Viewing 20 posts - 141 through 160 (of 239 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #141

    میں نے پہلے بھی یہ بات کی ہے کہ ہندومعاشرتی اقدار ، رہن سہن ، تہذیب و تمدن اور ان کے سماجی رویوں پر مسلمانوں اور اسلام کا کافی اثر ہے .. اس میں محمود غزنوی کے مندر توڑنے کے واقعات سے لیکر دو قومی نظریہ تک بہت سے عوامل شامل ہیں … …. ہندوں نے قانون کو ہاتھ میں لے کر غلط کیا .. لیکن آپ کو صدیوں سے چلی ہندو مسلمان دشمنی نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ یہ واقعہ ہوا … چلو واقعہ ہو ہی گیا ..ہندوں نے غلط کر دیا …… ایک مسجد ہی کم ہو گی تھی … کون سا قیامت آ گئی تھی .. مسلمان تو بڑی شعور والی قوم ہے ان کو برداشت کر لینا چاہے اور پیچھے ہٹ جانا چاہے تھا … … اسلامی دنیا مسجدوں سے بھری ہوئی ہے۔ حتی کہ یوروپ اور امریکہ میں بھی مسلمانوں کا سب سے زیادہ زور مسجدوں کی تعمیر پر ہے۔ لیکن کبھی مسلمانوں نے اتنا زور اپنے بچوں کی تعلیم پر دیا ہوتا تو آج یہ سارے کہ سارے مسلمان جاہل نہ ہوتے … آپ کو پاکستان میں بھی یہ مسجدوں والے تنازے ملیں گے … لیکن اندر نمازی ایک بھی نہیں ہو گا …. پاکستان کو ہی دیکھ لو ہر گلی کے نکڑ پر مسجد ہے .. مسلمان ہر جگہ کو اپنی جاگیر سمجتھے ہیں … اور شائد مسلمانوں کی انہی عادتوں کی وجہ سے ہندوں بھی اوکتا گے ہیں …

    جی پی صاحب آپ پڑھے لکھے با شعور آدمی ہو .. آپ کو بھی معلوم ہونا چاہے کہ مسلمانوں کے زوال کی وجہ بھی یہی مسجدیں ہیں … جن میں بیٹھ کر عوام و ناس کو گھمرہ کرتے رہتے ہیں .. ان مسجدوں کی جگہ اگر اسکول ہسپتال بنا دیے جایں تو کیا ہی اچھا ہو

    انسیف صاحب،
    گفتگو میں سب سے زیادہ کوفت مجھے ہوتی ہے جب ہوائی فائرنگ شروع ہو جاتی ہے
    آپ سے گزارش ہے کہ نکتہ بہ نکتہ گفتگو کریں اور جن نقاط کو میں نے قوٹ کیا ہے اسکا جواب دیں – پھر دیگر باتیں بھی کرلیتے ہیں

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #142
    یار بندا کم از کم نوٹس دے دیتا ہے ، کمینے گرم چائے پیتے ہوئے فوار لیپ ٹاپ پر نکل گئی ، شکر ہے بچت ہو گئی

    آپ یہاں سوشل سائنس ، فلاسفی ، ہوم اکنامس ڈالنا بھول گئے

    ان سیف کی قلابازیاں دیکھ کر مجھے دلیر خان کی بیوی یاد آ گئی

    دلیر خان ایک سرکس میں شیروں کے ٹرینر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ایک روز صبح ناشتہ کرتے ہوئے بیگم سےتکرار ہوگئی۔ دلیر خان کو غصہ آگیا اور وہ ناشتہ چھوڑ کر سرکس چلے گئے۔ بیگم بھی غصے میں آگ بگولہ تھیں۔ انہوں نے بھی شوہر کو روکا نہیں۔ شام کو اچانک دھواں دار بارش شروع ہوگئی۔ دلیر خان کا غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا آج رات گھر نہیں جاوں گا۔ چنانچہ وہ شیر کے ساتھ ہی پنجرے میں لیٹ گئے اور کمبل تان کے سو گئے۔ رات زیادہ گزر گئی تو گھر پر بیگم کو تشویش ہوئی۔ موبائل پر رابطہ کیا لیکن دلیر خان گہری نیند سو رہے تھے۔ فون سنا ہی نہیں۔ بیگم کی پریشانی عروج پر پہنچ گئی۔ انہوں نے کار نکالی اور خود ڈرائیو کرکے سرکس جا پہنچیں۔ دیکھا دلیر خان شیر کے پنجرے میں خرانٹے لے رہے ہیں۔ بیگم نے ایک چھڑی اٹھائی اور ڈرتے ڈرتے پنجرے کے قریب گئیں اور چھڑی اپنے شوہر کو چبھوتے ہوئے بولیں۔ ” ڈرپوک، بزدل کہیں کے، یہاں چھپے بیٹھے ہو ؟؟

    ر اسکا انکار محض اپنے سر کو ریت میں دھنسانے کے برابر ہے آپ جیسی اہل علم شخصیت جس کو مذاھب ، معاشرت ، تاریخ اور سائنس پر عبور حاصل ہو اور وہ ہندووں میں مذھب کے نام پر تشدد کے واقعات سے لا علم ہو ، ایسا ہو نہیں سکتا آپ جب ان واقعات کو نظر انداز کریں گے تو کہیں نہ کہیں اپنے ذہنی تعصبات کو چھپانے میں ناکام رہیں گے بابری مسجد کے حوالے سے

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #143

    … یہ ووہی تشدد ہے جو شروع سے مسلمانوں کے ذہنوں میں فیٹ کر دیا وہ ہر مسلے کا ھل تشدد میں سمجتھے ہیں

    ۔

    آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے یہ ۔۔۔ افغانی کپڑوں میں تشدد ۔۔۔۔ پا ک فوج ۔۔۔۔ جنگ روس کے وقت ۔۔۔۔ ایجاد کیا ۔۔۔۔۔

    جو مجا ھدین سے لیکر طا لبان اور پھر دھشت گردوں تک ۔۔۔۔۔ ترقی کی منا زل طے کرتا رھا ۔۔۔۔

    یہ وہ افغانی کپڑوں میں ۔۔۔ تشدد ہے ۔۔۔۔ جو پا ک فوج نے شروع کیا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ جس کی فنڈ نگ ۔۔۔ گلوبل طاقتوں نے کی ۔۔۔۔

    اور انہی گلوبل طا قتوں ۔۔۔ کو  ملحدین ۔۔۔ سجدے کرتے اور ان گلوبل طاقتوں کے دودھ پر ملحد ین زندہ ہے ۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #144

    ہندوں میں خالد یا فیصل خان کی طرح کے افراد نہیں ہیں اگر ہوتے تو آپ کو ذاکر نائیک نہیں ملتا … جو ان کی کتابوں میں اس وہاں کے لوگوں کو مسلمان کرتا ہے …. باقی وہاں پہ انتہا پسند ہندوں ضرور ہیں …

    کیا آپ نہیں سمجتھے کہ اگر متحدہ ہندوستان ہوتا تو ہجرت کے وقت جو خون ریزی ہوئی وہ نہ ہوتی .. بابری مسجد والا واقعہ بھی نہ ہوتا … اور انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کی جان بھی پاکستانی مسلمانوں کی وجہ سے عذاب میں نہ بنتی … بات کرنے کا مقصد یہی ہے انڈیا میں جو انتہا پسند ہندوں پیدا ہیں ان کا مائنڈ سائٹ بھی مسلمانوں کی عادت و اتوار اور رویوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے

    چلیں غیر محفوظ صاحب، میں آپ کی مشکل آسان کر دیتا ہوں ۔

    نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
    ڈبویا مجھکو ہونے نے ، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #145
    انسیف صاحب، گفتگو میں سب سے زیادہ کوفت مجھے ہوتی ہے جب ہوائی فائرنگ شروع ہو جاتی ہے آپ سے گزارش ہے کہ نکتہ بہ نکتہ گفتگو کریں اور جن نقاط کو میں نے قوٹ کیا ہے اسکا جواب دیں – پھر دیگر باتیں بھی کرلیتے ہیں

    جی پی بھائی آپ کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہیندوں نے کس قانون کے تحت بابری مسجد کو شہید کیا .. تو اس کا تفصیلی جواب میں پہلے دے چکا ہوں .. لیکن پھر بھی  بیان کرنا چاہوں گا کہ شائد آپ کے علم میں یہ بات نہ ہو ہندو دھرم کے مطابق ایودھیا شہر کو رام کی جاے پدائیش مانا جاتا ہے … چناچہ یہ مقام ہندوں کے نزدیک ووہی تقدس رکھتا جو مسلمانوں کے نزدیک کعبہ … اب مسلمانوں نے اسلام آباد میں ہندووں کو تو مندر نہیں بنانے دیا .. یا پھر کعبے میں مشرک تو داخل نہیں ہو سکتے … لیکن ہندوں کی مقدس سر زمین پر مسجد کیسے بنی …. تو اس کی وجہ یہ ہے جب مغلوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس جگہ مندر مجود تھا جس کو توڑ کر مغل سالار نے مغل بادشاہ بابر کے نام پر مسجد بنائی … امید ہے آپ کو وہ قانون سمجھ آ گیا ہو گے .. یہی ووہی قانون ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے یہاں پر مسجد غیر قانونی طریقے سے بنائی

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #146
    ۔ آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے یہ ۔۔۔ افغانی کپڑوں میں تشدد ۔۔۔۔ پا ک فوج ۔۔۔۔ جنگ روس کے وقت ۔۔۔۔ ایجاد کیا ۔۔۔۔۔ جو مجا ھدین سے لیکر طا لبان اور پھر دھشت گردوں تک ۔۔۔۔۔ ترقی کی منا زل طے کرتا رھا ۔۔۔۔ یہ وہ افغانی کپڑوں میں ۔۔۔ تشدد ہے ۔۔۔۔ جو پا ک فوج نے شروع کیا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ جس کی فنڈ نگ ۔۔۔ گلوبل طاقتوں نے کی ۔۔۔۔ اور انہی گلوبل طا قتوں ۔۔۔ کو ملحدین ۔۔۔ سجدے کرتے اور ان گلوبل طاقتوں کے دودھ پر ملحد ین زندہ ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    آج کل ایک ویڈیو بہت وائرل ہے جس میں بیٹا ماں پر تشدد کر رہا ہے …. کیا آپ بتانا پسند کریں گے … یہ کون سی فوج ، ای ایس ای اور گولوبل طاقت کروا رہی ہے

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #147

    جی پی بھائی آپ کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہیندوں نے کس قانون کے تحت بابری مسجد کو شہید کیا .. تو اس کا تفصیلی جواب میں پہلے دے چکا ہوں 

    جی نہیں میرا سوال بابری مسجد نہیں مگر آپکے بیانیہ میں تضاد کی طرف تھا
    آپ کا ارشاد تھا

    کیا میں اپ سے پوچھ سکتا ہوں کیا کسی ہندو نے آج تک کسی دوسرے ہندو یا مسلمان کو اپنے مذہب کی توہین کرنے پر انفرادی طور پر قتل کیا ہے …

    . کہ ہندوں مسلمانوں سے گھٹیا قوم ہی سہی اخلاقیات ، تہذیب و تمدن میں کمتر ہی سہی لیکن آج تک کسی ہندوں نے اپنی مذبی سخصیت کی ناموس میں کسی دوسرے کی جان نہیں لی ..

    بظاہر اس سوال کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذھب کو لے کر رویہ کے درمیان تقابل تھا اور واضح کرنا تھا کہ ہندوؤں میں تشدد کا عنصر شاید مذھب کی تعلیمات کے عین مطابق نا پید اور مسلمانوں میں اسکے بر عکس معاملہ ہے .

    اسکے جواب میں میں نے ہندو مذھب کے نام پر ہونے والے تشدد اور اسکے ماخذ کا ذکر کیا تھا کیا تھا، دلیل پیش کی تھی کہ اسلام کے نام پر ہونے والا تشدد اور ہندو مت کے نام پر ہونے والا تشدد اپنی نوعیت میں ایک ہی قسم کا ہے

    انسیف صاحب، مذھب کے نام پر تشدد اس بات سے منسلک ہے کہ حرمت ،گستاخ اور گستاخی کا تصور کیا ہے . مسلمانوں میں یہ پیغمبروں ، صحابہ, قرآن اور خدا کی حرمت ہے اور اسی کے خلاف کویی عمل گستاخی کہلاتا ہے ہندو مذھب میں یہ حرمت دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ گاے کو حاصل ہے ( اگر کویی صاحب تصحیح کرنا چاہیں تو مشکور رہوں گا )ہندوستان میں بے شمار ایسے واقعات پیش آتے ہیں جہاں گاے کی بے حرمتی پر انسانوں کو قتل کردیا جاتا ہے مسلمانوں کا اپنے تصور گستاخی پر اور ہندووں کا اپنے تصور گستاخی پر آمادہ مائل بہ تشدد ہونا اپنی نوعیت میں ایک ہی عمل ہے اور اسکا انکار محض اپنے سر کو ریت میں دھنسانے کے برابر ہے آپ جیسی اہل علم شخصیت جس کو مذاھب ، معاشرت ، تاریخ اور سائنس پر عبور حاصل ہو اور وہ ہندووں میں مذھب کے نام پر تشدد کے واقعات سے لا علم ہو ، ایسا ہو نہیں سکتا آپ جب ان واقعات کو نظر انداز کریں گے تو کہیں نہ کہیں اپنے ذہنی تعصبات کو چھپانے میں ناکام رہیں گے

    اب آپ کے پاس دو راستے تھے کہ
    ١) آپ میری اس بات سے اختلاف کرتے کہ ہندوؤں میں تشدد کا عنصر موجود نہیں ہے اور اسکے جواب میں کچھ دلیل دیتے .
    ٢) دوسری صورت میں آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے کہ ہندوؤں میں بھی تشدد کا عنصر مسلمانوں سے کم ہی سہی مگر موجود ہے اور مسلمانوں کے مذھب کو لے کر متشددانہ رویہ کا تقابل ہندوؤں سے درست نہیں ہے

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile: مگر آپ نے کیا کیا ، اس نکتہ کو سرے سے نظر انداز کردیا؟

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #148
    unsafe saahib

    یہ لیں آج کی ہی خبر ہے . اس ٹویٹ کے نیچے جاکر پر امن لوگوں کے کمنٹس پڑھئیے

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #149
    جی نہیں میرا سوال بابری مسجد نہیں مگر آپکے بیانیہ میں تضاد کی طرف تھا آپ کا ارشاد تھا بظاہر اس سوال کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذھب کو لے کر رویہ کے درمیان تقابل تھا اور واضح کرنا تھا کہ ہندوؤں میں تشدد کا عنصر شاید مذھب کی تعلیمات کے عین مطابق نا پید اور مسلمانوں میں اسکے بر عکس معاملہ ہے . اسکے جواب میں میں نے ہندو مذھب کے نام پر ہونے والے تشدد اور اسکے ماخذ کا ذکر کیا تھا کیا تھا، دلیل پیش کی تھی کہ اسلام کے نام پر ہونے والا تشدد اور ہندو مت کے نام پر ہونے والا تشدد اپنی نوعیت میں ایک ہی قسم کا ہے اب آپ کے پاس دو راستے تھے کہ ١) آپ میری اس بات سے اختلاف کرتے کہ ہندوؤں میں تشدد کا عنصر موجود نہیں ہے اور اسکے جواب میں کچھ دلیل دیتے . ٢) دوسری صورت میں آپ میری اس بات سے اتفاق کرتے کہ ہندوؤں میں بھی تشدد کا عنصر مسلمانوں سے کم ہی سہی مگر موجود ہے اور مسلمانوں کے مذھب کو لے کر متشددانہ رویہ کا تقابل ہندوؤں سے درست نہیں ہے :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile: مگر آپ نے کیا کیا ، اس نکتہ کو سرے سے نظر انداز کردیا؟

    جی پی بھائی … اپ بجاے معاملے کی تہہ تک پونچنے کے سطحی سوال کر رہے ہیں .. یہ بات آپ نے اور زیدی صاحب نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ہندو مذھب میں تشدد کا عنصر نہیں ہے…. آپ ہندوں کی پرانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ان میں تشدد کا عنصر نہیں پایا جاتا تھا …. آپ کے پاس کوئی پرانی ایسی تشدد کی مثال ہے تو پیش کریں …. .. … برعکس مسلمانوں کے جن کی تعلیمات تشدد پر مبنی ہیں. اور جس دن سے اسلام وجود میں آیا وہ تشدد پر ہی چل رہے ہیں ….. آپ کو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہندوں میں اس تشدد کی وجہ خود مسلمان ، ان کا مذہب ، ان کا سماجی رویہ اور بہت سی نفرت والی باتیں شامل ہیں .. … … .. … امید ہے آپ کو جواب مل گیا ہو …..اپ نے اوپر بلکل ٹھیک ٹوٹر کی مثال دی …مثال میں آپ دیکھ لیں کہ مسلمان نے گاۓ پر چھری نہیں چلائی بلکے ہندو عقائد پر چھری پھیری ہے … پھر بھی دوسرے ہندو نے اس کے سر میں ہوتھوڑا مارا ہے خالد خان کی طرح پورا پستول خالی نہیں کیا …

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #150

    چلیں غیر محفوظ صاحب، میں آپ کی مشکل آسان کر دیتا ہوں ۔

    نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھکو ہونے نے ، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا

    وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
    مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

    آپ کی مشکل غالب نے مسلمان ہونے کے باوجود پہلے ہی حل کی ہوئی تھی کیوں کہ ان کو پتا تھا مسلمانوں میں تعصب اور اسلاف پرستی زیادہ ہے … جس کی وجہ سے یہ ترقی نہیں کر پائیں گے … اگر مسلمان اس شعر کو ہی لے کر چلتے تو شائد آپ نے جو ہندوں میں نفرت کی مثالیں پیش کی ہیں ہجرت کے وقت خون ریزی اور بہت سی باتیں شامل ہیں وہ نہ ہوتی ….

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #151
    unsafe saahib یہ لیں آج کی ہی خبر ہے . اس ٹویٹ کے نیچے جاکر پر امن لوگوں کے کمنٹس پڑھئیے

    گھوسٹ پروٹوکول بھائی

    جس دن آپ کسی فکری بیوہ کو دلیل سے قائل کر لیں گے اس دن الیکٹرا آپ کا ہوا

    :bigsmile: :lol: :hilar:

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #152

    الیکٹرا کرنے والے طارق عزیز صاحب کی بھی کیا کہانی ہے مصوف عمران خان سے بھی بڑے یو ٹرن استاد رہے ہیں … جب پیپل پارٹی کی حکومت تھی تو اس وقت نیلام گھر شروع کر کے جئے بھٹو کے نعرے اپنے پروگام میں لگاتے رہے لیکن جیسے ہی ضیاء الحق نے حکومت پر غیر قانونی شب خون مارا تو بجاے اپنے پروگرام میں فوجی بوٹوں پر تنقید کرنے کے ان کی پالش کرنا شروع کر دی …. جس کی وجہ سے حکومت نے ان کو کافی الیکٹرا دیے … اور دس سال کی بوٹ پالش کے نتیجے میں ان کا پروگرام ضیاالحق جیسی حکومت میں ایک سرکاری چینل پر چلتا رہا …. نواز شریف کی محبت میں سپریم کورٹ پر حملہ کیس میں سزا یافتہ بھی ہیں۔
    ان سارے کرتوتوں کے ساتھ اللہ معاف کرے اور مغفرت فرمائے۔آمین

    اور آج باوا وہی الیکٹرا گھوسٹ پروٹوکول کو دے رہا ہے 

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #153
    آج کل ایک ویڈیو بہت وائرل ہے جس میں بیٹا ماں پر تشدد کر رہا ہے …. کیا آپ بتانا پسند کریں گے … یہ کون سی فوج ، ای ایس ای اور گولوبل طاقت کروا رہی ہے

    ۔

    بیٹے کا ماں پر تشدد ۔۔۔۔ ایک ڈومیسٹک و ائلینس کا واقعہ ہے ۔۔۔۔۔ وہ تو امریکہ میں  بھی ۔۔۔۔۔ اکثر گورے اپنی بیویوں کی پھینٹی لگا دیتے ہیں ۔۔۔

    یہ انسانوں کے گھریلو جھگڑے ہوتے ہیں جو کسی بھی شہر کسی بھی ملک میں ہوسکتے ہیں ۔۔۔

    ۔۔۔۔ ۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    دوسرے بیٹے کے تشد د کرتے وقت میں یہ آپ کو کنفرم کرسکتا ہوں کہ ۔۔۔۔ بیٹے نے بوقت تشدد ۔۔۔ نہ تو افغانی حلیہ اپنا رکھا ہے ۔۔۔۔ نہ وہ شکل سے پٹھان یا افٖغانی لک دے رھا ہے ۔۔۔

    نہ وہ کم عمر۔۔۔۔ غیر میچور لگ رھا ہے ۔۔۔۔۔  بیٹے میں ایسی تمام چیزیں نظر نہیں آرھی ہیں ۔۔۔ جو اکثر ۔۔۔۔ خفیہ ایجنیسوں کے دھشت گردوں ۔۔۔۔  کے مخصوس پیٹرن میں نظر آتی ہیں ۔۔۔

    اور سب سے بڑھ کر بیٹے نے ۔۔۔ بوقت تشد د ۔۔۔۔ شارٹ نیکر ۔۔۔۔ پہنا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ جب کہ خفیہ ایجنسیوں کے طالبان ۔۔۔ دھشت گرد ۔۔۔ خود کش۔۔۔ ھمیشہ ۔۔۔ ستر پوش  پیٹرن میں ۔۔۔۔ تیار کیئے جاتے ہیں ۔۔۔

    ۔ وہ کبھی ننگی ٹانگوں سے  تشدد نہیں کرتے پائے جاتے ۔۔

    چونکہ بیٹے نے ما ں پر تشدد ۔۔۔ نیکر ۔۔۔ پہن کر کیا ہے ۔۔۔ اس لیئے یہ تشد د ۔۔۔ سرکاری تشد د  سے  فنڈ ڈ نہیں ہے ۔۔۔

    ۔۔۔۔

    کیونکہ جو تشد د ۔۔۔ سرکاری فنڈ ڈ ہوتا ہے ۔۔۔ اس کا اپنا ایک مخصوس لباس اور پیٹرن ہوتا ہے جو میں پھر دھرا دیتا ہوں ۔۔۔

    دھشت گرد ۔۔۔ خود کش ۔۔۔ یا عدالتی قاتل ۔۔۔۔ ھمیشہ افغا نی لبا س میں ہوگا ۔۔۔

    اس کے کپڑے اکثر گندے ہونگے ۔۔۔۔ اور اس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی ہوگی ۔۔۔۔

    اس کی عمر کم عمر نوجوان ہوگی ۔۔۔۔

    وہ پشتون بول رھا ہوگا ۔۔۔۔۔

    اس کا تعلق کابل وزیرستان کے نواحی علاقوں سے ہوگا ۔۔۔

    وہ اپنے آپ کو کسی مولوی کا شاگرد ۔۔۔ پیروکار ۔۔  وغیرہ بتا کر ۔۔۔ قتل پر آماد ہ ہونے کی سٹوری سنا رھا ہوگا ۔۔۔

    اس کے قتل کے فوری بعد ۔۔۔ ریلیاں شروع ہوجا ئیں گی ۔۔۔۔

    اس کے قتل ۔۔ عدالت میں داخل ہونے ۔۔۔ میڈ یا پر وائرل ۔۔۔ ہونے ۔۔۔ ریلیاں منعقد ہونے  تک ۔۔۔

    افواج پا کستان ۔۔۔ مکمل خاموش رھیں گی ۔۔۔ اور قاتل کے خلاف ۔۔۔  کاروائی تو درکنار ۔۔۔ ایک لفظ نہ بولیں گی ۔۔۔

    اور افواج پا کستان قاتل کو پورا وقت دیں گی کہ وہ پوری دنیا میں ۔۔۔ مشہور ہوجائے ۔۔۔ ھاٹ ۔۔۔ ہوجائے  اور میڈ یا پر چھا جائے ۔۔۔

    اس کے خاندان محلے کے انٹریو پورے ملک میں پھیل جائیں ۔۔۔ فوری طور پر ۔۔۔ دو تین درجن وکیل اس کا  ۔۔ الم ۔۔۔ اپنے ھا تھ میں لے لیں ۔۔۔۔

    کچہریاں ۔۔۔ وکیل ۔۔۔ نوجوان ۔۔۔ قاتل کی بلا ئیں لے رھے ہوں ۔۔۔۔ قتل و غارت کے بعد ۔۔۔۔ لڈیاں ۔۔۔  ریلیاں ۔۔۔  تماشے چل رھے ہوں۔۔۔

    اور افواج پا کستان ۔۔۔ جی ایچ کیو ۔۔۔  مکمل تما ش بینی کرر ھے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ۔۔۔۔

    بیٹے کے تشدد میں مجھے ایسا  کوئی سرکاری پیٹرن نظر نہیں آیا ۔۔۔۔۔

    ۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #154

    آپ نے تو سارے غازیوں کے خوابوں اور تجلیوں پر پانی پھیر دیا … اور اپنے دوست کو کہو کہ خواب میں بشارت حاصل کرے ….

    کہیں آپ اس دوست سے ہی تو نہیں ڈرتے .. جب بھی کوئی سوال سے ڈائرکٹ سوال پوچھا جاے … ڈارون کا نظریہ ہو جاے یا کوئی اور ٹوپک آپ بات گول مول کر دیتے ہیں

    اگرآپ کا ایسا کوی پلان بنے تو پہلا حق دوستوں کا بنتا ہے

    :bigsmile:

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #155

    جی پی بھائی آپ کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ہیندوں نے کس قانون کے تحت بابری مسجد کو شہید کیا .. تو اس کا تفصیلی جواب میں پہلے دے چکا ہوں .. لیکن پھر بھی بیان کرنا چاہوں گا کہ شائد آپ کے علم میں یہ بات نہ ہو ہندو دھرم کے مطابق ایودھیا شہر کو رام کی جاے پدائیش مانا جاتا ہے … چناچہ یہ مقام ہندوں کے نزدیک ووہی تقدس رکھتا جو مسلمانوں کے نزدیک کعبہ … اب مسلمانوں نے اسلام آباد میں ہندووں کو تو مندر نہیں بنانے دیا .. یا پھر کعبے میں مشرک تو داخل نہیں ہو سکتے … لیکن ہندوں کی مقدس سر زمین پر مسجد کیسے بنی …. تو اس کی وجہ یہ ہے جب مغلوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس جگہ مندر مجود تھا جس کو توڑ کر مغل سالار نے مغل بادشاہ بابر کے نام پر مسجد بنائی … امید ہے آپ کو وہ قانون سمجھ آ گیا ہو گے .. یہی ووہی قانون ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے یہاں پر مسجد غیر قانونی طریقے سے بنائی

    یہ کہانی سچی لگتی ہے کیونکہ مودی نے بھی ایکبار ایسا ہی کہا تھا

    :thinking:

    Akbar Ali
    Participant
    Offline
    • Member
    #156
    یہ کہانی سچی لگتی ہے کیونکہ مودی نے بھی ایکبار ایسا ہی کہا تھا :thinking:

    مودی کو چھوڑیں – کعبہ میں بھی تو بت توڑے گئے تھے

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #157

    رود صاحب، کسی بھی جرم کی سزا کی نوعیت کو طے کرنے کا معاملہ ، جرم کو قابل سزا سمجھنے اور قبول کرنے کے بعد کا عمل ہے ۔ اس مکتبہ فکر کو جرم کی سزا کا تعین کرنے کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے ، جن کے نزدیک وہ جرم ، جرم ہی نہیں ہے ۔ مثلا” مغربی ممالک میں پیغمبروں کی شان میں گستاخی جرم نہیں ہے لہذا اگر میں اس معاشرے میں رہتے ہوئے ان عناصر کا محاسبہ چاہوں جنہوں نے پیغمبروں کے بارے میں گستاخانہ رویہ اپنایا ہوا ہے تو یہ بات کسی بھی طرح اس معاشرے میں قبول نہیں کی جاسکتی ۔

    بات دوبارہ واپس ایک مملکت کے جرم کے دائرے اور سزا کے تعین کے حق پر آجاتی ہے ۔ میں ذاتی طور پر ہم جنس پرستی کو ایک گناہ سمجھتا ہوں لیکن مغربی ممالک میں اس عمل کو جرم تصور نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لیے کسی قانون کو بنانے کی ضرورت محسوس کی گئ ہے ، لیکن جب بھی معاشرے نے اسے جرم قرار دیا اور اس عمل کی روک تھام کی ضرورت محسوس کی گئ ، حکومت کو قانون سازی کرنی پڑے گی اور اسی عمل کو جرم کے زمرے میں شمار کیا جائے گا ۔ جب آپ اپنی اخلاقی قدروں کو بجائے کسی نظم وضبط کے معاشرے کی اجتماعی مرضی پر چھوڑ دیتے ہیں تو پھر کسی بھی آفاقی اصول کو مدنظر نہیں رکھا جاتی اور بیشتر اشتراکی معاشروں میں یہ بات عام ہے اور حکومت کے حق قانون سازی کو مسلمہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔

    پیغمبروں کی شان میں گستاخی پر احتجاج مسلمانوں کا حق ہے ، انہوں نے قانون کے اندر رہتے ہوئے ہی یہ حق استعمال کیا ہے ، اور اسی طرح نقاب پر پابندی کے قانون پر احتجاج کا حق استعمال کیا ہے ۔ کیا یہ حق استعمال کرنا بھی اب منع ہے ؟ اس میں قوانین سے انحراف کب کیا گیا ہے ۔ اور ڈپلومیٹک سطح پر بھی اس سلسلے میں رابطے کیے گئے ہیں اور وہ بھی مقامی قوانین کے مطابق ہیں ۔ کہاں قانون سے اسراف کیا گیا ہے ؟

    آپ کی کشمیر اور بھارت کی مثال اس کیس میں لاگو نہیں آتی کہ وھاں کے معاشی قوانین کو ایک طاقتور غصبیت کے ماتحت وہ قوتیں بناتی ہیں جن کو عوام کی پزیرائ حاصل نہیں ۔ اگر کشمیر کے عوام آج اپنی مرضی سے بھارت کے ساتھ الحاق کرتے ہیں اور اپنے ووٹ کے زریعے بھارت میں رائج قوانین کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر بھارت کے حق قانون سازی کو تسلیم کیے بغیر کوئ اور راستہ نہیں ہے لیکن ایک قبضہ گروپ کو اسکی طاقت کے بل پر کروڑوں لوگوں پر انکی مرضی کے بغیر مسلط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی قانون سازی جس میں عوام کے نمائیندوں کی شرکت نہ ہو ، کسی صورت بھی جائز نہیں ۔ اس کی مثال بالکل ایک ڈکٹیٹر کے مسلط شدہ قانون کی طرح ہوگی جس طرح مشرف کی آمریت یا اس سےپہلے قبضہ گروپ کی پاکستان پر طاقت کے زور پر حکومت کی ہے ۔

    جہاں تک بابری مسجد کی شہادت کی بات ہے تو مسلمانوں نے قانونی راستہ اختیار کیا ہے جبکہ ہندو اس سے پہلے تشدد اور زبردستی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں ، آپ کو مسلمانوں کے احتجاج پہ حکومتی حق کو سمجھانے میں کوئ قباحت نہیں ہے مگر ہندوؤں کے یک طرفہ ، تشدد آمیز ، غیر قانونی مسجد کے انہدام پر کوئ مسئلہ نظر نہیں آتا ۔

    مورل ویلیوز یا اخلاقی قدروں پر بحث کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ، میں بھی آپ سے ان اخلاقی قدروں کے بارے میں سیکھنا چاہتا ہوں جو کسی بھی قوائد اور ضوابط کی پابند نہیں ہیں مگر پھر بھی معاشرے میں برائی سے پرھیز اور اچھائ کا حکم دیتی ہیں

    زیدی صاحب۔۔

    میں بحث ہذا کو صرف اسی نکتہ کے گرد محدود نہیں رکھنا چاہتا کہ کوئی قانون کیسے بنتا ہے اور شہریوں پر اس قانون کی پابندی کرنا کس قدر ضروری ہے، “کیونکہ یہ تو معاملے کو محض سطحی انداز میں دیکھنے والی بات ہوگی۔۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ ہم اس پر بحث کریں کہ کونسا قانون صحیح ہے اور کونسا قانون غلط، کیونکہ “صحیح اور “غلط” بھی سبجیکٹیو ٹرمز ہیں، جن کی کوئی حتمی یا آفاقی تعریف نہیں ہوتی۔ میں چاہتا ہوں ہم اس معاملے کو ذرا گہرائی میں جاکر دیکھیں۔

    انسانی فکر نے طویل ارتقائی سفر میں اجتماعی دانش سے کچھ موٹی موٹی چیزیں سیکھیں ہیں جن کی وجہ سے انسان ماضی قدیم کے زمانہ وحشت کی بہت سی علتوں سے جان چھڑا کر تہذیبِ نو کی تشکیل کرپایا ہے اور جن پر تقریباً سبھی مہذب معاشروں کا اتفاق ہے۔ ان میں سب سے اہم انسانی جان کی قدروقیمت ہے۔ ماضی میں انسان کو غلام بنانا کوئی بڑی بات نہ تھی اور مختلف ثقافتوں میں یہ عام پریکٹس رہی ہے۔ پھر انسانی شعور نے رفتہ رفتہ یہ سمجھ لیا کہ انسان سب ایک جیسے ہیں، محض رنگ نسل کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاسکتی۔کانٹ نے تو فرد، اس کی آزادی اور اختیار کو بہت بلند مرتبے پر فائز کردیا ہے، پر اگر ہم کانٹ سے کلی طور پر اتفاق نہ بھی کریں تب بھی تقریباً تمام مہذب معاشرے آج کے دور میں انسانی جان کی قدر و قیمت ماضی قدیم سے کہیں زیادہ کرنے پر متفق ہیں، قطع نظر اس سے کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہوسکتے ہیں، پر شعوری اور فکری طور  پر مہذب دنیا ایک ہی صفحے پر ہے۔۔

    جب ہٹلر نے نسلی امتیاز پر مبنی نیورمبرگ قوانین بنائے تو یہ انسان کی اجتماعی دانش کے ماحصل کے بالکل الٹ اور ماضی قدیم کی انسانی تذلیل کی روایت کی پاسداری تھی۔ آپ چونکہ بار بار قانون کی پاسداری وغیرہ کی دلیل دے رہے ہیں تو یہاں میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں کیا ہٹلر کے بنائے ہوئے نیورمبرگ قوانین  نے تہذیبِ حاضر کی تعمیر میں حصہ ڈالا یا تخریب میں؟ اور آیاکہ دورِ حاضر کا کوئی باشعور ذہن ان قوانین کی حمایت کرسکتا ہے۔ وہ قوانین جن پر جرمن قوم آج تک شرمندہ ہے۔۔  کیا جرمن قوم اس وقت تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی جب وہ ہٹلر کے نیورمبرگ لاء کی حمایت کررہی تھی اور ہیل ہٹلر کے نعرے لگا رہی تھی یا تب تاریخ کی درست سمت میں تھی جب ان قوانین اور ہٹلر کی سوچ کا داغ اپنے ماتھے سے مٹا کر مہذب قوم کے طور پر سامنے آئی۔۔ اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔۔

    اب آتا ہوں توہینِ اسلام اور توہینِ رسالت کے قوانین پر۔ میری نظر میں دورِ حاضر میں یہ قوانین انسانیت کی تذلیل اور انسانی جان کی قدر و قیمت کی نفی کے مترادف ہیں۔ انسانی جان اتنی بے قدر و قیمت نہیں کہ محض جذبات مجروح ہونے کے نام پر اس کو چھین لیا  جائے۔

    آپ نے میری کشمیر اور ہندوستان والی ریاست کے ضمن میں کہا   

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    آپ کی کشمیر اور بھارت کی مثال اس کیس میں لاگو نہیں آتی کہ وھاں کے معاشی قوانین کو ایک طاقتور غصبیت کے ماتحت وہ قوتیں بناتی ہیں جن کو عوام کی پزیرائ حاصل نہیں ۔ اگر کشمیر کے عوام آج اپنی مرضی سے بھارت کے ساتھ الحاق کرتے ہیں اور اپنے ووٹ کے زریعے بھارت میں رائج قوانین کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر بھارت کے حق قانون سازی کو تسلیم کیے بغیر کوئ اور راستہ نہیں ہے لیکن ایک قبضہ گروپ کو اسکی طاقت کے بل پر کروڑوں لوگوں پر انکی مرضی کے بغیر مسلط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی قانون سازی جس میں عوام کے نمائیندوں کی شرکت نہ ہو ، کسی صورت بھی جائز نہیں ۔ اس کی مثال بالکل ایک ڈکٹیٹر کے مسلط شدہ قانون کی طرح ہوگی جس طرح مشرف کی آمریت یا اس سےپہلے قبضہ گروپ کی پاکستان پر طاقت کے زور پر حکومت کی ہے ۔

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    کیا پاکستان میں احمدیوں پر مسلط شدہ قوانین کے بارے میں بھی آپ کی یہی رائے ہے؟ کیا پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت احمدیوں کیلئے قبضہ گروپ کی حیثیت نہیں رکھتی جو زبردستی ان کے حقوق سلب کرکے بیٹھی ہے۔۔۔؟

    بابری مسجد وغیرہ کے معاملے میں مسلمانوں کے احتجاج پر میں نے اعتراض نہیں اٹھایا ہے، بلکہ سابقہ کمنٹ میں آپ ہی کی دی گئی دلیل (تنقید کی بجائے قانون میں تبدیلی بذریعہ کثرت رائے) کے تحت تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی ہے۔۔۔

    نوٹ۔۔ ایک وضاحت درکار ہے، آپ نے اپنے کمنٹس میں ایک دو بار اشتراکی کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے مجھے ابہام سا ہورہا ہے کہ آپ شاید یورپی معاشروں کے بارے میں یہ لفظ استعمال کررہے ہیں۔؟ ذرا واضح کردیں کہ “اشتراکی” سے آپ کا کن معاشروں کی طرف اشارہ ہے۔۔ 

    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #158

    زیدی صاحب۔۔

    میں بحث ہذا کو صرف اسی نکتہ کے گرد محدود نہیں رکھنا چاہتا کہ کوئی قانون کیسے بنتا ہے اور شہریوں پر اس قانون کی پابندی کرنا کس قدر ضروری ہے، “کیونکہ یہ تو معاملے کو محض سطحی انداز میں دیکھنے والی بات ہوگی۔۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ ہم اس پر بحث کریں کہ کونسا قانون صحیح ہے اور کونسا قانون غلط، کیونکہ “صحیح اور “غلط” بھی سبجیکٹیو ٹرمز ہیں، جن کی کوئی حتمی یا آفاقی تعریف نہیں ہوتی۔ میں چاہتا ہوں ہم اس معاملے کو ذرا گہرائی میں جاکر دیکھیں۔

    انسانی فکر نے طویل ارتقائی سفر میں اجتماعی دانش سے کچھ موٹی موٹی چیزیں سیکھیں ہیں جن کی وجہ سے انسان ماضی قدیم کے زمانہ وحشت کی بہت سی علتوں سے جان چھڑا کر تہذیبِ نو کی تشکیل کرپایا ہے اور جن پر تقریباً سبھی مہذب معاشروں کا اتفاق ہے۔ ان میں سب سے اہم انسانی جان کی قدروقیمت ہے۔ ماضی میں انسان کو غلام بنانا کوئی بڑی بات نہ تھی اور مختلف ثقافتوں میں یہ عام پریکٹس رہی ہے۔ پھر انسانی شعور نے رفتہ رفتہ یہ سمجھ لیا کہ انسان سب ایک جیسے ہیں، محض رنگ نسل کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاسکتی۔کانٹ نے تو فرد، اس کی آزادی اور اختیار کو بہت بلند مرتبے پر فائز کردیا ہے، پر اگر ہم کانٹ سے کلی طور پر اتفاق نہ بھی کریں تب بھی تقریباً تمام مہذب معاشرے آج کے دور میں انسانی جان کی قدر و قیمت ماضی قدیم سے کہیں زیادہ کرنے پر متفق ہیں، قطع نظر اس سے کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہوسکتے ہیں، پر شعوری اور فکری طور پر مہذب دنیا ایک ہی صفحے پر ہے۔۔

    جب ہٹلر نے نسلی امتیاز پر مبنی نیورمبرگ قوانین بنائے تو یہ انسان کی اجتماعی دانش کے ماحصل کے بالکل الٹ اور ماضی قدیم کی انسانی تذلیل کی روایت کی پاسداری تھی۔ آپ چونکہ بار بار قانون کی پاسداری وغیرہ کی دلیل دے رہے ہیں تو یہاں میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں کیا ہٹلر کے بنائے ہوئے نیورمبرگ قوانین نے تہذیبِ حاضر کی تعمیر میں حصہ ڈالا یا تخریب میں؟ اور آیاکہ دورِ حاضر کا کوئی باشعور ذہن ان قوانین کی حمایت کرسکتا ہے۔ وہ قوانین جن پر جرمن قوم آج تک شرمندہ ہے۔۔ کیا جرمن قوم اس وقت تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی جب وہ ہٹلر کے نیورمبرگ لاء کی حمایت کررہی تھی اور ہیل ہٹلر کے نعرے لگا رہی تھی یا تب تاریخ کی درست سمت میں تھی جب ان قوانین اور ہٹلر کی سوچ کا داغ اپنے ماتھے سے مٹا کر مہذب قوم کے طور پر سامنے آئی۔۔ اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔۔

    اب آتا ہوں توہینِ اسلام اور توہینِ رسالت کے قوانین پر۔ میری نظر میں دورِ حاضر میں یہ قوانین انسانیت کی تذلیل اور انسانی جان کی قدر و قیمت کی نفی کے مترادف ہیں۔ انسانی جان اتنی بے قدر و قیمت نہیں کہ محض جذبات مجروح ہونے کے نام پر اس کو چھین لیا جائے۔

    آپ نے میری کشمیر اور ہندوستان والی ریاست کے ضمن میں کہا ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    آپ کی کشمیر اور بھارت کی مثال اس کیس میں لاگو نہیں آتی کہ وھاں کے معاشی قوانین کو ایک طاقتور غصبیت کے ماتحت وہ قوتیں بناتی ہیں جن کو عوام کی پزیرائ حاصل نہیں ۔ اگر کشمیر کے عوام آج اپنی مرضی سے بھارت کے ساتھ الحاق کرتے ہیں اور اپنے ووٹ کے زریعے بھارت میں رائج قوانین کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر بھارت کے حق قانون سازی کو تسلیم کیے بغیر کوئ اور راستہ نہیں ہے لیکن ایک قبضہ گروپ کو اسکی طاقت کے بل پر کروڑوں لوگوں پر انکی مرضی کے بغیر مسلط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی قانون سازی جس میں عوام کے نمائیندوں کی شرکت نہ ہو ، کسی صورت بھی جائز نہیں ۔ اس کی مثال بالکل ایک ڈکٹیٹر کے مسلط شدہ قانون کی طرح ہوگی جس طرح مشرف کی آمریت یا اس سےپہلے قبضہ گروپ کی پاکستان پر طاقت کے زور پر حکومت کی ہے ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    کیا پاکستان میں احمدیوں پر مسلط شدہ قوانین کے بارے میں بھی آپ کی یہی رائے ہے؟ کیا پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت احمدیوں کیلئے قبضہ گروپ کی حیثیت نہیں رکھتی جو زبردستی ان کے حقوق سلب کرکے بیٹھی ہے۔۔۔؟

    بابری مسجد وغیرہ کے معاملے میں مسلمانوں کے احتجاج پر میں نے اعتراض نہیں اٹھایا ہے، بلکہ سابقہ کمنٹ میں آپ ہی کی دی گئی دلیل (تنقید کی بجائے قانون میں تبدیلی بذریعہ کثرت رائے) کے تحت تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی ہے۔۔۔

    نوٹ۔۔ ایک وضاحت درکار ہے، آپ نے اپنے کمنٹس میں ایک دو بار اشتراکی کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے مجھے ابہام سا ہورہا ہے کہ آپ شاید یورپی معاشروں کے بارے میں یہ لفظ استعمال کررہے ہیں۔؟ ذرا واضح کردیں کہ “اشتراکی” سے آپ کا کن معاشروں کی طرف اشارہ ہے۔۔

    آپ نے کشمیریوں کے غاصبانہ قبضہ اور پاکستان میں احمدیوں کے بارے میں آئین میں تبدیلی
    کو باہم ملا دیا ہے ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں احمدی اکثیریت میں ہیں یا کشمیر میں کشمیری ؟ اگر آپ کےنقطہ نظر سے ہی بات کی جائے تو ہر جمہوری حکومت میں اکثیریتی طبقہ ، اقلیتی طبقے پر قبضہ گروپ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ آپ کا اس طرح سوچنے کا انداز بہت دلچسپ ہے ۔ بہترین حل تو پھر یہ بنتا ہے کہ ھر ملک کو اس کے اقلیتی گروپوں کی تعداد کے برابر چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کردیا جائے ، مثلا” امریکہ کو عیسائیت، یہودیت، اسلامیت، دھریت، ھسپینیت، میکسونیت، ھندونیت ، سکھائیت ، آئریشیت، برطانیت، اطالویت، حبشیت، فرانسیت، جرمیت، وغیرہ وغیرہ ملکوں میں بدل دینا چاہیے تاکہ اکثیریت طبقہ ، نامبالغہ کہیں اقلیتی طبقے پر قبضہ گروپ کی صورت اختیار نہ کر لے ۔ اگر آپ اس کے حق میں ہیں تو میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں ۔

    بابری مسجد میں مسلمانوں نے اپنا قانونی حق استعمال کیا ہے جس میں احتجاج اور عدالت کا راستہ ہے ، لہذا آپ کو اس چیز کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ ہندوؤں کے غیر قانونی اور متشدد رویوں کے برعکس ، مسلمانوں نے اقلیت میں رہتے ہوئے اپنے دیے ہوئے حقوق کے تحت ہی اپنا ردعمل دیا ہے ۔

    اس بارے میں ایک دلچسپ بات میں بتانا پسند کروں گا کہ جب بابری مسجد کو انہدام کیا گیا تو کسی نے سعودی عرب کے حکمرانوں سے اس بارے میں پرزور احتجاج کے بارے میں بات کی تو ان کا جواب تھا کہ اگر ہندؤں نے ایک مسجد گرائ ہے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کسی اور جگہ نماز پڑھنے کے لیے ایک کی بجائے دو مساجد بنا لیں ۔ اس سے آپ بقیہ اسلامی ممالک کے ردعمل کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔

    آپ نے انسانی تاریخ میں رائج شدہ قوانین اور ان کے معاشرتی عوامل اور اثرات کا ذکر کیا ہے ۔ اس زمرے میں آپ نے ہٹلر کے طرز حکمرانی اور جرمن قوم کے بنائے ہوئے قوانین کے نتیجے میں پیدا ہونی والی خرابیوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔ لیکن شاید آپ یہ بات بھول گئے کہ آپ بلواسطہ میرے ہی نقطہ نظر کی تائید کر گئے ہیں ۔ میرا بھی یہی استدلال ہے کہ جب بھی انسانی معاشروں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق قوانین بنا کر انہیں رائج کرنے کی کوشش کی ہے ، اس نے ہمیشہ ایک نئے فتنے کو جنم دیا ہے کیونکہ انسانی عقل اپنی ناقص فہم کے مطابق کسی بھی چیز کے مکمل احاصے میں ناکام رہی ہے ۔ کسی بھی قانون سازی میں رہنما اصولوں کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہونے والے خلا کو انسانی عقل اور شعور پر کرنے سے قاصر ہے اور اسی لیے انسانی معاشرے میں ، واضح، غیر مبہم اور آفاقی اصولوں کی موجودگی ضروری ہے جس کے لیے اسلام میں کتاب اللہ سے رہنمائ لی جاتی ہے ۔

    میرا کانٹ، پلوٹو ، سقراط کے بارے میں مطالعہ بہت محدود ہے لہذا اس بارے میں گفتگو بھی بڑی حد تک لا معنی ہوگی ، تاہم ان سارے فلاسفر نے بھی کبھی آپس میں ایک نقطہ پر اتفاق نہیں کیا ۔ لہذا میرا اور آپ کا بھی کسی متفقہ نتیجہ پر پہنچنا محال نظر آتا ہے ۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #159

    زیدی صاحب۔۔

    میں بحث ہذا کو صرف اسی نکتہ کے گرد محدود نہیں رکھنا چاہتا کہ کوئی قانون کیسے بنتا ہے اور شہریوں پر اس قانون کی پابندی کرنا کس قدر ضروری ہے، “کیونکہ یہ تو معاملے کو محض سطحی انداز میں دیکھنے والی بات ہوگی۔۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ ہم اس پر بحث کریں کہ کونسا قانون صحیح ہے اور کونسا قانون غلط، کیونکہ “صحیح اور “غلط” بھی سبجیکٹیو ٹرمز ہیں، جن کی کوئی حتمی یا آفاقی تعریف نہیں ہوتی۔ میں چاہتا ہوں ہم اس معاملے کو ذرا گہرائی میں جاکر دیکھیں۔

    انسانی فکر نے طویل ارتقائی سفر میں اجتماعی دانش سے کچھ موٹی موٹی چیزیں سیکھیں ہیں جن کی وجہ سے انسان ماضی قدیم کے زمانہ وحشت کی بہت سی علتوں سے جان چھڑا کر تہذیبِ نو کی تشکیل کرپایا ہے اور جن پر تقریباً سبھی مہذب معاشروں کا اتفاق ہے۔ ان میں سب سے اہم انسانی جان کی قدروقیمت ہے۔ ماضی میں انسان کو غلام بنانا کوئی بڑی بات نہ تھی اور مختلف ثقافتوں میں یہ عام پریکٹس رہی ہے۔ پھر انسانی شعور نے رفتہ رفتہ یہ سمجھ لیا کہ انسان سب ایک جیسے ہیں، محض رنگ نسل کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاسکتی۔کانٹ نے تو فرد، اس کی آزادی اور اختیار کو بہت بلند مرتبے پر فائز کردیا ہے، پر اگر ہم کانٹ سے کلی طور پر اتفاق نہ بھی کریں تب بھی تقریباً تمام مہذب معاشرے آج کے دور میں انسانی جان کی قدر و قیمت ماضی قدیم سے کہیں زیادہ کرنے پر متفق ہیں، قطع نظر اس سے کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہوسکتے ہیں، پر شعوری اور فکری طور پر مہذب دنیا ایک ہی صفحے پر ہے۔۔

    جب ہٹلر نے نسلی امتیاز پر مبنی نیورمبرگ قوانین بنائے تو یہ انسان کی اجتماعی دانش کے ماحصل کے بالکل الٹ اور ماضی قدیم کی انسانی تذلیل کی روایت کی پاسداری تھی۔ آپ چونکہ بار بار قانون کی پاسداری وغیرہ کی دلیل دے رہے ہیں تو یہاں میں آپ سے سوال پوچھتا ہوں کیا ہٹلر کے بنائے ہوئے نیورمبرگ قوانین نے تہذیبِ حاضر کی تعمیر میں حصہ ڈالا یا تخریب میں؟ اور آیاکہ دورِ حاضر کا کوئی باشعور ذہن ان قوانین کی حمایت کرسکتا ہے۔ وہ قوانین جن پر جرمن قوم آج تک شرمندہ ہے۔۔ کیا جرمن قوم اس وقت تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی جب وہ ہٹلر کے نیورمبرگ لاء کی حمایت کررہی تھی اور ہیل ہٹلر کے نعرے لگا رہی تھی یا تب تاریخ کی درست سمت میں تھی جب ان قوانین اور ہٹلر کی سوچ کا داغ اپنے ماتھے سے مٹا کر مہذب قوم کے طور پر سامنے آئی۔۔ اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔۔

    اب آتا ہوں توہینِ اسلام اور توہینِ رسالت کے قوانین پر۔ میری نظر میں دورِ حاضر میں یہ قوانین انسانیت کی تذلیل اور انسانی جان کی قدر و قیمت کی نفی کے مترادف ہیں۔ انسانی جان اتنی بے قدر و قیمت نہیں کہ محض جذبات مجروح ہونے کے نام پر اس کو چھین لیا جائے۔

    آپ نے میری کشمیر اور ہندوستان والی ریاست کے ضمن میں کہا ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    آپ کی کشمیر اور بھارت کی مثال اس کیس میں لاگو نہیں آتی کہ وھاں کے معاشی قوانین کو ایک طاقتور غصبیت کے ماتحت وہ قوتیں بناتی ہیں جن کو عوام کی پزیرائ حاصل نہیں ۔ اگر کشمیر کے عوام آج اپنی مرضی سے بھارت کے ساتھ الحاق کرتے ہیں اور اپنے ووٹ کے زریعے بھارت میں رائج قوانین کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر بھارت کے حق قانون سازی کو تسلیم کیے بغیر کوئ اور راستہ نہیں ہے لیکن ایک قبضہ گروپ کو اسکی طاقت کے بل پر کروڑوں لوگوں پر انکی مرضی کے بغیر مسلط نہیں کیا جاسکتا اور ایسی قانون سازی جس میں عوام کے نمائیندوں کی شرکت نہ ہو ، کسی صورت بھی جائز نہیں ۔ اس کی مثال بالکل ایک ڈکٹیٹر کے مسلط شدہ قانون کی طرح ہوگی جس طرح مشرف کی آمریت یا اس سےپہلے قبضہ گروپ کی پاکستان پر طاقت کے زور پر حکومت کی ہے ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    کیا پاکستان میں احمدیوں پر مسلط شدہ قوانین کے بارے میں بھی آپ کی یہی رائے ہے؟ کیا پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت احمدیوں کیلئے قبضہ گروپ کی حیثیت نہیں رکھتی جو زبردستی ان کے حقوق سلب کرکے بیٹھی ہے۔۔۔؟

    بابری مسجد وغیرہ کے معاملے میں مسلمانوں کے احتجاج پر میں نے اعتراض نہیں اٹھایا ہے، بلکہ سابقہ کمنٹ میں آپ ہی کی دی گئی دلیل (تنقید کی بجائے قانون میں تبدیلی بذریعہ کثرت رائے) کے تحت تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی ہے۔۔۔

    نوٹ۔۔ ایک وضاحت درکار ہے، آپ نے اپنے کمنٹس میں ایک دو بار اشتراکی کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے مجھے ابہام سا ہورہا ہے کہ آپ شاید یورپی معاشروں کے بارے میں یہ لفظ استعمال کررہے ہیں۔؟ ذرا واضح کردیں کہ “اشتراکی” سے آپ کا کن معاشروں کی طرف اشارہ ہے۔۔

    جگر جی ۔۔۔آپ سے تھوڑے عرصے کی  شناسائی سے میں نے یہ نتجہ اخذ کیا ہے ۔آپ لکھنا چاہتے ہیں  اور بہت زیادہ لکھنا چاہتے ہیں ۔۔آپکے قلم کولکھنے کی صدیوں کی تشنگنی ہے ۔۔جو ان فورموں پر بجائے کم ہونے کے اور بڑھتی جاتی ہے ۔۔آپ کوئی ناول وغیرہ شروع کریں ۔۔۔۔۔۔۔اور کسی خوبصورت لڑکی سے مجھے ہیرو بنائیں ۔۔

    میرا ایک دوست جس کو امتحانات اور شاہ فیصل سے  بہت زیادہ چڑ تھی ۔

    ۔۔پرچے ہو رے تھے  اور سوال آیا ۔۔

    کہہ شاہ فیصل کب اور کہاں پیدا یوئے ۔۔سوال پڑھکر میں نے ڈیسک کے نیچھے سے اس کو ٹھوڈا مارا ۔۔۔اور سر گوشی کی ۔۔لے وائی تیرے والد  صاحب کا ذکر خیر آگیا ہے ۔۔۔۔۔۔وہ پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھا تھا ۔۔۔اس نے شاہ فیصل کو گالی دی۔۔اور پرچہ بنانے والے کی ماں بہن ایک کی ۔۔۔۔اور جواب کچھ اس طرح لکھا

    شاہ فیصل جہاں بھی پیدا ہوا تھا ۔۔۔مجھے اس  سے کوغرص نہیں ۔۔۔وڑے کھپے وچ ۔۔۔۔۔۔اور کب مرا تھا ۔۔اچھا تھا نہ مرتا ۔۔ساری دنیا مر جاتی وہ زندہ رہتا اور خجل ہوتا رہتا ۔۔  وہ پیدا اور مرا ہی دراصل ہم کو امتحانات فیل کروانے کے لیے ۔تھا ۔۔۔۔

    وہ جواب لکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا ۔۔استاد میں باہر تیرا انتظار کرتا ہوں ۔۔۔

    نہ میں بھی تیرے ساتھ نکلتا ہوں میرا شاہ فیصل کون سا پھوپھڑ  لگدا۔اے ۔۔جو میں اس کی پھوڑی ڈال کے بیٹھا رہوں ۔۔۔۔۔جب ہم  پرچے ماسڑ کودے کر باہر نکلے تو ماسڑ بلکل احیران نہیں ہوا ۔۔۔

    یہ تو  ہم تھے ۔۔۔۔۔اور اب آتے  دوسری طرف  جب ایک دن ہم نے کچھ آپ جیسا بننے کی کوشش کی ۔۔۔

    سوال تھا ۔۔۔۔دائرہ کی تعریف کریں ۔۔۔۔

    اب ہر گاوں میں ایک داراہ ہوتا ہے جس میں سکول سے لیکر  پنڈ کا موچی ۔۔اور سارے لفنگے اکٹھے ہوتے ہیں ۔۔۔۔میں اور میرے دوست نے جواب میں  مشرق سے مغرب ۔اور جنوب سے شمال تک  ۔۔۔۔اس کے اطراف میں جو کچھ تھا سب لکھا ۔۔۔۔

    ۔کہہ ایک دن ہم نے ایک چور کو پکڑ کر اس میں بند کردیا تھا جو دوسرے گاوں سے آپنی سالی کے ہاں ککڑ چوری کرنے آیا تھا ۔۔۔اور یہاں سے گنوں کی ٹرالیاں بھی گزرتی ہیں ۔اور ہم مفت میں گنے کھنچ لیتے ہیں ۔اور ساتھ میں بابے سیلابتی کا ڈیراہ بھی ہے ۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔

    اب سارے لڑکے پرچے دے کر چلے گئے تھے میں اور میرا دوست ۔۔۔۔ابھی لکھ رے تھے تو ماسڑ   ہمارے پاس سے دہ تین دفعہ گزرا ۔۔اور آخر تنگ آکر اس نے کہا ۔۔

    او تم لوگ توسب سے پہلے خالی پرچہ دے کر نکل جاتے ہو۔۔۔اور مجھے  آج جلسہ سننے جانا ہے اور اج تم انڈوں پر بیٹھ گئے ہو ۔۔  ہم تو آپکا ہی شکوہ دور کر رے ہیں ۔کہہ خالی پرچے دے کر  ۔۔ نکل جاتے ہو ۔۔۔۔پاس تو تم دونوں نے ہونا کوئی نہیں  ۔۔۔ لو ادھر پپر ۔چھتر نہ کھانا مجھے سے ۔۔۔۔

    استاد اج جب یہ سائیکل پر ڈیرے کے پاس سے گزرے تو کتے کو کھلا چھوڑ دینا ۔۔۔میرے دوست نے سرگوشی کی ۔اور میں نے انشاء اللہ ۔۔کہا اور ہم دونوں کمرے سے  باہر نکل آئے ۔۔

    رزلٹ کے دن  ماسڑ صاحب نے  سب کو پرچے واپس کیے مجھے اور میرے دوست کو آپنے پاس بلا لیا ۔۔۔اور بولا ۔۔

    بھئی واہ ۔ میں نے پہلی بار  ۔۔دائرہ کی ایسی  تعریف   سننی ہے دل کرتا ہے تم لوگوں کو سارے سکول کے سامنے لتر ماروں ۔۔۔۔اور یہ تم نے کیا لکھا ہے ۔۔کہہ ہم ماسڑ صاحب کو بابے  سیلابتی کے کماد سے چوری گنے  لا کر دیتے ہیں کیونکہ وہ لنگڑا ہے اور بھاگ کر ہم کو پکڑ نہیں سکتا ۔۔

    ۔۔۔۔۔

    ماسڑ نے یہ کہہ کر آپنے ماتھے پر ہاتھ مارا ۔ میں تو اج تک یہ سمجتا رہا کہہ تم گنے اپنے ڈیرے سے لاتے ۔۔ہو دونوں کن پھڑ  لو ۔۔۔۔اور ایک لڑکے کو  چھتر لانے کی  اواز لگائی ۔۔۔۔۔۔۔

    :cry: :cry: :cry: :cry:

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #160
    جگر جی ۔۔۔آپ سے تھوڑے عرصے کی شناسائی سے میں نے یہ نتجہ اخذ کیا ہے ۔آپ لکھنا چاہتے ہیں اور بہت زیادہ لکھنا چاہتے ہیں ۔۔آپکے قلم کولکھنے کی صدیوں کی تشنگنی ہے ۔۔جو ان فورموں پر بجائے کم ہونے کے اور بڑھتی جاتی ہے ۔۔آپ کوئی ناول وغیرہ شروع کریں ۔۔۔۔۔۔۔اور کسی خوبصورت لڑکی سے مجھے ہیرو بنائیں ۔۔ میرا ایک دوست جس کو امتحانات اور شاہ فیصل سے بہت زیادہ چڑ تھی ۔ ۔۔پرچے ہو رے تھے اور سوال آیا ۔۔ کہہ شاہ فیصل کب اور کہاں پیدا یوئے ۔۔سوال پڑھکر میں نے ڈیسک کے نیچھے سے اس کو ٹھوڈا مارا ۔۔۔اور سر گوشی کی ۔۔لے وائی تیرے والد صاحب کا ذکر خیر آگیا ہے ۔۔۔۔۔۔وہ پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھا تھا ۔۔۔اس نے شاہ فیصل کو گالی دی۔۔اور پرچہ بنانے والے کی ماں بہن ایک کی ۔۔۔۔اور جواب کچھ اس طرح لکھا شاہ فیصل جہاں بھی پیدا ہوا تھا ۔۔۔مجھے اس سے کوغرص نہیں ۔۔۔وڑے کھپے وچ ۔۔۔۔۔۔اور کب مرا تھا ۔۔اچھا تھا نہ مرتا ۔۔ساری دنیا مر جاتی وہ زندہ رہتا اور خجل ہوتا رہتا ۔۔ وہ پیدا اور مرا ہی دراصل ہم کو امتحانات فیل کروانے کے لیے ۔تھا ۔۔۔۔ وہ جواب لکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا ۔۔استاد میں باہر تیرا انتظار کرتا ہوں ۔۔۔ نہ میں بھی تیرے ساتھ نکلتا ہوں میرا شاہ فیصل کون سا پھوپھڑ لگدا۔اے ۔۔جو میں اس کی پھوڑی ڈال کے بیٹھا رہوں ۔۔۔۔۔جب ہم پرچے ماسڑ کودے کر باہر نکلے تو ماسڑ بلکل احیران نہیں ہوا ۔۔۔ یہ تو ہم تھے ۔۔۔۔۔اور اب آتے دوسری طرف جب ایک دن ہم نے کچھ آپ جیسا بننے کی کوشش کی ۔۔۔ سوال تھا ۔۔۔۔دائرہ کی تعریف کریں ۔۔۔۔ اب ہر گاوں میں ایک داراہ ہوتا ہے جس میں سکول سے لیکر پنڈ کا موچی ۔۔اور سارے لفنگے اکٹھے ہوتے ہیں ۔۔۔۔میں اور میرے دوست نے جواب میں مشرق سے مغرب ۔اور جنوب سے شمال تک ۔۔۔۔اس کے اطراف میں جو کچھ تھا سب لکھا ۔۔۔۔ ۔کہہ ایک دن ہم نے ایک چور کو پکڑ کر اس میں بند کردیا تھا جو دوسرے گاوں سے آپنی سالی کے ہاں ککڑ چوری کرنے آیا تھا ۔۔۔اور یہاں سے گنوں کی ٹرالیاں بھی گزرتی ہیں ۔اور ہم مفت میں گنے کھنچ لیتے ہیں ۔اور ساتھ میں بابے سیلابتی کا ڈیراہ بھی ہے ۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔ اب سارے لڑکے پرچے دے کر چلے گئے تھے میں اور میرا دوست ۔۔۔۔ابھی لکھ رے تھے تو ماسڑ ہمارے پاس سے دہ تین دفعہ گزرا ۔۔اور آخر تنگ آکر اس نے کہا ۔۔ او تم لوگ توسب سے پہلے خالی پرچہ دے کر نکل جاتے ہو۔۔۔اور مجھے آج جلسہ سننے جانا ہے اور اج تم انڈوں پر بیٹھ گئے ہو ۔۔ ہم تو آپکا ہی شکوہ دور کر رے ہیں ۔کہہ خالی پرچے دے کر ۔۔ نکل جاتے ہو ۔۔۔۔پاس تو تم دونوں نے ہونا کوئی نہیں ۔۔۔ لو ادھر پپر ۔چھتر نہ کھانا مجھے سے ۔۔۔۔ استاد اج جب یہ سائیکل پر ڈیرے کے پاس سے گزرے تو کتے کو کھلا چھوڑ دینا ۔۔۔میرے دوست نے سرگوشی کی ۔اور میں نے انشاء اللہ ۔۔کہا اور ہم دونوں کمرے سے باہر نکل آئے ۔۔ رزلٹ کے دن ماسڑ صاحب نے سب کو پرچے واپس کیے مجھے اور میرے دوست کو آپنے پاس بلا لیا ۔۔۔اور بولا ۔۔ بھئی واہ ۔ میں نے پہلی بار ۔۔دائرہ کی ایسی تعریف سننی ہے دل کرتا ہے تم لوگوں کو سارے سکول کے سامنے لتر ماروں ۔۔۔۔اور یہ تم نے کیا لکھا ہے ۔۔کہہ ہم ماسڑ صاحب کو بابے سیلابتی کے کماد سے چوری گنے لا کر دیتے ہیں کیونکہ وہ لنگڑا ہے اور بھاگ کر ہم کو پکڑ نہیں سکتا ۔۔ ۔۔۔۔۔ ماسڑ نے یہ کہہ کر آپنے ماتھے پر ہاتھ مارا ۔ میں تو اج تک یہ سمجتا رہا کہہ تم گنے اپنے ڈیرے سے لاتے ۔۔ہو دونوں کن پھڑ لو ۔۔۔۔اور ایک لڑکے کو چھتر لانے کی اواز لگائی ۔۔۔۔۔۔۔ :cry: :cry: :cry: :cry:

    :lol: :lol: :lol: :hilar: :hilar: :hilar:

    ارے یار۔۔ اتنا مت ہنسایا کرو، خدائے ناموجود کے بندے۔۔ پسلی ٹوٹ جائے گی۔۔ دائرے کی تعریف۔ :hilar: ۔

    آپ مجھے لکھنے کا مشورہ دیتے ہیں، آپ کو خود مزاح نگاری کرنی چاہیے۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی کی طرح ایک دو کتابیں لکھ ماریں۔۔ 

Viewing 20 posts - 141 through 160 (of 239 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi