Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 67 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    اس موضوع پر گفتگو ایک دوسرے دھاگہ میں شروع ہویی تھی میرے خیال میں یہ وسیع موضوع ہے اور ایک الگ دھاگہ کا متقاضی ہے لہذا اس پر ہونے والی گفتگو سمیٹ کر یہاں لے آیا ہوں

    بلیک شیپ صاحب،
    آپ کے بھانڈ پن کو فلحال نظر انداز کرتے ہوے (کہ اس سے زیادہ قیمتی متاع سے آپ محروم محسوس ہوتے ہیں) سنجیدہ سوال کی طرف آتا ہوں

    چونکہ دہریے کسی مذہب کو نہیں مانتے تو پھر کیا دہریے اپنی ماں بہنوں سے بھی مباشرت کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اِس پر غالباً قرار نے بڑا ہی زبردست جواب کچھ یوں دیا تھا کہ اِن مذہب پرستوں کو شاید مذہب نے ہی روکا ہوا ہے ورنہ یہ لوگ تو کب کے اپنی ماؤں بہنوں پر چڑھ چکے ہوتے۔۔۔۔۔۔ اِس مخصوص لحاظ سے دیکھا جائے تو آپ کی بات کچھ کچھ صائب لگتی ہے کہ اِن مذہب پرستوں پر واقعی مذہب نے روک لگائی ہوئی ہے ورن

    اس بات سے قطع نظر کے کس نے سوال کس سے کیا اور جواب میں ایک سوال تو آیا مگر جواب نہیں آیا
    کیا آپ میں ہمت ہے اس کا سنجیدہ جواب دینے کی؟
    مذھب نے واقعی جنسی تعلقات استوار کرنے کی حدود و قیود تو متعین کی ہویی ہیں مثلا اسلام میں محرم اور نہ محرم کا تصور ہی اسکے گرد گھومتا ہے اسلام کی رو سے کزن سے شادی ہوسکتی ہے اسی طرح (جہاں تک میری سمجھ ہے) ہندو مذھب میں کزن سے شادی کی اجازت نہیں ہے تو مذھب کا کردار جنسی حدود کے قیام میں بہت اہم ہے لہٰذا کسی مذھب کے ماننے والے کے لئے مذھب بہرحال ایک رکاوٹ ہے
    مگر لا مذھب کے لئے کیا رکاوٹ ہے؟ اگر ہے تو کیوں ہے؟

    (براہ مہربانی اپنے اندر ابلتے ہوے بھانڈ پن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرئیے گا مشکل ضرور ہے نا ممکن نہیں ہے

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2

    Ghost Protocol wrote:
    سنجیدہ سوال کی طرف آتا ہوں اس بات سے قطع نظر کے کس نے سوال کس سے کیا اور جواب میں ایک سوال تو آیا مگر جواب نہیں آیا کیا آپ میں ہمت ہے اس کا سنجیدہ جواب دینے کی؟
    Read More +

    بالکل ہے۔۔۔۔۔

    Ghost Protocol wrote:
    مذھب نے واقعی جنسی تعلقات استوار کرنے کی حدود و قیود تو متعین کی ہویی ہیں مثلا اسلام میں محرم اور نہ محرم کا تصور ہی اسکے گرد گھومتا ہے اسلام کی رو سے کزن سے شادی ہوسکتی ہے اسی طرح (جہاں تک میری سمجھ ہے) ہندو مذھب میں کزن سے شادی کی اجازت نہیں ہے تو مذھب کا کردار جنسی حدود کے قیام میں بہت اہم ہے لہٰذا کسی مذھب کے ماننے والے کے لئے مذھب بہرحال ایک رکاوٹ ہے
    مگر لا مذھب کے لئے کیا رکاوٹ ہے؟ اگر ہے تو کیوں ہے؟
    Read Less –

    گھوسٹ صاحب۔۔۔۔۔

    میرے خیال میں اِس سوال کے دو قسم کے جوابات دیے جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔

    ایک مختصر سا مگر ناک آؤٹ قسم کا جواب جو اِس فورم پر یہ مخصوص سوال پوچھنے کے سیاق و سباق کے تناظر میں ہے۔۔۔۔۔

    دوسری قسم کا جواب ذرا تفصیلی ہے جس کی بنیاد غالباً معاشرت اور انسانی نفسیات(یہ بہت ہی زیادہ وسیع موضوع ہے) ہے۔۔۔۔۔

    آپ کو پہلی قسم کا جواب دے دیتا ہوں۔۔۔۔۔

    چونکہ جب اِس مذہب پرستوں کی جانب سے یہ سوال پوچھا گیا تھا تو اِس کا پسِ منظر یا سیاق و سباق یہ تھا کہ غالباً مذہب پرستوں کے نزدیک جو بھی عمومی یا خصوصی اخلاقیات رائج ہیں اُن کا منبع مذہب ہی ہے۔۔۔۔۔ اگر مذہب کا وجود نہ ہو تو اِس اخلاقیات کی عمارت گر جائے گی۔۔۔۔۔ شاید اِسی وجہ سے قرار کے ناک آؤٹ پنچ کے بعد کسی نے اِس سوال کے جواب پر اصرار نہیں کیا۔۔۔۔۔ اخلاقیات کے معاملے میں غالباً دہریوں کے نزدیک یہ تصور ہے کہ اخلاقیات پر مذہب کی ٹھیکے داری نہیں ہے۔۔۔۔۔ دہریوں کا شاید کہنا یہ ہے کہ معاشرتی رویوں نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اِنسیسٹ غلط ہے۔۔۔۔۔ مگر مَیں ذاتی طور پر دہریوں کے اِس جواب سے نظری طور پر مکمل اتفاق نہیں کرتا(اب یہاں مَیں ایک سوال کی توقع کررہا ہوں)۔۔۔۔۔

    local_florist

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #3

    blacksheep wrote:
    بالکل ہے۔۔۔۔۔       گھوسٹ صاحب۔۔۔۔۔ میرے خیال میں اِس سوال کے دو قسم کے جوابات دیے جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔ ایک مختصر سا مگر ناک آؤٹ قسم کا جواب جو اِس فورم پر یہ مخصوص سوال پوچھنے کے سیاق و سباق کے تناظر میں ہے۔۔۔۔۔ دوسری قسم کا جواب ذرا تفصیلی ہے جس کی بنیاد غالباً معاشرت اور انسانی نفسیات(یہ بہت ہی زیادہ وسیع موضوع ہے) ہے۔۔۔۔۔ آپ کو پہلی قسم کا جواب دے دیتا ہوں۔۔۔۔۔ چونکہ جب اِس مذہب پرستوں کی جانب سے یہ سوال پوچھا گیا تھا تو اِس کا پسِ منظر یا سیاق و سباق یہ تھا کہ غالباً مذہب پرستوں کے نزدیک جو بھی عمومی یا خصوصی اخلاقیات رائج ہیں اُن کا منبع مذہب ہی ہے۔۔۔۔۔ اگر مذہب کا وجود نہ ہو تو اِس اخلاقیات کی عمارت گر جائے گی۔۔۔۔۔ شاید اِسی وجہ سے قرار کے ناک آؤٹ پنچ کے بعد کسی نے اِس سوال کے جواب پر اصرار نہیں کیا۔۔۔۔۔ اخلاقیات کے معاملے میں غالباً دہریوں کے نزدیک یہ تصور ہے کہ اخلاقیات پر مذہب کی ٹھیکے داری نہیں ہے۔۔۔۔۔ دہریوں کا شاید کہنا یہ ہے کہ معاشرتی رویوں نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اِنسیسٹ غلط ہے۔۔۔۔۔ مگر مَیں ذاتی طور پر دہریوں کے اِس جواب سے نظری طور پر مکمل اتفاق نہیں کرتا(اب یہاں مَیں ایک سوال کی توقع کررہا ہوں)۔۔۔۔۔
    Read Less –

    ۔۔۔۔۔۔۔۔ بغلیں جھا نکنے کا زبردست مظا ھرہ ۔۔۔۔۔ سرے بات کا جواب ہے ہی نہیں ۔۔۔

    صرف اِ دھر کی ۔۔۔۔ اُدھر کی ۔۔۔۔ بونگیا ں مار کر ۔۔۔۔۔ سوال کو ۔۔۔۔ حلق سے اتار ا گیا ۔۔۔۔۔۔۔

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #4

    Guilty wrote:
    ۔۔۔۔۔۔۔۔ بغلیں جھا نکنے کا زبردست مظا ھرہ ۔۔۔۔۔ سرے بات کا جواب ہے ہی نہیں ۔۔۔
    صرف اِ دھر کی ۔۔۔۔ اُدھر کی ۔۔۔۔ بونگیا ں مار کر ۔۔۔۔۔ سوال کو ۔۔۔۔ حلق سے اتار ا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
    Read More +

    میرے پیارے ذرا گِلٹی سے گلٹی۔۔۔۔۔

    ایک دفعہ مَیں ایک سی ڈی خریدنے ایک میوزک اسٹور گیا۔۔۔۔۔ مجھے ایک گلوکارہ کے دو چار نغمے چاہئیے تھے۔۔۔۔۔ مگر اُس گلوکارہ کے وہ نغمے ایک سی ڈی میں نہیں تھے بلکہ تین چار مختلف سی ڈیز میں تھے۔۔۔۔۔ مَیں نے دُکاندار کو کہا کہ کیا اِس گلوکارہ کے یہ مشہور نغمے ایک ہی سی ڈی میں نہیں مل سکتے۔۔۔۔۔ اُس نے کہا اگر میوزک کمپنی سارے ہی مشہور نغمے ایک ہی سی ڈی میں ڈال کر ریلیز کردے گی تو اگلی ریلیز ہونے والی سی ڈی میں کیا ڈالے گی۔۔۔۔۔ آخر کمپنی بھی تو چلانی ہے۔۔۔۔۔

    تو میرے لعل، اگر سب کچھ ایک ہی پوسٹ میں بتا دوں گا تو کمپنی کیسے چلے گی۔۔۔۔۔

    ہُن سمجھ آئی۔۔۔۔۔

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #5

    blacksheep wrote:
    اخلاقیات کے معاملے میں غالباً دہریوں کے نزدیک یہ تصور ہے کہ اخلاقیات پر مذہب کی ٹھیکے داری نہیں ہے۔۔۔۔۔ دہریوں کا شاید کہنا یہ ہے کہ معاشرتی رویوں نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اِنسیسٹ غلط ہے۔۔۔۔۔ مگر مَیں ذاتی طور پر دہریوں کے اِس جواب سے نظری طور پر مکمل اتفاق نہیں کرتا(اب یہاں مَیں ایک سوال کی توقع کررہا ہوں)۔۔۔۔۔

    Read Less –

    بلیک شیپ صاحب،
    آپ کے جواب نے مجھے مایوس کیا بھی ہے ایک طریقہ سے توقع کے مطابق بھی ہے
    اس بات کو چھوڑیں کہ سوال کا سیاق و سباق کیا تھا آپ نے جواب پر تحسین کے ڈونگرے برسایے تھے تو بتایں آپ کے نزدیک(بطور ایک لا مذھب) انسیسٹ کی کیا حیثیت ہے اور کیوں ہے ؟

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #6

    Ghost Protocol wrote:
    مذھب نے واقعی جنسی تعلقات استوار کرنے کی حدود و قیود تو متعین کی ہویی ہیں مثلا اسلام میں محرم اور نہ محرم کا تصور ہی اسکے گرد گھومتا ہے اسلام کی رو سے کزن سے شادی ہوسکتی ہے اسی طرح (جہاں تک میری سمجھ ہے) ہندو مذھب میں کزن سے شادی کی اجازت نہیں ہے تو مذھب کا کردار جنسی حدود کے قیام میں بہت اہم ہے لہٰذا کسی مذھب کے ماننے والے کے لئے مذھب بہرحال ایک رکاوٹ ہے مگر لا مذھب کے لئے کیا رکاوٹ ہے؟ اگر ہے تو کیوں ہے؟ (براہ مہربانی اپنے اندر ابلتے ہوے بھانڈ پن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرئیے گا مشکل ضرور ہے نا ممکن نہیں ہے )
    Read Less –

    Zinda Rood wrote:
    گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔ آپ کا سوال کافی اہم ہے،  اور میں نے اس پر بہت بار غوروخوض کیا کہ آخر انسان نے کب اور کیسے محرمات (ماں، بہن وغیرہ) سے شادی بیاہ کو مکروہ اور قابلِ نفرت جانا۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محرمات سے شادی / جنسی تعلقات کی ممانعت مذہب میں موجود تو ضرور ہے، مگر نسلِ انسانی میں اس رِیت کی داغ بیل ڈالنے کا کارنامہ مذہب کا نہیں ہوسکتا۔ میں آپ کے سامنے کچھ نکات رکھتا ہوں۔۔ اگر آپ مختلف مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپ کو ان میں بہت سی تعلیمات / رسوم و رواج میں واضح فرق نظر آئے گا۔ مثلاً جو ابراہیمی مذاہب ہیں، وہ مردے کو دفن کرتے ہیں اور ہندوؤں میں مردے کو جلایا جاتا ہے۔ ابراہیمی مذاہب جن کو آپ الہامی مانتے ہیں، ان میں مرنے کے بعد قیامت / روزِ محشر کا تصور ہے ، ایک عدالت لگے گی جسم میں جنت جہنم کا فیصلہ ہوگا اور لوگوں کو ابدی زندگی ملے گی۔ ہندو مت میں پنر جنم یا آواگون کا نظریہ ہے جس کے تحت انسان کو اس کے اعمال کے مطابق اگلا جنم ملتا ہے اور وہ واپس اسی دنیا میں آجاتا ہے، کسی جانور یا انسان کی شکل میں۔ بدھ مت میں سرے سے خدا کا کوئی تصور ہی نہیں ہے نہ ہی حیات بعد الموت کا کوئی تصور۔ مسلمانوں میں شادی کے لئے نکاح کی رسم ہوتی ہے، میاں بیوی کے ایجاب و قبول کے بعد شادی ہوجاتی ہے، ہندوؤں میں آگ کے گرد سات پھیرے لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف مذاہب کے لوگوں کے لئے جانوروں کی حلال و حرام کی تقسیم بھی مختلف ہے۔۔  کیا وجہ ہے کہ مختلف مذاہب میں اتنے سارے اختلافات ہونے کے باوجود وہ محرمات سے شادی کے معاملے میں ایک ہی بات پر متفق ہوگئے؟ مذاہب کی معلوم تاریخ پانچ چھ ہزار سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے، پرانے مذاہب جیسا کہ ہندو مت، بدھ مت، پارسی وغیرہ ان میں بھی آپ کو محرمات سے شادی کے رواج کا کوئی سراغ نہیں ملے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب کے آغاز سے قبل ہی کسی نہ کسی وجہ سے (اس پر میں اپنی رائے بعد میں دوں گا) محرمات سے شادی ناقابلِ قبول فعل قرار پا چکا تھا ، مذاہب نے  اس رِیت کو اٹھا کر اسی طرح اپنی تعلیمات کا حصہ بنا دیا  جیسا کہ دیگر عمومی اخلاقیات مذاہب کا حصہ بنیں حالانکہ وہ انسان کے شعوری ارتقا کا ماحصل   تھیں۔

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #7

    Zinda Rood wrote:
    گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔ آپ کا سوال کافی اہم ہے، اور میں نے اس پر بہت بار غوروخوض کیا کہ آخر انسان نے کب اور کیسے محرمات (ماں، بہن وغیرہ) سے شادی بیاہ کو مکروہ اور قابلِ نفرت جانا۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محرمات سے شادی / جنسی تعلقات کی ممانعت مذہب میں موجود تو ضرور ہے، مگر نسلِ انسانی میں اس رِیت کی داغ بیل ڈالنے کا کارنامہ مذہب کا نہیں ہوسکتا۔ میں آپ کے سامنے کچھ نکات رکھتا ہوں۔۔ اگر آپ مختلف مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپ کو ان میں بہت سی تعلیمات / رسوم و رواج میں واضح فرق نظر آئے گا۔ مثلاً جو ابراہیمی مذاہب ہیں، وہ مردے کو دفن کرتے ہیں اور ہندوؤں میں مردے کو جلایا جاتا ہے۔ ابراہیمی مذاہب جن کو آپ الہامی مانتے ہیں، ان میں مرنے کے بعد قیامت / روزِ محشر کا تصور ہے ، ایک عدالت لگے گی جسم میں جنت جہنم کا فیصلہ ہوگا اور لوگوں کو ابدی زندگی ملے گی۔ ہندو مت میں پنر جنم یا آواگون کا نظریہ ہے جس کے تحت انسان کو اس کے اعمال کے مطابق اگلا جنم ملتا ہے اور وہ واپس اسی دنیا میں آجاتا ہے، کسی جانور یا انسان کی شکل میں۔ بدھ مت میں سرے سے خدا کا کوئی تصور ہی نہیں ہے نہ ہی حیات بعد الموت کا کوئی تصور۔ مسلمانوں میں شادی کے لئے نکاح کی رسم ہوتی ہے، میاں بیوی کے ایجاب و قبول کے بعد شادی ہوجاتی ہے، ہندوؤں میں آگ کے گرد سات پھیرے لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف مذاہب کے لوگوں کے لئے جانوروں کی حلال و حرام کی تقسیم بھی مختلف ہے۔۔ کیا وجہ ہے کہ مختلف مذاہب میں اتنے سارے اختلافات ہونے کے باوجود وہ محرمات سے شادی کے معاملے میں ایک ہی بات پر متفق ہوگئے؟ مذاہب کی معلوم تاریخ پانچ چھ ہزار سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے، پرانے مذاہب جیسا کہ ہندو مت، بدھ مت، پارسی وغیرہ ان میں بھی آپ کو محرمات سے شادی کے رواج کا کوئی سراغ نہیں ملے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب کے آغاز سے قبل ہی کسی نہ کسی وجہ سے (اس پر میں اپنی رائے بعد میں دوں گا) محرمات سے شادی ناقابلِ قبول فعل قرار پا چکا تھا ، مذاہب نے اس رِیت کو اٹھا کر اسی طرح اپنی تعلیمات کا حصہ بنا دیا جیسا کہ دیگر عمومی اخلاقیات مذاہب کا حصہ بنیں حالانکہ وہ انسان کے شعوری ارتقا کا ماحصل تھیں۔
    Read Less –

    JMP wrote:

    Zinda Roodsahib

    محترم زندہ رود صاحب

    کافی غور طلب تحریر ہے آپکی . میرے خیال میں آپ کا نکتہ بہت وزن رکھتا ہے .

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #8
    Zinda Rood wrote: گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔ آپ کا سوال کافی اہم ہے، اور میں نے اس پر بہت بار غوروخوض کیا کہ آخر انسان نے کب اور کیسے محرمات (ماں، بہن وغیرہ) سے شادی بیاہ کو مکروہ اور قابلِ نفرت جانا۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محرمات سے شادی / جنسی تعلقات کی ممانعت مذہب میں موجود تو ضرور ہے، مگر نسلِ انسانی میں اس رِیت کی داغ بیل ڈالنے کا کارنامہ مذہب کا نہیں ہوسکتا۔ میں آپ کے سامنے کچھ نکات رکھتا ہوں۔۔ اگر آپ مختلف مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپ کو ان میں بہت سی تعلیمات / رسوم و رواج میں واضح فرق نظر آئے گا۔ مثلاً جو ابراہیمی مذاہب ہیں، وہ مردے کو دفن کرتے ہیں اور ہندوؤں میں مردے کو جلایا جاتا ہے۔ ابراہیمی مذاہب جن کو آپ الہامی مانتے ہیں، ان میں مرنے کے بعد قیامت / روزِ محشر کا تصور ہے ، ایک عدالت لگے گی جسم میں جنت جہنم کا فیصلہ ہوگا اور لوگوں کو ابدی زندگی ملے گی۔ ہندو مت میں پنر جنم یا آواگون کا نظریہ ہے جس کے تحت انسان کو اس کے اعمال کے مطابق اگلا جنم ملتا ہے اور وہ واپس اسی دنیا میں آجاتا ہے، کسی جانور یا انسان کی شکل میں۔ بدھ مت میں سرے سے خدا کا کوئی تصور ہی نہیں ہے نہ ہی حیات بعد الموت کا کوئی تصور۔ مسلمانوں میں شادی کے لئے نکاح کی رسم ہوتی ہے، میاں بیوی کے ایجاب و قبول کے بعد شادی ہوجاتی ہے، ہندوؤں میں آگ کے گرد سات پھیرے لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف مذاہب کے لوگوں کے لئے جانوروں کی حلال و حرام کی تقسیم بھی مختلف ہے۔۔ کیا وجہ ہے کہ مختلف مذاہب میں اتنے سارے اختلافات ہونے کے باوجود وہ محرمات سے شادی کے معاملے میں ایک ہی بات پر متفق ہوگئے؟ مذاہب کی معلوم تاریخ پانچ چھ ہزار سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے، پرانے مذاہب جیسا کہ ہندو مت، بدھ مت، پارسی وغیرہ ان میں بھی آپ کو محرمات سے شادی کے رواج کا کوئی سراغ نہیں ملے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب کے آغاز سے قبل ہی کسی نہ کسی وجہ سے (اس پر میں اپنی رائے بعد میں دوں گا) محرمات سے شادی ناقابلِ قبول فعل قرار پا چکا تھا ، مذاہب نے اس رِیت کو اٹھا کر اسی طرح اپنی تعلیمات کا حصہ بنا دیا جیسا کہ دیگر عمومی اخلاقیات مذاہب کا حصہ بنیں حالانکہ وہ انسان کے شعوری ارتقا کا ماحصل تھیں۔

    زندہ رود صاحب،
    کیا مذاھب سے قبل شادی کا تصور بھی تھا؟ محرم غیر محرم کی بات تو بعد میں آتی ہے
    دوسری بات کہ اپ نے یہ نتیجہ کس طرح اخذ کرلیا کہ جنسی حدود کا تعین انسان کے شعوری ارتقا کا حاصل ہیں؟ پھر ارتقا تو کویی جامد شے نہیں ہے ان حدود و قیود میں تبدیلیاں آنا لازمی سا ٹہر گیا ہے.
    سب سے اہم بات یہ کہ آج کے ملحدین جو کسی الہامی حدود و قیود اور گناہ و ثواب کے تصور سے عاری ہیں تو وہ اس معاملہ میں کہاں کھڑے ہیں؟ اور کیوں کھڑے ہیں چلیں میں ایک سیدھا سوال کرلیتا ہوں کہ ایک لا مذھب کس طرح اپنے بالغ بہن بھائیوں یا بچوں کو جنسی فعل میں ملوث ہونے سے روکے گا (اگر واقعی وہ روکنا بھی چاہے)؟

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #9
    زندہ رود صاحب، کیا مذاھب سے قبل شادی کا تصور بھی تھا؟ محرم غیر محرم کی بات تو بعد میں آتی ہے دوسری بات کہ اپ نے یہ نتیجہ کس طرح اخذ کرلیا کہ جنسی حدود کا تعین انسان کے شعوری ارتقا کا حاصل ہیں؟ پھر ارتقا تو کویی جامد شے نہیں ہے ان حدود و قیود میں تبدیلیاں آنا لازمی سا ٹہر گیا ہے. سب سے اہم بات یہ کہ آج کے ملحدین جو کسی الہامی حدود و قیود اور گناہ و ثواب کے تصور سے عاری ہیں تو وہ اس معاملہ میں کہاں کھڑے ہیں؟ اور کیوں کھڑے ہیں چلیں میں ایک سیدھا سوال کرلیتا ہوں کہ ایک لا مذھب کس طرح اپنے بالغ بہن بھائیوں یا بچوں کو جنسی فعل میں ملوث ہونے سے روکے گا (اگر واقعی وہ روکنا بھی چاہے)؟

    گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔ یہ کوئی مذہب بمقابلہ دہریت کی بحث نہیں ہے، اس کے پیچھے طویل تاریخ کھڑی ہے جس سے واقف ہونا ازحد ضروری ہے۔ اگر آپ قدیم انسانوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے (مذہب سمیت) وہ سب اجتماعی انسانی شعور کا نتیجہ ہے۔

      فریڈرک اینگلز نے اپنی کتاب “خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کے آغاز” میں تاریخی حوالوں سے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے کہ دنیا کے قدیم ترین قبائل میں جنسی تعلقات کی نوعیت کیا تھی، شادی کی کیا شکلیں تھیں، لوگ کس طرح رہتے اور ایک دوسرے سے تعلقات رکھتے تھے۔ فریڈرک اینگلز نے مارگن، باخوفن اور دیگر مورخین کے حوالے سے مختلف قبائل میں جنسی تعلقات کی جو شکلیں بیان کی ہیں، ان میں گروہ وار شادی سے لے کر یک زوجگی تک کی شکلیں ملتی ہیں ۔ مارگن کے مطابق ہوائی کے قدیم قبائل میں بہن بھائی اور ماں بیٹے وغیرہ میں جنسی تعلقات کی ممانعت پائی جاتی تھی اور گنوں کی شادی کی اگلی شکل یعنی جوڑا شادی (ایک مرد کی ایک عورت سے شادی) کا رواج بھی امریکہ کے ریڈ انڈینز، آسٹریلیا اور افریقہ کے قدیم قبائل میں پایا جاتا تھا۔ ۔ آپ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اس وقت ان قبائل میں آج کے دور کے کسی منظم مذہب کی کوئی شکل نہیں ملتی، ہاں وہ لوگ اپنے اپنے حساب سے مختلف چیزوں، سورج، ستاروں، دیوی دیوتاؤں کی پوجا ضرور کرتے تھے، مگر یہ یک طرفہ تعلق تھا، یعنی کوئی شخص انہیں یہ نہیں کہتا تھا کہ خدا تمہیں یہ یا وہ کرنے کا حکم دیتا ہے، یا تم فلاں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرو اور فلاں کے ساتھ نہ کرو۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں  کہ مذہب کی موجودہ شکل سے کہیں پہلے نہ صرف شادی بیاہ کا تصور موجود تھا بلکہ  قریبی خونی رشتوں سے جنسی تعلقات سے ممانعت بھی پائی جاتی تھی اور اس میں مذہب کا کوئی ہاتھ نہیں۔مذہب نے صرف یہ کیا کہ پہلے سے موجود رسوم و رواج کو اٹھایا اور اپنی تعلیمات کا حصہ بنا دیا۔

    سب سے اہم بات یہ کہ آج کے ملحدین جو کسی الہامی حدود و قیود اور گناہ و ثواب کے تصور سے عاری ہیں تو وہ اس معاملہ میں کہاں کھڑے ہیں؟ اور کیوں کھڑے ہیں چلیں میں ایک سیدھا سوال کرلیتا ہوں کہ ایک لا مذھب کس طرح اپنے بالغ بہن بھائیوں یا بچوں کو جنسی فعل میں ملوث ہونے سے روکے گا (اگر واقعی وہ روکنا بھی چاہے)؟

    کچھ اور سوالات بھی ہیں جو ملحدین سے پوچھے جانے چاہیئں۔۔۔۔۔

    مثلاً ایک ملحد کسی انسان سے ہمدردی کیوں کرتا ہے، وہ کسی کی مدد کیوں کرتا ہے، وہ چیرٹی کیوں کرتا ہے، کیونکہ اس کا تو موت کے بعد زندگی جنت / جہنم پر یقین ہے ہی نہیں، پھر اس کے پاس کیا لاجک کیا دلیل ہے، وہ کیوں یہ بے مقصد کام کررہا ہے۔ ایک ملحد کپڑے کیوں پہنتا ہے، اس کو کس خدا نے کہا ہے کہ اپنی شرمگاہیں ڈھانپ کر رکھو، وہ تو کسی خدا کو نہیں مانتا، پھر وہ کپڑے کیوں پہنتا ہے، ننگا کیوں نہیں گھومتا۔ کئی ملحد ویجیٹیرین ہیں، ان کو کس نے روکا ہے ، وہ جانور کو تکلیف کیوں نہیں پہنچانا چاہتے، وہ تو آزاد ہیں، کھلم کھلا چیر پھاڑ کریں، جانوروں کو تڑپائیں، پھڑکائیں، مزے لیں، نہ تو ان پر کوئی مذہبی قدغن ہےنہ ریاستی، پھر وہ کیوں ایسا نہیں کرتے، ان کے پاس کونسی دلیل ہے اس سے باز رہنے کی۔۔

    ایسے اور بھی بے شمار سوالات پوچھے جاسکتے ہیں۔ مگر جب یہ سوال اٹھائے جاتے ہیں تو ایک طرح سے یہ مان لیا جاتا ہے کہ انسان کے اندر اس کو حیوانوں سے الگ کرنے والی کوئی انسانی صفت ہے ہی نہیں، اور یہ بھی مان لیا جاتا ہے کہ انسان آج تہذیب اور شائستگی کے جس مقام پر کھڑا ہے، وہ اس نے اپنے طویل ارتقائی شعوری سفر سے حاصل نہیں کی، بلکہ ایک خدائی ڈنڈا ہے جس نے انسان کو اچھا، مہذب اور نیک فطرت بنا رکھا ہے۔۔  اور جب ایک مذہب پرست یہ سوال پوچھتا ہے کہ ملحد کو کس دلیل / کس چیز نے اپنی ماں بہن سے جنسی تعلقات سے روک رکھا ہے تو ایک طرح سے مذہب پرست یہ اقرار کررہا ہے کہ میں تو (یعنی مذہبی شخص) صرف اس لئے اس عمل سے گریزپا ہوں کیونکہ مجھے خدائی ڈنڈے نے روک رکھا ہے، وگرنہ میری فطرت / میری ذات / میں خود تو اس عمل کو سرانجام دینے کے لئے تیار ہوں ۔۔

    اسی تناظر میں دیکھیں تو ایک (مہذب) ملحد، وہی نہیں جو ابھی ابھی مذہبی قید سے آزاد ہوا ہے، بلکہ وہ بھی جو نسل در نسل ملحد ہے، اس لئے مہذب ہے، اس لئے چیرٹی کرتا ہے، اس لئے ننگا نہیں گھومتا ، اس لئے ماں بہن سے جنسی تعلقات قائم نہیں کرتا، کیونکہ اس کے پیچھے ایک طویل اجتماعی انسانی شعور سے کشید کردہ ورثہ ہے جس نے اسے تہذیب و شائستگی سکھائی ہے، اسے رشتوں کی تمیز اور تقدس سکھایا ہے، انسان، انسان صرف اس لئے ہے کیونکہ اس کے پاس اربوں کھربوں لوگوں کی اجتماعی دانش سے کشید ورثہ ہے، جس (ورثے) میں عقل ہے،علم ہے، تہذیب ہے، تمیز ہے، زندگی گزارنے اور بہتر سماج کی تشکیل کے اصول و ضوابط ہیں، اسی ورثے نے انسان کی اندرونی صفات جیسا کہ ہمدردی، رحمدلی، اچھائی کی طرف رغبت وغیرہ کو پالش کیا۔  وگرنہ آج بھی اگر کوئی انسان جنگل میں پیدا ہو، جہاں وہ اکیلا رہے، اور اس کو ساتھ تعامل کرنے والا کوئی دوسرا انسان نہ ہو تو وہ دیگر حیوانوں سے زیادہ مختلف نہ ہوگا اور ویسا ہی اجڈ ہوگا جیسا قدیم ترین انسان ہوتا تھا۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #10
    اس بات کو چھوڑیں کہ سوال کا سیاق و سباق کیا تھا آپ نے جواب پر تحسین کے ڈونگرے برسایے تھے تو بتایں آپ کے نزدیک(بطور ایک لا مذھب) انسیسٹ کی کیا حیثیت ہے اور کیوں ہے ؟

    گھوسٹ صاحب۔۔۔۔۔

    ذرا مصروفیت ہے۔۔۔۔۔ وقت ملتے ہی اِس صفحہ پر اپنے خیالات لکھتا ہوں۔۔۔۔۔

    ایک مختصر سا مگر انتہائی اہمیت کا حامل نکتہ لکھ دیتا ہوں۔۔۔۔۔

    کچھ عرصہ پہلے جے ایم پی صاحب نے ایک صفحہ بنایا تھا پرانی فلموں کے گانوں اور گذرے زمانے کے بارے میں۔۔۔۔۔ اُس صفحہ پر ایک بات کہی گئی تھی کہ ہمیں کوئی چیز اچھی یا بری کیوں لگتی ہے۔۔۔۔۔ ذرا اِس پر غور کریں۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11
    زندہ رود کے  دو جواب  بھی واقعی وزن رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

    لیکن پروٹوکول ۔۔۔۔۔ نے  جو جوابی ۔۔۔ سوال دا غا ہے وہ بھی بہت  لاجواب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ۔۔۔

    ایک لا مذھب کس طرح اپنے بالغ بہن بھائیوں یا بچوں کو جنسی فعل میں ملوث ہونے سے روکے گا (اگر واقعی وہ روکنا بھی چاہے)؟۔۔۔۔

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #12

    مذہب کی تعلیمات میں جھوٹ بولنا منع ہے مگر لوگ جھوٹ بولتے ہیں
    مذہب میں کسی کا دل دکھانا منع ہے مگر لوگ دل دکھاتے ہیں
    مذہب میں بے ایمانی منع ہے مگر لوگ بے ایمانی کرتے ہیں
    مذہب میں کسی کا قتل کرنا منع ہے لوگ قتل کرتے ہیں
    مذہب میں زنا غلط ہے مگر لوگ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں

    اگر مذہب میں منع کی ہوئی اکثر یا چند باتیں سب نہیں تو کافی لوگ کرتے ہیں تو اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے مباشرت نہ کرنے میں مذہب کی کونسی شق یا قباحت آڑے آ جاتی ہے

    میرے نزدیک انسان کے اچھے یا برے ، پسندیدہ یا نہ پسندیدہ اعمال کے کرنے یا نہ کرنے میں صرف مذہب کا ہی ہاتھ نہیں ہے بلکے اور بھی بہت سارے عوامل ہیں جن کا بہت عمل دخل ہے

    اگر مذہب اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے مباشرت سے نہ روکتا تو کیا مذہبی لوگ ایسا کرتے یا نہیں کرتے ؟ اگر نہیں کرتے تو کیوں نہیں

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #13
    زندہ رود صاحب، کیا مذاھب سے قبل شادی کا تصور بھی تھا؟ محرم غیر محرم کی بات تو بعد میں آتی ہے دوسری بات کہ اپ نے یہ نتیجہ کس طرح اخذ کرلیا کہ جنسی حدود کا تعین انسان کے شعوری ارتقا کا حاصل ہیں؟ پھر ارتقا تو کویی جامد شے نہیں ہے ان حدود و قیود میں تبدیلیاں آنا لازمی سا ٹہر گیا ہے. سب سے اہم بات یہ کہ آج کے ملحدین جو کسی الہامی حدود و قیود اور گناہ و ثواب کے تصور سے عاری ہیں تو وہ اس معاملہ میں کہاں کھڑے ہیں؟ اور کیوں کھڑے ہیں چلیں میں ایک سیدھا سوال کرلیتا ہوں کہ ایک لا مذھب کس طرح اپنے بالغ بہن بھائیوں یا بچوں کو جنسی فعل میں ملوث ہونے سے روکے گا (اگر واقعی وہ روکنا بھی چاہے)؟

    Ghost Protocolsahib

    محترم گھوسٹ پروٹوکول صاحب

    معذرت کے آپ اور محترم زندہ رود صاحب کے درمیان ہونے والی دلچسپ گفتگو میں ٹانگ اڑا رہا ہوں

    میرے خیال میں ویسے ہی روکے گا جیسے جھوٹ بولنے سے روکتا ہے . اکثر غیر مذہبی لوگ بھی جھوٹ نہیں بولتے

    میرے خیال میں قطع نظر اس کے کے کوئی مذہبی ہے یا نہیں ہے، لوگ اچھے اعمال بھی کرتے ہیں اور برے بھی . مذہب اکثر انعام اور سزا کے حوالے سے انسان کو کچھ اعمال سے روکنے کی کوشش ضرور کرتا ہے اور کبھی کامیاب ہوتا ہے اور کبھی نہیں. جن لوگوں کا مذہب پر عقیدہ نہیں وہ بھی اچھے اعمال کرتے ہیں مگر ان کو ثواب یا گناہ سے زیادہ اپنے افکار ، اپنی سوچ، اپنے اصول کا خیال ہوتا ہے اور یہ ان غیر مذہبی لوگوں کو اکثر برے اعمال کرنے سے روکتے ہیں. میں یہ نہیں کہہ رہا کے مذہبی لوگوں کے اصول، افکار یا سوچ نہیں ہوتی . میں یہ کہہ رہا ہوں کے مذہبی لوگوں کو ثواب اور گناہ کی بھی فکر ہو سکتی ہے مگر غیر مذہیب لوگوں کو گناہ اور ثواب کی فکر نہیں ہوتی

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #14

    گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔ یہ کوئی مذہب بمقابلہ دہریت کی بحث نہیں ہے، اس کے پیچھے طویل تاریخ کھڑی ہے جس سے واقف ہونا ازحد ضروری ہے۔ اگر آپ قدیم انسانوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے (مذہب سمیت) وہ سب اجتماعی انسانی شعور کا نتیجہ ہے۔

    فریڈرک اینگلز نے اپنی کتاب “خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کے آغاز” میں تاریخی حوالوں سے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے کہ دنیا کے قدیم ترین قبائل میں جنسی تعلقات کی نوعیت کیا تھی، شادی کی کیا شکلیں تھیں، لوگ کس طرح رہتے اور ایک دوسرے سے تعلقات رکھتے تھے۔ فریڈرک اینگلز نے مارگن، باخوفن اور دیگر مورخین کے حوالے سے مختلف قبائل میں جنسی تعلقات کی جو شکلیں بیان کی ہیں، ان میں گروہ وار شادی سے لے کر یک زوجگی تک کی شکلیں ملتی ہیں ۔ مارگن کے مطابق ہوائی کے قدیم قبائل میں بہن بھائی اور ماں بیٹے وغیرہ میں جنسی تعلقات کی ممانعت پائی جاتی تھی اور گنوں کی شادی کی اگلی شکل یعنی جوڑا شادی (ایک مرد کی ایک عورت سے شادی) کا رواج بھی امریکہ کے ریڈ انڈینز، آسٹریلیا اور افریقہ کے قدیم قبائل میں پایا جاتا تھا۔ ۔ آپ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اس وقت ان قبائل میں آج کے دور کے کسی منظم مذہب کی کوئی شکل نہیں ملتی، ہاں وہ لوگ اپنے اپنے حساب سے مختلف چیزوں، سورج، ستاروں، دیوی دیوتاؤں کی پوجا ضرور کرتے تھے، مگر یہ یک طرفہ تعلق تھا، یعنی کوئی شخص انہیں یہ نہیں کہتا تھا کہ خدا تمہیں یہ یا وہ کرنے کا حکم دیتا ہے، یا تم فلاں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرو اور فلاں کے ساتھ نہ کرو۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مذہب کی موجودہ شکل سے کہیں پہلے نہ صرف شادی بیاہ کا تصور موجود تھا بلکہ قریبی خونی رشتوں سے جنسی تعلقات سے ممانعت بھی پائی جاتی تھی اور اس میں مذہب کا کوئی ہاتھ نہیں۔مذہب نے صرف یہ کیا کہ پہلے سے موجود رسوم و رواج کو اٹھایا اور اپنی تعلیمات کا حصہ بنا دیا۔

    کچھ اور سوالات بھی ہیں جو ملحدین سے پوچھے جانے چاہیئں۔۔۔۔۔

    مثلاً ایک ملحد کسی انسان سے ہمدردی کیوں کرتا ہے، وہ کسی کی مدد کیوں کرتا ہے، وہ چیرٹی کیوں کرتا ہے، کیونکہ اس کا تو موت کے بعد زندگی جنت / جہنم پر یقین ہے ہی نہیں، پھر اس کے پاس کیا لاجک کیا دلیل ہے، وہ کیوں یہ بے مقصد کام کررہا ہے۔ ایک ملحد کپڑے کیوں پہنتا ہے، اس کو کس خدا نے کہا ہے کہ اپنی شرمگاہیں ڈھانپ کر رکھو، وہ تو کسی خدا کو نہیں مانتا، پھر وہ کپڑے کیوں پہنتا ہے، ننگا کیوں نہیں گھومتا۔ کئی ملحد ویجیٹیرین ہیں، ان کو کس نے روکا ہے ، وہ جانور کو تکلیف کیوں نہیں پہنچانا چاہتے، وہ تو آزاد ہیں، کھلم کھلا چیر پھاڑ کریں، جانوروں کو تڑپائیں، پھڑکائیں، مزے لیں، نہ تو ان پر کوئی مذہبی قدغن ہےنہ ریاستی، پھر وہ کیوں ایسا نہیں کرتے، ان کے پاس کونسی دلیل ہے اس سے باز رہنے کی۔۔

    ایسے اور بھی بے شمار سوالات پوچھے جاسکتے ہیں۔ مگر جب یہ سوال اٹھائے جاتے ہیں تو ایک طرح سے یہ مان لیا جاتا ہے کہ انسان کے اندر اس کو حیوانوں سے الگ کرنے والی کوئی انسانی صفت ہے ہی نہیں، اور یہ بھی مان لیا جاتا ہے کہ انسان آج تہذیب اور شائستگی کے جس مقام پر کھڑا ہے، وہ اس نے اپنے طویل ارتقائی شعوری سفر سے حاصل نہیں کی، بلکہ ایک خدائی ڈنڈا ہے جس نے انسان کو اچھا، مہذب اور نیک فطرت بنا رکھا ہے۔۔ اور جب ایک مذہب پرست یہ سوال پوچھتا ہے کہ ملحد کو کس دلیل / کس چیز نے اپنی ماں بہن سے جنسی تعلقات سے روک رکھا ہے تو ایک طرح سے مذہب پرست یہ اقرار کررہا ہے کہ میں تو (یعنی مذہبی شخص) صرف اس لئے اس عمل سے گریزپا ہوں کیونکہ مجھے خدائی ڈنڈے نے روک رکھا ہے، وگرنہ میری فطرت / میری ذات / میں خود تو اس عمل کو سرانجام دینے کے لئے تیار ہوں ۔۔

    اسی تناظر میں دیکھیں تو ایک (مہذب) ملحد، وہی نہیں جو ابھی ابھی مذہبی قید سے آزاد ہوا ہے، بلکہ وہ بھی جو نسل در نسل ملحد ہے، اس لئے مہذب ہے، اس لئے چیرٹی کرتا ہے، اس لئے ننگا نہیں گھومتا ، اس لئے ماں بہن سے جنسی تعلقات قائم نہیں کرتا، کیونکہ اس کے پیچھے ایک طویل اجتماعی انسانی شعور سے کشید کردہ ورثہ ہے جس نے اسے تہذیب و شائستگی سکھائی ہے، اسے رشتوں کی تمیز اور تقدس سکھایا ہے، انسان، انسان صرف اس لئے ہے کیونکہ اس کے پاس اربوں کھربوں لوگوں کی اجتماعی دانش سے کشید ورثہ ہے، جس (ورثے) میں عقل ہے،علم ہے، تہذیب ہے، تمیز ہے، زندگی گزارنے اور بہتر سماج کی تشکیل کے اصول و ضوابط ہیں، اسی ورثے نے انسان کی اندرونی صفات جیسا کہ ہمدردی، رحمدلی، اچھائی کی طرف رغبت وغیرہ کو پالش کیا۔ وگرنہ آج بھی اگر کوئی انسان جنگل میں پیدا ہو، جہاں وہ اکیلا رہے، اور اس کو ساتھ تعامل کرنے والا کوئی دوسرا انسان نہ ہو تو وہ دیگر حیوانوں سے زیادہ مختلف نہ ہوگا اور ویسا ہی اجڈ ہوگا جیسا قدیم ترین انسان ہوتا تھا۔

    زندہ رود صاحب،
    ہزاروں لاکھوں سال قبل انسانوں میں کس قسم کے رسم و رواج تھے انکے بارے میں قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے حتی کہ ماہرین کی راے بھی بس اتنی ہی مستند ہوسکتی ہے کہ انھوں نے اپنے مفروضہ کے حق میں کن مفروضات کو استعمال کیا ہے ہزاروں سالوں کو چھوڑیں آج کے انتہائی جدید پیغام رسانی و مواصلات کے دور میں محض چند برس پیشتر پیش آے واقعات کے بارے میں سچائی کی ایک سے زیادہ اشکال دستیاب ہیں جو اپنے جوہر میں ایک دوسرے سے بلکل متضاد ہوتی ہیں لہٰذا چند ایک حوالوں سے یہ بات حتمی طور پر کہنا کہ دور قدیم میں بھی انسان قریبی رشتوں سے جنسی طور پر ایک فاصلہ رکھتا تھا انتہائی محدود وزن کا حامل ہوگا اس بات سے قطع نظر یہ بات بنیادی نکتہ نہیں ہے
    میرا حتمی سوال آپ کی دیگر مثالوں کے باوجود اپنی جگہ بلکل ویسا ہی کھڑا ہے کچھ وجہ ہے کہ آپ اسکا براہ راست جواب دینے سے احتراض کررہے ہیں ؟
    آئیے آپ کی طرف سے اٹھاے گئے دیگر نقاط کا بھی انفرادی طور پر جائزہ لیتے ہیں
    آپ کے دلائل کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انسان کا تھذیب یافتہ ہونا، شائستہ ہونا، نیک ہونا، رحمدل ہونا، خیرات کرنا، کپڑے پہننا، سبزی خور ہونا اور قریبی رشتوں میں جنسی حدود کا احترام کرنا اپنی نوعیت میں بہتر اعمال / صفات ہیں اور انسانی شعوری ارتقا کا نتیجہ ہیں
    انمیں سے کچھ خصوصیات انسانی جبلت کا حصہ ہیں مثلا رحم دل ہونا، شائستہ ہونا اسی طرح جنسی خواھشات بھی انسانی جبلت کا ہی حصہ ہیں ہمارا موضوع سخن جنسی حدود و قیود ہیں جو کہ جبلت کو نہیں بلکہ معاشرتی حدود و قیود کو ظاہر کرتی ہیں امید ہے میرا نکتہ یہاں واضح ہوا ہوگا
    اب آجائیں کپڑے پہننا اور جنسی حدود و قیود میں تقابل والی مثال کا جائزہ لیتے ہیں کیا کپڑے پہننا ہر حال میں افضل ہے؟ کپڑے پہننا ایک معاشرتی قدر تو ہے مگر بہتر یا افضل کسطرح ہے کرہ عرض پر اس وقت بھی ایسے قبائل موجود ہیں جہاں کپڑوں کا رواج موجود نہیں ہے اور برہنہ گھومنا برائی نہیں سمجھا جاتا اسی طرح جن معاشروں میں کپڑے پہننا معاشرتی طور پر عام ہے انمیں بھی حالات موافق ہوں تو برہنہ ہوجانا برائی کے زمرے میں نہیں آتا جیسے ساحلی مقامات یا سوئمنگ پول پر. اور ایسے ساحلی مقامات سے تو آپ آگاہ ہی ہونگے جہاں مکمل طور پر برہنہ ہونا لازمی ہوتا ہے اس قدر کا آپ جنسی حدود و قیود سے موازنہ کریں تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حالات موافق ہوں تو جنسی حدود و قیود کی دھجیاں اڑانا قابل قبول ہوگا ؟
    سبزی خور ہونا، خیرات کرنا اور جنسی حدود و قیود میں تقابل
    اگر میں یہ نتیجہ اخذ کروں کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سبزی خور ہونا، خیرات کرنا اور جنسی حدود قیود کا احترام کرنا افضل اور بہترین اعمال ہیں اور شعوری ارتقا کا نتیجہ ہیں
    کیا انسانی شعور بحیثیت مجموعی اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کہ سبزی خور ہونا ایک افضل اور غیر سبزی خور ہونا کم تر عمل ہے؟ کیا اسکا تعلق زراعت میں ترقی اور زیادہ غذائی آپشنز کی موجود گی کے ساتھ ساتھ اس علم سے نہیں ہے جسکے ذریے گوشت خوری کے نتیجے میں انسانی صحت پر پڑنے والے مضر اثرات سے آگاہی حاصل ہویی ہے درج بالا دونوں عوامل کے باوجود کیا آپ کسی کو گوشت خوری سے پرہیز پر مجبور کرسکتے ہیں؟ کیا یہ اپنی نوعیت میں جنسی حدود و قیود جیسا ہی ہے؟
    اسی طرح کیا خیرات کرنا کسی انسان پر لازم ہے یا یہ اسکا اختیار ہے؟ کیا کویی قدر یا قانون انسانوں کو خیرات نہ کرنے پر مورد الزام ٹہراتا ہے؟ کیا یہ آزادی آپ جنسی حدود و قیود پر بھی رکھنا چاہتے ہیں کہ جنسی حدود و قیود کا احترام اختیاری ہے؟
    آپ کی درج کردہ مثالوں کا تقابل جنسی حدود و قیود سے کرنے سے میرے خیال میں یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے اپنی نوعیت میں دیگر معاشرتی و جبلتی اقدار اور جنسی تحمل مختلف کیفیات ہیں
    اسی ضمن میں دیگر اچّھایوں یعنی سچ بولنے سے بھی اسکا تقابل کیا جاسکتا ہے سچ بولنا بھی اپنی نوعیت میں مختلف خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے ایسا جھوٹ جس سے کسی دوسرے کے حقوق متاثر ہونے کا امکان نہ ہو تو اختیاری ہوسکتا ہے کم تر بھی مانا جاسکتا ہے مگر اس پر اسکی پکڑ ہونا یا احتساب کرنا ضروری نہیں ہے جبکہ صورتحال اسکی ضد ہو تو سچ بولنا قانونی ذمہ داری بن جاتی ہے کیا یہ اختیاری صورتحال جنسی تحمل میں بھی موجود ہے ؟

    اسکے ساتھ ساتھ آئیے اس سوال پر بھی بات کرلیتے ہیں کہ کیا مذھب کے پیروکاروں کو مذھبی حدود نے قریبی رشتوں سے جنسی تعلقات سے روکا ہوا ہے؟ اور مذہبی حدود کی عدم موجودگی کیا انکو جنسی حیوان میں تبدیل کردے گی؟ اسکا جواب ایک سوال کی صورت میں بھی دیا جاسکتا ہے کہ کیا مذہبی پیرو کار جنسی حدود و قیود سے پاک رشتوں میں اس رویہ (جنسی درندگی)کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ کیا ہر نا محرم کو دیکھتے ہی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں؟ ان سوالات سے آگے بڑھ کر ایک اور سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا مذہبی پیروکار اپنے جائز جنسی پارٹنر کے ساتھ بھی ہر وقت جنسی تعلقات بناہے رکھتے ہیں ؟ اگر ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں تو جو نکتہ سامنے آتا ہے کہ جنسی تعلقات استوار کرنے کے لئے کچھ اور بھی لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے اور جنسی آزادی یا تحمل اسکا محض ایک مگر اہم جز ہے

    آخری میں میں اس مفروضہ کو کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں کہ انسانیت اپنے طویل ارتقا کے نتیجہ میں اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ قریبی رشتوں میں جنسی تعلقات برائی کے زمرہ میں آتے ہیں- اس کے لئے ان معاشروں کا جائزہ لینا نا گزیر ہوجاتا ہے جو سیکولر اور لادین بھی ہوں اور ترقی یافتہ بھی ہوں انکے قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کئی معاشروں میں قریبی رشتوں میں جنسی تعلقات قابل تعزیر جرم نہیں ہے اگر انمیں ایک فریق نا بالغ کی تعریف پر پورا نہیں اترتا ہو تو. اگر یہ ایک ٹرینڈ کی ابتدائی شکل ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ آنے والی چند صدیوں میں انسانوں کا رویہ اور جنسی اقدار مکمل طور پر تبدیل ہوجاییں گیں

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #15
    زندہ رود صاحب، ہزاروں لاکھوں سال قبل انسانوں میں کس قسم کے رسم و رواج تھے انکے بارے میں قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے حتی کہ ماہرین کی راے بھی بس اتنی ہی مستند ہوسکتی ہے کہ انھوں نے اپنے مفروضہ کے حق میں کن مفروضات کو استعمال کیا ہے ہزاروں سالوں کو چھوڑیں آج کے انتہائی جدید پیغام رسانی و مواصلات کے دور میں محض چند برس پیشتر پیش آے واقعات کے بارے میں سچائی کی ایک سے زیادہ اشکال دستیاب ہیں جو اپنے جوہر میں ایک دوسرے سے بلکل متضاد ہوتی ہیں لہٰذا چند ایک حوالوں سے یہ بات حتمی طور پر کہنا کہ دور قدیم میں بھی انسان قریبی رشتوں سے جنسی طور پر ایک فاصلہ رکھتا تھا انتہائی محدود وزن کا حامل ہوگا

    گھوسٹ پروٹول صاحب۔۔۔ یہ تاریخی شواہد اتنے بھی غیر مستند نہیں ہیں، کیونکہ آج بھی امریکہ میں پرانے ایراکواس قبائل ملتے ہیں جو دورِ جدید کی تہذیب سے بالکل دور ہیں اور پرانی تہذیب پر کاربند زندگی گزار رہے ہیں۔۔ ہاں ہم اس کو حتمی نہیں کہہ سکتے لیکن کیا یہ شواہد مذہبی لوگوں کے اس دعوے سے بالاتر حیثیت نہیں رکھتے کہ مذہب سے پہلے شادی بیاہ و جنسی حدود و قیود کا کوئی تصور تک نہ تھا، جبکہ مذہبی لوگوں کے پاس اپنے اس دعوے کے جواز میں اتنے بھی شواہد نہیں ہیں ۔۔

    آئیے آپ کی طرف سے اٹھاے گئے دیگر نقاط کا بھی انفرادی طور پر جائزہ لیتے ہیں آپ کے دلائل کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انسان کا تھذیب یافتہ ہونا، شائستہ ہونا، نیک ہونا، رحمدل ہونا، خیرات کرنا، کپڑے پہننا، سبزی خور ہونا اور قریبی رشتوں میں جنسی حدود کا احترام کرنا اپنی نوعیت میں بہتر اعمال / صفات ہیں اور انسانی شعوری ارتقا کا نتیجہ ہیں انمیں سے کچھ خصوصیات انسانی جبلت کا حصہ ہیں مثلا رحم دل ہونا، شائستہ ہونا اسی طرح جنسی خواھشات بھی انسانی جبلت کا ہی حصہ ہیں ہمارا موضوع سخن جنسی حدود و قیود ہیں جو کہ جبلت کو نہیں بلکہ معاشرتی حدود و قیود کو ظاہر کرتی ہیں امید ہے میرا نکتہ یہاں واضح ہوا ہوگا اب آجائیں کپڑے پہننا اور جنسی حدود و قیود میں تقابل والی مثال کا جائزہ لیتے ہیں کیا کپڑے پہننا ہر حال میں افضل ہے؟ کپڑے پہننا ایک معاشرتی قدر تو ہے مگر بہتر یا افضل کسطرح ہے کرہ عرض پر اس وقت بھی ایسے قبائل موجود ہیں جہاں کپڑوں کا رواج موجود نہیں ہے اور برہنہ گھومنا برائی نہیں سمجھا جاتا اسی طرح جن معاشروں میں کپڑے پہننا معاشرتی طور پر عام ہے انمیں بھی حالات موافق ہوں تو برہنہ ہوجانا برائی کے زمرے میں نہیں آتا جیسے ساحلی مقامات یا سوئمنگ پول پر. اور ایسے ساحلی مقامات سے تو آپ آگاہ ہی ہونگے جہاں مکمل طور پر برہنہ ہونا لازمی ہوتا ہے اس قدر کا آپ جنسی حدود و قیود سے موازنہ کریں تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حالات موافق ہوں تو جنسی حدود و قیود کی دھجیاں اڑانا قابل قبول ہوگا ؟ سبزی خور ہونا، خیرات کرنا اور جنسی حدود و قیود میں تقابل اگر میں یہ نتیجہ اخذ کروں کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سبزی خور ہونا، خیرات کرنا اور جنسی حدود قیود کا احترام کرنا افضل اور بہترین اعمال ہیں اور شعوری ارتقا کا نتیجہ ہیں کیا انسانی شعور بحیثیت مجموعی اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کہ سبزی خور ہونا ایک افضل اور غیر سبزی خور ہونا کم تر عمل ہے؟ کیا اسکا تعلق زراعت میں ترقی اور زیادہ غذائی آپشنز کی موجود گی کے ساتھ ساتھ اس علم سے نہیں ہے جسکے ذریے گوشت خوری کے نتیجے میں انسانی صحت پر پڑنے والے مضر اثرات سے آگاہی حاصل ہویی ہے درج بالا دونوں عوامل کے باوجود کیا آپ کسی کو گوشت خوری سے پرہیز پر مجبور کرسکتے ہیں؟ کیا یہ اپنی نوعیت میں جنسی حدود و قیود جیسا ہی ہے؟ اسی طرح کیا خیرات کرنا کسی انسان پر لازم ہے یا یہ اسکا اختیار ہے؟ کیا کویی قدر یا قانون انسانوں کو خیرات نہ کرنے پر مورد الزام ٹہراتا ہے؟ کیا یہ آزادی آپ جنسی حدود و قیود پر بھی رکھنا چاہتے ہیں کہ جنسی حدود و قیود کا احترام اختیاری ہے؟ آپ کی درج کردہ مثالوں کا تقابل جنسی حدود و قیود سے کرنے سے میرے خیال میں یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے اپنی نوعیت میں دیگر معاشرتی و جبلتی اقدار اور جنسی تحمل مختلف کیفیات ہیں اسی ضمن میں دیگر اچّھایوں یعنی سچ بولنے سے بھی اسکا تقابل کیا جاسکتا ہے سچ بولنا بھی اپنی نوعیت میں مختلف خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے ایسا جھوٹ جس سے کسی دوسرے کے حقوق متاثر ہونے کا امکان نہ ہو تو اختیاری ہوسکتا ہے کم تر بھی مانا جاسکتا ہے مگر اس پر اسکی پکڑ ہونا یا احتساب کرنا ضروری نہیں ہے جبکہ صورتحال اسکی ضد ہو تو سچ بولنا قانونی ذمہ داری بن جاتی ہے کیا یہ اختیاری صورتحال جنسی تحمل میں بھی موجود ہے ؟

    گھوسٹ صاحب۔۔ میں نے یہ مثالیں اچھائی یا برائی کے تناظر میں نہیں دی تھیں، میرا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ انسان نے خود کو حیوانی جبلت سے مقدور بھر دور کرنے کے لئے اور بہتر سماج کی تشکیل کیلئے خود پر شائستگی کی کچھ پرتیں چڑھائی ہیں، جن میں کپڑے پہننا ، ایک دوسرے سے اچھا سلوک وغیرہ شامل ہے۔ میری دی گئی مثالوں کا آپ جس طرح جنسی حدود و قیود والے معاملے سے موازنہ کررہے ہیں، وہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ 

    اسکے ساتھ ساتھ آئیے اس سوال پر بھی بات کرلیتے ہیں کہ کیا مذھب کے پیروکاروں کو مذھبی حدود نے قریبی رشتوں سے جنسی تعلقات سے روکا ہوا ہے؟ اور مذہبی حدود کی عدم موجودگی کیا انکو جنسی حیوان میں تبدیل کردے گی؟ اسکا جواب ایک سوال کی صورت میں بھی دیا جاسکتا ہے کہ کیا مذہبی پیرو کار جنسی حدود و قیود سے پاک رشتوں میں اس رویہ (جنسی درندگی)کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ کیا ہر نا محرم کو دیکھتے ہی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں؟ ان سوالات سے آگے بڑھ کر ایک اور سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا مذہبی پیروکار اپنے جائز جنسی پارٹنر کے ساتھ بھی ہر وقت جنسی تعلقات بناہے رکھتے ہیں ؟ اگر ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں تو جو نکتہ سامنے آتا ہے کہ جنسی تعلقات استوار کرنے کے لئے کچھ اور بھی لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے اور جنسی آزادی یا تحمل اسکا محض ایک مگر اہم جز ہے

    گھوسٹ صاحب۔۔۔ کیا یہاں آپ جنسی معاملات میں مذہب کے غیر متعلق عنصر ہونے کا اعتراف نہیں کررہے۔۔۔؟؟؟

    میرا حتمی سوال آپ کی دیگر مثالوں کے باوجود اپنی جگہ بلکل ویسا ہی کھڑا ہے کچھ وجہ ہے کہ آپ اسکا براہ راست جواب دینے سے احتراض کررہے ہیں ؟

    آخری میں میں اس مفروضہ کو کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں کہ انسانیت اپنے طویل ارتقا کے نتیجہ میں اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ قریبی رشتوں میں جنسی تعلقات برائی کے زمرہ میں آتے ہیں- اس کے لئے ان معاشروں کا جائزہ لینا نا گزیر ہوجاتا ہے جو سیکولر اور لادین بھی ہوں اور ترقی یافتہ بھی ہوں انکے قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کئی معاشروں میں قریبی رشتوں میں جنسی تعلقات قابل تعزیر جرم نہیں ہے اگر انمیں ایک فریق نا بالغ کی تعریف پر پورا نہیں اترتا ہو تو. اگر یہ ایک ٹرینڈ کی ابتدائی شکل ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ آنے والی چند صدیوں میں انسانوں کا رویہ اور جنسی اقدار مکمل طور پر تبدیل ہوجاییں گیں

    جہاں تک میرا خیال ہے (اور شاید آپ بھی مجھ سے متفق ہوں) صحیح / غلط، اچھائی / برائی کے کوئی آفاقی پیمانے نہیں ہیں۔ ایسا نہیں کہ جو آج ہمارے لئے صحیح یا غلط ہے وہ ہمیشہ سے یا ہر دور میں صحیح یا غلط رہا ہو۔ اور ایک ہی وقت میں مختلف معاشروں کے لئے صحیح / غلط، اچھائی / برائی کے پیمانے مختلف ہوسکتے ہیں۔  ہمارے لئے صحیح وہی ہے جو ہمارے زمانے کے مروجہ اصولوں، ہمارے ماضی کے تجربے اور ہماری موجودہ سوچ کے زاویے کے مطابق صحیح ہو، اسی طرح اچھائی اور برائی بھی وہی ہے جو ہمارے آج کے زمانے اور معاشرے کے حساب سے قرار پائی ہو۔یہی پیمانے آج ہی کی دنیا میں مختلف جگہوں پر مختلف مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں۔ میں آج ہی کے زمانے سے بے شمار مثالیں دے سکتا ہوں، مگر بحث طول پکڑ جائے گی۔

    مختصراً مدعے کی طرف آتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ابراہیمی مذاہب کے پیروکار یہ مانتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد زمانہ آدم میں بہنوں کے ساتھ شادیاں کیا کرتے تھے اور یہ اس وقت کوئی معیوب فعل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں کہ اس وقت یہ معیوب کیوں نہیں سمجھا جاتا تھا؟ اگر صحیح غلط کا کوئی آفاقی پیمانہ ہے تو آج کا صحیح اس دور پر کیوں لاگو نہیں ہوتا۔ ہم آج جس چیز کو انتہا درجے کی برائی سمجھتے ہیں، وہ اس دور میں کیوں بالکل برائی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح اگر آپ دورِ قدیم کی انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ملے گی، ابتدائی دور کا جو وحشی انسان تھا، اس میں جنسی معاملات میں کوئی خاص حدود و قیود نہیں تھی۔۔ ان کےمعیارات کے حساب سے اس وقت وہ صحیح تھا، وہ اس کو غلط نہیں سمجھتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ جیسے جیسے انسان کا سماجی و شعوری ارتقا ہوتا گیا، انسان روٹی روزی کے فکر سے قدرے اوپر آیا، تو اسے سوچنے سمجھنے کے مواقع ملے، اس کے غلط صحیح کے پیمانوں میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہیں۔ انسان کی زندگی میں وہ خاص موڑ کب آیا جب اس نے جنسی معاملات میں قریبی رشتوں کو خود پر حرام کیا، اس بارے میں کوئی حتمی تاریخی معلومات تو نہیں ملتیں، مگر تاریخ دان یہ کہتے ہیں (فریڈرک اینگلز کی خاندان سے متعلق کتاب میں بھی یہی لکھا ہے)  کہ جن قبائل میں کسی وجہ سے بہن بھائی وغیرہ کی شادی نہ ہوتی ہوگی، ان میں پیدا ہونے والے بچے اور نسلیں باقی قبائل کی نسبت بہت بہتر اورجینیاتی بیماریوں سے پاک ہوتے ہوں گے اور اس چیز کو دیکھتے ہوئے رفتہ رفتہ دیگر قبائل نے بھی اس رواج کو اپنا لیا ہوگا۔ اور بعد میں انسان کو اس کی اصل وجہ تو بھول گئی، مگر یہ انسان کی معاشرت کا حصہ بن گیا۔۔

    اگر دیکھا جائے تو یہ انسان کی فطرت اور نفسیات  سے بھی موافق ہے کہ انسان جب شعور میں تھوڑا بلند قامت ہوا تو اسے یہ اچھا نہیں لگتا ہوگا کہ بچپن میں جو بہن بھائی ایک الگ طرح کے جذبہ محبت یعنی بہن بھائی والے پیار میں  کھیلتے  / اٹھکیلیاں کرتے ہیں وہی بڑے ہوکر ایک حیوانی جذبے میں ملوث ہوکر جنسی فعل میں ملوث ہوں۔کیونکہ جنسی فعل بہرحال ہے تو ایک حیوانی جذبہ اور قدیم دور سے لے کر حالیہ چند سو سال پہلے تک سیکس کو ایک نہایت ناپاک اور قبیح قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، لہذا یہ انسانی فطرت اور نفسیات کے عین موافق ہے کہ بہن بھائی اپنے بیچ ایسے “ناپاک” جذبے / رشتے کو جگہ نہ دیں۔ دیکھا جائے تو آج کا انسان بھی بے پناہ آزادیِ فکر اور آزاد خیالی کے باوجود سیکس کو ایک حیوانی جذبہ ہی تسلیم کرتا ہے اور اس میں ایک طرح سے حجاب مانع ہے، تبھی کوئی آزاد خیال ترین انسان بھی آپ کو کھلے عام اپنی اہلیہ کے ساتھ سیکس کرتا نظر نہیں آئے گا۔۔  

    اگر یہ ایک ٹرینڈ کی ابتدائی شکل ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ آنے والی چند صدیوں میں انسانوں کا رویہ اور جنسی اقدار مکمل طور پر تبدیل ہوجاییں گیں

    فرض کریں آپ کی بات کو مان لیا جائے کہ آگے جاکر ایک وقت میں انسان کی جنسی اقدار مکمل طور پر تبدیل ہوجائیں گی تو آپ اس کو کس حساب سے غلط یا صحیح کہیں گے؟ کیا آج کے حساب سے یا اس دور کی مروجہ اقدار / معیارات کے حساب سے۔؟؟ اگر آج کے حساب سے کہیں گے تو پھر آپ کو دورِ آدم کو بھی آج کے حساب سے ماپنا ہوگا۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #16

    مذہب کی تعلیمات میں جھوٹ بولنا منع ہے مگر لوگ جھوٹ بولتے ہیں مذہب میں کسی کا دل دکھانا منع ہے مگر لوگ دل دکھاتے ہیں مذہب میں بے ایمانی منع ہے مگر لوگ بے ایمانی کرتے ہیں مذہب میں کسی کا قتل کرنا منع ہے لوگ قتل کرتے ہیں مذہب میں زنا غلط ہے مگر لوگ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں

    اگر مذہب میں منع کی ہوئی اکثر یا چند باتیں سب نہیں تو کافی لوگ کرتے ہیں تو اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے مباشرت نہ کرنے میں مذہب کی کونسی شق یا قباحت آڑے آ جاتی ہے

    میرے نزدیک انسان کے اچھے یا برے ، پسندیدہ یا نہ پسندیدہ اعمال کے کرنے یا نہ کرنے میں صرف مذہب کا ہی ہاتھ نہیں ہے بلکے اور بھی بہت سارے عوامل ہیں جن کا بہت عمل دخل ہے

    اگر مذہب اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے مباشرت سے نہ روکتا تو کیا مذہبی لوگ ایسا کرتے یا نہیں کرتے ؟ اگر نہیں کرتے تو کیوں نہیں

    جے ایم پی صاحب۔۔ بہت اچھا نکتہ اٹھایا ہے آپ نے۔۔جب لوگ دیگر معاملات میں مذہب پر اتنا عمل نہیں کرتے تو جنسی معاملات میں حدبندی کا کریڈٹ پوری طرح مذہب کو کیونکر دیا جاسکتا ہے۔۔۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #17

    مذہب کی تعلیمات میں جھوٹ بولنا منع ہے مگر لوگ جھوٹ بولتے ہیں مذہب میں کسی کا دل دکھانا منع ہے مگر لوگ دل دکھاتے ہیں مذہب میں بے ایمانی منع ہے مگر لوگ بے ایمانی کرتے ہیں مذہب میں کسی کا قتل کرنا منع ہے لوگ قتل کرتے ہیں مذہب میں زنا غلط ہے مگر لوگ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں

    اگر مذہب میں منع کی ہوئی اکثر یا چند باتیں سب نہیں تو کافی لوگ کرتے ہیں تو اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے مباشرت نہ کرنے میں مذہب کی کونسی شق یا قباحت آڑے آ جاتی ہے

    میرے نزدیک انسان کے اچھے یا برے ، پسندیدہ یا نہ پسندیدہ اعمال کے کرنے یا نہ کرنے میں صرف مذہب کا ہی ہاتھ نہیں ہے بلکے اور بھی بہت سارے عوامل ہیں جن کا بہت عمل دخل ہے

    اگر مذہب اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں سے مباشرت سے نہ روکتا تو کیا مذہبی لوگ ایسا کرتے یا نہیں کرتے ؟ اگر نہیں کرتے تو کیوں نہیں

    السلام و علیکم محترم جے بھائی جی

    آپکی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہر مذہب کی تعلیمات اسکے پیرو کاروں کو برائی سے روکتی ہے اور اچھائی کی ترغیب دیتی ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ برائی میں ملوث ہوتے ہیں

    مذہب اپنے پیرو کار کو ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ وہ اچھائی کریں گے تو انہیں اسکا اجر ملے گا اور اگر برائی کریں گے تو اسکی سزا پائیں گے۔ یہی جزا اور سزا انہیں اچھائی کرنے اور برائی سے دور رہنے پر مجبور کرتی ہے

    جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے ہیں انہیں نہ کوئی چیز اچھائی کی طرف راغب کرتی ہے اور نہ ہی برائی سے روکتی ہے کیونکہ انکے نزدیک جزا اور سزا کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ہے

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #18

    گھوسٹ صاحب۔۔ میں نے یہ مثالیں اچھائی یا برائی کے تناظر میں نہیں دی تھیں، میرا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ انسان نے خود کو حیوانی جبلت سے مقدور بھر دور کرنے کے لئے اور بہتر سماج کی تشکیل کیلئے خود پر شائستگی کی کچھ پرتیں چڑھائی ہیں، جن میں کپڑے پہننا ، ایک دوسرے سے اچھا سلوک وغیرہ شامل ہے۔ میری دی گئی مثالوں کا آپ جس طرح جنسی حدود و قیود والے معاملے سے موازنہ کررہے ہیں، وہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔

    زندہ رود صاحب،
    اگر میرے سمجھنے میں اونچ نیچ ہوگئی ہے تو براہ مہربانی آپ خود ہی اسکی وضاحت کردیں کہ آپ کیا کہنا چاہتے تھے میں جہاں تک سمجھا تھا آپ جنسی حدود کو بھی دیگر اعلی تر اقدار کی طرح انسانی شعور کے ارتقا کا نتیجہ قرار دے رہے تھے

    گھوسٹ صاحب۔۔۔ کیا یہاں آپ جنسی معاملات میں مذہب کے غیر متعلق عنصر ہونے کا اعتراف نہیں کررہے۔۔۔؟؟؟

    آپ کو یہ گمان کس طرح ہوگیا؟ میں نے عرض کیا تھا کہ جنسی تحمل یا اقدار جنسی تعلقات کے قیام کا اہم مگر محض ایک جز ہے یہ پوری مساوات کی وضاحت نہیں کرتی اسکی اور وضاحت اس طرح کردیتا ہوں کہ جسطرح آگ لگنے کے لئے تین عناصر کا ہونا ضروری ہے ١) ایندھن ٢) آکسیجن ٣) حرارت انمیں سے کویی ایک بھی عنصر اگر موجود نہیں ہوگا تو آگ نہیں لگے گی چاہے دیگر دو عناصر کتنی ہی شدت سے موجود ہوں
    اسکا یہی مطلب ہے کہ انتہائی قریبی رشتوں میں مذھب کے ماننے والے کے لئے مذہبی رکاوٹ بہر حال موجود ہے لہٰذا اگر دیگر لوازمات پورے بھی ہوجاییں تو مذہبی رکاوٹ قریبی رشتوں میں جنسی تعلقات کی روک تھام میں  اہم کردار ادا کرے گی جب آپ اس اہم جز (مذہبی رکاوٹ / تحمل ) سے جان چھڑا لیتے ہیں تو جنسی تعلقات کے قیام کے دیگر لوازمات مکمل ہونے پر ایک لامزھب کو اس قسم کے تعلقات کے قیام سے کیا چیز روکے گی؟ اسی لئے چند انتہائی ترقی یافتہ معاشرے اس قسم کے تعلقات پر عائد پرانی پابندیوں سے جان چھڑا رہے ہیں اور اس عمل کو دو بالغوں کے درمیان رضا و رغبت کی طرح ڈیل کررہے ہیں
    میرے خیال میں ابھی بھی آپ نے میرے سوال کا سیدھا جواب دینے سے احتراض کیا ہے کہ ایک اگر ایک لا مذھب کے لا مذھب عاقل و بالغ بچے یا بہن بھائی جنسی فعل میں ملوث ہونے کی کوشش کریں گے تو لامزھب کا رد عمل کیا ہوگا؟ کیا لامزھب انکو انسانی شعور کے ارتقا پر لیکچر دے گا یا جنسی فعل کے حیوانی پہلو پر روشنی ڈالے گا یا نوع انسانی پر ممکنہ مضر اثرات سے انکو آگاہ کرے گا

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #19

    زندہ رود صاحب، اگر میرے سمجھنے میں اونچ نیچ ہوگئی ہے تو براہ مہربانی آپ خود ہی اسکی وضاحت کردیں کہ آپ کیا کہنا چاہتے تھے میں جہاں تک سمجھا تھا آپ جنسی حدود کو بھی دیگر اعلی تر اقدار کی طرح انسانی شعور کے ارتقا کا نتیجہ قرار دے رہے تھے

    گھوسٹ صاحب۔۔میرا خیال ہے مجھے ایک مثال دے کر واضح کرنا پڑے گا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔ آپ نے پچھلے تبصرے میں میری دی گئی مثالوں کا جس طرح جنسی حدود و قیود سے موازنہ کیا، وہ میری نظر میں غلط ہے۔

    آپ نے (میری مثالوں کے جواب میں) کہا کہ انسان بعض حالات میں کپڑے اتار بھی تو دیتا ہے جیسا کہ ساحلی مقامات پر لوگ برہنہ ہوکر لیٹ جاتے ہیں تو کیا بعض اوقات یا موافق حالات کے تحت جنسی حدود و قیود کو توڑنا بھی درست ہوگا۔۔۔؟ میری نظر میں آپ کا کپڑوں والی اور دیگر مثالوں کا جنسی حدبندی سے موازنہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے میں آپ سے سوال پوچھوں کہ مسلمان بعض اوقات اللہ کے حکم کی نفی کرتے ہوئے نماز نہیں بھی پڑھتا، وہ کبھی جھوٹ بھی بول لیتا ہے، وہ کبھی زنا بھی کر لیتا ہے  (اللہ کے حکم کی نفی کرتے ہوئے) تو کیا بعض اوقات وہ اپنے قریبی رشتوں (بہن، بیٹی) سے جنسی فعل بھی کرلیتاہے؟  آپ اس سوال کا کیا جواب دیں گے۔۔۔

    میرا خیال ہے اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔۔

    آپ کو یہ گمان کس طرح ہوگیا؟ میں نے عرض کیا تھا کہ جنسی تحمل یا اقدار جنسی تعلقات کے قیام کا اہم مگر محض ایک جز ہے یہ پوری مساوات کی وضاحت نہیں کرتی اسکی اور وضاحت اس طرح کردیتا ہوں کہ جسطرح آگ لگنے کے لئے تین عناصر کا ہونا ضروری ہے ١) ایندھن ٢) آکسیجن ٣) حرارت انمیں سے کویی ایک بھی عنصر اگر موجود نہیں ہوگا تو آگ نہیں لگے گی چاہے دیگر دو عناصر کتنی ہی شدت سے موجود ہوں اسکا یہی مطلب ہے کہ انتہائی قریبی رشتوں میں مذھب کے ماننے والے کے لئے مذہبی رکاوٹ بہر حال موجود ہے لہٰذا اگر دیگر لوازمات پورے بھی ہوجاییں تو مذہبی رکاوٹ قریبی رشتوں میں جنسی تعلقات کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرے گی جب آپ اس اہم جز (مذہبی رکاوٹ / تحمل ) سے جان چھڑا لیتے ہیں تو جنسی تعلقات کے قیام کے دیگر لوازمات مکمل ہونے پر ایک لامزھب کو اس قسم کے تعلقات کے قیام سے کیا چیز روکے گی؟ اسی لئے چند انتہائی ترقی یافتہ معاشرے اس قسم کے تعلقات پر عائد پرانی پابندیوں سے جان چھڑا رہے ہیں اور اس عمل کو دو بالغوں کے درمیان رضا و رغبت کی طرح ڈیل کررہے ہیں

    گھوسٹ صاحب۔۔ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر کسی شخص کو اپنی قریبی رشتہ داروں (بہن، بیٹی) وغیرہ کو دیکھ کر جنسی جذبات / شہوانیت بیدار ہوتی ہے تو مذہب اس کو روک لے گا؟ میں آپ کو بیسیوں کیسز بتاسکتا ہوں جب مذہبی لوگوں نے اپنی سگی بہنوں بیٹیوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کئے۔ ابھی پچھلے ہفتے گولڑہ شریف میں جو تین مسلمان بھائیوں کا اپنی سگی بہن سے جنسی تعلقات قائم رکھنے والا واقعہ منظر عام پر آیا وہ تو شاید آپ کے علم میں بھی ہو۔ وہ تین مسلمان بھائی دو سال سے اپنے گھر میں اپنی سگی بہن کے ساتھ جنسی فعل سرانجام دے رہے تھے اور ان میں سے ایک بھائی آن لائن قرآن پڑھاتا تھا۔ انٹرنیٹ پر سرچ کریں، آپ کو ایسے بے شمار واقعات ملیں گے۔۔ آپ کے خیال میں باقی لوازمات (شہوانی جذبات وغیرہ) پیدا ہونے کے بعد مذہب نے یہاں رکاوٹ کا کام کیوں نہیں کیا۔۔؟؟

    ایک اور سوال پوچھتا ہوں، جو مذہبی لوگ اپنی محرمات (بہن، بیٹی وغیرہ) کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے سے باز رہتے ہیں، ان میں سے کتنے ایسے ہوں گے جن کے اندر اپنی محرمات کو لے کر جنسی جذبات تو بیدار ہوتے ہوں گے، مگر وہ صرف مذہب کی وجہ سے باز رہتے ہوں گے؟

    میرے خیال میں ابھی بھی آپ نے میرے سوال کا سیدھا جواب دینے سے احتراض کیا ہے کہ ایک اگر ایک لا مذھب کے لا مذھب عاقل و بالغ بچے یا بہن بھائی جنسی فعل میں ملوث ہونے کی کوشش کریں گے تو لامزھب کا رد عمل کیا ہوگا؟ کیا لامزھب انکو انسانی شعور کے ارتقا پر لیکچر دے گا یا جنسی فعل کے حیوانی پہلو پر روشنی ڈالے گا یا نوع انسانی پر ممکنہ مضر اثرات سے انکو آگاہ کرے گا

    گھوسٹ صاحب۔۔ مجھے حیرانی ہے کہ آپ ابھی تک میرے مقدمے کو سمجھے ہی نہیں، میرا سارا کیس ہی اس نکتے پر ہے کہ موجودہ انسانوں کی انتہائی قریبی خونی رشتوں سے جنسی تعلقات نہ رکھنے کی وجہ مذہب نہیں دیگر عوامل (انسانی فطرت، طویل سماجی ارتقا، نفسیات وغیرہ) ہیں اور ابھی تک میں نے جتنے دلائل دیئے ہیں اسی نکتے کے جواز میں دیئے ہیں۔۔ اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ میرا موقف غلط ہے اور جنسی تعلقات میں موجودہ حدبندی کا واحد محرک مذہب ہے تو پھر آپ مجھ سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ مذہب کی آڑ نہ رہے تو پیچھے محرمات سے جنسی تعلقات میں کیا چیز مانع رہ جاتی ہے؟۔۔

    مزید لمبے چوڑے دلائل دینے کی بجائے میں آپ سے مختصر سوال پوچھ لیتا ہوں۔۔ آپ چونکہ مسلمان ہیں، اس لئے آپ سے اسلام کے حوالے سے سوال پوچھتا ہوں۔

    اسلام میں بغیر شادی کے سیکس کرنے کی سخت ممانعت ہے اور زنا کو نہ صرف حرام قرار دیا گیا ہے، بلکہ کوڑوں سے لے کر سنگساری تک کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسری طرف اسلام میں محرمات (بہن، بیٹی) کے ساتھ شادی سے منع تو کیا گیا ہے لیکن اگر کوئی شخص کرلے تو اس کی کوئی سزا نہیں، اگر میں غلط ہوں تو آپ میری درستگی کریں اور کوئی اسلامی تعلیمات دکھا دیں جس میں بہن، بیٹی وغیرہ سے جنسی تعلقات یا شادی پر کوئی سزا کا حکم دیا گیا ہو۔ اس کے باوجود  مسلمان بہن، بیٹی وغیرہ سے جنسی تعلقات قائم نہیں کرتے جبکہ غیر محرمات کے ساتھ زنا مسلمان معاشروں میں عام ہے۔۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے،  قریبی خونی رشتوں سے جنسی تعلقات پر تو کوئی سزا نہیں، پھر بھی مسلمان اس کو نہیں کرتے، جبکہ جس پر کوڑوں اور سنگساری کی سزا ہے، اس کو کرتے رہتے ہیں ۔۔ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے، غیر محرمات سے زنا سے بھی تو اسی اللہ نے منع کیا ہے جس نے محرمات سے منع کیا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اُس  (غیر محرمات کے) معاملے میں تو اللہ کا حکم نہیں مانتے، جبکہ اِس (محرمات کے) معاملے میں سختی سے اس پر کاربند ہیں۔۔۔ایک اور سوال بھی پوچھ لیتا ہوں، آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ کے مذہب اسلام نے غیر محرمات سے زنا وغیرہ کی سزا تو رکھی ہے، پر محرمات کے ساتھ شادی یا زنا کی کوئی سزا نہیں رکھی؟ آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہے۔۔؟

    کیا آپ کو اب بھی لگتا ہے کہ جنسی تعلقات میں حد بندی کا محرک مذہب ہی ہے۔۔۔؟؟

      ایک اور نکتے پر بھی غور کیجئے گا، مذہب کی دیگر تعلیمات (جیسا کہ جے ایم پی صاحب نے پوائنٹ آؤٹ کیا) جھوٹ سے ممانعت، زنا سے ممانعت، شراب سے ممانعت وغیرہ کو تو خود مذہبی معاشروں میں مکمل قبولیت کا درجہ نہ مل سکا، جبکہ جنسی تعلقات میں حد بندی کو نہ صرف مذہبی بلکہ غیر مذہبی معاشروں میں قبولِ عام کی سند حاصل ہوگئی؟

    اس کے باوجود کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جنسی حدبندی کی وجہ مذہب ہی ہے؟

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Jibran PTI
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #20
    ye kaisa bakwas thread hai :o
Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 67 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi