Viewing 6 posts - 1 through 6 (of 6 total)
  • Author
    Posts
  • GeoG
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    BlackSheep

    We keep talking about reducing current account deficit but at what cost!!!

    this is the cost…

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    جیو جی بھائی جی

    تھریڈ کھولنے کا بہت شکریہ

    آج پھر فکری بیوہ کو فوجیوں کے بوٹ چاٹتے دیکھ کر فورم والے اپنا ویکینڈ انجوائے کریں گے

    :hilar: :bhangra: :disco:

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #3

    We keep talking about reducing current account deficit but at what cost!!!

    this is the cost…

    بندہ پروَر۔۔۔۔۔

    مجھے ابھی تک یہ پروگرام دیکھنے کا موقع نہیں ملا ہے۔۔۔۔۔ ذرا فرصت ملتے ہی دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔

    مگر میرے خیال میں مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ آپ کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔

    دو عدد نکات کو ابھی تک آپ کُلی طور پر یہ سمجھ نہیں آسکے ہیں۔۔۔۔۔

    پہلا یہ کہ معاشی صورتحال بہت حد تک گھمبیر ہے(تھی) اور اِس کی بڑی حد تک ذمہ داری نون لیگ کی پالیسیوں پر آتی ہے۔۔۔۔۔ کیوں یہ نکتہ سمجھ نہیں آسکا شاید عشقِ شریف وجہ ہو۔۔۔۔۔

    دوسرا نکتہ یہ کہ اکثر اوقات آپ کو دو برائیوں میں سے ایک برائی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے یعنی چُوزنگ دی لَیسر اِیول۔۔۔۔۔ اور یہ نکتہ عموماً وہ لوگ بالکل نہیں سمجھ پاتے جو ہر معاملے کو ایک مثالیت پسند عینک سے دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں دو ہی آپشن ہوتے ہیں، ایک اچھا اور ایک بُرا، اور ہمیشہ اچھے آپشن کو چُننا چاہئے۔۔۔۔۔

    پسِ تحریر۔۔۔۔۔

    حیرت مجھے اِس بات پر ہے معیشت کے معاملے پر اتنی گفتگو ہونے کے بعد بھی آپ کے دل سے شریفانہ ارمانوں کا نکلنا جاری و ساری ہے۔۔۔۔۔

    ;-) :) ;-)

    GeoG
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #4
    بندہ پروَر۔۔۔۔۔ مجھے ابھی تک یہ پروگرام دیکھنے کا موقع نہیں ملا ہے۔۔۔۔۔ ذرا فرصت ملتے ہی دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔ مگر میرے خیال میں مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ آپ کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔ دو عدد نکات کو ابھی تک آپ کُلی طور پر یہ سمجھ نہیں آسکے ہیں۔۔۔۔۔ پہلا یہ کہ معاشی صورتحال بہت حد تک گھمبیر ہے(تھی) اور اِس کی بڑی حد تک ذمہ داری نون لیگ کی پالیسیوں پر آتی ہے۔۔۔۔۔ کیوں یہ نکتہ سمجھ نہیں آسکا شاید عشقِ شریف وجہ ہو۔۔۔۔۔ دوسرا نکتہ یہ کہ اکثر اوقات آپ کو دو برائیوں میں سے ایک برائی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے یعنی چُوزنگ دی لَیسر اِیول۔۔۔۔۔ اور یہ نکتہ عموماً وہ لوگ بالکل نہیں سمجھ پاتے جو ہر معاملے کو ایک مثالیت پسند عینک سے دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں دو ہی آپشن ہوتے ہیں، ایک اچھا اور ایک بُرا، اور ہمیشہ اچھے آپشن کو چُننا چاہئے۔۔۔۔۔ پسِ تحریر۔۔۔۔۔ حیرت مجھے اِس بات پر ہے معیشت کے معاملے پر اتنی گفتگو ہونے کے بعد بھی آپ کے دل سے شریفانہ ارمانوں کا نکلنا جاری و ساری ہے۔۔۔۔۔ ;-) :) ;-)

    Forgive me for my assumption that you had an open mind

    :bigsmile:

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #5
    Forgive me for my assumption that you had an open mind
    :bigsmile:

    جیو جی۔۔۔۔۔

    اوپن مائنڈ ہے یا کلوز مائنڈ۔۔۔۔۔ علم نہیں۔۔۔۔۔

    لیکن جب مَیں یہاں متعلقہ سوال اٹھاتا ہوں تو عموماً لوگ جواب دینے سے کتراتے ہیں۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کیوں۔۔۔۔۔

    ;-) :) ;-)

    جب مَیں یہ پروگرام دیکھ لوں گا تو ضرور بات کریں گے۔۔۔۔۔

    مگر یہ ٹی وی مذاکرہ دیکھے بغیر بھی کچھ نکات کے بارے میں اندازہ ہے کہ کیا بات ہوئی ہوگی۔۔۔۔۔

    کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر اشفاق حسن صاحب کا ایک کلپ بھی شاہد صاحب نے لگایا تھا۔۔۔۔۔ مجھے اُس کلپ میں سب سے حیرت انگیز بات یہ لگی تھی کہ اشفاق حسن صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کو جانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے اور اِدھر اُدھر سے ہی ڈالر اکھٹے کر کے بیلنس آف پیمنٹ کے مسئلہ سے عارضی طور پر باہر نکلا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔ اُس وقت بھی مَیں نے یہ کہا تھا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوگا۔۔۔۔۔ یہ جو اِدھر اُدھر(خلیجی ملکوں سے اور سکوک یورو بانڈز کے اجراء کے ذریعے) سے ڈالر لینے کی بات ہے تو کیا خلیجی ممالک آپ کو اتنی آرام سے امیریکہ کی مخالفت کرتے ہوئے ڈالرز دے دیں گے۔۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب ایک ماہرِ معیشت تو ہیں لیکن میرے خیال میں بین الاقوامی سیاست بھی اِن معاملات پر کافی بڑا کردار ادا کرتی ہے۔۔۔۔۔ اور ڈاکٹر صاحب بین الاقوامی سیاست کے ماہر شاید نہیں ہیں۔۔۔۔۔

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    جیو جی۔۔۔۔۔ اوپن مائنڈ ہے یا کلوز مائنڈ۔۔۔۔۔ علم نہیں۔۔۔۔۔ لیکن جب مَیں یہاں متعلقہ سوال اٹھاتا ہوں تو عموماً لوگ جواب دینے سے کتراتے ہیں۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کیوں۔۔۔۔۔ ;-) :) ;-) جب مَیں یہ پروگرام دیکھ لوں گا تو ضرور بات کریں گے۔۔۔۔۔ مگر یہ ٹی وی مذاکرہ دیکھے بغیر بھی کچھ نکات کے بارے میں اندازہ ہے کہ کیا بات ہوئی ہوگی۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر اشفاق حسن صاحب کا ایک کلپ بھی شاہد صاحب نے لگایا تھا۔۔۔۔۔ مجھے اُس کلپ میں سب سے حیرت انگیز بات یہ لگی تھی کہ اشفاق حسن صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کو جانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے اور اِدھر اُدھر سے ہی ڈالر اکھٹے کر کے بیلنس آف پیمنٹ کے مسئلہ سے عارضی طور پر باہر نکلا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔ اُس وقت بھی مَیں نے یہ کہا تھا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوگا۔۔۔۔۔ یہ جو اِدھر اُدھر(خلیجی ملکوں سے اور سکوک یورو بانڈز کے اجراء کے ذریعے) سے ڈالر لینے کی بات ہے تو کیا خلیجی ممالک آپ کو اتنی آرام سے امیریکہ کی مخالفت کرتے ہوئے ڈالرز دے دیں گے۔۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب ایک ماہرِ معیشت تو ہیں لیکن میرے خیال میں بین الاقوامی سیاست بھی اِن معاملات پر کافی بڑا کردار ادا کرتی ہے۔۔۔۔۔ اور ڈاکٹر صاحب بین الاقوامی سیاست کے ماہر شاید نہیں ہیں۔۔۔۔۔

    بلیک شیپ صاحب۔
    فنانس منسٹری میں کوئی درجن بھر اچھے معیشت دان بیٹھے ہیں، حکومت کی ایک اکنامک کونسل بھی ہے جس میں پاکستان کے ٹاپ دس بارہ اکانومسٹ بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر شمشاد، شوکت ترین، ڈاکٹر عشرت، رزاق داؤد، عاطف میاں کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے نام ہیں جن میں سے ہر ایک کا یہی کہنا تھا اور ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پاس گئے بغیر سروائیو نہی کر سکتا۔
    اور پھر بات صرف پہلے سال کی ۲۰ سے ۲۵ ارب ڈالر کی فنانسنگ کی نہی تھی۔ موجودہ حکومت کو پہلے تین سال ۱۰ ارب سالانہ کی قسط اور ڈیفیسٹ فنانسنگ کے لئے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے جو کہ عالمی اداروں کی مدد کے بغیر پوری نہی ہو سکتی۔ میرے خیال میں ڈاکٹر اشفاق حسن کچھ بچگانہ باتیں کر رہے کہ ان کی نظرمعیشت کے صرف مقامی عناصر پر ہے اور وہ بھی صرف چند ایک چیزوں پر۔
    امپورٹس پر ’ممکن حد تک‘ قدغن لگانے کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ میں آٹھ دس ارب ڈالر سے زیادہ کمی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ ڈیفیسٹ میں مزید کمی امپورٹ میں کٹ کی بجائے ایکسپورٹ میں اضافہ کر کے، فارن انویسٹمنٹ اور ریمیٹنس بڑھا کر یا منی لانڈرنگ (بمعہ انڈر انوائسنگ) روک کرحاصل نا کی جائے اور اس مد میں کوششوں کے باوجود کوئی بڑی تبدیلی فی الحال نظر نہی آرہی۔

    .
    اگر اوپن مائینڈ اور غیر جانبداری کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت کسی بھی صورت میں روپئے کو ۱۴۰ سے زیادہ ڈی ویلیو نہی کرنا چاہتی تھی لیکن آج کی آئی ایم ایف ۲۰۱۳ کی آئی ایم ایف کے مقابل سیاسی اور معاشی دونوں زاویوں سے مختلف رویہ رکھتی تھی۔ ۲۰۱۳ میں ڈیفیسٹ اڑھائی ارب تھا اور قرضوں کی قسط تین ارب ڈالر۔ اس لئے آئی ایم ایف کا رویہ خالص معاشی اعشاریوں کی بدولت بھی کہیں زیادہ نرم تھا۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو تبدیلیاں آئی ہیں ان میں کچھ تو ناگزیر تھیں اور کچھ باقی عالمی اداروں کا مطالبہ ہے جسے ماننا پاکستان کی مجبوری تھا۔

    .

    میری نظر میں موجودہ حکومت کو پاکستان ہر لحاظ سے معاشی مشکلات میں گھِرا ہوا ملا ہے۔ بات صرف کرنٹ اکاؤنٹ کی ہوتی تو مسائل شاید اس قدر زیادہ نہ ہوتے لیکن اندرونی طور پر بھی حالت اتنی ہی خراب ہے جتنی کہ بیرونی محاذ پر۔ جتنا ٹیکس اکٹھا ہورہا ہے(۳۹۰۰ ارب) وہ صرف سود اور دفاع کے اخراجات پر ہی پورا بیٹھتا ہے۔ صوبوں کو دینے کے لئے ۲۵۰۰ ارب، ڈویلپمنٹ کے لئے ۸۰۰ ارب اور کارِ سرکار کے لئے ۴۵۰ ارب ادھار پر پورے ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا کرنٹ اکاؤنٹ میں آٹھ دس ارب ڈالر کی کمی کر لینا اور ٹیکس کالیکشن کو ۳۹۰۰ سے ۵۵۰۰ ارب تک لے جانے کی کوششوں کو دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی کامیابیاں ہیں۔ ایک ہی سال میں اتنا بڑا ٹیکس ریوینئو میں اضافہ شاید ناممکن ہو لیکن اگر یہ ۵۰۰۰ ارب بھی اکٹھا کر لیں تو یہ ن لیگ کے سالانہ اضافوں کے مقابل تین گنا بڑا اضافہ ہوگا۔

    .

    ہمارا تیسرا انتہائی گھمبیر اور اہم مسئلہ پرائیویٹ بچتوں کا ہماری جی ڈی پی کا صرف دس فیصد ہونا ہے جبکہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں بچتیں جی ڈی پی کے تیس فیصد تک ہیں۔ بچتوں کے کم ہونے کی وجہ سے بنکوں کے پاس بزنس فنانسنگ کے لئے پیسہ ہی نہی ہے۔ جو پیسہ موجود ہوتا ہے اس کا ۸۰ فیصد تو حکومت ادھار میں لے جاتی ہے اور انڈسٹری اور ہاؤسنگ وغیرہ کے لئے بہت کم پیسہ بچتا ہے۔ یہ پیسہ اتنا کم ہے کہ بنک کسی ایسے بزنس کو فنانس کرنے کے لئے راضی نہی ہوتے جہاں رتی بھر بھی رسک ہو۔ ایمنسٹی سکیم سے بنکوں میں ایک ہزار ارب کے نئے ڈپازٹ آئے ہیں لیکن اصل مسئلہ جس کا کچھ سدِباب لازم ہے وہ ہے بزنسز کا اپنا منافع ڈکلئیر نہ کرنا اور پھر اس بلیک منی کو بنکوں میں رکھنے کی بجائے ریل سٹیٹ میں لگا دینا۔ اس سے گھروں کی قیمتیں کئی گنا ہو گئیں، بنکوں میں بچت کا پیسہ نہی آیا اور ٹیکس ریوینئو کا نقصان بھی ہوا۔ مجھے مشورہ دینا ہوتا تو کہتا کہ پچھلے پانچ سال میں ایک حد سے مہنگی جتنی بھی پراپرٹی کی ڈیلز رجسٹر ہوئیں ہیں (جو کہ کھربوں میں ہیں ) ان خریداروں کو کہا جائے کہ ’ رسیداں وکھاؤ‘ ورنہ اڈیالہ جیل جاؤ۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
Viewing 6 posts - 1 through 6 (of 6 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward