہر طرح کے تخلیقی و عملی تجربات سے بالغانہ شغل جاری رہتا ہے۔جبکہ وفا ایک خالصتا رومانی تصور کے ساتھ دل کی سچائی کو ٹٹولنے کا نام ہے۔ یہ اپنی فطرت میں گیمی لیس ہوتی ہے۔ بعض اوقات عمر بھر ایک بت سے دل آباد رہتا ہے اور بعض دفعہ کئی چہروں سے انسیت بھی تشنگی نہیں مٹا پاتی اورنتیجتا جذبوں کی آگ ایک معصوم کو “قیسانووا” بنا کر افسانے بنا دیتی ہے۔

    کیا انشاپردازی ہے یار اور اسی قدر دانش بھی، سمجھ نہی آ رہی تھی کہ لائک وال کلک بنتا ہے یا تھینکس والا، اس لئے سوچا لکھ کر ہی خراج پیش کر دیتا ہوں

    پرانے فورم پر ایک مِتر ہوتے تھے میکبتھ، وہ بھی انشائیے کا کچھ ایسا ہی مزاج رکھتے تھے لیکن دانائی میں ایک آنچ کی کسر تھی، یا پھر آپ وہی ہیں اور پچھلے 2-3 سالوں میں ہنر کو اور سیقل کر لیا ہے

    بہرحال جو بھی ہے خوب ہے، ان فورموں کی بس یہی ایک افادیت ہے کہ کبھی کبھی آپ کسی جن سے ٹکرا جاتے ہیں ورنہ جتنا وقت ان پر ضائع ہوتا ہے اکثر خود پر لعن طعن میں ہی گذرتا ہے، اپ سے مل کے خوشی ہوئی بھائی صاحب

    موضوع پر آپ کے خیالات کے ساتھ مجھے بس ایک ہی مسئلہ ہوا یعنی وہی مردانہ عینک والا

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #44

    معاشرہ، مذہب، عمر ، زمانہ، معاشی اور سماجی قیود ، جسمانی ، ذہنی، روحانی اور قلبی ضرورتیں اور کیفیات . محبت ، عشق ، رشتہ اور پھر فطرت جیسے بہت سے عوامل ہیں جو ہمارے مختلف روئیوں کا سبب بنتے ہیں

    کبھی تسخیر کی جستجو ہوتی ہے تو کبھی قبولیت کی خواہش، کہیں جسمانی ضرورت اپنا اسیر بنا لیتی ہے تو کہیں روحانی اور قلبی کیفیت پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں .

    جسمانی ضرورت پوری کرنے کو کئی ساماں ہیں مگر قلبی اور روحانی ضرورت شاید اتنی آسانی سے پوری نہیں ہوتی ہے. ذہنی ہم آہنگی، برداشت ، کچھ پانے کے لئے کچھ دینے پر آمادگی ، قربانی اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ اکثر ایک ہی شخص سے مل پاتا ہے

    میرے نزدیک منافقت بھی ایک عنصر ہے. میری ذاتی خواہش تو یہ ہے کے ہر صنف مخالف سے قربت ہو مگر میں اپنے حوالے سے کسی اور خاتون کو ایسی آزادی دینے کا روادار نہیں ہوں. میں تو منافق ہوں مگر کتنے اور ہیں جو اپنی مردانگی پر تو فخر کرتے ہیں مگر شاید یہی حق کسی اور کو نہ دے سکیں

    مغربی معاشروں میں چاہے ہم اچھا سمجھیں یا برا ، “عزت” کا تعلق عورت کے حوالے سے کافی کم ہو چکا ہے لہٰذا وہاں اکثر تعلقات مختلف لوگوں سے ہوتے ہیں مگر جب تک تعلقات ہوتے ہیں اکثر دونوں فریق ایک دوسرے کو کسی اور کی آغوش میں یا کس دوسرے کی خواہش رکھنے کو قبول نہیں کرتے

    جسمانی اور ذہنی ضروریات سے دور کہیں پختہ بھروسہ، اعتماد، ہم آہنگی اور عشق اکثر ایک سے ہی رشتہ میں ہی ملتا ہے

    بہت اچھے بھائی صاحب

    واقعتاً یہ اکثر ایک ہی شخص سے مل جاتا ہےسب کچھ؟

    اب اگر اس سارے غوروفکر کو ایک دو جملوں میں نچوڑ دیں تو؟؟؟

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #45
    گلٹی بھائی، یہ کونسے اخباروں میں وسیم اکرم اور ٹرمپ کی بیوی کے انٹرویو چھپ رہے ہیں یہاں لنک بھی پوسٹ کریں

    پروٹوکول ۔۔۔۔۔

    وسیم اکرم ۔۔۔۔ ٹرمپ کی بیوی ۔۔۔۔۔ کے انٹرویو تو اتنے نہیں چھپے ۔۔۔۔ لیکن میں نے ان کی سٹوریوں ۔   آنیوں ۔ جانیوں ۔۔ بیا نیوں  سے  مشا ھدات  کو تحریر کررھا ہوں ۔۔۔۔

    لیکن یہ سب کچھ حقائق پر مبنی  ۔۔۔۔ حالات وا قعات ۔۔۔۔ کے مشا ھدات ہیں ۔۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #46
    ڈھیر مہربانی گلٹی صاحب بڑا پینورامک ویو دیا ہے آپ نے، گو کہ آپ نے بھی مسئلے کو زیادہ تر ایک مرد کی عینک سے ہی دیکھا ہے، جب کہ میرا مطمعءنظر ہے کہ ہم اس کو صنفی امتیاز سے ماورا ہو کر دیکھیں منافقت کی ایک تعریف یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ کی فطرت کچھ چاہتی ہے اور معاشرہ آپ کو کچھ اور طرح کے رویوں اور اعمال پر مجبور کرتا ہے اس تھریڈ میں مَیں یہی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہ سب پابندیاں قانون اور معاشرے کی اس سلسلے میں کتنی مؤثر ثابت ہوئی ہیں اور انسانی فطرت نے ہزارہا سال میں ان کو کتنا قبول کیا ہے اور وہ کتنا س کے ڈی این اے کا حصہ بن پائی ہیں یہاں میں سب فاضل ممبران کی توجہ کیلئے ایک اور سوال اٹھاتا ہوں، انسانی جبلتوں کا ارتقائی سفر بہت مشکل ہے، ان میں سے زیادہ تر اس سفر پر نکلنے سے انکار کرتی ہیں اور اُن میں سے بھی جو مضبوط تر ہیں، ان میں بالکل ارتقاء نہیں ہوا ہے، کیا ساتھی چننے کی جبلت بھی انہی میں سے ایک نہیں ہے؟؟

    میں نے پہلے ہی لکھا ہے ۔۔۔ آپ کے ٹاپک کے لیے الگ الگ بہت سے جوابات درکار ہیں ۔۔۔۔۔ یہ ایک کامنٹ میں لکھنے والا ٹاپک نہیں ۔۔۔۔

    ابھی جیسے میں  نے ۔۔۔۔ ایک پا کستانی مرد کی صرف ایک مشاھدے کو بیان کیا ہے ۔۔۔ اسی طرح اور بھی مشاھدات ہیں ۔۔۔ مثا ل کے طور پر ۔۔۔۔۔۔

    ۔ ابھی اسی طرح میں نے ایک باپ کو بچوں کی موجودگی میں ۔۔ بیوی کے ساتھ سونے کے لیئے ٹرپتے دیکھا ہے ۔۔۔ اتنا بڑا ٹبر کہ اس کو ۔۔۔ بیوی کے ساتھ موقع ہی نہ ملتا تھا ۔۔۔

    بے چارہ سلگتا رھتا تھا ۔۔۔۔ اس کے رحجان ۔۔۔ کو کیسے بیان کیا جائے گا ۔۔۔ جس کے چارپانچ مسہریوں   والے بڑے کشادہ کمرے میں جوان بیٹی آکر سو جاتی تھی ۔۔۔ اورماں  با پ الگ الگ مسہریوں پر پرسٹیاں مارتے رھتے تھے ۔۔۔۔۔۔

    ۔۔۔۔ اسی طرح ۔۔۔ عورتوں اور لڑکیوں کے رحجانات کے بھی مشاھدات ہیں جو الگ سے بیان کیئے جا سکتے ہیں ۔

    ۔۔ مثال کے طورپر گوری لڑکیوں عورتوں  اور لڑکوں مردوں  کے رحجانات ۔۔۔ کس طرح کے ہیں اور ایک پٹھان قید لڑکی کے رحجانا ت کیسے ہیں۔۔

    اور اسی طریقے ۔۔۔۔ مختلف ۔۔۔ معاشروں ۔۔۔۔ ملکوں ۔۔۔۔۔ کلچروں ۔۔۔۔۔ کے مردوں اور عورتوں کے بھی ۔۔۔ رحجانات ۔۔۔۔اور ان کے احوال بھی الگ الگ بیان کیئے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔

    آپ نے ساتھ چننے والا نیا کٹھہ کھول دیا ہے ۔۔۔۔۔ اس پر الگ سے ۔۔۔۔ مشاھدات بیان کیئے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #47
    اتھرا صاحب ایک اچھا موضوح شرو ع کرنے کا شکریہ – سہیل اعجاز مرزا صاحب یاد آ رہے ہیں انہوں نے دو شادیاں کر رکھی ہے وہ اچھا کوممنٹ کرتے – یہ مرد کی فطرت ہے کہ اسے ایک سے زیادہ میٹ کا شوق ہوتا ہے مگر آج کل کے حالات میں دو بیویاں رکھنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے نہ آپ دو کا خرچہ پورا کر سکتے ہیں اور نہ روز روز کی لڑائیاں سلجھا سکتے ہے – عورت کی فطرت ہے کہ وہ اپنے خاوند کو کسی طرح بھی صورت میں کسی کے ساتھ شریک کرنا پسند نہیں کرتی اور یوں آج نہیں تو کل یہ تنازھے کی شکل اختیار کرنا ہی ہوتا ہے –

    اَتھرا

    Sohail Ejaz Mirza

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #48
    یہ مرد کی فطرت ہے کہ اسے ایک سے زیادہ میٹ کا شوق ہوتا ہے

    اعوان۔۔۔۔۔

    سُرخ زدہ کئے لفظ سے کیا آپ کی مُراد کچا گوشت ہے۔۔۔۔۔

    :thinking:   :cwl:   :thinking:

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #49
    میری فکر کے مطابق اب تک کا واحد سچ لیکن مطلع و مقطع میں صنفی امتیاز کی سخن گسترانہ بات آن پڑتی ہے اس کا علاج بھی ہے کوئی اے چارہ گراں؟؟

    پسندیدگی کیلئے شکریہ بھائی۔

    یہ جو صنفی امتیاز کی رکاوٹ ہے کیا یہ مذہبی اور معاشرتی قیود کی وجہ سے وجود میں نہیں آئی؟؟

    میں نے اسی لئے انسانی فطرت کا ذکر کیا مردانہ فطرت کا نہیں۔

    سننے پڑھنے میں یہ بات بہت معیوب لگتی ہے لیکن کیا صنف نازک کو میری طرح سوچنے کا حق نہیں؟؟ اگر مجھے اپنی مرضی کی زندگی گذارنے کا حق ہے تو مجھ سے واپستہ خواتین کو بھی، چاہے ان سے کوئی بھی رشتہ ہو۔

    اگر میری پارٹنر، بہن، بیٹی یا گرل فرینڈ اسی طرح تنوع پسند ہو تو انسانی فطرت کے مطابق وہ بالکل درست ہے، مجھے یا کسی مرد کو کیا حق کہ وہ اس پر تنقید کرے؟؟ اگر مردوں کی طرح عورتوں کی چار شادیاں بھی اسلام میں جائز ہوتیں تو کیا تب بھی ہمارا یہی رویہ ہوتا؟؟ مان لیجئے ہم مذہب یا معاشرے کی وجہ سے اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں۔

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #50

    اگر مردوں کی طرح عورتوں کی چار شادیاں بھی اسلام میں جائز ہوتیں تو کیا تب بھی ہمارا یہی رویہ ہوتا؟؟ مان لیجئے ہم مذہب یا معاشرے کی وجہ سے اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں۔

    مردوں کی طرح عورتوں میں بھی ۔۔۔۔ رحجان یا سیکس ۔۔۔۔ خواہش تقریباً اسی طرح پا یا جاتا ہے ۔۔۔۔۔

    اور کچھ کچھ عورتوں میں ۔۔۔ مردوں سے بھی زیادہ ۔۔۔ آگ لگی دیکھی گئی ہے ۔۔۔۔ تاھم بے شمار عورتوں کو چالیس سال کی عمر کے بعد ۔۔۔۔  بہت ہی ٹھنڈے حالات میں دیکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔

    ایک برٹش گوری نوجوان لڑکی کا ۔۔۔ دو مہینے پہلے ۔۔۔۔ ٹی وی انٹرویو دیکھا ۔۔۔۔ اس نے بتا یا کہ ۔۔۔۔ اس کو ایک دن میں چار مرتبہ سیکس کرنا بھی کم رھتا تھا ۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اوور آل ۔۔۔۔۔ مردوں کی اکثریت ۔۔۔ عورتوں کی اکثریت سے زیادہ سیکس ضرورت رکھتی ہے ۔۔۔۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مرد کو ٹی وی فلم میڈیا سے ۔۔۔۔ پرووکنگ بھی ملتی ہے

    جبکہ عورتوں کو ۔۔۔ میڈیا ٹی وی اشتہارات میں سیکسی  ترغیب  نہیں ملتی ہے ۔۔۔ ان کا معاملہ ٹھنڈا رھتا ہے ۔۔۔۔۔ جبکہ مرد کو ۔۔۔ شاپنگ مال سے لیکر گھر کی سکرین تک ۔۔۔ سیکس کے جھٹکے  بوچھاڑ کرتے رھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

    جہاں تک اسلام میں ۔۔۔ چار شادیوں والی بات ہے ۔۔۔۔ میرے خیال کے مطابق بے شک مردوں ۔۔۔ عورتوں میں ۔۔۔۔ خیالات و خواہشات یکساں ہی ہوتی ہیں ۔۔۔۔ لیکن مردوں کا ۔۔۔ انجن زیادہ ھارس پاور کا ہونے کی وجہ سے ۔۔۔ چار شادیوں کا کہا گیا ہے ۔۔۔۔

    کیونکہ اس کی دوسری وجوھات بھی نظر آتی ہیں ۔۔۔۔  انسانی تاریخ بتا تی ہے ۔۔۔۔۔ مردوں کے لیئے ۔۔۔ ھر معاشرے میں ۔۔۔ جسم فروش عورتوں کے بازار لگائے گئے ۔۔۔۔ عورتوں کے لیئے ایسے بازار کبھی بھی نہیں لگے ۔۔

    جس سے یہ بات نظر آتی ہے کہ مرد چاھے ایشیا کا ہو ۔۔۔۔ امریکہ ۔۔۔ عرب ۔۔۔ کا ۔۔۔۔ اس کا انجن ۔۔۔۔۔ عورتوں سے زیادہ ھارس پاور ہوتا ہے ۔۔۔ اس لیئے مرد ۔۔۔ کو ۔۔۔ ایک سے زیادہ عورت سے سیکس کی جسمانی ضرورت رھتی ہے ۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #51
    بہت اچھے بھائی صاحب واقعتاً یہ اکثر ایک ہی شخص سے مل جاتا ہےسب کچھ؟ اب اگر اس سارے غوروفکر کو ایک دو جملوں میں نچوڑ دیں تو؟؟؟

    اَتھرا sahib

    محترم اتھرا صاحب

    ایک دو جملوں میں یہ کہوں گا کہ

    ١) ہاں مل جاتا ہے گو کبھی کبھار مایوسی بھی ہوتی ہے . کچھ دہائیوں کو چھوڑ کر دیکھیں تو ہر معاشرے میں عموماً ایسے رشتے ایک ہی شخص سے ہوتے تھے اور شاید ایک بار بن کر کبھی نہیں ٹوٹتے تھے

    ٢) جب انسان ایک مسلسل تلاش جاری رکھے تو شاید آہستہ آہستہ ایک دوسرے پر بھروسہ اور اعتماد قائم کر ہی لیتا ہے

    ٣) فطرت کہیں یا ضرورت خلوص، اعتماد، قلبی آسودگی ان رشتوں کی بنیاد ہے. اگر رشت کو ہٹا دیں تو پھر شاید صرف جسمانی اور ذہنی خواہش ہی رہ جاتی ہے

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #52
    کیا انشاپردازی ہے یار اور اسی قدر دانش بھی، سمجھ نہی آ رہی تھی کہ لائک وال کلک بنتا ہے یا تھینکس والا، اس لئے سوچا لکھ کر ہی خراج پیش کر دیتا ہوں پرانے فورم پر ایک مِتر ہوتے تھے میکبتھ، وہ بھی انشائیے کا کچھ ایسا ہی مزاج رکھتے تھے لیکن دانائی میں ایک آنچ کی کسر تھی، یا پھر آپ وہی ہیں اور پچھلے 2-3 سالوں میں ہنر کو اور سیقل کر لیا ہے بہرحال جو بھی ہے خوب ہے، ان فورموں کی بس یہی ایک افادیت ہے کہ کبھی کبھی آپ کسی جن سے ٹکرا جاتے ہیں ورنہ جتنا وقت ان پر ضائع ہوتا ہے اکثر خود پر لعن طعن میں ہی گذرتا ہے، اپ سے مل کے خوشی ہوئی بھائی صاحب موضوع پر آپ کے خیالات کے ساتھ مجھے بس ایک ہی مسئلہ ہوا یعنی وہی مردانہ عینک والا

    اتھرا صاحب،
    کسنووا صاحب کی پہلی پوسٹ دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ یہ گہرائی ، انشا پردازی، یہ الفاظ کی شکل میں موتی بکھیرنا اس کے باوجود موضوع پر مضبوط گرفت رکھنا اور دانشوری کی ایک الگ ہی معراج سے اترنا یہ سب کچھ جانا پہچانا ہے بہت ہی جانا پہچانا ہے کچھ عرصہ سے ہمارے یہ کرم فرما شاید مصروف ہیں مگر اپنے پیچھے ایسا خلہ چھوڑ گئے تھے کہ جس کو کویی کسونووا ہی پر کرسکتا تھا

    Shiraz

    casanova

    Jack Sparrow
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #53
    لگتا ہے اس سارے تھریڈ کا مقصد بھی مردانہ فن کی تسکینِ وفا کیلئے بہانے تراشنا ہے۔ایک دفعہ ایک لوکل سیکس گرو سے جنسی کاشت کاری کے مروجہ اصولوں پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ عموما اس کا سیزن بلوغت کی انگڑایوں سے شروع ہو کر گوڈے گِٹّوں کی بے اعتناعی تک جاری رہتا ہے۔ اور اس کی زرخیزی کا درومدار صحمتمند ڈھانچے اور مخلاف صنف کیلئے باتد بیر سانچے بنانے پر ہے۔ اس میدان کا سلطان بھی ہزار صراحیوں کو لبریز کرنے کے باوجود اپنے جبلی ہارمونز سے مغلوب ہو کر “دل مانگ مور” کی صدا لگا رہا ہوتا ہے۔ ہاں جب اپنی جسمانی و طبعی مستیوں کا عہد گزارنے کے بعد وہ فنی جمود کا شکار ہوتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ کبھی ایسا بھی وحشتوں کا سفر تھا جب بچھی زمین پر گھوڑے دوڑاتے صبح کو شام کرتے تھے۔لیکن اب وہ اپنی طبعی محدودیت پر بھی خود کو شانت پاتا ہے کیونکہ یہ سب جذبے انسان کو مسیر ماحول، اتھرے مزاج، نازنیون کو لبھانے کے انداز، اور پہلوانی خوراک سے مہمیز ہوتے ہیں۔ سیکس گرو فرماتے تھے کہ انہوں نے نو سال کی عمر میں اپنے گھوڑے کی مالش شروع کرکے وفاؤں کی تلاش شروع کر دی تھی، پھر جوں جوں تجربہ بڑھتا رہتا ہے، شکار کو ڈھیر کرنے کی ایک خاص ترکیبِ دلربائی بھی پنپتی رہتی ہے۔ سو یہ کہانی ہر نفس کو میسر گردشِ روانی پر ہی منحصر ہوتی ہے۔

    استاد کا فن بلند ہو ! ملکوں ملکوں سے گلشن گلشن تک کا غائبانہ سفر کیسے رہا ؟

    Malik495
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #54
    ذاتی طور پر میں مونوگیمی کو فطرت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ انسان کی فطرت ہے جو ھل من مزید کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ ایک ہی بچہ پیدا کرکے خوش رہتے۔ ہم ایک لباس ساری زندگی نہیں پہن سکتے، ایک گاڑی کے ساتھ ساری زندگی گذارا نہیں کرسکتے، ایک دوست رکھ کر زندگی انجوائے نہیں کرسکتے لیکن خود کو مجبور کرتے ہیں کہ کسی ایک ہی پارٹنر کے ساتھ اتنی لمبی زندگی گذار دیں۔ مذہبی معاشرتی پابندیاں اپنی جگہ لیکن فطری طور پر انسان تنوع پسند ہے۔ الحمداللہ خاکسار نے زندگی فطرت کے اصولوں کے مطابق گذارنے کی کوشش کی ہے بجائے مذہبی یا معاشرتی طریقوں کے اور یہی وجہ ہے اس خادم کی خاب ژوند (میٹھی زندگی) گذارنے کی

    CC to Bhabhi (Mrs Atif)

    پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #55

    اگر صرف جنسی حوالے سے دیکھا جائے تو فطرتاً انسان حیوان سے قریب تر ہے، اس کی فطرت کی حقیقی جھلک دیکھنی ہے تو اسے تمام تر سماجی، اخلاقی اور مذہبی حدود و قیود سے آزاد کرکے دیکھیں، ایک مرد اور ایک عورت دونوں فطرتاً جنسی تسکین کے معاملے میں ایک ہی شریک پر انحصار نہیں کرسکتے، کیونکہ بنیادی طور پر جنسی جذبے کا تعلق حصولِ لذت سے ہے، اس لئے انسان خواہ مرد ہو یا عورت، وہ مختلف، رنگا رنگ اور نت نئی اقسام کے انسانی اجسام سے اس لذت کو کشید کرنا چاہے گا اوریہی عین فطری ہے۔۔  

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #56
    اس تھریڈ پر جاری مکالمے کے تناظر میں اس انٹرویو سے ذیل کا اقتباس کافی متعلقہ ہے یہ انٹرویو ایک سوانح نگار کا ہے جس نے گاندھی کی سوانح عمری ابھی ابھی شائع کی ہے

    Experiments with Manu
    As for the Mahatma’s experiments in brahmacharya with Manu, his grand-niece, Guha said he accepted he found the whole affair rather strange. As Gandhi slept naked with her, in an attempt to discover whether or not he was still sexually aroused, Hindu-Muslim riots exploded around them in Noakhali, Bengal.

    One of the reasons for the sexual experimentation was because Gandhi felt, according to Guha, that the violence was somehow his fault. “The violence is happening because I am not pure,” Guha quoted Gandhi as saying.

    “It was very strange. That is why in my book I have a chapter called ‘The Strangest Experiment.’ The most painstanking biographer of Gandhi cannot get a handle (on what Gandhi did),” Guha said.

    “He was alone, lonely, without a guide.” So many of his loved ones had died, including Kasturba and C.F. Andrews, the historian added, seeking to understand and explain the mind of the Mahatma.

    Manu Gandhi also becomes a subject of interest in the book. Guha points out that Pyare Lal, Gandhi’s closest confidante and aide, had expressed an interest to marry Manu, but that she had rejected him.

    She called the Mahatma “Ma Bapu”. There is a short exploration of her own sexuality as well, although Manu is very clear that she looks at Bapu like her own mother, and to that extent is willing to go to the ends of the earth with him.

    Guha reiterated that he included these explorations of Gandhi’s sexuality in his book because he “didn’t want to suppress” any of the complex facets of the Mahatma’s personality.

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #57

    اگر صرف جنسی حوالے سے دیکھا جائے تو فطرتاً انسان حیوان سے قریب تر ہے، اس کی فطرت کی حقیقی جھلک دیکھنی ہے تو اسے تمام تر سماجی، اخلاقی اور مذہبی حدود و قیود سے آزاد کرکے دیکھیں، ایک مرد اور ایک عورت دونوں فطرتاً جنسی تسکین کے معاملے میں ایک ہی شریک پر انحصار نہیں کرسکتے، کیونکہ بنیادی طور پر جنسی جذبے کا تعلق حصولِ لذت سے ہے، اس لئے انسان خواہ مرد ہو یا عورت، وہ مختلف، رنگا رنگ اور نت نئی اقسام کے انسانی اجسام سے اس لذت کو کشید کرنا چاہے گا اوریہی عین فطری ہے۔۔

    ہو سکتا ہے فطری ہو یا پھر اکتسابی، لیکن یہ اظہاریہ نا صرف اپنے ہدف پر ہے بلکہ متوازن بھی، اگر یہ اکتسابی ہے تو بالکل ممکن ہےکہ اس تھریڈ پر جو بحث پہلے ہو چکی ہے اس نے خیالات کی اس ترتیب و توازن میں ایک کردار ادا کیا ہو، خیر جو بھی ہے اس ذہنی تصور کے قریب تر ہے جس کی وجہ سے اس تھریڈ کا مرکزی خیال تشکیل پایا تھا

    اب اس موضوع کو تھوڑا اور آگے لیجانے کیلئے یہاں دو سوال اٹھتے ہیں، ایک: فی الحال ہم جنسی کے تعلق کو ایک طرف رکھتے ہوئے، صنفِ مخالف کے دو بالغ انسانون کے درمیان قربت کا جو رشتہ ہوتا ہے اس میں ایک دوسرے سے جنسی تسکین حاصل کرنے  کے علاوہ تعلقِ باہمی کے اور کون کون سے حوالے ہو سکتے ہیں؟؟

    دو: اگر  دو بالغ انسانون کے درمیان قربت کے سارے تعلق، سارے حوالے فطری ہیں تو سماجی، اخلاقی اور مذہبی پابندیوں سے کیوں ٹکراتے ہیں؟ یا ان پر یہ پابندیاں کیوں عائد کرنا پڑتی یا ہو جاتی ہیں؟؟

    casanova
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #58
    کیا انشاپردازی ہے یار اور اسی قدر دانش بھی، سمجھ نہی آ رہی تھی کہ لائک وال کلک بنتا ہے یا تھینکس والا، اس لئے سوچا لکھ کر ہی خراج پیش کر دیتا ہوں پرانے فورم پر ایک مِتر ہوتے تھے میکبتھ، وہ بھی انشائیے کا کچھ ایسا ہی مزاج رکھتے تھے لیکن دانائی میں ایک آنچ کی کسر تھی، یا پھر آپ وہی ہیں اور پچھلے 2-3 سالوں میں ہنر کو اور سیقل کر لیا ہے بہرحال جو بھی ہے خوب ہے، ان فورموں کی بس یہی ایک افادیت ہے کہ کبھی کبھی آپ کسی جن سے ٹکرا جاتے ہیں ورنہ جتنا وقت ان پر ضائع ہوتا ہے اکثر خود پر لعن طعن میں ہی گذرتا ہے، اپ سے مل کے خوشی ہوئی بھائی صاحب موضوع پر آپ کے خیالات کے ساتھ مجھے بس ایک ہی مسئلہ ہوا یعنی وہی مردانہ عینک والا
    اتھرا صاحب، کسنووا صاحب کی پہلی پوسٹ دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ یہ گہرائی ، انشا پردازی، یہ الفاظ کی شکل میں موتی بکھیرنا اس کے باوجود موضوع پر مضبوط گرفت رکھنا اور دانشوری کی ایک الگ ہی معراج سے اترنا یہ سب کچھ جانا پہچانا ہے بہت ہی جانا پہچانا ہے کچھ عرصہ سے ہمارے یہ کرم فرما شاید مصروف ہیں مگر اپنے پیچھے ایسا خلہ چھوڑ گئے تھے کہ جس کو کویی کسونووا ہی پر کرسکتا تھا Shiraz casanova

    محترم اتھرا صاحب اور گھوسٹ پروٹوکول صاحب آپکی ذرہ نوازی کا شکریہ۔ انشا پردازی اور حرف نگاری کے ہنر کو سراہتے ہوئے آپ نے ناچیز کو جن اصحاب کےنشانِ سخن میں تلاشنے کی س