Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 21 total)
  • Author
    Posts
  • JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1

    پاکستان کی کرکٹ نیو زیلنڈ کا دورہ ختم کر کے خیریت سے واپس وطن پہنچ گئی ہے اور اب جنوبی افریقہ کے ساتھ معرکے کے لئے کمر بستہ ہو رہی ہے

    نیو زیلنڈ سے واپسی پر اوپر والے کی مہربانی، عوام کی دعائیں ، والدین کی دعائیں ، مصباح بھائی ، وقار بھائی اور یونس بھائی کی ہمت افزائی وغیرہ کا ذکر نہیں ہوا . دیکھیں کے جنوبی افریقہ کے ساتھ مقابلے کے بعد ان تمام مہربانیوں اور دعاؤں کا ذکر ہو گا یا نہیں

    میرے خیال میں سب سے خوش آئند بات یہ ہے کے ہمارے ملک عزیز میں کرکٹ جو کہ ہمارا واحد کھیل رہ گیا ہے کے مقابلہ کے لئے دوسرے ممالک کی ٹیمیں ہمارے ملک کی سرزمین پر واپس آ رہی ہیں.

    میرا خیال ہے کہ ہم بہتر مقابلہ کر سکیں گے اور بہت امکان ہے کے جیت بھی جائیں

    آپ کی کیا راۓ ہے

    JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #2

    اور اگر نہ جیتے تو پچھلی حکومت اور جناب نجم سیٹھی صاحب کو ذمیوار قرار دینے میں بھی کوئی قباحت نہ ہو

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    میری خان صاحب سے بات ہویی تھی جب انسے قومی کرکٹ ٹیم کی زبوں حالی کا تذکرہ کیا تو خان صاحب کچھ دیر تک میری طرف ایسے دیکھنے لگے جیسے میں نے انکی شان میں گستاخی کردی ہو پھر اپنے مخصوص کلر اسمائیل والے انداز میں گویا ہوے کہ
    “چاہے کچھ ہو جاے میں انکو این آر او نہیں دوں گا”
    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #4

    پاکستان کی کرکٹ ٹیم پہلے سے ہی سفارشی اور نکمی تھی … لیکن اس کی صحیح تباہی انضمام الحق کی کپتانی کے بعد شروع ہوئی . جس نے کرکٹ میں فزیکل ٹریننگ سے زیادہ نماز روزے ، صوم سلاتھ پر توجہ دی … اور بہت سے اچھے اچھے کھلاڑی سید انور ویغیرا مولانا طارق جمیل کی تبلیغی جماعت کے ہتھے چڑ گۓ .. پاکستانی کرکٹ ٹیم کا مستقبل بہت ہی تاریک ہے .. جب تک پلیئر میریٹ پہ سلیکٹ ہوں گا .. کرکٹ ایک جووہ اور سیاست خانہ بنا رہے گا

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    جے بھای

    ہماری قوم کی طرح ہماری کرکٹ بھی کرپشن، اقربا پروری، ایجنسیوں کے مداخلت کے باعث روبہ زوال ہے، اوپر سے حکم آجاتا ہے کہ فلاں کھلاڑی وزیرستانی ہے اس کی نمائیندگی کروا دو کراچی کا پلئیر ڈراپ کردو یا فلاں کا تعلق پی ٹی آی سے ہے اس میں اور دوسرے میں انیس بیس کا فرق ہے پی ٹی آی والے کو کھلا دو، حسنین کی سپیڈ پچانوے ہے مگر اس کرو رہنے دو کراچی کا ہے البتہ سرحد سے فلاں باولر کو کھلا دو

    تبلیغی فیکٹر نے بھی پروفیشنلازم کو تباہ کردیا ہے انضمام اور سعید انور خود بہت بری طرح تباہ ہوے اور بے شمار کھلاڑیوں کو بھی تباہ کروایا، آخر تبلیغی مولوی ٹیم کے ساتھ کیوں لے جایا جاتا ہے ہوسکتا ہے اگر تبلیغی فیکٹر نہ ہوتا تو یوسف یوحنا کی طرح بہت سارئ اقلیتی کھلاڑی بھی ٹیم میں جگہ پالیتے دانش کنیریا کو جیسے باہر کیا گیا وہ بھی شرم کا مقام ہے

    انڈین ٹیم میں ایک باولر شامی اور دوسرا خلیل ہیں ورنہ سارے ہندو سکھ ہیں مگر آج وہ سرخرو ہوکر وطن واپس آرہے ہیں دنیا کی سب سے مضبوط ٹیم آسٹریلیا کو خاک چٹا کر آرہے ہیں کیونکہ انہوں نے پروفیشنل ازم کو بہت سٹرانگ کیا ہے انکی ٹیم میں آکر کھلاڑی سیکھتے نہیں بلکہ بارہ سال کی عمر سے بلا پکڑنا اور باولنگ کروانا سیکھتے سیکھتے جب فرسٹ کلاس تک آتے ہیں تو وہ پاکستان سے بہت بہتر کھلاڑی بن چکے ہوتے ہیں پھر قومی ٹیم میں سینیرز سے بھی سیکھتے اور انٹرنیشنل کوچز سے اپنی معمولی ٹیکنیکس درست کرواتے ہیں مگر پاکستان میں  قومی ٹیم کے کوچ کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ وہ ان تمام نئے آنے والے کھلاڑیوں کو بچوں کی طرح  بلا پکڑنا سکھاے

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    انٹرنیشنل ٹیمز میں اب تک سب سے اہم ٹیم ساوتھ افریقہ ہے جس نے پاکستان کا دورہ کرکے ہم پر اور ہماری قوم پر احسان کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے اپنی جونئیر ٹیم بھجوای تھی، اور زمبابوے بھی اپنے تمام کھلاڑی نہیں لاسکی تھی ۔  یہ تینوں ٹیمیں ویسے بھی ون ڈے اور ٹیسٹ رینکنگ میں پاکستان سے کافی پیچھے ہیں ان سے کھیلنا بس نیٹ پریکٹس ہی تھی اصل مقابلہ اب ہوگا ساوتھ افریقہ نہ صرف بہت عمدہ ٹیم ہے بلکہ ایک بہت بزی ٹیم بھی ہے  ان کی ٹیسٹ رینکنگ پانچ ہے اور ون ڈے بھی پان ہے جبکہ پاکستان نمبر سات اور چھ پر ہے ، گویا ہم پہلی بار اپنے سے بہت بہتر ٹیم سے کھیلنے جارہے ہیں میرا خیال ہے کہ شائد ساوتھ افریقہ پہلی بار پاکستان آرہی ہے اگر کسی کو علم ہوتو بتاے کہ پہلے کبھی ساوتھ افریقہ پاکستان کے ساتھ پاکستان میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے آچکی ہے ؟

    ساوتھ افریقہ  ٹیسٹ اور ون ڈے میں انڈیا سے زیادہ پیچھے نہیں جو نمبر تین پر ہے انڈیا کے ساتھ ان کی سیریز انڈیا میں ہر سال شیڈول ہوتی ہے پھر انڈیا بھی ساوتھ افریقہ جاتی ہے۔انگلینڈ کے ساتھ ہر سال ان کی سیریز طے ہوتی ہے امسال بھی انگلینڈ کی ٹیم ساوتھ افریقہ گئی تھی مگر کرونا کی وجہ سے دورہ ادھورا رہ گیا، ساوتھ افریقہ نے آخری دفعہ دو سال پہلے انڈیا کو ٹیسٹ سیریز بھی ہرای تھی جس میں تقریبا یہی انڈین ٹیم تھی کوہلی کپتان اور دھونی و روہت شرما شیکھر بھی ہمراہ تھے

    مجھے یقین ہے کہ ان کے بعد انگلینڈ اور آسٹریلیا بھی پاکستان آئیں گے کوی مانے یا نہ مانے انڈیا سے ہارنے کے بعد آسٹریلیا اور انگلینڈ کو اس خطے کے کھلاڑیوں کو اہمیت دینی پڑے گی

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #7

    پاکستان کی کرکٹ ٹیم پہلے سے ہی سفارشی اور نکمی تھی … لیکن اس کی صحیح تباہی انضمام الحق کی کپتانی کے بعد شروع ہوئی . جس نے کرکٹ میں فزیکل ٹریننگ سے زیادہ نماز روزے ، صوم سلاتھ پر توجہ دی … اور بہت سے اچھے اچھے کھلاڑی سید انور ویغیرا مولانا طارق جمیل کی تبلیغی جماعت کے ہتھے چڑ گۓ .. پاکستانی کرکٹ ٹیم کا مستقبل بہت ہی تاریک ہے .. جب تک پلیئر میریٹ پہ سلیکٹ ہوں گا .. کرکٹ ایک جووہ اور سیاست خانہ بنا رہے گا

    سعید انور نے کبھی بھی اپنے دے گئے کام سے دھوکہ بازی نہیں کی۔ اگر مسلمان ہیں تو روزہ اور نماز کی پابندی تو شرط ہے ۔ ھاں اسکی اس طرح نمائش کی ضرورت نہیں ۔ اور نہ مناسب ہے ۔ میرا خیال ہے کہ انفرادی ناکامیوں کو مذھب کے ساتھ جوڑنا بھی مناسب نہیں ۔

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #8
    میرے خیال سے کسی نے بھی پاکستانی کرکٹ کو درپیش بڑے مسئلے کی نشان دئی نہیں کی یا کم از کم میری نظروں سے نہیں گزری – کرکٹ کا مکمل اسٹرکچر خان صاحب نے تبدیل کر دیا ہے اور پاکستان میں کرکٹ کے ٹیلینٹ کا سب سے بڑا پلر جو سالہا سال سے ہمیں بین الاقوامی معیار کے کرکٹر دے رہا تھا سرے سے ہی ہٹا دیا ہے – جی ہاں میرا اشارہ ڈیپارٹمنٹ کی کرکٹ کی طرف ہے – ہمارے کرکٹر جو سارے ہی یا کم زیادہ تر مڈل کلاس یا غریب گھرانوں سے آتے ہیں ان کے روزگار کا بہت بڑا مسلہ ہے جس کی وجہ سے عرفان خان جیسے کرکٹر بھی فیکٹری میں مزدوری کرتے پائے جاتے ہیں اگرچے یہ واقعہ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کے ختم ہونے سے پہلے کا ہے مگر لگتا ہے اب ہماری فیکٹریوں کو کرکٹر ہی چلائیں گے کیونکے ان کے پاس کوئی ذریعہ مھاش نہیں بچا ماسوائے پاکستان سپر لیگ کے جو پچھلی حکومت کی مہربانی ہے – پی ایس ایل ویسے بھی اس معیار کے کرکٹر نہیں دے سکتی جیسے کہ ڈیپارٹمنٹ اسٹرکچر دے رہا تھا – ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کھیلتے ہوئے کرکٹر کو لگی بندھی تخواہ ملتی تھی اور کام صرف کرکٹ کھیلنا ہوتا تھا اور ترقی بھی اسی حساب سے ہوتی تھی تبھی تو جاوید میانداد جیسا پلیئر حبیب بینک کا وائیس پریذیڈنٹ تک بن گیا – اب غریب کرکٹر کرکٹ کھیلیں جو ایک مہنگا کھیل ہے یا اپنے لئے روزگار تلاش کریں – خان صاحب نے یہاں بھی ایک غلط مفروضہ اپنایا کہ سبھی کرکٹر ان ہی کی طرح خوشحال ہیں اور انہیں پیسے دینے کی کیا ضرورت ہے – آسٹریلیا کا ماڈل یہ سوچے بغیر اپنایا گیا کہ صوبائی یا شہر کی ٹیموں کے پاس تو کوئی فنڈ ہی نہیں ہوتے – اگر انہیں فنڈ دے کر کرکٹ کو کھڑا کیا جاتا تو کچھ نہ کچھ یہ اسٹرکچر چل جاتا مگر کھلاڑیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر خان صاحب حسب محمول میں کسی کو این آر او نہیں دونگا پر لگے ہیں – نئی حکومت کو یہ سب دوبارہ بھال کرنا ہو گا اور خدا نخواستہ اگر خان صاحب کسی طرح پھر وزیر اعظم بن گئے تو ہماری کرکٹ کی حالت ہاکی کی طرح ہو جائے گی جو پہلے ہی کافی حد تک ہو چکی ہے –
    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #9

    [/quote]

    سعید انور نے کبھی بھی اپنے دے گئے کام سے دھوکہ بازی نہیں کی۔ اگر مسلمان ہیں تو روزہ اور نماز کی پابندی تو شرط ہے ۔ ھاں اسکی اس طرح نمائش کی ضرورت نہیں ۔ اور نہ مناسب ہے ۔ میرا خیال ہے کہ انفرادی ناکامیوں کو مذھب کے ساتھ جوڑنا بھی مناسب نہیں ۔

    زیدی صاحب کسی زمانے میں سعید انور اور ٹنڈولکر کی سنچریز ایک ساتھ چل رہی تھیں اور اب دیکھیں ٹنڈولکر کہاں ہے اور انور صاحب نے دھاڑی رکھ کر کر مولانا طارق کو چندے دے دے کر اپنی ساری زندگی اور کرئیر تباہ کر لیا … یہ سب مذھب کا کمال ہے … جہاں تک نماز اور روزہ کی بات ہے اور انفرادی کامیابی کی بات ہے تو نماز انسان کی انفرادی کامیابی میں خلل ڈالتی ہے ….یہ ایک اوٹ ڈیٹڈ کانسپٹ ہے آج کل کے فاسٹ اور تیز دور میں آدمی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا… … زیادہ تر لوگ خوف اور لالچ کی وجہ سے اس کو وقت دیتے ہیں اور کوئی بھی آدمی خوشی سے نماز نہیں پڑتا .. ایسے میں انسان ٹینشن کا مریض بن جاتا ہے جو کہ اس کے کام میں بھی خلل ڈالتا ہے… انضمام کو ہی دیکھ لیں .. اس بندے کی کاپتانی اور نماز نے پاکستان کو کیا فائدہ دیا ہے …. اور اس کے سفارشی بتیجے کی حرکات کو چیک کر لیں .. کہ اس نے ایک اوستریولی پلیئر کے ساتھ کس طرح کی برتاؤ کیا …. … ایک آدمی جو پانچ وقت کا نمازی ہے اس کے دماغ میں اور ضروری کاموں کی جگہ نماز ہی گھومتی رہتی ہے … اکثر نمازی حضرت کو دیکھا ہے کہ ان سے ایک نماز چھوٹ جاے تو پریشانی کے عالم میں دوسروں کو کہ رہے ہوتے ہیں کہ یار دیکھو میری نماز چھوٹ گئی ہے . اب میرا کیا ہو گا … کہنے کا مقصد ہے نماز ایک غیر ضروری عمل ہے اس کی اہمیت کی وجہ سے انسان ضروری کاموں کی احدمیت کھو دیتا ہے

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #10

    زیدی صاحب کسی زمانے میں سعید انور اور ٹنڈولکر کی سنچریز ایک ساتھ چل رہی تھیں اور اب دیکھیں ٹنڈولکر کہاں ہے اور انور صاحب نے دھاڑی رکھ کر کر مولانا طارق کو چندے دے دے کر اپنی ساری زندگی اور کرئیر تباہ کر لیا … یہ سب مذھب کا کمال ہے … جہاں تک نماز اور روزہ کی بات ہے اور انفرادی کامیابی کی بات ہے تو نماز انسان کی انفرادی کامیابی میں خلل ڈالتی ہے ….یہ ایک اوٹ ڈیٹڈ کانسپٹ ہے آج کل کے فاسٹ اور تیز دور میں آدمی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتا… … زیادہ تر لوگ خوف اور لالچ کی وجہ سے اس کو وقت دیتے ہیں اور کوئی بھی آدمی خوشی سے نماز نہیں پڑتا .. ایسے میں انسان ٹینشن کا مریض بن جاتا ہے جو کہ اس کے کام میں بھی خلل ڈالتا ہے… انضمام کو ہی دیکھ لیں .. اس بندے کی کاپتانی اور نماز نے پاکستان کو کیا فائدہ دیا ہے …. اور اس کے سفارشی بتیجے کی حرکات کو چیک کر لیں .. کہ اس نے ایک اوستریولی پلیئر کے ساتھ کس طرح کی برتاؤ کیا …. … ایک آدمی جو پانچ وقت کا نمازی ہے اس کے دماغ میں اور ضروری کاموں کی جگہ نماز ہی گھومتی رہتی ہے … اکثر نمازی حضرت کو دیکھا ہے کہ ان سے ایک نماز چھوٹ جاے تو پریشانی کے عالم میں دوسروں کو کہ رہے ہوتے ہیں کہ یار دیکھو میری نماز چھوٹ گئی ہے . اب میرا کیا ہو گا … کہنے کا مقصد ہے نماز ایک غیر ضروری عمل ہے اس کی اہمیت کی وجہ سے انسان ضروری کاموں کی احدمیت کھو دیتا ہے

    سعید انور کی زندگی کی کہانی سنیں گے تو شاید آپ خود بھی داڑھی رکھ کر سیدھے رستے پر چلنے لگیں ۔ سعید انور نے جو نیک نام کرکٹ سے کمانا تھا وہ اس کے لیے بہت کافی تھا ۔ آخر انسان کو اپنی آخرت کے لیے بھی کچھ کمانا چاھیے ۔ ہمارے مذھب میں مذھبی پیشوایت سے پرھیز کی تاکید ہے ۔ یہ کوئ ھائآریکی کو فروغ نہیں دیتا لیکن ہم نے ایک ھائبرڈ کا طریقہ اپنا لیا ہے ۔ نماز پڑھنے کے لیے صرف چند منٹ چاھییں اور اس کی پابندی کے لیے انگنت آسانیاں بھی پیدا کردی گئیں ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ اپنے ایمان پہ منحصر ہے کہ آپکا اس پر کتنا اعتقاد ہے ۔ ہمارے مذھب میں زبردستی کا عمل دخل نہیں ہے اور یہ ہر ایک کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ۔ کیا ضروری ہے کہ آپ زبردستی کے مسلمان ہی بنتے پھریں ؟ ۔ آپ کچھ بھی بن سکتے ہیں ۔ یہ آزادی تو ہر ایک کو حاصل ہے ۔ مجھے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب آپ زبردستی کے مسلمان بنے پھرتے ہیں اور چند افرادی کرداروں کے عمل کے نتیجے میں کچھ مفروضے فرض کرلیتے ہیں اور پھر ان مفروضوں کی بنیاد پربراہ راست مذھب پر تنقید شروع کردیتے ہیں ۔

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11
    میرے خیال سے کسی نے بھی پاکستانی کرکٹ کو درپیش بڑے مسئلے کی نشان دئی نہیں کی یا کم از کم میری نظروں سے نہیں گزری – کرکٹ کا مکمل اسٹرکچر خان صاحب نے تبدیل کر دیا ہے اور پاکستان میں کرکٹ کے ٹیلینٹ کا سب سے بڑا پلر جو سالہا سال سے ہمیں بین الاقوامی معیار کے کرکٹر دے رہا تھا سرے سے ہی ہٹا دیا ہے – جی ہاں میرا اشارہ ڈیپارٹمنٹ کی کرکٹ کی طرف ہے – ہمارے کرکٹر جو سارے ہی یا کم زیادہ تر مڈل کلاس یا غریب گھرانوں سے آتے ہیں ان کے روزگار کا بہت بڑا مسلہ ہے جس کی وجہ سے عرفان خان جیسے کرکٹر بھی فیکٹری میں مزدوری کرتے پائے جاتے ہیں اگرچے یہ واقعہ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کے ختم ہونے سے پہلے کا ہے مگر لگتا ہے اب ہماری فیکٹریوں کو کرکٹر ہی چلائیں گے کیونکے ان کے پاس کوئی ذریعہ مھاش نہیں بچا ماسوائے پاکستان سپر لیگ کے جو پچھلی حکومت کی مہربانی ہے – پی ایس ایل ویسے بھی اس معیار کے کرکٹر نہیں دے سکتی جیسے کہ ڈیپارٹمنٹ اسٹرکچر دے رہا تھا – ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کھیلتے ہوئے کرکٹر کو لگی بندھی تخواہ ملتی تھی اور کام صرف کرکٹ کھیلنا ہوتا تھا اور ترقی بھی اسی حساب سے ہوتی تھی تبھی تو جاوید میانداد جیسا پلیئر حبیب بینک کا وائیس پریذیڈنٹ تک بن گیا – اب غریب کرکٹر کرکٹ کھیلیں جو ایک مہنگا کھیل ہے یا اپنے لئے روزگار تلاش کریں – خان صاحب نے یہاں بھی ایک غلط مفروضہ اپنایا کہ سبھی کرکٹر ان ہی کی طرح خوشحال ہیں اور انہیں پیسے دینے کی کیا ضرورت ہے – آسٹریلیا کا ماڈل یہ سوچے بغیر اپنایا گیا کہ صوبائی یا شہر کی ٹیموں کے پاس تو کوئی فنڈ ہی نہیں ہوتے – اگر انہیں فنڈ دے کر کرکٹ کو کھڑا کیا جاتا تو کچھ نہ کچھ یہ اسٹرکچر چل جاتا مگر کھلاڑیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر خان صاحب حسب محمول میں کسی کو این آر او نہیں دونگا پر لگے ہیں – نئی حکومت کو یہ سب دوبارہ بھال کرنا ہو گا اور خدا نخواستہ اگر خان صاحب کسی طرح پھر وزیر اعظم بن گئے تو ہماری کرکٹ کی حالت ہاکی کی طرح ہو جائے گی جو پہلے ہی کافی حد تک ہو چکی ہے –

    مقصد کرکٹ کی بہتری ہونا چاہیئے یا زیادہ سے زیادہ ٹیمیں بنا کر زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کی نوکری کا بندوبست کرنا ۔ پہلے ۱۵ ٹیمیں تھیں جن میں ہر ٹیم کے پاس ایک یا دو اچھے پلئیر ہوتے تھے۔ کوئی بھی نتھو خیرا ایک دو کو چھوڑ کر وکٹوں کے انبار لگا دیتا تھا۔ اور کوئی بھی بیٹسمین ایک آدھ بالر کو چھوڑ کر باقیوں کی پھینٹی لگاتا تھا۔ اب پانچ ٹیمیں ہیں جہاں ہر ایک کے پاس ملک کی کریم ہے اور مقابلہ بھی اچھا ہوتا ہے اور پھر ان کی سیکنڈ الیون ہیں جو ڈپارٹمنٹل ٹیموں سے بھی سٹرانگ ہیں۔ ان کے نیچے ریجنل اور کلب ہیں۔ اچھے کھلاڑی مقابلے سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ رزلٹس دو چار سال بعد دیکھنے کو ملیں گے ابھی نہی۔
    پاکستان کا اصل مسئلہ نئے اچھے فاسٹ بالرز کا کال ہے۔ حارث رؤف، حسنین ، موسی یا نسیم شاہ کے پاس کسی حد تک سپیڈ تو ہے لیکن سونگ کا ہنر اور لائن لینگتھ نہی ہے۔ پہلے جیسے بالرز ہوتے تو نیوزی لینڈ میں ۲۸۰ بھی بہت ہوتا۔ ڈومسٹک وکٹس پر تو شاید سپنر کچھ کر جائیں لیکن بیرون ملک پاکستان ۲۰ وکٹیں لینے کے قابل نہی ہے۔
    باقی ان سیف کا نمازوں کو ذمہ دار ٹھہرانا ایسے ہی ہے کہ کہا جائے فلاں پلئیر اچھا نہی کھیلا کیوں کہ اس کی ٹوپی نیلے رنگ کی تھی۔

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #12

    پاکستان کی موجودہ ٹیم کا نام میانوالی الیون ہونا چاھیے ۔ صرف چند مذید ھیرے میانوالی کی کوئلہ کان سے مل جائیں تو بارہواں کھلاڑی بھی کہیں اور سے لینے کی ضرورت نہیں ۔ میرٹ پہ کھلاڑیوں کو رکھنا پڑتا ہے اور آج کل میرٹ میانوالی سے شروع ہو کر مینوالی تک ختم ہو جاتا ہے ۔ لعنتیوں نے کوئ شعبہ معاف نہیں کیا جہاں فین کلب نہ کھولا ہو ۔

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #13
    مقصد کرکٹ کی بہتری ہونا چاہیئے یا زیادہ سے زیادہ ٹیمیں بنا کر زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کی نوکری کا بندوبست کرنا ۔ پہلے ۱۵ ٹیمیں تھیں جن میں ہر ٹیم کے پاس ایک یا دو اچھے پلئیر ہوتے تھے۔ کوئی بھی نتھو خیرا ایک دو کو چھوڑ کر وکٹوں کے انبار لگا دیتا تھا۔ اور کوئی بھی بیٹسمین ایک آدھ بالر کو چھوڑ کر باقیوں کی پھینٹی لگاتا تھا۔ اب پانچ ٹیمیں ہیں جہاں ہر ایک کے پاس ملک کی کریم ہے اور مقابلہ بھی اچھا ہوتا ہے اور پھر ان کی سیکنڈ الیون ہیں جو ڈپارٹمنٹل ٹیموں سے بھی سٹرانگ ہیں۔ ان کے نیچے ریجنل اور کلب ہیں۔ اچھے کھلاڑی مقابلے سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ رزلٹس دو چار سال بعد دیکھنے کو ملیں گے ابھی نہی۔ پاکستان کا اصل مسئلہ نئے اچھے فاسٹ بالرز کا کال ہے۔ حارث رؤف، حسنین ، موسی یا نسیم شاہ کے پاس کسی حد تک سپیڈ تو ہے لیکن سونگ کا ہنر اور لائن لینگتھ نہی ہے۔ پہلے جیسے بالرز ہوتے تو نیوزی لینڈ میں ۲۸۰ بھی بہت ہوتا۔ ڈومسٹک وکٹس پر تو شاید سپنر کچھ کر جائیں لیکن بیرون ملک پاکستان ۲۰ وکٹیں لینے کے قابل نہی ہے۔ باقی ان سیف کا نمازوں کو ذمہ دار ٹھہرانا ایسے ہی ہے کہ کہا جائے فلاں پلئیر اچھا نہی کھیلا کیوں کہ اس کی ٹوپی نیلے رنگ کی تھی۔

    شاہد بھائی محیشت کے شوھبے میں آپ کو کمال حاصل ہے مگر میں نہیں سمجھتا کرکٹ میں بھی ایسا ہے – آج ہر آدمی جو کرکٹ کو سمجھتا ہے اس کا یہی خیال ہے کہ کرکٹ کو اس نئے نظام نے تباہ کر دیا ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہے – جب کرکٹ میں پیسہ زیادہ نہیں تھا تو انڈین ٹیم ہم سے بھی بری تھی اور ہم نے اسے اتنی بار ہرایا کہ اس کے کھلاڑی ہم سے کھیلنے سے ڈرتے تھے – انڈین پریمیئر لیگ کے آنے سے انڈین کرکٹ پر دولت نچھاور ہونے لگی – دنیا کے بہترین کھلاڑی کوچ ٹرینر فیزیشن نے انڈیا میں ڈیرے لگا لئے اور انڈیا کے کونے کونے سے ٹیلنٹ پکڑ کر کوچ ان پر کام کرنے لگے – تیز ہٹ کرنے والے وکٹ پر ٹھہرنے والے ہر طرح کے پلیئرز کے بڑے بڑے پولز تیار ہونے لگے – یہ پولز اتنے مظبوط ہیں کہ انڈیا کے اے ٹیم جس میں کوئی مشهور کھلاڑی نہیں تھا اس نے آسٹریلیا کو چند دن پہلے اپنے ہی ملک میں دھول چٹا دی – یہ ہوتی ہے پیسے سے مظبوط کھلاڑیوں کو ایسا تیار کرنا کہ کسی بھی کھلاڑی کے آنے جانے سے ٹیم کی کارکردگی پر کوئی اثر نہ پڑے – جہاں تک آسٹریلیا اور انگلینڈ کی بات ہے تو وہاں کاؤنٹی کرکٹ کو بہت پیسے ملتے ہیں – خود بقول خان صاحب کے انہوں نے کاؤنٹی کرکٹ کھیل کر بنی گالا کا محل بنایا – اگر صوبے اور شہر کی تنظیموں کے پاس آسٹریلیا اور انگلینڈ کی طرز پر بڑے فنڈ ہوتے تو اس نئے نظام میں کوئی خرابی نہیں تھی مگر کھلاڑیوں کو بغیر کسی فنڈ کے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا – وہ دور کوئی اور تھا جب پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں صرف ٹیلنٹ کی بنا پر ورلڈ چیمپئن بن جایا کرتی تھیں – آج کل فٹنس اور کوچنگ کی بہت اہمیت ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے – آج کل محظ ٹیلنٹ سے آپ چند میچ تو جیت سکتے ہیں لیکن انڈیا جیسی ٹیم نہیں بنا سکتے جو پچھلے طویل عرصے سے ہر فارمیٹ میں پہلے یا دوسرے نمبر پر ہے – کرکٹ میں سائنس اور ٹیکنولوجی کے استعمال نے ایشین ٹیموں ( ماسوائے انڈیا ) کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے – آج پاکستان بنگلادیش سری لنکا اور ویسٹ انڈیز جسی غریب قوموں کو کرکٹ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے – جب تک کھلاڑیوں کو پرکشش تنخواہ بونس وغیرہ نہیں ملتے بین الاقوامی معیار کے کھلاڑی پیدا کرنا مشکل ہے – اکا دکا بابر اعظم جیسے قدرتی ٹیلینٹ رکھنے والے کھلاڑی ضرور مل جائیںگے –

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #14
    شاہد بھائی محیشت کے شوھبے میں آپ کو کمال حاصل ہے مگر میں نہیں سمجھتا کرکٹ میں بھی ایسا ہے – آج ہر آدمی جو کرکٹ کو سمجھتا ہے اس کا یہی خیال ہے کہ کرکٹ کو اس نئے نظام نے تباہ کر دیا ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہے – جب کرکٹ میں پیسہ زیادہ نہیں تھا تو انڈین ٹیم ہم سے بھی بری تھی اور ہم نے اسے اتنی بار ہرایا کہ اس کے کھلاڑی ہم سے کھیلنے سے ڈرتے تھے – انڈین پریمیئر لیگ کے آنے سے انڈین کرکٹ پر دولت نچھاور ہونے لگی – دنیا کے بہترین کھلاڑی کوچ ٹرینر فیزیشن نے انڈیا میں ڈیرے لگا لئے اور انڈیا کے کونے کونے سے ٹیلنٹ پکڑ کر کوچ ان پر کام کرنے لگے – تیز ہٹ کرنے والے وکٹ پر ٹھہرنے والے ہر طرح کے پلیئرز کے بڑے بڑے پولز تیار ہونے لگے – یہ پولز اتنے مظبوط ہیں کہ انڈیا کے اے ٹیم جس میں کوئی مشهور کھلاڑی نہیں تھا اس نے آسٹریلیا کو چند دن پہلے اپنے ہی ملک میں دھول چٹا دی – یہ ہوتی ہے پیسے سے مظبوط کھلاڑیوں کو ایسا تیار کرنا کہ کسی بھی کھلاڑی کے آنے جانے سے ٹیم کی کارکردگی پر کوئی اثر نہ پڑے – جہاں تک آسٹریلیا اور انگلینڈ کی بات ہے تو وہاں کاؤنٹی کرکٹ کو بہت پیسے ملتے ہیں – خود بقول خان صاحب کے انہوں نے کاؤنٹی کرکٹ کھیل کر بنی گالا کا محل بنایا – اگر صوبے اور شہر کی تنظیموں کے پاس آسٹریلیا اور انگلینڈ کی طرز پر بڑے فنڈ ہوتے تو اس نئے نظام میں کوئی خرابی نہیں تھی مگر کھلاڑیوں کو بغیر کسی فنڈ کے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا – وہ دور کوئی اور تھا جب پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں صرف ٹیلنٹ کی بنا پر ورلڈ چیمپئن بن جایا کرتی تھیں – آج کل فٹنس اور کوچنگ کی بہت اہمیت ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے – آج کل محظ ٹیلنٹ سے آپ چند میچ تو جیت سکتے ہیں لیکن انڈیا جیسی ٹیم نہیں بنا سکتے جو پچھلے طویل عرصے سے ہر فارمیٹ میں پہلے یا دوسرے نمبر پر ہے – کرکٹ میں سائنس اور ٹیکنولوجی کے استعمال نے ایشین ٹیموں ( ماسوائے انڈیا ) کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے – آج پاکستان بنگلادیش سری لنکا اور ویسٹ انڈیز جسی غریب قوموں کو کرکٹ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے – جب تک کھلاڑیوں کو پرکشش تنخواہ بونس وغیرہ نہیں ملتے بین الاقوامی معیار کے کھلاڑی پیدا کرنا مشکل ہے – اکا دکا بابر اعظم جیسے قدرتی ٹیلینٹ رکھنے والے کھلاڑی ضرور مل جائیںگے –

    اعوان بھائی، میں نے کب پیسے کی وقعت سے انکار کیا ہے۔ اس وقت جو پلیئر فرسٹ کلاس کھیل رہا ہے وہ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کے کھلاڑیوں سے تین گنا زیادہ پیسے کما رہا ہے۔ کم از کم ماہانہ تنخواہ دو لاکھ ہے جبکہ بنکوں میں یہ اچھےنوجوان کھلاڑی فرسٹ گریڈ آفیسر کی تنخواہ لیتے تھے۔ میں کرکٹ کا ایکسپرٹ تو نہی لیکن انٹر یونیورسٹی ٹیم کا کپتان تھا اور ایک میچ رمیز راجہ کے خلاف بھی کھیلا ہوا ہے۔ ڈپارٹمنٹل سسٹم ہو یا موجودہ پاکستان سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسی ٹیمیں بِگ تھری کا پیسے پر مقابلہ نہی کر سکتے۔ کرکٹ میں ستر فیصد پیسہ انڈیا سے کھیلنے میں ہے جس سے ہم محروم ہیں۔ لیکن پیسے کے ساتھ ساتھ دوسری اہم چیز ٹیلنٹ کو پالش کرنا ہے اور یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہماری ڈومیسٹک میں سخت مقابلہ ہو۔ ہمارے پاس کوئی پچاس کے قریب اچھے کھلاڑی ہیں انہیں چھ ٹیموں میں تقسیم کرو گے تو اچھی ٹیمیں بنیں گی، اٹھارہ میں تقسیم کرو تو ہر ٹیم میں دو تین ہی کام کے کھلاڑی ہونگے۔ پہلے ہی ہماری فرسٹ کلاس اور انٹرنیشنل سٹینڈرڈ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن اگر فرسٹ کلاس کمزور ہوگی تو یہ فرق بہت زیادہ ہو جائے گا۔ پہلے ہم انڈیا سے اپنے سسٹم کی وجہ سے نہی بلکہ صرف اس لئے جیتتے تھے کہ یا تو ان کے پاس باؤلر نہی تھے یا پھر اس لئے کہ ہمارے کھلاڑی ہر سال کاؤنٹی کھیلتے تھے۔

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #15
    اعوان بھائی، میں نے کب پیسے کی وقعت سے انکار کیا ہے۔ اس وقت جو پلیئر فرسٹ کلاس کھیل رہا ہے وہ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کے کھلاڑیوں سے تین گنا زیادہ پیسے کما رہا ہے۔ کم از کم ماہانہ تنخواہ دو لاکھ ہے جبکہ بنکوں میں یہ اچھےنوجوان کھلاڑی فرسٹ گریڈ آفیسر کی تنخواہ لیتے تھے۔ میں کرکٹ کا ایکسپرٹ تو نہی لیکن انٹر یونیورسٹی ٹیم کا کپتان تھا اور ایک میچ رمیز راجہ کے خلاف بھی کھیلا ہوا ہے۔ ڈپارٹمنٹل سسٹم ہو یا موجودہ پاکستان سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسی ٹیمیں بِگ تھری کا پیسے پر مقابلہ نہی کر سکتے۔ کرکٹ میں ستر فیصد پیسہ انڈیا سے کھیلنے میں ہے جس سے ہم محروم ہیں۔ لیکن پیسے کے ساتھ ساتھ دوسری اہم چیز ٹیلنٹ کو پالش کرنا ہے اور یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہماری ڈومیسٹک میں سخت مقابلہ ہو۔ ہمارے پاس کوئی پچاس کے قریب اچھے کھلاڑی ہیں انہیں چھ ٹیموں میں تقسیم کرو گے تو اچھی ٹیمیں بنیں گی، اٹھارہ میں تقسیم کرو تو ہر ٹیم میں دو تین ہی کام کے کھلاڑی ہونگے۔ پہلے ہی ہماری فرسٹ کلاس اور انٹرنیشنل سٹینڈرڈ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن اگر فرسٹ کلاس کمزور ہوگی تو یہ فرق بہت زیادہ ہو جائے گا۔ پہلے ہم انڈیا سے اپنے سسٹم کی وجہ سے نہی بلکہ صرف اس لئے جیتتے تھے کہ یا تو ان کے پاس باؤلر نہی تھے یا پھر اس لئے کہ ہمارے کھلاڑی ہر سال کاؤنٹی کھیلتے تھے۔

    شاہد بھائی ہماری کرکٹ میں بہت پیسہ ہوتا اگر مشرف کی مہربانی سے ہمارے ملک میں دھماکے نہ ہو رہے ہوتے – اس برے امن و امان کی وجہ سے دس سال ملک میں بین الاقوامی کرکٹ بند رہی – اپنے ملک میں کرکٹ سے نو جوانوں میں بہت جوش بڑھتا ہے اور معیاری کھلاڑی آتے ہیں – پاکستان پریمیئر لیگ ہی پہلے شروع ہو گئی ہوتی تو بھی بورڈ کے پاس پیسے کی ریل پیل ہوتی – بھلا ہو نجم سیٹھی کا ورنہ اس حکومت کے بس کی بات نہیں تھی پاکستان سپر لیگ – اب ائستہ ائستہ ہماری لیگ انڈین لیگ کے بھد سب سے بڑی لیگ بنتی جا رہی ہے – اس پیسے کو نچلے درجے پر کھلاڑیوں کی تربیت کے لئے استعمال کرنا چاہئے – ڈیپارٹمنٹ کی کرکٹ ایک سہارا ہے نوجوان غریب گھروں سے آنے والوں کے لئے – ایک بار ہمارے بورڈ کے پاس انڈیا کا بیس فیصد بھی پیسہ آ گیا تو ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی اتنی اہمیت نہیں رہے گی بورڈ اپنا پیسہ نوجوانوں پر خرچ کر کے انہیں روزگار کے مسلے سے نکال سکتا ہے – ہمیں پاکستان سپر لیگ دیکھنے والوں کی تحداد پاکستان سےباہر بڑھانی چاہئے – مغربی ملکوں میں انڈیا پریمیئر لیگ گوروں کے چینلز پر دکھائی جاتی ہے ہمیں بھی بین الاقوامی میڈیا منجمنٹ سیکھنی ہو گی – پاکستان کرکٹ کا دور رس مستقبل روشن ہے – اگلے چند سال میں ہمارا رینکنگ میں کسی بھی فارمیٹ میں پہلی پانچ ٹیموں میں آنا مشکل ہے ٹی ٹوینٹی میں ہم بہتر ہیں مگر ٹیسٹ اور ون ڈے میں ہمارے پاس عالمی معیار کے کھلاڑی نہیں ہیں ایک بابر اعظم کے علاوہ نہ کوئی اور مچ ونر بولر ہے نہ بیٹسمین – امید کرتا ہوں دو تین سال بھد سب ٹیمیں بھی پاکستان آنے لگیں گی اور کرکٹ بورڈ کی آمدنی بھی بڑھے گی جو کرکٹ انفرا اسٹرکچر اور نوجوان کرکٹرز پر خرچ ہو سکے گا –

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #16

    پاکستانی کرکٹ ٹیم کو روحانی ٹریننگ اور گراؤنڈ میں سجدوں سے زیادہ جسمانی ٹریننگ کی ضرورت ہے تب ہر میچ جیت سکتے ہیں –  ورنہ  بیوقوفوں کو کیا پتا اگر ایسے دم درود سے چھکے   چوکے لگتے تو آج سب سے زیادہ  ورلڈ کپ ان کے پاس ہوتے   … کوئی بھی کھلاڑی ففٹی یا سنچری کر کے گراؤنڈ میں بڑے  فخر سے انڈا ہوتا ہے اور اس کے بعد پھر ساری عمر ٹیم پر بوجھ بن جاتا ہے ..

    کک باکسر
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #17
    اعوان بھائی، میں نے کب پیسے کی وقعت سے انکار کیا ہے۔ اس وقت جو پلیئر فرسٹ کلاس کھیل رہا ہے وہ ڈپارٹمنٹل ٹیموں کے کھلاڑیوں سے تین گنا زیادہ پیسے کما رہا ہے۔ کم از کم ماہانہ تنخواہ دو لاکھ ہے جبکہ بنکوں میں یہ اچھےنوجوان کھلاڑی فرسٹ گریڈ آفیسر کی تنخواہ لیتے تھے۔ میں کرکٹ کا ایکسپرٹ تو نہی لیکن انٹر یونیورسٹی ٹیم کا کپتان تھا اور ایک میچ رمیز راجہ کے خلاف بھی کھیلا ہوا ہے۔ ڈپارٹمنٹل سسٹم ہو یا موجودہ پاکستان سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسی ٹیمیں بِگ تھری کا پیسے پر مقابلہ نہی کر سکتے۔ کرکٹ میں ستر فیصد پیسہ انڈیا سے کھیلنے میں ہے جس سے ہم محروم ہیں۔ لیکن پیسے کے ساتھ ساتھ دوسری اہم چیز ٹیلنٹ کو پالش کرنا ہے اور یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہماری ڈومیسٹک میں سخت مقابلہ ہو۔ ہمارے پاس کوئی پچاس کے قریب اچھے کھلاڑی ہیں انہیں چھ ٹیموں میں تقسیم کرو گے تو اچھی ٹیمیں بنیں گی، اٹھارہ میں تقسیم کرو تو ہر ٹیم میں دو تین ہی کام کے کھلاڑی ہونگے۔ پہلے ہی ہماری فرسٹ کلاس اور انٹرنیشنل سٹینڈرڈ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن اگر فرسٹ کلاس کمزور ہوگی تو یہ فرق بہت زیادہ ہو جائے گا۔ پہلے ہم انڈیا سے اپنے سسٹم کی وجہ سے نہی بلکہ صرف اس لئے جیتتے تھے کہ یا تو ان کے پاس باؤلر نہی تھے یا پھر اس لئے کہ ہمارے کھلاڑی ہر سال کاؤنٹی کھیلتے تھے۔

    یہاں جو لوگ پاکستان کی ہار پر ماتم کر رہے تھے اب جنوبی افریقہ کے خلاف جیت پر ان کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟ آسکنگ فار اے فرینڈ 

    :thinking:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #18
    یہاں جو لوگ پاکستان کی ہار پر ماتم کر رہے تھے اب جنوبی افریقہ کے خلاف جیت پر ان کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟ آسکنگ فار اے فرینڈ :thinking:

    سوال تو جائز ہے
    غمگین تھے، جشن بھی تو بنتا ہے فراز
    مخلص ہوتا نہیں ہر ماتم کرنے والا

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #19
    یہاں جو لوگ پاکستان کی ہار پر ماتم کر رہے تھے اب جنوبی افریقہ کے خلاف جیت پر ان کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟ آسکنگ فار اے فرینڈ :thinking:

    کک باکسر sahib

    محترم کک باکسر صاحب

    میں اپنی تنقید کو ماتم تو نہیں کہوں گا گو آپ میری تنقید کو ماتم کہنے کا حق رکھتے ہیں

    میں ابھی بھی اس بات پر قائم ہوں کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اچھی نہیں ہے. جنوبی افریقہ کے خلاف گو ہم ٹیسٹ سیریز جیت گئے مگر ہماری کارکردگی اتنی متاثر کن نہیں تھی میری نظر میں. جنوبی افریقہ کی ٹیم میں کافی ایسے کھلاڑی ہیں جن کا تجربہ ابھی کم ہے اور ہماری دوسرے ٹیسٹ میں جیت ہار میں بھی تبدیل ہو سکتی تھی

    میرے خیال میں ہمارے پاس متبادل کھلاڑی بھی کوئی خاص نہیں ہیں. یاسر، عابد، اظہر ‘، فواد، نعمان کی عمریں اب اس جانب ہیں جہاں وہ کچھ سالوں کے بعد شاید اس سطح پر کرکٹ نہ کھیل سکیں . ہمارے پاس کوئی اچھا اسپنر نہیں ہے ، نہ شروع کے بلا باز . اگر رضوان اور کسی حد تک فہیم سکور نہ کرتے تو ہمارے لئے جیتنا ممکن نہیں تھا

    ہمارے تیز رفتار بالرز کی کھیپ بھی کوئی متاثر کن نہیں ہے .

    ہم جب تک مستقل بنیادوں پر اس کھیل کی ترویج اور اس میں اپنے کھلاڑیوں کی تربیت کا انتظام نہیں کرتے حالات مستقبل میں شائد مزید خراب ہو جائیں

    اس کو ماتم کہیں ، نوحہ کہیں، تنقید کہیں، منفی سوچ کہیں ، میرے رویہ میں لچک کی کمی کہیں کچھ بھی کہیں. میں ہار جیت سے زیادہ اس بات پر توجہ دیتا ہوں کے کیا ہم جیتنے کے قابل ہیں یا ہم نے جیتنے کی کوشش کی

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #20

    آج اس مینوالی الیون کی جو درگت جنوبی افریقہ لگا رہا ہے ، وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ شرم کا مقام ہے کہ 23 کروڑ میں سے ابھی تک صرف 45 سالہ افتخار اور 37 سالہ نعمان ہی دریافت کر سکے ہیں ۔ جو سیاسی مداخلت انتظامیہ میں ہوئ اور اپنے دوستوں کو نوازا گیا ہے اس نے ان جھوٹوں کا بھید کھول کر رکھ دیا ہے ۔

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 21 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi