Viewing 12 posts - 1 through 12 (of 12 total)
  • Author
    Posts
  • Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    بے موسمی مینڈک جانے کن کونوں کھدروں سے نکل کر صدارتی نظام کی ٹر ٹر کیے جا رہے ہیں اور وہ بھی اسلامی پخ لگا کر۔ عمران خان آئے تو تھے غریبوں اور امیروں کے دو پاکستانوں کی خلیج مٹانے، لیکن آج کل وہ بھی فیلڈ مارشل ایوب خان کے ’’عشرہ ترقی‘‘ کے گُن گاتے نہیں تھکتے اور وہ بھی ریاستِ مدینہ کے اسلافی خوابوں کے ساتھ۔ ایسی فکری دوئی پہ کوئی سر پیٹے نہ تو کیا کرے۔ آخر فیلڈ مارشل کے آمرانہ اور انتہائی نابرابری کے دست نگر ’’معاشی ترقی‘‘ کے پٹے پٹائے ماڈل میں ایسا کیا تھا، جس کی صدارتی فیضیابیوں کے لیے اتنی تڑپ دکھائی جا رہی ہے۔ بے خبری اور ہٹ دھرمی پہ اصرار کرنے والوں کی تشفی کے لیے ہم اس ماڈل کے دونوں ستونوں یعنی صدارتی (بونا پارٹسٹ) اور ’’ترقی‘‘ (معکوس) کو الگ الگ کرکے ذرا دیکھ لیتے ہیں کہ بے چین گمراہی کو صبرِ جمیل ملے (جو مشکل ہے)۔ پہلے صدارتی نظام جو شروع میں گورنر جنرلز کی دہائی اور پھر مختلف وقفوں سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز و صدور کی صورت میں تقریباً 45 برس چلا اور ہر بار ایک تباہی سے شروع ہو کر دوسری تباہی پہ ختم ہوا۔ خیر سے دو گورنر جنرلز کے ہاتھوں (غلام محمد اور اسکندر مرزا) چھ وزرائے اعظم گھر سدھارے۔ جب 1956 کا جمہوری و پارلیمانی آئین منظور ہو چکا اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے

    عام انتخابات کو اس لیے ملتوی کر دیا گیا کہ خدشہ تھا کہ بنگالی جمہوریت پسند یا پھر وہ مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر ایک وسیع البنیاد حکومت تشکیل دے دیں گے۔ صدر اسکندر مرزا نے 1958 میں جنرل ایوب (جو محمد علی بوگرہ کی حکومت کے وقت سے وزیرِ دفاع چلے آ رہے تھے) کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ لیکن چند روز بعد ہی جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو چلتا کیا اور پہلی فوجی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ ایوب خان کے مارشل لا سے کنٹرولڈ ’’ڈیموکریسی‘‘ کے سفر نے وہ نسخہ فراہم کیا جو وقفے وقفے سے بعد میں آنے والے طالع آزمائوں کے کام آیا۔ ایوب خان ایک نہایت مرکزیت پسندانہ نظام کے داعی تھے، جن میں صوبوں، شراکتی وفاق، براہِ راست انتخابات یا بالغ رائے دہی، آزاد میڈیا، خود مختار عدلیہ کی گنجائش نہیں تھی، وہ مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے حامی اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کے خلاف تھے (Parity)۔ ایوب خان نے بی ڈی سسٹم متعارف کرایا جس کے 80 ہزار اراکین پر مشتمل انتخابی کالج تھا جس نے مقامی حکومتوں، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور طاقت کے سرچشمے صدرِ پاکستان کا انتخاب کرنا تھا۔ دونوں بازوئوں میں جو چار چار ہزار مقامی نمائندے منتخب کیے گئے اُن میں آدھے نامزد کردہ تھے۔ ایک یکطرفہ ریفرنڈم میں ان 80 ہزار بی ڈی ممبروں نے واحد اُمیدوار ایوب خان کا انتخاب 15 فروری 1960 کو اندھیری اکثریت سے کر لیا۔ ایوب خان نے اپنے انتخاب کے دو سال بعد 1962 میں مارشل لا اُٹھایا۔ اس سب کے لیے بھی اُنہیں 750 سے زائد سیاستدانوں کو کرپشن کے الزام میں پھنسانا پڑا، چوٹی کے تمام سیاستدانوں کو ایبڈو (EBDO) کے تحت سیاست سے نااہل، 1662 افسروں کو فارغ، عدلیہ کو بے اختیار اور میڈیا کو پابند کرنا پڑا۔ پھر بھی اُنہیں اپنے پیشرو گورنر جنرل کی طرز پر بنائی ٹوڈیوں کی ریپبلکن پارٹی کی طرز پر کنونشن مسلم لیگ بنا کر ایک جعلی سیاسی جماعت کا ڈھونگ رچانا پڑا۔ یہی کام ان کے جانشینوں نے جونیجو لیگ اور قائداعظم لیگ بنا کر کیا۔ یہ صدارتی نظام انتہائی آمرانہ ہونے کے باوجود اتنا بوسیدہ تھا کہ جب محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کی آمریت کو 1964 کے بالواسطہ صدارتی انتخابات میں چیلنج کیا تو ملک کے دونوں حصوں میں مادرِ ملت کی فتح کے ڈنکے بج گئے، لیکن دھونس دھاندلی سے محترمہ کی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایوب آمریت کا زوال شروع ہو گیا اور اُسے آپریشن جبرالٹر کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرانے کے ملٹری ایڈونچر کا سہارا لینا پڑا جو 1965 کی جنگ کی صورت میں برآمد ہوا۔ اب آمریت اپنے آخری سانسوں پہ تھی کہ 1968 کے عظیم عوامی اُبھار کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ ایوب خان کو حقِ بالغ رائے دہی، پارلیمانی جمہوریت، شراکتی وفاق اور وَن یونٹ کے خاتمے کے عوامی مطالبات کو ماننا پڑا۔ لیکن ڈکٹیٹر نے جاتے جاتے اپنا ہی آئین توڑ دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر کے خیر سے گھر سدھارا۔ اور پھر نتیجہ یحییٰ خان کے ہاتھوں پاکستان کے دو لخت ہونے پر برآمد ہوا جس کی سیاسی و معاشی بنیاد ایوب خان رکھ گیا تھا۔اب آتے ہیں ’’عشرہ ترقی‘‘ کے ایوبی ماڈل کی طرف۔ اِس کے مصنف مکتبِ ہارورڈ کے گستاف ایف پاپانیک تھے۔ اُن کا نظریہ ’’لالچ کے سماجی افادہ‘‘ پر مبنی تھا جس کی بنیاد ’’سماجی و عملی نابرابری‘‘ پہ رکھی گئی تھی۔ یعنی ہر طرح سے ’’اوپر سے‘‘ (ریاستی سرپرستی میں) اور ’’باہر سے‘‘ (بیرونی امداد/ قرضہ) سرمایہ چند ہاتھوں میں مرکوز کیا جائے۔ ایک گماشتہ اجارہ دار سرمایہ دار طبقہ پیدا کیا جائے جس کے طفیل چند قطرے (Trickle Down Effect) غریبوں کو بیگار کرنے کے لیے میسر ہوں۔ اس سماجی و طبقاتی تفریق کے ساتھ ساتھ تمام ذرائع اور ’’ترقی‘‘ کو مفصل (جس میں مشرقی پاکستان، بلوچستان، اندرونِ سندھ اور پختون خوا شامل تھے) کے اندرونی نوآبادیاتی استحصال کے ذریعے کراچی اور وسطی پنجاب کے دو مراکز کو بڑھاوا دیا جائے۔ نتیجتاً ایک انتہائی خوفناک طبقاتی و علاقائی نابرابری کی بنیاد پر اجارہ داریاں مسلط کی گئیں۔ سارا زور درآمدی متبادل صنعت پر تھا، نہ کہ مضبوط صنعتی بنیاد اور برآمدی صلاحیت پر۔ نتیجتاً 76 فیصد صنعت 43 گھرانوں، 91.6 فیصد بنک ڈیپازٹ سات خاندانوں، تمام مالیاتی ادارے 43 خاندانوں کے پاس چلے گئے جو پبلک سیکٹر کارپوریشنوں پہ بھی حاوی تھے جیسے PICIC۔ بونس وائوچر سکیم، پرمٹ راج اور دہری قدرِ تبادلہ (آدھی مشرقی پاکستان کے لیے) اس کے علاوہ تھے۔ اس کی بنیاد دست نگری اور قرض پہ رکھی گئی جس کی ’’سہولت‘‘ امریکہ کا ’’اتحادیوں میں زیادہ جڑا ہوا اتحادی‘‘ بننے سے فراہم کی گئی اور پاکستان امریکہ کی لے پالک جدید نوآبادی بن گیا اور ہم قرض کے شکنجے اور مستقل خسارے کے گورکھ دھندے میں پھنس گئے اور آج تک نکلنے کو نہیں۔ پاکستان کا قرضہ 65-70 میں 2701 ارب ڈالرز، فوجی امداد 65-66 میں 1.5 ارب ڈالرز اور فوجی اخراجات جی ڈی پی کا 9.6 فیصد ہو گئے۔ اسی طرح زراعت میں سبز انقلاب کی جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی اس کا استفادہ صرف بڑے زمینداروں اور سرمایہ دار بڑے کاشتکاروں کیلئے تھا۔ لہٰذا ایک فیصد سے بھی کم بڑے زمینداروں کا رقبہ کل کاشت رقبے کا 65 فیصد اور 80 فیصد مشینی کاشت 100 ایکڑ سے اوپر کے زمینداروں کے پاس اکٹھی ہو گئی، اور کروڑوں  کسان و دیہاتی غریب بے یار و مددگار ہو گئے۔ تربیلہ اور منگلا ڈیم بنے بھی تو تین دریا بھارت کو بیچ کر۔ یہ درست ہے کہ دوسرے پنج سالہ منصوبے میں ’’ترقی‘‘ کا اُبال آیا، جو تیسرے پنج سالہ منصوبے 1965-70 میں جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اور جس پائیداری کا دعویٰ کیا گیا وہ 20 سالہ منصوبہ تو کجا آج تک حاصل نہ ہوئی۔ ’’100 روپے ہے من آٹا‘‘ پہ شور مچانے والے حبیب جالب آج کیا کہتے جب آٹے دال کا بھائو نئی بلندیوں کے ریکارڈ توڑ رہا ہے اور عمران خان ایوب کی ’’ترقی‘‘ کے گُن گا رہے ہیں اور اُن کے نوجوان صدارت صدارت کی ہاہاکار مچائے جاتے ہیں۔ اس المیے پہ ہم اُنہیں مبارکباد دینے سے رہے۔

    Imtiaz Aalam

    https://jang.com.pk/news/628628-imtiaz-alam-column-14-4-2019

    • This topic was modified 54 years, 4 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2

    سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ، امیر المومنین ، تا حیات اپنی اپنی جماعتوں کے سر براہ

    یہ کون کون لوگ تھے اور ہیں جو جمہوریت کے نام لیوا ہو کر بھی اپنے اپنے طور پر جمہوریت کے معنی سے ادراک بھی نہیں رکھتے

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    پاکستان کے لئے پارلیمانی نظام ہی ٹھیک رہے گا۔ لیکن آئین میں دو چار تبدیلیاں لازمی ہیں۔
    ۔۱۔ فارورڈ بلاک کا راستہ روکا جائے، چاہے فارورڈ بلاک میں میجارٹی ممبرز ہی کیوں نہ چلے جائیں۔
    ۔۲۔ کسی بھی پارلیمانی پارٹی کے نام پر بنے ممبر کے لئے پارٹی تبدیل کرنے یا اگلے الیکشن میں آزاد الیکشن لڑنے کے لئے ضروری ہو کہ وہ ایک پانچ سالہ ٹینئور میں الیکشن نہ لڑ سکے۔ لیکن اگر وہ ایسا سِٹنگ اسمبلی کی مدت کے پہلے اڑھائی سال میں اسمبلی سے استعفی دے کر کرے تو اس پر یہ پابندیاں لاگو نہ ہوں۔
    ۔۳۔ کوئی بھی شخص جو کسی غیر قانونی حکومت (فوجی) میں عہدہ دار رہا ہو یا اس حکومت کی حمایت کر چکا ہو وہ عمر بھر کے لئے الیکٹرول سسٹم سے نا اہل قرار دیا جائے۔
    ۔۴۔ بغیر الیکشن ریزرو سیٹوں پر آنے والی خواتین کے لئے تعلیم کا ایک معیار مقرر کیا جائے، وہ کسی دوسرے ممبر پارلیمنٹ یا امیدوار کی قریبی رشتہ دار نہ ہوں اور ان حلقوں سے ہوں جہاں اس پارٹی نے ہارنے کے باوجود نسبتاً زیادہ ووٹ حاصل کئے۔
    ۔۵۔ حکومت بنانے والی پارٹی چار ٹیکنوکریٹس کو وزیر بنا سکے چاہے وہ ممبر پارلیمنٹ نہ ہی ہوں۔
    ۔۶۔ ہر وہ شہر جو ۳ ملین سے زیادہ آبادی رکھتا ہو، اس کا اپنا بجٹ این ایف سی ایوارڈ میں ہو۔ اور ان شہری حکومتوں کے دائرہ کار کا تعین کیا جائے۔
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    آجکل اچانک سب بوٹ چاٹنے والے اکٹھے ہو کر انگلی والوں کے اشارے پر اٹھتے بیٹھتے صدارتی نظام کا ورد کر رہے ہیں

    فوجیوں کے ان بوٹ چاٹنے والوں سے کوئی پوچھے کہ جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف میں سے کونسا عوام کا منتخب کردہ صدر تھا؟

    یہ سب کے سب فوجی آمر تھے جو غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اخلاقی طریقے سے اپنے اسلحہ اور وردی کی بدمعاشی کے زور پر زبردستی اقتدار پر قبضہ کرکے صدر بنے تھے. انکے انتخاب میں عوام کی کوئی مرضی شامل نہیں تھی

    یہ بوٹ چاٹییے اصل میں صدارتی نظام کے نام پر فوجی آمریت چاہتے ہیں. پہلے ان بوٹ چاٹنے والوں نے یوتھیوں کی حکومت سے انقلاب کی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں لیکن اب چند ماہ میں ہی انکی نا اہلی پوری طرح کھل کر سامنے آنے پر اب یوتھیا حکومت سے مایوس ہو کر انکی نظریں فوجی بوٹوں پر جمی ہوئی ہیں

    عوام کے سخت رد عمل کے خوف سے یہ بوٹ چاٹنے والے کھل کر فوجی آمریت اور مارشل لاء کا نام تو نہیں لے رہے ہیں لیکن حقیقت میں یہ صدارتی نظام کی آڑ میں فوجی آمریت کا راستہ ہی ہموار کر رہے ہیں

    یہ بوٹ چاٹنے والے بھول گئے ہیں کہ اسی صدارتی نظام (فوجی آمریت) کی وجہ سے صوبوں کے درمیان نفرتیں بڑھی تھیں اور ملک دو لخت ہوا تھا. اسی نظام نے پچانوے ہزار فوجیوں کے ساتھ پلٹن گراونڈ والی کروائی تھی. یہی وہ نظام تھا جس نے ملک میں دہشتگردی، مذہبی منافرت، فرقہ ورادیت، علاقہ پرستی اور لسانیت پرستی کو جنم دیا تھا. یہی وہ صدارتی نظام تھا جس نے پورے ملک کا امن تباہ کرکے اسے خون میں نہلا دیا تھا

    کیا یہ بوٹ چاٹنے والے پھر اسی دہشتگردی، مذہبی منافرت، فرقہ ورادیت، علاقہ پرستی اور لسانیت پرستی کو واپس لا کر ملک کا امن تباہ کرکے اسے خون میں نہلانا چاہتے ہیں؟

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    فوج نے صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنے کے لیے بوٹ چاٹنے والے اینکرز کے علاؤہ اپنی باقاعدہ چھبیس رکنی فوجی ٹیم کا اعلان کر دیا ہے

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    ابھی الیکشن کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا اور کسی اور نظام کی باتیں شروع ہو گئی ہیں تو یہ موجودہ حکومت کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ امیدوں پر پوری نہیں اُتر سکی۔

    اس حکومت کو لانے والے اب بےزار ہوچکے ہیں جبھی صدارتی نظام کا ڈول ڈالا ہے کیونکہ عمران خان کی ناکامی کی بات کریں تب بھی منہ پر جوتا پڑے گا۔

    میرے لئے قابل توجہ بات یہ ہے کہ اگر یہاں (آئینی دشواریوں کے باوجود) صدارتی نظام نافذ کردیا جائےتو کیا گارنٹی ہے کہ آرمی چیف صدر نہ بنیں؟؟ نیز کیا گارنٹی ہے کہ عوامی نمائیندے ہی صدر بن سکیں؟؟

    چلیں یہ بھی ہوگیا تو جس قسم کا مطلق العنان نظام یہ کہلاتا ہے اس میں جب عمران خان صدر نہ بن سکا تو پھر بطور اپوزیشن جو سلوک اس کے ساتھ کیا جائے گا کیا تمام انصافین اس کے لئے تیار ہیں؟؟

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    مجھے کوی سمجھا دے کہ پارلیمانی نطام کو فیل قرار دینے والے اس سے زیادہ دیر صدارتی نطام کے ثمرات سے بہرہ ور ہوچکے ہیں تو دونوں میں فرق کیا ہے؟

    جتنے بڑے ایڈوانٹیجز صدران پاکستان کو میسر آے اتنے وزراعظم کو نہیں ملے پھر بھی ایوب، یحیی، ضیا، مشرف تمام کے تمام ملک کو پہلے سے بڑھکر کرائسز میں چھوڑ گئے

    وزراعظم ممبران اسمبلی کی حمایت کے محتاج تھے بلکہ کولیشن گورنمنٹ کے سبب چھوٹی حریص ترین پارٹیوں کے آگے کھلونا بنے رہے جیسے جے یو آی، جماعت اسلامی، اے این پی وغیرہ تھیں اور اب موجودہ سیٹ اپ میں ق لیگ ہے

    صدران کو آزادی تھی کہ دنیا بھر سے بہترین دماغ اکٹھے کرکے حکومت بنائیں، ان کو آڈٹ کا فکر نہیں تھا ، ان کو فوج کی طرف سے دباو نہیں تھا، ان کو خفیہ ایجنسیاں تن نہیں کرتی تھیں، ان کو ممبران کے سلپ ہوجانے اور فارورڈ بلاکس بننے کا خوف نہیں تھا، ان کو امریکہ اور آی ایم ایف کی طرف سے  کھلی امداد ملتی تھی

    اتنی سہولیا ت کے باوجود اگر تمام صدران ناکام ثابت ہوے تو وزراعظم کو طعنے دینے والے انصاف نہیں کررہے

    پھر بھی اسی ناکام سسٹم کی طرفداری بھی سمجھ سے باہر ہے

    عمران کو پہلا صدر بنوانے کا جھانسا دیا جارہا ہے مگر جونہی یہ نظام منظور ہوگیا عمران کی چھٹی کروا دی جاے گی

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8
    صدارتی نظام کی گونج بھی اسٹیبلشمنٹ کے میک شفٹ حل تلاش کرنے کی عادتوں میں سے ایک ہے۔ فوج نے اس ملک کا ستیاناس میک شفٹ سولوشنز کے ذریعے ہی کیا ہے۔ ایسے میک شفٹ سولوشنز کا فوری فائدہ تو فوج اٹھاتی ہے جبکہ قوم اگلی کئی دہائیوں تک اس کی قیمت ادا کرتی ہے۔ لشکر جھنگوی اور تحریک لبیک کا بنایا جانا بھی انہی وقتی سولوشنز کی مثالیں ہیں۔
    اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو واضح میجورٹی نہ دلا سکی تو اب اس کا حل صدارتی نظام میں ڈھونڈ رہی ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ فوج کو اس کام پر لگانے میں چین اور سعودی عرب کا ہاتھ ہے۔
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    جب تک کنویں میں سے کتا نہیں نکلے گا پانی صاف نہیں ہوگا جتنی مرضی دوائیاں ڈال لی جاییں
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10
    جب تک کنویں میں سے کتا نہیں نکلے گا پانی صاف نہیں ہوگا جتنی مرضی دوائیاں ڈال لی جاییں

    :thinking:

    کونسا کتا؟

    خاکی وردی والا یا کالی شیروانی والا یا سفید وگ والا؟

    اس کنویں میں اتنے کتے گرے ہوئے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ کس کس کتے کو کنویں سے باہر نکالیں؟

    Jibran PTI
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #11
    #Islami sadarti nizam

    In sha Allah

    Athar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #12
    #Islami sadarti nizam In sha Allah

    اور صدر نیازی ہوگا؟؟؟

Viewing 12 posts - 1 through 12 (of 12 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi