Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 24 total)
  • Author
    Posts
  • Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1

    قیدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس نے انگڑائی لی اور کسمسا کر آنکھیں کھول لیں، تھوڑی دیر وہ یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ ابھی جاگنے سے عین پہلے وہ کیا خواب دیکھ رہا تھا، مگر باوجود کوشش کے اسے یاد نہ آیا۔ابھی وہ نیند کے خمار سے پوری طرح نہ نکلا تھا، سر کافی بھاری ہورہا تھا۔ کوشش کرکے وہ اٹھ بیٹھا۔
    ۔”ارے یہ اتنا بڑاآئینہ یہاں کس نے رکھ دیا“۔ اس نے سامنے خود کو بیٹھے پایا تو سوچا۔ اس کو آئینے میں اپنی شکل کافی دھندلی نظر آرہی تھی۔۔ ”مگر یہ کیا۔۔ میں تو بیٹھا ہوا ہوں، پھر آئینے میں لیٹا ہوا نظر کیوں آرہا ہوں۔۔“ اسے حیرت کا جھٹکا لگا،”لگتا ہے ابھی میں پوری طرح جاگا نہیں ہوں، اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے آنکھیں مل کر دوبارہ دیکھا، آئینے میں بیٹھا ہوا شخص یعنی وہ خود اٹھ بیٹھا۔۔ اور اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔۔

    ۔”کیسے ہو مسٹر سمیر۔۔۔۔؟؟“۔ آئینے والے شخص نے پوچھا۔
    سمیر نے غور سے اس شخص کی طرف دیکھا، اب اسے محسوس ہوا کہ وہاں کوئی آئینہ نہیں تھا، وہ جسے اپنا عکس سمجھ رہا تھا، وہ ایک جیتا جاگتا شخص تھا، عین، ہوبہو اسکی تصویر، اسی جیسا لباس پہنا ہوا تھا، اور ساتھ والے بیڈ پر بڑے آرام سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے گویا اس کی حیرت اور کنفیوژن سے لطف اندوز ہورہا تھا۔
    سمیر نے زور سے کئی بار اپنے سر کو جھٹکا او ر اس طرف سے نظریں ہٹالیں۔۔”لگتا ہے رات کو کافی زیادہ پی لی تھی، ابھی تک نشہ اترا نہیں۔“ وہ اپنے بیڈ سے اٹھا، قدرے لڑکھڑاتا ہوا کھڑی کی طرف گیا اور ساحل سمندر کی طرف کھلنے والی وسیع و عریض کھڑکی کھول لی۔ باہر سے تازہ دم ہوا کا جھونکا آیا اور اسے سرتاپا سرور میں ڈبو گیا۔ ابھی چند منٹ میں سورج نکلنے والا تھا۔ سامنے دور تک پھیلے ہوئے سمندر کا نظارہ مسحور کن تھا۔ اسی منظر کو دیکھنے کیلئے اس نے برسوں پہلے کروڑوں روپے خرچ کرکے یہاں اپنا من پسند بنگلہ تعمیر کروایا تھا۔ آج وہ ایک خوشحال شخص تھا۔ مگر مطمئن۔۔؟۔ مطمئن تھا یا نہیں، اس پر کبھی کبھی اسے شک ہوتا تھا۔۔۔

    تھوڑی دیر وہ کھڑکی کھولے سمندر کے نظارے سے محظوظ ہوتا رہا، اب اس کے حواس قدرے بحال ہوچکے تھے۔ وہ واپس مڑا اور اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔۔اس کا ہمشکل شخص جس کو وہ پچھلے چند منٹ میں یکسر بھول چکا تھا، ابھی تک وہیں بیٹھا تھا،سمیر کویوں حیرت سے جھٹکا لگا جیسے وہ اسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ غالباً وہ اسے نیند کے خمار یا نشے کے غبار کا دھوکہ سمجھ رہا تھا اور توقع نہیں کررہا تھا کہ وہ اسے دوبارہ دکھنے کو ملے گا۔ مگر وہ جوں کا توں بیٹھا ہوا تھا۔۔ سمیر تھوڑی دیر اسے ٹکٹکی لگا کر دیکھتا رہا اور پھر ایک دم بولا۔۔۔
    کون ہو تم۔۔۔۔؟؟” اسے اپنی ہی آواز اجنبی سی لگی۔”
    سمیر کا ہمشکل بڑے اطمینان سے اسی طرح بیٹھا ہوا تھا، اچانک وہ اٹھا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ سمیر کے بالکل قریب آکر رکا اور سمیر کی طرف دیکھنے لگا۔ سمیر کی کمر میں خوف اور سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ کوئی بزدل شخص نہ تھا، مگرایسی صورتِ حال اسے زندگی میں پہلی بار درپیش ہوئی تھی۔ سمیر کا ہمشکل تھوڑی دیر وہاں کھڑا رہا اور پھر واپس اسی بیڈ پر جاکر بیٹھ گیا۔۔

    ۔”میں تمہاری اصل ہوں۔۔ تم محض میری پرچھائی ہو، عکس ہو، نقل ہو۔۔ تم سراب ہو، میں حقیقت ہوں۔“۔ سمیر کا ہمشکل پہلی بار بولا۔۔وہ پھر گویا ہوا۔
    ۔”تم مجھے اپنا آقا یا مالک بھی کہہ سکتے ہو، کیونکہ تم وہی کرتے ہو جو میں کہتا ہوں، تم میرے غلام ہو”۔۔۔
    ۔”کیا بکواس کررہے ہو تم۔۔ آخر تم آئے کہاں سے ہو۔؟۔“ سمیرجو اب تک خود کو سنبھال چکا تھا، قدرے غصے سے بولا۔۔۔
    ۔”میں تمہارے اندر سے نکلا ہوں، تم سو رہے تھے تو میں تھوڑی دیر سستانے کو باہر آگیا۔۔ میں تمہارے اندر ہی رہتا ہوں،۔۔۔“ وہ کچھ دیر ٹھہرا اور پھر بولا۔۔۔
    ۔”آج کی زبان میں کہوں تو میں تمہارا سافٹ ویئر ہوں، تم میرے حساب سے چلتے ہوں، میں تمہیں چلاتا ہوں، سہولت کیلئے تم مجھے اپنا ہمزاد کہہ سکتے ہو“۔۔۔
    سمیر کیلئے صورتِ حال کافی الجھادینے والی تھی، ایک جیتا جاگتا شخص جو ہوبہو اس کا ہم شکل تھا، اس کے سامنے بیٹھا تھا اور عجیب و غریب دعوے کررہا تھا۔ اس نے خود کو چٹکی کاٹ کر اس بات کی تصدیق کرلی تھی کہ وہ خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔۔
    ۔”تم چاہتے کیا ہو۔۔۔؟۔ سمیر نے بغور اس کی حرکات کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا
    کچھ نہیں۔۔۔ تھوڑی دیر تمہارے ساتھ گپ شپ کروں گا اور پھر جمپ لگا کر تمہارے اندر گھس جاؤں گا، واپس اپنے مستقل ٹھکانے میں۔“۔۔“
    ۔”کیا گپ شپ کرنا چاہتے ہو تم میرے ساتھ۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر میں میں نے دفتر کیلئے نکلنا ہے، دن بھر میں اور بے شمار کام کرنے ہیں اور تم یہاں میری جان کو اٹک کر بیٹھ گئے ہو۔۔“ سمیر نے جھنجھلا کر کہا
    سمیر کی بات سن کر اس کے ہمزاد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، گویا کسی نادان بچے نے کوئی احمقانہ بات کہہ دی۔
    ۔”تم نے شاید سنا نہیں، میں نے کیا کہا۔۔ میں تمہارا سافٹ ویئر ہوں، میں ہی تمہیں آپریٹ کرتا ہوں، تم میرے غلام ہو، تم وہی کرتے ہو جو میں کہتا ہوں۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے میں تمہارے ساتھ گپ شپ کرنا چاہتا ہوں اور تم کچھ اور کرنے چل پڑو“۔۔۔
    ۔”اپنی فضول بکواس بند کرو۔۔۔ میں کسی کا غلام ولام نہیں ہوں۔۔ میں ایک آزاد انسان ہوں، اپنی مرضی کا مالک۔ جو چاہتا ہوں وہی کرتا ہوں۔۔۔“۔۔
    سمیر کا اتنا کہنا تھا کہ سمیر کا ہمزاد زور زور سے ہنسنے لگا، ہنستے ہنستے وہ بستر پر ڈھیر ہوگیا۔۔۔ وہ اتنی زور سے ہنس رہا تھا کہ اس کا پورا وجود ہل رہا تھا۔ یوں جیسے اس پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا ہو۔۔۔ کافی دیر یونہی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہونے کے بعد وہ اٹھ بیٹھا، اس کی آنکھوں سے ہنس ہنس کر پانی بہہ رہا تھا، و ہ الٹے ہاتھ کی ہتھیلی سے آنکھ کا پانی پونچھتے ہوئے اور بمشکل اپنی ہنسی کنٹرو ل کرتے ہوئے بولا۔۔۔
    ۔”آزاد انسان۔۔۔؟؟؟۔۔ مرضی کا مالک۔۔۔؟؟ہاہاہا۔۔ کس بھرم میں ہو تم۔۔۔ تم کب سے آزاد ہوگئے۔۔؟؟“۔۔۔
    ۔”میں آزاد ہوں۔۔ شروع سے، جب سے پیدا ہوا۔۔۔“سمیر اس کی عجیب و غریب بدلتی کیفیات پر کافی حیران تھا، اب سمیر کو بھی اس میں دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی۔ سمیر کا ہمزاد اپنی ہنسی کے دورے سے باہرآچکا تھا اور سمیر کے سامنے تن کر بیٹھ بیٹھ گیا تھا۔۔
    ۔”چلو چھوڑو اس بات کو۔۔۔۔“ ہمزاد بولا۔۔۔”یہ بتاؤ کہ تمہیں کھانے میں کیا کیا پسند ہے۔“۔؟۔
    مجھے بھنی ہوئی مچھلی، بھنا ہوا تیتر بہت پسند ہے، انگور اور اخروٹ پسند ہیں، شراب عمدہ کوئی بھی ہو وہسکی، واڈکا، رَم، برینڈی، شیمپئن کچھ بھی۔۔“۔۔۔“
    ۔”او ر کون کون سی چیزیں ناپسند ہیں۔۔۔۔؟؟“
    ۔”تقریباً تمام میٹھی چیزیں اور دودھ سے بنی ہوئی چیزیں مجھے ناپسند ہیں۔۔۔“ سمیر نے اندر ہی اندر اس کے سوالات کی غرض و غایت پر غور کرتے ہوئے جواب دیا۔
    ۔”اچھا اب یہ بتاؤ، تمہیں جو چیزیں پسند ہیں، وہ کیوں پسند ہیں اور جو ناپسند ہیں وہ کیوں ناپسند ہیں۔۔“ ہمزاد نے پوچھا۔۔ اس کی نظریں مسلسل سمیر کی طرف لگی ہوئی تھیں۔
    ۔”یہ کیسا سوال ہے۔۔ ہر کسی کو کچھ نہ کچھ پسند اور کچھ ناپسند ہوتا ہے، اور پسند ناپسند پر کسی کا اختیار تھوڑی ہوتا ہے۔“۔
    ۔”مگر ابھی تم کہہ رہے تھے کہ تم آزاد انسان ہو، سب کچھ اپنی مرضی سے کرتے ہو۔۔ اب تم کہہ رہے ہو کہ پسند ناپسند پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔۔۔ یعنی تم مانتے ہو کہ تم اپنی پسند یا ناپسند کو بدلنے کا اختیار نہیں رکھتے۔۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ آج سے تم اپنی مرضی سے بھنی ہوئی مچھلی ناپسند کرنے لگو اور میٹھی چیزوں کے دلدادہ بن جاؤ۔“۔
    ۔”آزاد انسان کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ اپنی زندگی کے ہر معاملے پرمکمل اختیار ہو، انسان کی زندگی میں بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن پر اس کا اختیار نہیں ہوتا۔۔ مگر بے شمار ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جن پر اس کا اختیار ہوتا ہے اور اپنی مرضی اپنی چوائس سے فیصلہ لیتا ہے۔“۔۔ 
    ہمزاد نے یوں سر ہلایا گویا سمیر کی بات سے متفق ہو۔۔۔ پھر بولا
    ۔”چلیں تمہاری یہ منطق قبول کرتا ہوں۔۔ تمہارے خیال میں وہ کون سی چیزیں ہیں، کون سے معاملات ہیں جن پر تمہیں اختیار ہے اور تم سمجھتے ہو کہ اس میں محض تمہاری اپنی رضا کو دخل ہے۔۔“۔۔
    ۔”میری پوری زندگی ان چیزوں سے بھری پڑی ہے جو صرف میرے ارادے و اختیار سے واقع ہوئے۔۔ میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا، میرے والدین نے مجھے اپنی استطاعت کے مطابق تعلیم ضرور دلوائی، مگر اعلیٰ تعلیم مہنگی ہونے کی وجہ سے ان کے بس سے باہر تھی، مگر میں نے ہمت نہیں ہاری، میں نے اپنے زورِ بازو پر محنت کی، سکالرشپ حاصل کئے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی، پھر میں نے ایک بہت اچھی کمپنی میں ملازمت حاصل کی، وہاں سے ایک حادثے کے سبب مجھے نکال دیا گیا اور وہیں سے میرے دن بدلے، میں نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور محض اپنی محنت،لگن اور اپنے درست فیصلوں کی بدولت آج میں پانچ ہزار کروڑ کی کمپنی کا مالک ہوں۔ میرے کئی کزن جو امیر کبیر والدین کی اولاد تھے، ذہین بھی تھے، اور مجھے لگتا تھا کہ وہ بہت آگئے جائیں گے، وہ مجھ سے کہیں پیچھے رہ گئے۔ میری زندگی میں ضرور بہت سے اتفاقات ہوئے، جنہوں نے میری کامیابی میں کردار ادا کیا جیسا کہ ملازمت سے نکالا جانا، یا پھر درست گھرانے میں میری شادی، مگر بہرحال میری کامیابی کی مجموعی صورت گری میں اصل اوربڑا حصہ میری محنت، لگن، آگے بڑھنے کی چاہ اور درست فیصلوں کا ہی ہے اور یہ سب چیزیں اختیاری ہیں۔۔۔“ سمیر نے انتہائی اختصار سے اپنے پچاس سالہ سفر کا نقشہ کھینچا۔۔۔۔
    ۔”اگرچہ میں یہ سب کچھ، تمہارے بتائے بغیر ہی جانتا ہوں، کیونکہ میں تم سے الگ تو نہیں ہوں، میں تمہارا حصہ ہوں، تمہارا سافٹ ویئر ہوں، مگر بحث کا تقاضا ہے کہ میں یہ سب تمہاری زبان سے سنوں۔۔“ ہمزاد سمیر کی داستان سننے کے بعد گویا ہوا۔۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد وہ بولا۔۔

    ۔”تمہارے خیال میں تمہارے اندر وہ کونسی خوبی تھی، جو تمہیں اتنا آگے لے گئی اور تمہارے وہ کزن جو تم سے متمول بھی تھے، ذہین بھی تھے، وہ کیوں اتنا ۔آگے نہ جاسکے۔“۔۔؟؟
    ۔”میرے خیال میں میرے اندر ایک چیزایسی تھی جو مجھے ان سے ممتاز کرتی تھی اور غالباً یہی چیز تھی، جس کی بدولت آج میں ترقی کے اس زینے پر ہوں اور یہ چیز ہے خوب سے خوب تر کی جستجو، میں کبھی کسی بھی چیز پر مطمئن نہیں ہوا، میں کبھی کسی مقام پر ٹھہرا نہیں، میرے اندر ہمیشہ سے ایک آگ تھی جو مجھے آگے سے آگے بڑھنے پر اکساتی تھی اور آج بھی میں اتنا کچھ حاصل کرنے کے بعد مزید کی لگن میں ہوں۔۔ مجھے لگتا ہے یہی وہ خوبی تھی جس نے مجھے کامیاب کیا، میرے برعکس میرے کزن ایک اچھی ملازمت یا ایک محدود کاروبار کرنے کے بعد وہیں مطمئن ہوگئے اور اس سے زیادہ کی چاہ نہیں کی۔۔۔ آپ میری اس خوبی کو لالچ بھی کہہ سکتے ہیں، برتر کی تلاش بھی کہہ سکتے ہیں۔“۔۔
    ۔”اور تمہارے خیال میں تمہارے اندر یہ صفت، یہ خوب سے خوب تر کی جستجو کی لگن کہاں سے آئی۔۔؟ کیا تم نے خود سے یہ اپنے اندر پیدا کرلی۔۔۔۔؟؟؟“ ہمزاد نے پوچھا
    ۔”ظاہر ہے نہیں۔۔ یہ میرے اندر شروع سے تھی، شاید بچپن سے۔۔۔۔۔؟؟“ سمیر سمجھے بغیر بول اٹھا۔۔
    ہمزاد مسکرایا۔۔۔ ”گویا تم مانتے ہو کہ تمہاری کامیابی کی بنیاد ایک ایسی صفت ہے جو اختیاری نہیں، جو محض قسمت سے اتفاق سے تمہارے اندر پائی جاتی ہے، تم اس اتفاقی چیز کی بنیاد پر حاصل کردہ کامیابی کو اختیاری کیسے کہہ سکتے ہو۔۔ اگر یہی خوبی تمہارے کزنز میں ہوتی اور تم میں نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ وہ بھی تمہارے جتنے یا تم سے کچھ کم یا زیادہ کامیاب ہوتے اور تم ان کی جگہ پر کم تر زندگی گزاررہے ہوتے۔۔۔“۔
    سمیر اپنی ہی رو میں گفتگو کرتے کرتے یہ بھول گیا تھا کہ ان کی بحث کا اصل نکتہ کیا تھا۔۔ ”بات تو ہمزاد کی ٹھیک ہے“ سمیر نے سوچا اور پھرقدرے الجھن زدہ انداز میں بولا۔۔
    ۔”مگر میں چاہتا تو دوسروں کی طرح کم محنت کرتا یا بالکل نہ کرتا  پھر میں یقینا کامیاب نہ ہوتا۔ اس کا مطلب آگے بڑھنے، محنت کرنے کا فیصلہ میرا اپنا تھا، اختیاری تھا۔“۔
    ۔”مگر تم نے ایسا کیوں نہ چاہا۔۔؟؟“ ہمزاد نے پوچھا
    ۔سمیر چپ رہا۔
    ۔”اس لئے کہ تمہارے اندر وہ آگ تھی جو تمہیں آگے بڑھنے پر اکساتی تھی، وہ تمہیں چین کیسے لینے دیتی، اور وہ محض ایک اتفاقی صفت تھی۔۔۔“ ہمزاد نے گویا سمیر کی الجھن دور کردی۔
    ۔سمیر اختلاف نہ کرسکا اور بولا۔
    ۔”ہاں مگر ہم دیگر چیزوں کو نظر ا ندازنہیں کرسکتے، یہ میری کامیابی کی وجوہات میں سے محض ایک وجہ ہے، جو چیزیں میں نے ملازمت کے دوران اور اپنی زندگی کے دوران محنت سے حاصل کیں اور سیکھیں، ان کی بنیاد پر درست فیصلے کئے اور ان فیصلوں نے میری کامیابی میں بہت بڑا کردار ادا کیا، ان کو ہم کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں اور وہ محض میرے اختیاری فیصلے تھے۔“۔
    ۔”تمہارے خیال میں تم میں چیزوں کو سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہے۔؟۔“ہمزاد نے اگلا سوال داغا
    ۔”میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ دوسروں سے کم ہے یا زیادہ، ہاں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ مجھ میں چیزوں کو سیکھنے سمجھنے کی اچھی اور بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔“۔۔
    اور تمہیں کیا لگتا ہے تم میں یہ بھرپور صلاحیت کیوں ہے۔“۔۔؟؟“
    ۔”شاید اس لئے کہ میں ایک اچھا، برتر، سوچنے والا دماغ رکھتا ہوں۔۔۔“ سمیر نے قدرے سوچ کر جواب دیا
    ۔”درست کہا۔۔ تم شروع سے ایک ذہین شخص تھے۔سب لوگوں کا دماغ ایک جیسا نہیں ہوتا، کچھ بہت غبی ہوتے ہیں، کچھ متوسط ذہانت کے حامل، کچھ ذہین اور کچھ فطین۔ تمہارا دماغ بہت سے لوگوں سے برتر ہے اور تمہاری سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت تمہارے دماغ کی صلاحیت پر منحصر ہے۔۔۔“ اتنا کہہ کر ہمزاد رکا اور پھر بولا۔۔
    ذرا یہ تو بتاؤ۔۔۔ تم نے یہ برتر دماغ کیسے حاصل کیا۔؟۔“۔۔۔“
    ۔”ظاہر ہے یہ مجھے اتفاق سے ملا، میں نے اپنی مرضی سے تھوڑا حاصل کیا۔“۔۔
    ہمزاد پھر مسکرادیا۔۔۔ ”گویا ایک برتر دماغ جو محض ایک اتفاقی چیز ہے کی بنیاد پر تم نے کچھ چیزیں سیکھیں اور ان کی بنیاد پر کچھ فیصلے کئے اور کامیابی حاصل کی، اس کے باوجود تم یہ دعویٰ کررہے ہو کہ تمہارا چیزوں کو سیکھنا اور ان کی بنیاد پر فیصلے کرنا اختیاری فعل تھا۔اگر تمہارے پاس برتر کی بجائے کم تر دماغ ہوتا تو نہ تم میں چیزیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی نہ بہتر قوتِ فیصلہ۔۔۔ مطلب سارا دارومدار دماغ پر ہے جو ایک اتفاقی چیز ہے، گویا تمہارا اختیار کا دعویٰ یہاں بھی
    باطل ہوگیا۔“۔۔
    سمیر کو جواب میں کچھ نہ سوجھا۔۔ کمرے میں تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی،پھر ہمزاد کی آواز نے سکوت توڑا۔
    ۔”تمہیں کیا لگتا ہے، تم ایک نیک فطرت شخص ہو یا بدفطرت، تمہیں دوسروں کے ساتھ اچھائی کرنا اچھا لگتا ہے یا انہیں پریشان کرنا۔۔۔دیانت داری سے جواب دینا۔“۔۔
    سمیر تھوڑی دیر چپ رہا، ابھی اس کا دماغ پچھلے سوال میں الجھا ہوا تھا۔مگر وہ اس کا کوئی مناسب جواب نہ ڈھونڈ سکا تو نئے سوال کی طرف متوجہ ہوا۔
    ۔”ویسے تو ہر کوئی اپنے بارے میں اچھی رائے ہی رکھتا ہے، مگر میرا خیال ہے میں کافی نیک فطرت ہوں، مجھے دوسروں کو دکھ میں دیکھ کر پریشانی ہوتی ہے، میں حتی الوسع لوگوں کی مدد کرتا ہوں، میں نے ایک یتیم خانہ اور بے گھر عورتوں کیلئے دارالامان بھی کھول رکھا ہے، اس کے علاوہ بھی پریشان حال لوگوں کی مدد کرتا رہتا ہوں۔“۔
    ہمزاد سمیر کا جواب سن کر تھوڑی دیر ٹکٹکی لگا کر اسے دیکھتا رہا۔۔۔ سمیر کو الجھن ہونے لگی۔۔ یکایک ہمزاد نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔
    تمہیں یاد ہے لڑکپن میں تم نے ایک جرم کیا تھا۔“۔۔“
    اُف کس دکھتی رگ کو چھیڑ دیا تونے کم بخت۔۔ سمیر اندر تک ہل گیا۔۔ وہ ایک جرم جو اس کی زندگی پر ایک آسیب کی طرح مسلط رہا اور زندگی کے بہت سے مطمئن پلوں میں اس کو بے چین کرتا رہا، اس کو آج پھر چھیڑ دیا تھا اس نے۔ سمیر کا ذہن پینتیس سال پیچھے چلا گیا۔۔

    ۔۔ (جاری ہے) ۔۔۔۔۔۔۔۔

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    کافی فلسفیانہ تھریڈ ہے دماغ استعمال کرنا پڑے گا اور ڈاکٹر نے مجھے پرہیز بتایا ہے ۔

    ہاں البتہ اگر ہمزاد تسخیر کرنے کا کوئی نسخہ سامنے آنے والا ہے تو میں غور سے پڑھوں گا۔

    ویسے تھریڈ پڑھ کر مجھے بھی احساس ہوا کہ میں بھی بےاختیار ہوں، خواہ مخواہ آج تک خود کو آزاد اورخودمختار سمجھتا رہا۔

    bluesheep
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3
    :17: :.( :(
    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #4

    دوسری قسط۔۔۔۔

    میٹرک کا امتحان دے کر وہ تازہ تازہ فارغ ہوا تھا،اس کو یقین تھا کہ وہ ٹاپ کرے گا۔۔ امتحانات کیلئے کئی مہینوں کی لگاتار محنت سے فارغ ہونے کے بعد اب وہ کچھ دن انجوائے کرنا چاہتا تھا، مگر والد کی قلیل تنخواہ میں یہ ممکن نہ تھا۔ وہ دوستوں کے ساتھ کچھ دن سیرو سیاحت پرجانا چاہتا تھا، مگر اس کے پاس نہ تو اچھا لباس تھا، نہ جوتے اور نہ سفری اخراجات۔۔ کئی مواقع پر پیسے کی کمی اسے شدت سے محسوس ہوتی اور یہ بھی ایک ایسا ہی موقع تھا۔”پیسے کے بغیر زندگی کتنی پھیکی اور بے رنگ ہوتی ہے“۔ اکثر وہ سوچا کرتا۔ پھر اس کے ذہن میں اچانک ایک انوکھا آئیڈیا آیا۔
    اس کی ہمسائیگی میں بالکل ساتھ والے گھر میں دو بوڑھے میاں بیوی رہتے تھے، د ونوں ریٹائرڈ ٹیچر تھے اور بے اولاد تھے۔ اکیلے رہتے تھے۔ شام کے وقت اور کبھی مغرب کی نماز کے بعد بوڑھا آدمی کبھی ساتھ والے چوپال پر چلا جاتا، جہاں اس کے جیسے دیگر بوڑھے جو زندگی کی رنگا رنگیوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل نہ رہے تھے، اکٹھے ہوتے اور اپنی زندگی کے سہانے دنوں کو یاد کرتے، ماضی کی میٹھی کڑوی یادوں میں کھوئے وہ سب ناسٹلجیا کے مریض لگتے۔۔ بوڑھا جب گھر سے نکلتا تو اس کی بڑھیا بیوی جس کیلئے چلنا پھرنا اتنا آسان نہ رہا تھا، اکثر دروازے کو اندر سے کنڈی لگانے کا تردد نہ کرتی۔
    سمیر کو ساتھ والے گھر کی اس صورتِ حال کا علم تھا۔ اس کے ذہن میں اچانک دَر آنے والا پلان کافی شدید تھا اور کچھ دن وہ تانے بانے بنتا رہا اور آخر مکمل منصوبہ تیار لیا۔ وہ بازار گیا اور اس نے کھلونوں کی دوکان سے پلاسٹک کا سستا سا سیاہ رنگ کا پستول خرید لیا جو دیکھنے میں بالکل اصلی لگتا تھا۔۔ کچھ دن وہ بوڑھے کے آنے جانے کے معمول کو تاڑتا رہا، اور آخر ایک دن مغرب کی نماز کے بعد جب گلی میں اندھیرا اچھی طرح چھا چکا تھا اور بوڑھا اپنے گھر سے چوپال پر جاچکا تھا، اس نے ایک ڈھیلا ڈھالا سیاہ لباس پہنا، منہ پر اچھی طرح نقاب والی ٹوپی چڑھائی اور موقع دیکھ کر ان کے گھر گھس گیا۔۔ بڑھیا اندر کمرے میں چارپائی پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔۔سمیرگرچہ اندر سے  کانپ رہا تھا، مگر کوئی طاقت تھی جو اس کو تھامے ہوئے تھی۔
    اگلاکام زیادہ مشکل نہ تھا، سمیر نے بڑھیا کو پستول دکھایا اور اس کو گھر میں موجود سارے پیسے لانے کا حکم دیا۔ سیاہ کپڑوں میں ملبوس ڈاکو اور اس کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر بڑھیا کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا اور وہ کانپتی کانپتی ادھر ادھر کونوں کھدروں میں، درازوں میں سے جو پیسے تھے،نکال کر لے آئی۔ سمیر اس کے سرپر سوار ساتھ پیسے ڈھونڈتا رہا اور کچھ پیسے ہاتھ آنے پر اس نے مزید کا لالچ نہ کیا، مبادا کوئی آکر اس کو دبوچ نہ لے اور وہاں سے رفوچکر ہوگیا۔ دورانِ ڈکیتی بڑھیا کی حالت بہت خراب تھی اور سمیر کو لگ رہا تھا کہ کہیں اسے دل کا دورہ نہ پڑجائے۔ اس نے اس بات کا پورا پورا خیال رکھا تھا کہ بڑھیا کو کوئی زک نہ پہنچائے۔
    گھر جاکر پیسے گنے تو قریب دس ہزار روپے ہاتھ لگے تھے۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس نے اچھا لباس خریدا، دوستوں کے ساتھ پکنک منائی، سیرو تفریح کی اور کچھ دن خوب موج مستی میں گزارے۔۔ بڑھیا سے پیسے لوٹنے کے کچھ سالوں تک اس کو ذرا برابر اس بات کا احساس نہ تھا کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے، کوئی گناہ یا کوئی غلط کام کیا ہے۔ اس کے پاس اپنے اس فعل کے ڈھیروں جواز تھے، اس کی نظر میں یہ کوئی غلط کام نہیں تھا، اسے پیسے کی اشد ضرورت تھی اور اس کے ہمسائیے میں ایسے بوڑھے بڑھیا رہتے تھے جن کے پاس پیسے بھی کافی تھے اور وہ قریب المرگ بھی تھے، یعنی ان کے بعد وہ پیسے ان کے کسی کام کے نہ تھے، اگر اس نے کچھ پیسے لے لئے تو کونسا غلط کام کیا۔۔۔
    بعد کے سالوں میں صورتِ حال بدل گئی۔۔ جب وہ کچھ سال بعد پڑھ لکھ کر ملازمت لگا، اس کی زندگی میں کچھ آسودگی آئی، اس نے اپنی زندگی کے حوالے سے کچھ ضابطہ اخلاق تشکیل دیئے، صحیح کیا ہے، غلط کیا ہے، غالباً اب جاکر ان کی کچھ تصویر واضح ہوئی تھی۔ زندگی میں جوں جوں آسودگی بڑھتی گئی، اس کی خلش میں اضافہ ہوتا گیا، وہ سوچتا کہ اس نے وہ جرم کیوں کیا تھا، کیا وہ پندرہ سال کا لڑکا اتنا ہی نادان تھا کہ اسے صحیح غلط کی سمجھ نہ تھی، اگرچہ اس نے بڑھیا کو نقصان نہ پہنچایا تھا، مگر پیسے تو لوٹے تھے، ایک انتہائی غلط کام، اور پیسے کی کوئی ایسی بھی شدید ضرورت  نہ تھی کہ وہ اتنا غلط کام کرتا۔۔ و ہ اب جاکر اپنی شخصیت کا جائزہ لیتا تو اسے لگتا تھا کہ وہ ایک نیک فطرت شخص ہے، مگر اس کے باوجود اس نے ایک جرم کیا تھا۔۔ اب وہ اکثر سوچتا کیا اگر اس کے حالات بہتر نہ ہوتے تو کیا وہ مزید جرم کرتا۔؟۔۔
    سب سے زیادہ جو چیز اسے پریشان کرتی تھی، وہ یہ تھی کہ اُس پندرہ سالہ لڑکے کے ہاتھوں ہوئے جرم کا قصوروار کون تھا۔ وہ بارہا اپنا قصور تلاش کرنے کی کوشش کرتا، مگر ناکام رہتا۔ کیونکہ اس پندرہ سالہ سمیر نے جب یہ جرم کیا تھا تو اس کے مطابق یہ کوئی غلط کام نہیں تھا، کسی بھی جرم یا گناہ کے قصور وار ٹھہرائے جانے کیلئے ضروری ہے کہ اس جرم کا احساس تو ہو۔۔۔ احساسِ گناہ کے بغیر جرم ایسے ہی ہے جیسے کوئی روبوٹ کوئی کام سرانجام دیتا ہے، بنا صحیح اور غلط کی پہچان کے۔۔۔
    ہمزاد جیسے سمیر کے دماغ میں چلنے والی فلم کو دیکھ رہا تھا۔۔
    “۔”تمہارا کیا خیال ہے، اس جرم کے ذمے دار تم نہیں تھے۔۔۔؟؟۔
    ۔”جب مجھے احساس ہی نہیں تھا اور میرے نزدیک وہ کوئی غلط کام نہ تھا، بلکہ ایک جائز کام تھا تو میں قصور وار کیسے ہوسکتا ہوں۔۔۔؟؟“۔۔ سمیر نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا
    ۔”ہوں۔۔۔۔“ ہمزاد نے ہوں کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا۔۔”گویا تمہیں لگتا ہے کہ وہ تمہارا کوئی اختیاری فعل نہ تھا اور تم سے بس سرزد ہوگیا تھا۔“۔۔
    ۔”مجھے نہیں معلوم کہ وہ اختیاری فعل تھا یا نہیں، مگر میں نے وہ فعل سرانجام دیا تھا۔ لیکن میں آج بھی خود کو اس بات پر قائل نہیں کرپایا کہ میں تب قصوروار تھا۔۔ مجھے لگتا ہے کہ آج بھی اگر میری شعوری اور معاشی حالت ویسی ہی ہو تو شاید آج بھی میں کوئی جرم کرگزروں۔۔ اگرچہ میرے جرم کی شدت اتنی نہیں، مگر ہے تو جرم اور غلط کام۔۔ شاید مجھ میں ہمت ہی اتنی تھی، اگر زیادہ ہمت ہوتی تو شاید میں کسی کو قتل کرکے بھی پیسے لوٹ لیتا۔۔۔مگر اصل سوال تو وہیں ہے، میرے کئے گئے جرم کی اصل ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔۔۔“۔
    ۔”تم چونکہ فطرتاً اچھی طبیعت کے مالک ہو، اس لئے تم نے کم شدت کا جرم کیا، جو لوگ فطرتاًبرے ہوتے ہیں اور ذرا بہادر بھی زیادہ ہوتے ہیں، وہ اپنی انہی فطری خصوصیات کے زیراثر زیادہ شدید نوعیت کے جرائم کرتے ہیں،حالانکہ مذکورہ دونوں فطری خواص اختیاری نہیں، اتفاقیہ ہیں، تمہارا کیا خیال ہے، وہ کس قدر اپنے جرائم کے قصور وار ہوتے ہیں۔۔؟؟“ ہمزاد نے سوال اٹھایا
    سمیر کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا
    ۔”میری نظر میں صرف وہی شخص اپنے جرم کا ذمے دار ہے جس کو احساس ہے کہ وہ غلط کام کررہا ہے، جس کو کسی بھی وجہ سے چاہے اپنی فطرتِ بد،،معاشی حالات یا پھر غلط ماحول سے حاصل شدہ تربیت کی بنا پر یہ احساس ہی نہیں کہ وہ کوئی غلط کام کررہا ہے، اس کا وہ ذمے دار نہیں۔“۔
    ۔”یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو احساس ہے کہ وہ غلط کام کررہا ہے، تو پھر وہ غلط کام کیوں کرے گا۔“۔؟؟۔۔۔ہمزاد نے اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا

    ۔”میرے خیال میں جرائم میں بہت سے دیگر عوامل بھی شامل ہوتے ہیں اور جو لوگ صحیح غلط کا شعوری احساس ہونے کے باوجود غلط کام یا جرم کرتے ہیں،وہ بھی کسی نہ کسی فطری عامل کے زیرِ اثر ہی ایسا کرتے ہیں۔ مثلا ایک معزز شخص کی کوئی سرعام تذلیل کردیتا ہے اور وہ معزز شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ قتل ایک گھناؤنا جرم ہے، اپنی انا کے زیرِ اثر اپنی تذلیل کا بدلہ لینے کیلئے جواباً اس شخص کو قتل کردیتا ہے،ایسے ہی جرائم کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ محض اچھی یا بری فطرت کو جرم کا محرک قرار نہیں دیا جاسکتا۔“۔
    ۔”درست کہا۔۔ اس مثال میں اس معزز شخص کی انا اور اپنی شخصیت کی توہین کے جذبہ کا احساس اس قدر قوی ہے کہ وہ قتل تک کردیتا ہے، اور یہ دونوں عوامل اختیاری نہیں، اتفاقیہ ہیں، کیونکہ کوئی شخص خود سے اپنی انا کو اتنی قوی نہیں کرتا۔“۔
    ۔”لیکن میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ ہر جرم کا مجرم کلی طور پر بری الذمہ ہوتا ہے، فرض کریں ایک شخص ہے جو فطرتاً بہت غصہ ورہے اور عین ممکن ہے کہ کسی لڑائی میں وہ شدید غصے میں آکر مخالف کو قتل کردے، مگر وہ چونکہ اپنے غصے کی خامی سے واقف ہے تو وہ ایک طویل عرصہ کے اکتساب سے اپنے غصے پر کافی حد تک قابو پانا سیکھ لیتا ہے، اس کے مقابلے میں ا یک دوسرا شخص ہے جو فطرتاً ویسا ہے غصہ ور ہے، مگر وہ اپنے غصے پرقابو پانا نہیں سیکھتا، اول الذکر شخص کی نسبت موخرالذکر شخص کے جرم کرنے یا غصے میں آکر قتل کرنے کا زیادہ چانس ہے تو کیا یہاں یہ واضح نہیں ہوتا کہ موخرالذکر شخص اپنے جرم کا قصور وار ہوگا کیونکہ اس نے اپنے غصے پر قابو پانا نہیں سیکھا۔“ سمیر نے اختلافی نکتہ اٹھایا۔۔
    تمہاراکیا خیال ہے۔۔ اول الذکر شخص نے اپنے غصے پر قابو پانا کیوں سیکھا۔۔۔؟؟“۔”
    سمیر تھوڑی دیر سوچتا رہا، پھر بولا۔۔
    ۔”میں نہیں جانتا۔۔۔“۔
    ۔”اول الذکر شخص نے اس لئے غصے پر قابو پانا سیکھا، کیونکہ اس کی جبلت میں دو اضافی صفات ہیں، پہلی صفت یہ کہ اس نے اپنی خامی کو پہچانا، اور دوسری یہ صفت یہ کہ وہ اس خامی پر حاوی ہوپایا اور حاوی ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اس صفت کا پلڑا بھاری ہو بہ نسبت اس کے جس کو حاوی کیا جارہا ہے۔ اور اس شخص کی جبلت میں پائی جانے والی مذکورہ دونوں اضافی صفات اتفاقیہ ہیں، اختیاری نہیں، اور اتفاقیہ صفات کی بنیاد پر اگر کوئی اختیاری عمل وقوع پذیر ہوتا ہے تووہ اپنی اصل میں اختیاری قرار نہیں پائے گا۔“۔
    ہمزاد کی بات میں وزن تھا۔۔ سمیر باوجود کوشش کے اختلافی دلیل ڈھونڈ نہ پایا۔ سمیر کو چپ دیکھ کر ہمزاد پھر بولا۔
    ۔”تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ مثالوں میں بیان کردہ کسی جرم کا ذمے دار بھی اس شخص کو قرار نہیں دیا جاسکتا جس نے قتل یا جرم کیا، کیونکہ اس نے اختیاری عوامل کے تحت نہیں بلکہ اتفاقیہ صفات کے زیراثر یہ قتل کیا، تو یہاں بھی انسان کے بااختیار ہونے کا مقدمہ باطل ثابت ہوا۔۔“ہمزاد نے کہا۔۔
    سمیرچپ رہا۔۔۔ اچانک ہمزاد نے ایک نیا سوال داغ دیا۔۔
    کیا تم اپنی بیوی سونیا سے پیار کرتے ہو۔۔۔؟ سچ سچ جواب دینا۔۔۔؟؟“۔”
    ۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Sohraab
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    yeh itna sara khud likha hai yah copy paste kia hai ????
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #6
    yeh itna sara khud likha hai yah copy paste kia hai ????

    نواب صاحب۔۔۔ جو خود سے لکھنے میں مزا ہے وہ کاپی پیسٹ میں نہیں، آپ بھی ٹرائی کرکے دیکھیے۔۔۔ 

    Sohraab
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7

    نواب صاحب۔۔۔ جو خود سے لکھنے میں مزا ہے وہ کاپی پیسٹ میں نہیں، آپ بھی ٹرائی کرکے دیکھیے۔۔۔

    yaar aap ne to bohut ziada likh diya urdu main

    main to 2 lines bhi nahi likh sakta urdu main

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #8

    آخری قسط۔۔۔۔

     اچانک ہمزاد نے ایک نیا سوال داغ دیا۔۔

    کیا تم اپنی بیوی سونیا سے پیار کرتے ہو۔۔۔؟ سچ سچ جواب دینا۔۔۔؟؟“۔”
    سمیر نے کبھی اپنی بیوی سے پیار نہیں کیا تھا، وہ خوبصورت تھی، مگر سمیر تو ستارہ سے پیار کرتا تھا، اگرچہ اب ستارہ کو دیکھے ہوئے زمانہ ہوگیا تھا۔۔ سمیر ستارہ سے بے حد پیار کرتا تھا اور ان دونوں کے وصال کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی۔ مگر اس نے خوب غور و خوض کے بعد ستارہ کی بجائے سونیا سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ ستارہ اس کی طرح متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، جبکہ سونیا ایک امیر باپ کی بیٹی تھی، اس کے باپ کا پیسہ سمیر کے بہت کام آسکتا تھا۔۔ سمیر نے دل کی بجائے دماغ سے فیصلہ کیا اور ستارہ کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ دیا۔
    سمیر کو سوچوں میں گم دیکھ کر ہمزاد نے ایک بار پھر وہی سوال دہرایا۔
    ۔”جب تم سب کچھ جانتے ہو تو کیوں پوچھ رہے ہو، سونیا سے میں چاہ کر بھی کبھی پیار نہیں کرپایا، اب تو وہ ویسے بھی بڑھاپے کی دہلیز پر ہے۔۔“ سمیر نے بیزاری سے جواب دیا
    ۔”ستارہ کے مقابلے میں سونیا کو چننا۔۔۔ کیا یہ تمہارا اختیاری فیصلہ تھا۔۔۔۔“ ہمزاد نے اگلا سوال پوچھا
    ۔”بھلا اس سے زیادہ اختیاری فیصلہ اور کیا ہوسکتا ہے، میں نے کئی دن اور کئی راتیں سوچنے میں صرف کردیں، ستارہ سے ناطہ توڑنا میرے لئے آسان تھوڑی تھا۔۔۔یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کی میں مکمل ذمہ داری لیتا ہوں اور اس کا قصوروا ر بھی خود کو سمجھتا ہوں۔“۔
    ۔”کیا وجہ تھی کہ ستارہ کے پیار پر دولت کی محبت حاوی آگئی۔۔؟؟“۔
    ۔”میں ایک کامیاب شخص بننا چاہتا تھا، ایک امیر کبیر، شہرت اور عزت کا مالک۔۔۔ ستارہ سے میں بہت محبت کرتا تھا، مگر شاید اس سے زیادہ مجھے ایک کامیاب اور دولتمند شخص بننے کی خواہش تھی۔۔“۔
    ۔”اس کا مطلب ہے محبت کے جذبے سے مادیت پرستی کا جذبہ تم میں زیادہ تھا اور یہ دونوں عوامل بھی ایسے نہیں کہ تم نے خود سے اپنے اندر پیدا کرلئے، یعنی اختیاری نہیں ہیں“۔۔
    ۔”میں نہیں جانتا۔۔۔ آج میں ستارہ کو شدت سے یاد کرتا ہوں، مگر وقت کے آئینے میں ماضی کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اگر دوبارہ مجھے وہ فیصلہ کرنا پڑے تو شایدمیں ستارہ کو چنوں۔“۔
    ۔”اس معاملے کو ذرا دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں، سونیا تمہاری مجبوری تھی، اس لئے تم نے اسے چنا، اور تمہارا یہ فیصلہ مستقبل میں تمہارے بہت کام آیا، اگر اس کا باپ تمہیں کام شروع کرنے کیلئے ابتدائی سرمایہ مہیا نہ کرتا تو شاید تم آج اس مقام پر نہ ہوتے۔ اور تم اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہو۔۔۔ تو نکتہ یہ ہے کہ سونیا ایک خوبصورت لڑکی ہے، اس نے بھی تمہیں پسند کیا۔۔۔اگر وہ تمہیں پسند نہ کرتی تو۔۔؟ کیونکہ اس وقت تو تم دولت مند نہ تھے، ایک عام ملازمت پیشہ آدمی تھے۔“۔۔
    ۔”یہ ممکن ہی نہ تھا، میری وجاہت پر ہزار لڑکیاں جان دیتی ہیں، سونیا تو مجھ پر فدا ہوگئی تھی۔۔“ سمیر کے لہجے میں فخر کی جھلک تھی
    ۔”اس کا مطلب ہے تمہاری وجاہت، خوبصورتی تمہارے بہت کام آئی۔ نہ صرف سونیا بلکہ بے شمار دوسری لڑکیاں جن سے تمہارے تعلقات رہے اور اب بھی ہیں، وہ جو تمہاری مسرت کا باعث بنیں، اس کی وجہ صرف اور صرف تمہاری مردانہ وجاہت تھی۔۔ اگر تم ایک ناٹے سے، چھوٹے قد کے بے ڈول بھدے جسم کے مالک ہوتے تو نہ تمہیں سونیا منہ لگاتی اور نہ کوئی اور لڑکی۔ اور شاید آج نہ تم اتنے دولتمند ہوتے اور نہ ہی اتنی لڑکیاں تمہاری زندگی میں آتیں۔۔ اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ تمہاری شکل و صورت او ر وجاہت محض ایک اتفاقیہ خوبی ہے جو تمہیں مل گئی، اس میں تمہاری رضا کا تو کوئی دخل نہیں۔“۔۔ 
    سمیر نے اثبات میں سرہلانے پر اکتفا کیا
    ۔”یعنی تم مانتے ہو کہ تمہیں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے زندگی میں جو بھی کچھ ملا،اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں۔“۔
    ۔”ظاہر ہے، اس میں کیا شک ہے۔۔“ سمیر نے کہا۔
    ہمزاد تھوڑی دیر چپ رہا پھر بولا
    ۔”جس طرح انسان کا اپنی ہیئت، اپنی ظاہری شکل و صورت پر کوئی اختیار نہیں، اسی طرح اس کا اپنے دماغ پر بھی کوئی اختیار نہیں کہ اس کو کس قسم کا دماغ ملتا ہے۔۔ تم کیا سمجھتے ہو، نیوٹن اور آئن سٹائن میں کیا کمال تھا؟ محض یہ کہ وہ باقیوں سے برتر دماغ رکھتے تھے، ایک اتفاقی چیز، جس میں ان کا کوئی کمال نہ تھا۔ وہی دماغ جو آئن سٹائن کے پاس تھا، وہ کسی اللہ دتہ کمہار کو ملا ہوتا تو وہ بھی اتنا ہی قابل اور نامور ہوتا، لیونارڈو ڈونچی میں کیا کمال تھا، سقراط اور افلاطون کیوں بالاتر قرار پاتے ہیں، ٹالسٹائی کس فن کا استاد تھا، سپارٹیکس میں کس نے آگ بھردی تھی، کارل مارکس نے دنیا کو کیسے ہلاکر رکھ دیاتھا، ہٹلر کیوں یہودیوں کو تاخت و تاراج کرنے پر تل گیا تھا، یہ سب کیا تھے۔؟۔ محض روبوٹس، اپنی جبلتوں کے اسیر، جو وہی کرتے رہے جوان کے سافٹ ویئر میں درج تھا۔۔“۔
    ۔”ذرا ٹھہرو۔۔۔تم نے کہا ستارہ پر سونیا کو چننا میرا ذاتی ارادی فعل نہ تھا، مگر یہ درست نہیں۔۔“ سمیر نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا، اس نے گویا ہمزاد کا لیکچر سنا ہی نہ تھا۔۔ ”کتنے ہی دن میں اس کشمکش میں رہا کہ مجھے ستارہ سے شادی کرنی چاہیے یا سونیا سے اور کئی بار تو میں نے بالکل ستارہ کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا اور ایک بار تو چل بھی پڑا تھا، اس کو بتانے اور پھر راستے سے لوٹ آیا۔۔ اس کا مطلب یہ بالکل میرے اختیار میں تھا کہ میں دونوں میں سے کس کو چنتا اور محض میں نے اپنی مرضی اپنی رضا سے اپنا فیصلہ بدلا۔“۔۔
    سمیر کی بات سن کر ہمزاد بولا
    ۔”اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ تم میں محبت اور مادیت پرستی کا جذبہ قریب قریب ایک جتنا تھا، اس لئے کبھی ایک جذبہ غالب آتا اور کبھی دوسرا، تم کوئی بھی فیصلہ کرتے، ہر دوصورتوں میں محض کسی نہ کسی جبلی صفت کے زیر اثر ہی کرتے اور اس معاملے میں دونوں جبلی صفات اتفاقیہ ہیں نہ کہ اختیاری۔“۔
    تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر ہمزاد بولا
    ۔”تم جانتے ہو، تمہارا بیٹا، جس کو تم بڑے فخر سے اپنے ساتھ لے کر گھومتے ہو، و ہ بھی محض اتفاق کا نتیجہ ہے“۔
    ۔”بس اب بہت ہوگیا۔۔۔ تم ہو کون۔۔کیا تم پادری ہو، پنڈت ہو، مولوی ہو یا کوئی گیانی۔۔؟؟“ سمیر اپنے بیٹے کے متعلق ہمزاد کی بات سن کر پھٹ پڑا، وہ اپنے بیٹے کو اپنا فخر سمجھتا تھا۔۔۔
    ۔”صبح سے تم مجھے عجیب و غریب بحث میں الجھائے بیٹھے ہو، آخر تم چاہتے کیا ہو، کہیں تم مجھے مذہب کی تبلیغ تو نہیں کررہے، کہیں تم مجھے مذہب کے فلسفہ جبر و قدر پر قائل تو نہیں کررہے،اگر ایسا ہے تو سنو۔۔ میں نہیں مانتا تقدیر کو۔ جب تم میرے بارے میں اتنا جانتے ہو تو یہ بھی ضرور جانتے ہوگے کہ میں برسوں پہلے مذہب چھوڑ چکا ہوں، مذہب محض طفلانہ ذہنوں کو ہی متاثر کرسکتا ہے، ہاں خدا میرے لئے آج بھی معمہ ہے، مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، وہ ہے یا نہیں، قطعی غیر متعلق بات ہے، اس سے ہم پر یا کسی پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔۔۔“۔سمیر کتنی دیر بے تکان بولتا رہا، غصہ اس کے لہجے سے چھلک رہا تھا۔ وہ چپ ہوا تو تھوڑی دیر بعد ہمزاد بولا
    ۔”تمہیں معلوم ہے، تم ایک قیدی ہو۔۔۔؟؟“۔۔
    ۔”اب یہ کیا نئی بکواس ہے۔۔؟؟“۔ سمیر ابھی تک غصے سے بھرا بیٹھا تھا۔ ہمزا د اس کے غصے کی رتی بھر پروا کئے بغیر بولا۔
    ۔”تم اس پراسرا ر دنیا کے قیدی ہو، تم رتی بھر اختیار کے مالک نہیں ہو، تم محض وہی کرتے جو تمہارے سافٹ ویئر یعنی مجھ میں نصب ہے، صرف تم ہی کیا، سبھی لوگ یہاں قیدی ہیں مگر اس بھرم میں ہیں کہ وہ آزاد ہیں، تم اپنی بھوک، پیاس پر اختیار نہیں رکھتے، بھوک لگتی ہے تو تمہیں کھانا پڑتا ہے، تم اپنی پسند ناپاپسند پر اختیار نہیں رکھتے، تم اپنی محبت نفرت پر اختیار نہیں رکھتے، تم اپنے غصے اور حلم پر اختیار نہیں رکھتے، تمہاری شکل و صورت کیسی ہوگی، تم کمزور ہوگے یا طاقتور، بہادر ہوگے یا بزدل،  تم کس درجہ کے دماغ کے حامل ہوگے یہ قطعا تمہارے اختیار سے باہر ہے، اگر کوئی کندذہن ہے تو وہ لاکھ کوشش کے باوجود ذہین نہیں بن سکتا، تم اپنی جبلی زنجیروں کے اسیر وہی کرتے رہتے ہو جو جبلت تم سے کرواتی ہے، تم اپنے شہوانی جذبات سے مغلوب بچے پیدا کرتے رہتے ہو، اور بے وجہ بے مقصد انسانی نسل کو آگے بڑھاتے رہتے ہو، تم اپنے بچوں سے اس لئے پیار کرتے ہو کیونکہ بے قرار محبت کاوہ جذبہ تمہارے اندر نصب ہے، جو تمہاری نسل کوایک خاص وقت تک پروان چڑھانے کیلئے ضروری ہے، اگر وہ جذبہ نہ ہوتا تو تم اپنی اولاد کو پیدا کرکے پھینک دیتے اور تمہاری نوع ختم ہوجاتی۔ نہ تم اپنی رضا سے امیر ہوتے ہو نہ اپنی مرضی سے غریب، تم کامیاب ہو یا ناکام اس میں تمہارا کوئی دخل نہیں، تم کارل مارکس ہو یا مزدور، سکندراعظم ہو یا لشکر کے معمولی سپاہی، سقراط ہو یا اس کو سزائے موت سنانے والی جیوری کے رکن، تم جو کچھ بھی ہووہ محض اتفاق سے ہو، اس میں تمہاری مرضی کو کوئی دخل نہیں، تم اپنے کسی فعل کا کریڈٹ نہیں لے سکتے، تم اپنے کسی جرم کے سزاوار نہیں ہو، تم فریب کی پیداوار ہو، تم چاروں اُور دھند کی طرح پھیلے سراب میں گھرے ہوئے ہو، تمہیں حقیقت کا ادراک ہے نہ ہوسکتا ہے، تم محض قیدی ہو، تمہاری مثال اس چوہے کی مانند ہے جس کو بہت بڑے لوہے کے ڈبے میں چھوڑ دیا جائے، اس ڈبے میں درجنوں راستے ہوں، بھول بھلیوں کی طرح اور وہ چوہا سمجھے کہ وہ آزاد ہے چاہے جس راستے سے جائے، مگر حقیقت میں وہ اس ڈبے کا قیدی ہے، تم بھی اس قیدی چوہے کی مانند ہو بے اختیار روبوٹس۔“۔۔۔۔
    ۔”بس۔۔ بس۔۔ بند کرو اپنی یہ بکواس۔۔“ ہمزاد شاید مزید بولنا چاہتا تھا، مگر سمیر چیخ اٹھا۔۔”تم کیا چاہتے ہو، انسان کیا کریں،غیر معلوم کے فریب سے نکل کر کہاں جائیں اور وہ نکل کیسے سکتے ہیں، یہ فریب قائم رہے گا، جب تک غیر معلوم ہے، فریب رہے گا۔۔۔ تم میری جان چھوڑ کر دفعان کیوں نہیں ہوجاتے۔۔۔“ سمیر اپنے بال نوچنے کے قریب تھا۔۔
    ہمزاد تھوڑی دیر چپ چاپ کھڑا رہا، پھر اچانک اچھلا اور بوتل سے نکلے ہوئے جن کی طرح کمرے کی فضا میں دو تین چکر لگائے اور غڑاپ سے سمیر کے اندر گھس گیا۔۔ سمیر کے جسم کو زبردست جھٹکا لگا، تھوڑی دیر وہ بے ہوش و حواس کھڑا رہا، پھر اس کے حواس کچھ بحال ہوئے، اس نے دوسرے کمرے میں جاکر کپڑے بدلے، تھوڑا سا کھانا ٹھونسا اور بریف کیس اٹھا کر گاڑی میں بیٹھ دفتر کی طرف روانہ ہوگیا۔روزانہ کی طرح۔۔ بالکل ایک روبوٹ کی مانند۔۔

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #9
    yaar aap ne to bohut ziada likh diya urdu main main to 2 lines bhi nahi likh sakta urdu main

    نواب صاحب۔۔ اب ایسا بھی مت  کہیں۔۔ میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے آپ کو سیاست پی کے پر رومن اردوں میں لمبی لمبی پوسٹس کرتے دیکھا ہے اور وہ بھی اردو ہی ہوتی تھی، رسم الخط مختلف تھا تو کیا ہوا۔۔۔ 

    Sohraab
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10

    نواب صاحب۔۔ اب ایسا بھی مت کہیں۔۔ میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے آپ کو سیاست پی کے پر رومن اردوں میں لمبی لمبی پوسٹس کرتے دیکھا ہے اور وہ بھی اردو ہی ہوتی تھی، رسم الخط مختلف تھا تو کیا ہوا۔۔۔

    ji woh urdu main hoti thin , lekin tab urdu likhne ka format koi aur hota tha , main us format par jab aadi ho gaya to woh format hi khattam ho gaya , yaqeen na aai to نادان se pooch lain

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11
    اتنی لمبی کہانی — وقت ملتے ہی اسے پڑھتا ہو ، امید ہے اس میں سلیم بھائی والی سانپوں والی لڑکی ہو گی ، جو پڑھنے والے کو آخر تک اپنی گرفت میں رکھے گی

    :bigthumb:

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12
    استاد جی مزا آ گیا

    :clap:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13

    آخری قسط۔۔۔۔

    اچانک ہمزاد نے ایک نیا سوال داغ دیا۔۔

    کیا تم اپنی بیوی سونیا سے پیار کرتے ہو۔۔۔؟ سچ سچ جواب دینا۔۔۔؟؟“۔” سمیر نے کبھی اپنی بیوی سے پیار نہیں کیا تھا، وہ خوبصورت تھی، مگر سمیر تو ستارہ سے پیار کرتا تھا، اگرچہ اب ستارہ کو دیکھے ہوئے زمانہ ہوگیا تھا۔۔ سمیر ستارہ سے بے حد پیار کرتا تھا اور ان دونوں کے وصال کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی۔ مگر اس نے خوب غور و خوض کے بعد ستارہ کی بجائے سونیا سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ ستارہ اس کی طرح متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، جبکہ سونیا ایک امیر باپ کی بیٹی تھی، اس کے باپ کا پیسہ سمیر کے بہت کام آسکتا تھا۔۔ سمیر نے دل کی بجائے دماغ سے فیصلہ کیا اور ستارہ کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ دیا۔ سمیر کو سوچوں میں گم دیکھ کر ہمزاد نے ایک بار پھر وہی سوال دہرایا۔ ۔”جب تم سب کچھ جانتے ہو تو کیوں پوچھ رہے ہو، سونیا سے میں چاہ کر بھی کبھی پیار نہیں کرپایا، اب تو وہ ویسے بھی بڑھاپے کی دہلیز پر ہے۔۔“ سمیر نے بیزاری سے جواب دیا ۔”ستارہ کے مقابلے میں سونیا کو چننا۔۔۔ کیا یہ تمہارا اختیاری فیصلہ تھا۔۔۔۔“ ہمزاد نے اگلا سوال پوچھا ۔”بھلا اس سے زیادہ اختیاری فیصلہ اور کیا ہوسکتا ہے، میں نے کئی دن اور کئی راتیں سوچنے میں صرف کردیں، ستارہ سے ناطہ توڑنا میرے لئے آسان تھوڑی تھا۔۔۔یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کی میں مکمل ذمہ داری لیتا ہوں اور اس کا قصوروا ر بھی خود کو سمجھتا ہوں۔“۔ ۔”کیا وجہ تھی کہ ستارہ کے پیار پر دولت کی محبت حاوی آگئی۔۔؟؟“۔ ۔”میں ایک کامیاب شخص بننا چاہتا تھا، ایک امیر کبیر، شہرت اور عزت کا مالک۔۔۔ ستارہ سے میں بہت محبت کرتا تھا، مگر شاید اس سے زیادہ مجھے ایک کامیاب اور دولتمند شخص بننے کی خواہش تھی۔۔“۔ ۔”اس کا مطلب ہے محبت کے جذبے سے مادیت پرستی کا جذبہ تم میں زیادہ تھا اور یہ دونوں عوامل بھی ایسے نہیں کہ تم نے خود سے اپنے اندر پیدا کرلئے، یعنی اختیاری نہیں ہیں“۔۔ ۔”میں نہیں جانتا۔۔۔ آج میں ستارہ کو شدت سے یاد کرتا ہوں، مگر وقت کے آئینے میں ماضی کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اگر دوبارہ مجھے وہ فیصلہ کرنا پڑے تو شایدمیں ستارہ کو چنوں۔“۔ ۔”اس معاملے کو ذرا دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں، سونیا تمہاری مجبوری تھی، اس لئے تم نے اسے چنا، اور تمہارا یہ فیصلہ مستقبل میں تمہارے بہت کام آیا، اگر اس کا باپ تمہیں کام شروع کرنے کیلئے ابتدائی سرمایہ مہیا نہ کرتا تو شاید تم آج اس مقام پر نہ ہوتے۔ اور تم اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہو۔۔۔ تو نکتہ یہ ہے کہ سونیا ایک خوبصورت لڑکی ہے، اس نے بھی تمہیں پسند کیا۔۔۔اگر وہ تمہیں پسند نہ کرتی تو۔۔؟ کیونکہ اس وقت تو تم دولت مند نہ تھے، ایک عام ملازمت پیشہ آدمی تھے۔“۔۔ ۔”یہ ممکن ہی نہ تھا، میری وجاہت پر ہزار لڑکیاں جان دیتی ہیں، سونیا تو مجھ پر فدا ہوگئی تھی۔۔“ سمیر کے لہجے میں فخر کی جھلک تھی ۔”اس کا مطلب ہے تمہاری وجاہت، خوبصورتی تمہارے بہت کام آئی۔ نہ صرف سونیا بلکہ بے شمار دوسری لڑکیاں جن سے تمہارے تعلقات رہے اور اب بھی ہیں، وہ جو تمہاری مسرت کا باعث بنیں، اس کی وجہ صرف اور صرف تمہاری مردانہ وجاہت تھی۔۔ اگر تم ایک ناٹے سے، چھوٹے قد کے بے ڈول بھدے جسم کے مالک ہوتے تو نہ تمہیں سونیا منہ لگاتی اور نہ کوئی اور لڑکی۔ اور شاید آج نہ تم اتنے دولتمند ہوتے اور نہ ہی اتنی لڑکیاں تمہاری زندگی میں آتیں۔۔ اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ تمہاری شکل و صورت او ر وجاہت محض ایک اتفاقیہ خوبی ہے جو تمہیں مل گئی، اس میں تمہاری رضا کا تو کوئی دخل نہیں۔“۔۔ سمیر نے اثبات میں سرہلانے پر اکتفا کیا ۔”یعنی تم مانتے ہو کہ تمہیں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے زندگی میں جو بھی کچھ ملا،اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں۔“۔ ۔”ظاہر ہے، اس میں کیا شک ہے۔۔“ سمیر نے کہا۔ ہمزاد تھوڑی دیر چپ رہا پھر بولا ۔”جس طرح انسان کا اپنی ہیئت، اپنی ظاہری شکل و صورت پر کوئی اختیار نہیں، اسی طرح اس کا اپنے دماغ پر بھی کوئی اختیار نہیں کہ اس کو کس قسم کا دماغ ملتا ہے۔۔ تم کیا سمجھتے ہو، نیوٹن اور آئن سٹائن میں کیا کمال تھا؟ محض یہ کہ وہ باقیوں سے برتر دماغ رکھتے تھے، ایک اتفاقی چیز، جس میں ان کا کوئی کمال نہ تھا۔ وہی دماغ جو آئن سٹائن کے پاس تھا، وہ کسی اللہ دتہ کمہار کو ملا ہوتا تو وہ بھی اتنا ہی قابل اور نامور ہوتا، لیونارڈو ڈونچی میں کیا کمال تھا، سقراط اور افلاطون کیوں بالاتر قرار پاتے ہیں، ٹالسٹائی کس فن کا استاد تھا، سپارٹیکس میں کس نے آگ بھردی تھی، کارل مارکس نے دنیا کو کیسے ہلاکر رکھ دیاتھا، ہٹلر کیوں یہودیوں کو تاخت و تاراج کرنے پر تل گیا تھا، یہ سب کیا تھے۔؟۔ محض روبوٹس، اپنی جبلتوں کے اسیر، جو وہی کرتے رہے جوان کے سافٹ ویئر میں درج تھا۔۔“۔ ۔”ذرا ٹھہرو۔۔۔تم نے کہا ستارہ پر سونیا کو چننا میرا ذاتی ارادی فعل نہ تھا، مگر یہ درست نہیں۔۔“ سمیر نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا، اس نے گویا ہمزاد کا لیکچر سنا ہی نہ تھا۔۔ ”کتنے ہی دن میں اس کشمکش میں رہا کہ مجھے ستارہ سے شادی کرنی چاہیے یا سونیا سے اور کئی بار تو میں نے بالکل ستارہ کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا اور ایک بار تو چل بھی پڑا تھا، اس کو بتانے اور پھر راستے سے لوٹ آیا۔۔ اس کا مطلب یہ بالکل میرے اختیار میں تھا کہ میں دونوں میں سے کس کو چنتا اور محض میں نے اپنی مرضی اپنی رضا سے اپنا فیصلہ بدلا۔“۔۔ سمیر کی بات سن کر ہمزاد بولا ۔”اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ تم میں محبت اور مادیت پرستی کا جذبہ قریب قریب ایک جتنا تھا، اس لئے کبھی ایک جذبہ غالب آتا اور کبھی دوسرا، تم کوئی بھی فیصلہ کرتے، ہر دوصورتوں میں محض کسی نہ کسی جبلی صفت کے زیر اثر ہی کرتے اور اس معاملے میں دونوں جبلی صفات اتفاقیہ ہیں نہ کہ اختیاری۔“۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی، پھر ہمزاد بولا ۔”تم جانتے ہو، تمہارا بیٹا، جس کو تم بڑے فخر سے اپنے ساتھ لے کر گھومتے ہو، و ہ بھی محض اتفاق کا نتیجہ ہے“۔ ۔”بس اب بہت ہوگیا۔۔۔ تم ہو کون۔۔کیا تم پادری ہو، پنڈت ہو، مولوی ہو یا کوئی گیانی۔۔؟؟“ سمیر اپنے بیٹے کے متعلق ہمزاد کی بات سن کر پھٹ پڑا، وہ اپنے بیٹے کو اپنا فخر سمجھتا تھا۔۔۔ ۔”صبح سے تم مجھے عجیب و غریب بحث میں الجھائے بیٹھے ہو، آخر تم چاہتے کیا ہو، کہیں تم مجھے مذہب کی تبلیغ تو نہیں کررہے، کہیں تم مجھے مذہب کے فلسفہ جبر و قدر پر قائل تو نہیں کررہے،اگر ایسا ہے تو سنو۔۔ میں نہیں مانتا تقدیر کو۔ جب تم میرے بارے میں اتنا جانتے ہو تو یہ بھی ضرور جانتے ہوگے کہ میں برسوں پہلے مذہب چھوڑ چکا ہوں، مذہب محض طفلانہ ذہنوں کو ہی متاثر کرسکتا ہے، ہاں خدا میرے لئے آج بھی معمہ ہے، مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، وہ ہے یا نہیں، قطعی غیر متعلق بات ہے، اس سے ہم پر یا کسی پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔۔۔“۔سمیر کتنی دیر بے تکان بولتا رہا، غصہ اس کے لہجے سے چھلک رہا تھا۔ وہ چپ ہوا تو تھوڑی دیر بعد ہمزاد بولا ۔”تمہیں معلوم ہے، تم ایک قیدی ہو۔۔۔؟؟“۔۔ ۔”اب یہ کیا نئی بکواس ہے۔۔؟؟“۔ سمیر ابھی تک غصے سے بھرا بیٹھا تھا۔ ہمزا د اس کے غصے کی رتی بھر پروا کئے بغیر بولا۔ ۔”تم اس پراسرا ر دنیا کے قیدی ہو، تم رتی بھر اختیار کے مالک نہیں ہو، تم محض وہی کرتے جو تمہارے سافٹ ویئر یعنی مجھ میں نصب ہے، صرف تم ہی کیا، سبھی لوگ یہاں قیدی ہیں مگر اس بھرم میں ہیں کہ وہ آزاد ہیں، تم اپنی بھوک، پیاس پر اختیار نہیں رکھتے، بھوک لگتی ہے تو تمہیں کھانا پڑتا ہے، تم اپنی پسند ناپاپسند پر اختیار نہیں رکھتے، تم اپنی محبت نفرت پر اختیار نہیں رکھتے، تم اپنے غصے اور حلم پر اختیار نہیں رکھتے، تمہاری شکل و صورت کیسی ہوگی، تم کمزور ہوگے یا طاقتور، بہادر ہوگے یا بزدل، تم کس درجہ کے دماغ کے حامل ہوگے یہ قطعا تمہارے اختیار سے باہر ہے، اگر کوئی کندذہن ہے تو وہ لاکھ کوشش کے باوجود ذہین نہیں بن سکتا، تم اپنی جبلی زنجیروں کے اسیر وہی کرتے رہتے ہو جو جبلت تم سے کرواتی ہے، تم اپنے شہوانی جذبات سے مغلوب بچے پیدا کرتے رہتے ہو، اور بے وجہ بے مقصد انسانی نسل کو آگے بڑھاتے رہتے ہو، تم اپنے بچوں سے اس لئے پیار کرتے ہو کیونکہ بے قرار محبت کاوہ جذبہ تمہارے اندر نصب ہے، جو تمہاری نسل کوایک خاص وقت تک پروان چڑھانے کیلئے ضروری ہے، اگر وہ جذبہ نہ ہوتا تو تم اپنی اولاد کو پیدا کرکے پھینک دیتے اور تمہاری نوع ختم ہوجاتی۔ نہ تم اپنی رضا سے امیر ہوتے ہو نہ اپنی مرضی سے غریب، تم کامیاب ہو یا ناکام اس میں تمہارا کوئی دخل نہیں، تم کارل مارکس ہو یا مزدور، سکندراعظم ہو یا لشکر کے معمولی سپاہی، سقراط ہو یا اس کو سزائے موت سنانے والی جیوری کے رکن، تم جو کچھ بھی ہووہ محض اتفاق سے ہو، اس میں تمہاری مرضی کو کوئی دخل نہیں، تم اپنے کسی فعل کا کریڈٹ نہیں لے سکتے، تم اپنے کسی جرم کے سزاوار نہیں ہو، تم فریب کی پیداوار ہو، تم چاروں اُور دھند کی طرح پھیلے سراب میں گھرے ہوئے ہو، تمہیں حقیقت کا ادراک ہے نہ ہوسکتا ہے، تم محض قیدی ہو، تمہاری مثال اس چوہے کی مانند ہے جس کو بہت بڑے لوہے کے ڈبے میں چھوڑ دیا جائے، اس ڈبے میں درجنوں راستے ہوں، بھول بھلیوں کی طرح اور وہ چوہا سمجھے کہ وہ آزاد ہے چاہے جس راستے سے جائے، مگر حقیقت میں وہ اس ڈبے کا قیدی ہے، تم بھی اس قیدی چوہے کی مانند ہو بے اختیار روبوٹس۔“۔۔۔۔ ۔”بس۔۔ بس۔۔ بند کرو اپنی یہ بکواس۔۔“ ہمزاد شاید مزید بولنا چاہتا تھا، مگر سمیر چیخ اٹھا۔۔”تم کیا چاہتے ہو، انسان کیا کریں،غیر معلوم کے فریب سے نکل کر کہاں جائیں اور وہ نکل کیسے سکتے ہیں، یہ فریب قائم رہے گا، جب تک غیر معلوم ہے، فریب رہے گا۔۔۔ تم میری جان چھوڑ کر دفعان کیوں نہیں ہوجاتے۔۔۔“ سمیر اپنے بال نوچنے کے قریب تھا۔۔ ہمزاد تھوڑی دیر چپ چاپ کھڑا رہا، پھر اچانک اچھلا اور بوتل سے نکلے ہوئے جن کی طرح کمرے کی فضا میں دو تین چکر لگائے اور غڑاپ سے سمیر کے اندر گھس گیا۔۔ سمیر کے جسم کو زبردست جھٹکا لگا، تھوڑی دیر وہ بے ہوش و حواس کھڑا رہا، پھر اس کے حواس کچھ بحال ہوئے، اس نے دوسرے کمرے میں جاکر کپڑے بدلے، تھوڑا سا کھانا ٹھونسا اور بریف کیس اٹھا کر گاڑی میں بیٹھ دفتر کی طرف روانہ ہوگیا۔روزانہ کی طرح۔۔ بالکل ایک روبوٹ کی مانند۔۔

    زندہ رود صاحب،
    آپ نے نہایت خوبصورتی سے اپنے اور اپنے ہمزاد کے درمیان مکالمہ کو سپرد قلم کیا ہے کہانی کا مرکزی خیال شاید ایسا ہے کہ ہم سب ہی کبھی نہ کبھی ایسا سوچتے ہیں مگر خیالات کو اتنے خوبصورت طریقہ سے لکھنے کا فن ہر ایک کے پاس نہیں ہے
    کہانی سے ایسا تاثر بھی ملتا ہے کہ جیسے ضمیر پر کچھ بوجھ سا ہے جس کو ہلکا کرنے کے لئے جواز فراہم کئے گئے ہیں

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #14

    زندہ رود صاحب، آپ نے نہایت خوبصورتی سے اپنے اور اپنے ہمزاد کے درمیان مکالمہ کو سپرد قلم کیا ہے کہانی کا مرکزی خیال شاید ایسا ہے کہ ہم سب ہی کبھی نہ کبھی ایسا سوچتے ہیں مگر خیالات کو اتنے خوبصورت طریقہ سے لکھنے کا فن ہر ایک کے پاس نہیں ہے

    گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔۔ پسندیدگی کے اظہار کا شکریہ۔۔۔ کچھ بے ترتیب سے خیالات تھے جو ذہن میں تیرتے پھررہے تھے، ان کو مجتمع کرکے لکھنے کی ادنیٰ سی سعی کی ہے۔، کہانی کے مزید طویل ہونے کے ڈر سے بہت کچھ رہ بھی گیا ہے جو شاید پھر کبھی کسی اور صورت میں لکھوں۔۔۔ 

    کہانی سے ایسا تاثر بھی ملتا ہے کہ جیسے ضمیر پر کچھ بوجھ سا ہے جس کو ہلکا کرنے کے لئے جواز فراہم کئے گئے ہیں
    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    آپ کی شرارتی مسکراہٹ بتارہی ہے کہ آپ افسانے سے حقیقت کھوجنے کے چکروں میں ہیں، لگتا ہے مجھے ڈسکلیمر چسپاں کرنا پڑے گا، اس کہانی میں بیان کئے گئے تمام حالات و واقعات محض افسانوی ہیں اور ان کا کسی حقیقی واقعے سے کچھ لینا دینا نہیں۔ :) ۔۔ 

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #15
    ایک اچھی کاوش ہے جسے پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ آپ دوبارہ خدا تعالی کو ماننے لگ جائیں گے

    :bigthumb:

    انسان اشرف المخلوقات ہے جس کا ثبوت ہمارا دیگر مخلوقات کی نسبت الگ طرز زندگی ہے، آپ کہتے ہیں کہ انسان کے پاس کچھ بھی اختیاری طاقت نہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا ہاں اللہ تعالی نے انسان کو عقل و شعور دیکر گویا اپنا اچھا یا برا راستہ چننے کا اختیار بھی دے دیا

    آپ کہتے ہیں کہ جو سافٹ وئیر میں فنکشن رکھ دیئے گئے ہیں انسان ان سے باہر نہیں جاسکتا جبکہ سافٹ وئیر انجینئیر یہ بات نہیں کہتا، اس کا کہنا ہے کہ سافٹ وئیر ایسا جدید ہے کہ یہ خود اپنا اچھا اور برا سوچ سکتا ہے، یعنی دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں یہ اپنے اچھے اور برے افعال کا بھی خود ہی جواب دہ ہوگا

    مثلا اوپر والی کہانی کا کردار سمیر جب غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری کرتا ہے تو یہ فعل اس کا اختیاری تھا کیونکہ بہت سارے ایسے نوجوان بھی ہوتے ہیں جو چوری کی بجاے کسی ہوٹل پر چاے کے برتن دھو کر پیسے کما لیتے ہیں، اب آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ دونوں نوجوان الگ الگ سافٹ وئیر کے مالک تھے یعنی سمیر کے دماغ میں بدی اور دوسرے میں نیکی کی پروگرامنگ کی جاچکی تھی اس موقع پر میری یہ دلیل ہوگی کہ صدیوں کے بگڑے معاشرے بھی سدھارنے والے آے اور اپنا کام کرکے یعنی چوروں، ڈاکووں اور قاتلوں کو سدھار کر چلے گئے

    ایک گاوں ناگاں نامی ہے جہاں زیادہ تر فیمیلیز کا تعلق ماہر ترین رسہ گیروں سے ہے اس کی وجہ ان کے بزرگ تھے جو رسہ گیری کرتے اور نتیجا ان کی پوری نسلیں ہی اس کام میں ماہر ہوگئیں، اس گاوں میں اگر لڑکا رسہ گیری نہیں کرتا تو اس کو رشتہ نہیں ملتا

    اس سے پتا چلتا ہے کہ معاشرہ بھی انسان کو بدل دیتا ہے، اگر معاشرے کے اکثر لوگ چور ہوں تو آپ بھی چوری کو اپنائیں گے اور اگرپڑھے لکھے لوگ ہوں تو آپ بھی ایک سائنسدان بن سکتے ہیں، اگر کسی کے ماں باپ عبادت  گزار ہیں تو ان کے بچے بھی نمازیں پڑھتے دکھای دیتے ہیں

    جب کوی شخص ہارٹ کا مریض بن جاتا ہے تو اس کو کھانے پینے کا پلان دیا جاتا ہے، اگر وہ اس موقع پر اپنی فیورٹ مرغن غذا چھوڑ دیتا ہے تو یہ اختیاری ہوا کیونکہ اس کی فیورٹ غذا مٹن کڑاہی اگر اس کے سافٹ وئیر میں فیڈ کردی گئی تھی تو وہ شخص ہارٹ اٹیک کے باعث مر بھی جاے تو اپنی فیورٹ خوراک کو نہیں چھوڑے گا

    لہذا میں سمجھتا ہوں کہ انسان کا اپنی زندگی پر مکمل  اختیار رہا ہے، وہ اپنے آپ میں کسی بھی طرح قیدی نہیں ہے

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #16

    ایک اچھی کاوش ہے جسے پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ آپ دوبارہ خدا تعالی کو ماننے لگ جائیں گے انسان اشرف المخلوقات ہے جس کا ثبوت ہمارا دیگر مخلوقات کی نسبت الگ طرز زندگی ہے، آپ کہتے ہیں کہ انسان کے پاس کچھ بھی اختیاری طاقت نہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا ہاں اللہ تعالی نے انسان کو عقل و شعور دیکر گویا اپنا اچھا یا برا راستہ چننے کا اختیار بھی دے دیا آپ کہتے ہیں کہ جو سافٹ وئیر میں فنکشن رکھ دیئے گئے ہیں انسان ان سے باہر نہیں جاسکتا جبکہ سافٹ وئیر انجینئیر یہ بات نہیں کہتا، اس کا کہنا ہے کہ سافٹ وئیر ایسا جدید ہے کہ یہ خود اپنا اچھا اور برا سوچ سکتا ہے، یعنی دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں یہ اپنے اچھے اور برے افعال کا بھی خود ہی جواب دہ ہوگا مثلا اوپر والی کہانی کا کردار سمیر جب غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر چوری کرتا ہے تو یہ فعل اس کا اختیاری تھا کیونکہ بہت سارے ایسے نوجوان بھی ہوتے ہیں جو چوری کی بجاے کسی ہوٹل پر چاے کے برتن دھو کر پیسے کما لیتے ہیں، اب آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ دونوں نوجوان الگ الگ سافٹ وئیر کے مالک تھے یعنی سمیر کے دماغ میں بدی اور دوسرے میں نیکی کی پروگرامنگ کی جاچکی تھی اس موقع پر میری یہ دلیل ہوگی کہ صدیوں کے بگڑے معاشرے بھی سدھارنے والے آے اور اپنا کام کرکے یعنی چوروں، ڈاکووں اور قاتلوں کو سدھار کر چلے گئے

    بیلیور صاحب۔ اس کہانی میں میں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، دیکھنے میں وہ مذہبی لوگوں کے نظریہ تقدیر کے مماثل لگتے ہیں، مگر یہ اس سے کافی مختلف ہیں۔ کیونکہ میری نظر میں انسان ایک مشین کی مانند ہے جیسا کہ کمپیوٹر، جو اپنے سافٹ ویئر کے حساب سے چلتا ہے۔ یا پھر ایک مصنوعی ذہانت کا حامل روبوٹ ہے جس میں چاہے خود سے سیکھنے کی یا فیصلہ لینے کی صلاحیت ڈالی گئی ہے، مگر یہ صلاحیت بھی پروگرامڈ ہے، یعنی بہت سے معاملات اور تعاملات کے بعد وہ کوئی ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے اور اس کی بنا پر فیصلہ کرتا ہے۔ میں آپ کو ایک مشین کی مثال دیتا ہوں۔ فرض کریں ایک سادہ سی مشین ہے جس میں بارہ خانے ہیں، ہر خانے میں ایک رنگ مائع حالت میں موجود ہے، کسی خانے میں سبز رنگ ہے، کسی میں سرخ، کسی میں زرد۔۔ اس مشین کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ خود سے فیصلہ کرتی ہے اور کوئی سے ایک سے زیادہ رنگ منتخب کرتی ہے، کبھی وہ دو منتخب کرتی ہے،  کبھی تین،کبھی پانچ، یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے اور وہ ان رنگوں کو ایک تیرہویں خانے میں ڈال دیتی ہے، اور مکس کرکے ہر بار ایک نیا رنگ تخلیق کرتی ہے۔ اب بارہ رنگوں کے مختلف کمبی نیشنز سے جتنے رنگ تخلیق کئے جاسکتے ہیں، اتنے رنگ تخلیق کرنے کی وہ صلاحیت رکھتی ہے، مگر یہ اس کی حد ہے اور اس سے باہر وہ نہیں جاسکتی۔ وہ کوئی ایسا رنگ تخلیق نہیں کرسکتی جو ان بارہ رنگوں میں موجود مختلف رنگوں کے کمبی نیشن سے ممکن نہیں ہے۔۔ ظاہر ہے یہ ایک سادہ سی مثال ہے، انسان اس سے بہت پیچیدہ ہے۔ جہاں تک میں نے مشاہدہ کیا ہے، ہر انسان کے اندر ایک سافٹ ویئر ہوتا ہے، یہ سافٹ ویئر انسان کے دماغ، اس کی سیکھنے کی صلاحیت، اس کے جذبات، اس کو بذریعہ جینز منتقل ہونے والی وراثتی خصوصیات، ماحول سے حاصل ہونے والی خصوصیات پر مشتمل ہوتا ہے اور ان تمام چیزوں پر اس کا کوئی اختیار نہیں، بہ الفاظ دیگر اس کا سافٹ ویئر کیسا ہوگا، اس پر اس کا کچھ اختیار نہیں اور جب وہ کوئی فیصلہ لیتا ہے یا کوئی کام کرتا ہے تو اس کے سافٹ ویئر میں اس کی دماغی صلاحیت، ماحول سے حاصل شدہ تربیت، اس کے جذباتی خواص اور دیگر بے شمار چیزوں کا آپس میں باہمی تعامل ہوتا ہے اور سمجھ لیں ایک نیا کیمیکل وجود میں آتا ہے جو اس کا فیصلہ  ہوتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ہم مختلف کیمیائی موادوں کا آپس میں تعامل کروائیں تو کچھ نہ کچھ نیا بن جاتا ہے، ایسے اس کے سافٹ ویئر کے مختلف عوامل کے کیمیائی تعامل سے جو نتیجہ یا جو محلول تیار  ہوتا ہے وہی اس کا فیصلہ یا اقدام ہوتا ہے۔  بات لمبی ہوجائے گی، مگر میرے خیال میں یہاں مثال ضروری ہے۔ فرض کریں ایک شخص پیدا ہوتا ہے کم تر دماغ کے ساتھ (یعنی موٹے دماغ کے ساتھ) ، اس کو بذریعہ جینز بہادری ، غصہ جیسی صفات وراثت میں ملتی ہیں، وہ پروان چڑھتا ہے قبائلی ماحول میں۔۔ اب یہ اس کا سافٹ ویئر ہے۔ اس کی بہن کسی سے محبت کی شادی کر بیٹھتی ہے۔ اس کو پتا چلتا ہے، اس کے سافٹ ویئر میں پراسس ہوتا ہے، موٹے دماغ، ماحول سے ملی تربیت، ورثے میں ملے تند مزاج (اور دیگر بے شمار عوامل) کا آپس میں (کیمیائی) تعامل ہوتا ہے اور آؤٹ پٹ نکلتی ہے کہ بہن کو قتل کردو، وہ قتل کردیتا ہے۔۔ اب دوسری صورت میں فرض کریں وہی شخص باقی سب کچھ ویسا ہی پاتا ہے مگر دماغ سوچنے سمجھنے والا پاتا ہے یا پھر غصے کی بجائے تحمل مزاجی پاتا ہے یا پھر قبائلی ماحول کی جگہ کسی مہذب معاشرے کا ماحول پاتا ہے تو اس کے سافٹ ویئر میں تھوڑی سی تبدیلی ہوگئی اور تھوڑی سی تبدیلی سے ہی جب کیمیائی تعامل ہوگا تو عین ممکن ہے کہ نتیجہ بہت مختلف ہو۔۔ اسی طرح ہر انسان اپنے اپنے سافٹ ویئر کے حساب سے ہی ایکٹ کرتا ہے۔ انسان جب اولاد پیدا کرتا ہے تو جینیٹک میوٹیشن ، ماحول کی تبدیلی جیسے عوامل کی وجہ سے ہرپیدا ہونے والے انسان کے سافٹ ویئر میں تھوڑی بہت تبدیلی آجاتی ہے، اسی لئے انسان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔۔   

    اب آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ دونوں نوجوان الگ الگ سافٹ وئیر کے مالک تھے یعنی سمیر کے دماغ میں بدی اور دوسرے میں نیکی کی پروگرامنگ کی جاچکی تھی اس موقع پر میری یہ دلیل ہوگی کہ صدیوں کے بگڑے معاشرے بھی سدھارنے والے آے اور اپنا کام کرکے یعنی چوروں، ڈاکووں اور قاتلوں کو سدھار کر چلے گئے ایک گاوں ناگاں نامی ہے جہاں زیادہ تر فیمیلیز کا تعلق ماہر ترین رسہ گیروں سے ہے اس کی وجہ ان کے بزرگ تھے جو رسہ گیری کرتے اور نتیجا ان کی پوری نسلیں ہی اس کام میں ماہر ہوگئیں، اس گاوں میں اگر لڑکا رسہ گیری نہیں کرتا تو اس کو رشتہ نہیں ملتا اس سے پتا چلتا ہے کہ معاشرہ بھی انسان کو بدل دیتا ہے، اگر معاشرے کے اکثر لوگ چور ہوں تو آپ بھی چوری کو اپنائیں گے اور اگرپڑھے لکھے لوگ ہوں تو آپ بھی ایک سائنسدان بن سکتے ہیں، اگر کسی کے ماں باپ عبادت گزار ہیں تو ان کے بچے بھی نمازیں پڑھتے دکھای دیتے ہیں جب کوی شخص ہارٹ کا مریض بن جاتا ہے تو اس کو کھانے پینے کا پلان دیا جاتا ہے، اگر وہ اس موقع پر اپنی فیورٹ مرغن غذا چھوڑ دیتا ہے تو یہ اختیاری ہوا کیونکہ اس کی فیورٹ غذا مٹن کڑاہی اگر اس کے سافٹ وئیر میں فیڈ کردی گئی تھی تو وہ شخص ہارٹ اٹیک کے باعث مر بھی جاے تو اپنی فیورٹ خوراک کو نہیں چھوڑے گا لہذا میں سمجھتا ہوں کہ انسان کا اپنی زندگی پر مکمل اختیار رہا ہے، وہ اپنے آپ میں کسی بھی طرح قیدی نہیں ہے

    آپ کی دلیل کے اس حصے کا تعلق معاشرے یا ماحول سے متعلق ہے اور چونکہ اس تحریر میں میرا موضوعِ بحث انفرادی حیثیت میں انسان ہے تو ماحول اور معاشرہ اس کی بساط سے باہر شمار کیا جائے گا، یعنی اس پر اس کا کوئی اختیار نہیں۔ فرض کریں ایک شخص اچھے ماحول میں پیدا ہوتا ہے اور اچھی تربیت پاتا ہے  تو اس میں اس کا کوئی کمال نہیں، کوئی اختیار نہیں، اور اگر کوئی شخص اس لئے برا ہوتا ہے کہ اس کو ماحول برا ملا (اس صورت میں کہ اگر اس کے برے ہونے میں دیگر عوامل کا ہاتھ نہ ہو تو)تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں۔۔ انسان اگر اپنے ماحول سے اثر لیتا ہے، سیکھتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں انسان کے ارادے کا کوئی دخل ہے، بلکہ یہ اس لئے کہ انسان کے سافٹ ویئر میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے ماحول سے اثر لے، اچھا یا برا یہ بھی اس کے سافٹ ویئر کی دیگر چیزوں پر منحصر ہے۔کل ملا کر انسان وہی کچھ ہے جو اس کا سافٹ ویئر  ہے اور ارادے کی آزادی کہیں نظر نہیں آتی ۔۔۔ 

     جب کوی شخص ہارٹ کا مریض بن جاتا ہے تو اس کو کھانے پینے کا پلان دیا جاتا ہے، اگر وہ اس موقع پر اپنی فیورٹ مرغن غذا چھوڑ دیتا ہے تو یہ اختیاری ہوا کیونکہ اس کی فیورٹ غذا مٹن کڑاہی اگر اس کے سافٹ وئیر میں فیڈ کردی گئی تھی تو وہ شخص ہارٹ اٹیک کے باعث مر بھی جاے تو اپنی فیورٹ خوراک کو نہیں چھوڑے گا لہذا میں سمجھتا ہوں کہ انسان کا اپنی زندگی پر مکمل اختیار رہا ہے، وہ اپنے آپ میں کسی بھی طرح قیدی نہیں ہے

    بیلیور صاحب۔۔ وہ شخص ایسی صورت میں کیا ایکٹ کرتا ہے، یہ اس کے سافٹ ویئر پر منحصر ہے، فرض کریں اس شخص میں ضبط کرنے کی، اپنی خواہشات پر قابو پانے کی صلاحیت زیادہ ہے (یاد رکھیں یہ اس کی جبلی صفت ہے، جو اگر اس میں پائی جاتی ہے تو اتفاقیہ ہے نہ کہ اختیاری) تو وہ اپنی فیورٹ غذا کو نظر انداز کرلے گا۔ لیکن دوسری صورت میں اگر اس کے اندر چٹور پنے کی صفت غالب ہے تو وہ اپنی بیماری سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنی فیورٹ خوراک کو نہیں چھوڑے گا۔۔۔ دونوں صورتوں میں وہ آزاد ارادے کا مالک نہیں کہلایا جاسکتا۔۔ 

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #17

    کوئی بھی انسان جیل جانا یا پھانسی کے پھندے پر لٹکنا نہیں چاہتا، اس کے باوجود جیلیں بھی بھری ہوئی  ہیں اور لوگ سزائے موت بھی پارہے ہیں۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ انسان محض ایک بہتر روبوٹ ہے جو اپنے سافٹ ویئر کے تابع ہے۔۔۔ 

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    bluesheep
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #18

    کوئی بھی انسان جیل جانا یا پھانسی کے پھندے پر لٹکنا نہیں چاہتا، اس کے باوجود جیلیں بھی بھری ہوئی ہیں اور لوگ سزائے موت بھی پارہے ہیں۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ انسان محض ایک بہتر روبوٹ ہے جو اپنے سافٹ ویئر کے حساب سے ہی چلتا ہے۔۔۔

    زندہ رود جی

    آپ کی اس بات سے کچھ مغالطہ لگ سکتا ہے

    سافٹ وئیر کمپیوٹر کی اصطلاحات میں کہیں ڈاؤن لوڈ کیا جاتا ہے اور کہیں انسٹال کیا جاتا ہے، آپ کی اس مثال سے محسوس یہ ہوتا ہے کے آپکا قیدی بھی کسی ایسی ہی مشق سے گزرا تھا

    اب سوال پھر یہ اٹھے گا کے اسکا سافٹ وئیر کسی نے انسٹال کیا تھا ؟ کیا کوئی بیرونی قوت اس کام میں ملوث تھی ؟

    میرے نزدیک بہتر یہ ہوگا آپ کہیں کے انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، پیدائش کے وقت تو بلکل ملحد ہوتا ہے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اسکا ماحول اسکو کچھ سے کچھ اور بنا دیتی ہے. جس طرح کمپیوٹر میں کچھ چیزوں اسکی مستقل یاداشت میں محفوظ کردی جاتی ہے جس کی بنیاد پر وہ باقی کام کرتا ہے اسی طرح انسانوں میں صرف ایک چیز اسکی جبلت میں ارتقا نے ڈال دی ہے اور وہ ہے بقا کی جبلت.

    اب اس جبلت کے زیر اثر اسکی ایک ایک حس اسکی بقا کیلیے اسکے دماغ کو آنے والے خطرات سے باخبر کرتی ہے اور اہم چیزیں مستقل محفوظ کردی جاتیں ہیں یا ہوجاتی ہے، یہ ایک ارتقائی عمل ہے جو کسی بھی ” زہین ” نسل کیلئے انتہائی ضروری ہے اور یہ خود کار نظام ہے، جیسے کے ذہانت کے مختلف نوع، جنس میں مختلف معیار ہیں، کچھ بہت کم زہین اور کچھ انتہائی زیادہ، تاہم پھر بھی کم سے کم ذہانت والی جنس یا نوع بھی اپنے بقا سے واقف ہوتی ہے، ایک بھینس یا گاۓ ایک شیر یا چیتے کو دیکھ کر اس سے دور ہونے کی کوشش اس لئے نہیں کرتی کے وہ بہت عقل مند ہوتی ہے، بلکے اسلئے کے ارتقا کے عمل نے اسکی جبلت میں اس کو محفوظ کردیا ہے.

    لیکن چونکہ باقی ماحول اسکی بقا کیلئے کافی تھا تو ہر نوع یا جنس میں ذہنی ترقی کا عمل مختلف لحاظ سے ہوتا رہا اور کہنے جلدی روک گیا اور کہیں دائر تک چلتا رہا، آپکا قیدی ارتقا کے سب سے اونچے لیول پر پہنچ گیا ہے اس لئے کے انسانوں کے لئے بقا کیلئے لڑنا انتہائی اہم تھا اور اس ازل سے جاری جنگ نے ہمیں آج اس مرحلے پر پہنچا دیا ہے جہاں میں اور آپ اس موضوع پر بات کرسکتے ہیں.

    زندگی نے پہلے ایک سے دو اور دو سے چار ہونا سیکھا، دوران تربیت اس بات کو سیکھا کے اگر کچھ احتیاطی تدابیر مل جائیں تو تو تقسیم کا عمل بہتر ہوسکتا ہے اور موت کو کچھ دور رکھا جاسکتا ہے، لیٹ کیا جاسکتا ہے، جیسے جیسے نئی ترکیبیں سیکھتی گئی تو زیادہ یاداشت کی ضرورت پڑتی گئی اور اور آہستہ آہستہ یہ مرکب پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے ہوتے آج آپ کی شکل میں زندہ رود ہے.

    مجھے فلحال تو کوئی سافٹ وئیر بنانے والا اور اسکو انسٹال کرنے والا نظر نہیں آتا، لیکن مجھے اتنا پتا ہے ارتقائی عمل چل رہا ہے اور اسکے زرئے ہماری تعلیم بھی جاری ہے، کوئی خبر نہیں کے کل کونسی نئی معلومات ہمارے پاس لائے گی لہذا ستاروں سے آگے کے جہاں آھستہ آھستہ اپنی رونمائی کرتے رہیں گے. مجھے امید ہے آپ اسکے لئے تیار ہونگے.

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #19
    زندہ رود جی آپ کی اس بات سے کچھ مغالطہ لگ سکتا ہے سافٹ وئیر کمپیوٹر کی اصطلاحات میں کہیں ڈاؤن لوڈ کیا جاتا ہے اور کہیں انسٹال کیا جاتا ہے، آپ کی اس مثال سے محسوس یہ ہوتا ہے کے آپکا قیدی بھی کسی ایسی ہی مشق سے گزرا تھا اب سوال پھر یہ اٹھے گا کے اسکا سافٹ وئیر کسی نے انسٹال کیا تھا ؟ کیا کوئی بیرونی قوت اس کام میں ملوث تھی ؟

    بلو شیپ صاحب۔۔ آپ کے اس سوال کا میں ڈائریکٹ جواب نہیں دیتا، بالواسطہ جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ نے چونکہ کافی نکات اٹھائے ہیں، اور وہ موضوع سے متعلقہ بھی ہیں، تو امید ہے کچھ نہ کچھ حاصل وصول ہو ہی جائے گا۔

    میرے نزدیک بہتر یہ ہوگا آپ کہیں کے انسان اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، پیدائش کے وقت تو بلکل ملحد ہوتا ہے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اسکا ماحول اسکو کچھ سے کچھ اور بنا دیتی ہے. جس طرح کمپیوٹر میں کچھ چیزوں اسکی مستقل یاداشت میں محفوظ کردی جاتی ہے جس کی بنیاد پر وہ باقی کام کرتا ہے اسی طرح انسانوں میں صرف ایک چیز اسکی جبلت میں ارتقا نے ڈال دی ہے اور وہ ہے بقا کی جبلت. اب اس جبلت کے زیر اثر اسکی ایک ایک حس اسکی بقا کیلیے اسکے دماغ کو آنے والے خطرات سے باخبر کرتی ہے اور اہم چیزیں مستقل محفوظ کردی جاتیں ہیں یا ہوجاتی ہے، یہ ایک ارتقائی عمل ہے جو کسی بھی ” زہین ” نسل کیلئے انتہائی ضروری ہے اور یہ خود کار نظام ہے، جیسے کے ذہانت کے مختلف نوع، جنس میں مختلف معیار ہیں، کچھ بہت کم زہین اور کچھ انتہائی زیادہ، تاہم پھر بھی کم سے کم ذہانت والی جنس یا نوع بھی اپنے بقا سے واقف ہوتی ہے، ایک بھینس یا گاۓ ایک شیر یا چیتے کو دیکھ کر اس سے دور ہونے کی کوشش اس لئے نہیں کرتی کے وہ بہت عقل مند ہوتی ہے، بلکے اسلئے کے ارتقا کے عمل نے اسکی جبلت میں اس کو محفوظ کردیا ہے. لیکن چونکہ باقی ماحول اسکی بقا کیلئے کافی تھا تو ہر نوع یا جنس میں ذہنی ترقی کا عمل مختلف لحاظ سے ہوتا رہا اور کہنے جلدی روک گیا اور کہیں دائر تک چلتا رہا، آپکا قیدی ارتقا کے سب سے اونچے لیول پر پہنچ گیا ہے اس لئے کے انسانوں کے لئے بقا کیلئے لڑنا انتہائی اہم تھا اور اس ازل سے جاری جنگ نے ہمیں آج اس مرحلے پر پہنچا دیا ہے جہاں میں اور آپ اس موضوع پر بات کرسکتے ہیں. زندگی نے پہلے ایک سے دو اور دو سے چار ہونا سیکھا، دوران تربیت اس بات کو سیکھا کے اگر کچھ احتیاطی تدابیر مل جائیں تو تو تقسیم کا عمل بہتر ہوسکتا ہے اور موت کو کچھ دور رکھا جاسکتا ہے، لیٹ کیا جاسکتا ہے، جیسے جیسے نئی ترکیبیں سیکھتی گئی تو زیادہ یاداشت کی ضرورت پڑتی گئی اور اور آہستہ آہستہ یہ مرکب پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے ہوتے آج آپ کی شکل میں زندہ رود ہے.

    بلو شیپ صاحب۔۔ میرا خیال ہے فی الحال معلوم کائنات میں سب سے حیرت انگیز ، پُر اَسرار اور پیچیدہ چیز حیات ہی ہے۔ آج کا انسان ماضی کے انسان کی نسبت بہت بہت زیادہ علم رکھتا ہے۔ آج ہم ارتقا کو سمجھ کر یہ جان چکے ہیں کہ انسان اور دیگر جاندار کیسے پروان چڑھے، ماضی کا انسان یہ نہیں جانتا تھا۔ مگر یہاں ایک مسئلہ ہے، جب ہم ارتقا کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم “کیسے” تک محدود رہتے ہیں، کیونکہ ارتقا ہمیں بتاتا ہی اتنا ہے۔ ارتقا ہمیں صرف یہ بتاتا ہے کہ مختلف جاندار انواع کیسے وجود میں آئیں، انہوں نے اس ماحول میں کیسے سروائیو کیا، جاندار ایک دوسرے سے کیسے مختلف ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔

    یہ اس بہت بڑے سوال کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس سوال کا دوسرا اور بڑا حصہ ہے “کیوں۔۔؟”۔۔ آخر ایسا ہی کیوں۔۔؟۔ ارتقا کے مطابق جاندار اجسام میں بقاء کیلئے لڑنے کی جبلت پائی جاتی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں یہ جبلت کیوں پائی جاتی ہے۔۔؟؟ ان کے اندر یہ جبلت کہاں سے آئی۔۔؟ آخر کون ہے جو انہیں فنا ہونے سے بچانا چاہتا ہے۔۔ ؟ ہم غور کریں تو یہ بات صاف ہے کہ جاندار اجسام (انسان سمیت) میں سب سے پُرلذت جذبہ جنسی جذبہ ہی ہے اور اس کی وجہ بھی صاف نظر آتی ہے کہ حیات کو دوام دینا۔ اگر اس جذبے میں اتنی لذت نہ ہوتی تو کون سیکس کرتا، نتیجتاً سب حیات فنا ہوجاتی۔۔۔  یہ سوال ہمارے لئے آج بھی تشنہ ہے کہ ایسا کیوں۔۔؟ چونکہ ہمیں آج تک کوئی ایسا ثبوت یا شواہد نہیں ملے جس سے ہم تیقن کے ساتھ کہہ سکیں کہ اس کے پیچھے کوئی ہے، لہذا ہم فی الحال اس بارے میں اپنی لاعلمی تسلیم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔

    مگر میرے نزدیک جو اہم بات ہے وہ یہ کہ ہم ارتقا کی وضاحت  بغیر کسی خارجی عامل / منصوبہ ساز / پلانرکے نہیں کرسکتے۔۔ یہ جو حیات میں اتنی پیچیدگی نظر آتی ہے، یہ محض اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی، میری نظر میں اس میں بھرپور پلاننگ نظر آتی ہے۔۔ اور جو میں سافٹ ویئر کی بات کررہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بیٹھا ہے کہیں جو سب کو کنٹرول کررہا ہے۔۔ بلکہ مجھے لگتا ہے کہ جب حیات کا آغاز ہوا تھا، وہ پہلا بیکٹریا یا پھر پہلا خلیہ، اسی میں وہ حیران کن پروگرام انسٹال کیا گیا تھا، جس میں خود سے پروان چڑھنے کی، اپنی حفاظت کی، بقاء کیلئے لڑنے کی اور سیکھنے کی صلاحیت سب کچھ پروگرامڈ تھا۔۔۔ آپ ذرا جانوروں کا مشاہدہ کریں، کیا وہ روبوٹس نہیں ہیں۔۔؟ بلی ہر حرکت کرتی ہوئی چیز کے پیچھے بھاگتی ہے، آپ ہاتھ میں رسی کا ٹکڑا پکڑیں، اس کو ہلاتے رہیں، ہلاتے رہیں، بلی اس پر جھپٹتی رہے گی۔  بکری سے اس کا نومولود بچہ چھین لیں، وہ ممیانے لگے گی۔ گائے، بھینس کو چارہ دکھا کر جہاں تک مرضی لے جائیں، گائے کا شیر یا چیتے کو دیکھ کر بھاگنا (خوف کا عنصر) اس کے پروگرام کا حصہ ہے۔۔ اور ہم انسان بھی تو جانور ہی ہیں، مگر ذرا سے بہتر۔ انہی کی طرح روبوٹس ہیں مگر ذرا سے بہتر۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    bluesheep
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #20

    بلو شیپ صاحب۔۔ آپ کے اس سوال کا میں ڈائریکٹ جواب نہیں دیتا، بالواسطہ جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ نے چونکہ کافی نکات اٹھائے ہیں، اور وہ موضوع سے متعلقہ بھی ہیں، تو امید ہے کچھ نہ کچھ حاصل وصول ہو ہی جائے گا۔

    بلو شیپ صاحب۔۔ میرا خیال ہے فی الحال معلوم کائنات میں سب سے حیرت انگیز ، پُر اَسرار اور پیچیدہ چیز حیات ہی ہے۔ آج کا انسان ماضی کے انسان کی نسبت بہت بہت زیادہ علم رکھتا ہے۔ آج ہم ارتقا کو سمجھ کر یہ جان چکے ہیں کہ انسان اور دیگر جاندار کیسے پروان چڑھے، ماضی کا انسان یہ نہیں جانتا تھا۔ مگر یہاں ایک مسئلہ ہے، جب ہم ارتقا کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم “کیسے” تک محدود رہتے ہیں، کیونکہ ارتقا ہمیں بتاتا ہی اتنا ہے۔ ارتقا ہمیں صرف یہ بتاتا ہے کہ مختلف جاندار انواع کیسے وجود میں آئیں، انہوں نے اس ماحول میں کیسے سروائیو کیا، جاندار ایک دوسرے سے کیسے مختلف ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔

    یہ اس بہت بڑے سوال کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس سوال کا دوسرا اور بڑا حصہ ہے “کیوں۔۔؟”۔۔ آخر ایسا ہی کیوں۔۔؟۔ ارتقا کے مطابق جاندار اجسام میں بقاء کیلئے لڑنے کی جبلت پائی جاتی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں یہ جبلت کیوں پائی جاتی ہے۔۔؟؟ ان کے اندر یہ جبلت کہاں سے آئی۔۔؟ آخر کون ہے جو انہیں فنا ہونے سے بچانا چاہتا ہے۔۔ ؟ ہم غور کریں تو یہ بات صاف ہے کہ جاندار اجسام (انسان سمیت) میں سب سے پُرلذت جذبہ جنسی جذبہ ہی ہے اور اس کی وجہ بھی صاف نظر آتی ہے کہ حیات کو دوام دینا۔ اگر اس جذبے میں اتنی لذت نہ ہوتی تو کون سیکس کرتا، نتیجتاً سب حیات فنا ہوجاتی۔۔۔ یہ سوال ہمارے لئے آج بھی تشنہ ہے کہ ایسا کیوں۔۔؟ چونکہ ہمیں آج تک کوئی ایسا ثبوت یا شواہد نہیں ملے جس سے ہم تیقن کے ساتھ کہہ سکیں کہ اس کے پیچھے کوئی ہے، لہذا ہم فی الحال اس بارے میں اپنی لاعلمی تسلیم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔۔۔

    مگر میرے نزدیک جو اہم بات ہے وہ یہ کہ ہم ارتقا کی وضاحت بغیر کسی خارجی عامل / منصوبہ ساز / پلانرکے نہیں کرسکتے۔۔ یہ جو حیات میں اتنی پیچیدگی نظر آتی ہے، یہ محض اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی، میری نظر میں اس میں بھرپور پلاننگ نظر آتی ہے۔۔ اور جو میں سافٹ ویئر کی بات کررہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بیٹھا ہے کہیں جو سب کو کنٹرول کررہا ہے۔۔ بلکہ مجھے لگتا ہے کہ جب حیات کا آغاز ہوا تھا، وہ پہلا بیکٹریا یا پھر پہلا خلیہ، اسی میں وہ حیران کن پروگرام انسٹال کیا گیا تھا، جس میں خود سے پروان چڑھنے کی، اپنی حفاظت کی، بقاء کیلئے لڑنے کی اور سیکھنے کی صلاحیت سب کچھ پروگرامڈ تھا۔۔۔ آپ ذرا جانوروں کا مشاہدہ کریں، کیا وہ روبوٹس نہیں ہیں۔۔؟ بلی ہر حرکت کرتی ہوئی چیز کے پیچھے بھاگتی ہے، آپ ہاتھ میں رسی کا ٹکڑا پکڑیں، اس کو ہلاتے رہیں، ہلاتے رہیں، بلی اس پر جھپٹتی رہے گی۔ بکری سے اس کا نومولود بچہ چھین لیں، وہ ممیانے لگے گی۔ گائے، بھینس کو چارہ دکھا کر جہاں تک مرضی لے جائیں، گائے کا شیر یا چیتے کو دیکھ کر بھاگنا (خوف کا عنصر) اس کے پروگرام کا حصہ ہے۔۔ اور ہم انسان بھی تو جانور ہی ہیں، مگر ذرا سے بہتر۔ انہی کی طرح روبوٹس ہیں مگر ذرا سے بہتر۔۔

    زندہ رود جی اگر آپ کو یاد ہو تو کچھ عرصے پہلے میں نے ایک دوسرے تھریڈ میں اس بات کے طرف بالواسطہ اشارہ کیا تھا، وہ میرا سازشی مفروضہ تھا کے جو پیچیدگی ہمیں ہمارے ارد گرد نظر آتی وہ اصل میں مستقبل سے زیر تسلط رکھی جارہی ہے، اس تمام پیچیدگی کے پیچھے ایسا غیر مرئی ہاتھ ہے جو ہماری تاریخ کے کچھ ہزار سالوں سے لیکر کاج تک کچھ کانٹ چانٹ کرتا آرہا ہے اور کر رہا ہے، ہم پر مستقبل کا اختیار ہے اور کنٹرول ہے، اور یہ عین ممکن ہے کے جس خارجی عامل کی آپ بات کر رہے ہیں وہ ہمارا مستقبل ہی ہو.

    اب مسلہ یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کے ہمارے مستقبل سے یہاں کیا مراد ہے ؟

    میں اپنی سازشی تھیوری آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں آپ خود ہی فیصلہ کرلیں.

    اگر ہم انسان ہی مستقبل میں سائنسی ترقی میں اتنے آگے چلے گئے ہیں کے ہم نے ازلی زندگی حاصل کرلی ہے کرنے اور ڈھونڈنے کو کچھ نہیں بچا تو انکا ماضی ایک ایسا موضوع بن سکتا ہے جو انکے کیلئے کشش کا سبب ہوسکتا ہے، تجسس انسان سے بہت کچھ کروا لیتا ہے، ہوسکتا ہے ہماری زندگی میں مستقبل کے انسان کا کوئی ہاتھ ہو، یہ ایک سمولیشن بھی ہوسکتی ہے یا پھر ہم سر پھرے اور اجڈ انسان کو تباہی سے بچانے کی ایک کوشش بھی. آپ نے کبھی اڑان طشتریوں کی کہانیوں پر غور کیا ہے ؟ یا اکثر آپ کو ایٹمی ہتھیاروں یا بنکرز کے آس پاس نذر آتی ہے، ہوسکتا ہے یہ ہمارے مستقبل کے آباؤ اجداد کی طرف سے ایک کوشش ہو کے انکے کنٹرول میں رکھو کہیں یا تباہ ہی نہ کردیں.

    یہاں یہ یاد رکھیں کے بقا کی فکر ہمارے مستقبل کو بھی اتنی ہی ہوگی جتنی ہم کو آج ہے تو وہ یہ سوچ سکتے ہیں کے یہ لوگ اگر اس قابل ہیں کے اپنے اٹیمی ہتھیاروں سے خود کو تباہ کردیں تو ساتھ ساتھ یہ مستقبل بھی تباہ کردیں گے، ظاہر ہے جب مستقبل کے انسانوں کی اولاد ہی ختم ہوجاے گی تو مستقبل کہاں سے آئے گا ؟ یہ ایک ممکنہ ثبوت ہوسکتا ہے کے ہم اتنی اڑان طشتریوں کی کہانیاں سنتے ہیں، یہ وہ کنٹرول ہوسکتا ہے جو ہم پر قائم رکھا جارہا ہے تاکہ ہم اپنی ” اوقات ” سے باہر نہ نکلیں.

    لیکن اسکے اور بھی تاریک پہلو ہوسکتے ہیں، ہم جس طریقے سے ٹیکنولوجی کو ترقی دے رہے ہیں یہی ہماری بربادی کا سبب بھی بن سکتی ہے، ذہانت چاہے حیاتاتی ہو یا پھر برقی، دونوں ہی ایک ارتقائی مرحلے پر آکر اپنی بقا سے واقف ہوجاتی ہیں اور پھر اسکی بھرپور جنگ شروع ہوجاتی ہے. اگر میں آپ سے پوچھوں کے ایک روڈ کی تعمیر کیلئے آپ کو ایک جنگل صاف کرنا ہے، کچھ درختوں کو گرانا ہے اور شاید ایک آدھ چونٹیوں کے ڈھیر بھی صاف کرنے ہیں تو آپ کتنی دیر تک انکی تباہی پر افسوس کا اظھار کریں گے ؟

    ایسا ہی ھماری اپنی تخلیق شدہ برقی ذہانت یا مصنوعی ذہانت بھی ہمارے بارے میں کرے گی. اگر اس منظر نامے میں برقی یا مصنوعی ذہانت ہم پر مستقبل اس حد تک قابض ہوچکی ہے کے اب اسکی اپنی بقا انسانوں کے ڈائریکٹ کنٹرول میں ہے تو میں نہیں سمجھتا کے وہ ایک ملی سیکنڈ بھی دیر لگائی گی اس کونٹرول کو ہم پر لاگو کرنے کیلئے، ہم تو خود اپنے انسانوں پر اس طریقے کی پابندیاں فورا لگا دیتے ہیں، وہ تو پھر بھی ایک مختلف نوع ہوگی.

    یہاں پھر وہی بات آجاتی ہے کے مستقبل کا انحصار اور بقا اسکے ماضی کے کونٹرول میں ہے، میں خود ایسی کہانیوں کو دیکھا ہے جہاں لوگ اور ایسے لوگ جن کو کوئی ضرورت نہیں تھی جھوٹ بولنے کی، بتا رہے تھے کے کیسے رات کے وقت آسمان میں ایک سوراخ ہوتا ہے اور اس سوراخ میں دوسری طرف بلکل دن کی طرح روشنی تھی اور ایک دوسری دنیا نظر آتی تھی اور لوگ نظر آتے تھے، وہاں سے کچھ چیزیں اس سوراخ میں سے باہر آتی ہیں اور پھر وہ بند ہوجاتا ہے، پورٹل کا نام آپ نے بھی سنا ہوگا.

    میں اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے کے ٹیکنولوجی کتنی تیزی سے اور کس حدوں تک ترقی کر رہی ہے اگر سو سالوں میں ہی کتنی آگے چلی جائے گی، اکثر لوگ سمجھتے ہیں کی انکو پتا ہے لیکن میرا نظریہ ہے کے نہیں، دنیا میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد جانتی ہی نہیں کے اگلے سو سے دو سو سالوں میں کتنی ترقی ہونے والی ہے اور چیزیں جو ہم آج صرف خدائی سمجھتے ہیں انسانوں کیلئے موجود ہونگی، لیکن بقا پھر بقا ہے اور اسکی جنگ نے ہمیشہ جاری رہنا ہے.

    آپ پوچھ رہے تھے کے زندگی کی تخلیق کے شروع میں ہی ایک سوفٹ وئیر ڈال دیا گیا تھا، میں تو پوچھتا ہوں کے ہم تو ستاروں کی راکھ سے بنے ہیں، اربوں سالوں پہلے ایک بہت بڑا ستارہ یہاں پھٹا تھا جسے آپ سپر نوواکی اصطلاحات میں جانتے ہیں، اسکی راکھ سے ہمارا سورج اور ہمارا نظام شمسی وجود میں آیا تھا، پھر اس ہی راکھ اور مٹی سے ہماری زمین بنی اور اس سے ہی وہ پہلا خلیہ جس میں ایک سافٹ وئیر بقول آپ کے انسٹال تھا، اس لحاظ سے یہ کام اس سے بھی پہلے شروع ہوگیا ہوگا، تاریخ کچھ اور لمبی ہوجاۓ گی موحترم.

    میرے خیال سے اس کائنات کو بھی بقا کی ضروت ہے، یہ سارے عوامل اور پیچیدگیاں اس بات کی مظہر ہیں کے کائنات خود بھی اپنی بقا کیلئے ہاتھ پیر مارتی رہتی ہے ہے اور مختلف چیزوں کو جنہم دیتی ہے، تجربے کرتی ہے اس بنیاد پر کے وہ اپنی بقا کو محفوظ بنا سکے، ہم بھی اسی ہی پراسیس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوسکتے ہیں، شاید کائنات نے سوچا ہو اگر حیاتیاتی زندگی کو جنم دیا جائے تو کچھ بات بن جائے، ہوسکتا ہے ہم ابھی اس مرحلے اور امتحان سے گزر ہی رہے ہوں اور حتمی فیصلہ ابھی نہ ہوا ہو کے ہمارے ساتھ کیا کیا جانا ہے.

    بات لمبی ہوگئی مگر کیا کیا جائے، “ممکنات” ہی کائنات میں ایک غیر متغیر، مسلسل، ثابت قدم اور ہمیشہ رہنے والی ازلی سچائی ہے.

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 24 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward