- Anjaan (25)
- SaleemRaza (25)
- Qarar (9)
- الشرطہ (9)
- Ghost Protocol (7)
Forum Replies Created
-
AuthorPosts
-
14 Nov, 2016 at 5:14 pm #17سمارٹ گائے کول بھائی آپکا فائدہ کیا تھا. اب آپ خود ہی مستقل مہمانوں کو بھگتیں
Mehman tu khus naseeb logo ke yaha aate hain…ham hazir hain sir ji khidmat ke liye
12 Nov, 2016 at 11:48 am #12اگر آپ میزبان اور انکے بچوں کیلیے گفٹ لیکر جائیں گی تو پھر یہ آفر آپ کیلیے بھی ہےبھائی کس کے بچے…پڑوسیوں کے ؟؟؟؟؟
12 Nov, 2016 at 11:38 am #11یہ آفر محدود مدت اور محدود لوگوں کے لئے ہے کیا ؟نہیں جی یہ آفر سبھی لوگوں کے لئے ہیں اور محدود مدّت کے لئے بھی نہیں ہے
12 Nov, 2016 at 11:33 am #20کچھ تعاون بیوی اس مشکل میں فرمائے گی کیا یہ غزل سننے تلک خاموش رہ پائے گی کیا
کیوں مجھے کوسے ہے اتنا، کون سمجھائے اسے قسمتوں کا کھیل ہے، قسمت پہ پچھتائے گی کیا
ہائے! کتنا بولتی ہے، سب سکوں غارت ہوا دو گھڑی خاموش بیٹھے گی تو مر جائے گی کیا
کیا کروں! اس کو سمجھ آتی نہیں کوئی بھی بات کیسے سمجھاؤں اسے کچھ، وہ سمجھ پائے گی کیا
پک گیا پک پک سے اتنا، دم ہی نکلا جائے ہے کھا گئی بھیجہ مرا، اب مجھ کو کھا جائے گی کیا
دور سے بھی تو میں سن سکتا ہوں سب باتیں تری کان کن کے جیسا اب کانوں میں گھس جائے گی کیا
کان دو ہیں اور زباں اک، صاف ہے حکمت، مگر کھوپڑی میں اس کے یہ حکمت کبھی آئے گی کیا
اس کے کانوں کو اگر ہوتی زباں تو پوچھتے تو کبھی ہم کو بھی استعمال میں لائے گی کیا
اس کے آگے اس کے جیسا آ گیا کوئی اگر شوکت اس سے پوچھ وہ برداشت کر پائے گی کیا
از شوکت پرویز
Hafeez bhai…pori kitab hi khol di apne tu….
11 Nov, 2016 at 6:28 pm #3معلوم نہیں عورت ملٹی ٹاسک ہے ..الله نے اسے یہ صلاحیت اسی لئے دی ہے کہ اسے معلوم تھا کہ عورت کو کن کن مسائل سے نمٹنا ہےAgree with you
11 Nov, 2016 at 5:43 pm #6ایک کسان نے اپنے دس کے دس بچوں کو ایک قطار میں کھڑا کیا ہوا تھا اور ان سے تفتیش ہورہی تھی کہ “بتاؤ چھت پر رکھے ڈرم کو کس نے دھکا دے کر سیڑھیوں سے نیچے گرایا ؟ ” کسی بچے نے کوئی جواب نہ دیا کسان نے پھر زور دے کے پوچھا ” ڈرم کو کس نے دھکا دے کر سیڑھیوں سے نیچے گرایا تھا؟” ایک بار پھر کسی نے جواب نہ دیا کسان نے کہا ” ٹھیک ہے میں ایک کہانی سناتا ہوں ایک تھا بادشاہ اور ایک تھا اس کا بیٹا شہزادہ ایک دن شہزادے نے کلہاڑے سے بادشاہ کا پسندیدہ سیب کا درخت کاٹ دیا بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے سب سے پوچھا کہ درخت کس نے کاٹا ؟ شہزادے نے سچ بولا کہ اس نے درخت کاٹا بادشاہ اس کے سچ بولنے پر خوش ہوا اور اس کو کوئی سزا نہ دی اور اس کو معاف کردیا اب بتاؤ کہ ڈرم کو دھکا کس نے دیا تھا؟ یہ سن کر سب سے چھوٹا بیٹا بول پڑا کہ ڈرم کو اس نے دھکا دیا تھا کسان نے آگے بڑھ کر بیٹے کو دو تین تھپڑ لگا دیے تھپڑ کھا کر معصوم بیٹا رونے لگ گیا اور اپنے سرخ انار جیسے گال سہلاتا ہوا بولا ” شہزادہ نے سچ بولا اس کو سزا نہیں ملی میں نے سچ بولا تو مجھے سزا کیوں؟ ” ,,,, کسان نے جواب دیا” جس وقت شہزادے نے درخت کاٹا تھا بادشاہ درخت کے اندر تو نہیں تھا ناں.11 Nov, 2016 at 10:55 am #8اس سال ابھی تک کراچی کے آٹھ چکر لگ چکے ہیں، کراچی والے دوست و رشتہ دار اب تو پوچھنے لگے ہیں کہ کتنے دنوں کیلئے کوئٹہ جارہے ہو؟؟ یقین مانیں اگر کراچی میں ہوتا تو آج ضرور آپکے ساتھ جاوید نہاری پر ملاقات ہوتی، خیر!! یار زندہ صحبت باش۔INSHALLAH jab bhi ain tu mulaqat hogi….
10 Nov, 2016 at 7:45 pm #6اگر آپ نے اس کارِ خیر کا ارادہ کرہی لیا ہے تو تاریخ بتادیں تاکہ میں پہلے سے پہنچ کر دال روٹی کا آرڈر دے کر مٹن کڑاہی کھاسکوں۔سر جی خادم اپکا حاضر ہے…..آپ تشریف لیے اگر کراچی میں ہیں تو ………
10 Nov, 2016 at 7:12 pm #4یہ محض کہانی ہی ہے۔ راولپنڈی کا کون سا ایسا عوامی ریسٹورینٹ ہے جہاں بندہ سارے لوگوں کو مٹن کڑاہی کھلانے کی ہمت کرسکے؟؟ اور اگر یہ عوامی ریسٹورنٹ نہیں بلکہ کوئی مہنگا ریسٹورینٹ تھا تو یہ بڑے میاں اور ان کی بیوی یہاں کیا کررہے تھے؟؟ غور طلب معاملہ یہ ہے کہ دال روٹی کھانے اس ہوٹل میں کیوں آئے؟؟ ساری زندگی اگر میاں بیوی اکٹھے رہے ہوں تو دال گھر میں بنانا کیا مشکل تھا؟؟ یہ کہانی کافی عرصہ قبل جب پہلی بار پڑھی تو ذہن میں یہی خیال آیا کہ یہ کہانی ہمارے نسیم حجازی سماج سدھار ٹائپ لکھاریوں کے ذہن کا کرشمہ ہے اور کچھ نہیں، اسی قسم کے رائٹرز جو محمود غزنوی اور ابدالی کی آپس دشمنی پر نظر ڈالے بغیر ان میں سے مجاہدِ اسلام برامد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن جب قاری حقائق کھوجتا ہے تو اسے اچکوں اور ٹھگوں کے علاوہ کسی اور کا چہرہ نظر نہیں آتا ۔wese aesa resturant kash hame bhi mile
10 Nov, 2016 at 10:52 am #16شامی بھائی زاہد کا تو پتہ نہیں پر صابری والا کبھی گریبی نہیں دیتا تھا زاہد کی بھی نہاری اچھی تھی اب پتہ نہیں سولہ سترہ سال سے نہیں گیا پر ممتاز کی نہاری ہوتی تھی چھوٹا میدان میں وہ بھی بہت زبردست ہوتی تھی اور سمن آباد چورنگی پر مزیدار حلیم والا ہوتا تھا اس کی حلیم کا کوئی جواب نہیں تھا ادھرکینڈا میں یہ چیزیں گھر تو بن سکتی ہے پر ریسٹورینٹ میں وہ بات نہیں ہے کوئی بندہ ادھر کا ہو تو بتاے کسی اچھی جگہ کا
ممتاز اور صابری اب پیچھے رہ گئے ہیں….زیادہ تر لوگ جاوید….زاہد….دہلی سوھیل والے کو ہی ترجیح دیتے ہیں…مزیدار حلیم ابھی بھی پوری آبو تاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور ماشاللہ کافی ترقی کی ہیں فاسٹ فوڈ ….پاے …نہاری …بار بی کیو ………بھی ہے اب اسکے پاس
9 Nov, 2016 at 5:41 pm #5لگتا ہے پرچہ کسی بابا ٹھرکی نے بنایا ہےمجیب ار رحمان شامی چچا نے تو نہیں لکھا کہیں ؟؟؟؟
9 Nov, 2016 at 3:56 pm #8زاہد کی نہاری بھی اچھی ہے وہا ں سے زیادہ تروہاں سے پارسل ہی پکڑا ہے ، جاوید کی نہاری سے پارسل اور کھانے کا کافی تجربہ رہا ہے شام میں جب بھی گزرنا ہوتا تھا تو دو اسپیشل پکڑ لو – بھیجہ اور نلی سپرٹ بیگ میں ، گھر آ کر ابّا حضور سے ڈانٹ کے گھر میں کھانا پکا ہوا تھا ، سر جھکا کر ڈانٹ سن لو اس کے بعد گھر کا سالن غیر محسوس طریقے سے برکت پکڑتا ہوا فرج میں ، اور پھر نہاری ، جس میں ابا حضور بھی آگے آگے ، ماشاللہ — اکثر بحث ہوتی تھی کے جاوید بہتر ہے یا صابر یا زاہد اب جب بھی کراچی جانا ہوتا ہے تو جاوید اور صابر کی نہاری تو لازمی ہےصابر کی نہاری میں اب وہ بات نہیں رہی جو ابھی بھی جاوید اور زاہد کی نہاری میں ہے ……اس پوسٹ سے یاد آیا کے جاوید کی نہاری کھاے ہووے کافی دن ہووے…..بناتے ہیں پروگرام پھر
9 Nov, 2016 at 3:27 pm #5مجھے پیغام کے ساتھ ساتھ مصنف کی جزیات نگاری بھی بہت پسند آئ تو سوچا شئیر کر دوںبہت اچھا کیا جناب
9 Nov, 2016 at 3:01 pm #6اپنے یونیورسٹی کے دنو ں میں ڈیلی کا لنچ جاوید کی نہاری میں ہی ہوتا تھا – پانچ دوست ، بیس روپے پر بندا ، ایک پلیٹ ساٹھ روپے ، آٹھ یا دس روٹیاں ، اور پھر گریبی کی فرمائش جب تک پاپی پیٹ بھر نہ جائے – کبھی کسی نے منع بھی نہی کیا تھا کہ بھائی جی یہ آپ کی تیسری یا چوتھی گریبی ہےہاں زاہد والا گریبی دینے میں نخرے کرتا ہے……مگر جاوید نہاری والا تو کمال ہے
9 Nov, 2016 at 2:59 pm #22جناب اس فورم پر یہ لطیفہ پہلے ہی گھسا جا چکا ہےاچھا جناب غلطی ہوگیی …….آئندہ احتیاط رکھوں گا
9 Nov, 2016 at 2:10 pm #20کبھی کسی اندھے کا مذاق نہ کریں .. ایک اندھا آدمی ایک فائیو سٹار ھوٹل میں گیا! ھوٹل منیجر نے اس سے پوچھا: – یہ ھمارا مینو ھے ، آپ کیا لیں گے سر؟ اندھا آدمی: – میں اندھا ھوں،آپ مجھےاپنےکچن سے،چمچہ کوکھانےکےاشیاء میں ڈبوكر لا دیں،میں اسےسونگھ کر،آرڈر کر دوں گا! منیجر کو یہ سن کربڑی حیرانی ھوئی،اس نے دل ھی دل میں سوچا کہ،کوئی آدمی سونگھ كر کیسے بتا سکتا ھےکہ ھم نےآج کیا بنایا ھے،کیا پکایا ھے منیجر نے جتنی بار بھی،اپنے الگ الگ کھانے کی اشیاء میں،چمچہ ڈبوكر،اندھےآدمی کو سنگھایا، اندھے نےصحیح بتایا کہ وہ کیا ھے اور اندھے نے سونگھ کر ھی کھانے کا آرڈرکیا ھفتے بھر یہی چلتا رھا …… اندھا سونگھ كر،آرڈردیتا اورکھانا کھا کرچلا جاتا! ایک دن منیجر نے،اندھے آدمی کی امتحان لینےکی سوچی کہ یہ ایک اندھا آدمی سونگھ كر کس طرح بتا سکتا ھے؟
منیجر کچن میں گیا اوراپنی بیوی حنا سے بولا کہ تم چمچہ کواپنے هونٹوں سےگیلا کردو….حنا نے چائے کےچمچے کواپنے ہونٹوں پررگڑکر منیجرکو دے دیا. منیجر نے وہ چائے کا چمچہ اندھےآدمی کو لے جا کردیااور بولا بتاو آج ھم نےکیا بنایا ھے؟
اندھے آدمی نےچمچہ کو سونگھااوربولا: اوہ مائی گاڈ میری كلاسمیٹ حنا یہاں کام کرتی ھے؟؟؟؟؟
9 Nov, 2016 at 10:48 am #4Source ٭کھانوں کے بارے میں بی بی سی اردو کی سیریز کی ساتویں قسط نہاری کے بارے میں ہے۔ آگ کی تپش مصالحوں کی آمیزش اور بیف۔ ایک عام سا فارمولا لیکن نتیجہ ایک مشہور ڈش۔ لیس دار شوربہ اور ساتھ میں ایک بڑی سے بوٹی یہ ہے نہاری کا پکوان جو کراچی کے ہر علاقے میں دستیاب ہے۔ ٭ میاں جی کی دال ٭ ‘اصل تِکہ تو پشاور کا ہی ہے’ ٭ چپلی کباب خیبر پختونخوا کی پہچان ٭ ‘بریانی کے بغیر ہر تقریب ادھوری’ ٭ سری پائے کھانے کے لیے نیند کی قربانی لازمی’ ٭ گوجرانوالہ: آدھی آبادی کھانا بنانے، آدھی کھانے میں مصروف نہاری کی ابتدا دہلی کے مغلوں سے ہوئی یا لکھنؤ کے نوابوں سے۔ فوجیوں کے لیے پہلے بنائی گئی یا سخت جان کام لینے کے لیے مزدوروں کے لیے تیار ہوئی اس پر مختلف آرا اور حوالے موجود ہیں، لیکن کراچی میں یہ قیام پاکستان کے بعد پھلی پھولی اور پھیلی ہے۔ کراچی میں نہاری کا شوق اور کاروبار کس تیزی کے ساتھ بڑھا ہے اس کی مثال فیڈرل بی ایریا میں واقع جاوید نہاری ریسٹورنٹ سے مل سکتی ہے۔ محمد جاوید میاں نے 40 سال قبل فٹ پاتھ سے نہاری اور روٹی کا کاروبار شروع کیا اور آج ایک بارونق ہوٹل کے مالک ہیں۔ ان کے مطابق وہ ساڑھے چار فٹ کا ہوٹل تھا جس میں وہ آٹے کی خالی بوریاں بچھاتے اور ٹین کی آٹھ کرسیاں رکھ کر گاہکوں کا انتظار کرتے تھے۔ نہاری اور روٹی دونوں ہی وہ خود بناتے تھے۔ انھوں نے محنت کی اور کام اچھا چل پڑا اس کے بعد 120 گز جگہ لی جہاں دس سال کام کیا اور اب اس مقام پر پندرہ سال ہوچکے ہیں۔ ویسے مصالحہ جات اور بیف کے استعمال کی وجہ سے نہاری ایک گرم پکوان ہے، لیکن سردی ہو یا گرمی نہاری کی فروخت بارہ مہینے جاری رہتی ہے۔ بقول محمد جاوید ‘یہ غریب آئٹم ہے، شوربے والی چیز ہے اور اس میں ذائقہ بھی ہے اگر کوئی ایک پلیٹ لیتا ہے تو میاں بیوی اور چار بچے باآسانی پیٹ بھر کھا لیتے ہیں اگر کسی کباب تکے کی دکان پر بیٹھ جائیں تو اچھا خاصا بل بن جاتا ہے۔’ جاوید میاں نے جب یہ کاروبار شروع کیا تو اس وقت نہاری کی پلیٹ ڈھائی روپے اور روٹی 50 پیسے کی ہوتی تھی اور آج فی پلیٹ قیمت 140 رپے اور روٹی دس روپے تک پہنچ چکی ہے۔ نہاری میں بونگ اور ران کا گوشت استعماال ہوتا ہے۔ تیاری کے بعد اس کے شوربے میں گوشت کے علاوہ میں مغز اور نلی کا گودہ ڈال کر اسے ‘سپیشل’ بنا دیا جاتاہے جس سے اس کا ذائقہ اور قیمت دونوں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کراچی میں نہاری کا شوق اور کاروبار کس تیزی کے ساتھ بڑھا ہے اس کی مثال فیڈرل بی ایریا میں واقع جاوید نہاری ریسٹورنٹ سے مل سکتی ہے نہاری صبح کا ناشتہ ہے تو دوپہر اور رات کا کھانا بھی۔ ان ہوٹلوں میں صبح کو طالب علم ، دوپہر کو مزدور تو رات کو لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ نہاری کھانے پہنچتے ہیں۔ محمد طلحہ اپنی ہم جماعت دوستوں کے ہمراہ نہاری کھانے آئے تھے۔ ‘نہاری اچھی بھی لگتی ہے اور سستی بھی پڑتی ہے اس وجہ سے ہم ‘گیٹ ٹوگیدر’ کے لیے نہاری کھانے آجاتے ہیں۔ آج دوست کی برتھ ڈے ہے سوچا اس دن کو بھی منا لیں گے اور نہاری بھی کھا لیں گے۔ کراچی کے حالات نہاری کے کاروبار پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں، اگر شہر میں ڈبل سوار پر پابندی ہے تو نہاری کم بنتی ہے کیونکہ یہاں آنے والے لوگ زیادہ تر موٹر سائیکل سوار ہوتے ہیں۔ اگر اچانک حالات خراب ہوجائیں تو تیار نہاری کو ڈیپ فریزر میں رکھ دیا جاتا ہے کیونکہ صبح دیگ چڑھ چکی ہوتی ہے اس کو درمیان میں روکا نہیں جاسکتا۔ جاوید نہاری ریسٹورنٹ میں دو دو من کی دو دیگیں لگی ہوئی ہیں جو 24 گھنٹوں میں دو بار پکتی ہیں یعنی جو نہاری صبح تیار ہوتی ہے وہ شام تک پک کر قابل استعمال ہوتی ہے اور جو شام کو بنتی ہے وہ صبح کے لیے ہوتی، ایک دیگ کو تیار ہونے میں کم از کم چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ نہاری کی تیاری کے لیے سب سے پہلے گھی ڈال کی کٹی ہوئی پیاز ڈالی جاتی ہے، اس پر لہسن کا پانی شامل کیا جاتا ہے اس کے بعد گوشت ڈلتا ہے جس کو آدھا گھنٹے تک بھونا جاتا ہے۔ اس کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے وقفے کے ساتھ نمک، مرچ، زیرہ، سونف، گرم مصالحہ اور پانی ڈال کر دیگ کو بند کر دیا جاتا ہے۔ کراچی میں نہاری کے تمام ہی ریستورانوں پر غریبوں کو وہی کوالٹی کی نہاری اور نان مفت بھی ملتے ہیں حیدرآباد کے رہائشی محمد شریف کراچی کی نہاری کو پسند کرتے ہیں۔ بقول ان کے حیدرآباد سے صبح سات بجے نکلتے ہیں اور خواہش ہوتی ہے کہ یہاں کی نہاری کھائیں اس کے بعد وسطی شہر میں واقع جوڑیا بازار جاتے ہیں اور واپسی پر گھر والوں کے لیے لے کر جاتے ہیں۔ نہاری ایک اچھا کاروبار ہے، محمد جاوید میاں کا آدھا خاندان اس سے منسلک ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بدتمیز کام بھی ہے۔’کوئی آتا ہے یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے والد کے عمر کا شخص ہے۔ آواز لگاتا ہے اے روٹی لا یہ فیشن ہے یہاں کا’ اور یہ انھیں برا لگتا ہے۔ کراچی میں نہاری کے تمام ہی ریستورانوں پر غریبوں کو وہی کوالٹی کی نہاری اور نان مفت بھی ملتے ہیں۔ صاحب حیثیت لوگ ہوٹل کے مالک کو ادائیگی کر کے ٹارگٹ دے دیتے ہیں کہ اتنے لوگوں کو آج روٹی کھلانی ہے اور انھیں ہوٹل کے باہر ہی یہ سروس فراہم کی جاتی ہے جبکہ جاوید نہاری کی انتظامیہ انھیں پارسل کر کے دیتی ہے۔پانی آگیا موں میں…..جاوید …صابری…زاہد….نہاری ان….دہلی سھیل …..کیا بات ہے نہاری کی ……
9 Nov, 2016 at 10:25 am #10فورم بنانے کا سزاوار آپکا یہی خادم ہے اوردیگر دوستوں کا تعارف بھی ایک الگ تھریڈ میں کروا دیتا ہوں تاکہ سب کو پتہ چل جائے۔ ویسے مجھے سمجھ نہیں اآئی کہ آپ تو پی ٹی آئی کے جانثاروں میں شمار ہوتے تھے پھر پی ٹی آئی کے فورم سے علیحدگی اختیار کرنے کی وجہ کیا بنی؟؟بھائی خادم یہ اچھا ہی کیا……..نہیں میں پی ٹی آئی کا جانثار ہوں نہ کسی اور پارٹی کا …..کراچی سے ہوں….ہاں ایک دفع گیا تھا پی ٹی آئی کے جلسے میں اچھا ٹائم پاس ہوا تھا…….ہاں بوری اور پپپی والے انکل کو ووٹ ڈالتا رہا ہوں
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
-
AuthorPosts