Viewing 20 posts - 21 through 40 (of 44 total)
  • Author
    Posts
  • Shah G
    Participant
    Offline
    • Professional
    #21
    Islamic or not Islamic Dr. Atif’s proposed solution of shared responsibility will eventually benefit lenders much more than borrowers. He focused on scenario if house lose 20% lender will have some share in the loss. On the other side of it, if house gains 20% or 50% lender will have share there. The foreclosures, short sales market down turns etc are much rare than upturns at the macro levels. No wonder some venture capitalists backed his ideas.

    شیرازی صاحب آپ وضاحت فرما دیں کہ دو ہزار نو میں یہ بحران کیوں آیا تھا
    .
    یا پھر اس پر بات کرنے سے آپ کے پر جلتے ہیں

    Shirazi
    Participant
    Offline
    • Professional
    #22
    شیرازی صاحب آپ وضاحت فرما دیں کہ دو ہزار نو میں یہ بحران کیوں آیا تھا . یا پھر اس پر بات کرنے سے آپ کے پر جلتے ہیں

    hahaha

    why would my feathers be burning? It’s not like criticizing GHQ sitting 2 kms from GHQ. As Ghost Protocol Bhai and Dr. Atif said sub prime mortgage was the prime reason. I don’t disagree with his cause analysis but has issues with his solutions – the shared financing.

    Shah G
    Participant
    Offline
    • Professional
    #23
    hahaha why would my feathers be burning? It’s not like criticizing GHQ sitting 2 kms from GHQ. As Ghost Protocol Bhai and Dr. Atif said sub prime mortgage was the prime reason. I don’t disagree with his cause analysis but has issues with his solutions – the shared financing.

    یہ سب کچھ تو دو ہزار آٹھ نو سے پہلے بھی تھا پھر دو ہزار نو میں ہی کیوں بحران آیا

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #24
     blacksheep is our resident fiscal conservative, the proud member of Milton Friedman fan club. I will be curious what’s his take on Atif’s shared risk model. I understand capitalist have advantage in the capitalist economy and rightfully so. Financial contracts end up favoring him. I am afraid Atif is making them even stronger under the pretext of helping have-nots.

    شیرازی، گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔۔۔۔

    میں کوئی ماہرِ معاشیات نہیں ہوں کہ معیشت کی باریکیاں جان سکوں البتہ میں عمومی طور پر حکومت کے پرائیوٹ کاروبار میں مداخلت کا مخالف ہوں۔۔۔۔۔

    میرا کہنا ہے کہ حکومت کو کاروباری معاملات کو کاروبار کرنے والے فریقوں پر ہی چھوڑ دینا چاہئے اور بلاوجہ اپنی ناک ہر معاملے میں نہیں گھسانی چاہئے۔۔۔۔۔

    اور یہاں جو معاملہ ہے وہ تو قرض دینے والوں اور قرض لینے والوں کے درمیان ہے۔۔۔۔۔۔

    عاطف میاں نے اپنی اس گفتگو میں اہم لفظ استعمال کیا ہے۔۔۔۔۔ سماجی تناظر۔۔۔۔۔ اور اُس نے یہ لفظ بلاوجہ نہیں کہا۔۔۔۔۔

    لوگ عموماً اپنی غلطی نہیں مانتے۔۔۔۔۔ اور اپنی غلطی کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہراتے ہیں۔۔۔۔۔

    آپ کو یہ رویہ کم و بیش زندگی کے ہر معاملے میں نظر آئے گا۔۔۔۔۔

    اس فورم پر ہی دیکھ لیں۔۔۔۔۔ معزز حضرات کے پرانے کمنٹس اُن کے مُنہ پر مار دو لیکن وہ پھر بھی غلطی نہیں مانتے۔۔۔۔۔

    اب یہ جو دو ہزار آٹھ کی معاشی کساد بازاری ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اِس کے ذمہ دار صرف بینکس، انشورنس کمپنیاں، ری انشورنس کمپنیاں اور ریٹنگ ایجنسیز ہی نہیں تھیں۔۔۔۔۔ عام لوگ بھی اس معاملے میں کچھ حد تک شامل تھے۔۔۔۔۔ ایک شخص جو پچاس ساٹھ ہزار ڈالر کا گھر خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تھا وہ لاکھ ڈالر کا گھر خرید کر بیٹھ گیا تھا کہ قرض دینے والوں نے اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے قرضہ لینے کی شرائط بہت نرم کردی تھیں۔۔۔۔۔

    لیکن جب یہ ببل پھٹا تو ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی کہ بینکوں نے اپنے لالچ میں سب کو ڈبو دیا۔۔۔۔۔

    علاوہ ازیں مجھے یہ بَیل آؤٹ پیکج کچھ صحیح نہیں لگتے۔۔۔۔۔ وہ جو دو ہَنسوں کا جوڑا تھا، فینی مَے اور فریڈی مَیک، اُن کو امیریکن گوورنمنٹ نے سوا دو سو بلین ڈالر کا بَیل آؤٹ پیکج دیا تھا۔۔۔۔۔ خیر وہ پیسے اُن دونوں نے سُود سمیت واپس کردیے مگر یہ طرزِ عمل مجھے کچھ صحیح نہیں لگتا۔۔۔۔۔

    وہ جو امیریکہ میں ایک جملہ کہا جاتا ہے کہ ٹو بِگ ٹو فیل۔۔۔۔۔ اُس کے پیچھے یہی بات ہے نا کہ وہ کچھ بھی ہینکی پینکی کرلیں اگر مشکل میں آئیں گے تو حکومت بَیل آؤٹ پیکج دیدے گی اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔۔۔۔۔

    پھر ایک اور پہلو بھی ہے کہ بینکس ہوں، انشورنس کمپنیز ہوں، ری انشورر ہوں، یہ تمام تو چلتے ہی دوسروں کے پیسوں پر ہیں۔۔۔۔۔ یہ کمپنیاں اپنی بوٹی کیلئے دوسرے کا بکرا ذبح کرنے سے نہیں چوکتی۔۔۔۔۔

    تو اس معاملے میں جو عاطف میاں کی تجویز ہے وہ صائب ہے کہ نفع ہو یا نقصان، دونوں فریق، قرض دینے والا اور لینے والا اُس نفع یا نقصان میں حصہ دار ہوں گے۔۔۔۔۔

    مگر اس وقت کی مالیاتی دنیا میں کوئی بھی بینک یا بلڈنگ سوسائٹی اس طرح کا میکینزم نہیں آفر کرتی۔۔۔۔۔ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بینک یا بلڈنگ سوسائٹی اس تجویز کے مطابق کام کرے گی تو بینک(یا بلڈنگ سوسائٹی) اس جوائنٹ پارٹنرشپ میں جانے سے پہلے اچھی طرح چھان پھٹک کرے گی۔۔۔۔۔

    باقی یہ اکانومی جو ہے وہ بڑھتی اُسی صورت میں ہے کہ لوگ اپنی جیبوں سے پیسہ نکالیں اور خرچ کریں۔۔۔۔۔

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #25
     اِس کے ذمہ دار صرف بینکس، انشورنس کمپنیاں، ری انشورنس کمپنیاں اور ریٹنگ ایجنسیز ہی نہیں تھیں۔۔۔۔۔ عام لوگ بھی اس معاملے میں کچھ حد تک شامل تھے۔۔۔۔۔ ایک شخص جو پچاس ساٹھ ہزار ڈالر کا گھر خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تھا وہ لاکھ ڈالر کا گھر خرید کر بیٹھ گیا تھا کہ قرض دینے والوں نے اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے قرضہ لینے کی شرائط بہت نرم کردی تھیں۔۔۔۔۔ لیکن جب یہ ببل پھٹا تو ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی کہ بینکوں نے اپنے لالچ میں سب کو ڈبو دیا۔۔۔۔۔

    یہ دائرے میں گھومتی دلیل ہے اور کلاسیک سرمایہ داری کا ایک نمایاں پہلو

    آپ جناب کچھ کچھ سرمایہ داری کے ثناءخواں نظر آتے ہیں؟

    سرمایہ داری کسی ضبط کے تحت نہ ہو تو انسانیت کو کھا جائے (ابھی بھی خیر کچھ کم ظلم نہیں ڈھا رہی) کیونکہ با وسیلہ اور بے وسیلہ کا کسی بھی میدان میں کوئی مقابلہ نہیں ہے معاشرے کو چاہیے کہ بے وسیلہ کے ساتھ کھڑا ہو

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #26
    شیرازی، گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔۔۔۔ میں کوئی ماہرِ معاشیات نہیں ہوں کہ معیشت کی باریکیاں جان سکوں البتہ میں عمومی طور پر حکومت کے پرائیوٹ کاروبار میں مداخلت کا مخالف ہوں۔۔۔۔۔ میرا کہنا ہے کہ حکومت کو کاروباری معاملات کو کاروبار کرنے والے فریقوں پر ہی چھوڑ دینا چاہئے اور بلاوجہ اپنی ناک ہر معاملے میں نہیں گھسانی چاہئے۔۔۔۔۔ اور یہاں جو معاملہ ہے وہ تو قرض دینے والوں اور قرض لینے والوں کے درمیان ہے۔۔۔۔۔۔ عاطف میاں نے اپنی اس گفتگو میں اہم لفظ استعمال کیا ہے۔۔۔۔۔ سماجی تناظر۔۔۔۔۔ اور اُس نے یہ لفظ بلاوجہ نہیں کہا۔۔۔۔۔ لوگ عموماً اپنی غلطی نہیں مانتے۔۔۔۔۔ اور اپنی غلطی کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہراتے ہیں۔۔۔۔۔ آپ کو یہ رویہ کم و بیش زندگی کے ہر معاملے میں نظر آئے گا۔۔۔۔۔ اس فورم پر ہی دیکھ لیں۔۔۔۔۔ معزز حضرات کے پرانے کمنٹس اُن کے مُنہ پر مار دو لیکن وہ پھر بھی غلطی نہیں مانتے۔۔۔۔۔ اب یہ جو دو ہزار آٹھ کی معاشی کساد بازاری ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اِس کے ذمہ دار صرف بینکس، انشورنس کمپنیاں، ری انشورنس کمپنیاں اور ریٹنگ ایجنسیز ہی نہیں تھیں۔۔۔۔۔ عام لوگ بھی اس معاملے میں کچھ حد تک شامل تھے۔۔۔۔۔ ایک شخص جو پچاس ساٹھ ہزار ڈالر کا گھر خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تھا وہ لاکھ ڈالر کا گھر خرید کر بیٹھ گیا تھا کہ قرض دینے والوں نے اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے قرضہ لینے کی شرائط بہت نرم کردی تھیں۔۔۔۔۔ لیکن جب یہ ببل پھٹا تو ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی کہ بینکوں نے اپنے لالچ میں سب کو ڈبو دیا۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں مجھے یہ بَیل آؤٹ پیکج کچھ صحیح نہیں لگتے۔۔۔۔۔ وہ جو دو ہَنسوں کا جوڑا تھا، فینی مَے اور فریڈی مَیک، اُن کو امیریکن گوورنمنٹ نے سوا دو سو بلین ڈالر کا بَیل آؤٹ پیکج دیا تھا۔۔۔۔۔ خیر وہ پیسے اُن دونوں نے سُود سمیت واپس کردیے مگر یہ طرزِ عمل مجھے کچھ صحیح نہیں لگتا۔۔۔۔۔ وہ جو امیریکہ میں ایک جملہ کہا جاتا ہے کہ ٹو بِگ ٹو فیل۔۔۔۔۔ اُس کے پیچھے یہی بات ہے نا کہ وہ کچھ بھی ہینکی پینکی کرلیں اگر مشکل میں آئیں گے تو حکومت بَیل آؤٹ پیکج دیدے گی اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔۔۔۔۔ پھر ایک اور پہلو بھی ہے کہ بینکس ہوں، انشورنس کمپنیز ہوں، ری انشورر ہوں، یہ تمام تو چلتے ہی دوسروں کے پیسوں پر ہیں۔۔۔۔۔ یہ کمپنیاں اپنی بوٹی کیلئے دوسرے کا بکرا ذبح کرنے سے نہیں چوکتی۔۔۔۔۔ تو اس معاملے میں جو عاطف میاں کی تجویز ہے وہ صائب ہے کہ نفع ہو یا نقصان، دونوں فریق، قرض دینے والا اور لینے والا اُس نفع یا نقصان میں حصہ دار ہوں گے۔۔۔۔۔ مگر اس وقت کی مالیاتی دنیا میں کوئی بھی بینک یا بلڈنگ سوسائٹی اس طرح کا میکینزم نہیں آفر کرتی۔۔۔۔۔ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بینک یا بلڈنگ سوسائٹی اس تجویز کے مطابق کام کرے گی تو بینک(یا بلڈنگ سوسائٹی) اس جوائنٹ پارٹنرشپ میں جانے سے پہلے اچھی طرح چھان پھٹک کرے گی۔۔۔۔۔ باقی یہ اکانومی جو ہے وہ بڑھتی اُسی صورت میں ہے کہ لوگ اپنی جیبوں سے پیسہ نکالیں اور خرچ کریں۔۔۔۔۔

    بلیک شیپ صاحب،
    میرا نہیں خیال عاطف میاں نے نفع اور نقصان دونوں میں لینڈر اور قرض خواہ دونوں کو حصہ دار قرار دیا ہے اس نے صرف نقصان میں قرضہ دینے والے ادارے کو حصہ دار قرار دیا ہے کہ موجودہ نظام میں قرض خواہ سو فیصد نقصان کا ذمہ دار ہے جب کہ لینڈر کا خطرہ صفر کے برابر ہے عام حالات میں قرضہ دینے والا سود کی شکل میں منافع وصول کرلیتا ہے

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #27
    یہ دائرے میں گھومتی دلیل ہے اور کلاسیک سرمایہ داری کا ایک نمایاں پہلو آپ جناب کچھ کچھ سرمایہ داری کے ثناءخواں نظر آتے ہیں؟ سرمایہ داری کسی ضبط کے تحت نہ ہو تو انسانیت کو کھا جائے (ابھی بھی خیر کچھ کم ظلم نہیں ڈھا رہی) کیونکہ با وسیلہ اور بے وسیلہ کا کسی بھی میدان میں کوئی مقابلہ نہیں ہے معاشرے کو چاہیے کہ بے وسیلہ کے ساتھ کھڑا ہو

    اتھرا صاحب،
    سرمایہ دارانہ نظام اپنی خامیوں سے مبرا نہیں ہے مگر اس پر تنقید کرنا بھی ایک فیشن ہے خاص طور پر جب سامنے ایسا کویی عملی متبادل ماڈل بھی موجود نہیں ہے
    میرے خیال میں پچھلی دو صدیوں میں جس تیز رفتار سے مادی ترقی ہویی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کی مرہون منت ہے اس نظام نے انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو غربت کی دہلیز سے بہت دور دھکیل دیا ہے آج کے دور کا متوسط شخص بھی گزشتہ زمانوں کے امرا سے زیادہ آسائش کی زندگی گزار رہا ہے
    بے شک سر مایہ دارانہ نظام ظالم ہے مگر نیچر بھی ظالم ہے چھوٹی مچھلی کو بڑی مچھلی کھا جاتی ہے

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #28
    اتھرا صاحب، سرمایہ دارانہ نظام اپنی خامیوں سے مبرا نہیں ہے مگر اس پر تنقید کرنا بھی ایک فیشن ہے خاص طور پر جب سامنے ایسا کویی عملی متبادل ماڈل بھی موجود نہیں ہے میرے خیال میں پچھلی دو صدیوں میں جس تیز رفتار سے مادی ترقی ہویی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کی مرہون منت ہے اس نظام نے انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو غربت کی دہلیز سے بہت دور دھکیل دیا ہے آج کے دور کا متوسط شخص بھی گزشتہ زمانوں کے امرا سے زیادہ آسائش کی زندگی گزار رہا ہے بے شک سر مایہ دارانہ نظام ظالم ہے مگر نیچر بھی ظالم ہے چھوٹی مچھلی کو بڑی مچھلی کھا جاتی ہے

    گھوسٹ بھائی میں نے رائج سرمایہ داری پر صرف اتنی ہی تنقید کی ہے جتنی بنتی ہے اور اسکی کچھ خوبیوں کا یا جن کی طرف اپ نے اشارہ کیا  ہے میں بھی معترف ہوں۔ (آپ کے بقول) بطور فیشن تنقید میں نے شترِ بے مہار سرمایہ داری (جس کی دوسرے صاحب جن کی پوسٹ کا میں نے جواب دیا تھا وکالت کر رہے تھے) پر کی ہے، کیا وہ بھی غلط ہے؟

    جہاں تک متبادل نظام کی بات ہے میرا خیال یہ موضوع چھیڑا ہی اس بات سے گیا ہے جس  طرف عاطف نے اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے

    میرے خیال میں فطرت ظالم نہیں ہے فطرت کے اندر صرف وہ مخلوق ظالم ہیں جو شعور نہیں رکھتی ہیں ویسے یہ نکتہ کسی جانوروں کے حقوق کے علمبدار کے ساتھ اٹھایا جانا چاہیے اگر کوئی ہے اس فورم پر ہے تو۔ میں تو فی الحال انسانوں کے حقوق کی وکالت میں ہی الجھا ہوا ہوں

    :bigsmile:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #29
    گھوسٹ بھائی میں نے رائج سرمایہ داری پر صرف اتنی ہی تنقید کی ہے جتنی بنتی ہے اور اسکی کچھ خوبیوں کا یا جن کی طرف اپ نے اشارہ کیا ہے میں بھی معترف ہوں۔ (آپ کے بقول) بطور فیشن تنقید میں نے شترِ بے مہار سرمایہ داری (جس کی دوسرے صاحب جن کی پوسٹ کا میں نے جواب دیا تھا وکالت کر رہے تھے) پر کی ہے، کیا وہ بھی غلط ہے؟ جہاں تک متبادل نظام کی بات ہے میرا خیال یہ موضوع چھیڑا ہی اس بات سے گیا ہے جس طرف عاطف نے اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے میرے خیال میں فطرت ظالم نہیں ہے فطرت کے اندر صرف وہ مخلوق ظالم ہیں جو شعور نہیں رکھتی ہیں ویسے یہ نکتہ کسی جانوروں کے حقوق کے علمبدار کے ساتھ اٹھایا جانا چاہیے اگر کوئی ہے اس فورم پر ہے تو۔ میں تو فی الحال انسانوں کے حقوق کی وکالت میں ہی الجھا ہوا ہوں :bigsmile:

    اتھرا صاحب،
    آپ سے گفتگو کر کے نہ جانے کیوں محسوس ہوتا ہے “گویا تو بھی میرا یار تھا” خیر جانے دیں
    اگر شتر بےمہار سر مایہ داری کی کچھ وضاحت ہوجاے تو گفتگو آگے بڑھ سکتی ہے

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #30
    اتھرا صاحب، آپ سے گفتگو کر کے نہ جانے کیوں محسوس ہوتا ہے “گویا تو بھی میرا یار تھا” خیر جانے دیں اگر شتر بےمہار سر مایہ داری کی کچھ وضاحت ہوجاے تو گفتگو آگے بڑھ سکتی ہے

    کیوں بھائی یہ یار والی کونسی ادا ہے؟ اگر کوئی اچھا احساس ہے تو کیوں جانے دیا جائے انسان کو ارمان نکال لینا چاہیے، ہاں کوئی برا احساس ہے تو الگ بات ہے

    :)

    شتر بےمہار سر مایہ داری کی طرف کچھ اشارہ تو اُن بھائی صاحب نے کر دیا تھا باقی میری سمجھ میں تو یہ ایسا معاشی/منڈی کا نظام ہے جس میں حکومت کا ایک منتظم/مربوط کار کی حیثیت سے کوئی کردار نہ ہو، بالکل صفر

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #31
    بلیک شیپ صاحب، میرا نہیں خیال عاطف میاں نے نفع اور نقصان دونوں میں لینڈر اور قرض خواہ دونوں کو حصہ دار قرار دیا ہے اس نے صرف نقصان میں قرضہ دینے والے ادارے کو حصہ دار قرار دیا ہے کہ موجودہ نظام میں قرض خواہ سو فیصد نقصان کا ذمہ دار ہے جب کہ لینڈر کا خطرہ صفر کے برابر ہے عام حالات میں قرضہ دینے والا سود کی شکل میں منافع وصول کرلیتا ہے

    اس کساد بازاری کی وجہ سب پرائم مارگج اور ان کا ڈفالٹ کر جانا تو ہے ہی لیکن رئیل سٹیٹ سیکٹر کا ببل بنا ہی کیوں۔ بنکوں نے اتنی تعداد میں ایسے قرضے کیوں دئیے۔ وہ وجہ ڈھونڈئیے، دراصل وہ وجہ ہی اس کساد بازاری کا اصل سٹارٹنگ پوائینٹ ہے۔ اس لئے میں سب پرائم قرضوں کو اس کساد بازاری کی وجہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ تو اصل وجہ کا فال آؤٹ تھا۔ اصل وجہ دس سال تک سیونگز میں بے انتہا اضافہ تھا۔ سیونگز اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ کوئی قرض لینے والا نہ تھا جو اس پیسے کو استعمال کر سکے۔ بزنسز کے پاس اس قدر پیسہ جمع تھا کہ انویسٹمنٹ کے لئے انہیں قرض کی ضرورت نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بنک سب پرائم مارگیجز یا غیر ذمہ دارانہ کنزیومر لونز دینے پر مجبور تھے۔
    جہاں تک عاطف میاں کی تجویز ہے، میرے خیال میں وہ اس لئے نان سینس ہے کہ بنک اپنا پیسہ تو قرض نہیں دے رہا کہ وہ لاس شئیر کرے۔ وہ تو صرف ایک کمیشن ایجنٹ ہے اور یہ سارا پیسہ تو پبلک ڈپازٹس اور بانڈ ہولڈرز کا ہے۔ جب قرض دار ڈیفالٹ کرتا ہے تو بنک نے جو کسمٹرز سے ڈپازٹس کی صورت میں یا بانڈز اشو کرکے لوگوں سے قرض لیا ہوتا ہے وہ تو ویسے کا ویسا ہی رہے گا۔ یعنی جو بھی بنک کا قرض دار ڈیفالٹ کرے گا وہ نقصان بنک کو اپنی ایکوئٹی سے پورا کرنا ہے۔ اس لئے بنک کے پاس تو اتنی کپسیٹی ہی نہیں کہ لاس شئیر کرے اور نہ ہی یہ فیئر ہوگا۔
    لحاظہ اگر مقصد سب پرائم مارگیجز کا سدِباب ہے تو اس کا بہترین حل گورنمنٹ ریگولیشنز ہیں جو رئیل سٹیٹ فنانسنگ کو ٹائٹ کرے اورلون ایکویٹی ریشو کی ریکوائرمنٹس بہتر کرے اور ساتھ ساتھ ہاؤس اونر کو اپنی ایکویٹی کے تحفظ کے لیے انشورنس خریدنے پر مجبور کرے۔ ایسی انشورنس کو بنک قرض دار کی ماہانہ انسٹالمنٹ کا حصہ بھی بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بانڈز اس طرح ڈیزائن کئے جاسکتے ہیں کہ قرض دار ری فنانسنگ کے بغیر ہی جب چاہے ۵ سے دس سال تک انٹرسٹ اونلی پر شفٹ ہو سکے۔

    .

    یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ  ہر ریسیشن کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں جن کا سدِباب موجودہ نظام میں ممکن ہی نہیں ہے۔سیونگس، سپینڈنگ، انوسٹمنٹ، مجموعی قرض، انفلیشن یعنی سب کچھ ہی بیلنس میں ہونا ضروری ہے۔ جب بیلنس نہیں رہے گا تو رسیشن آئے گا اور نظام کو پھر سے بیلنس کردے گا۔ اس لئے یہ سائیکل چلتا ہی رہے گا چاہے اکانومسٹس جو مرضی کر لیں۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #32
    کیوں بھائی یہ یار والی کونسی ادا ہے؟ اگر کوئی اچھا احساس ہے تو کیوں جانے دیا جائے انسان کو ارمان نکال لینا چاہیے، ہاں کوئی برا احساس ہے تو الگ بات ہے :) شتر بےمہار سر مایہ داری کی طرف کچھ اشارہ تو اُن بھائی صاحب نے کر دیا تھا باقی میری سمجھ میں تو یہ ایسا معاشی/منڈی کا نظام ہے جس میں حکومت کا ایک منتظم/مربوط کار کی حیثیت سے کوئی کردار نہ ہو، بالکل صفر

    اتھرا صاحب

    مطلب انداز تحریر جانا پہچانا سا لگ رہا ہے ہوسکتا ہے گزشتہ فورم سے جان پہچان ہو مگر آپ کی آئ ڈی مختلف ہو یا شاید صرف میرا گمان ہی ہو بہرحال جو بھی ہو آپ اس فارم پر بہترین اضافہ محسوس ہورہے ہیں خوش آمدید
    میں ذاتی طور پر حکومتی مداخلت کا زیادہ فین نہیں ہوں اور منڈی کی قوتوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہوں حکومت کا کام منڈی میں صحت مند مقابلہ کی فضا کو یقینی بنانا اور انصاف کی فراہمی تک محدود ہونا چاہئے

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #33
    اس کساد بازاری کی وجہ سب پرائم مارگج اور ان کا ڈفالٹ کر جانا تو ہے ہی لیکن رئیل سٹیٹ سیکٹر کا ببل بنا ہی کیوں۔ بنکوں نے اتنی تعداد میں ایسے قرضے کیوں دئیے۔ وہ وجہ ڈھونڈئیے، دراصل وہ وجہ ہی اس کساد بازاری کا اصل سٹارٹنگ پوائینٹ ہے۔ اس لئے میں سب پرائم قرضوں کو اس کساد بازاری کی وجہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ تو اصل وجہ کا فال آؤٹ تھا۔ اصل وجہ دس سال تک سیونگز میں بے انتہا اضافہ تھا۔ سیونگز اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ کوئی قرض لینے والا نہ تھا جو اس پیسے کو استعمال کر سکے۔ بزنسز کے پاس اس قدر پیسہ جمع تھا کہ انویسٹمنٹ کے لئے انہیں قرض کی ضرورت نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بنک سب پرائم مارگیجز یا غیر ذمہ دارانہ کنزیومر لونز دینے پر مجبور تھے۔ جہاں تک عاطف میاں کی تجویز ہے، میرے خیال میں وہ اس لئے نان سینس ہے کہ بنک اپنا پیسہ تو قرض نہیں دے رہا کہ وہ لاس شئیر کرے۔ وہ تو صرف ایک کمیشن ایجنٹ ہے اور یہ سارا پیسہ تو پبلک ڈپازٹس اور بانڈ ہولڈرز کا ہے۔ جب قرض دار ڈیفالٹ کرتا ہے تو بنک نے جو کسمٹرز سے ڈپازٹس کی صورت میں یا بانڈز اشو کرکے لوگوں سے قرض لیا ہوتا ہے وہ تو ویسے کا ویسا ہی رہے گا۔ یعنی جو بھی بنک کا قرض دار ڈیفالٹ کرے گا وہ نقصان بنک کو اپنی ایکوئٹی سے پورا کرنا ہے۔ اس لئے بنک کے پاس تو اتنی کپسیٹی ہی نہیں کہ لاس شئیر کرے اور نہ ہی یہ فیئر ہوگا۔ لحاظہ اگر مقصد سب پرائم مارگیجز کا سدِباب ہے تو اس کا بہترین حل گورنمنٹ ریگولیشنز ہیں جو رئیل سٹیٹ فنانسنگ کو ٹائٹ کرے اورلون ایکویٹی ریشو کی ریکوائرمنٹس بہتر کرے اور ساتھ ساتھ ہاؤس اونر کو اپنی ایکویٹی کے تحفظ کے لیے انشورنس خریدنے پر مجبور کرے۔ ایسی انشورنس کو بنک قرض دار کی ماہانہ انسٹالمنٹ کا حصہ بھی بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بانڈز اس طرح ڈیزائن کئے جاسکتے ہیں کہ قرض دار ری فنانسنگ کے بغیر ہی جب چاہے ۵ سے دس سال تک انٹرسٹ اونلی پر شفٹ ہو سکے۔ . یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ہر ریسیشن کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں جن کا سدِباب موجودہ نظام میں ممکن ہی نہیں ہے۔سیونگس، سپینڈنگ، انوسٹمنٹ، مجموعی قرض، انفلیشن یعنی سب کچھ ہی بیلنس میں ہونا ضروری ہے۔ جب بیلنس نہیں رہے گا تو رسیشن آئے گا اور نظام کو پھر سے بیلنس کردے گا۔ اس لئے یہ سائیکل چلتا ہی رہے گا چاہے اکانومسٹس جو مرضی کر لیں۔

    شاہد بھائی،
    آپ نے ہمارے لئے اتنا مغز کھپادیا تو یہ بھی بتا دیں سیونگس اتنا کیوں بڑھ گئیں تھیں –
    کیا آپ کو نہیں لگتا اس مرتبہ کساد بازاری کی شدت اور دورانیہ ١٩٢٩ کی کساد بازاری سے کم رہا ہے آپ کو کیا لگتا ہے اس مرتبہ فیڈرل ریزرو نے زیادہ موثر حکمت عملی کے تحت انٹرسٹ ریٹس کو کم رکھ کر منی سپلائی بڑھا کر بہتر کارکردگی دکھائی ہے ؟

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #34
    اتھرا صاحب مطلب انداز تحریر جانا پہچانا سا لگ رہا ہے ہوسکتا ہے گزشتہ فورم سے جان پہچان ہو مگر آپ کی آئ ڈی مختلف ہو یا شاید صرف میرا گمان ہی ہو بہرحال جو بھی ہو آپ اس فارم پر بہترین اضافہ محسوس ہورہے ہیں خوش آمدید میں ذاتی طور پر حکومتی مداخلت کا زیادہ فین نہیں ہوں اور منڈی کی قوتوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہوں حکومت کا کام منڈی میں صحت مند مقابلہ کی فضا کو یقینی بنانا اور انصاف کی فراہمی تک محدود ہونا چاہئے

    حسنِ ظن کیلئے شکریہ

    میرا خیال ہے آپ کو دوسرے پیرا پر شائد  تھوڑا نظرِثانی کی ضرورت ہے  حکومتی مداخلت کے زیادہ فین بھی نہیں ہیں اور صحت مند مقابلہ کی فضا کو یقینی بنانے کیلئے لمڈے سے رجوع بھی فرما رہے ہیں

    جب ہم مختلف قسم کے منڈی کے ڈھانچوں اور انکی حرکیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں کچھ فطری اجاروں سے واسطہ پڑتا ہے اور سرمایہ دار کا تو خواب ہی اجارہ تخلیق کرنا اور پھر ان کے اندر کُھل کھیلنا ہوتا ہے

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #35
    شاہد بھائی، آپ نے ہمارے لئے اتنا مغز کھپادیا تو یہ بھی بتا دیں سیونگس اتنا کیوں بڑھ گئیں تھیں – کیا آپ کو نہیں لگتا اس مرتبہ کساد بازاری کی شدت اور دورانیہ ١٩٢٩ کی کساد بازاری سے کم رہا ہے آپ کو کیا لگتا ہے اس مرتبہ فیڈرل ریزرو نے زیادہ موثر حکمت عملی کے تحت انٹرسٹ ریٹس کو کم رکھ کر منی سپلائی بڑھا کر بہتر کارکردگی دکھائی ہے ؟

    بالکل، میں بھی بھائی سے یہی پوچھنا چاہ رہا تھا کہ بچتوں کا حد سے بڑھ جانا ان کا اندازہ ہی ہے یا ان کے پاس کوئی اعدادوشمار بھی ہیں اس دعوی کی تائید میں

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #36
    شاہد بھائی، آپ نے ہمارے لئے اتنا مغز کھپادیا تو یہ بھی بتا دیں سیونگس اتنا کیوں بڑھ گئیں تھیں – کیا آپ کو نہیں لگتا اس مرتبہ کساد بازاری کی شدت اور دورانیہ ١٩٢٩ کی کساد بازاری سے کم رہا ہے آپ کو کیا لگتا ہے اس مرتبہ فیڈرل ریزرو نے زیادہ موثر حکمت عملی کے تحت انٹرسٹ ریٹس کو کم رکھ کر منی سپلائی بڑھا کر بہتر کارکردگی دکھائی ہے ؟

    سوری اگر میری کسی بات نے آپ کا مغز کھپایا ۔۱۹۲۹رسیشنز بارے میرا مطالعہ ناکافی ہے اس لئے اچھا موازنہ کرنے سے قاصر ہوں۔
    لیکن ایک بات شاید سچ ہے کہ ۱۹۲۹ اور ۲۰۰۷ یا ۲۰۰۸ سے شروع ہونے والے رسیشنز کی وجوہات تو ایک جیسی ہی تھیں لیکن لوگوں اور فیڈرل ریزرو کا ری ایکشن مختلف تھا۔ دونوں ریسیشن ہی شاید دو سال کے قریب تھے لیکن اثرات سالوں تک رہتے ہیں ۔ ۱۹۲۹؍۱۹۳۰ میں جہاں بنکوں کو ڈوبنے دیا گیا تو اس دفعہ منی سپلائی بڑھا کر انہیں بیل آؤٹ کیا گیا۔ جو ٹولز فیڈرل ریزرو کے پاس اب موجود تھے وہ شاید ۱۹۲۹ میں موجود نہ تھے یا یہ کہیں کہ ۱ُس وقت فیڈرل ریزرو کی ریسیشن کو ڈیل کرنے کی پالیسیز ہی غلط تھیں۔ بنکوں کو ڈوبنے دیا گیا اور منی سپلائی اس وجہ سے بہت کم رہ گئی جس کی وجہ سے اکنامک ایکٹیوٹی انتہائی حد تک گر جانے سے جی ڈی پی کا شرنک ہونا لازم تھا۔
    بوم کے ساتھ سیونگز کا بڑھنا ایک نیچرل عمل ہے۔ لیکن یہ حکومتوں کا کام ہے کہ صحیح وقت پر سیونگز کو بڑھانے یا کم کرنے کی پالیسیز کو اپلائی کریں۔ یہ عمل اتنا آسان بھی نہی کہ سیونگز کم کرنے سے کنزمپشن ضرورت سے زیادہ بڑھتی ہے اور انفلیشن کریکشنز بھی ساتھ ہی آتی ہیں۔ اسی لیے ہر بوم کے بعد ہلکا یا سخت ریسیشن آتا ہی ہے جس کی بہتر معاشی پالیسیوں کے بروقت استعمال سے شدت تو کم کی جا سکتی ہے لیکن اس سے مکمل بچا نہیں جاسکتا۔

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #37
    بالکل، میں بھی بھائی سے یہی پوچھنا چاہ رہا تھا کہ بچتوں کا حد سے بڑھ جانا ان کا اندازہ ہی ہے یا ان کے پاس کوئی اعدادوشمار بھی ہیں اس دعوی کی تائید میں

    جی اندازہ نہیں یہ حقیقت ہے۔ میرے پاس اس وقت اعدادوشمار موجود نہیں لیکن اگر آپ کوشش کریں تو دیکھیں گے کہ نا صرف گورنمنٹ سیکوریٹیز میں انوسٹمنٹ دو اڑھائی گنا ہو چکی تھی بلکہ مغربی بزنسز کے بنک اکاؤنٹ پیسوں سے نا قابلِ یقین حد سے بھرے پڑے تھے۔ بنکوں کے پاس اس پیسے کا آؤٹ لیٹ نہی تھا تو وہ سب کو دھڑا دھڑ قرضے دینے پر لگ گئے۔ جو بعد میں ڈفالٹ ہوئے۔

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #38
    جی اندازہ نہیں یہ حقیقت ہے۔ میرے پاس اس وقت اعدادوشمار موجود نہیں لیکن اگر آپ کوشش کریں تو دیکھیں گے کہ نا صرف گورنمنٹ سیکوریٹیز میں انوسٹمنٹ دو اڑھائی گنا ہو چکی تھی بلکہ مغربی بزنسز کے بنک اکاؤنٹ پیسوں سے نا قابلِ یقین حد سے بھرے پڑے تھے۔ بنکوں کے پاس اس پیسے کا آؤٹ لیٹ نہی تھا تو وہ سب کو دھڑا دھڑ قرضے دینے پر لگ گئے۔ جو بعد میں ڈفالٹ ہوئے۔

    آپ کی بات پر اعتبار نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے میرے پاس، یہ چونکہ ایک بنیادی بات تھی جس پر اپ نے اپنا باقی ماندہ منطقی استدلال اٹھایا تھا تو میں نے چاہا اس کی تصدیق کر لی جائے کیونکہ اس بحران بارے میرے اب تک کے فہم کیلئے یہ ایک نیا پہلو تھا

    ویسے آپ بچت کی تعریف کیا کرتے ہیں؟ کیا کاروباری اداروں کے غیر تقسیم شدہ منافع (ریٹینڈ ارننگز) کو بھی اپ بچتوں میں شمار کریں گے؟؟

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #39

    When I wrote “Too Big to Fail” nearly a decade ago, I knew that the crisis would redefine Wall Street and the economy, but I didn’t appreciate how fundamentally it would redefine the political environment.

    Amir Sufi, a professor of economics and public policy at University of Chicago’s Booth School of Business and the co-author of “House of Debt,” pointed to the financial crisis as the source of reduced civility a few months after Mr. Trump’s victory. He conducted an analysis of 60 countries with his “House of Debt” co-author, Atif Mian of Princeton University, and Francesco Trebbi of the University of British Columbia. They found that such a response was “common and predictable,” he wrote.

    “Our conclusion: Financial crises tend to radicalize electorates,” Mr. Sufi wrote. “After a banking, currency, or debt crisis, our data indicate, the share of centrists or moderates in a country went down, while the share of left- or right-wing radicals went up in most cases.”

    In the United States, the crisis exposed an economy that had been a charade — one that most Americans didn’t understand or appreciate. The use of debt had masked the real problems underneath the surface: a significant decrease in worker participation, automation that would take jobs and stagnant wage growth.

    These issues long predated the crisis. But as Warren Buffett famously said, “You only find out who is swimming naked when the tide goes out.”

    In truth, our economy today is in much better shape than you might expect, with unemployment at 3.9 percent — lower than it was before the crisis.

    Full article here: https://www.nytimes.com/2018/09/10/business/dealbook/financial-crisis-trump.html

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #40
    آپ کی بات پر اعتبار نہ کرنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے میرے پاس، یہ چونکہ ایک بنیادی بات تھی جس پر اپ نے اپنا باقی ماندہ منطقی استدلال اٹھایا تھا تو میں نے چاہا اس کی تصدیق کر لی جائے کیونکہ اس بحران بارے میرے اب تک کے فہم کیلئے یہ ایک نیا پہلو تھا ویسے آپ بچت کی تعریف کیا کرتے ہیں؟ کیا کاروباری اداروں کے غیر تقسیم شدہ منافع (ریٹینڈ ارننگز) کو بھی اپ بچتوں میں شمار کریں گے؟؟

    جی کسی فرد یا اینٹیٹی کی ضروریات ( کیپیٹل اینڈ کنزیومر ایکسپینڈیچرز ) پوری کرنے کے بعد جو بھی رقم ان کے پاس بچ جائے۔
    رٹینڈ ارننگز ضروری نہیں کہ بچت ہوں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کا ایک حصہ کمپنی نے نئے ایسٹس لینے پر لگا دیا ہو یا مزید ایک حصہ اپنی لایابلیٹیز کو کم کرنے پر صرف کر دیا ہو۔ اور ایک تیسرا حصہ ڈویڈینڈز پر بھی چلا جائے گا۔ ہاں اس کے بعد جو بچے وہ سیونگز ہیں جسے آپ انویسمنٹ وہیکلز پر لگا دیں یا بنک اکاؤنٹ میں پڑے رہن دیں۔
    عموما کہا جاتا ہے کہ ٹوٹل گلوبل سیونگز ٹوٹل انویسٹمنٹ کے برابر ہوتی ہیں (تکیہ کی نیچے پڑے کیش کو چھوڑ کر)۔
    اگر یہ دو چیزیں برابر نہ ہوں یعنی سرپلش کیش بنک اکاؤنٹس میں پڑا ہو تو بنک اس کیش کو کسی نہ کسی کے متھے تو ماریں گے ہی چاہے انہیں ہائی رسک لون ہی دینے پڑیں۔

Viewing 20 posts - 21 through 40 (of 44 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi