Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 69 total)
  • Author
    Posts
  • Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    عمران خان کے حق میںسیہل وڑائچعمران خان کے خلاف سب اکٹھے ہوگئےہیں۔ مسلسل سازشیں ہورہی ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح مڈل کلاس کا راستہ روکا جاسکے، اس بوسیدہ نظام کو بچایا جاسکے۔ لودھراں ضمنی انتخاب میں بھی یہی ہوا ہے کہ اسٹیٹس کو کی ساری قوتیں، مقامی جاگیردار، سیاسی گھوڑے اورمقامی بڑے، سب معصوم علی ترین کو ہرانے نکل پڑے۔ یہ سارے مفادپرست تحریک ِ انصاف کے واحد سرمایہ کار اور صنعت کار جہانگیر ترین کے پیچھے پڑے ہوئے تھے کیونکہ ان کے خیال میں اگر ترین خاندان دوبارہ منتخب ہوگیا تو پرانے خاندان، جاگیرداری اور ڈیرے داریاں ختم ہوجائیں گی۔ لودھراں اور جنوبی پنجاب میں تحریک ِ انصاف کی لہر چل پڑے گی بس اسی کو روکنےکے لئے علی ترین کوہرایا گیا ہے۔عمران خان کے خلاف تازہ ترین سازش یہ ہے کہ نہ نواز شریف نہ عمران خان اور نہ ہی زرداری بلکہ اوپر شاہد خاقان عباسی اور نیچے شہباز شریف کوبرقرار رکھتے ہوئے یہی نظام انتخابات کے بعد بھی چلایا جائے۔ عسکری خان، بابو خان، عدالت خان اور طرّم خان سب کو اس سیٹ اپ میں زیادہ آزادی، زیادہ خودمختاری اور زیادہ سہولت نظر آ رہی ہے۔ یہ سازشی منصوبہ دراصل تعلیم یافتہ مڈل کلاس اورپروفیشنلز کی قیادت کو پی ٹی آئی کی شکل میں اقتدار میں آنے سے روکنے کا حربہ ہے۔ غرضیکہ سازشوںکا ایک طوفان ہے جو عمران خان کے خلاف اٹھایا جارہا ہے۔ پہلے کہا گیا کہ مڈل کلاس کے تنخواہ دار طبقے کی بیگمات کو عمران خان کی تیسری شادی اور اس کے طریق کار پر شدید تحفظات ہیں اور یہ بھی کہ ان بیگمات نے اپنے افسر خاوندوں کو بھی عمران خان کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا ہے۔ ابھی یہ غلغلہ ختم نہیں ہوا تھا کہ یہ بے پر کی اُڑائی گئی کہ 18لوگوں کے فارورڈ بلاک کی عمران خان سے جو خفیہ میٹنگ ہوئی تھی اس کے بعد ان میں سے کئی اراکین قومی اسمبلی نے عمران خان سے ملاقات کے بعد تحفظات کا اظہار کردیا۔ اسی لئے فارورڈ بلاک کے بننے اور پی ٹی آئی میںان کی جگہ بننے میںدیر ہو رہی ہے۔ یہی نہیںعمران خان نے وزیرستان سے آئے ہوئے دھرنے میں جو خطاب کیا اس پر بھی ناراضی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ عمران خان کی تقریر ریاستی بیانیے کے خلاف اور طالبان کے حق میں ہے۔ اورتو اور انہی حلقوں نے یہ الزام بھی لگاناشروع کردیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کوعمران خان کی آزاد خارجہ پالیسی اور ان کی ایران اور دوسرے عرب ممالک کے ساتھ برابری کے تعلقات کو ان کاایران کی طرف جھکائو سمجھا گیا۔غرضیکہ الزامات کے طومار باندھے جارہے ہیں۔ عمران خان کی شادی ایک نجی معاملہ ہےاس پر شور اور پراپیگنڈا بہت غیرضروری ہے کیا’’ن‘‘ لیگ کے لیڈرز کی شادیوں پربھی ایساشور ہوا؟ پیپلزپارٹی کے کئی سندھی لیڈروںکی دو دو تین تین شادیاں ہیں جو کبھی زیربحث تک نہیں آئیں تو پھر عمران خان کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیوں؟ اس نے ملک و ملت اورقوم کے غم میں ساری زندگی مجرد رہ کر تنہائی برداشت کی، کیا اس کا حق نہیں کہ وہ بھی گھر کی فضا کو بہتر بنائے اور اپنی تنہا بے کیف زندگی میں تھوڑا بہت رنگ لائے؟ جہاں تک فارورڈ بلاک کی بات ہے تو پی ٹی آئی کی مقبولیت کو روکنے کے لئے اسے کارڈ کے طور پر کھیلا جارہاہے۔ عمران ان سازشی کھیلوں سے بیزار ہے۔ دھرنوں کے درمیان وہ ’’اُن‘‘ کی سن لیتا تھا، عمل بھی کرلیتا تھا مگر اب وہ مستقبل کا وزیراعظم، کیوں کسی کے فضول الزاما ت سنے؟ باقی رہی وزیرستانی وفد کے دھرنے میں ہونے والی گفتگو تو عمران خان کے ہمیشہ سے یہی خیالات رہے ہیں، اس میں برا منانے کی کیا بات ہے؟ خارجہ پالیسی میں عمران خان کا موقف وہی ہے جوپوری قوم کا ہے اور پاکستانی پارلیمان نے سعودی عرب اور حوثی یمنیوں کی جنگ میں غیرجانبداری کامتفقہ فیصلہ کیا تھا۔ صرف عمران خان ہی کو مورد ِ الزام ٹھہرانا سراسر غلط ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس بوسیدہ نظام کو چلایا جائے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کا راستہ اسی لئے روکا جارہا ہے۔کوئی راستہ روکنے والوں سے پوچھے عمران نہ ہوتاتو کیامعاشرے میں کرپشن کے خاتمے کی مہم چل سکتی تھی؟اگر عمران نہ ہوتا تو کیا عام لوگوں میں وی آئی پی کلچر کے خلاف فضا بن سکتی تھی؟ اگر عمران نہ ہوتا تو کیا برسراقتدار وزیراعظم کو عدالتوں سے سزا ہوسکتی تھی؟ اگر عمران نہ ہوتا تو کیا مڈل کلاس میں اشرافیہ اور برسراقتدار طبقہ کے خلاف نفرت پیدا ہوسکتی تھی؟ اگر عمران نہ ہوتا تو کیا یوتھ کا پاکستان کی انتخابی سیاست میں کوئی کردار ہوتا؟ اگر عمران خان نہ ہوتا تو کیا کوئی نیا پاکستان بنانے کی بات کرتا؟ عمران خان کا قصور یہی ہے کہ اس نے غیرسیاسی مڈل کلاس اورغیرسنجیدہ تعلیم یافتہ طبقہ کو سنجیدہ سیاست میں متحرک کیا اور انہیں یہ سبق دیا کہ اگر حقوق لینے ہیں تو جدوجہد کرو۔ سیاست میں حصہ لو تبھی جا کر ملک بدلے گااورنیا پاکستان بنے گا۔ مشہور مقولہ ہے کہ اوسط ذہنیت کے لوگ ذہین افراد کے خلاف اتحاد بنا لیتے ہیں۔ یوں سب اوسط اور چھوٹی ذہنیت والے لوگ مل کر ذہین افراد کو پیچھے ہٹا دیتے ہیں۔ یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس ملک کے سب طبقات عمران خان کے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں اور طے کر رہے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں اسے نہیں آنے دینا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کے پاس یہ الیکشن آخری چانس ہوگا کیونکہ پانچ سال کا لمبا سیاسی انتظار ان کی تمام تر فٹ نس کے باوجود بہت صبر آزما ہوگا۔ میری اس ملک کے اوسط اقتدار پسند حلقوں سے دست بستہ درخواست ہے کہ اب عمران خان کو باری دی جائے کیونکہ انہیں اب باری نہ ملی تو وہ اوور ایج ہوجائیں گے اوریوں اس ملک کا ایماندار ترین، ذہین ترین، مقبول ترین اور شاندار ترین لیڈر ارضِ وطن کے لئے اپنے درخشاں نظریات کی تکمیل نہیںکرسکے گا۔ میری درخواست ہے کہ پی ٹی آئی کو ہر صورت میں اقتدار دیا جائے وگرنہ نوجوان سیاست سے مایوس ہو جائیں گے اور اگر یہ مایوس ہوئے تو استحکام پاکستان کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ میں پھر ہاتھ باندھ کر، ماتھا رگڑ کر عرض کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی کوہر صورت میں اقتدار ملنا چاہئے وگرنہ پاکستان کی مڈل کلاس پھر سے بے حس ہو جائے گی، سیاست سے متنفر ہو جائے گی اور یوں زمام اقتدار ہمیشہ کے لئے اشرافیہ کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ اصول یہ ہے کہ پاکستان میں اگر پائیدار جمہوریت لانی ہے تو مڈل کلاس ہی لاسکتی ہے اشرافیہ تو جمہوریہ کو بھی چند لوگوں کی حکومت بنا دیتی ہے۔ میری مودبانہ درخواست ہے کہ عمران خان کو ہر صورت میں حکومت دیں ورنہ خواتین کی سیاست میں دلچسپی ختم ہوجائے گی اور ان کی وجہ سے سیاسی جلسوں کی رونق میں جو اضافہ ہوا ہے وہ بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ میری کوشش ہے اور ساتھ ہی دعا بھی ہے کہ عمران خان کو ہرصورت میں اقتدار ملے، نہیں تو سیاسی جلسوں میں موسیقی کا جو تڑکالگانے کارواج شروع ہوا ہے وہ دم توڑ جائے گا۔ میں پوری قوم کےپائوں پڑتا ہوں کہ خدارا عمران کو اقتدار دیں!!:lol:  :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:   :lol:
    • This topic was modified 54 years, 4 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2
    سہیل وڑائچ  نے کالم کے اینڈ پر انہی مقتدر حلقوں سے گھٹنوں  کے بل جاکر التجائیں دراصل پی ٹی آی کے زعما کی طرف سے کی ہیں کہ خدارا عمران کو اقتدار دیا جاے ورنہ نوجوان مایوس ہوجائیں گے، خواتین گھروں میں بیٹھ جائیں گی، اور محروم طبقہ بھی جدوجہد چھوڑ دے گاعلی ترین نے بھی تسلیم کیا کہ وہ اپنے ووٹرز کو باہر نہیں نکال سکے حالانکہ ووٹر تو نکلے مگر شیرپر مہر لگانے، عمران کی روش بھی عجیب ترین رہی ہے ، اس کی ساری شادیاں انتہای مشکوک اور رواج سے ہٹ کرو چوروں کی طرح کی گئیں، کیا یہ غلط ہے کہ جہانگیر ترین ایک کرپٹ انسان ہے اور اس کا بیٹا الیکشن کیلئے اہل ہی نہیں ہوسکتا تھا مگر الیکش کمیشن کی وجہ سے وہ اہل ہوگیا، کیا یہ غلط ہے کہ عمران ہمیشہ طالبان دھشت گردوں کی کھلم کھلا حمایت کرتا آیا ہے اور جہادی یونیورسٹیز کو پیسے کے تھرو بھی نوازتا رہا ہے، کیا یہ غلط ہے کہ لودھراں میں سڑسٹھ ہزار ووٹرز نے اپنی راے بدل کر ن لیگ کی طرف دوبارہ رجوع کرلیا ہے ؟جن حلقوں کے آگے پی ٹی آی والے گڑگڑا کر عمران کیلئے حکومت مانگ رہے ہیں کیا وہ اپنے آپ کو ڈاون گریڈ کرکے ان کی کربناک التجاوں کو درخور اعتنا جانیں گے؟انکو چاہئے کہ اقتدارکی خیرات مانگنے کی بجاے مریم نواز کی طرح فرنٹ فٹ پر کھیلنا سیکھیںبحرحال ایک بہت ہی اچھا اور طنز بھرا کالم ہے جو پی ٹی آی کے زعما کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہوگا
    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    ابھی ابھی ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کے ضمنی الیکشنز میں دھاندھلی کی گئی ہے ، دراصل نون لیگ والے ہر ہارنے والے حلقے میں ، لوگوں کے گوشت ، پانی اور ہوا میں گدھوں کی ملاوٹ کر رہے ہیں ، اس سے انسانی ڈی این اے میں ایسی تبدیلیاں آ جاتی ہیں جس سے آپ کو ووٹ دیتے وقت پرچی پر صرف شیر ہی نظر آتا ہے -ان باتوں کا انکشاف ڈاکٹر دھبڑ دوس اپنے آنے والے انٹرویو میں کرنے والے ہیں
    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #4
    ابھی ابھی ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کے ضمنی الیکشنز میں دھاندھلی کی گئی ہے ، دراصل نون لیگ والے ہر ہارنے والے حلقے میں ، لوگوں کے گوشت ، پانی اور ہوا میں گدھوں کی ملاوٹ کر رہے ہیں ، اس سے انسانی ڈی این اے میں ایسی تبدیلیاں آ جاتی ہیں جس سے آپ کو ووٹ دیتے وقت پرچی پر صرف شیر ہی نظر آتا ہے – ان باتوں کا انکشاف ڈاکٹر دھبڑ دوس اپنے آنے والے انٹرویو میں کرنے والے ہیں

    سہیل وڑائچ نے جتنی التجائیں کی ہیں اقتدار تو اب عمران کو مل جاے گا، اس لئے تمام تیاریاں چھوڑ کر اب صرف  سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہوجائیں ووٹ ڈلوانے کی ذمہ داری اب سہیل وڑائچ نے منتوں ترلوں کے تھرو پوری کر ہی دینی ہے

    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #5
    سہیل وڑائچ صاحب کے لئے بہتر تھا کہ نرگس ، دیدار،شہزادی وغیرہ کے ساتھ ایک دن گزارتے رہتے مگر انہوں نے ایک کالم کے تھرو وڈیروں ، جاگیرداروں اور مقتدر حلقوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوے لودھراں میں پی ٹی آی کی عبرتناک شکست کو ان کے کھاتے مین ڈال دیا ہے، اس کے بعد کالم کے اینڈ پر انہی مقتدر حلقوں سے گھٹنوں کے بل جاکر التجائیں کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ خدارا عمران کو اقتدار دیا جاے ورنہ نوجوان مایوس ہوجائیں گے، خواتین گھروں میں بیٹھ جائیں گی، اور محروم طبقہ بھی جدوجہد چھوڑ دے گا :doh: سہیل وڑائچ صاحب جیتنے والوں کو طعنے دینے کی بجاے ان نوجوانوں سے کہئے کہ باہر نکلیں اور عمران کو جتوا دیں، علی ترین نے بھی تسلیم کیا کہ وہ اپنے ووٹرز کو باہر نہیں نکال سکے، جو باتیں آپ نے الزامات کی مد میں دہرائیں وہ الزامات نہیں حقیقت ہیں، کیا عمران کی روش یہ نہیں رہی کہ اس کی ساری شادیاں انتہای مشکوک اور رواج سے ہٹ کرو چوروں کی طرح کی گئیں، کیا یہ غلط ہے کہ جہانگیر ترین ایک کرپٹ انسان ہے اور اس کا بیٹا الیکشن کیلئے اہل ہی نہیں ہوسکتا تھا مگر الیکش کمیشن کی وجہ سے وہ اہل ہوگیا، کیا یہ غلط ہے کہ عمران ہمیشہ طالبان دھشت گردوں کی کھلم کھلا حمایت کرتا آیا ہے اور جہادی یونیورسٹیز کو پیسے کے تھرو بھی نوازتا رہا ہے، کیا یہ غلط ہے کہ لودھراں میں سڑسٹھ ہزار ووٹرز نے اپنی راے بدل کر ن لیگ کی طرف دوبارہ رجوع کرلیا ہے ؟ جن حلقوں کے آگے آپ گڑگڑا کر عمران کیلئے حکومت مانگ رہے ہیں کیا وہ اپنے آپ کو ڈاون گریڈ کرکے آپ کی کربناک التجاوں کو درخور اعتنا جانیں گے؟ براے مہربانی اقتدار کی خیرات مانگنے کی بجاے مریم نواز کی طرح فرنٹ فٹ پر کھیلنا سیکھئے اور ہاں اللہ کے واسطے دینے سےاقتدار نہیں خیرات ملتی ہے کیا بابراعوان پر رشوت اور جعلی ڈگری کا الزام ثآبت شدہ نہیں ہے؟ کیا جہانگیر ترین ساری عمر کیلئے نااہل نہیں ہوا ہے کیا فردوس عاشق اعوان پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں جب دونوں اطراف چور ہیں تو یوں پیروں میں گر کر اقتدار کی بھیک مانگنا کیا معنی رکھتا ہے؟

    Bawa، shahidabassi, GeoG

    سہیل وڑائچ ایک سینئر صحافی ہیں اور اُن کی لِکھی ہوئی باتوں میں ایک وزن رہتا ہےاوریہاں ایک غیر محسوس سی طنز بھی۔جِس گروپ بندی کی طرف سہیل صاحب نے واضع اِشارہ کیا ہے اُنہی عوامل کی تصدیق  شاہد بھائی، جیوجی بھائی(کاروباری تعلق)  اور باوا جی نے اپنی تحریروں سے یہاں بھی کی ہے۔یاد رہے یہ تینوں حضرات اپنا تعلق اُسی خِطہِ زمیں سے بتاتے ہیں اور مُقامی حالات سے بخونی اگاہ معلوم ہوتے ہیں۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6

    اپنی سیاسی پسند کو بالا تر رکھتے ہوے وڑائچ صاحب کی بات قابل غور ہے

    اقتدار ملے یا نہ ملے مگر کے پی میں حکومت اور نیشنل لیول پر پہلے سے زیادہ سیٹیں ملنی چاہیئں

    تاکہ خان صاحب کا پیر وڈے شریف کی دم اور چھوٹے کی تشریف پر رہے اور کام اسی سپیڈ سے ہوں جیسے ہو رہے ہیں

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    Bawa، shahidabassi, GeoG

    سہیل وڑائچ ایک سینئر صحافی ہیں اور اُن کی لِکھی ہوئی باتوں میں ایک وزن رہتا ہے۔جِس گروپ بندی کی طرف سہیل صاحب نے واضع اِشارہ کیا ہے اُنہی عوامل کی تصدیق شاہد بھائی، جیوجی بھائی(کاروباری تعلق) اور باوا جی نے اپنی تحریروں سے یہاں بھی کی ہے۔یاد رہے یہ تینوں حضرات اپنا تعلق اُسی خِطہِ زمیں سے بتاتے ہیں اور مُقامی حالات سے بخونی اگاہ معلوم ہوتے ہیں۔

    https://www.google.co.uk/search?q=welcome+back&source=lnms&tbm=isch&sa=X&ved=0ahUKEwjm4a7zzKXZAhWoIMAKHUZ7Dk8Q_AUICigB&biw=1024&bih=714#imgrc=n6GtIRS5Eho1IM:

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8
    سہیل وڑائچ نے جتنی التجائیں کی ہیں اقتدار تو اب عمران کو مل جاے گا، اس لئے تمام تیاریاں چھوڑ کر اب صرف سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہوجائیں ووٹ ڈلوانے کی ذمہ داری اب سہیل وڑائچ نے منتوں ترلوں کے تھرو پوری کر ہی دینی ہے

    سہیل وڑائچ کے پچھلے چند کالم اٹھا کر پڑھیں تو آپ پر یہ سنگین انکشاف ہوگا کہ وڑائچ صاحب ایسا کمال کا طنز لکھتے ہیں کہ سبزی خوروں کے سر پر سے گذر جاتا ہے۔ان کے اسی کالم کو میں نے سیاست پی کے پر بھی دیکھا۔ حالات وہاں بھی یہی تھے جو یہاں آپ نے بنا دئیے ہیں۔ ان کا یہ جملہ ہی ان کے کالم کا مزاج ظاہر کررہا ہے :serious: ۔بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کے پاس یہ الیکشن آخری چانس ہوگا کیونکہ پانچ سال کا لمبا سیاسی انتظار ان کی تمام تر فٹ نس کے باوجود بہت صبر آزما ہوگا۔

    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #9
    سہیل وڑائچ کے پچھلے چند کالم اٹھا کر پڑھیں تو آپ پر یہ سنگین انکشاف ہوگا کہ وڑائچ صاحب ایسا کمال کا طنز لکھتے ہیں کہ سبزی خوروں کے سر پر سے گذر جاتا ہے۔ ان کے اسی کالم کو میں نے سیاست پی کے پر بھی دیکھا۔ حالات وہاں بھی یہی تھے جو یہاں آپ نے بنا دئیے ہیں۔ ان کا یہ جملہ ہی ان کے کالم کا مزاج ظاہر کررہا ہے :serious: ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کے پاس یہ الیکشن آخری چانس ہوگا کیونکہ پانچ سال کا لمبا سیاسی انتظار ان کی تمام تر فٹ نس کے باوجود بہت صبر آزما ہوگا۔

    اور ان کا یہ فقرہ کیسا ہے میری کوشش ہے اور ساتھ ہی دعا بھی ہے کہ عمران خان کو ہرصورت میں اقتدار ملے، نہیں تو سیاسی جلسوں میں موسیقی کا جو تڑکالگانے کارواج شروع ہوا ہے وہ دم توڑ جائے گا۔

    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #10
    اور ان کا یہ فقرہ کیسا ہے میری کوشش ہے اور ساتھ ہی دعا بھی ہے کہ عمران خان کو ہرصورت میں اقتدار ملے، نہیں تو سیاسی جلسوں میں موسیقی کا جو تڑکالگانے کارواج شروع ہوا ہے وہ دم توڑ جائے گا۔

    اِس بات میں سبق بھی ہے اور طنز بھی۔ ایک سیاسی جلسے اور مداری کی مجمع سازی میں کُچھ تو فرق رہنا چاہیے۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12
    Bawa، shahidabassi, GeoG

    سہیل وڑائچ ایک سینئر صحافی ہیں اور اُن کی لِکھی ہوئی باتوں میں ایک وزن رہتا ہےاوریہاں ایک غیر محسوس سی تنز بھی۔جِس گروپ بندی کی طرف سہیل صاحب نے واضع اِشارہ کیا ہے اُنہی عوامل کی تصدیق شاہد بھائی، جیوجی بھائی(کاروباری تعلق) اور باوا جی نے اپنی تحریروں سے یہاں بھی کی ہے۔یاد رہے یہ تینوں حضرات اپنا تعلق اُسی خِطہِ زمیں سے بتاتے ہیں اور مُقامی حالات سے بخونی اگاہ معلوم ہوتے ہیں۔

    بہت شکریہ سہیل مرزا بھائی اور فورم واپسی پر خوش آمدیدآپکی بات درست ہے کہ سہیل وڑائچ ایک سینئر صحافی ہیں اور اُن کی لِکھی ہوئی باتوں میں واقعی وزن رہتا ہے. کسی حلقے کی مقامی سیاست اور سیاسی تاریخ کی بنیاد پر اس کے اکثر تجزیے کافی حد تک درست ہوتے ہیں لیکن اسکے اس کالم کو اگر جنوبی پنجاب خصوصا لودھراں کے اس جہانگیر ترین والے حلقے کو مد نظر رکھکر دیکھوں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ سہیل وڑائچ کو یہ کالم لکھنے سے پہلے اس حلقے کی مقامی سیاست اور سیاسی تاریخ کا مزید گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے تھایہ حلقہ شروع سے ہی پرانے خاندانوں، جاگیرداروں اور ڈیرے داروں میں بٹا ہوا ہے. یہ حلقہ نہ تو آج تک کبھی مسلم لیگ نون کا گڑھ رہا ہے اور نہ ہی جہانگیر ترین کا دو ہزار تیرہ سے پہلے اس حلقے سے کوئی تعلق تھااقبال شاہ نے پہلی بار مسلم لیگ نوں کے امیدوار کے طور اس حلقے سے کامیابی حاصل کی ہے ورنہ اس سے پہلے یا تو آئی جے آئی کی ٹکٹ پر جیتنے والوں کو مسلم لیگ نوں کی حمایت حاصل تھی یا پھر آزاد حیثیت سے جیتنے والوں کی مسلم لیگ نوں میں شمولیت کی وجہ سے یہ سیٹ مسلم لیگ نوں کے حصے میں آتی رہی ہے. یہ حلقہ کافی عرصۂ پی پی پی کے زیر کنٹرول رہا ہے لیکن یہاں اصل راج آزاد گروپس کا ہی رہا ہےجہانگیر ترین کا اصل حلقہ دراصل اسکا سسرالی حلقہ این اے ایک سو پچانوے رحیم یار خان تھا جہاں سے وہ دو ہزار دو اور دو ہزار آٹھ میں اپنے سسرال والوں کے اثر و رسوخ کی بنیاد پر مسلم لیگ فنکشنل (پیر پگارہ والی مسلم لیگ) کے امیدوار کے طور پر جیتے تھے. جہانگیر ترین مخدوم احمد محمود کے بہنوئی ہیں اور مخدوم احمد محمود پیر پگارہ کے قریبی رشتہ دار ہیں. جب دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں مخدوم احمد محمود کے بیٹے مخدوم مصطفیٰ محمود نے حلقہ این اے ایک سو پچانوے رحیم یار خان سے خود پی پی پی کے ٹکٹ پر لڑنے کا فیصلہ کیا تو جہانگیر ترین کو وہ حلقہ چھوڑنا پڑا اور اس نے لودھراں سے الیکشن لڑا اور پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود آزاد امید وار صدیق بلوچ کے ہاتھوں شکست کھا گئے جو بعد میں مسلم لیگ نوں میں شامل ہو گئےصدیق بلوچ کی جعلی ڈگری پر یہاں دوبارہ الیکشن ہوئے تو جہانگیر ترین اکثر آزاد گروپس کی در پردہ حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے صدیق بلوچ کو ہرانے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس بار مسلم لیگ نوں نے ان آزاد گروپس کو بہتر طور پر قابو کرکے اور ایک اچھی شہرت کے حامل امیدوار کو میدان میں اتار کر جہانگیر ترین کے بیٹے کو شکست سے دوچار کیا ہے. مسلم لیگ نوں کے امید وار کی کامیابی میں اسکے کے ترقیاتی کاموں خصوصا موٹر وے کی تعمیر نے اور نواز شریف کی نا اہلی کی وجہ سے اسے ملنے والی ہمدردی نے اہم کردار ادا کیا ہے

    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #13

    اِس بات میں سبق بھی ہے اور تنز بھی۔ ایک سیاسی جلسے اور مداری کی مجمع سازی میں کُچھ تو فرق رہنا چاہیے۔

    مرزا صاحب آپ کے بغیر بالکل دل نہیں لگ رہا تھا آئندہ جانے کی کوشش مت کیجئے گا، مجھ اکیلے کو سلیم رضا کی کلاس لینے کی ڈیوٹی مت دیں ویسے بھی وہ جلدی قابو کہاں آتا ہے

    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #14
    مرزا صاحب آپ کے بغیر بالکل دل نہیں لگ رہا تھا آئندہ جانے کی کوشش مت کیجئے گا، مجھ اکیلے کو سلیم رضا کی کلاس لینے کی ڈیوٹی مت دیں ویسے بھی وہ جلدی قابو کہاں آتا ہے

    آپ قطعی فِکرمند نہ ہوں۔ ایک دھانسو قِسم کی ریسیپی لگاتے ہیں۔ موصوف کا مزاج مزید بہتر ہو جائے گا۔

    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #15
    بہت شکریہ سہیل مرزا بھائی اور فورم واپسی پر خوش آمدید آپکی بات درست ہے کہ سہیل وڑائچ ایک سینئر صحافی ہیں اور اُن کی لِکھی ہوئی باتوں میں واقعی وزن رہتا ہے. کسی حلقے کی مقامی سیاست اور سیاسی تاریخ کی بنیاد پر اس کے اکثر تجزیے کافی حد تک درست ہوتے ہیں لیکن اسکے اس کالم کو اگر جنوبی پنجاب خصوصا لودھراں کے اس جہانگیر ترین والے حلقے کو مد نظر رکھکر دیکھوں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ سہیل وڑائچ کو یہ کالم لکھنے سے پہلے اس حلقے کی مقامی سیاست اور سیاسی تاریخ کا مزید گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے تھا یہ حلقہ شروع سے ہی پرانے خاندانوں، جاگیرداروں اور ڈیرے داروں میں بٹا ہوا ہے. یہ حلقہ نہ تو آج تک کبھی مسلم لیگ نون کا گڑھ رہا ہے اور نہ ہی جہانگیر ترین کا دو ہزار تیرہ سے پہلے اس حلقے سے کوئی تعلق تھا اقبال شاہ نے پہلی بار مسلم لیگ نوں کے امیدوار کے طور اس حلقے سے کامیابی حاصل کی ہے ورنہ اس سے پہلے یا تو آئی جے آئی کی ٹکٹ پر جیتنے والوں کو مسلم لیگ نوں کی حمایت حاصل تھی یا پھر آزاد حیثیت سے جیتنے والوں کی مسلم لیگ نوں میں شمولیت کی وجہ سے یہ سیٹ مسلم لیگ نوں کے حصے میں آتی رہی ہے. یہ حلقہ کافی عرصۂ پی پی پی کے زیر کنٹرول رہا ہے لیکن یہاں اصل راج آزاد گروپس کا ہی رہا ہے جہانگیر ترین کا اصل حلقہ دراصل اسکا سسرالی حلقہ این اے ایک سو پچانوے رحیم یار خان تھا جہاں سے وہ دو ہزار دو اور دو ہزار آٹھ میں اپنے سسرال والوں کے اثر و رسوخ کی بنیاد پر مسلم لیگ فنکشنل (پیر پگارہ والی مسلم لیگ) کے امیدوار کے طور پر جیتے تھے. جہانگیر ترین مخدوم احمد محمود کے بہنوئی ہیں اور مخدوم احمد محمود پیر پگارہ کے قریبی رشتہ دار ہیں. جب دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں مخدوم احمد محمود کے بیٹے مخدوم مصطفیٰ محمود نے حلقہ این اے ایک سو پچانوے رحیم یار خان سے خود پی پی پی کے ٹکٹ پر لڑنے کا فیصلہ کیا تو جہانگیر ترین کو وہ حلقہ چھوڑنا پڑا اور اس نے لودھراں سے الیکشن لڑا اور پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود آزاد امید وار صدیق بلوچ کے ہاتھوں شکست کھا گئے جو بعد میں مسلم لیگ نوں میں شامل ہو گئے صدیق بلوچ کی جعلی ڈگری پر یہاں دوبارہ الیکشن ہوئے تو جہانگیر ترین اکثر آزاد گروپس کی در پردہ حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے صدیق بلوچ کو ہرانے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس بار مسلم لیگ نوں نے ان آزاد گروپس کو بہتر طور پر قابو کرکے اور ایک اچھی شہرت کے حامل امیدوار کو میدان میں اتار کر جہانگیر ترین کے بیٹے کو شکست سے دوچار کیا ہے. مسلم لیگ نوں کے امید وار کی کامیابی میں اسکے کے ترقیاتی کاموں خصوصا موٹر وے کی تعمیر نے اور نواز شریف کی نا اہلی کی وجہ سے اسے ملنے والی ہمدردی نے اہم کردار ادا کیا ہے

    آپ نے بہت اچھا تجزیہ کیا ہے ان بیک ورڈ علاقوں میں شخصی ووٹ ڈلتے ہیں ناکہ پارٹی بیس پر، پی ٹی آی ن لیگ کے بعد اب دوسری بڑی پارٹی بن چکی ہے لیکن پھر بھی ان میں سیاسی سوجھ بوجھ بہت کم ہے، مثال اس چوچے علی ترین کا یہ کہنا کہ وہ اپنے ووٹرز کو باہر نہیں لا سکےسواے مذاق کے کچھ نہیں، ووٹر تو باہر آے اور اتنے ہی ووٹ کاسٹ ہوے جتنے پچھلی دفعہ مگر وہ ان کو نہیں پڑے ویسے نوے ہزار ووٹ لینا بھی اس چوچے کا ایک کارنامہ ہے

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #16
    افسوس ….سہیل وڑائچ کا طنزیہ کالم بڑے بڑوں کے سر کے اوپر سے گزر گیا ہے
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #17
    آپ نے بہت اچھا تجزیہ کیا ہے ان بیک ورڈ علاقوں میں شخصی ووٹ ڈلتے ہیں ناکہ پارٹی بیس پر، پی ٹی آی ن لیگ کے بعد اب دوسری بڑی پارٹی بن چکی ہے لیکن پھر بھی ان میں سیاسی سوجھ بوجھ بہت کم ہے، مثال اس چوچے علی ترین کا یہ کہنا کہ وہ اپنے ووٹرز کو باہر نہیں لا سکےسواے مذاق کے کچھ نہیں، ووٹر تو باہر آے اور اتنے ہی ووٹ کاسٹ ہوے جتنے پچھلی دفعہ مگر وہ ان کو نہیں پڑے ویسے نوے ہزار ووٹ لینا بھی اس چوچے کا ایک کارنامہ ہے

    بیلیور بھائیآپ نے علی ترین سے یہ تو سنا ہی نہیں ہوگا کہ اسے پارٹی ٹکٹ کس نے اور کیسے دیا تھا؟آکسفورڈ سے درآمد کردہ برگر کہتا ہے کہ مجھے ٹکٹ نہ تو عمران خان نے دیا ہے اور نہ ہی جہانگیر ترین نے. میرے ٹکٹ کا فیصلہ پارٹی کے مقامی عہدیداروں کے اجلاس میں ہوا تھامیرے سوا کسی اور نے ٹکٹ کیلیے ہاتھ ہی نہیں اٹھایا اور اس طرح مجھے ٹکٹ مل گیا :bigsmile: :lol:   :hilar:

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #18

    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #19
    افسوس ….سہیل وڑائچ کا طنزیہ کالم بڑے بڑوں کے سر کے اوپر سے گزر گیا ہے

    چلو ہوگیا جو ہونا تھا ہن جاندی کرو:17:

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #20
    بیلیور بھائی آپ نے علی ترین سے یہ تو سنا ہی نہیں ہوگا کہ اسے پارٹی ٹکٹ کس نے اور کیسے دیا تھا؟ آکسفورڈ سے درآمد کردہ برگر کہتا ہے کہ مجھے ٹکٹ نہ تو عمران خان نے دیا ہے اور نہ ہی جہانگیر ترین نے. میرے ٹکٹ کا فیصلہ پارٹی کے مقامی عہدیداروں کے اجلاس میں ہوا تھا میرے سوا کسی اور نے ٹکٹ کیلیے ہاتھ ہی نہیں اٹھایا اور اس طرح مجھے ٹکٹ مل گیا :bigsmile: :lol: :hilar:

    ایسے کہتے ہیں جہموریت ۔۔۔۔۔:hilar: :hilar:باواجی ۔۔۔مجھے سکول کا زمانہ یاد آگیا ۔۔ پرائمری سکول کا ماسڑ اگلی کلاس میں پاس  کرنے کے لیے لڑکوں سے برے برے منھ بنوا رہا تھا ۔۔۔۔میں نے پوچھا ۔۔یہ کیا ہورہا ہے ۔۔۔کہتا ان کو آندا جاندا کچھ نئیں ۔۔۔پاس تو کرنا ہی ہے سوچ رہا ہوں کچھ مشقت تو کروا لوں ۔۔تو یہ لوگ بھی برا منھ بنابے کا طریقہ استعمال کرتے تو شاید جیت جاتے ۔۔

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 69 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×