Viewing 20 posts - 21 through 40 (of 67 total)
  • Author
    Posts
  • BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #21
    جنابِ گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔۔۔۔

    آپ نے سوال پوچھا ہے کہ میرے نزدیک اِنسیسٹ کی کیا حیثیت ہے اور کیوں ہے۔۔۔۔۔

    میری رائے میں اِنسیسٹ ایک برا عمل ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیوں برا لگتا ہے۔۔۔۔۔

    اِس کا دیانت دارانہ جواب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔۔

    عمومی طور پر اِنسیسٹ کے بُرا یا کراہیت آمیز عمل ہونے کے بارے جو وجوہات دی جاتی ہیں وہ میرے نزدیک کوئی اتنا وزن نہیں رکھتیں۔۔۔۔۔ مثلاً اِنسیسٹ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد میں جینیاتی مسائل کا ہونا، یا غیر فطری ہونا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ میرے نزدیک یہ وجوہات کوئی ٹھوس وجوہات نہیں ہیں بلکہ یہ کہوں گا کہ وجوہات ہی نہیں ہیں۔۔۔۔۔ بہت سے دہریے بھی آپ کو یہ کہتے نظر آئیں گے کہ اِنسیسٹ غیر فطری ہے تو کیا یہی وجہ، یعنی غیر فطری ہونا، مذہبی افراد کی جانب سے ہم جنس پرستوں کیلئے نہیں دی جاتی۔۔۔۔۔

    میرے خیال میں جو سوال اہمیت رکھتا ہے وہ یہ کہ انسانی ذہن میں تصورات کیسے بنتے ہیں۔۔۔۔ اور اُن تصورات کے راسخ ہونے کا کیا درجہ ہے۔۔۔۔ یعنی وہ تصورات کس قدر راسخ(ڈیپلی رُوٹڈ) ہیں۔۔۔۔۔ اِس کی ایک سادہ سی مثال مَیں آپ کو عام افراد، جو کہ مسلمان بھی ہوتے ہیں، کے طرزِ عمل سے دے سکتا ہوں۔۔۔۔۔ مذہبِ اسلام میں شراب اور سُور کا گوشت، دونوں حرام ہیں۔۔۔۔۔ لیکن یہ عام دیکھا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایک عام مسلمان شراب پینے کو اتنا بُرا نہیں سمجھتا لیکن سُور کا گوشت بالکل نہیں کھاتا اور سُور کو بطور جانور انتہائی کراہیت سے دیکھتا ہے۔۔۔۔۔ یہ سوال مَیں نے بہت عرصہ پہلے اپنے اُستاد اور مَینٹور زندہ دل صاحب سے پوچھا تھا کہ سوشل اینتھروپولوجی کے لحاظ سے اِس کی کیا وجہ ہے۔۔۔۔۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس خطہ میں صدیوں سے شراب پیتی جاتی رہی ہے لیکن سُور کا گوشت یہاں نہیں کھایا جاتا تھا اور پھر اسلام کی آمد کے بعد سُور کے گوشت کے بارے میں تصور مزید گہرا ہوتا گیا۔۔۔۔۔

    مَیں آپ کو اپنی ہی مثال دیتا ہوں۔۔۔۔۔ مَیں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا۔۔۔۔۔ ایک عام مسلم گھرانے اور معاشرے کی طرح میرا بھی اللہ سے تعارف کروایا گیا۔۔۔۔۔ لیکن عُمر کے ایک موڑ پر آکر مَیں نے اللہ کے ہونے پر ایمان رکھنا ختم کردیا(اب یہاں مَیں آپ سے ایک مشکل سوال کی توقع کرتا ہوں)۔۔۔۔۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ کی موجودگی کے بارے میں جو بھی معلومات مجھے بچپن سے دی گئی تھیں یا ذہن میں ڈالی گئی تھیں اُن کو مٹایا نہیں جاسکا۔۔۔۔۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مَیں اللہ کی موجودگی کا اقرار کررہا ہوں بلکہ یہ کہ اللہ کا جو بھی تعارف بچپن میں میرے ذہن سے کرایا گیا تھا وہ ختم نہیں ہوا۔۔۔۔۔ جو نکتہ مَیں اٹھانا چاہ رہا ہوں کہ کچھ تصورات جو معاشرتی زندگی کی بناء پر آپ کے دماغ میں آتے ہیں وہ تصورات پھر رہتے ہیں۔۔۔۔۔ اِسی طرح سے ایک اور اہم تصور کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔ غیرت کا تصور کہاں سے آتا ہے۔۔۔۔۔ ایک مغربی ملک میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے شخص کے نزدیک غیرت کا تصور اور فرنٹیئر قبائلی علاقے میں پلے بڑھے شخص میں غیرت کا تصور۔۔۔۔۔ ایک یورپین کو اِس بات سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کہ اُس کی بالغ بہن کسی شخص کے ساتھ بغیر شادی کئے جنسی تعلقات رکھتی ہیں لیکن ایک پٹھان کے نزدیک ایسا ہونا شدید غیرت کا مسئلہ ہوگا اگر اُس کی بہن کسی شخص کے ساتھ بغیر شادی کئے جنسی تعلقات رکھے۔۔۔۔۔ میرے خیال میں ایک پٹھان میں غیرت کا یہ تصور اُس طرزِ معاشرت کی وجہ سے آیا ہے جہاں وہ پلا بڑھا ہے۔۔۔۔۔ مَیں اسی طرح بہت سے اور بھی تصورات گنوا سکتا ہوں جو ہماری معاشرت کی دین ہیں، مثلاً شرم کا تصور، تکلف کرنا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔

    آیا اِنسیسٹ کو برا سمجھنا صرف معاشرتی عمل ہے یا اِنسیسٹ کو برا سمجھنا پچھلی نسلوں سے ہماری جینز کے ذریعے منتقل ہوتا ہے(یعنی انسانوں کی اکثریت اِس مخصوص معاملے میں ہارڈ وائرڈ ہے)۔۔۔۔۔ اِس سوال کا بھی فی الوقت کوئی جواب نہیں ہے۔۔۔۔۔ البتہ کچھ ہائپوتھیسز ضرور ہیں جیسا کہ مشہور فِنِش اینتھروپولوجسٹ ایڈورڈ ویسٹرمارک کا ویسٹرمارک ایفیکٹ ہے۔۔۔۔۔

    انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ باڑھ کے دوسری طرف گھاس زیادہ سَبز ہوتی ہے(یا بیوی تو ہمیشہ دوسرے شخص کی زیادہ اچھی ہوتی ہے)۔۔۔۔۔ اگر آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو انسانی نفسیات کا یہ پہلو آپ کو بہت زیادہ نظر آئے گا۔۔۔۔۔ یہ تمہید اِس لئے کہ پچھلی صدی کے اوائل میں اسرائیل میں ایک کمیون قسم کی آبادی بنائی گئی تھی جس کو کبُٹز کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔ جہاں بہن بھائی کی کوئی تمیز نہیں تھی بلکہ بچوں کو گروپوں کی صورت میں رکھا جاتا تھا۔۔۔۔ بلوغت کے بعد آپس میں جنسی کشش کن کن بچوں کے درمیان پیدا ہوئی۔۔۔۔۔ آپ ذرا اِس کو بھی دیکھیں۔۔۔۔۔ مگر یاد رہے کہ نفسیات دان اور اینتھروپولوجسٹ اپنے جو بھی نظریات دیتے ہیں وہ ریاضی کے سوال کی طرح نہیں ہوں گے کہ دو اور دو جمع چار ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

    ایک اور ذاتی مثال دیتا ہوں کہ ابھی کچھ ہفتوں پہلے میری شیراز صاحب سے موسیقی پر بات ہورہی تھی۔۔۔۔۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرا رَیپ موسیقی کے حوالے سے کیا خیال ہے۔۔۔۔۔ میرا جواب تھا کہ رَیپ موسیقی میرے نزدیک گالیوں بھری موسیقی ہوتی ہے، انتہائی ناپسند ہے لیکن جن کو پسند ہے اُن کے نزدیک یہی بہترین موسیقی ہے۔۔۔۔۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ تو کسی صورت موسیقی کے اُصولوں پر ہی نہیں ہوتی، اور اُن کا خیال تھا کہ رَیپ موسیقی کو تو موسیقی کہا ہی نہیں جاسکتا۔۔۔۔۔ جبکہ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ یہ موسیقی ہے اور یہ نہیں یا یہ موسیقی اچھی ہے یا یہ موسیقی بری ہے۔۔۔۔۔ میرا اپنا چھوٹا بھائی امیریکہ میں پلا بڑھا ہے اُس کو ایمی نیم یا جے زی وغیرہ بہت پسند ہیں اور وہ یہی رَیپ سُنتا ہے جبکہ مجھے رَیپ موسیقی انتہائی بُری لگتی ہے کیونکہ موسیقی کا جو تعارف مجھ سے گھر میں میرے والدین کے توسط سے ہوا وہ بالکل مختلف تھا۔۔۔۔۔ مجھے چالیس پچاس ساٹھ کی دہائی کے نغمے بھی انتہائی پسند ہیں، میں نے اپنے بچپن میں لتا مکیش شمشاد بیگم رفیع ہیمنت کمار وغیرہ کے گانے سُنے ہیں جبکہ میرے ہی ہم عمر دوست مکیش کے دو نغمے نہیں بتاسکتے۔۔۔۔۔

    بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ ہمیں کوئی بھی چیز، بات، منظر، شخص، جانور، رشتہ، موسیقی وغیرہ وغیرہ کیوں اچھی لگتی ہے اور بری لگتی ہے تو کیوں بری لگتی ہے۔۔۔۔۔ مَیں کئی سالوں سے اِس سوال پر غور کررہا ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید اِس سوال کا جواب فی الوقت اور مستقبل قریب میں نہیں ملے گا۔۔۔۔۔ نیورو سائنٹسٹ، نفسیات دان اور فلاسفرز ہی مل کر شاید یہ حد درجہ مشکل سوال حل کرسکیں گے۔۔۔۔۔ اوبامہ دور میں انسانی دماغ کو سمجھنے پر ایک بڑا پروجیکٹ شروع ہوا ہے، ہیومن جینوم پروجیکٹ جیسا وسیع۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے اگلے پچیس تیس سالوں میں انسانی دماغ کی گتھی سلجھائی جاسکے۔۔۔۔۔ انسانی دماغ تو پھر بھی ایک ہارڈوئیر ہے، اُس کو سمجھ بھی لیا جائے لیکن انسانی ذہن تو ایک ورچوئل شئے ہے اور اِس  کو سمجھنا تو ایک انتہائی مشکل کام ہے۔۔۔۔۔

    کہنے کا مقصد ہے کہ ہم اگر آزاد ہونے کا دعویٰ بھی کریں تو میرے خیال میں ہم پھر بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ اپنے ذہن کی حدود سے باہر نہیں جاسکتے یا یوں کہیں کہ اپنے ہی ذہن کے غلام ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اور ہمارا ذہن کیسے بنتا ہے۔۔۔۔۔ یہ انسانی نفسیات کے سوالات ہیں۔۔۔۔۔ اور نفسیات، ریاضی کی طرح نہیں ہوتی کہ اعشاریہ کی حد تک بالکل صحیح جواب نکالا جاسکے۔۔۔۔۔

    جہاں تک اِس بحث میں مذہب کا زاویہ شامل کرنے کی بات ہے تو میرے خیال میں ایک اچھی گفتگو کا ستیاناس ضرور ہوسکتا ہے، لیکن معیار بہتر نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔ مَیں تو کہوں گا کہ مذہب سے بڑا چربہ ساز(پلَیجرسٹ) انسانی تاریخ میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔ جب سائنسدان تحقیق میں لگے ہوئے ہوتے ہیں تو مذہبی افراد پچھلی نشستوں پر چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی سائنسدان کوئی بڑا بریک تھرو کرتے ہیں، مذہبی افراد ترجمہ ترجمہ کھیلتے ہوئے پچھلی نشستوں سے اٹھ کر سامنے آکر بھنگڑا ڈالنے شروع کردیتے ہیں کہ یہ جو سائنسدانوں نے آج دریافت کیا ہے وہ تو قرآن(یا کوئی اور مذہبی کتاب) نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا۔۔۔۔۔

    کل ہی مَیں بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم دیکھ رہا تھا ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے بارے میں۔۔۔۔۔ کچھ مریضوں کے بارے میں تھی کہ وہ اتنے عرصہ سے عطیہ کردہ دل کا انتظار کررہے تھے اور موت زیادہ دور نہیں تھی۔۔۔۔۔ اُن میں سے ایک مریض غالباً ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔۔۔۔۔ اُس نے اپنے بارے میں بتایا کہ مَیں چار پانچ سیڑھیوں سے زیادہ چڑھ نہیں سکتا، پانچ دس منٹ سے زیادہ چل نہیں سکتا۔۔۔۔۔ اگر میرا علاج ہوجائے اور مجھے کوئی عطیہ کردہ دل مل جائے تو مَیں دُنیا بھر میں جا جا کر بتاؤں گا کہ خدا کتنا عظیم ہے۔۔۔۔۔ مَیں سوچ رہا تھا ایسی بھی کیا ناشکری۔۔۔۔۔ پھر آج صبح ہی کافرہ صاحبہ کا ایک یک سطری ٹوئیٹ دیکھا۔۔۔۔۔ اللہ کا شکر ہے ہیلمٹ کی وجہ سے میری جان بچ گئی :cwl: ;-) :cwl: ۔۔۔۔۔

    Kibbutz, Westermarck Effect

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #22

    جے ایم پی صاحب۔۔ بہت اچھا نکتہ اٹھایا ہے آپ نے۔۔جب لوگ دیگر معاملات میں مذہب پر اتنا عمل نہیں کرتے تو جنسی معاملات میں حدبندی کا کریڈٹ پوری طرح مذہب کو کیونکر دیا جاسکتا ہے۔۔۔

    زندہ رود صاحب۔ آپ کا یہ کہنا کہ انسسٹ سے نفرت کی وجہ مذہب نہیں بلکہ مذاہب کے وارد ہونے سے قبل ہی انسانی فطرت انسسٹ کے خلاف تھی، آپ کی اپنی توجیح تو ہو سکتی ہے لیکن حقائق سے مطابقت نہی رکھتی۔یہودیت، عیسائیت اسلام اور ہندوازم سے قبل تقریباً تمام ہی معاشرے انسسٹ پریکٹس کرتے تھے۔ اور ان معاشروں میں یہ پریکٹس نوبلٹی یا یہ کہیں کہ رول ماڈلز میں عام پائی جاتی تھی۔ قدیم مصر ہو قدیم ایران یا یونان ، جاپان ہو یا کوریا وہاں آپکو رائلٹی میں بہن بھائیوں کے درمیان شادیاں نظر آئیں گیں۔ اور شاید ساؤتھ امریکہ میں بھی کچھ ایسی ہی مثالیں نظر آئیں۔

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #23
    اور ان معاشروں میں یہ پریکٹس نوبلٹی یا یہ کہیں کہ رول ماڈلز میں عام پائی جاتی تھی۔

    Royal Incest

    :cwl: :) :cwl:

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #24
    زندہ رود صاحب۔ آپ کا یہ کہنا کہ انسسٹ سے نفرت کی وجہ مذہب نہیں بلکہ مذاہب کے وارد ہونے سے قبل ہی انسانی فطرت انسسٹ کے خلاف تھی، آپ کی اپنی توجیح تو ہو سکتی ہے لیکن حقائق سے مطابقت نہی رکھتی۔یہودیت، عیسائیت اسلام اور ہندوازم سے قبل تقریباً تمام ہی معاشرے انسسٹ پریکٹس کرتے تھے۔ اور ان معاشروں میں یہ پریکٹس نوبلٹی یا یہ کہیں کہ رول ماڈلز میں عام پائی جاتی تھی۔ قدیم مصر ہو قدیم ایران یا یونان ، جاپان ہو یا کوریا وہاں آپکو رائلٹی میں بہن بھائیوں کے درمیان شادیاں نظر آئیں گیں۔ اور شاید ساؤتھ امریکہ میں بھی کچھ ایسی ہی مثالیں نظر آئیں۔

    شاہد عباسی صاحب۔۔ فراعینِ مصر میں بہن بھائی سے شادی کی روایت ضرور تھی، کیونکہ وہ خدا کہلاتے تھے اور اس رو سے اپنی مخلوق (رعایا) سے کسی قسم کا رشتہ قائم نہ کرسکتے تھے، اس لئے وہ اپنے (خدائی) خاندان میں ہی بہن بھائی وغیرہ کی شادی بیاہ رچاتے تھے۔۔ مگر اس دور کی عوام میں اس کا کوئی رواج نہ تھا۔۔  یہ آپ کا محض گمان ہے کہ پہلے محرمات سے شادی کا رواج تھا اور مذہب نے آکر اس پر روک لگادی۔۔ بلیک شیپ نے صحیح کہا کہ مذہب سے بڑا پلیجرسٹ / چور کوئی نہیں ، مذاہب کی تعلیمات میں آپ کو سارا اجتماعی انسانی کاوش سے حاصل شدہ مواد (اخلاقیات وغیرہ) ملے گا، جس پر مذاہب نے اپنا لیبل لگا رکھا ہے۔ مذاہب کی بنیاد میں چوری ہونے کی وجہ سے اس کا اثر آج کے مذہب کے پیروکاروں پر بھی عام دیکھا جاسکتا ہے، تازہ ترین صورتِ حال میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن کی تصویر جاری ہوتے ہی مسلمانوں میں دوڑیں لگ گئی ہیں اور ہر مومن کوئی نہ کوئی قرآنی آیت اٹھائے پھررہا ہے اور اس سے بلیک ہول کا وجود ثابت کررہا ہے۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #25
    زندہ رود صاحب۔ آپ کا یہ کہنا کہ انسسٹ سے نفرت کی وجہ مذہب نہیں بلکہ مذاہب کے وارد ہونے سے قبل ہی انسانی فطرت انسسٹ کے خلاف تھی، آپ کی اپنی توجیح تو ہو سکتی ہے لیکن حقائق سے مطابقت نہی رکھتی۔یہودیت، عیسائیت اسلام اور ہندوازم سے قبل تقریباً تمام ہی معاشرے انسسٹ پریکٹس کرتے تھے۔ اور ان معاشروں میں یہ پریکٹس نوبلٹی یا یہ کہیں کہ رول ماڈلز میں عام پائی جاتی تھی۔ قدیم مصر ہو قدیم ایران یا یونان ، جاپان ہو یا کوریا وہاں آپکو رائلٹی میں بہن بھائیوں کے درمیان شادیاں نظر آئیں گیں۔ اور شاید ساؤتھ امریکہ میں بھی کچھ ایسی ہی مثالیں نظر آئیں۔

    شاہد بھائی! میرے خیال میں انسیسٹ سے نفرت کی وجہ مذہب ہوہی نہیں سکتا، ایسا ہوتا تو آدم علیہ السلام کے دور میں ہی خدا کے لئے مشکل نہ تھا کہ وہ کچھ جوڑے بنا کر زمین پر اتار دیتا۔

    ساڈے کولوں پین یکیاں کروا کر اب مذہب بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #26

    شاہد عباسی صاحب۔۔ فراعینِ مصر میں بہن بھائی سے شادی کی روایت ضرور تھی، کیونکہ وہ خدا کہلاتے تھے اور اس رو سے اپنی مخلوق (رعایا) سے کسی قسم کا رشتہ قائم نہ کرسکتے تھے، اس لئے وہ اپنے (خدائی) خاندان میں ہی بہن بھائی وغیرہ کی شادی بیاہ رچاتے تھے۔۔ مگر اس دور کی عوام میں اس کا کوئی رواج نہ تھا۔۔ یہ آپ کا محض گمان ہے کہ پہلے محرمات سے شادی کا رواج تھا اور مذہب نے آکر اس پر روک لگادی۔۔ بلیک شیپ نے صحیح کہا کہ مذہب سے بڑا پلیجرسٹ / چور کوئی نہیں ، مذاہب کی تعلیمات میں آپ کو سارا اجتماعی انسانی کاوش سے حاصل شدہ مواد (اخلاقیات وغیرہ) ملے گا، جس پر مذاہب نے اپنا لیبل لگا رکھا ہے۔ مذاہب کی بنیاد میں چوری ہونے کی وجہ سے اس کا اثر آج کے مذہب کے پیروکاروں پر بھی عام دیکھا جاسکتا ہے، تازہ ترین صورتِ حال میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن کی تصویر جاری ہوتے ہی مسلمانوں میں دوڑیں لگ گئی ہیں اور ہر مومن کوئی نہ کوئی قرآنی آیت اٹھائے پھررہا ہے اور اس سے بلیک ہول کا وجود ثابت کررہا ہے۔۔۔

    زندہ رود صاحب ۔ ہسٹری کا مسئلہ یہ ہے قدیم زمانوں کے کامنرز بارے تاریخ بہت کم بتاتی ہے جو کچھ ملتا ہے عموماً رائلٹی اور نوبلٹی کلاس بارے ہی ملتا ہے اس لئے انہیں معلومات کی بنیاد پر کسی حد تک سوسائٹییز کی نارمز بارے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ مصر کے فرعون اگر لائینج کے تحفظ کے لئے خاندان ہی میں شادی کررہے ہوتے تو ماں بیٹی سے شادی پھر بھی ضروری نہیں تھی۔ کیا ایران کی عظیم سلطنتوں میں انسست عام نہ تھا۔ کیا زورواسٹیرزم اس کی اجازت نہی دیتا تھا۔ کیا یونان اور روم میں بھی فیملی لائینج کا مسئلہ تھا۔ رومن کیلیگولس کے اپنی بہن سے عشق اور اس کے بیٹے نیرو (لوسیاس) کے اپنی ماں کے بدن سے کھیلنے کی کہانیاں عام پڑھی جاتی ہیں
    جاپان تو شاید اس کام میں باقی ساری دنیا سے آگے تھا کوریا اور تھائی لینڈ سے بھی زیادہ ۔ کیا میکسیکو اور قدیم پیرو میں بھی یہ ایک عام پریکٹس نہ تھی؟ مختصراً ، زمانۂ قدیم میں ہمیں تقریبا ہر طرف سے اس کی مثالیں ملتی ہیں صرف مصر ہی سے نہیں۔

    یہاں میں دو مختلف پوائینٹس کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
    پہلا یہ کہ آپ کا گھوسٹ صاحب کو لکھا یہ کمنٹ کہ مذاہب آنے سے قبل بھی انسسٹ موجود نہی تھا قطعاً غلط ہے۔ دراصل مذاہب کے آنے سے قبل انسسٹ کی بیسیوں گنا زیادہ موجودگی ثابت ہے۔

    دوسرا پوائینٹ یہ ہے کہ آج اگر انسسٹ کو یونیورسلی غلط سمجھا جاتا ہے تو کیا یہ مذاہب کی وجہ سے ہے، تو اس پر بحث ہو سکتی ہے۔
    میرے خیال میں ایسا ہی ہے۔ ڈیڑھ سو سال سے پیچھے کو چلنا شروع ہو جائیں تو آپ کو ساری ہی ریاستیں اور سلطنتیں آج سے صد گنا زیادہ مذہب کے زیرِ اثر نظر آئیں گیں اور اس دوران معاشروں کی بہت سی نارمز مذاہب ہی کے زیرِاثر پنپتی نظر آئیں گیں۔ اب انسسٹ کو پوسٹ ریلیجن زمانے میں ہر جگہ ممنوع قرار دئیے جانے کے پس منظر میں مذہبی تعلیمات کا کتنا حصہ تھا، یہ پورے وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کا ان اثرات میں ایک حصہ تو ضرور ہے۔

    رہ گئی بات آپ یا بلیک شیپ صاحب کا مذہب کو چور ؍پلیجرسٹ وغیرہ گرداننا یا مذہبی کتابوں سے سائینسی دریافتوں کا ثابت ہونے کا سوال ہے تو خدا کے احکامات لازما انسانی فطرت ہی سے مطابقت رکھتے ہوں گے درختوں یا کیڑے مکوڑوں کی فطرت کے مطابق تو نہی۔ اور لازما انسسٹ انسانی فطرت کے بھی خلاف ہی ہوگا جبکہ یہ ثابت ہے کی جانوروں کی اکثریت بھی انسسٹ کو پریفر نہیں کرتی۔ اسی طرح مذہب کے ماننے والوں کا قران میں لکھے سائینسی حقائق کی طرف اشارات کو اپنی ہی تحقیق سے ثابت کرنے کی بجائے کسی اور کی تحقیق کے بعد اس کی توجیحیں نکالنے کے عمل میں مذہب یا مذہبی کتاب کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس مذہبی شخص کا رویہ ہے جو صرف اسی کام پر لگا بیٹھا ہے۔ بحث تو کسی چیز کے ثابت یا نہ ثابت ہونے پر ہو سکتی ہے نہ کہ اس مذہب کے ماننے والے کے پیسوو روئیے پر۔
    ایک اور بات یہ کہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے آپ انٹلیکچوئل لیول سے کمپرومائذ کر جاتے ہیں جیسا کہ گھوسٹ صاحب سے بحث کرتے آپ نے دو چار خبروں کا حوالہ دیا کہ کسی مسلمان نے اپنی بہن یا بیٹی سے زیادتی کی تھی اور کہ مذہب انہیں کیوں نہ روک سکا۔ بلکل ہی بچوں والی بات تھی۔ اب مذہب یا کوئی قانون تو اس کی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ لوگ ان کے احکامات کو کس حد تک مانتے یا فالو کرتے ہیں۔ کسی فالوور کا ان احکامات سے بغاوت کرنا اس شخص پر منحصر ہے مذہب کے غلط یا صحیح ہونے پر نہیں۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #27
    زندہ رود صاحب ۔ ہسٹری کا مسئلہ یہ ہے قدیم زمانوں کے کامنرز بارے تاریخ بہت کم بتاتی ہے جو کچھ ملتا ہے عموماً رائلٹی اور نوبلٹی کلاس بارے ہی ملتا ہے اس لئے انہیں معلومات کی بنیاد پر کسی حد تک سوسائٹییز کی نارمز بارے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ مصر کے فرعون اگر لائینج کے تحفظ کے لئے خاندان ہی میں شادی کررہے ہوتے تو ماں بیٹی سے شادی پھر بھی ضروری نہیں تھی۔ کیا ایران کی عظیم سلطنتوں میں انسست عام نہ تھا۔ کیا زورواسٹیرزم اس کی اجازت نہی دیتا تھا۔ کیا یونان اور روم میں بھی فیملی لائینج کا مسئلہ تھا۔ رومن کیلیگولس کے اپنی بہن سے عشق اور اس کے بیٹے نیرو (لوسیاس) کے اپنی ماں کے بدن سے کھیلنے کی کہانیاں عام پڑھی جاتی ہیں جاپان تو شاید اس کام میں باقی ساری دنیا سے آگے تھا کوریا اور تھائی لینڈ سے بھی زیادہ ۔ کیا میکسیکو اور قدیم پیرو میں بھی یہ ایک عام پریکٹس نہ تھی؟ مختصراً ، زمانۂ قدیم میں ہمیں تقریبا ہر طرف سے اس کی مثالیں ملتی ہیں صرف مصر ہی سے نہیں۔

    شاہد عباسی صاحب۔۔۔ آپ دورِ قدیم کے بادشاہوں، شہنشاہوں وغیرہ کے آئینے میں عام آدمی کی زندگی کا عکس نہیں دیکھ سکتے، اس دور کے بادشاہوں اور عوام کی زندگی میں بے انتہا فرق ہوتا تھا، لوگ اپنے بادشاہوں کو خدا، خدا کی پرچھائی اور دیوتا وغیرہ سمجھتے تھے اور ان کے خلاف سوچنا بھی گناہ سمجھتے تھے، اس لئے وہ شہنشاہ جو چاہتے تھے کرتے تھے، عام آدمی کی زندگی قطعی مختلف ہوتی تھی، آپ قدیم دور کو چھوڑیں، حالیہ چند صدیاں پہلے کے مغلیہ بادشاہوں کو دیکھ لیں، وہ مسلمان ہونے کے باوجود چار شادیوں کی حد بندی کی قطعاً پروا نہیں کرتے تھے اور ان کے حرم سینکڑوں عورتوں سے بھرے ہوتے تھے۔ تو کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ عوام بھی ایسے ہی کرتی تھی۔۔؟؟

    یہاں میں دو مختلف پوائینٹس کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ پہلا یہ کہ آپ کا گھوسٹ صاحب کو لکھا یہ کمنٹ کہ مذاہب آنے سے قبل بھی انسسٹ موجود نہی تھا قطعاً غلط ہے۔ دراصل مذاہب کے آنے سے قبل انسسٹ کی بیسیوں گنا زیادہ موجودگی ثابت ہے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ اولین دور کا انسان انسیسٹ میں مبتلا تھا، مگر یہ بات بالکل ثابت نہیں ہے کہ انسیسٹ کو مذہب نے آکر ختم کیا۔ ہمارے پاس تاریخ کے ماخذ کے طور پر قدیم مذاہب موجود ہیں، ہندومت، بدھ مت، یہودیت وغیرہ قدیم مذاہب ہیں، کیا آپ کو ان مذاہب میں کہیں ذکر ملتا ہے کہ لوگ پہلے انسیسٹ کیا کرتے تھے اور ان میں سے کسی مذہب نے آکر روک لگا دی۔۔ مذہبی کتابیں اور تعلیمات تاریخ جاننے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، قرآن میں فرعون کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہوا ہے کہ  اور تم جانتے ہو کس طرح فرعون تمہارے بیٹوں کو قتل کردیا تھا کرتا اور بیٹیوں کو چھوڑ دیتا تھا، پھر ہم نے تمہیں اس سے نجات دی، کیا کہیں کسی مذہب میں آپ کو ایسا لکھا ہوا ملتا ہے کہ اور تم جانتے ہو کہ لوگ پہلے بہنوں، بیٹیوں سے شادیاں کیا کرتے تھے، پھر ہم نے انہیں روک دیا۔۔ ؟؟ 

    دوسرا پوائینٹ یہ ہے کہ آج اگر انسسٹ کو یونیورسلی غلط سمجھا جاتا ہے تو کیا یہ مذاہب کی وجہ سے ہے، تو اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں ایسا ہی ہے۔ ڈیڑھ سو سال سے پیچھے کو چلنا شروع ہو جائیں تو آپ کو ساری ہی ریاستیں اور سلطنتیں آج سے صد گنا زیادہ مذہب کے زیرِ اثر نظر آئیں گیں اور اس دوران معاشروں کی بہت سی نارمز مذاہب ہی کے زیرِاثر پنپتی نظر آئیں گیں۔ اب انسسٹ کو پوسٹ ریلیجن زمانے میں ہر جگہ ممنوع قرار دئیے جانے کے پس منظر میں مذہبی تعلیمات کا کتنا حصہ تھا، یہ پورے وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کا ان اثرات میں ایک حصہ تو ضرور ہے۔

    عباسی صاحب۔۔ اصل سوال تو یہی ہے، کہ انسیسٹ کو غلط قرار دینے میں مذہب کا حصہ ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کون سے مذہب نے کب اس رواج کو ختم کیا۔  میرا ماننا یہ ہے کہ کسی بھی مذہب نے انسانی طرزِ معاشرت میں کبھی کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں کی، بلکہ پہلے سے جو روایات چلی آرہی تھیں انہی کو کتربیونت کرکے  تعلیمات کا حصہ بنا دیا۔ آپ اسلام کا مشاہدہ کرلیں، اسلام نے شادی بیاہ، نکاح، مردہ کی تدفین، نمازیں، طواف، حج، عمرہ، جانوروں کی قربانی جیسی رسوم و روایات جو پہلے سے ہی چلی آرہی تھیں، ان کو تھوڑا بہت پالش کرکے اپنی تعلیمات کا حصہ بنا دیا۔ یہاں تک کہ اسلام نے خدا کے لئے بھی وہی نام استعمال کرنا شروع کردیا جو اس سے پہلے لوگ کیا کرتے تھے، یعنی اللہ ۔۔  حالانکہ حضرت محمد سے پچھلے پیغمبر حضرت عیسی نے خدا کے لئے یہ نام استعمال نہیں کیا تھا تو یہ الگ سوال ہے کہ یہ نام پھر ایجاد کس نے کیا۔۔۔

    ایک اور بات یہ کہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے آپ انٹلیکچوئل لیول سے کمپرومائذ کر جاتے ہیں جیسا کہ گھوسٹ صاحب سے بحث کرتے آپ نے دو چار خبروں کا حوالہ دیا کہ کسی مسلمان نے اپنی بہن یا بیٹی سے زیادتی کی تھی اور کہ مذہب انہیں کیوں نہ روک سکا۔ بلکل ہی بچوں والی بات تھی۔ اب مذہب یا کوئی قانون تو اس کی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ لوگ ان کے احکامات کو کس حد تک مانتے یا فالو کرتے ہیں۔ کسی فالوور کا ان احکامات سے بغاوت کرنا اس شخص پر منحصر ہے مذہب کے غلط یا صحیح ہونے پر نہیں۔

    آپ نے شاید یہ ملاحظہ نہیں کیا کہ میں نے مثال کس نکتے کے جواب میں دی، گھوسٹ صاحب کا کہنا تھا کہ دیگر لوازمات میسر ہوجائیں تو بھی مذہب بہرحال آڑ کا کام ضرور کرتا ہے،یعنی انسان کو روک لیتا ہے، جبکہ میں کہتا ہوں کہ اگر دیگر لوازمات میسر آجائیں تو مذہب انسان کو بالکل نہیں روک سکتا۔ اگر انسان چوری کرنے پر مائل ہوجائے تو مذہب نہیں روک سکتا، اگر انسان جھوٹ بولنے پر مائل ہو تو مذہب نہیں روک سکتا، اگر انسان قتل کرنا چاہے تو مذہب نہیں روک سکتا۔۔ اسی طرح اگر انسان انسیسٹ کرنے پر مائل ہوجائے تو مذہب نہیں روک سکتا۔۔ اور ہمارا معاشرے میں اس کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔

    آپ نے عاطف بھائی کے سوال کا جواب نہیں دیا، وہی سوال میں بھی پوچھ لیتا ہوں، آپ تو خدا پر یقین رکھتے ہیں، آپ کے خیال میں خدا نے دورِ آدم میں انسانوں سے انسیسٹ کیوں کروایا، وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ وہ علیم و خبیر خدا یہ جانتا تھا کہ کچھ عرصے بعد وہ اس کو انسانوں کے لئے گھناؤنا ترین فعل قرار دینے والا ہے۔۔۔؟؟  اور کیا تب انسیسٹ غلط نہیں تھا، جب خدا کروا رہا تھا۔۔۔؟؟

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #28

    کچھ نے اچھے برے کو مذہب سے جوڑا ہوا ہے

    کچھ نے معاشرے کے ارتقاء سے

    کچھ نے فطرت سے

    کچھ تعلیم اور تربیت کو اچھے برے کی پہچان کا سبب بتاتے ہے

    کچھ نے اپنی سوچ اور سمجھ سے

    اور کچھ کے نزدیک اوپر بیان کئے گئے تمام ذرائع کو اچھے برے کی تمیز کا ممکن سبب مانتے ہیں

    اب کیا ضروری ہے کے ہر کسی کے اچھے برے کی تمیز کا صرف ایک ہی سبب ہو ؟

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #29

    گھوسٹ صاحب۔۔ مجھے حیرانی ہے کہ آپ ابھی تک میرے مقدمے کو سمجھے ہی نہیں، میرا سارا کیس ہی اس نکتے پر ہے کہ موجودہ انسانوں کی انتہائی قریبی خونی رشتوں سے جنسی تعلقات نہ رکھنے کی وجہ مذہب نہیں دیگر عوامل (انسانی فطرت، طویل سماجی ارتقا، نفسیات وغیرہ) ہیں اور ابھی تک میں نے جتنے دلائل دیئے ہیں اسی نکتے کے جواز میں دیئے ہیں۔۔ اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ میرا موقف غلط ہے اور جنسی تعلقات میں موجودہ حدبندی کا واحد محرک مذہب ہے تو پھر آپ مجھ سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ مذہب کی آڑ نہ رہے تو پیچھے محرمات سے جنسی تعلقات میں کیا چیز مانع رہ جاتی ہے؟۔۔

    زندہ رود صاحب،
    میرا  سوال کرنے کا مقصد انسیسٹ کے حوالے سے لا مذھب کا موقف سمجھنا تھا اور یہ جاننا تھا کہ کسی حقیقی صورتحال میں اسکا جو بھی ردعمل ہوگا وہ کیا ہوگا اور کیوں ہوگا-
    آپ کے استدلال میں چھپے آپ کے موقف کو اگر میں درست سمجھا ہوں تو وہ یہ ہے کہ آپ بھی انسیسٹ کو شاید درست نہیں سمجھتے ہیں اور اگر کسی حقیقی صورتحال سے سابقہ پڑ جائے تو آپ ایمان کے تیسرے درجہ کے مطابق اس کو دل میں تو برا جانیں گے مگر اس پر کسی سخت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کریں گے .
    میں یہاں ہر گز جج بن کر اس سوچ پر فتویٰ دینے کے کا قائل نہیں ہوں مقصد سوچ کو جاننا تھا جو شاید حاصل ہوگیا ہے

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #30
    جنابِ گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔۔۔۔ آپ نے سوال پوچھا ہے کہ میرے نزدیک اِنسیسٹ کی کیا حیثیت ہے اور کیوں ہے۔۔۔۔۔ میری رائے میں اِنسیسٹ ایک برا عمل ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیوں برا لگتا ہے۔۔۔۔۔ اِس کا دیانت دارانہ جواب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔۔ عمومی طور پر اِنسیسٹ کے بُرا یا کراہیت آمیز عمل ہونے کے بارے جو وجوہات دی جاتی ہیں وہ میرے نزدیک کوئی اتنا وزن نہیں رکھتیں۔۔۔۔۔ مثلاً اِنسیسٹ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد میں جینیاتی مسائل کا ہونا، یا غیر فطری ہونا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ میرے نزدیک یہ وجوہات کوئی ٹھوس وجوہات نہیں ہیں بلکہ یہ کہوں گا کہ وجوہات ہی نہیں ہیں۔۔۔۔۔ بہت سے دہریے بھی آپ کو یہ کہتے نظر آئیں گے کہ اِنسیسٹ غیر فطری ہے تو کیا یہی وجہ، یعنی غیر فطری ہونا، مذہبی افراد کی جانب سے ہم جنس پرستوں کیلئے نہیں دی جاتی۔۔۔۔۔ میرے خیال میں جو سوال اہمیت رکھتا ہے وہ یہ کہ انسانی ذہن میں تصورات کیسے بنتے ہیں۔۔۔۔ اور اُن تصورات کے راسخ ہونے کا کیا درجہ ہے۔۔۔۔ یعنی وہ تصورات کس قدر راسخ(ڈیپلی رُوٹڈ) ہیں۔۔۔۔۔ اِس کی ایک سادہ سی مثال مَیں آپ کو عام افراد، جو کہ مسلمان بھی ہوتے ہیں، کے طرزِ عمل سے دے سکتا ہوں۔۔۔۔۔ مذہبِ اسلام میں شراب اور سُور کا گوشت، دونوں حرام ہیں۔۔۔۔۔ لیکن یہ عام دیکھا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایک عام مسلمان شراب پینے کو اتنا بُرا نہیں سمجھتا لیکن سُور کا گوشت بالکل نہیں کھاتا اور سُور کو بطور جانور انتہائی کراہیت سے دیکھتا ہے۔۔۔۔۔ یہ سوال مَیں نے بہت عرصہ پہلے اپنے اُستاد اور مَینٹور زندہ دل صاحب سے پوچھا تھا کہ سوشل اینتھروپولوجی کے لحاظ سے اِس کی کیا وجہ ہے۔۔۔۔۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس خطہ میں صدیوں سے شراب پیتی جاتی رہی ہے لیکن سُور کا گوشت یہاں نہیں کھایا جاتا تھا اور پھر اسلام کی آمد کے بعد سُور کے گوشت کے بارے میں تصور مزید گہرا ہوتا گیا۔۔۔۔۔ مَیں آپ کو اپنی ہی مثال دیتا ہوں۔۔۔۔۔ مَیں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا۔۔۔۔۔ ایک عام مسلم گھرانے اور معاشرے کی طرح میرا بھی اللہ سے تعارف کروایا گیا۔۔۔۔۔ لیکن عُمر کے ایک موڑ پر آکر مَیں نے اللہ کے ہونے پر ایمان رکھنا ختم کردیا(اب یہاں مَیں آپ سے ایک مشکل سوال کی توقع کرتا ہوں)۔۔۔۔۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ کی موجودگی کے بارے میں جو بھی معلومات مجھے بچپن سے دی گئی تھیں یا ذہن میں ڈالی گئی تھیں اُن کو مٹایا نہیں جاسکا۔۔۔۔۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مَیں اللہ کی موجودگی کا اقرار کررہا ہوں بلکہ یہ کہ اللہ کا جو بھی تعارف بچپن میں میرے ذہن سے کرایا گیا تھا وہ ختم نہیں ہوا۔۔۔۔۔ جو نکتہ مَیں اٹھانا چاہ رہا ہوں کہ کچھ تصورات جو معاشرتی زندگی کی بناء پر آپ کے دماغ میں آتے ہیں وہ تصورات پھر رہتے ہیں۔۔۔۔۔ اِسی طرح سے ایک اور اہم تصور کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔ غیرت کا تصور کہاں سے آتا ہے۔۔۔۔۔ ایک مغربی ملک میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے شخص کے نزدیک غیرت کا تصور اور فرنٹیئر قبائلی علاقے میں پلے بڑھے شخص میں غیرت کا تصور۔۔۔۔۔ ایک یورپین کو اِس بات سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کہ اُس کی بالغ بہن کس شخص کے ساتھ بغیر شادی کئے جنسی تعلقات رکھتی ہیں لیکن ایک پٹھان کے نزدیک ایسا ہونا شدید غیرت کا مسئلہ ہوگا اگر اُس کی بہن کسی شخص کے ساتھ بغیر شادی کئے جنسی تعلقات رکھے۔۔۔۔۔ میرے خیال میں ایک پٹھان میں غیرت کا یہ تصور اُس طرزِ معاشرت کی وجہ سے آیا ہے جہاں وہ پلا بڑھا ہے۔۔۔۔۔ مَیں اسی بہت سے اور بھی تصورات گنوا سکتا ہوں جو ہماری معاشرت کی دین ہیں، مثلاً شرم کا تصور، تکلف کرنا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ آیا اِنسیسٹ کو برا سمجھنا صرف معاشرتی عمل ہے یا اِنسیسٹ کو برا سمجھنا پچھلی نسلوں سے ہماری جینز کے ذریعے منتقل ہوتا ہے(یعنی انسانوں کی اکثریت اِس مخصوص معاملے میں ہارڈ وائرڈ ہے)۔۔۔۔۔ اِس سوال کا بھی فی الوقت کوئی جواب نہیں ہے۔۔۔۔۔ البتہ کچھ ہائپوتھیسز ضرور ہیں جیسا کہ مشہور فِنِش اینتھروپولوجسٹ ایڈورڈ ویسٹرمارک کا ویسٹرمارک ایفیکٹ ہے۔۔۔۔۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ باڑھ کے دوسری طرف گھاس زیادہ سَبز ہوتی ہے(یا بیوی تو ہمیشہ دوسرے شخص کی زیادہ اچھی ہوتی ہے)۔۔۔۔۔ اگر آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو انسانی نفسیات کا یہ پہلو آپ کو بہت زیادہ نظر آئے گا۔۔۔۔۔ یہ تمہید اِس لئے کہ پچھلی صدی کے اوائل میں اسرائیل میں ایک کمیون قسم کی آبادی بنائی گئی تھی جس کو کبُٹز کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔ جہاں بہن بھائی کی کوئی تمیز نہیں تھی بلکہ بچوں کو گروپوں کی صورت میں رکھا جاتا تھا۔۔۔۔ بلوغت کے بعد آپس میں جنسی کشش کن کن بچوں کے درمیان پیدا ہوئی۔۔۔۔۔ آپ ذرا اِس کو بھی دیکھیں۔۔۔۔۔ مگر یاد رہے کہ نفسیات دان اور اینتھروپولوجسٹ اپنے جو بھی نظریات دیتے ہیں وہ ریاضی کے سوال کی طرح نہیں ہوں گے کہ دو اور دو جمع چار ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ ایک اور ذاتی مثال دیتا ہوں کہ ابھی کچھ ہفتوں پہلے میری شیراز صاحب سے موسیقی پر بات ہورہی تھی۔۔۔۔۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میرا رَیپ موسیقی کے حوالے سے کیا خیال ہے۔۔۔۔۔ میرا جواب تھا کہ رَیپ موسیقی میرے نزدیک گالیوں بھری موسیقی ہوتی ہے، انتہائی ناپسند ہے لیکن جن کو پسند ہے اُن کے نزدیک یہی بہترین موسیقی ہے۔۔۔۔۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ تو کسی صورت موسیقی کے اُصولوں پر ہی نہیں ہوتی، اور اُن کا خیال تھا کہ رَیپ موسیقی کو تو موسیقی کہا ہی نہیں جاسکتا۔۔۔۔۔ جبکہ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ یہ موسیقی ہے اور یہ نہیں یا یہ موسیقی اچھی ہے یا یہ موسیقی بری ہے۔۔۔۔۔ میرا اپنا چھوٹا بھائی امیریکہ میں پلا بڑھا ہے اُس کو ایمی نیم یا جے زی وغیرہ بہت پسند ہیں اور وہ یہی رَیپ سُنتا ہے جبکہ مجھے رَیپ موسیقی انتہائی بُری لگتی ہے کیونکہ موسیقی کا جو تعارف مجھ سے گھر میں میرے والدین کے توسط سے ہوا وہ بالکل مختلف تھا۔۔۔۔۔ مجھے چالیس پچاس ساٹھ کی دہائی کے نغمے بھی انتہائی پسند ہیں، میں نے اپنے بچپن میں لتا مکیش شمشاد بیگم رفیع ہیمنت کمار وغیرہ کے گانے سُنے ہیں جبکہ میرے ہی ہم عمر دوست مکیش کے دو نغمے نہیں بتاسکتے۔۔۔۔۔ بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ ہمیں کوئی بھی چیز، بات، منظر، شخص، جانور، رشتہ، موسیقی وغیرہ وغیرہ کیوں اچھا لگتی ہے اور بری لگتی ہے تو کیوں بری لگتی ہے۔۔۔۔۔ مَیں کئی سالوں سے اِس سوال پر غور کررہا ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید اِس سوال کا جواب فی الوقت اور مستقبل قریب میں نہیں ملے گا۔۔۔۔۔ نیورو سائنٹسٹ، نفسیات دان اور فلاسفرز ہی مل کر شاید یہ حد درجہ مشکل سوال حل کرسکیں گے۔۔۔۔۔ اوبامہ دور میں انسانی دماغ کو سمجھنے پر ایک بڑا پروجیکٹ شروع ہوا ہے، ہیومن جینوم پروجیکٹ جیسا وسیع۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے اگلے پچیس تیس سالوں میں انسانی دماغ کی گتھی سلجھائی جاسکے۔۔۔۔۔ انسانی دماغ تو پھر بھی ایک ہارڈوئیر ہے، اُس کو سمجھ بھی لیا جائے لیکن انسانی ذہن تو ایک ورچوئل شئے ہے اور اِس کو سمجھنا تو ایک انتہائی مشکل کام ہے۔۔۔۔۔ کہنے کا مقصد ہے کہ ہم اگر آزاد ہونے کا دعویٰ بھی کریں تو میرے خیال میں ہم پھر بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ اپنے ذہن کی حدود سے باہر نہیں جاسکتے یا یوں کہیں کہ اپنے ہی ذہن کے غلام ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اور ہمارا ذہن کیسے بنتا ہے۔۔۔۔۔ یہ انسانی نفسیات کے سوالات ہیں۔۔۔۔۔ اور نفسیات، ریاضی کی طرح نہیں ہوتی کہ اعشاریہ کی حد تک بالکل صحیح جواب نکالا جاسکے۔۔۔۔۔ جہاں تک اِس بحث میں مذہب کا زاویہ شامل کرنے کی بات ہے تو میرے خیال میں ایک اچھی گفتگو کا ستیاناس ضرور ہوسکتا ہے، لیکن معیار بہتر نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔ مَیں تو کہوں گا کہ مذہب سے بڑا چربہ ساز(پلَیجرسٹ) انسانی تاریخ میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔ جب سائنسدان تحقیق میں لگے ہوئے ہوتے ہیں تو مذہبی افراد پچھلی نشستوں پر چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی سائنسدان کوئی بڑا بریک تھرو کرتے ہیں، مذہبی افراد ترجمہ ترجمہ کھیلتے ہوئے پچھلی نشستوں سے اٹھ کر سامنے آکر بھنگڑا ڈالنے شروع کردیتے ہیں کہ یہ جو سائنسدانوں نے آج دریافت کیا ہے وہ تو قرآن(یا کوئی اور مذہبی کتاب) نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا۔۔۔۔۔ کل ہی مَیں بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم دیکھ رہا تھا ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے بارے میں۔۔۔۔۔ کچھ مریضوں کے بارے میں تھی کہ وہ اتنے عرصہ سے عطیہ کردہ دل کا انتظار کررہے تھے اور موت زیادہ دور نہیں تھی۔۔۔۔۔ اُن میں سے ایک مریض غالباً ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔۔۔۔۔ اُس نے اپنے بارے میں بتایا کہ مَیں چار پانچ سیڑھیوں سے زیادہ چڑھ نہیں سکتا، پانچ دس منٹ سے زیادہ چل نہیں سکتا۔۔۔۔۔ اگر میرا علاج ہوجائے اور مجھے کوئی عطیہ کردہ دل مل جائے تو مَیں دُنیا بھر میں جا جا کر بتاؤں گا کہ خدا کتنا عظیم ہے۔۔۔۔۔ مَیں سوچ رہا تھا ایسی بھی کیا ناشکری۔۔۔۔۔ پھر آج صبح ہی کافرہ صاحبہ کا ایک یک سطری ٹوئیٹ دیکھا۔۔۔۔۔ اللہ کا شکر ہے ہیلمٹ کی وجہ سے میری جان بچ گئی :cwl: ;-) :cwl: ۔۔۔۔۔ Kibbutz, Westermarck Effect

    بلیک شیپ صاحب،
    اس مرتبہ آپ نے مجھے مایوس نہیں کیا ہے اسکا شکریہ
    جس بات پر میں سمجھتا ہوں بات کرنے کی گنجائش موجود ہے وہ راے کے موجود ہونےکے پیچھے چھپے عوامل کی ہے
    آپ نے انسیسٹ کے حوالے سے راے کو انسانی ذہن کی پیچیدگی سے جوڑا ہے اور جس طرح لوگوں میں موسیقی اور دیگر موضوعات میں راے فرق پایا جاتا ہے انسیسٹ کے حوالے سے راے کو بھی اسی خانہ میں رکھا ہے اور مذھب کو تقریبا ایک غیر عامل قرار دیا ہے
    میرے خیال میں راے کے ہونے میں معاشرت نفسیات جبلت مفادات تسکین کے ساتھ ساتھ مذھب کا کردار بہت اہم ہے اور مذھب کو غیر اہم سمجھنا ایک حقیقت سے آنکھیں چرانے والی بات ہو سکتی ہے میرے اپنے خیال میں سائنس کی ترقی میں جس علم نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے وہ ہے شماریات، شماریات کی افادیت پر مضمون لکھنے کا تو میرا ارادہ نہیں ہے مگر اگر انسانوں کی آرا کو انکے مذھب سے جوڑ کر تجزیہ کیا جائے تو مذھب ایک بھرپور اور شاید فیصلہ کن عامل کے طور پر سامنے آے گا حتی کے راے میں مذھب پر عدم یقین بھی راے کو ایک خاص سمت میں لے جانے کا بایث بنے گا
    اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ مذھب کی وجہ سے لوگوں نے ایک خاص طریقه سے معاملہ کا جائزہ لیا اور اپنی راہے قائم کی بلکہ اسکا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مذھب نے لوگوں کو ایک خاص راے قائم کرنے کے تکلیف دہ عمل سے نجات دلاکر ان کو ایک خاص موقف عطا کردیا جس کو مذھب کا ماننے والا بلا چوں چراں کے اپنا لیتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ راے بننے کا عمل کیا تھا مگر مذھب اس راے کے پیچھے ایک اہم عامل کے طور پر کھڑا نظر آتا ہے

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #31

     آپ دورِ قدیم کے بادشاہوں، شہنشاہوں وغیرہ کے آئینے میں عام آدمی کی زندگی کا عکس نہیں دیکھ سکتے

    زندہ رود صاحب،آپ کی یہ بار بار کی دلیل کہ بادشاہوں میں انسسٹ موجود تھا عام خلقت میں نہیں، بلکل بے دلیل ہے۔ زمانہ قدیم میں انسسٹ بہت حد تک ایک عام چیز تھی جسے برا نہی سمجھا جاتا تھا۔ اس بارے بہت سی دلیلیں پیش کی جا سکتیں ہیں ۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں رگ ویدا کی جنسی کہانیاں ہی پڑھ لیں تو انسسٹ کیا جانوروں سے سیکس کی بھی بہت سی ہوشربا کہانیاں پڑھنے کو مل جائیں گیں۔

    اصل سوال تو یہی ہے، کہ انسیسٹ کو غلط قرار دینے میں مذہب کا حصہ ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کون سے مذہب نے کب اس رواج کو ختم کیا۔  میرا ماننا یہ ہے کہ کسی بھی مذہب نے انسانی طرزِ معاشرت میں کبھی کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں کی

    انسسٹ تینوں ابراہیمی مذاہب میں ممنوع ہے اس بارے تینوں کتابوں میں احکامات موجود ہیں۔
    اسی چیز کی ممانعت مطلوب ہو سکتی ہے جو کہ کسی بھی صورت میں اس سے پہلے موجود ہو اس لئے ممانعت ہی انسسٹ کے موجود ہونے کی دلیل ہے۔

    مذاہب نے کیا تبدیل کیا؟؟ ہر مذہب نے اخلاقیات کے اصول وضح کئے ہیں۔ اسلام نے کیا نیا کیا کو دیکھ لیتے ہیں۔ بہت کچھ۔ اسلام نے نسل پرستی کا خاتمہ کیا (بات اسلام کی ہو رہی ہے مسلمانوں کی نہی)۔ شراب کی ممانعت کی۔ پہلی دفعہ غلاموں کے حقوق وضح کئے اور غلامی کے خاتمے کی طرف سافٹ اقدام اٹھائے۔ فئیر جنگ کے لئے اصول واضح کئے جو پہلے کبھی موجود نہ تھے دس احکامات جن میں بچوں بوڑھوں عورتوں اور معذوروں کے قتال کی ممانعت، درختوں کو جلانے یا کاٹنے کی ممانعت، غیر مسلح دشمن پر وار کی ممانعت ، دشمن لاشوں کو مسخ کرنے کی ممانعت وغیرہ۔ سوشل سیکورٹی سسٹم،یعنی ریفارمز کی ایک بہت لمبی لسٹ ہے۔

    یعنی اللہ ۔۔  حالانکہ حضرت محمد سے پچھلے پیغمبر حضرت عیسی نے خدا کے لئے یہ نام استعمال نہیں کیا تھا تو یہ الگ سوال ہے کہ یہ نام پھر ایجاد کس نے کیا۔

    اس بارے مظبوط دلائل موجود ہیں کہ موسیؑ نے بھی خدا کے لئے اللہ یا بہت حد تک اس سے ملتا جلتا نام ہی استعمال کیا تھا۔ توریت یا بائیبل پیغمبران کی خود لکھی کتابیں نہیں ہیں بلکہ ان کے صحابہ کے الفاظ ہیں ۔ حضرت محمدﷺ سے قبل عرب یہودی قبائل بھی اللہ ہی کہتے تھے۔

    آپ نے عاطف بھائی کے سوال کا جواب نہیں دیا

    خدا نے تو شراب بھی پلا کر بعد میں ممنوع کی۔ بحرحال آدمؑ بارے یہ سوال ٹیکنیکل بنیادوں پر بھی غلط ہے اور اس بارے بھی مشکوک کہ انسسٹ سے نفرت کیا دائمی انسانی فطرت میں تھا یا اس کا سبب انسانی فطرت کے ارتقاء اور پھر وقت کے ساتھ کسی زمانے میں اس کی ممانعت۔

    ویسے مذہبی کتب کے مطابق آدم نے اپنی محدودیت میں رہتے ہوئے انسسٹ کی نئی تشریح بنائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں سارے بچے جوڑوں میں پیدا ہوتے تھے اور ایک پریگنینسی کے بچوں کی آپس میں پیئرنگ نہی ہوئی بلکہ ایک پریگنینسی کے لڑکے کا جوڑا دوسری پریگنینسی کی لڑکی سے بنا۔ بحرحال یہ کہانیاں ہی ہیں شاید۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #32
    بلیک شیپ صاحب، اس مرتبہ آپ نے مجھے مایوس نہیں کیا ہے اسکا شکریہ جس بات پر میں سمجھتا ہوں بات کرنے کی گنجائش موجود ہے وہ راے کے موجود ہونےکے پیچھے چھپے عوامل کی ہے آپ نے انسیسٹ کے حوالے سے راے کو انسانی ذہن کی پیچیدگی سے جوڑا ہے اور جس طرح لوگوں میں موسیقی اور دیگر موضوعات میں راے فرق پایا جاتا ہے انسیسٹ کے حوالے سے راے کو بھی اسی خانہ میں رکھا ہے اور مذھب کو تقریبا ایک غیر عامل قرار دیا ہے میرے خیال میں راے کے ہونے میں معاشرت نفسیات جبلت مفادات تسکین کے ساتھ ساتھ مذھب کا کردار بہت اہم ہے اور مذھب کو غیر اہم سمجھنا ایک حقیقت سے آنکھیں چرانے والی بات ہو سکتی ہے میرے اپنے خیال میں سائنس کی ترقی میں جس علم نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے وہ ہے شماریات، شماریات کی افادیت پر مضمون لکھنے کا تو میرا ارادہ نہیں ہے مگر اگر انسانوں کی آرا کو انکے مذھب سے جوڑ کر تجزیہ کیا جائے تو مذھب ایک بھرپور اور شاید فیصلہ کن عامل کے طور پر سامنے آے گا حتی کے راے میں مذھب پر عدم یقین بھی راے کو ایک خاص سمت میں لے جانے کا بایث بنے گا اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ مذھب کی وجہ سے لوگوں نے ایک خاص طریقه سے معاملہ کا جائزہ لیا اور اپنی راہے قائم کی بلکہ اسکا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مذھب نے لوگوں کو ایک خاص راے قائم کرنے کے تکلیف دہ عمل سے نجات دلاکر ان کو ایک خاص موقف عطا کردیا جس کو مذھب کا ماننے والا بلا چوں چراں کے اپنا لیتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ راے بننے کا عمل کیا تھا مگر مذھب اس راے کے پیچھے ایک اہم عامل کے طور پر کھڑا نظر آتا ہے

    گھوسٹ پروٹوکول صاحب
    عام طور پر یہ سوال  اس فورم کے فنڈوؤں کی طرف سے لادین اور ملحد  افراد کو پوچھا جاتا ہے اور مقصد صرف ان کی تضحیک کرنا ہوتا ہے ….لیکن چونکہ میں آپ کو پی کے پولیٹکس کے زمانے سے جانتا ہوں اس  لئے میں واقعی سمجھتا ہوں کہ آپ کے ذہن میں جینوئن سوالات ہونگے …لہذا حد درجہ مصروفیت کے باوجود میں بھی اس بحث میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں کیونکہ سوال آپ کی طرف سے آیا ہے

    اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں خدا کے بنائے اخلاقیات کے اصولوں اور …ملحدین یعنی انسانوں کے ضابطوں کا موازنہ کرکے جواب دوں تو یہ ممکن نہیں کونکہ یہ کونٹیکسٹ یا فریم آف ریفرنس ہی غلط ہوگا …میری نظر میں مذہب انسان کی اپنی ایجاد ہے …اور یہ انسانی ارتقاء کا ایک جزو ہے …یہاں میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں …پہلی مثال عیسائیت کا مذہب کے طور پر سامنے آنا ہے …اور دوسری مثال  کمیونزم

    حضرت عیسیٰ کو تو حضرت محمد کی طرح سالوں تبلیغ کا موقع نہیں ملا تھا …ان کا چاند تو کچھ دنوں کے لیے نکلا اور پھر غائب ہوگیا …یعنی بقول شاعر ..اڑنے بھی پائے کہ گرفتار ہم ھوئے ……انہوں نے اپنے دوستوں کو اپنا تعارف  ایک مسیحا کے طور پر  کروایا …مگر حضرت عیسیٰ کی موت کے بعد …ان کے پیروکاروں کے پاس نہ کوئی کتاب تھی نہ حدیثوں کا خزانہ ….اور نہ ہی ایک مذہب کے لوازمات

    عیسائیت کے ایک مذہب کے  طور پر سامنے آنے میں حضرت عیسیٰ کا کردار کم اور سینٹ پیٹر کا زیادہ ہے جس نے ایک چرچ قائم کیا …پادری بھرتی کیے اور جگہ جگہ عیسیٰ کا پیغام پونہچانا شروع کیا …پیٹر نے ایک تحریک شروع کیا تھی …پیٹر کو بھی صلیب پر الٹا لٹکا کر مار دیا گیا تھا ..مگر تحریک کو روکا نہ جاسکتا تھا …عیسائیت میں سینٹ پیٹر کو پہلا پوپ مانا جاتا ہے …حضرت عیسیٰ کی  موت کے  تین سو سال تک روم کی وسیع و عریض سلطنت میں عیسائیت غیر قانونی تھی …اور پیگنزم سرکاری مذہب کے طور پر رائج تھا ….لیکن عیسائیت کی تحریک زور پکڑ چکی تھی …روم کے بادشاہ کونسٹنٹین نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ اس تحریک کو روکنا ناممکن تھا …لہٰذا اپنے اقتدار کے لیے اس نے عیسائی چرچ کے ساتھ سمجھوتہ کیا …..عیسائیت کو سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا گیا اور پرانے مذہب کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ….بادشاہ نے  سن تین سو پچیس بعد از مسیح میں ایک کانفرنس طلب کی جسے کونسل آف نسائے کا نام دیا جاتا ہے جس میں حکومتی عہدے داروں اور عیسائی پادریوں نے شرکت کی..اور اس کانفرنس میں عیسائیت کے بنیادی ارکان اور دیگر لوازمات کا تعین کیا گیا …اس سے پہلے تک عیسائیت کی تعلیمات ایک نہ تھیں ..کچھ لوگ عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ..کچھ خدا کہتے تھے …نماز کیسے پڑھنی ہے وہ طریقہ بھی ایک نہ تھا …چرچ کا کیا مذہبی کردار ہوگا یہ طے نہ تھا اور سب سے اہم کہ بادشاہ کی مذہب میں کیا حیثیت ہوگی وغیرہ وغیرہ
    کونسل آف نسائے نے مذہب کے اصول مرتب کیے …مثلاً ایسٹر کا دن کونسا  ہوگا …عبادت کس دن ہوگی …چونکہ عیسائیت ایک باقاعدہ مذہب کے طور پر وجود نہ رکھتی تھی اس لیے اس کونسل نے پرانے مذہب یعنی پیگنزم کی کافی چیزیں ادھار لے کر عیسائیت میں ڈال دیں …مثلاً پرانے مذہب میں سورج کی پوجا اتوار (سن ڈے) کو ہوتی تھی …لہذا عیسائیت میں عبادت کا دن بھی سنڈے کو ہی رکھا گیا …اور بادشاہ کو مذہب کے محافظ کا درجہ دے دیا گیا …اور وہی لوگ جو بادشاہ کے خلاف تحریک چلا رہے تھے وہ “بادشاہ کی جے ہو” کے نعرے لگانے لگے
    اس تمہید کا مقصد تاریخ کا لیکچر دینا نہیں بلکہ یہ بتانا تھا کہ خدا نے کچھ نہیں بھیجا بلکہ ایک تحریک چلی …لوگ پہلے سے ہی عیسائیت سے آگاہ تھے ..لہذا جب اسے سرکاری طور پر نافذ کیا گیا تو  لوگوں کے لیے اسے قبول کرنا مشکل نہ تھا …مقصد صرف تھا کہ دیگر اقلیتی مذاہب کا قلع قمع کرکے بزور طاقت سارے معاشرے کو ایک بڑے مذہب کی چھتری تلے جمع کردیا جاۓ

    اسلام بھی کوئی مختلف طریقے سے نہیں آیا ..لوگ اللہ یعنی  کعبہ کے سب سے بڑے بت کی پوجا کرتے تھے …بس ایک معمولی ترمیم یہ کی گئی کہ کہا گیا کہ اللہ ایک بت  نہیں بلکہ ان دیکھی طاقت ہے ..مگر نام وہی رہنے دیا گیا …مکہ اور مدینہ کے عیسائی پہلے بھی روزے رکھتے تھے ..لہذا اسلام میں اسے تیس دن کا دورانیہ دیا گیا …قربانی پہلے بھی ہوتی تھی …حج کے لیے لوگ پہلے بھی مکہ آتے تھے ..ممولی ترمیم یہ کی گئی کہ اس کی وجہ ابراہیم کی قربانی وغیر قرار دی گئی مگر رسم برقرار رہی …عیسائی اور یہودی نماز پڑھتے تھے …اسلام نے ترامیم کرکے روزانہ پانچ نمازیں قائم کردیں …خیرات صرف اسلام نے متعارف نہیں کروائی …پہلے بھی سخی  دل لوگ دوسرے انسانوں کی مدد کیا کرتے تھے ..بس یہاں سے خیرات اور زکواۃ کا تصور آیا …لہذا مکہ کے لوگوں کو اس زمانے میں موجود رسومات سے بھرپور معمولی ترامیم شدہ ایک پیکج دیا گیا جسے ان لوگوں کے لیے تسلیم کرنا مشکل نہ تھا …لہذا مذاہب کوئی خلائی مخلوق کے قوانین نہیں تھے بلکہ اسی زمانے میں وہ پہلے بی کسی نہ کسی شکل میں رائج تھے یا پریکٹس کیے جاتے تھے …مذاہب صرف اس وقت کے بادشاہ یا کسی اور شخص کے ذہن میں موجود ایک خاکے کی عملی اشکال تھیں جن کے ذریعے وہ ملک کو یا معاشرے کو بدلنا چاہتے  تھے…چونکہ پرانے زمانے میں لوگوں کو خدا کے بارے میں بہت تجسس تھا …اس لیے اخلاقیات کے تمام قوانین یا پیمانوں کے پیچھے خدا کا نام لگا کر انہیں عام پبلک کو بیچنا بہت آسان بن جاتا تھے
    مصر  کے فراعین  اپنے آپ کو خدا کہتے تھے اور اپنے قوانین ملک میں نافذ کرتے تھے …مگر خدا مر بھی جاتا تھا …لہذا بعد میں زہین حضرات نے اپنے آپ کو خدا کہلوانے  کی بجاۓ خدا کے نمائندے کے طور پر متعارف کروانا شروع کردیا ..مگر مقصد طاقت کا حصول ہی تھا اور اپنی ویژن علاقے میں نافذ کرنا تھا

    ماں اور بہن وغیرہ سے جسنی تعلقات کا بھی یہی معاملا ہے …انسانیت  کے ابتدائی ادوار میں انسسٹ موجود تھی …لیکن جیسے جیسے انسان مہذب ہونا شروع ہوا …وہ کم ہونا شروع ہوئی  اور پھر نہ ہونے کے برابر ہوگئی ..یہ بلکل نہیں تھا کہ عام پبلک ماں اور بہن سے سیکس کرنا چاہتی تھی مگر کوئی مذہب آکر ان کو روک رہا تھا ….جیسا کہ میں نے تمہید سے واضح کیا کہ مذہب زمانہ وقت میں موجود رسومات اور قوانین کو معمولی رد و بدل سے ایک پیکج کی شکل میں سامنے لاتا تھا ….جیسا کہ شراب کے کیس میں تھا ….اسلام حضرت محمد کے ذہن میں موجود معاشرے کی ایک شبیه تھا ..وہ شاید خود شراب کو ناپسند کرتے تھے…خود رحمدل تھے اور لیڈر بن کر معاشرے میں بھی وہی خصوصیات دیکھنا چاہتے تھے  (اور وہ شاید واحد ایسے فرد نہ تھے) اس لیے پہلے کہا کہ کہ شراب پی کر مسجد میں نہ آؤ ..اور جب پبلک ذہنی طور پر تیار تھی اور کوئی حضور کو طاقت کو چلینج کرنے کی پوزیشن میں تھا …اسے ممنوع کردیا گیا …مدینے کے یہودی پہلے ہی پورک نہ کھاتے تھے …اس لیے یہودیوں کی اس ریت کو اسلام میں بھی برقرار رکھا گیا

    دوسری  مثال کمیونزم کی ہے …روس اور چین میں معاشرہ پہلے ہی بے چین تھا …وہاں مزدوروں کے حقوق کی تحریکیں چل رہی تھیں ..لہذا جب کمیونزم ایک مذہب کے ہی انداز میں آیا تو معاشرے نے قبول کیا…کمیونزم …مذہب کے بانی کی طرح …کچھ افراد کے نظریات پر مبنی تھا جسے کہ تحریک کی شکل میں چلایا گیا اور ایک دن اسے سرکاری نظام کا درجہ دے دیا گیا اور باقی مخالف نظریات کو بزور طاقت ختم کردیا گیا

    اگر حقیقی انداز میں دیکھا جاۓ تو ابتدائی مذاہب میں تو ماں بہن سے سیکس کی کوئی خاص پابندی نہیں رہی …بقول قرآن …جس الله نے چھ  آٹھ دن میں زمین بنائی اور دو چار دن میں آسمان بنایا اس کے لیے مشکل نہیں تھا کہ وہ ایک آدم اور حوا بنانے کی بجاۓ دو قبیلے بنا دیتا اور یوں ماں اور بہن وغیر سے سیکس  کی نوبت نہ آتی

    اور تو اور حضرت ابراھیم نے حضرت سارا ..یعنی اپنی سوتیلی بہن سے شادی کی جس سے حضرت اسحاق پیدا ھوئے …یعنی مذاہب کا تو انسسٹ کی روک تھام میں کوئی خاص کردار نہیں رہا …چودہ سو سال پہلے جب قرآن نے کہا کہ بہن نامحرم ہے تو شاید الله کو کسی نے زمین سے ای میل  نہیں کی کہ ..پرور کائنات… یہ پریکٹس تو زمین پر پہلے ہی غالب اکثریت فالو کر رہی ہے
    بلکہ میں تو کہوں کہ جب حضور نے اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارث کی بیوی حضرت زینب سے شادی فرمائی تو مکہ کے قبائل میں بے چینی پھیل گئی …یہ روایت بت پرستی کے زمانے سے ان میں موجود نہ تھی …اگرچہ حضور نے خونی اور غیر خونی رشتوں کے بارے میں فرق بتا کر انہیں رام کرنے کی کوشش کی کہ اللہ کے نزدیک صرف حقیقی بیٹے کی بیوی سے شادی حرام ہے اور الله مثال قائم کرکے بتانا چاہتا تھا  …مگر سرگوشیاں ہوتی رہیں ….جس پر حضور کو خدا سے …بذریعہ حضرت جبرئیل …ایک اور آیت منگوا کر قصہ ختم کرنا پڑا کہ آئندہ کسی کو منہ بولا بیٹا اور بیٹی بنانا ہی غیر قانونی ہے

    میں زندہ رود کی بات سے متفق ہوں کہ انسانی ارتقاء نے رشتوں کی پہچان دی ہے …ان کی تعظیم کرنا سکھایا ہے …سیکس ہمیشہ سے …اور آج بھی …چھپ کر کیا جاتا ہے ..اسے ہوس سے منسلک رکھا جاتا ہے …ماں جوکہ اولاد کی محبت میں آگ میں بھی کود سکتی ہے …اس لازوال جذبے کو سیکس سے جوڑنا ایک عام انسان کے  لیے ممکن نہ تھا …اور یوں یہ ایک اکثریتی روایت بنتی گئی …بعد میں آنے والے مذاہب نے اسے قانونی شکل دے دی اور اقلیتی گروہوں کے لیے بھی اسے ممنوع قرار دے دیا …لیکن سوال یہ ہے کیا اسلام آنے سے پہلے عرب خطے میں..یعنی مکہ اور مدینہ میں …. بہنوں اور ماؤں سے شادیاں عام تھیں جس کو روکا جارہا تھا؟ جواب نفی میں ہے

    آخر میں میں آپ کے دوسرے سوالات کی طرف آتا ہوں کہ ایک لا مذہب کیا کرے گا اگر اس کے اپنے گھر میں یہ مسائل درپیش ہوں …آپ  نے خود ہی اس بات کا جواب بھی دے دیا تھا
    ملحد حضرات معاشرے کا حصہ ہیں …انہی روایات کو فالو کرتے ہیں جوکہ معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں …چاہے(بقول آپ کے)  وہ مذہب سے آئیں ہیں یا کہ  انسانی ایوولوشن کا حصہ ہیں
    اگر میرے بچے ہوں اور وہ آپس میں جسنی تعلقات قائم کرلیں …تو چونکہ میں اس فعل کو ذاتی طور پر ناپسند کرتا ہوں …اس لیے میں  انہیں اس عمل کے غیر فطری ہونے پر لیکچر دے سکتا ہوں …رشتوں کی تعظیم سے آگاہی دے سکتا ہوں …معاشرے میں اس عمل کے سامنے آنے کے  مضمرات پر روشنی ڈال سکتا ہوں …انہیں سختی سے ایسا نہ کرنے کی تلقین کر سکتا ہوں …غصہ کر سکتا ہوں …انہیں اپنی ناراضگی کے بارے میں بتا سکتا ہوں …اور اسی قسم کے اور اقدامات کرسکتا ہوں …مگر اگر آپ مجھ سے یہ توقع کرتے ہیں کہ میں گنڈاسے سے ان کا سر قلم کردوں گا تو یہ عمل میرے ممکنہ اقدامات میں شامل نہیں ہے …لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر میرے بالغ بچے اس عمل میں پر جائیں تو میرے بس میں کچھ بھی نہیں ہے ….صرف ان سے تعلقات ختم کرسکتا ہوں ..تاہم میں ذاتی طور پر اس عمل کو غیر فطری  سمجھتا ہیں ..غلط سمجھتا ہوں ..اور اس کے غیر فطری ہونے کا ماخذ مذہب کو نہیں سمجھتا …البتہ مذہب کی اس میں کوئی معمولی کنٹریبیوشن سے انکار بھی نہیں کرتا

    ٹریفک سگنل کی گھسی پٹی مثال بھی یہاں دی جاسکتی ہے ….میرے گھر سے مین  سڑک تک دو سٹاپ سائن ہیں …جہاں میں نے آج تک کوئی پولیس کا اہلکار نہیں دیکھا …لیکن میں دل سے یہ یقین رکھتا ہوں کہ سٹاپ سائن فائدہ مند ہے …اس لیے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے یا نہیں …میں ان پر رکتا ہوں …اسی طرح سکول زون میں بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار کو دل سے فلو کرتا ہوں کیونکہ مجھے اندازہ ہے کہ اگر تیز رفتاری کی اور کبھی کوئی معصوم بچہ  میری گاڑی سے زخمی ہوگیا یا مر گیا  تو میں ساری زندگی اپنے آپ کو معاف نہ کرسکوں گا …اسی طرح انسسٹ کو غیر فطری سمجھتا ہوں ….اور دل سے یقین رکھتا ہوں ..(میڈیکل ریسرچ اور ثبوت تو بعد میں آیا ہے) ..لیکن آپ اس انسان کے بارے میں کیا کہیں گے جوکہ ٹریفک سگنل توڑتا ہے کیونکہ وہ دل سے ان پر یقین نہیں رکھتا اور پولیس موجود نہ ہو تو سٹاپ سائن پر بھی نہیں رکتا؟ اگر ایک مذہبی شخص صرف رشتوں کے تقدس پر صرف اس لیے یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک خدا کا قانون ہے ….تو لازمی ہے کہ جہاں ایمان ڈھیلا ہوا وہاں بہنوں اور ماؤں کے بارے میں جنسی جذبات ابل پڑیں ..کیونکہ یقین دل سے نہیں بحالت مجبوری ہے ….اخر آدم کو بھی تو اللہ نے کہا تھا کہ فلاں سیب نہ کھانا …لیکن خدا کے احکامات تو بندا آئے دن توڑتا رہتا ہے …صحیح کہ غلط؟
    اسی لیے مجھے جنت کی آس  میں کیے گئے نیکی کے کاموں کی کوئی قدر نہیں …کیا آپ ریپ نہیں کرتے …کسی کو قتل نہیں کرتے …فراڈ نہیں کرتے کیونکہ آپ کو اس کے بدلے جنت ملے گی؟ اگر جنت نہ ہو یاصلے  کی کوئی امید نہ ہو  تو کیا آپ یہ کاروائیاں کریں  گے؟

    اب میرا سوال آپ سے بھی ہے (اور ان تمام افراد سے بھی جوکہ اس تھریڈ میں حصہ لے رہے ہیں)
    ایک مذہب کے مانے والے کی حیثیت سے …اگر کوئی  اپنے بچوں کو جنسی عمل میں مصروف دیکھے  تو اس  کا رد عمل کیا ہوگا …اور کیا آپ ان کو روکیں گے؟ اگر روکیں گے تو کیا کہ کر روکیں گے؟ (براۓ مہربانی …اس جواب سے پرہیز فرمائیں کہ ایک مذہب کے ماننے والے کے  گھرانے  میں ایسا ہونا ناممکن ہے)

    آخر میں افلاطون کا ایک فلسفیانہ سوال یا گتھی فورم کی خدمت میں پیش ہے
    کیا کوئی عمل خدا کے کہنے سے اچھا بن جاتا ہے یا کہ خدا اس اس عمل کو اس لیے اچھا کہ رہا ہے کہ بذات خود وہ عمل اچھا ہے؟

    پس تحریر
    آپ خود کینیڈا میں ہیں …کچھ حضرات یورپ میں ہیں …یہاں لوگ پاکستان کی نسبت مذہب سے خاصے دور ہیں …تو کیا لبرل معاشروں میں بہن اور ماں سے تعلقات قائم کرنا عام ہے اور جب اکا  دکا واقعات سامنے آتے ہیں تو کیا لبرل معاشرے واہ واہ کرتے ہیں؟

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #33

    زندہ رود صاحب،آپ کی یہ بار بار کی دلیل کہ بادشاہوں میں انسسٹ موجود تھا عام خلقت میں نہیں، بلکل بے دلیل ہے۔ زمانہ قدیم میں انسسٹ بہت حد تک ایک عام چیز تھی جسے برا نہی سمجھا جاتا تھا۔ اس بارے بہت سی دلیلیں پیش کی جا سکتیں ہیں ۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں رگ ویدا کی جنسی کہانیاں ہی پڑھ لیں تو انسسٹ کیا

    عباسی صاحب۔۔۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ قدیم تاریخ میں عام لوگوں کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں ملتا، دوسری طرف اتنی قطعیت سے کہہ رہے ہیں کہ عام لوگوں میں بھی انسیسٹ موجود تھا۔۔۔ اس کو کیا سمجھا جائے۔۔؟  

    انسسٹ تینوں ابراہیمی مذاہب میں ممنوع ہے اس بارے تینوں کتابوں میں احکامات موجود ہیں۔ اسی چیز کی ممانعت مطلوب ہو سکتی ہے جو کہ کسی بھی صورت میں اس سے پہلے موجود ہو اس لئے ممانعت ہی انسسٹ کے موجود ہونے کی دلیل ہے۔

    آپ سے اس بچگانہ دلیل کی امید نہیں تھی، انسیسٹ اسلام میں منع ہے تو کیا اسلام سے پہلے لوگ انسیسٹ کرتے تھے۔۔؟؟ اسلام میں سور حرام ہے تو کیا عرب کے لوگ اسلام سے پہلے سور کھاتے تھے۔۔؟

    مذاہب نے کیا تبدیل کیا؟؟ ہر مذہب نے اخلاقیات کے اصول وضح کئے ہیں۔ اسلام نے کیا نیا کیا کو دیکھ لیتے ہیں۔ بہت کچھ۔ اسلام نے نسل پرستی کا خاتمہ کیا (بات اسلام کی ہو رہی ہے مسلمانوں کی نہی)۔ شراب کی ممانعت کی۔ پہلی دفعہ غلاموں کے حقوق وضح کئے اور غلامی کے خاتمے کی طرف سافٹ اقدام اٹھائے۔ فئیر جنگ کے لئے اصول واضح کئے جو پہلے کبھی موجود نہ تھے دس احکامات جن میں بچوں بوڑھوں عورتوں اور معذوروں کے قتال کی ممانعت، درختوں کو جلانے یا کاٹنے کی ممانعت، غیر مسلح دشمن پر وار کی ممانعت ، دشمن لاشوں کو مسخ کرنے کی ممانعت وغیرہ۔ سوشل سیکورٹی سسٹم،یعنی ریفارمز کی ایک بہت لمبی لسٹ ہے۔۔

    عباسی صاحب۔۔۔ میں طرزِ معاشرت تبدیل کرنے کی بات کررہا تھا، یہاں بھی آپ نے جو باتیں گنوائی ہیں، ان کی اسلام اور اس کے بانی خود خلاف ورزی کرتے رہے، بات کسی اور طرف نکل جائے گی، اگر آپ نے اصرار کیا تو اسلام سے حقائق آپ کے سامنے پیش کردوں گا کہ کس طرح پیغمبر اسلام کی زندگی اور بعد میں غلاموں، لونڈیوں کی خرید و فروخت ہوتی رہی، کس طرح حضور نے یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر کے کھجوروں کے باغات جلادیئے، کس طرح بنی نضیر کے بچوں بوڑھوں تک کو قتل کردیا گیا۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔

    جہاں تک شراب کی ممانعت کی بات ہے تو اگر میں کہوں کہ اسلام لوگوں کو شراب سے باز رکھنے میں ناکام رہا تو آپ کہیں گے کہ مذہب گارنٹی تھوڑی دیتا ہے کہ اپنے پیروکاروں کو کسی فعل سے باز رکھے گا، دوسری طرف اگر میں کہوں کہ مسلمانوں کے انسیسٹ سے باز رہنے کی وجہ اسلام نہیں ہے تو آپ کہیں گے کہ نہیں یہ تو اسلام کا کارنامہ ہے کہ اس نے سبھی مسلمانوں کو اس فعل سے باز رکھا ہوا ہے۔۔۔

    بقول سہیل وڑائچ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔۔۔؟؟ 

    اس بارے مظبوط دلائل موجود ہیں کہ موسیؑ نے بھی خدا کے لئے اللہ یا بہت حد تک اس سے ملتا جلتا نام ہی استعمال کیا تھا۔ توریت یا بائیبل پیغمبران کی خود لکھی کتابیں نہیں ہیں بلکہ ان کے صحابہ کے الفاظ ہیں ۔ حضرت محمدﷺ سے قبل عرب یہودی قبائل بھی اللہ ہی کہتے تھے۔

    یہودی آج بھی موجود ہیں، ان سے پوچھ لیں، وہ اپنے خدا کو اللہ نہیں کہتے،  عرب کے لوگ اسلام سے پہلے بھی خدا کو اللہ کہتے تھے، اصولی طور پر خدا کا نام اس وقت کے آخری پیغمبر یعنی حضرت عیسیٰ سے آنا چاہیے تھا، مگر عیسائی اللہ کا نام استعمال نہیں کرتے، پھر یہ نام کس نے اور کب گھڑا اور کب مستعمل ہوا۔۔؟ اور اسلام نے اسی کو اٹھا کر آگے استعمال کرنا شروع کردیا۔۔

    خدا نے تو شراب بھی پلا کر بعد میں ممنوع کی۔ بحرحال آدمؑ بارے یہ سوال ٹیکنیکل بنیادوں پر بھی غلط ہے اور اس بارے بھی مشکوک کہ انسسٹ سے نفرت کیا دائمی انسانی فطرت میں تھا یا اس کا سبب انسانی فطرت کے ارتقاء اور پھر وقت کے ساتھ کسی زمانے میں اس کی ممانعت۔

    ویسے مذہبی کتب کے مطابق آدم نے اپنی محدودیت میں رہتے ہوئے انسسٹ کی نئی تشریح بنائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں سارے بچے جوڑوں میں پیدا ہوتے تھے اور ایک پریگنینسی کے بچوں کی آپس میں پیئرنگ نہی ہوئی بلکہ ایک پریگنینسی کے لڑکے کا جوڑا دوسری پریگنینسی کی لڑکی سے بنا۔ بحرحال یہ کہانیاں ہی ہیں شاید۔

    عباسی صاحب۔۔ دو غلطیاں مل کر صحیح نہیں ہوجاتیں، اگر خدا نے پہلے انسانوں کو شراب پلا کر بعد میں حرام کی تو آپ اس کا جواب بھی ڈھونڈ کر بتا دیجئے کہ وہ ایسا کیوں کرتا رہا۔۔ خیر مدعے کی بات تو یہ ہے کہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر کھڑا ہے کہ خدا اگر دورِ آدم میں انسیسٹ کرواتا رہا تو وہ تب غلط کیوں نہیں تھا۔۔ 

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #34
    زندہ رود صاحب، میرا سوال کرنے کا مقصد انسیسٹ کے حوالے سے لا مذھب کا موقف سمجھنا تھا اور یہ جاننا تھا کہ کسی حقیقی صورتحال میں اسکا جو بھی ردعمل ہوگا وہ کیا ہوگا اور کیوں ہوگا- آپ کے استدلال میں چھپے آپ کے موقف کو اگر میں درست سمجھا ہوں تو وہ یہ ہے کہ آپ بھی انسیسٹ کو شاید درست نہیں سمجھتے ہیں اور اگر کسی حقیقی صورتحال سے سابقہ پڑ جائے تو آپ ایمان کے تیسرے درجہ کے مطابق اس کو دل میں تو برا جانیں گے مگر اس پر کسی سخت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کریں گے . میں یہاں ہر گز جج بن کر اس سوچ پر فتویٰ دینے کے کا قائل نہیں ہوں مقصد سوچ کو جاننا تھا جو شاید حاصل ہوگیا ہے

    گھوسٹ صاحب۔۔۔ میں انسیسٹ کو بالکل برا جانتا ہوں اور جہاں تک آپ کا حقیقی صورتحال سے سامنا ہونے والی بات کا ذکر ہے تو جو میں کہنا چاہتا تھا وہی قرار صاحب نے کہہ دیا ہے اور ساتھ انہوں نے ایک سوال بھی پوچھا ہے جو میں دہرا دیتا ہوں کہ اگر ایک مذہبی آدمی کی اولاد انسیسٹ میں ملوث ہوتی ہے تو مذہبی شخص انہیں کیسے روکے گا، کیونکہ انسیسٹ میں ملوث ہونے والا (اولاد) بھی مذہبی ہے اور خدا کا ڈراوا وہ پہلے سے جانتا ہے اس کے بعد مذہبی شخص کے پاس اپنی اولاد کو روکنے کا کیا آپشن رہ جاتا ہے۔۔۔؟

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #35
    گھوسٹ پروٹوکول صاحب عام طور پر یہ سوال اس فورم کے فنڈوؤں کی طرف سے لادین اور ملحد افراد کو پوچھا جاتا ہے اور مقصد صرف ان کی تضحیک کرنا ہوتا ہے ….لیکن چونکہ میں آپ کو پی کے پولیٹکس کے زمانے سے جانتا ہوں اس لئے میں واقعی سمجھتا ہوں کہ آپ کے ذہن میں جینوئن سوالات ہونگے …لہذا حد درجہ مصروفیت کے باوجود میں بھی اس بحث میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں کیونکہ سوال آپ کی طرف سے آیا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں خدا کے بنائے اخلاقیات کے اصولوں اور …ملحدین یعنی انسانوں کے ضابطوں کا موازنہ کرکے جواب دوں تو یہ ممکن نہیں کونکہ یہ کونٹیکسٹ یا فریم آف ریفرنس ہی غلط ہوگا …میری نظر میں مذہب انسان کی اپنی ایجاد ہے …اور یہ انسانی ارتقاء کا ایک جزو ہے …یہاں میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں …پہلی مثال عیسائیت کا مذہب کے طور پر سامنے آنا ہے …اور دوسری مثال کمیونزم حضرت عیسیٰ کو تو حضرت محمد کی طرح سالوں تبلیغ کا موقع نہیں ملا تھا …ان کا چاند تو کچھ دنوں کے لیے نکلا اور پھر غائب ہوگیا …یعنی بقول شاعر ..اڑنے بھی پائے کہ گرفتار ہم ھوئے ……انہوں نے اپنے دوستوں کو اپنا تعارف ایک مسیحا کے طور پر کروایا …مگر حضرت عیسیٰ کی موت کے بعد …ان کے پیروکاروں کے پاس نہ کوئی کتاب تھی نہ حدیثوں کا خزانہ ….اور نہ ہی ایک مذہب کے لوازمات عیسائیت کے ایک مذہب کے طور پر سامنے آنے میں حضرت عیسیٰ کا کردار کم اور سینٹ پیٹر کا زیادہ ہے جس نے ایک چرچ قائم کیا …پادری بھرتی کیے اور جگہ جگہ عیسیٰ کا پیغام پونہچانا شروع کیا …پیٹر نے ایک تحریک شروع کیا تھی …پیٹر کو بھی صلیب پر الٹا لٹکا کر مار دیا گیا تھا ..مگر تحریک کو روکا نہ جاسکتا تھا …عیسائیت میں سینٹ پیٹر کو پہلا پوپ مانا جاتا ہے …حضرت عیسیٰ کی موت کے تین سو سال تک روم کی وسیع و عریض سلطنت میں عیسائیت غیر قانونی تھی …اور پیگنزم سرکاری مذہب کے طور پر رائج تھا ….لیکن عیسائیت کی تحریک زور پکڑ چکی تھی …روم کے بادشاہ کونسٹنٹین نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ اس تحریک کو روکنا ناممکن تھا …لہٰذا اپنے اقتدار کے لیے اس نے عیسائی چرچ کے ساتھ سمجھوتہ کیا …..عیسائیت کو سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا گیا اور پرانے مذہب کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ….بادشاہ نے سن تین سو پچیس بعد از مسیح میں ایک کانفرنس طلب کی جسے کونسل آف نسائے کا نام دیا جاتا ہے جس میں حکومتی عہدے داروں اور عیسائی پادریوں نے شرکت کی..اور اس کانفرنس میں عیسائیت کے بنیادی ارکان اور دیگر لوازمات کا تعین کیا گیا …اس سے پہلے تک عیسائیت کی تعلیمات ایک نہ تھیں ..کچھ لوگ عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ..کچھ خدا کہتے تھے …نماز کیسے پڑھنی ہے وہ طریقہ بھی ایک نہ تھا …چرچ کا کیا مذہبی کردار ہوگا یہ طے نہ تھا اور سب سے اہم کہ بادشاہ کی مذہب میں کیا حیثیت ہوگی وغیرہ وغیرہ کونسل آف نسائے نے مذہب کے اصول مرتب کیے …مثلاً ایسٹر کا دن کونسا ہوگا …عبادت کس دن ہوگی …چونکہ عیسائیت ایک باقاعدہ مذہب کے طور پر وجود نہ رکھتی تھی اس لیے اس کونسل نے پرانے مذہب یعنی پیگنزم کی کافی چیزیں ادھار لے کر عیسائیت میں ڈال دیں …مثلاً پرانے مذہب میں سورج کی پوجا اتوار (سن ڈے) کو ہوتی تھی …لہذا عیسائیت میں عبادت کا دن بھی سنڈے کو ہی رکھا گیا …اور بادشاہ کو مذہب کے محافظ کا درجہ دے دیا گیا …اور وہی لوگ جو بادشاہ کے خلاف تحریک چلا رہے تھے وہ “بادشاہ کی جے ہو” کے نعرے لگانے لگے اس تمہید کا مقصد تاریخ کا لیکچر دینا نہیں بلکہ یہ بتانا تھا کہ خدا نے کچھ نہیں بھیجا بلکہ ایک تحریک چلی …لوگ پہلے سے ہی عیسائیت سے آگاہ تھے ..لہذا جب اسے سرکاری طور پر نافذ کیا گیا تو لوگوں کے لیے اسے قبول کرنا مشکل نہ تھا …مقصد صرف تھا کہ دیگر اقلیتی مذاہب کا قلع قمع کرکے بزور طاقت سارے معاشرے کو ایک بڑے مذہب کی چھتری تلے جمع کردیا جاۓ اسلام بھی کوئی مختلف طریقے سے نہیں آیا ..لوگ اللہ یعنی کعبہ کے سب سے بڑے بت کی پوجا کرتے تھے …بس ایک معمولی ترمیم یہ کی گئی کہ کہا گیا کہ اللہ ایک بت نہیں بلکہ ان دیکھی طاقت ہے ..مگر نام وہی رہنے دیا گیا …مکہ اور مدینہ کے عیسائی پہلے بھی روزے رکھتے تھے ..لہذا اسلام میں اسے تیس دن کا دورانیہ دیا گیا …قربانی پہلے بھی ہوتی تھی …حج کے لیے لوگ پہلے بھی مکہ آتے تھے ..ممولی ترمیم یہ کی گئی کہ اس کی وجہ ابراہیم کی قربانی وغیر قرار دی گئی مگر رسم برقرار رہی …عیسائی اور یہودی نماز پڑھتے تھے …اسلام نے ترامیم کرکے روزانہ پانچ نمازیں قائم کردیں …خیرات صرف اسلام نے متعارف نہیں کروائی …پہلے بھی سخی دل لوگ دوسرے انسانوں کی مدد کیا کرتے تھے ..بس یہاں سے خیرات اور زکواۃ کا تصور آیا …لہذا مکہ کے لوگوں کو اس زمانے میں موجود رسومات سے بھرپور معمولی ترامیم شدہ ایک پیکج دیا گیا جسے ان لوگوں کے لیے تسلیم کرنا مشکل نہ تھا …لہذا مذاہب کوئی خلائی مخلوق کے قوانین نہیں تھے بلکہ اسی زمانے میں وہ پہلے بی کسی نہ کسی شکل میں رائج تھے یا پریکٹس کیے جاتے تھے …مذاہب صرف اس وقت کے بادشاہ یا کسی اور شخص کے ذہن میں موجود ایک خاکے کی عملی اشکال تھیں جن کے ذریعے وہ ملک کو یا معاشرے کو بدلنا چاہتے تھے…چونکہ پرانے زمانے میں لوگوں کو خدا کے بارے میں بہت تجسس تھا …اس لیے اخلاقیات کے تمام قوانین یا پیمانوں کے پیچھے خدا کا نام لگا کر انہیں عام پبلک کو بیچنا بہت آسان بن جاتا تھے مصر کے فراعین اپنے آپ کو خدا کہتے تھے اور اپنے قوانین ملک میں نافذ کرتے تھے …مگر خدا مر بھی جاتا تھا …لہذا بعد میں زہین حضرات نے اپنے آپ کو خدا کہلوانے کی بجاۓ خدا کے نمائندے کے طور پر متعارف کروانا شروع کردیا ..مگر مقصد طاقت کا حصول ہی تھا اور اپنی ویژن علاقے میں نافذ کرنا تھا ماں اور بہن وغیرہ سے جسنی تعلقات کا بھی یہی معاملا ہے …انسانیت کے ابتدائی ادوار میں انسسٹ موجود تھی …لیکن جیسے جیسے انسان مہذب ہونا شروع ہوا …وہ کم ہونا شروع ہوئی اور پھر نہ ہونے کے برابر ہوگئی ..یہ بلکل نہیں تھا کہ عام پبلک ماں اور بہن سے سیکس کرنا چاہتی تھی مگر کوئی مذہب آکر ان کو روک رہا تھا ….جیسا کہ میں نے تمہید سے واضح کیا کہ مذہب زمانہ وقت میں موجود رسومات اور قوانین کو معمولی رد و بدل سے ایک پیکج کی شکل میں سامنے لاتا تھا ….جیسا کہ شراب کے کیس میں تھا ….اسلام حضرت محمد کے ذہن میں موجود معاشرے کی ایک شبیه تھا ..وہ شاید خود شراب کو ناپسند کرتے تھے…خود رحمدل تھے اور لیڈر بن کر معاشرے میں بھی وہی خصوصیات دیکھنا چاہتے تھے (اور وہ شاید واحد ایسے فرد نہ تھے) اس لیے پہلے کہا کہ کہ شراب پی کر مسجد میں نہ آؤ ..اور جب پبلک ذہنی طور پر تیار تھی اور کوئی حضور کو طاقت کو چلینج کرنے کی پوزیشن میں تھا …اسے ممنوع کردیا گیا …مدینے کے یہودی پہلے ہی پورک نہ کھاتے تھے …اس لیے یہودیوں کی اس ریت کو اسلام میں بھی برقرار رکھا گیا دوسری مثال کمیونزم کی ہے …روس اور چین میں معاشرہ پہلے ہی بے چین تھا …وہاں مزدوروں کے حقوق کی تحریکیں چل رہی تھیں ..لہذا جب کمیونزم ایک مذہب کے ہی انداز میں آیا تو معاشرے نے قبول کیا…کمیونزم …مذہب کے بانی کی طرح …کچھ افراد کے نظریات پر مبنی تھا جسے کہ تحریک کی شکل میں چلایا گیا اور ایک دن اسے سرکاری نظام کا درجہ دے دیا گیا اور باقی مخالف نظریات کو بزور طاقت ختم کردیا گیا اگر حقیقی انداز میں دیکھا جاۓ تو ابتدائی مذاہب میں تو ماں بہن سے سیکس کی کوئی خاص پابندی نہیں رہی …بقول قرآن …جس الله نے چھ آٹھ دن میں زمین بنائی اور دو چار دن میں آسمان بنایا اس کے لیے مشکل نہیں تھا کہ وہ ایک آدم اور حوا بنانے کی بجاۓ دو قبیلے بنا دیتا اور یوں ماں اور بہن وغیر سے سیکس کی نوبت نہ آتی اور تو اور حضرت ابراھیم نے حضرت سارا ..یعنی اپنی سوتیلی بہن سے شادی کی جس سے حضرت اسحاق پیدا ھوئے …یعنی مذاہب کا تو انسسٹ کی روک تھام میں کوئی خاص کردار نہیں رہا …چودہ سو سال پہلے جب قرآن نے کہا کہ بہن نامحرم ہے تو شاید الله کو کسی نے زمین سے ای میل نہیں کی کہ ..پرور کائنات… یہ پریکٹس تو زمین پر پہلے ہی غالب اکثریت فالو کر رہی ہے بلکہ میں تو کہوں کہ جب حضور نے اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارث کی بیوی حضرت زینب سے شادی فرمائی تو مکہ کے قبائل میں بے چینی پھیل گئی …یہ روایت بت پرستی کے زمانے سے ان میں موجود نہ تھی …اگرچہ حضور نے خونی اور غیر خونی رشتوں کے بارے میں فرق بتا کر انہیں رام کرنے کی کوشش کی کہ اللہ کے نزدیک صرف حقیقی بیٹے کی بیوی سے شادی حرام ہے اور الله مثال قائم کرکے بتانا چاہتا تھا …مگر سرگوشیاں ہوتی رہیں ….جس پر حضور کو خدا سے …بذریعہ حضرت جبرئیل …ایک اور آیت منگوا کر قصہ ختم کرنا پڑا کہ آئندہ کسی کو منہ بولا بیٹا اور بیٹی بنانا ہی غیر قانونی ہے میں زندہ رود کی بات سے متفق ہوں کہ انسانی ارتقاء نے رشتوں کی پہچان دی ہے …ان کی تعظیم کرنا سکھایا ہے …سیکس ہمیشہ سے …اور آج بھی …چھپ کر کیا جاتا ہے ..اسے ہوس سے منسلک رکھا جاتا ہے …ماں جوکہ اولاد کی محبت میں آگ میں بھی کود سکتی ہے …اس لازوال جذبے کو سیکس سے جوڑنا ایک عام انسان کے لیے ممکن نہ تھا …اور یوں یہ ایک اکثریتی روایت بنتی گئی …بعد میں آنے والے مذاہب نے اسے قانونی شکل دے دی اور اقلیتی گروہوں کے لیے بھی اسے ممنوع قرار دے دیا …لیکن سوال یہ ہے کیا اسلام آنے سے پہلے عرب خطے میں..یعنی مکہ اور مدینہ میں …. بہنوں اور ماؤں سے شادیاں عام تھیں جس کو روکا جارہا تھا؟ جواب نفی میں ہے آخر میں میں آپ کے دوسرے سوالات کی طرف آتا ہوں کہ ایک لا مذہب کیا کرے گا اگر اس کے اپنے گھر میں یہ مسائل درپیش ہوں …آپ نے خود ہی اس بات کا جواب بھی دے دیا تھا ملحد حضرات معاشرے کا حصہ ہیں …انہی روایات کو فالو کرتے ہیں جوکہ معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں …چاہے(بقول آپ کے) وہ مذہب سے آئیں ہیں یا کہ انسانی ایوولوشن کا حصہ ہیں اگر میرے بچے ہوں اور وہ آپس میں جسنی تعلقات قائم کرلیں …تو چونکہ میں اس فعل کو ذاتی طور پر ناپسند کرتا ہوں …اس لیے میں انہیں اس عمل کے غیر فطری ہونے پر لیکچر دے سکتا ہوں …رشتوں کی تعظیم سے آگاہی دے سکتا ہوں …معاشرے میں اس عمل کے سامنے آنے کے مضمرات پر روشنی ڈال سکتا ہوں …انہیں سختی سے ایسا نہ کرنے کی تلقین کر سکتا ہوں …غصہ کر سکتا ہوں …انہیں اپنی ناراضگی کے بارے میں بتا سکتا ہوں …اور اسی قسم کے اور اقدامات کرسکتا ہوں …مگر اگر آپ مجھ سے یہ توقع کرتے ہیں کہ میں گنڈاسے سے ان کا سر قلم کردوں گا تو یہ عمل میرے ممکنہ اقدامات میں شامل نہیں ہے …لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر میرے بالغ بچے اس عمل میں پر جائیں تو میرے بس میں کچھ بھی نہیں ہے ….صرف ان سے تعلقات ختم کرسکتا ہوں ..تاہم میں ذاتی طور پر اس عمل کو غیر فطری سمجھتا ہیں ..غلط سمجھتا ہوں ..اور اس کے غیر فطری ہونے کا ماخذ مذہب کو نہیں سمجھتا …البتہ مذہب کی اس میں کوئی معمولی کنٹریبیوشن سے انکار بھی نہیں کرتا ٹریفک سگنل کی گھسی پٹی مثال بھی یہاں دی جاسکتی ہے ….میرے گھر سے مین سڑک تک دو سٹاپ سائن ہیں …جہاں میں نے آج تک کوئی پولیس کا اہلکار نہیں دیکھا …لیکن میں دل سے یہ یقین رکھتا ہوں کہ سٹاپ سائن فائدہ مند ہے …اس لیے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے یا نہیں …میں ان پر رکتا ہوں …اسی طرح سکول زون میں بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار کو دل سے فلو کرتا ہوں کیونکہ مجھے اندازہ ہے کہ اگر تیز رفتاری کی اور کبھی کوئی معصوم بچہ میری گاڑی سے زخمی ہوگیا یا مر گیا تو میں ساری زندگی اپنے آپ کو معاف نہ کرسکوں گا …اسی طرح انسسٹ کو غیر فطری سمجھتا ہوں ….اور دل سے یقین رکھتا ہوں ..(میڈیکل ریسرچ اور ثبوت تو بعد میں آیا ہے) ..لیکن آپ اس انسان کے بارے میں کیا کہیں گے جوکہ ٹریفک سگنل توڑتا ہے کیونکہ وہ دل سے ان پر یقین نہیں رکھتا اور پولیس موجود نہ ہو تو سٹاپ سائن پر بھی نہیں رکتا؟ اگر ایک مذہبی شخص صرف رشتوں کے تقدس پر صرف اس لیے یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک خدا کا قانون ہے ….تو لازمی ہے کہ جہاں ایمان ڈھیلا ہوا وہاں بہنوں اور ماؤں کے بارے میں جنسی جذبات ابل پڑیں ..کیونکہ یقین دل سے نہیں بحالت مجبوری ہے ….اخر آدم کو بھی تو اللہ نے کہا تھا کہ فلاں سیب نہ کھانا …لیکن خدا کے احکامات تو بندا آئے دن توڑتا رہتا ہے …صحیح کہ غلط؟ اسی لیے مجھے جنت کی آس میں کیے گئے نیکی کے کاموں کی کوئی قدر نہیں …کیا آپ ریپ نہیں کرتے …کسی کو قتل نہیں کرتے …فراڈ نہیں کرتے کیونکہ آپ کو اس کے بدلے جنت ملے گی؟ اگر جنت نہ ہو یاصلے کی کوئی امید نہ ہو تو کیا آپ یہ کاروائیاں کریں گے؟ اب میرا سوال آپ سے بھی ہے (اور ان تمام افراد سے بھی جوکہ اس تھریڈ میں حصہ لے رہے ہیں) ایک مذہب کے مانے والے کی حیثیت سے …اگر کوئی اپنے بچوں کو جنسی عمل میں مصروف دیکھے تو اس کا رد عمل کیا ہوگا …اور کیا آپ ان کو روکیں گے؟ اگر روکیں گے تو کیا کہ کر روکیں گے؟ (براۓ مہربانی …اس جواب سے پرہیز فرمائیں کہ ایک مذہب کے ماننے والے کے گھرانے میں ایسا ہونا ناممکن ہے) آخر میں افلاطون کا ایک فلسفیانہ سوال یا گتھی فورم کی خدمت میں پیش ہے کیا کوئی عمل خدا کے کہنے سے اچھا بن جاتا ہے یا کہ خدا اس اس عمل کو اس لیے اچھا کہ رہا ہے کہ بذات خود وہ عمل اچھا ہے؟ پس تحریر آپ خود کینیڈا میں ہیں …کچھ حضرات یورپ میں ہیں …یہاں لوگ پاکستان کی نسبت مذہب سے خاصے دور ہیں …تو کیا لبرل معاشروں میں بہن اور ماں سے تعلقات قائم کرنا عام ہے اور جب اکا دکا واقعات سامنے آتے ہیں تو کیا لبرل معاشرے واہ واہ کرتے ہیں؟

    قرار صاحب،
    آپ نے وقت نکال کر خیالات کا اظھار کیا اسکا شکریہ -آپ کی بات درست ہے کہ میرے سوال کے پیچھے تضحیک کی نیت بلکل بھی نہیں تھی بلکہ جستجو کا جذبہ کار فرما تھا
    موضوع پر آپ کا موقف بھی سامنے آگیا اور میں سمجھتا ہوں آپ نے بغیر لگی لپٹی کے اپنا موقف بیان کیا ہے بس ایک مشکل ہے کہ آپ نے براہ راست مجھ سے بھی سوال کرلیا ہے ایمانداری کی بات ہے میں اپنے آپ کو مذھب پرست کے خانہ میں بلکل بھی فٹ نہیں دیکھتا ہوں لہذا میں کسی مذھب پرست یا انتہائی مذہبی نکتہ نظر کی ترجمانی کرنے سے قاصر رہوں گا اس بات میں مجھے شک نہیں ہے کہ اس معاملہ میں دو عوامل نہایت اہم کردار ادا کریں گے اور وہ ہیں علاقائی ثقافت کا فرد کی سوچ پر اثر اور مذھب سے وابستگی کی شدت- ردعمل بھی مختلف اقسام کا ہوسکتا ہے ایک تو انتہا درجہ کا جس میں انسیسٹ میں مبتلا افراد کی جان عین ایمانی تقاضہ سمجھ کر لی جاسکتی ہے اور دوسرا آپ سے ملتا جلتا رد عمل.
    میں ذاتی طور پر ہر انسان کو اپنے سگے خون کے رشتوں سمیت مکمل طور پر آزاد اور خودمختار انسان سمجھتا ہوں جنکو اپنے اپنے فیصلے کرنے اور انکا نتیجہ بھلا برا بھگتنے کا پورا اختیار حاصل ہے میرے نا بالغ بچے میری ذمہ داری ضرور ہیں مگر بلوغت کے بعد تو میرا اختیار انتہائی محدود بلکہ صفر کے برابر ہی رہ جائے گا تو میں اپنا کردار انکی سوچ میں تعمیری گفتگو کے ذرئیے انکی سوچ پر اثر انداز ہونے تک ہی محدود سمجھتا ہوں

    جہاں تک آپ کے افلاطونی سوال کا تعلق ہے کہ عمل بذات خود اچھا ہوتا ہے یا خدا کے کہنے کے بعد اچھا برا ہوتا ہے؟
    میرے خیال میں تو یہ ایک اور وسیع موضوع ہے جس پر علحیدہ سے گفتگو کی گنجائش ہے اس سوال سے قبل جس سوال پر گفتگو ہوگی وہ یہ کہ اچھا برا کیا ہوتا ہے؟ عموما اس قسم کے موضوعات پر جے بھیہ کا کاپی رائٹ ہے ہوسکتا ہے انہوں نے اس پر کبھی نہ کبھی گفتگو کی بھی ہو جو مجھے یاد نہیں آرہی مگر بلیک شیپ صاحب نے اس سوال کو ایک اور طریقه سے چھیڑا تھا کہ انسانی ذہن کو کویی بات کیوں اچھی بری لگتی ہے فلسفہ کے ساتھ ساتھ یہ سائنسی سوال بھی ہے
    آسان اور سادہ الفاظ میں اس سوال کا جواب مذہبی نکتہ نگاہ سے یہ ہوسکتا ہے کہ جن باتوں کے احکام خدا نے دئیے ہیں وہ اچھے ہیں جنسے روکا ہے وہ برے ہیں
    میرے اپنے خیال میں مجموعی انسانی فلاح کا کویی بھی کام اچھا ہے اس بات سے قطع نظر کہ خدا کے کاپی رائٹ رکھنے والے افراد خدا سے کیا منسوب کرتے ہیں
    جہاں تک آپ کے تیسرے سوال کا تعلق ہے کہ کینیڈا میں لوگوں کا رویہ انسیسٹ کے حوالے سے کیا ہو سکتا ہے -ابھی تک تو ایسا کویی کیس میری نظروں سے نہیں گزرا ہے مگر مجھے اسمیں شک نہیں ہے کہ اگر معاملہ نا بالغ کا نہ ہو تو اکثریت اسکو برا تو سمجھے گی مگر اس پر کسی انتہائی رد عمل کا مظاہرہ نہیں کرے گی بلکہ یہ بھی کہہ سکتی ہے آئ ڈونٹ کیر . اس معاشرہ کے بارے میں میرا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ سیکولر معاشرہ تو ہے مگر مذھب سے مکمل لاتعلق نہیں ہے ان معاشروں کی بنیاد میں یہود و عیسائی عقائد ہیں سرکاری تعطیلات میں اکثریت کہیں نہ کہیں مذھب سے جڑ جاتی ہیں لوگ کرسمس اور دیگر تہوار مناتے ہیں میرے گھر کے سامنے تو ایک کیتھولک چرچ ہے جہاں اتوار کو پارکنگ کی جگہ بھی نہیں ہوتی ہے کہنے کا مطلب ہے کہ انکی سوچ مذہبی اثرات سے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #36
    قرار صا حب فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ رشتوں کی تعظیم سے آگاہی دے سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔

    ۔۔

    میری سمجھ سے با ھر ہے ۔۔۔۔ ملحد ین ۔۔۔۔ رشتوں کی تعظیم ۔۔۔۔۔ آئین کی کونسی شق ۔۔۔۔۔۔

    یا ۔۔۔۔حکومت کے کونسے ۔۔۔۔۔ بائے لاز ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

    یا عد لیہ کے کونسے ۔۔۔۔۔۔ ورڈ کٹ ۔۔۔۔۔۔

    یا ۔۔۔۔۔ نا سا ۔۔۔۔ کے کونسے ۔۔۔۔ فارمولے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے مطا بق کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔

    یہ سب لوگ جھوٹے ۔۔۔ کا لم کرکے ۔۔۔۔ لوگوں کو پھدو نہیں بنا سکتے ۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔

    ان لوگوں کے پاس جواب ہوتا تو فوری دو ٹوک جواب دیتے ۔۔۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔

    لیکن ایک جواب دینے کے  لیئے ۔۔۔ ھزاروں سال کی تاریخ ۔۔۔۔۔ غیر متعلقہ ۔۔۔ فضول ۔۔۔۔ الابے قلا بے ملا کر ۔۔۔۔

    سٹاپ سا ئن سے ہوتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ جھوٹ پر رشتوں کی تعظیم پر بات لے کر آ پائے ۔۔۔۔۔۔

    شیم آن دیم ۔۔۔۔۔۔

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #37

    اگر مذہب ازل سے ہے اور انسان اس دنیا میں جب آیا مذہب ہی اس کے پیچھے تھا تو قدیم زمانہ میں انسان مذہب کی تعلیمات سے دور ہو کر اپنی ماؤں بہنوں وغیرہ سے کیسے جنس پرستی کرنے لگ گیا . بہت سے مذاہب زمانہ قدیم سے انسان کی ذات کا اہم جزو رہے ہیں تو انسان کیوں مذہبی تعلیمات اور خاص طور پر اس موضوع پر مذہب کی پابندیوں پر عمل نہیں کر سکا اور اب ایسا کیا ہو گیا ہے کے چاہے کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی معاشرہ ہو اس فعل کو برا سمجھا جاتا ہے .

    میرے خیال میں بہت سے عوامل کی بنیاد پر انسان بہت سے افعال سے دور ہوتا جا رہا ہے اور کچھ کے مزید قریب آ رہا ہے . مذہب نے ضرور حصہ ادا کیا ہے مگر جس طرح مذہب پر ہر چیز کے لئے الزام نہیں دیا جا سکتا اس طرح صرف مذہب کو ہر اچھائی کی بنیاد نہیں قرار دیا جاسکتا ، کم از کم میری نظر میں

    Shirazi
    Participant
    Offline
    • Professional
    #38
    I am not sure if incest is unnatural. I would rather say I don’t know what is natural. Is this something that majority does? If so, yes incest is not common anymore. I reckon when it was common it must have created many social issues, not scientific. Issues like loyalty in relationships, interaction with other people. As our numbers grew and we needed family not just humans we must have thought incest is not letting us establish the structure we need as we scale out.

    I agree with BlackSheep Sahib giving religion credit for incest or for that matter anything is huge distraction. I often think if Mohammad had died little earlier than his rich wife Khadija the rights of women in Islam would be much different. After her death polygamy, incest, pedophilia all creeped in. Islam is more incest than religions that don’t allow cousin marriages like Hindus and Christians.

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #39

    مذہبی لوگوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب کوئی (مذہبی) شخص یہ کہتا ہے کہ میرے انسیسٹ سے باز رہنے کی وجہ صرف اور صرف خدا کا ڈر ہے تو کیا وہ خود کو انسانیت کے درجے سے کہیں نیچے گرا کر ایک جانور کی سطح پر نہیں لے آتا، کیا پھر وہ اس بات کا اقرار نہیں کرتا کہ میرے اندر بحثیت انسان کوئی خوبی کوئی امتیازی انسانی صفت نہیں۔۔۔ 

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #40

    عباسی صاحب۔۔۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ قدیم تاریخ میں عام لوگوں کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں ملتا، دوسری طرف اتنی قطعیت سے کہہ رہے ہیں کہ عام لوگوں میں بھی انسیسٹ موجود تھا۔۔۔ اس کو کیا سمجھا جائے۔۔؟

    زندہ رود صاحب ، قدیم زمانے کا جائزہ لیا جائے تو مغرب کی عظیم سلطنتوں یعنی مصر یونان اور روم بارے انسسٹ کی مثالیں شاہی خاندانوں یا اَپر کلاسز ہی میں ملتی ہیں لیکن اگر رگ ویدا کا مطالعہ کریں، جاپان میں انسسٹ کے اکاؤنٹس پڑھیں یا ایران اور پیرو بارے کھوج لگائیں تو آپ کو یہ عمل عاموں اور خاصوں یعنی دونوں میں نظر آئے گا۔

    دوسری طرف اگر میں کہوں کہ مسلمانوں کے انسیسٹ سے باز رہنے کی وجہ اسلام نہیں ہے تو آپ کہیں گے کہ نہیں یہ تو اسلام کا کارنامہ ہے کہ اس نے سبھی مسلمانوں کو اس فعل سے باز رکھا ہوا ہے۔۔۔

    آپ چیزوں کو سفید اور سیاہ میں تقسیم کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مذاہب کے آنے کے بعد انیسویں سنچری تک دنیا بھر کی سلطنتیں مذاہب کے زیر اثر چلیں ہیں اور معاشروں کی اقدار پر مذہب کے اثرات انتہائی مضبوط رہے ہیں تو جس حد تک بھی انسسٹ پہلے موجود تھا اس کی روک تھام میں مذہبی تعلیمات یا قانون سازی کا اثر ہرصورت نمایاں ہوگا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہی کہ مذہب نہ ہوتا تو ہر کوئی اس عمل میں مبتلا ہوتا ۔ اسی طرح کسی بھی مسلمان کے انسسٹ نہ کرنے کی اصل وجہ تو لازما فطرتا اسے غلط سمجھنا ہی ہوگا لیکن اسلام کے احکامات نے اس فطری احساس پر مہر ثبت کر کے اس عمل کو قابل نفرت بنانے اور اس کا رستہ مکمل طور پر بند کرنے لئے احکامات دئیے۔

    یہودی آج بھی موجود ہیں، ان سے پوچھ لیں، وہ اپنے خدا کو اللہ نہیں کہتے، عرب کے لوگ اسلام سے پہلے بھی خدا کو اللہ کہتے تھے، اصولی طور پر خدا کا نام اس وقت کے آخری پیغمبر یعنی حضرت عیسیٰ سے آنا چاہیے تھا، مگر عیسائی اللہ کا نام استعمال نہیں کرتے، پھر یہ نام کس نے اور کب گھڑا اور کب مستعمل ہوا۔۔؟ اور اسلام نے اسی کو اٹھا کر آگے استعمال کرنا شروع کردیا۔۔

    یہودی کسی زمانے میں نمازیں بھی پڑھتے تھے لیکن آج نہیں پڑھتے۔ یہودیوں کی کتاب میں خدا کا نام ہیبرو میں اللہم لکھا گیا ہے۔ اور جس نے بھی یہ چیپٹر لکھا جہاں خدا کو اللہوم کے نام ے لکھا گیا وہ تورات کی سب سے پہلی تحریر یا حصہ مانی جاتی ہے۔

    یعنی حضرت موسیؑ کے وقت کے قریب ترین۔

    عربی بائیبل میں خدا کو اللہ ہی لکھا جاتا ہے۔ اور اسلام سے قبل عرب کے عیسائی اور یہودی بھی خدا کو اللہ ہی کہتے تھے۔ کوئی نہی جانتا کہ عیسیؑ نے خدا کو کس کس نام سے پکارا۔ جان مارک میتھیو اور مارک نے فادر ہی کے لفظ کا استعمال پسند کیا۔

    آپ سے اس بچگانہ دلیل کی امید نہیں تھی، انسیسٹ اسلام میں منع ہے تو کیا اسلام سے پہلے لوگ انسیسٹ کرتے تھے۔۔؟؟ اسلام میں سور حرام ہے تو کیا عرب کے لوگ اسلام سے پہلے سور کھاتے تھے۔۔؟

    جی ہاں۔ کسی زمانے میں مڈل ایسٹ میں اسی طرح پورک کھایا جاتا تھا جیسے کہ آج مغرب میں۔ اسلام کی آمد سے فورا پہلے بھی عرب میں کہیں کہیں پورک کھائے جانے بارے معلومات آکسفورڈ ہسٹری آف فوڈ میں موجود ہیں۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
Viewing 20 posts - 21 through 40 (of 67 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward