Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 21 total)
  • Author
    Posts
  • Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    http://e.dunya.com.pk/news/2018/April/2018-04-10/LHR/detail_img/x3831470_26548068.jpg.pagespeed.ic.seGEbgr2Mv.jpg
    • This topic was modified 54 years, 4 months ago by .
    Sohail Ejaz Mirza
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2

    لُٹ  کے پیسہ  ،  کر کے موجاں ،   آپی تے ٹُر  جاندے
    قرضہ ساڈھے سر تے ای  سارا  تواڈا ککھ نہ  رے

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    دو سو ستر ارب والوں کو روتے ہو۔ تیر ہ ہزار ارب والوں کو دعائیں دیتے ہو۔
    حفیظ بابو اگر پی ٹی آئی کی حکومت رہی تو جن منصوبوں پر یہ پیسہ لگا ہے وہی منصوبے
    کما کر یہ پیسہ واپس بھی کریں گے۔ پنجاب کی طرح ہر سال نقصان کرنے اور سبسڈی والے
    منصوبوں پر پیسہ نہیں لگایا گیا۔
    nayab
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4

    دو سو ستر ارب والوں کو روتے ہو۔ تیر ہ ہزار ارب والوں کو دعائیں دیتے ہو۔ حفیظ بابو اگر پی ٹی آئی کی حکومت رہی تو جن منصوبوں پر یہ پیسہ لگا ہے وہی منصوبے کما کر یہ پیسہ واپس بھی کریں گے۔ پنجاب کی طرح ہر سال نقصان کرنے اور سبسڈی والے منصوبوں پر پیسہ نہیں لگایا گیا۔

    شاہد صاحب بات وہ کریں جس میں اگر کی بات نہ ہو آپ دیکھ لیں کہ کے پی کے کے کتنے منصوبے کامیاب ہوے ہیں ضروری نہیں آپ پنجاب سے موازنہ کریں چلیں ہم موازنہ کر بھی لیں تو پھر یوں تو پنجاب حکومت بھی مختلف ٹائم پیریڈ دیتی رہتی ہے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے اس پر کوئی بھروسہ تو نہیں مگر پی ٹی آئی پر  کیسے کر لیں یہ سارے سیاست دان مل کر عوام کو بیوقوف بنا تے ہیں

    جتناقرضہ بتایا گیا ہے رپورٹ میں اور اسکی ادائیگی کے لیے وقت تو میرا نہیں خیال کہ یہ قرضہ کبھی ختم بھی ہو اور بقول آپ کے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت رہی تو وہی منصوبے پیسا کما کر قرضے کی ادائیگی کریں گے تو اس پر میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں ان سیاست دانوں اور عوام کے لیے کہ

    دیکھیے پاتے ہیں عشا ق  بتوں سے کیا فیض

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    شاہد صاحب بات وہ کریں جس میں اگر کی بات نہ ہو آپ دیکھ لیں کہ کے پی کے کے کتنے منصوبے کامیاب ہوے ہیں ضروری نہیں آپ پنجاب سے موازنہ کریں چلیں ہم موازنہ کر بھی لیں تو پھر یوں تو پنجاب حکومت بھی مختلف ٹائم پیریڈ دیتی رہتی ہے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے اس پر کوئی بھروسہ تو نہیں مگر پی ٹی آئی پر کیسے کر لیں یہ سارے سیاست دان مل کر عوام کو بیوقوف بنا تے ہیں جتناقرضہ بتایا گیا ہے رپورٹ میں اور اسکی ادائیگی کے لیے وقت تو میرا نہیں خیال کہ یہ قرضہ کبھی ختم بھی ہو اور بقول آپ کے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت رہی تو وہی منصوبے پیسا کما کر قرضے کی ادائیگی کریں گے تو اس پر میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں ان سیاست دانوں اور عوام کے لیے کہ دیکھیے پاتے ہیں عشا ق بتوں سے کیا فیض

    نایاب جی۔ دو باتیں بہت اہم بھی ہیں اور حقیقت بھی۔ ایک تو یہ کہ پاکستان یا کوئی بھی دوسرا ملک قرضے لئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ خاص طور پر پاکستان میں باہر سے انویسٹمنٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے تو کسی بھی قسم کی ترقی کے لئے قرضوں سے فی الحال جان نہیں چھوٹ سکتی۔ اس لئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان آ کر قرضے لینے بند کر دے گا تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ دوئم یہ کہ اصل مسئلہ قرضے نہیں بلکہ قرض کا پیسہ منافع بخش پراجیکٹس میں لگانا ہے اور ساتھ ہی قرض اتنا ہی لینا ہے جس کی ادائیگیاں ممکن ہوں۔
    اب کے پی بارے مندرجہ بالا پوائینٹس کو کنسِڈر کریں تو بات مزید واضح ہوگی۔
    اول۔ خیبر پختون خواہ کا پنجاب اور سندھ سے موازنہ کیا جائے تو آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکیں گیں کہ یہ صوبہ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے۔ یہاں کی املاک کو بھی نقصان پہنچا اور یہاں کی اسّی فیصد انڈسٹری بھی بند پڑی تھی۔ تو یہاں لوگوں کو جابس مہیا کرنے کے لئے صنعت اور زراعت کی ترقی کے لئے فنڈز کی ضرورت پنجاب اور سندھ کی نسبت زیادہ تھی۔ اور اس بات کو مدِنظر رکھیں کہ صرف بیرونی سرمایہ دار ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بڑا سرمایہ دار بھی مختلف وجوہات (جن میں اکنامک وجوہات بھی ہیں اور دہشت گردی بھی) کی بنا پر یہاں پیسہ نہیں لگاتا۔
    دوئم۔ فاٹا کے لوگوں کا جابس ، ہسپتال اور تعلیم کے لئے خیبر پختون خواہ پر انحصار ہے۔ اس اضافی خرچ کے لئے انہیں کوئی اضافی پیسہ نہیں ملتا۔
    سوئم۔ ہر صوبے کا اپنا ترقیاتی بجٹ ہے لیکن اس کے علاوہ مرکز کا الگ سے ایک ترقیاتی بجٹ بھی ہے جو انہوں نے بڑے قومی منصوبوں کے ساتھ ساتھ ان صوبوں میں لگانے ہوتے ہیں جو کہ قدرتی آفات یا دوسری وجوہات کی بنا پر پیچھے رہ جائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمار ی مرکزی حکومت نے اپنے ترقیاتی فنڈز بلوچستان، فاٹا ، کے پی کے اور کراچی میں لگانے کی بجائے اپنے ووٹ بنک پنجاب پر لگانے کو ترجیح دی۔
    چہارم۔ قرض پر لیا گیا سرمایہ جہاں پنجاب نے ایسے منصوبوں پر لگایا کہ جو شروع ہی سے نقصان پر چلانے کے منصوبے سے بنائے گئے ہیں وہاں کے پی کے کے منصوبے اس طرح بجٹ کئے گئے ہیں کہ نہ صرف وہ اپنا بار اٹھائیں بلکہ پیسہ کما کر لیا گیا قرض بھی واپس کریں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ پنجاب کے تینوں میٹرو منصوبے اور اورنج لائن سبسڈی پر چلانے کے منصوبے ہیں، صرف اورنج لائن کو دیکھیں تو صرف اخراجات ہی پورے کرنے کے لئے ایک ٹکٹ کی قیمت ۱۷۵ بنتی ہے لیکن بیس روپئے میں بیچی جائے گی اور سات ارب سالانہ کا نقصان پنجاب حکومت ادا کرے گی۔ اسی طرح لاہور میٹرو سالانہ چار ارب کا پنجاب حکومت کو ٹیکہ لگا رہی ہے جبکہ ملتان میٹرو کا اللہ ہی وارث ہے کہ بلکہ ہی خالی چل رہی ہے۔ نندی پور ۲۹ روپئے یونٹ بجلی بنا کر چودہ روپئے میں بیچ رہا ہے۔۔ لیکن پختون خواہ نے قرض کا پیسہ ٹورزم، زراعت، انرجی اور پشاور میٹرو پر لگایا ہے۔ اور ان میں سے کوئی بھی پراجیکٹ سبسڈی کے آپشن سے بجٹ نہیں کیا گیا۔ اس بارے ڈان اخبار کا ایک لنک بھی حاضر ہے۔

    https://www.dawn.com/news/1300529
    پنجم۔ جہاں پنجاب اور مرکز آٹھ فیصد سود پر قرضے لے رہے ہیں وہاں پختون خواہ کے سارے قرضے آدھ فیصد سے دو فیصد کے درمیان ہیں۔
    سوئم۔ ان سب پوائینٹس کے باوجود کے پی کے قرضوں کی مقدار پنجاب اور مرکز کے لوٹ سیل کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔

    ہفتم۔ قرض واپسی کا عرصہ جتنا طویل ہو لینے والے کے لئے اتنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ۔ سپیشلی اگر قرض بہت کم سود پر ہو۔

    تو
    ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
    سوچتا ہوں تری حمائت میں
    جون ایلیا

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    نایاب جی۔ دو باتیں بہت اہم بھی ہیں اور حقیقت بھی۔ ایک تو یہ کہ پاکستان یا کوئی بھی دوسرا ملک قرضے لئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ خاص طور پر پاکستان میں باہر سے انویسٹمنٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے تو کسی بھی قسم کی ترقی کے لئے قرضوں سے فی الحال جان نہیں چھوٹ سکتی۔ اس لئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان آ کر قرضے لینے بند کر دے گا تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ دوئم یہ کہ اصل مسئلہ قرضے نہیں بلکہ قرض کا پیسہ منافع بخش پراجیکٹس میں لگانا ہے اور ساتھ ہی قرض اتنا ہی لینا ہے جس کی ادائیگیاں ممکن ہوں۔ اب کے پی بارے مندرجہ بالا پوائینٹس کو کنسِڈر کریں تو بات مزید واضح ہوگی۔ اول۔ خیبر پختون خواہ کا پنجاب اور سندھ سے موازنہ کیا جائے تو آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکیں گیں کہ یہ صوبہ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے۔ یہاں کی املاک کو بھی نقصان پہنچا اور یہاں کی اسّی فیصد انڈسٹری بھی بند پڑی تھی۔ تو یہاں لوگوں کو جابس مہیا کرنے کے لئے صنعت اور زراعت کی ترقی کے لئے فنڈز کی ضرورت پنجاب اور سندھ کی نسبت زیادہ تھی۔ اور اس بات کو مدِنظر رکھیں کہ صرف بیرونی سرمایہ دار ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بڑا سرمایہ دار بھی مختلف وجوہات (جن میں اکنامک وجوہات بھی ہیں اور دہشت گردی بھی) کی بنا پر یہاں پیسہ نہیں لگاتا۔ دوئم۔ فاٹا کے لوگوں کا جابس ، ہسپتال اور تعلیم کے لئے خیبر پختون خواہ پر انحصار ہے۔ اس اضافی خرچ کے لئے انہیں کوئی اضافی پیسہ نہیں ملتا۔ سوئم۔ ہر صوبے کا اپنا ترقیاتی بجٹ ہے لیکن اس کے علاوہ مرکز کا الگ سے ایک ترقیاتی بجٹ بھی ہے جو انہوں نے بڑے قومی منصوبوں کے ساتھ ساتھ ان صوبوں میں لگانے ہوتے ہیں جو کہ قدرتی آفات یا دوسری وجوہات کی بنا پر پیچھے رہ جائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمار ی مرکزی حکومت نے اپنے ترقیاتی فنڈز بلوچستان، فاٹا ، کے پی کے اور کراچی میں لگانے کی بجائے اپنے ووٹ بنک پنجاب پر لگانے کو ترجیح دی۔ چہارم۔ قرض پر لیا گیا سرمایہ جہاں پنجاب نے ایسے منصوبوں پر لگایا کہ جو شروع ہی سے نقصان پر چلانے کے منصوبے سے بنائے گئے ہیں وہاں کے پی کے کے منصوبے اس طرح بجٹ کئے گئے ہیں کہ نہ صرف وہ اپنا بار اٹھائیں بلکہ پیسہ کما کر لیا گیا قرض بھی واپس کریں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ پنجاب کے تینوں میٹرو منصوبے اور اورنج لائن سبسڈی پر چلانے کے منصوبے ہیں، صرف اورنج لائن کو دیکھیں تو صرف اخراجات ہی پورے کرنے کے لئے ایک ٹکٹ کی قیمت ۱۷۵ بنتی ہے لیکن بیس روپئے میں بیچی جائے گی اور سات ارب سالانہ کا نقصان پنجاب حکومت ادا کرے گی۔ اسی طرح لاہور میٹرو سالانہ چار ارب کا پنجاب حکومت کو ٹیکہ لگا رہی ہے جبکہ ملتان میٹرو کا اللہ ہی وارث ہے کہ بلکہ ہی خالی چل رہی ہے۔ نندی پور ۲۹ روپئے یونٹ بجلی بنا کر چودہ روپئے میں بیچ رہا ہے۔۔ لیکن پختون خواہ نے قرض کا پیسہ ٹورزم، زراعت، انرجی اور پشاور میٹرو پر لگایا ہے۔ اور ان میں سے کوئی بھی پراجیکٹ سبسڈی کے آپشن سے بجٹ نہیں کیا گیا۔ اس بارے ڈان اخبار کا ایک لنک بھی حاضر ہے۔ https://www.dawn.com/news/1300529 پنجم۔ جہاں پنجاب اور مرکز آٹھ فیصد سود پر قرضے لے رہے ہیں وہاں پختون خواہ کے سارے قرضے آدھ فیصد سے دو فیصد کے درمیان ہیں۔ سوئم۔ ان سب پوائینٹس کے باوجود کے پی کے قرضوں کی مقدار پنجاب اور مرکز کے لوٹ سیل کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ ہفتم۔ قرض واپسی کا عرصہ جتنا طویل ہو لینے والے کے لئے اتنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ۔ سپیشلی اگر قرض بہت کم سود پر ہو۔ تو ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر سوچتا ہوں تری حمائت میں جون ایلیا

    استاد جی بڑا اچھا تجزیہ پیش کیا ہے ہے ۔

    اب نوازشریف کی طرح یہ مت کہئے گا۔۔۔۔

    او ۔۔اتنی لمبی تقریر کا ۔۔اتنا چھوٹا جواب ۔

    اگر آپ نے مائی نایاب سے باعث کرنی ہے ۔تو بہتر ہے خادم حسین رضوی  آف لنگڑیال سے صلح کر لیں ۔۔

    آپ کو معلوم ہے عاطف صاحب ان کو یہ ذمہ داری سونپ گئے ہوئے ہیں ۔۔مجبوری سمجھا کریں 

    :bigsmile:

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    استاد جی بڑا اچھا تجزیہ پیش کیا ہے ہے ۔ اب نوازشریف کی طرح یہ مت کہئے گا۔۔۔۔ او ۔۔اتنی لمبی تقریر کا ۔۔اتنا چھوٹا جواب ۔ اگر آپ نے مائی نایاب سے باعث کرنی ہے ۔تو بہتر ہے خادم حسین رضوی آف لنگڑیال سے صلح کر لیں ۔۔ آپ کو معلوم ہے عاطف صاحب ان کو یہ ذمہ داری سونپ گئے ہوئے ہیں ۔۔مجبوری سمجھا کریں :bigsmile:

    :hilar: :hilar:   :hilar:   :hilar:   :hilar:   :hilar:   :hilar:

    nayab
    Participant
    Offline
    • Professional
    #8

    استاد جی بڑا اچھا تجزیہ پیش کیا ہے ہے ۔ اب نوازشریف کی طرح یہ مت کہئے گا۔۔۔۔ او ۔۔اتنی لمبی تقریر کا ۔۔اتنا چھوٹا جواب ۔ اگر آپ نے مائی نایاب سے باعث کرنی ہے ۔تو بہتر ہے خادم حسین رضوی آف لنگڑیال سے صلح کر لیں ۔۔ آپ کو معلوم ہے عاطف صاحب ان کو یہ ذمہ داری سونپ گئے ہوئے ہیں ۔۔مجبوری سمجھا کریں 

    چلیں میں شاہد صاحب کے اتنی تفصیلی  تجزیے کے بعد کوئی بحث نہیں کرتی نہ میری اتنی اوقات ہے

    شاہد صاحب ان سے صلح کریں یا نہ کریں لگتا ہے مجھے اور آپ کو صلح کی ضرورت ہے

    :jhanda:

    اورشاہد صاحب آپ کا بہت شکریہ

    :jazak:

    shahidabassi

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    چلیں میں شاہد صاحب کے اتنی تفصیلی تجزیے کے بعد کوئی بحث نہیں کرتی نہ میری اتنی اوقات ہے شاہد صاحب ان سے صلح کریں یا نہ کریں لگتا ہے مجھے اور آپ کو صلح کی ضرورت ہے :jhanda: اورشاہد صاحب آپ کا بہت شکریہ :jazak: shahidabassi

    پہلی بات یہ کہ ہماری نظر میں آپ کی اوقات بھی ہے اور احترام بھی بہت۔ آپ کے نقطہِ نظر سے کبھی کبھی اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن آپ کی ہر بات وزن رکھتی ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اگر بحث کرتیں تو آپ کا اگلا سوال یہی ہونا تھا کہ تمہارے پاس کیا گدڑ سنگھی ہے کہ تم یہ جان سکو کہ پختونخواہ کے پراجیکٹ بھی ایک دو سال میں گھاٹے میں نظر نہیں آئیں گے۔ اور بلآخر میرے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔
    باقی یہ رضا بھائی سے آجکل کیا دشمنی چل رہی ہے کہ صلح کی ضرورت پڑ گئی۔ یہ بندہ ذرا خطرناک ہے اس سے بچ کر رہیے۔ سنا ہے الطاف حسین بوریاں انہی کی ورکشاپ سے سلواتا تھا۔

    :lol: :lol:

    nayab
    Participant
    Offline
    • Professional
    #10
    پہلی بات یہ کہ ہماری نظر میں آپ کی اوقات بھی ہے اور احترام بھی بہت۔ آپ کے نقطہِ نظر سے کبھی کبھی اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن آپ کی ہر بات وزن رکھتی ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اگر بحث کرتیں تو آپ کا اگلا سوال یہی ہونا تھا کہ تمہارے پاس کیا گدڑ سنگھی ہے کہ تم یہ جان سکو کہ پختونخواہ کے پراجیکٹ بھی ایک دو سال میں گھاٹے میں نظر نہیں آئیں گے۔ اور بلآخر میرے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ باقی یہ رضا بھائی سے آجکل کیا دشمنی چل رہی ہے کہ صلح کی ضرورت پڑ گئی۔ یہ بندہ ذرا خطرناک ہے اس سے بچ کر رہیے۔ سنا ہے الطاف حسین بوریاں انہی کی ورکشاپ سے سلواتا تھا۔ :lol: :lol:

    عزت و احترم کے لیے مشکور ہوں

    :jazak:

    باقی اس سے بڑی اور کیا وجہ ہو گی سلیم صاحب سے صلح کی

    :facepalm:

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11
    عزت و احترم کے لیے مشکور ہوں :jazak: باقی اس سے بڑی اور کیا وجہ ہو گی سلیم صاحب سے صلح کی :facepalm:

    نایاب

    میری تو آپ سے لڑائی نہیں ہوئی ۔تو صلح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔

    nayab
    Participant
    Offline
    • Professional
    #12
    نایاب میری تو آپ سے لڑائی نہیں ہوئی ۔تو صلح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔

    لڑائی کیوں ہو گی خدا نخواستہ آپ نے ایسا کیا کر دیا

    :tape:

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13
    نایاب میری تو آپ سے لڑائی نہیں ہوئی ۔تو صلح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔

    یعنی اب پہلے لڑائی کا بندوبست کیا جائے؟

    یا صلح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

    :lol:

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #14
    یعنی اب پہلے لڑائی کا بندوبست کیا جائے؟ یا صلح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا :lol:

    صلح کرنے کے لیے پہلے لڑائی ضروری ہوتی ہے ۔۔چونکہ  چونچہ لڑائی نہیں ہوئی تو پھر صلح کیسے ہو سکتی ہے ۔

    سمجھ آئی ۔جے ۔۔  یا فیر بلاوں ۔۔خادم حسین رضوی ۔لنگڑایاں شریف  والوں کو ۔۔

    :bigsmile:

    Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #15
    نایاب جی۔ دو باتیں بہت اہم بھی ہیں اور حقیقت بھی۔ ایک تو یہ کہ پاکستان یا کوئی بھی دوسرا ملک قرضے لئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ خاص طور پر پاکستان میں باہر سے انویسٹمنٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے تو کسی بھی قسم کی ترقی کے لئے قرضوں سے فی الحال جان نہیں چھوٹ سکتی۔ اس لئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان آ کر قرضے لینے بند کر دے گا تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ دوئم یہ کہ اصل مسئلہ قرضے نہیں بلکہ قرض کا پیسہ منافع بخش پراجیکٹس میں لگانا ہے اور ساتھ ہی قرض اتنا ہی لینا ہے جس کی ادائیگیاں ممکن ہوں۔ اب کے پی بارے مندرجہ بالا پوائینٹس کو کنسِڈر کریں تو بات مزید واضح ہوگی۔ اول۔ خیبر پختون خواہ کا پنجاب اور سندھ سے موازنہ کیا جائے تو آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکیں گیں کہ یہ صوبہ دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے۔ یہاں کی املاک کو بھی نقصان پہنچا اور یہاں کی اسّی فیصد انڈسٹری بھی بند پڑی تھی۔ تو یہاں لوگوں کو جابس مہیا کرنے کے لئے صنعت اور زراعت کی ترقی کے لئے فنڈز کی ضرورت پنجاب اور سندھ کی نسبت زیادہ تھی۔ اور اس بات کو مدِنظر رکھیں کہ صرف بیرونی سرمایہ دار ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بڑا سرمایہ دار بھی مختلف وجوہات (جن میں اکنامک وجوہات بھی ہیں اور دہشت گردی بھی) کی بنا پر یہاں پیسہ نہیں لگاتا۔ دوئم۔ فاٹا کے لوگوں کا جابس ، ہسپتال اور تعلیم کے لئے خیبر پختون خواہ پر انحصار ہے۔ اس اضافی خرچ کے لئے انہیں کوئی اضافی پیسہ نہیں ملتا۔ سوئم۔ ہر صوبے کا اپنا ترقیاتی بجٹ ہے لیکن اس کے علاوہ مرکز کا الگ سے ایک ترقیاتی بجٹ بھی ہے جو انہوں نے بڑے قومی منصوبوں کے ساتھ ساتھ ان صوبوں میں لگانے ہوتے ہیں جو کہ قدرتی آفات یا دوسری وجوہات کی بنا پر پیچھے رہ جائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمار ی مرکزی حکومت نے اپنے ترقیاتی فنڈز بلوچستان، فاٹا ، کے پی کے اور کراچی میں لگانے کی بجائے اپنے ووٹ بنک پنجاب پر لگانے کو ترجیح دی۔ چہارم۔ قرض پر لیا گیا سرمایہ جہاں پنجاب نے ایسے منصوبوں پر لگایا کہ جو شروع ہی سے نقصان پر چلانے کے منصوبے سے بنائے گئے ہیں وہاں کے پی کے کے منصوبے اس طرح بجٹ کئے گئے ہیں کہ نہ صرف وہ اپنا بار اٹھائیں بلکہ پیسہ کما کر لیا گیا قرض بھی واپس کریں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ پنجاب کے تینوں میٹرو منصوبے اور اورنج لائن سبسڈی پر چلانے کے منصوبے ہیں، صرف اورنج لائن کو دیکھیں تو صرف اخراجات ہی پورے کرنے کے لئے ایک ٹکٹ کی قیمت ۱۷۵ بنتی ہے لیکن بیس روپئے میں بیچی جائے گی اور سات ارب سالانہ کا نقصان پنجاب حکومت ادا کرے گی۔ اسی طرح لاہور میٹرو سالانہ چار ارب کا پنجاب حکومت کو ٹیکہ لگا رہی ہے جبکہ ملتان میٹرو کا اللہ ہی وارث ہے کہ بلکہ ہی خالی چل رہی ہے۔ نندی پور ۲۹ روپئے یونٹ بجلی بنا کر چودہ روپئے میں بیچ رہا ہے۔۔ لیکن پختون خواہ نے قرض کا پیسہ ٹورزم، زراعت، انرجی اور پشاور میٹرو پر لگایا ہے۔ اور ان میں سے کوئی بھی پراجیکٹ سبسڈی کے آپشن سے بجٹ نہیں کیا گیا۔ اس بارے ڈان اخبار کا ایک لنک بھی حاضر ہے۔ https://www.dawn.com/news/1300529 پنجم۔ جہاں پنجاب اور مرکز آٹھ فیصد سود پر قرضے لے رہے ہیں وہاں پختون خواہ کے سارے قرضے آدھ فیصد سے دو فیصد کے درمیان ہیں۔ سوئم۔ ان سب پوائینٹس کے باوجود کے پی کے قرضوں کی مقدار پنجاب اور مرکز کے لوٹ سیل کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ ہفتم۔ قرض واپسی کا عرصہ جتنا طویل ہو لینے والے کے لئے اتنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ۔ سپیشلی اگر قرض بہت کم سود پر ہو۔ تو ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر سوچتا ہوں تری حمائت میں جون ایلیا

    اپنا بوجھ خود اٹھانے کی بھی آپ نے خوب کہی ، خبر پختونخوا حکومت یا تو خود چ…ا ہے یا ہمیں سمجھتی ہے ، مثال کے طور پر ایک منصوبہ لیتے ہیں بی آر ٹی ، حکومت کے مطابق شہر کی کل آبادی کا سترہ فیصد یعنی پانچ لاکھ افراد روزانہ اس جنگلہ بس سروس سے سفر کریں گے ، کیسے یہ نہیں بتایا (لاہور پانچ گنا بڑا ، اسلام آباد / راولپنڈی تین گنا ، ملتان دو گنا بڑا شہر ہے اسکی میٹرو میں اتنے لوگ روزانہ سفر نہیں کرتے ) ،روز کا کتنا خرچہ ہوگا فی مسافر کتنے میں پڑے گا ، ٹکٹ کی مد میں کتنے پیسے وصول ہونگے ، کسی بات کا ککھ علم نہیں بس کہتے ہیں ہم نے کہہ دیا اب یقین کرلو کہ یہ اپنا بوجھ خود اٹھائے گی، اگر کل قرض اور سود کی رقم کو پانچ لاکھ روزانہ کے مسافروں پر تقسیم کریں تو بارہ روپے تو صرف یہ بنیں گے اگر حقیقت پسندانہ تخمینہ زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ مسافر روزانہ لگائیں تو ساٹھ روپے فی ٹکٹ بنتا ہے ، ابھی باقی اخراجات باقی ہیں جن میں فیول ، تنخواہیں ، مرمت وغیرہ شامل ہیں

    شرح سود کے حوالے سے بھی جھوٹ بول رہے ہیں ، پھر بی آر ٹی کی مثال سامنے رکھتے ہیں ، بی آر ٹی کیلئے درکار ٦١ ارب میں سے ٣٥ ارب جو ایشین ڈولوپمنٹ بینک سے ملیں گے کیلئے شرح سود ٢.٦٤ فیصد ہے ، جبکہ دیگر اخراجات ملا کر یہ شرح سود تین فیصد ہوجاتی ہے ، باقی رقم مقامی بینکوں سے حاصل کی جائے گی جس کیلئے کیبور ریٹ ہی چلے گا جو کہ آٹھ فیصد سالانہ ہے مزید یہ کہ ایشین ڈولوپمنٹ بینک ٢٠٢٢ تک رقم قسطوں میں ادا کریگا اور حکومت الیکشن سے پہلے یہ پراجیکٹ چلانا چاہتی ہے ، اس طرح الیکشن سے پہلے یہ پراجیکٹ چلانے کیلئے تین سال کیلئے مقامی یا بین الاقوامی اداروں سے مہنگے سود پر قرض لیا جائے گا

    https://www.adb.org/sites/default/files/project-documents/48289/48289-002-pam-en.pdf

    یہ درست ہے کہ فاٹا کے لوگوں کا تعلیم اور صحت کیلئے انحصار خیبر پختونخوا کے محکمہ ہائے تعلیم و صحت پر ہوتا ہے لیکن اسکے کیلئے انہیں وفاق سے بزریعہ گورنر فنڈز ملتے ہیں اس مد میں خیبر پختونخوا کے محکمہ جات برائے تعلیم و صحت میں باقاعدہ ڈویزن بھی موجود ہیں ، خیبر پختونخوا کے محکمہ ہائے تعلیم و صحت اس میں کتنا خرچ فاٹا پر کرتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے ، البتہ اگر آپ لاہور ، راولپنڈی ملتان تک ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پختونوں کی تعداد کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوجائے گا کون کس کا بوجھ اٹھاتا ہے

    یہ درست ہے کہ مرکز زیادہ فنڈز پنجاب میں لگاتا ہے کہ حصہ بقدر جثہ ہی ملتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ باقی صوبوں کو کچھ نہیں ملتا بلکہ انکے حصے سے زیادہ ملتا ہے ، پنجاب میں مرکز نے کون سا میگا پراجیکٹ لگایا ہے اسکی ہمیں اطلاع کردیں؟ صوبوں پر خرچ کے حوالے سے کونسل برائے کامن انٹرسٹ منظوری دیتی ہے ، جس میں تمام صوبوں کی نمائیندگی برابر ہوتی ہے

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #16
    اپنا بوجھ خود اٹھانے کی بھی آپ نے خوب کہی ، خبر پختونخوا حکومت یا تو خود چ…ا ہے یا ہمیں سمجھتی ہے ، مثال کے طور پر ایک منصوبہ لیتے ہیں بی آر ٹی ، حکومت کے مطابق شہر کی کل آبادی کا سترہ فیصد یعنی پانچ لاکھ افراد روزانہ اس جنگلہ بس سروس سے سفر کریں گے ، کیسے یہ نہیں بتایا (لاہور پانچ گنا بڑا ، اسلام آباد / راولپنڈی تین گنا ، ملتان دو گنا بڑا شہر ہے اسکی میٹرو میں اتنے لوگ روزانہ سفر نہیں کرتے ) ،روز کا کتنا خرچہ ہوگا فی مسافر کتنے میں پڑے گا ، ٹکٹ کی مد میں کتنے پیسے وصول ہونگے ، کسی بات کا ککھ علم نہیں بس کہتے ہیں ہم نے کہہ دیا اب یقین کرلو کہ یہ اپنا بوجھ خود اٹھائے گی، اگر کل قرض اور سود کی رقم کو پانچ لاکھ روزانہ کے مسافروں پر تقسیم کریں تو بارہ روپے تو صرف یہ بنیں گے اگر حقیقت پسندانہ تخمینہ زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ مسافر روزانہ لگائیں تو ساٹھ روپے فی ٹکٹ بنتا ہے ، ابھی باقی اخراجات باقی ہیں جن میں فیول ، تنخواہیں ، مرمت وغیرہ شامل ہیں شرح سود کے حوالے سے بھی جھوٹ بول رہے ہیں ، پھر بی آر ٹی کی مثال سامنے رکھتے ہیں ، بی آر ٹی کیلئے درکار ٦١ ارب میں سے ٣٥ ارب جو ایشین ڈولوپمنٹ بینک سے ملیں گے کیلئے شرح سود ٢.٦٤ فیصد ہے ، جبکہ دیگر اخراجات ملا کر یہ شرح سود تین فیصد ہوجاتی ہے ، باقی رقم مقامی بینکوں سے حاصل کی جائے گی جس کیلئے کیبور ریٹ ہی چلے گا جو کہ آٹھ فیصد سالانہ ہے مزید یہ کہ ایشین ڈولوپمنٹ بینک ٢٠٢٢ تک رقم قسطوں میں ادا کریگا اور حکومت الیکشن سے پہلے یہ پراجیکٹ چلانا چاہتی ہے ، اس طرح الیکشن سے پہلے یہ پراجیکٹ چلانے کیلئے تین سال کیلئے مقامی یا بین الاقوامی اداروں سے مہنگے سود پر قرض لیا جائے گا https://www.adb.org/sites/default/files/project-documents/48289/48289-002-pam-en.pdf یہ درست ہے کہ فاٹا کے لوگوں کا تعلیم اور صحت کیلئے انحصار خیبر پختونخوا کے محکمہ ہائے تعلیم و صحت پر ہوتا ہے لیکن اسکے کیلئے انہیں وفاق سے بزریعہ گورنر فنڈز ملتے ہیں اس مد میں خیبر پختونخوا کے محکمہ جات برائے تعلیم و صحت میں باقاعدہ ڈویزن بھی موجود ہیں ، خیبر پختونخوا کے محکمہ ہائے تعلیم و صحت اس میں کتنا خرچ فاٹا پر کرتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے ، البتہ اگر آپ لاہور ، راولپنڈی ملتان تک ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پختونوں کی تعداد کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوجائے گا کون کس کا بوجھ اٹھاتا ہے یہ درست ہے کہ مرکز زیادہ فنڈز پنجاب میں لگاتا ہے کہ حصہ بقدر جثہ ہی ملتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ باقی صوبوں کو کچھ نہیں ملتا بلکہ انکے حصے سے زیادہ ملتا ہے ، پنجاب میں مرکز نے کون سا میگا پراجیکٹ لگایا ہے اسکی ہمیں اطلاع کردیں؟ صوبوں پر خرچ کے حوالے سے کونسل برائے کامن انٹرسٹ منظوری دیتی ہے ، جس میں تمام صوبوں کی نمائیندگی برابر ہوتی ہے

    یہ چیز! اسے کہتے ہیں ثبوتوں کے ساتھ بات کرنا۔

    زبردست حفیظ بھائی۔ شاہد بھائی یہاں کچے ذہن کے ممبران کو فیس بکی ترقی کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #17
    یہ چیز! اسے کہتے ہیں ثبوتوں کے ساتھ بات کرنا۔ زبردست حفیظ بھائی۔ شاہد بھائی یہاں کچے ذہن کے ممبران کو فیس بکی ترقی کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

    آج کل نونیوں کو وقتی خوشیاں ہی ملتی ہیں۔ خواجہ حارث نے واجد ضیا سے ایک ہی سوال پندرہ دفعہ پوچھا تو ن لیگیوں نے بھی پندرہ دفعہ ہی بھنگڑا ڈالا۔ لڈو مٹھائیاں بانٹنے کی کہانی تو اب تک سنائی جاتی ہے۔ سوچ رہا ہوں حفیظ بھائی کے ثبوتوں بھرے کمنٹ کا جواب دوں یا آپ کو خوش ہی رہنے دوں۔ ویسے ملتانی حلوے کے دو ڈبے ادھر بھیج دیں تو مٹی پاؤ کی پالیسی اپنانے پر غور کیا جا سکتا ہے بلکہ حفیظ بھائی کی ہاں میں ہاں بھی ملائی جا سکتی ہے۔

    :lol: :lol:

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #18
    آج کل نونیوں کو وقتی خوشیاں ہی ملتی ہیں۔ خواجہ حارث نے واجد ضیا سے ایک ہی سوال پندرہ دفعہ پوچھا تو ن لیگیوں نے بھی پندرہ دفعہ ہی بھنگڑا ڈالا۔ لڈو مٹھائیاں بانٹنے کی کہانی تو اب تک سنائی جاتی ہے۔ سوچ رہا ہوں حفیظ بھائی کے ثبوتوں بھرے کمنٹ کا جواب دوں یا آپ کو خوش ہی رہنے دوں۔ ویسے ملتانی حلوے کے دو ڈبے ادھر بھیج دیں تو مٹی پاؤ کی پالیسی اپنانے پر غور کیا جا سکتا ہے بلکہ حفیظ بھائی کی ہاں میں ہاں بھی ملائی جا سکتی ہے۔ :lol: :lol:

    ویسے اج کل پاکستان سرکاری ملازم تو بچارے مسکین ویسے ہی کمی ہوتے ہیں ۔تھوڑا سا حکومت وقت کی چاپلوسی میں فرق آیا تو ان کو گھر کا راستہ نظر آنے لگتا ہے ۔۔۔۔کم از کم بچارے نمک تو حلال کر رہے ہیں ۔۔۔۔اور باقی پرائیوٹ سیکٹر میں جو جاب کرتے ہیں ان کا تو سرکاری ملازمین سے بھی برا حال ہے  جہاں مالک  کے علاوہ حکومت وقت کی درباری لازمی ہے ورنہ ۔۔۔۔

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19
    اپنا بوجھ خود اٹھانے کی بھی آپ نے خوب کہی ، خبر پختونخوا حکومت یا تو خود چ…ا ہے یا ہمیں سمجھتی ہے ، مثال کے طور پر ایک منصوبہ لیتے ہیں بی آر ٹی ، حکومت کے مطابق شہر کی کل آبادی کا سترہ فیصد یعنی پانچ لاکھ افراد روزانہ اس جنگلہ بس سروس سے سفر کریں گے ، کیسے یہ نہیں بتایا (لاہور پانچ گنا بڑا ، اسلام آباد / راولپنڈی تین گنا ، ملتان دو گنا بڑا شہر ہے اسکی میٹرو میں اتنے لوگ روزانہ سفر نہیں کرتے ) ،روز کا کتنا خرچہ ہوگا فی مسافر کتنے میں پڑے گا ، ٹکٹ کی مد میں کتنے پیسے وصول ہونگے ، کسی بات کا ککھ علم نہیں بس کہتے ہیں ہم نے کہہ دیا اب یقین کرلو کہ یہ اپنا بوجھ خود اٹھائے گی، اگر کل قرض اور سود کی رقم کو پانچ لاکھ روزانہ کے مسافروں پر تقسیم کریں تو بارہ روپے تو صرف یہ بنیں گے اگر حقیقت پسندانہ تخمینہ زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ مسافر روزانہ لگائیں تو ساٹھ روپے فی ٹکٹ بنتا ہے ، ابھی باقی اخراجات باقی ہیں جن میں فیول ، تنخواہیں ، مرمت وغیرہ شامل ہیں شرح سود کے حوالے سے بھی جھوٹ بول رہے ہیں ، پھر بی آر ٹی کی مثال سامنے رکھتے ہیں ، بی آر ٹی کیلئے درکار ٦١ ارب میں سے ٣٥ ارب جو ایشین ڈولوپمنٹ بینک سے ملیں گے کیلئے شرح سود ٢.٦٤ فیصد ہے ، جبکہ دیگر اخراجات ملا کر یہ شرح سود تین فیصد ہوجاتی ہے ، باقی رقم مقامی بینکوں سے حاصل کی جائے گی جس کیلئے کیبور ریٹ ہی چلے گا جو کہ آٹھ فیصد سالانہ ہے مزید یہ کہ ایشین ڈولوپمنٹ بینک ٢٠٢٢ تک رقم قسطوں میں ادا کریگا اور حکومت الیکشن سے پہلے یہ پراجیکٹ چلانا چاہتی ہے ، اس طرح الیکشن سے پہلے یہ پراجیکٹ چلانے کیلئے تین سال کیلئے مقامی یا بین الاقوامی اداروں سے مہنگے سود پر قرض لیا جائے گا https://www.adb.org/sites/default/files/project-documents/48289/48289-002-pam-en.pdf یہ درست ہے کہ فاٹا کے لوگوں کا تعلیم اور صحت کیلئے انحصار خیبر پختونخوا کے محکمہ ہائے تعلیم و صحت پر ہوتا ہے لیکن اسکے کیلئے انہیں وفاق سے بزریعہ گورنر فنڈز ملتے ہیں اس مد میں خیبر پختونخوا کے محکمہ جات برائے تعلیم و صحت میں باقاعدہ ڈویزن بھی موجود ہیں ، خیبر پختونخوا کے محکمہ ہائے تعلیم و صحت اس میں کتنا خرچ فاٹا پر کرتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے ، البتہ اگر آپ لاہور ، راولپنڈی ملتان تک ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پختونوں کی تعداد کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوجائے گا کون کس کا بوجھ اٹھاتا ہے یہ درست ہے کہ مرکز زیادہ فنڈز پنجاب میں لگاتا ہے کہ حصہ بقدر جثہ ہی ملتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ باقی صوبوں کو کچھ نہیں ملتا بلکہ انکے حصے سے زیادہ ملتا ہے ، پنجاب میں مرکز نے کون سا میگا پراجیکٹ لگایا ہے اسکی ہمیں اطلاع کردیں؟ صوبوں پر خرچ کے حوالے سے کونسل برائے کامن انٹرسٹ منظوری دیتی ہے ، جس میں تمام صوبوں کی نمائیندگی برابر ہوتی ہے

    حفیظ بھائی، یہ چ۔۔ا (چریا یعنی بیوقوف) والی بات آپ کی واقعی ہی سہی ہے کہ کے پی والے نونیوں کو یہی سمجھتے ہیں۔

    بات تو ٹورزم انرجی اور زراعت کے پراجیکٹس کی بھی ہو رہی تھی لیکن ن لیگ کے تجزیہ نگار آج کل اپنا سارا زور پشاور بی آر ٹی پر ہی لگا رہے ہیں تو چلیں اسی پر بات کر لیتے ہیں اور آپ کے دئے گئے اعداد و شمار کی ڈائیسیکشن کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔

    پہلی بات آپ کی یہ غلط ہے کہ چونکہ خیبر پختون خواہ حکومت الیکشن سے پہلے پراجیکٹ کو مکمل کرنا چاہتی ہے اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی ادائیگیاں اگلے پانچ سالوں میں قسطوں میں ہونی ہیں تو اس دوران صوبائی حکومت کو بنکوں سے مہنگے قرضے لینے پڑیں گے۔ آپ کی یہ سٹیٹمنٹ واقعی نا سمجھی پر مبنی ہے۔ صوبائی حکومت کے آخری اعلان تک کاریڈور کا کنسٹرکشن ورک اکتوبر ۲۰۱۸ میں مکمل ہو گا ، جبکہ دکانوں اور پارکنگ پلازہ ۲۰۱۹ میں مکمل ہونگے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کنسٹرکشن کمپنیوں کو آخری ۳۰ فیصد ادائیگیاں کنسٹرکشن مکمل ہونے کے چھ سے سات ماہ بعد کرنی ہوتی ہیں لیکن حقیقتاً یہ ادائیگیاں ایک سال گزرنے کے بعد ہی ہوا کرتی ہیں۔ یہ بھی نوٹ کریں کے رولنگ سٹاک، جو کہ ۴۴۵ بسوں پر مشتمل ہے اس میں سے صرف ۱۵۵ بسیں ہی پہلے سال کے لئے آرڈر کی گئی ہیں جبکہ فیڈر روٹس ۲۰۱۹ کے اوخر میں ہی شروع ہو سکیں گے۔ اے ڈی بی سے ۳۵ ارب کے لون میں سے صرف ۴ ارب ہی ۲۰۱۹ کے بعد ادا ہونگے۔ ۱۶ ارب کے یورپین ڈویلپمنٹ بنکس سے لئے لونز کی ادائیگیاں بھی ۲۰۱۸ ہی میں ہو جائیں گیں۔ باقی بچنے والے دس ارب صوبائی گورنمنٹ کے بجٹ میں ایلوکیٹ کئے گئے ہیں۔ تو حفیظ بھائی کونسے بنکوں سے قرضے لینے پڑیں گے اور کیوں؟

    آپ کی دوسری بات، بھی ٹوٹلی غلط۔ کسی بھی حکومتی ڈاکومنٹ یا ایشیائی ترقیاتی بنک کے پیپرز میں یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ روزانہ ۵ لاکھ بندہ ان بسوں میں سفر کرے گا۔ یہ بات آپ کی اختراع ہے یا ایک آدھ پی ٹی آئی سپورٹرز کے فیس بک پوسٹرز میں۔ میڈیا کوریج، گورنمنٹ رپورٹس اور آپ کی ہی لنک کے ساتھ دی گئی اے ڈی بی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ۵ لاکھ کی آبادی کو اس میٹرو سروس تک اکسیس ہے۔ یعنی جن علاقوں سے یہ گزرے گی ان علاقوں کی آبادی ۵ لاکھ ہے۔ آپ پلیز کوئی ایسا ڈاکومنٹ دکھا دیں جہاں ۵ لاکھ رائیڈز روزانہ سے بجٹنگ کی گئی ہو۔ ویسے میں یہ بتا دیتا ہوں لون کے سارے عرصے کے دوران ادا کئے جانے والے سودی چارجز سے تین گنا آمدن صرف ان ۱۱۰۰ دکانوں کے کرائے اور پارکنگ پلازاز سے کمائے جائیں گے جو کہ اس پراجیکٹ کا حصہ ہیں۔ اور ہاں ایک اور بات بھی سنتے جائیے، یہاں فل لینگتھ رائیڈ ٹکٹ ۲۰ روپئے نہیں بلکہ ۵۵ روپئے میں بیچا ئے گا جبکہ ایک سٹیشن سے دوسرے تک کا کرایہ ۱۸ روپئے ہوگا۔ تو سر جی یہ ہیں کچھ فیکٹس۔
    ابھی کچھ مصروف ہوں، آپ کے باقی کمنٹس کا جواب اگلی قسط میں انشااللہ۔

    Atif Qazi

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #20
    حفیظ بھائی، یہ چ۔۔ا (چریا یعنی بیوقوف) والی بات آپ کی واقعی ہی سہی ہے کہ کے پی والے نونیوں کو یہی سمجھتے ہیں۔ بات تو ٹورزم انرجی اور زراعت کے پراجیکٹس کی بھی ہو رہی تھی لیکن ن لیگ کے تجزیہ نگار آج کل اپنا سارا زور پشاور بی آر ٹی پر ہی لگا رہے ہیں تو چلیں اسی پر بات کر لیتے ہیں اور آپ کے دئے گئے اعداد و شمار کی ڈائیسیکشن کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ پہلی بات آپ کی یہ غلط ہے کہ چونکہ خیبر پختون خواہ حکومت الیکشن سے پہلے پراجیکٹ کو مکمل کرنا چاہتی ہے اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی ادائیگیاں اگلے پانچ سالوں میں قسطوں میں ہونی ہیں تو اس دوران صوبائی حکومت کو بنکوں سے مہنگے قرضے لینے پڑیں گے۔ آپ کی یہ سٹیٹمنٹ واقعی نا سمجھی پر مبنی ہے۔ صوبائی حکومت کے آخری اعلان تک کاریڈور کا کنسٹرکشن ورک اکتوبر ۲۰۱۸ میں مکمل ہو گا ، جبکہ دکانوں اور پارکنگ پلازہ ۲۰۱۹ میں مکمل ہونگے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کنسٹرکشن کمپنیوں کو آخری ۳۰ فیصد ادائیگیاں کنسٹرکشن مکمل ہونے کے چھ سے سات ماہ بعد کرنی ہوتی ہیں لیکن حقیقتاً یہ ادائیگیاں ایک سال گزرنے کے بعد ہی ہوا کرتی ہیں۔ یہ بھی نوٹ کریں کے رولنگ سٹاک، جو کہ ۴۴۵ بسوں پر مشتمل ہے اس میں سے صرف ۱۵۵ بسیں ہی پہلے سال کے لئے آرڈر کی گئی ہیں جبکہ فیڈر روٹس ۲۰۱۹ کے اوخر میں ہی شروع ہو سکیں گے۔ اے ڈی بی سے ۳۵ ارب کے لون میں سے صرف ۴ ارب ہی ۲۰۱۹ کے بعد ادا ہونگے۔ ۱۶ ارب کے یورپین ڈویلپمنٹ بنکس سے لئے لونز کی ادائیگیاں بھی ۲۰۱۸ ہی میں ہو جائیں گیں۔ باقی بچنے والے دس ارب صوبائی گورنمنٹ کے بجٹ میں ایلوکیٹ کئے گئے ہیں۔ تو حفیظ بھائی کونسے بنکوں سے قرضے لینے پڑیں گے اور کیوں؟ آپ کی دوسری بات، بھی ٹوٹلی غلط۔ کسی بھی حکومتی ڈاکومنٹ یا ایشیائی ترقیاتی بنک کے پیپرز میں یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ روزانہ ۵ لاکھ بندہ ان بسوں میں سفر کرے گا۔ یہ بات آپ کی اختراع ہے یا ایک آدھ پی ٹی آئی سپورٹرز کے فیس بک پوسٹرز میں۔ میڈیا کوریج، گورنمنٹ رپورٹس اور آپ کی ہی لنک کے ساتھ دی گئی اے ڈی بی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ۵ لاکھ کی آبادی کو اس میٹرو سروس تک اکسیس ہے۔ یعنی جن علاقوں سے یہ گزرے گی ان علاقوں کی آبادی ۵ لاکھ ہے۔ آپ پلیز کوئی ایسا ڈاکومنٹ دکھا دیں جہاں ۵ لاکھ رائیڈز روزانہ سے بجٹنگ کی گئی ہو۔ ویسے میں یہ بتا دیتا ہوں لون کے سارے عرصے کے دوران ادا کئے جانے والے سودی چارجز سے تین گنا آمدن صرف ان ۱۱۰۰ دکانوں کے کرائے اور پارکنگ پلازاز سے کمائے جائیں گے جو کہ اس پراجیکٹ کا حصہ ہیں۔ اور ہاں ایک اور بات بھی سنتے جائیے، یہاں فل لینگتھ رائیڈ ٹکٹ ۲۰ روپئے نہیں بلکہ ۵۵ روپئے میں بیچا ئے گا جبکہ ایک سٹیشن سے دوسرے تک کا کرایہ ۱۸ روپئے ہوگا۔ تو سر جی یہ ہیں کچھ فیکٹس۔ ابھی کچھ مصروف ہوں، آپ کے باقی کمنٹس کا جواب اگلی قسط میں انشااللہ۔ Atif

    [/quote

    استاد جی

    اگر آپ نے سچ سننا ہے تو

    پہلے حفیظ صاحب کی نوکری کا بندوبست کریں ۔۔۔

    ورنہ ۔۔۔پاس کریں ۔۔یا۔۔برداشت کریں ۔

    :bigsmile:

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 21 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi