Awan
Participant
Offline
  • Professional
#13
مقصد کرکٹ کی بہتری ہونا چاہیئے یا زیادہ سے زیادہ ٹیمیں بنا کر زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کی نوکری کا بندوبست کرنا ۔ پہلے ۱۵ ٹیمیں تھیں جن میں ہر ٹیم کے پاس ایک یا دو اچھے پلئیر ہوتے تھے۔ کوئی بھی نتھو خیرا ایک دو کو چھوڑ کر وکٹوں کے انبار لگا دیتا تھا۔ اور کوئی بھی بیٹسمین ایک آدھ بالر کو چھوڑ کر باقیوں کی پھینٹی لگاتا تھا۔ اب پانچ ٹیمیں ہیں جہاں ہر ایک کے پاس ملک کی کریم ہے اور مقابلہ بھی اچھا ہوتا ہے اور پھر ان کی سیکنڈ الیون ہیں جو ڈپارٹمنٹل ٹیموں سے بھی سٹرانگ ہیں۔ ان کے نیچے ریجنل اور کلب ہیں۔ اچھے کھلاڑی مقابلے سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ رزلٹس دو چار سال بعد دیکھنے کو ملیں گے ابھی نہی۔ پاکستان کا اصل مسئلہ نئے اچھے فاسٹ بالرز کا کال ہے۔ حارث رؤف، حسنین ، موسی یا نسیم شاہ کے پاس کسی حد تک سپیڈ تو ہے لیکن سونگ کا ہنر اور لائن لینگتھ نہی ہے۔ پہلے جیسے بالرز ہوتے تو نیوزی لینڈ میں ۲۸۰ بھی بہت ہوتا۔ ڈومسٹک وکٹس پر تو شاید سپنر کچھ کر جائیں لیکن بیرون ملک پاکستان ۲۰ وکٹیں لینے کے قابل نہی ہے۔ باقی ان سیف کا نمازوں کو ذمہ دار ٹھہرانا ایسے ہی ہے کہ کہا جائے فلاں پلئیر اچھا نہی کھیلا کیوں کہ اس کی ٹوپی نیلے رنگ کی تھی۔

شاہد بھائی محیشت کے شوھبے میں آپ کو کمال حاصل ہے مگر میں نہیں سمجھتا کرکٹ میں بھی ایسا ہے – آج ہر آدمی جو کرکٹ کو سمجھتا ہے اس کا یہی خیال ہے کہ کرکٹ کو اس نئے نظام نے تباہ کر دیا ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہے – جب کرکٹ میں پیسہ زیادہ نہیں تھا تو انڈین ٹیم ہم سے بھی بری تھی اور ہم نے اسے اتنی بار ہرایا کہ اس کے کھلاڑی ہم سے کھیلنے سے ڈرتے تھے – انڈین پریمیئر لیگ کے آنے سے انڈین کرکٹ پر دولت نچھاور ہونے لگی – دنیا کے بہترین کھلاڑی کوچ ٹرینر فیزیشن نے انڈیا میں ڈیرے لگا لئے اور انڈیا کے کونے کونے سے ٹیلنٹ پکڑ کر کوچ ان پر کام کرنے لگے – تیز ہٹ کرنے والے وکٹ پر ٹھہرنے والے ہر طرح کے پلیئرز کے بڑے بڑے پولز تیار ہونے لگے – یہ پولز اتنے مظبوط ہیں کہ انڈیا کے اے ٹیم جس میں کوئی مشهور کھلاڑی نہیں تھا اس نے آسٹریلیا کو چند دن پہلے اپنے ہی ملک میں دھول چٹا دی – یہ ہوتی ہے پیسے سے مظبوط کھلاڑیوں کو ایسا تیار کرنا کہ کسی بھی کھلاڑی کے آنے جانے سے ٹیم کی کارکردگی پر کوئی اثر نہ پڑے – جہاں تک آسٹریلیا اور انگلینڈ کی بات ہے تو وہاں کاؤنٹی کرکٹ کو بہت پیسے ملتے ہیں – خود بقول خان صاحب کے انہوں نے کاؤنٹی کرکٹ کھیل کر بنی گالا کا محل بنایا – اگر صوبے اور شہر کی تنظیموں کے پاس آسٹریلیا اور انگلینڈ کی طرز پر بڑے فنڈ ہوتے تو اس نئے نظام میں کوئی خرابی نہیں تھی مگر کھلاڑیوں کو بغیر کسی فنڈ کے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا – وہ دور کوئی اور تھا جب پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں صرف ٹیلنٹ کی بنا پر ورلڈ چیمپئن بن جایا کرتی تھیں – آج کل فٹنس اور کوچنگ کی بہت اہمیت ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے – آج کل محظ ٹیلنٹ سے آپ چند میچ تو جیت سکتے ہیں لیکن انڈیا جیسی ٹیم نہیں بنا سکتے جو پچھلے طویل عرصے سے ہر فارمیٹ میں پہلے یا دوسرے نمبر پر ہے – کرکٹ میں سائنس اور ٹیکنولوجی کے استعمال نے ایشین ٹیموں ( ماسوائے انڈیا ) کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے – آج پاکستان بنگلادیش سری لنکا اور ویسٹ انڈیز جسی غریب قوموں کو کرکٹ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے – جب تک کھلاڑیوں کو پرکشش تنخواہ بونس وغیرہ نہیں ملتے بین الاقوامی معیار کے کھلاڑی پیدا کرنا مشکل ہے – اکا دکا بابر اعظم جیسے قدرتی ٹیلینٹ رکھنے والے کھلاڑی ضرور مل جائیںگے –

×
arrow_upward DanishGardi