Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 45 total)
  • Author
    Posts
  • Najamuddin
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #1

    حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر ۔۔۔۔۔ تحریر : علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ

    ###########################################################

    حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہودیوں کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو چونکہ یہودی توراۃ میں پڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام ان کے دین کو منسوخ کردیں گے۔ اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے  یہ محسوس فرمالیا کہ یہودی اپنے کفر پر اڑے رہیں گے اور وہ مجھے قتل کردیں گے تو ایک دن آپ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ یعنی کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کے دین کی طرف۔ بارہ یا اُنیس حواریوں نے یہ کہا کہ نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِ ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوۡنَ ﴿۵۲﴾

    یعنی ہم خدا کے دین کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ باقی تمام یہودی اپنے کفر پر جمے رہے یہاں تک کہ جوش عداوت میں ان یہودیوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنالیا اور ایک شخص کو یہودیوں نے جس کا نام ”ططیانوس” تھا آپ کے مکان میں آپ کو قتل کردینے کے لئے بھیجا۔ اتنے میں اچانک اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ایک بدلی کے ساتھ بھیجا اور اس بدلی نے آپ کو آسمان کی طرف اٹھالیا۔ آپ کی والدہ جوشِ محبت میں آپ کے ساتھ چمٹ گئیں تو آپ نے فرمایا کہ اماں جان! اب قیامت کے دن ہماری اور آپ کی ملاقات ہو گی اور بدلی نے آپ کو آسمان پر پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بیت المقدس میں شب قدر کی مبارک رات میں وقوع پذیر ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف بقول علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ ۳۳ برس کی تھی اور بقول علامہ زرقانی شارح مواہب ،اس وقت آپ کی عمر شریف ایک سو بیس برس کی تھی اور حضرت علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے بھی آخر میں اسی قول کی طرف رجوع فرمایا ہے۔

    (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۴۲۷،پ۳، آل عمران:۵۷)

    ”ططیانوس”جب بہت دیر مکان سے باہر نہیں نکلا تو یہودیوں نے مکان میں گھس کر دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ”ططیانوس”کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل کا بنا دیا یہودیوں نے ”ططیانوس”کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر قتل کردیا۔ اس کے بعد جب ططیانوس کے گھر والوں نے غور سے دیکھا تو صرف چہرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تھا باقی سارا بدن ططیانوس ہی کا تھا تو اس  کے اہل خاندان نے کہا کہ اگر یہ مقتول حضرت عیسیٰ ہیں تو ہمارا آدمی ططیانوس کہاں ہے؟ اور اگر یہ ططیانوس ہے تو حضرت عیسیٰ کہاں گئے؟ اس پر خود یہودیوں میں جنگ و جدال کی نوبت آگئی اور خود یہودیوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا اور بہت سے یہودی قتل ہو گئے۔ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا کہ:۔

    وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿٪54﴾اِذْ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوْقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیۡنَکُمْ فِیۡمَا کُنۡتُمْ فِیۡہِ تَخْتَلِفُوۡنَ ﴿55﴾

    ترجمہ کنزالایمان:۔اور کافروں نے مکر کیا اوراللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کر دوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرما دوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔

    (پ3،آل عمران:54،55)آپ کے آسمان پر چلے جانے کے بعد حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے چھ برس دنیا میں رہ کر وفات پائی (بخاری و مسلم) کی روایت ہے کہ قربِ قیامت کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کریں گے اور دجال و خنزیر کو قتل فرمائیں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور سات برس تک دنیا میں عدل فرما کر وفات پائیں گے اور مدینہ منورہ میں گنبد ِ خضراء کے اندر مدفون ہوں گے۔

    (تفسیر جمل علی الجلالین،ج۱،ص۴۲۷،پ۳، آل عمران:۵۷)

    اور قرآن مجید میں عیسائیوں کا رد کرتے ہوئے یہ بھی نازل ہوا کہ 

    وَمَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًاۢ ﴿157﴾ۙبَلۡ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیۡہِ ؕ وَکَانَ اللہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿158

    ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (پ6،النساء:157،158)اور اس سے اوپر والی آیت میں ہے کہ:۔

    وَمَا قَتَلُوۡہُ وَمَا صَلَبُوۡہُ وَلٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمْ ؕ

    ترجمہ کنزالایمان:۔ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اس کی شبیہ کا ایک بنا دیا گیا۔ (پ6،النساء:157)خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں کے ہاتھوں مقتول نہیں ہوئے اور اللہ نے آپ کو آسمانوں پر اٹھا لیا، جو یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل ہو گئے اور سولی پر چڑھائے گئے جیسا کہ نصاریٰ کا عقیدہ ہے تو وہ شخص کافر ہے کیونکہ قرآن مجید میں صاف صاف مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ مقتول ہوئے نہ سولی پر لٹکائے گئے۔

    • This topic was modified 54 years, 4 months ago by .
    SachGoee
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #2
    اوئے مولوی اوئے مولوینہیں نہیں۔پیارے مولوی پیارے مولویآنکھیں کھول کے پڑھ۔اللہ کیا کہہ رہے ہیں ؟یا عیسیٰ انی متفیک و رافعکاللہ نے کہا پہلے میں تجھے وفات دوں گا پھر تیرا رفع کروں گا۔اللہ نے یہ نہیں کہا کہ پہلے میں تیرا رفع کروں گا پھر تجھے واپس بھیجوں گا پھر تجھے وفات دوں گا۔حضرت عیسٰی علیہ السلام قرآن مجید کی متعدد آیات سے وفات شدہ ثابت ہیں۔آیت کریمہ میں لفظ آسمان کا بھی ذکر نہیں۔اللہ انسان جب وفات پاتا ہے تو اسکی روح کا رفع ہوتا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے۔ اللہ تعالٰی کی ذات ہر جگہ ہے سو جسم سے روح نکل کر کس سمت جاتی ہے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اس متعلق۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دعا سکھائ۔اللہ ہما و رفعانیاے اللہ میرا رفع فرما۔یعنی میرے درجات کی بلندی فرما۔کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ مجھے آسمان پہ زندہ اٹھا لے ؟ کوئی عقل کو ہاتھ مار۔ Najamuddin
    Najamuddin
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #3
    اوئے مولوی اوئے مولوی نہیں نہیں۔ پیارے مولوی پیارے مولوی آنکھیں کھول کے پڑھ۔ اللہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ یا عیسیٰ انی متفیک و رافعک اللہ نے کہا پہلے میں تجھے وفات دوں گا پھر تیرا رفع کروں گا۔ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ پہلے میں تیرا رفع کروں گا پھر تجھے واپس بھیجوں گا پھر تجھے وفات دوں گا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام قرآن مجید کی متعدد آیات سے وفات شدہ ثابت ہیں۔ آیت کریمہ میں لفظ آسمان کا بھی ذکر نہیں۔ اللہ انسان جب وفات پاتا ہے تو اسکی روح کا رفع ہوتا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے۔ اللہ تعالٰی کی ذات ہر جگہ ہے سو جسم سے روح نکل کر کس سمت جاتی ہے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اس متعلق۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دعا سکھائ۔ اللہ ہما و رفعانی اے اللہ میرا رفع فرما۔ یعنی میرے درجات کی بلندی فرما۔ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ مجھے آسمان پہ زندہ اٹھا لے ؟ کوئی عقل کو ہاتھ مار۔ Najamuddin

    اس آیتِ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار باتیں فرمائی گئیں : (1) تَوَفّٰی یعنی پوری عمر کو پہنچانا،(2)اپنی طرف اٹھالینا، (3)کافروں سے نجات دینا، (4) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیروکاروں کو غلبہ دینا۔ اب ہم ان کو ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ پہلی بات تَوَفّٰی ہے۔ مرزائیوں نے آیت ِپاک کے ان الفاظ کوبنیاد بنا کر یہود و نصاریٰ کی پیروی میں  حضرت عیسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا دعویٰ کیا اور یہ سراسر غلط ہے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تَوَفّٰی کا حقیقی معنی ہے ’’پورا کرنا ‘‘ جیسے قرآن پاک میں ہےوَ اِبْرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾ (النجم:۳۷) ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ابراہیم جو پورے احکام بجا لایا۔ اور یہ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ا س کا مجازی معنی ہے اور جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی مراد نہیں لیا جا سکتا، اور یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں کہ تَوَفّٰی کا معنی موت کیا جائے بلکہ ا س کا حقیقی معنی مراد لینے پر واضح قرائن بھی موجود ہیں اور وہ قرائن احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قربِ قیامت میں واپس تشریف لائیں گے۔ لہٰذا اس آیت سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ثابت نہیں ہوتی۔ دوسرے نمبر پر بالفرض اگر تَوَفّٰی کا معنیٰ ’’وفات دینا ‘‘ ہی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاچکے ہیں۔ صرف یہ فرمایا ہے کہ’’ اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا۔ تو یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی وفات پائیں گے، یہ معنی نہیں ہے کہ ہم نے تجھے فوت کردیا۔ اب یہ بات کہ آیت میں تَوَفّٰی یعنی وفات دینے کاپہلے تذکرہ ہے اور اٹھائے جانے کا بعد میں اور چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اٹھائے جاچکے ہیں لہٰذا ان کی وفات بھی پہلے ثابت ہوگئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں ’’ مُتَوَفِّیۡکَ‘‘ اور ’’رَافِعُکَ‘‘کے درمیان میں ’’واؤ‘‘ ہے اور عربی زبان میں ’’واؤ‘‘ ترتیب کیلئے نہیں آتی کہ جس کا مطلب یہ نکلے کہ وفات پہلے ہوئی اور اٹھایا جانا بعد میں ، جیسے قرآن پاک میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا گیاوَاسْجُدِیۡ وَارْکَعِیۡ (آلِ عمران:۴۳) ترجمۂکنزُالعِرفان:اور سجدہ اور رکوع کر۔ یہاں سجدے کا پہلے تذکرہ ہے اور رکوع کا بعد میں ، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رکوع بعد میں کرتی تھیں اور سجدہ پہلے ، ہر گز نہیں۔ لہٰذا جیسے یہاں ’’واؤ‘‘ کا آنا ترتیب کیلئے نہیں ہے ایسے ہی مذکورہ بالا آیت میں ’’واؤ‘‘ترتیب کیلئے نہیں ہے۔ دوسری بات حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اٹھایا جانا ہے۔ فرمایا گیا کہ ہم تمہیں بغیر موت کے اٹھا کر آسمان پر عزت کی جگہ اور فرشتوں کی جائے قرار میں پہنچا دیں گے ۔رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میری امت پر خلیفہ ہو کر نازل ہوں گے، صلیب توڑیں گے ،خنزیروں کو قتل کریں گے، چالیس سال رہیں گے، نکاح فرمائیں گے، اولاد ہوگی اور پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہوگا۔ وہ امت کیسے ہلاک ہو جس کا اوّل میں ہوں اور آخر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور وسط میں میرے اہلِ بیت میں سے حضرت مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُُ۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۱۶۳، ابن عساکر، ذکر من اسمہ عیسیٰ، عیسی بن مریم، ۴۷/۵۲۲) مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام منارۂ شرقی دمشق پر نازل ہوں گے۔ (مسلم ، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ، ص۱۵۶۸، الحدیث: ۱۱۰(۲۹۳۷)) یہ بھی حدیث میں ہے کہ ’’ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔ (الوفاء باحوال المصطفی، ابواب بعثہ وحشرہ وما یجری لہ صلی اللہ علیہ وسلم، الباب الثانی فی حشر عیسی بن مریم مع نبینا، ص۳۲۵،الجزء الثانی) تیسری بات کہ کفار سے نجات دلاؤں گا۔اس طرح کہ کفار کے نرغے سے تمہیں بچا لوں گا اور وہ تمہیں سولی نہ دے سکیں گے۔ چوتھی بات ماننے والوں کومنکروں پر غلبہ دینا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ماننے والوں سے مراد ہے ’’ان کو صحیح طور پر ماننے والے‘‘ اور صحیح ماننے والے یقینا صرف مسلمان ہیں کیونکہ یہودی تو ویسے ہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دشمن ہیں اور عیسائی انہیں خدا مانتے ہیں تو یہ ’’ماننا ‘‘تو بدترین قسم کا ’’نہ ماننا‘‘ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کو معبود نہ مانو اور یہ کہیں ، نہیں ، ہم توآپ کو بھی معبود مانیں گے۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    SachGoee
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #4

    اس آیتِ مبارکہ میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار باتیں فرمائی گئیں : (1) تَوَفّٰی یعنی پوری عمر کو پہنچانا،(2)اپنی طرف اٹھالینا، (3)کافروں سے نجات دینا، (4) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیروکاروں کو غلبہ دینا۔ اب ہم ان کو ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ پہلی بات تَوَفّٰی ہے۔ مرزائیوں نے آیت ِپاک کے ان الفاظ کوبنیاد بنا کر یہود و نصاریٰ کی پیروی میں حضرت عیسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا دعویٰ کیا اور یہ سراسر غلط ہے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ تَوَفّٰی کا حقیقی معنی ہے ’’پورا کرنا ‘‘ جیسے قرآن پاک میں ہے وَ اِبْرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾ (النجم:۳۷) ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ابراہیم جو پورے احکام بجا لایا۔ اور یہ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ا س کا مجازی معنی ہے اور جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی مراد نہیں لیا جا سکتا، اور یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں کہ تَوَفّٰی کا معنی موت کیا جائے بلکہ ا س کا حقیقی معنی مراد لینے پر واضح قرائن بھی موجود ہیں اور وہ قرائن احادیثِ مبارکہ ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قربِ قیامت میں واپس تشریف لائیں گے۔ لہٰذا اس آیت سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ثابت نہیں ہوتی۔ دوسرے نمبر پر بالفرض اگر تَوَفّٰی کا معنیٰ ’’وفات دینا ‘‘ ہی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاچکے ہیں۔ صرف یہ فرمایا ہے کہ’’ اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا۔ تو یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی وفات پائیں گے، یہ معنی نہیں ہے کہ ہم نے تجھے فوت کردیا۔ اب یہ بات کہ آیت میں تَوَفّٰی یعنی وفات دینے کاپہلے تذکرہ ہے اور اٹھائے جانے کا بعد میں اور چونکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اٹھائے جاچکے ہیں لہٰذا ان کی وفات بھی پہلے ثابت ہوگئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں ’’ مُتَوَفِّیۡکَ‘‘ اور ’’رَافِعُکَ‘‘کے درمیان میں ’’واؤ‘‘ ہے اور عربی زبان میں ’’واؤ‘‘ ترتیب کیلئے نہیں آتی کہ جس کا مطلب یہ نکلے کہ وفات پہلے ہوئی اور اٹھایا جانا بعد میں ، جیسے قرآن پاک میں حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فرمایا گیا وَاسْجُدِیۡ وَارْکَعِیۡ (آلِ عمران:۴۳) ترجمۂکنزُالعِرفان:اور سجدہ اور رکوع کر۔ یہاں سجدے کا پہلے تذکرہ ہے اور رکوع کا بعد میں ، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رکوع بعد میں کرتی تھیں اور سجدہ پہلے ، ہر گز نہیں۔ لہٰذا جیسے یہاں ’’واؤ‘‘ کا آنا ترتیب کیلئے نہیں ہے ایسے ہی مذکورہ بالا آیت میں ’’واؤ‘‘ترتیب کیلئے نہیں ہے۔ دوسری بات حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اٹھایا جانا ہے۔ فرمایا گیا کہ ہم تمہیں بغیر موت کے اٹھا کر آسمان پر عزت کی جگہ اور فرشتوں کی جائے قرار میں پہنچا دیں گے ۔رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میری امت پر خلیفہ ہو کر نازل ہوں گے، صلیب توڑیں گے ،خنزیروں کو قتل کریں گے، چالیس سال رہیں گے، نکاح فرمائیں گے، اولاد ہوگی اور پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہوگا۔ وہ امت کیسے ہلاک ہو جس کا اوّل میں ہوں اور آخر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور وسط میں میرے اہلِ بیت میں سے حضرت مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُُ۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۱۶۳، ابن عساکر، ذکر من اسمہ عیسیٰ، عیسی بن مریم، ۴۷/۵۲۲) مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام منارۂ شرقی دمشق پر نازل ہوں گے۔ (مسلم ، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ، ص۱۵۶۸، الحدیث: ۱۱۰(۲۹۳۷)) یہ بھی حدیث میں ہے کہ ’’ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔ (الوفاء باحوال المصطفی، ابواب بعثہ وحشرہ وما یجری لہ صلی اللہ علیہ وسلم، الباب الثانی فی حشر عیسی بن مریم مع نبینا، ص۳۲۵،الجزء الثانی) تیسری بات کہ کفار سے نجات دلاؤں گا۔اس طرح کہ کفار کے نرغے سے تمہیں بچا لوں گا اور وہ تمہیں سولی نہ دے سکیں گے۔ چوتھی بات ماننے والوں کومنکروں پر غلبہ دینا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ماننے والوں سے مراد ہے ’’ان کو صحیح طور پر ماننے والے‘‘ اور صحیح ماننے والے یقینا صرف مسلمان ہیں کیونکہ یہودی تو ویسے ہی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دشمن ہیں اور عیسائی انہیں خدا مانتے ہیں تو یہ ’’ماننا ‘‘تو بدترین قسم کا ’’نہ ماننا‘‘ ہے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کو معبود نہ مانو اور یہ کہیں ، نہیں ، ہم توآپ کو بھی معبود مانیں گے۔

    پڑھتے جائو سہتے جائو۔قرآن مجید میں توفی یا توفہ اور اس سے ماخوذ الفاظ 25 دفعہ استعمال ہوئے ہیں۔ان 25 میں جہاں پر بھی اللہ مفعول ہے اور انسان یا جاندار مفعول ہےلفظ توفی کے معنی صرف اور صرف وفات یا نیند کے کیئے جاتے ہیں۔آپکی تمام آن لائن تراجم  میں اسکا ترجمہ موت یعنی وفات یعنی قبض روح کیا گیا ہے یا شادو نادر جہاں ذکر ہے رات سونے اور پھر جاگنے کا بھی ذکر وہاں معنی نیند کے ہیں۔مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ہے دوست۔ یہاں سے تو پچھلے 300 400 سال کی کہانی شروع ہوتی ہے جو کہ حیات مسیح کا ممبا ہے۔صرف اور صرف آپ ان آیات میں توفی کے معنی وفات کے نہیں کرتے اگر ذکر حضرت عیسٰی علیہ السلام کا ہو آیت میں۔یہ انٹلیچوئل ڈس اونیسٹی پچھلے 400 سال کی دین ہے۔اب اچھے پیارے نیک شائستہ مولانا صاحب بن کر قارئین کے سامنے وہ تمام آیات اپنے سورسز سے خود رکھ دو جن میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا ذکر نہیں اور لفظ توفی توفا متوفی متفیک کا ترجمہ خود وفات موت ڈیتھ کرتے ہو۔خود پوسٹ کر دو ورنہ میں نے پوسٹ کر دینی ہے۔

    SachGoee
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #5
    حیات مسیح ناصری علیہ السلام کا باطل عقیدہ پچھلے 400 سال کی سوغات ہے۔آہستہ آہستہ اس غیر قرآنی عقیدے کا قلعہ قمعہ ہوتا چلا جارہا ہے اللہ تعالٰی کے فضل اور انٹرنیٹ کی ایجاد کی وجہ سے۔پاکستان میں سب سے پہلی آواز جاوید احمد غامدی صاحب نے اٹھائی۔ اس کے بعد ڈاکٹر خالد ظہیر نے بھی ہمت حوصلہ پکڑا۔عرب میں بھی اب کچھ عالم دین ہیں جو قرآن سے وفات مسیح ثابت کرتے ہیں۔محمد شیخ صاحب بھی ایسا ہی نام ہے۔غامدی صاحب نے اپنی وڈیوز میں مختصراً ایک دو آیات بیان کی ہیں مگر متعدد آیات وفات مسیح ثابت کرتی ہیں نہ کہ ایک۔یوٹیوب پر یہ وڈیو سرچ کی جاسکتی ہے :

    ” Javed Ahmad Ghamdi, Dr.Khalid Zaheer & Mohammad Sheikh admit that Jesus has died “

    It is a 6 min 53 seconds video

    Najamuddin
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #6
    حیات مسیح ناصری علیہ السلام کا باطل عقیدہ پچھلے 400 سال کی سوغات ہے۔ آہستہ آہستہ اس غیر قرآنی عقیدے کا قلعہ قمعہ ہوتا چلا جارہا ہے اللہ تعالٰی کے فضل اور انٹرنیٹ کی ایجاد کی وجہ سے۔ پاکستان میں سب سے پہلی آواز جاوید احمد غامدی صاحب نے اٹھائی۔ اس کے بعد ڈاکٹر خالد ظہیر نے بھی ہمت حوصلہ پکڑا۔ عرب میں بھی اب کچھ عالم دین ہیں جو قرآن سے وفات مسیح ثابت کرتے ہیں۔ محمد شیخ صاحب بھی ایسا ہی نام ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی وڈیوز میں مختصراً ایک دو آیات بیان کی ہیں مگر متعدد آیات وفات مسیح ثابت کرتی ہیں نہ کہ ایک۔ یوٹیوب پر یہ وڈیو سرچ کی جاسکتی ہے :

    ” Javed Ahmad Ghamdi, Dr.Khalid Zaheer & Mohammad Sheikh admit that Jesus has died “

    It is a 6 min 53 seconds video

    بالفرض اگر تَوَفّٰی کا معنیٰ ’’وفات دینا ‘‘ ہی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاچکے ہیں۔رب کریم نے صرف یہ فرمایا ہے کہ’’ اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا۔ تو یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی وفات پائیں گے، یہ معنی نہیں ہے کہ ہم نے تجھے فوت کردیا۔

    اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

    اَللہُ یَتَوَفَّی الْاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوْتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمْ تَمُتْ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ

    اﷲ (عَزَّوَجَلَّ)لے لیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور ان جانوں کو جو نہیں مریں اُن کے سونے کے وقت۔ (پ۲۴،الزمر:۴۲) ایک لفظِ” تَوَفّٰی ” کا معنی دونوں کے واسطے فرمایا گیا۔ ” تَوَفّٰی” مَنَام(یعنی نیند) کو بھی شامل ہے اور موت کو بھی۔ (تفسیر الطبری،ال عمران،تحت الآیۃ۵۵،ج۳،ص۲۸۸،۲۸۹)

    تو اب معنی یہ ہوں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام میں تم کوسُلادینے والا ہوں اور اٹھانے والا ہوں اپنی طرف اور پاک کرنے والا ہوں تم کو کافروں سے اور فرض کیا جائے ” تَوَفّٰی” کے معنی اگر موت ہی کے ہیں تو یہ کہاں سے نکلا کہ تم کو وفات دینے والا ہوں تم کو پھر اُٹھانے والا ہوں اپنی طرف ،” ف” نہیں ،” ثم” نہیں”و” ہے اور وہ ترتیب پر دلالت نہیں کرتا صر ف جمع کے لیے آتا ہے اور ” ک” خطاب جو رَافِعُک میں ہے وہ نہ صر ف رُوح سے خِطاب ہے اور نہ صر ف جسم سے ،بلکہ رُوح مَعَ الْجَسَد (یعنی جسم کے ساتھ روح )مخاطب ہے اگر صر ف روح مراد ہوتی تو رَافِعُک نہ فرمایا جاتا بلکہ رَافِعُ رُوحِک۔ اِسی طرح عُلمائے کرام نے مِعراج جَسَدی کو فرمایا ہے کہ فرمایا گیا ہے ” اَسْرٰی عَبْدِہٖ”عبد رُوح مَعَ الْجَسَدکا نام ہے اگرمِعراج رُوحی ہوتی تو ”اَسْرٰی بِرُوحِ عَبْدِہٖ”فرمایا جاتا۔

    (تفسیر الطبری،پ۱۵، بنیۤ اسرائیل تحت الایۃ،۱،ج۸،ص۱۶)

    حضرت حُجَّۃُ الْاِسْلام حضرت مولانا حامدرَضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحمٰن حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ رُوْحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے مُتَعلِّق تین اَہَم عَقائد اور ان کے اِحکا م بیان فرماتے ہیں :پہلاعَقیدہ: یہ ہے کہ نہ وہ قَتْل کیے گئے نہ سُولی دیئے گئے بلکہ ان کے رَبّ جَلَّ وَعَلَا نے ا نہیں مَکرِیہودِ عنود سے صاف سَلامت بچا کر آسمان پر اُٹھالیا اور ان کی صُورت دوسرے پر ڈال دی کہ یہودِ مُلَاعَنَہنے ان کے دھوکے میں اسے سُولی دی یہ ہم مُسلمانوں کا عَقیدۂ قَطْعِیَّہ یَقینِیہَّ اِیمانِیَّہ(ہے) یعنی ضَروریاتِ دِین سے ہے جس کا مُنکر یقیناً کافِر(ہے)۔فتاوی حامدیہ، ص ۱۴۰ )

    اس کی دَلیلِ قَطْعِی رَبُّ الْعِزَّت جَلَّ وَعَلَا کا ارشاد ہے۔وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوۡلَ اللہِ ۚ وَمَا قَتَلُوۡہُ وَمَا صَلَبُوۡہُ وَلٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمْ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخْتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنْہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا﴿۱۵۷﴾ۙ بَلۡ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیۡہِ ؕ وَکَانَ اللہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۵۸﴾ (پ۶،النساء:۱۵۷)ترجمۂ کنزالایمان:اور اُن کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسٰی بن مریم اللّٰہ کے رسول کو شہید کیا ،اور ہے یہ کہ انہوں نے نہ اُسے قتل کیا اور نہ اُسے سولی دی بلکہ ان کے لئے اُس کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا،اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہہ میں پڑے ہوئے ہیں ،ا نہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں ،مگر یہی گمان کی پیروی،اور بے شک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا ،بلکہ اللّٰہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیااور اللّٰہ غالب حکمت والا ہے ۔

    دوسراعَقیدہ: اس جنابِ رِفْعَت قُباب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلام کا قُربِ قِیامت آسمان سے اُترنا دُنیا میں دوبارہ تشریف فرما ہو کر اس عَہد کے مُطابق جواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تمام انبیاء کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُوالسَّلام سے لیا دِینِ محمدرسُول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَدد کرنا، یہ مَسئلہ بھی ضَروریاتِ مَذہبِ اَہلِ سُنَّت و جماعت سے ہے جس کا مُنکرگُمراہ خاسِر بَدمَذْہب فاجِر(ہے) اس کی دلیل اَحادیثِ مُتَواتِرہ و اِجماعِ اَہلِ حق ہے ۔

    (فتاوی حامدیہ ،ص ۱۴۲ )

    تیسراعَقیدہ: حضرت سَیِّدُنا روحُ اللّٰہ صَلواتُ اللّٰہ تَعالٰی وَ سَلامُہ عَلَیْہ کی حَیات  اس کے دومَعْنی ہیں ایک یہ کہ وہ اب زِندہ ہیں یہ بھی مَسائل قسمِ ثانی (یعنی ضَروریاتِ مَذہبِ اَہلسنَّت وجَماعت ) سے ہے جس میں خِلاف نہ کرے مگر گمراہ کہ اَہلسنَّت کے نزدیک تمام اَنبیاء کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُوالسَّلام بحیات حقیقی زِندہ ہیں ، ان کی موت صرف تَصدیقِ وعدئہ اِلہٰیَّہ کے لیے ایک آن کو ہوتی ہے پھر ہمیشہ حَیاتِ حقیقی اَبَدی ہے ائمۂ کِرام نے اس مَسئلہ کومُحَقَّقْ فرمادیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اب تک ان پر موت طاری نہ ہوئی زِندہ ہی آسمان پر اُٹھالئے گئے اور بعدِ نُزُول دُنیا میں سالہا سال تشریف رکھ کر اِتْمامِ نُصْرتِ اسلام وَفات پائیں گے ۔

    (فتاوی حامدیہ، ص ۱۷۷ )

    حضرت سَیِّدُنا عیسٰی عَلَیْہِ السَّلام کے نُزُول فرمانے سے پہلے قیامت کی کچھ نشانیاں بھی ظاہرہوں گی۔ چُنانچہ صَدْرُ الشَّرِیْعَہ، بَدْرُ الطَّریقہ حضرتِ علَّامہ مولانا مُفْتی محمد امجد علی اَعظمیعَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہِالْقَوی فرماتے ہیں :’’ دُنیا کے فَنا ہونے سے پہلے چَند نشانیاں ظاہر ہوں گی ۔ عِلم اُٹھ جائے گا ۔ جَہْلکی کثرت ہوگی۔ زِنا کی زِیادتی ہوگی ، دِین پر قائم رہنا اِتنا دُشوار ہوگا جیسے مُٹھی میں اَنگارا لینا، زکوٰۃ دینا لوگوں پر گراں ہوگا کہ اس کو تاوان سمجھیں گے ۔ مرد اپنی عورت کا مُطِیع ہوگا۔ ماں باپ کی نافرمانی کرے گا۔ گانے باجوں کی کثرت ہوگی۔ دَجَّال ظاہرہوگا کہ چالیس دن میں حَرَمَیْنِ طیّبین کے سوا تمام روئے زمین کا گَشْت کرے گا۔ اُس کا فتنہ بہت شدید ہوگا ، خُدائی کا دَعْویٰ کرے گا۔ جو اُس پر ایمان لائے گا اُسے اپنی جنَّت میں ڈالے گا اور جو اِنکار کرے گا اُسے جہنَّم میں داخل کرے گا ۔ بہت سے شُعبدے دِکھائے گا اور حقیقت میں یہ سب جادو کے کرشمے ہوں گے جن کو واقِعیَّت سے کچھ تَعلُّق نہیں ۔ پھرحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام آسمان سے جامع مسجد دِمَشْق کے شَرْقی مینارہ پر نُزُول فرمائیں گے ، لعین دَجَّال حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کی سانس کی خُوشبو سے پگھلنا شُروع ہوگا، جیسے پانی میں نَمک گُھلتا ہے آپ اُس کی پیٹھ میں نیزہ ماریں گے، اُس سے وہ واصِلِ جہنَّم ہوگا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلام کے زمانے میں ہر طرف اَمْن قائم ہوگا ،بُغْض وعَداوَت اُخُوَّت ومَحَبَّتمیں بدل جائے گی، کُفر و ضَلالت کی تاریکیاں خَتْم ہوجائیں گی اور ہر طرف پرچمِ اسلام لہراتا نظر آئے گا ۔ آپ نکاح کریں گے اَولاد بھی ہوگی پھر آپ وَفات فرمائیں گے ۔ بعدِ وفات آپ روضۂ رسول میں مَدفون ہوں گے ۔ ان کے علاوہ بھی اور بہت سی عَلامات ہیں ۔ جب یہ نشانیاں پوری ہوجائیں گی تو مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے سے ایک خُوشبودار ہوا گزرے گی جس سے تمام مسلمانوں کی وَفات ہو جائے گی، اس کے بعدپھر چالیس برس کا زَمانہ ایسا گُزرے گا کہ اس میں کسی کے اَولاد نہ ہو گی، یعنی چالیس برس سے کم عُمر کا کو ئی نہ رہے گا اور دُنیا میں کافِر ہی کافِر ہوں گے ۔ پھر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ حضرت اِسرافیل عَلَیْہِ السَّلام کو صُور پھو نکنے کا حکم ارشاد فرمائے گا ، شُروع شُروع اس کی آواز بہت باریک ہوگی اور رَفتہ رَفتہ بہت بُلَنْد ہو جائے گی، لوگ کان لگا کر اس کی آوازسُنیں گے اور بے ہوش ہو کر گِر پڑیں گے اور مر جائیں گے، آسمان، زمین، پہاڑ، یہاں تک کہ صُور اور اِسرافیل اور تمام مَلائکہ فَنا ہو جائیں گے ، اُس وَقت سوائے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے کوئی نہ ہوگا، وہ فرمائے گا: ’’لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ‘‘آج کس کی بادشاہت ہے ۔ کوئی جَواب دینے والا نہ ہوگا ، پھر خُود ہی فرمائے گا : لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِیعنی صرف اللّٰہ واحدقَہَّار کی سَلْطَنَت ہے ۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    اہل قرآن ایک فرقہ ہے جو سواے قرآن مجید کے کسی دوسرے سورس کو نہیں مانتے ایکدفعہ ان کا مناظرہ ہوا تھا سنیوں سے جس میں اہل قرآن نے بھی بعین ہی یہ موقف اپنایا تھا کہ حضرت عیسی قرآن کی رو سے وفات پاچکے ہیںمیرے خیال سے توفی کے معنی  وفات کے ہی ہیں خود نجم الدین بھای بھی کہہ رہے ہیں ، ہم بھی روزمرہ کی گفتگو میں یہی کہتے ہیں کہ فلاں بندہ فوت ہوگیا ہے ، یہ لفظ توفی سے ہی نکلا ہے، عربی لفظ رافعک  کے معنی جسم سمیت اٹھا لینے کے کئے جاتے ہیں ، میرے نزدیک اس کے معنی درجات کی بلندی کے سوا اور کچھ نہیں ویسے بھی  رافعک کے ساتھ جسم کا زکر موجود ہی نہیں
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8
    نجم الدین اربکانآپ سے پہلے بھی گزارش کی تھی کہ ہاتھ ذرا ہلکا رکھیں۔روزانہ چار پانچ تھریڈ پوسٹ نہ کریں ۔ ایک تو سارا فورم آپہی کے تھریڈز سے بھر جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی ایک تھریڈکو بھی پورا پڑھنے اور اس پر بحث کا موقع نہیں ملتا کہ چار پانچدیگر تھریڈ ویسے ہی قریب سے گزر جاتے ہیں۔اور ایک عجیب مسئلہ یہ بھی کہ کوئی آپ سے بات کرے یا کچھ پوچھے تو آپاس کا جواب بھی نہیں دیتے۔
    SachGoee
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #9

    بالفرض اگر تَوَفّٰی کا معنیٰ ’’وفات دینا ‘‘ ہی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاچکے ہیں۔رب کریم نے صرف یہ فرمایا ہے کہ’’ اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا۔ تو یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی وفات پائیں گے، یہ معنی نہیں ہے کہ ہم نے تجھے فوت کردیا۔

    حضور والا آپکی عمارت تو یہیں ڈز کر کے گر گئ ہے۔اب آپ نے اس مذکورہ آیت کا کیا کرنا ہے ؟ کیوں کہ رفع تو آپ وہاں کروا بیٹھے ہیں۔ سو آگر آپ اگر کہہ رہے ہیں کہ وفات دونگا تو پھر رفع ہوا تھا یا نہیں ؟ذرا روشنی ڈالیں کہ قیامت کے دن جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اللہ تعالٰی سے مقالمہ ہو گا جو کہ قرآن مجید میں درج ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اگر زندہ ہیں جو انکو دنیا میں واپس آکر تخلیث کے عقیدے ٹرینیٹی کا کیسے علم نہیں ہوگا کہ ان کے بات عیسائیوں نے کیا عقائد گھڑھ لیے ؟ وہ تو کہہ رہے ہونگے کہ جب تک میں ان میں تھا ایسی کوئی بات نہ تھی، پھر جب تو نے مجھےوفات دی تو تو ہی ان پر نگران تھا۔یہاں آپکا عقیدہ دھڑام گر جاتا ہے دو لحاظ سے۔نمبر 1: اگر واپس آتے قیامت سے پہلے تو پتہ ہوتا اس کا انہیں اور کہتے کے درستگی بھی کروائی اور مسلمان بھی کروایا۔نمبر 2: قیامت کے مکالمے میں زمین ہر ایک دور کا ذکر ہے نبوت کے بعد کا وفات سے پہلے۔ آسمان پہ چڑھنے اور پھر زمین پر واپس آنے دوسرے دور کا ذکر تک نہیں ہے۔آپ مہربانی کر کے گوگل سے کاپی پیسٹ کرنا بند کریں اور ٹو دا پوائنٹ میرے پوائنٹز کا جواب دیں۔ یہ لمبی لمبی کہانیاں نہ گھڑیں۔آپ قارئین کو بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر امت محمدی کا پہلا اجماع ہوا ہی اس بات پر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام انبیاء جی ہاں تمام انبیاء وفات پا چکے ہیں اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ہوا ہے۔آل عمران 144

    Muhammad is no more than a Messenger, and Messengers have passed away before him. If, then, he were to die or be slain will you turn about on your heels? Whoever turns about on his heels can in no way harm Allah. As for the grateful ones, Allah will soon reward them.

    اس آیت میں کہیں نہیں لکھا سوائے عیسٰی علیہ السلام کے۔

    حضرت انوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہو نے یہ آیت تلاوت کی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہو سمیت تمام صحابہ نے مان لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرماگئے ہیں۔ حضرت عمر نے تلوار بھی پھینک دی اسی وقت۔ ایک بھی صحابی نے نہیں کہا کہ ابوبکر رض آپ غلط کہہ رہے ہیں عیسٰی علیہ السلام زندہ ہیں۔

    حدیثوں پر بھی آتے ہیں کہ امت محمدی میں آنے والے مسیح کہ متعلق حدیثیں کیا کہہ رہی ہیں مگر پہلے قرآن سے مسیح ناصری یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بات کریں۔

    اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں انسان کی  شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں اور اللہ ہر جگہ ہے۔ تو جو آیت پہلی پوسٹ کی میں زیر بحث لایا وہاں پر لفظ آسمان کہاں ہے عربی میں ؟ اور اگر آسمان کی طرف زندہ جسم نہیں اٹھایا تو پھر کس سمت کس طرف جسم نے پرواز کی ہے اللہ کی طرف ؟ اللہ تو ہر طرف ہر جگہ ہے۔

    اور رفع کے معنی آپ اٹھانے کے کرتے ہیں میں تو اٹھانے یا اوپر اٹھانے یا آسمان پہ اٹھانے کے معنی نہیں کر رہا تو اللہ کہہ رہا پہلے وفات دوں گا پھر رفع کروں گا تو اگر وفات ہی نہیں دی تو رفع کیسے ہوگیا ؟

    ان سارے سوالوں کے جواب اپنے عقیدے کے مطابق ٹائپ کریں۔ کاپی پیسٹ نہیں۔

    اس کے بعد رفع کے قرآن کریم کی دوسری سورتوں سے معنی پر آتا ہوں اور دیگر آیات پر آتا ہوں جو وفات مسیح بتا رہی ہیں۔

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10

    بالفرض اگر تَوَفّٰی کا معنیٰ ’’وفات دینا ‘‘ ہی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وفات پاچکے ہیں۔رب کریم نے صرف یہ فرمایا ہے کہ’’ اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دوں گا۔ تو یہ بات تو ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی وفات پائیں گے، یہ معنی نہیں ہے کہ ہم نے تجھے فوت کردیا۔

    محترم نجمی بھای

    آپ کی دلیل کے مطابق اللہ تعالی نے عیسی علیہ سلام کو فرمایا کہ میں تجھے وفات دوں گا اور ابھی تک وفات نہیں دی، اگر وفات ابھی تک نہیں دی تو کیا رفع بھی ابھی تک نہیں کیاِِِِِ؟

    یہ بھی آپ ہی نے لکھا تھا کہ دونوں لفظوں کے درمیان اور ہے یعنی و ہے لہذا اگر ایک لفظ کیلئے مستقبل کا صیغہ استعمال ہوگا تو ظاہری بات ہے کہ دوسرے کیلئے بھی مستقبل ہی استعمال ہوگا

    اسطرح تو یہ معنی بنتے ہیں کہ میں تجھے وفات دوں گا اور تیرا رفع کرونگا گویا دونوں کام ابھی تک پینڈنگ ہیں

    ؟؟؟؟؟

    Sajjad
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #11
    نجم الدین اربکان آپ سے پہلے بھی گزارش کی تھی کہ ہاتھ ذرا ہلکا رکھیں۔ روزانہ چار پانچ تھریڈ پوسٹ نہ کریں ۔ ایک تو سارا فورم آپ ہی کے تھریڈز سے بھر جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی ایک تھریڈ کو بھی پورا پڑھنے اور اس پر بحث کا موقع نہیں ملتا کہ چار پانچ دیگر تھریڈ ویسے ہی قریب سے گزر جاتے ہیں۔ اور ایک عجیب مسئلہ یہ بھی کہ کوئی آپ سے بات کرے یا کچھ پوچھے تو آپ اس کا جواب بھی نہیں دیتے۔

    I share your views and concerns but he is not the only one . There is another copy and paste master who starts no less than 5 new threads a day. Who? Who indeed…….Boojho to jaanay¬

    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12

    I share your views and concerns but he is not the only one . There is another copy and paste master who starts no less than 5 new threads a day. Who? Who indeed…….Boojho to jaanay¬

    یاد کرنے کہ شکریہ سجاد / انجان بھائی….بوجہ والدہ کی علالت غیر حاضر تھا… اب واپسی ہوگیی ہے اور آپکو مایوس نہیں کروں گا  

    Sajjad
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #13

    یاد کرنے کہ شکریہ سجاد / انجان بھائی….بوجہ والدہ کی علالت غیر حاضر تھا… اب واپسی ہوگیی ہے اور آپکو مایوس نہیں کروں گا

    Najam-ul-Hassan?

    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #14
    Najam-ul-Hassan?

    سجاد بھائی… وہ نجم الدین صاحب ہیں… دوسرے شخص کی آپ نے بات کی وہ میں یعنی کے آپکا بھائی حسن داور ہے… ویسے آپ کا شکریہ تو بنتا ہے…کوئی کمی محسوس نہیں کرتا پر آپ کی محبّت کی کیا ہی بات ہے

    :bigsmile:

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #15
    حسن بھائی ، اب والدہ کی طبعیت کیسی ہے

    یاد کرنے کہ شکریہ سجاد / انجان بھائی….بوجہ والدہ کی علالت غیر حاضر تھا… اب واپسی ہوگیی ہے اور آپکو مایوس نہیں کروں گا

    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #16
    حسن بھائی ، اب والدہ کی طبعیت کیسی ہے

    بہتر ہے شامی بھائی…  کچھ دن ہسپتال میں ایڈمٹ رہیں….اب الله کا کرم ہے

    Najamuddin
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #17
    حضور والا آپکی عمارت تو یہیں ڈز کر کے گر گئ ہے۔ اب آپ نے اس مذکورہ آیت کا کیا کرنا ہے ؟ کیوں کہ رفع تو آپ وہاں کروا بیٹھے ہیں۔ سو آگر آپ اگر کہہ رہے ہیں کہ وفات دونگا تو پھر رفع ہوا تھا یا نہیں ؟ ذرا روشنی ڈالیں کہ قیامت کے دن جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اللہ تعالٰی سے مقالمہ ہو گا جو کہ قرآن مجید میں درج ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اگر زندہ ہیں جو انکو دنیا میں واپس آکر تخلیث کے عقیدے ٹرینیٹی کا کیسے علم نہیں ہوگا کہ ان کے بات عیسائیوں نے کیا عقائد گھڑھ لیے ؟ وہ تو کہہ رہے ہونگے کہ جب تک میں ان میں تھا ایسی کوئی بات نہ تھی، پھر جب تو نے مجھےوفات دی تو تو ہی ان پر نگران تھا۔ یہاں آپکا عقیدہ دھڑام گر جاتا ہے دو لحاظ سے۔ نمبر 1: اگر واپس آتے قیامت سے پہلے تو پتہ ہوتا اس کا انہیں اور کہتے کے درستگی بھی کروائی اور مسلمان بھی کروایا۔ نمبر 2: قیامت کے مکالمے میں زمین ہر ایک دور کا ذکر ہے نبوت کے بعد کا وفات سے پہلے۔ آسمان پہ چڑھنے اور پھر زمین پر واپس آنے دوسرے دور کا ذکر تک نہیں ہے۔ آپ مہربانی کر کے گوگل سے کاپی پیسٹ کرنا بند کریں اور ٹو دا پوائنٹ میرے پوائنٹز کا جواب دیں۔ یہ لمبی لمبی کہانیاں نہ گھڑیں۔ آپ قارئین کو بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر امت محمدی کا پہلا اجماع ہوا ہی اس بات پر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام انبیاء جی ہاں تمام انبیاء وفات پا چکے ہیں اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ آل عمران 144

    Muhammad is no more than a Messenger, and Messengers have passed away before him. If, then, he were to die or be slain will you turn about on your heels? Whoever turns about on his heels can in no way harm Allah. As for the grateful ones, Allah will soon reward them.

    اس آیت میں کہیں نہیں لکھا سوائے عیسٰی علیہ السلام کے۔

    حضرت انوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہو نے یہ آیت تلاوت کی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہو سمیت تمام صحابہ نے مان لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرماگئے ہیں۔ حضرت عمر نے تلوار بھی پھینک دی اسی وقت۔ ایک بھی صحابی نے نہیں کہا کہ ابوبکر رض آپ غلط کہہ رہے ہیں عیسٰی علیہ السلام زندہ ہیں۔

    حدیثوں پر بھی آتے ہیں کہ امت محمدی میں آنے والے مسیح کہ متعلق حدیثیں کیا کہہ رہی ہیں مگر پہلے قرآن سے مسیح ناصری یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بات کریں۔

    اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں اور اللہ ہر جگہ ہے۔ تو جو آیت پہلی پوسٹ کی میں زیر بحث لایا وہاں پر لفظ آسمان کہاں ہے عربی میں ؟ اور اگر آسمان کی طرف زندہ جسم نہیں اٹھایا تو پھر کس سمت کس طرف جسم نے پرواز کی ہے اللہ کی طرف ؟ اللہ تو ہر طرف ہر جگہ ہے۔

    اور رفع کے معنی آپ اٹھانے کے کرتے ہیں میں تو اٹھانے یا اوپر اٹھانے یا آسمان پہ اٹھانے کے معنی نہیں کر رہا تو اللہ کہہ رہا پہلے وفات دوں گا پھر رفع کروں گا تو اگر وفات ہی نہیں دی تو رفع کیسے ہوگیا ؟

    ان سارے سوالوں کے جواب اپنے عقیدے کے مطابق ٹائپ کریں۔ کاپی پیسٹ نہیں۔

    اس کے بعد رفع کے قرآن کریم کی دوسری سورتوں سے معنی پر آتا ہوں اور دیگر آیات پر آتا ہوں جو وفات مسیح بتا رہی ہیں۔

    ذرا روشنی ڈالیں کہ قیامت کے دن جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اللہ تعالٰی سے مقالمہ ہو گا جو کہ قرآن مجید میں درج ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اگر زندہ ہیں جو انکو دنیا میں واپس آکر تخلیث کے عقیدے ٹرینیٹی کا کیسے علم نہیں ہوگا کہ ان کے بات عیسائیوں نے کیا عقائد گھڑھ لیے ؟ وہ تو کہہ رہے ہونگے کہ جب تک میں ان میں تھا ایسی کوئی بات نہ تھی، پھر جب تو نے مجھےوفات دی تو تو ہی ان پر نگران تھا۔ یہاں آپکا عقیدہ دھڑام گر جاتا ہے دو لحاظ سے۔ نمبر 1: اگر واپس آتے قیامت سے پہلے تو پتہ ہوتا اس کا انہیں اور کہتے کے درستگی بھی کروائی اور مسلمان بھی کروایا۔ نمبر 2: قیامت کے مکالمے میں زمین ہر ایک دور کا ذکر ہے نبوت کے بعد کا وفات سے پہلے۔ آسمان پہ چڑھنے اور پھر زمین پر واپس آنے دوسرے دور کا ذکر تک نہیں ہے۔

    اس آیت شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ میں انکے حالات کو اپنی موجودگی میں تو دیکھ رہا تھا ، لیکن جب آپ نے مجھے آسمان پر زندہ اٹھا لیا ، اس وقت وہ میری نگرانی سے خارج تھے اور آپ ہی ان پر نگہبان تھے۔ مفسرین نے بھی اسی طرح اس آیت کو بیان فرمایا ہے۔

    سیدنا ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : “عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے کہ: الٰہی! یہ تیرے بندے ہیں (مگر انہوں نے میری غیرحاضری میں مجھے خدا بنایا اس لئے) واقعی انہوں نے اپنے اس عقیدے کی بنا پر اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنالیا ہے اور اگر آپ بخش دیں، یعنی ان لوگوں کوجن کو صحیح عقیدے پر چھوڑ کر گیا تھا اور (اسی طرح ان لوگوں کو بھی بخش دیں جنہوں نے اپنے عقیدہ سے رجوع کرلیا) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر لمبی کردی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ آخری زمانے میں دجال کو قتل کرنے کے لئے آسمان سے زمین کی طرف اتارے جائیں گے، تب عیسائی لوگ اپنے قول سے رجوع کرلیں گے، تو جن لوگوں نے اپنے قول سے رجوع کیا اور تیری توحید کے قائل ہوگئے اور اقرار کرلیا کہ ہم سب (بشمول عیسیٰ علیہ السلام کے) خدا کے بندے ہیں پس اگر آپ ان کو بخش دیں جبکہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ہے تو آپ عزیز و حکیم ہیں۔”

    (تفسیر در منثور ج:۲ ص:۳۵۰)

    قرآن کی آیات کی تفسیر کے چند اصول ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی آیت کی تفسیر کے لیے سب سے پہلے قرآن میں دیکھا جائے گاکہ آیا کوئی دوسری آیت اسکے مطلب کی وضاحت کررہی ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ، پھر اقوال صحابہ سے مدد لی جائے گی۔ اس عقیدہ رفع ، نزول و حیات عیسی کی تائید میں احادیث تو اتنی موجود ہیں کہ اتنی ارکان اسلام کے متعلق بھی نہیں، بیس سے زائدجید صحابہ روایت کررہے ہیں ، اسی طرح صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، آئمہ اور تمام بڑے علمائے امت کے ان پر اتفاق و اجماع کیوجہ سے انکو تلقی بالقبول حاصل ہے۔

    وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾ (النساء157،159 پارہ 6)ترجمہ: اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسی کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسی کو قتل نہیں کرپائے۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے۔( آسان ترجمۃ القرآن، 157، 158) آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں ۔ پہلی بات آیت میں وما قتلو“۔۔۔۔”وما صلبو“۔۔۔۔”وما قتلو یقینا کے الفاظ سے ان کے قتل/ موت کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ دوسری قتل سے بچانے کا انتظام یہ کیا گیا کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ ، بلکہ اللہ نے اٹھا لیا اس کو اپنی طرف”۔ یہاں “بل “کے بعد بصیغہ ماضی” رفعہ” کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے’الیہ’ یعنی اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔ وکان اللہ عزیزا حکیما ۔

    لفظ’ توفی’ کی قرآن سے وضاحتکچھ لوگ ” إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔)اٰ ل عمران 55 پارہ 3( میں متوفیک“ سے مطلق ”موت“مراد لیتے ہیں، جبکہ اگر یہاں اس سے موت مراد لے لی جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کافروں نے جو عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی تھی وہ اس میں کامیاب ہوگئےتھے۔ ۔ !! جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ بہتر تدبیر اللہ کی ہی رہی’۔ لفظ’توفی’ کی وضاحت کے لیے بھی ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں ۔1. اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ) الزمر 42 پارہ 24(ترجمہ : اللہ تمام روحوں کو انکی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، انکو بھی انکی نیند کی حالت میں ، پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا، انہیں اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چھوڑ دیتا ہے۔ اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ ”توفی“بمعنی موت کے نہیں ہیں ،بلکہ ”توفی“موت کے علاوہ کوئی شے ہے جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوجاتی ہےتو کبھی نیند کے ساتھ ۔ اور”حِينَ مَوْتِهَا “کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ”توفی“ موت کے وقت بھی ہوتی ہے عین موت نہیں ۔جس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو رات کو “توفی” دیتا ہےاور صبح اٹھ کر لوگ ایک بار پھر زندہ ہوکر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام “توفی” کے بعد بھی حیات ہیں اور قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، جسکی وضاحت احادیث میں موجود ہے۔2. وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ الخ (الانعام 60 پارہ 7 )ترجمہ:وہ ہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اس مقام پر بھی ”توفی“موت کے بجائے نیند کے موقع پر استعمال کیا گیا ۔ اگر توفی سے مراد صرف موت ہی ہوتی تو یہاں اسکو استعمال نہ کیا جاتا۔3. حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ الخ (النساء15 پارہ 4)ترجمہ : یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کر لے جائے۔ اگر توفی کا معنی بھی موت تھا تو آگے لفظ ‘موت’ لانے کی کیا ضرورت تھی ؟حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ ”توفی “ کے ساتھ موت اور اس کے لوازم کا ذکر ہوگا ۔اس جگہ ”توفی “سے مراد موت لی جائے گی ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ الخ ( السجدة 11 پارہ 21)ترجمہ : تو کہہ قبض کر لیتا ہے تم کو فرشتہ موت کا جو تم پر مقرر ہے پھر اپنے رب کی طرف پھر جاؤ گے۔اس مقام پر ملک الموت کے قرینہ سے ”توفی “سے مرادموت لی جائے گی ۔اسی طرح قرآن میں دوسرے انبیاء کی موت کا جہاں کہیں تذکرہ ہے وہاں موت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ۔ نبی علیہ السلام کے لیے انک میت وانہم میتون، افائن مت فہم الخالدون اسی طرح سلیمان علیہ السلام فلما قضینا علیہ الموت ما دلھم علی موتہ ۔ ۔ جبکہ عیسی علیہ السلام کے لیے رفع اور توفی استعمال کیا ہے۔اور توفی جیسا کہ اوپر دی گئی آیات کی مثالوں سے ظاہر ہے جسمانی موت کے لیے وہاں استعمال ہوتا ہےجہاں اس کے ساتھ موت کے لوازمات کا بھی ذکر کیا جائے جبکہ غامدی صاحب کی پیش کی گئی آیت میں اس لفظ کے بعد موت کی کسی علامت کا تذکرہ کرنے کے بجائے قرآن کی دوسری آیت کی ہی تائید میں رافعک کا ذکر ہے، یہی بات فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ میں بھی ہے۔اس ساری تفصیل یہ واضح ہے کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق آپ کے عقیدے کو قرآن بھی غلط قرار دے رہا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول عیسی کے متعلق ارشادات کے علاوہ قرآن میں بھی انکے نزول کے واضح اشارے موجود ہیں۔ مثلا قرآن میں دو جگہ انکے بچپن اور ادھیڑ عمر میں بات کرنے کے معجزے کا ذکر ہے۔وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ (پارہ3 ،سورہ آل عمران ،آیت 46)اور وہ ماں کی گود میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا اور بڑی عمر میں بھی، اور راست باز لوگوں میں سے ہوگا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں کلام کرنا تو ایک معجزہ تھا ادھیڑ عمرمیں تو مومن، کافر، جاہل ہر کوئی کلام کیا کرتا ہے اس کو ساتھ خصوصی طور پر ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی،؟ اسکا جواب یہ ہے کہ روایات عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی عمر تیس اور پینتیس سال کے درمیان بتاتی ہیں ، اب ادھیڑ عمر میں جبھی کلام ہوسکتا ہے جب وہ دوبارہ تشریف لائیں ، یہی انکا معجزہ ہے۔ جو لوگ یہود کی طرح انکے بارے میں بدگمانی اور شبہ میں پڑ کران کے دوبارہ نزول کے منکر ہوجائیں گے اس اشارہ سے انہیں بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ ضرورتشریف لائیں گے اور بڑھاپے کی عمر پائیں گے ۔ اسی کی وضاحت ایک اور آیت سے ہورہی ہے۔وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ۔) سورۃ الزخرف آیت 61اور یقین رکھو کہ وہ (عیسی علیہ السلام) قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لیے تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مانو۔ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ انکی دوبارہ تشریف آوری اس بات کی نشانی ہوگی کہ قیامت قریب آگئی ہے ، اس بات کی تائید صحیح احادیث بھی کررہی ہیں۔قرآن اسکا بھی تذکرہ کرتا ہے کہ قیامت کے قریب اہل کتاب کا انکو دیکھ کر ردعمل کیا ہوگا ؟’’وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ الخ النساء 158اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ضرور بالضرور عیسی پر ایمان نہ لائے،۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ و تابعین کی بڑی جماعت نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ جو اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو ان پر ایمان نہ لائے۔”

    (البحر المحیط ج 3 ص 392) (تفسیر بیضاوی ج 1 ص 255)

    آپ لوگ عقیدہ حیات نزول مسیح کی قرآن و احادیث کی واضح تائید کو جھٹلا کر محض اپنے تفرد میں اپنے گھڑے ہوئے عقیدہ پر بضد ہیں۔

    عقیدہ حیات و نزول مسیح کا منکر ناصرف قرآنی دلائل کو جھٹلاتا ہے بلکہ متواتر احادیث کا بھی انکار کرتا ہے۔ برصغیر کے علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں عیسی علیہ السلام کےآسمانوں پر زندہ ہونے اور دوبارہ تشریف لانے کے منکر کو کافر قرار دیا، اس کے لیے عرب کے بڑے علماء سے بھی رائے لی گئی اور شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ جیسے عرب شیوخ نے بھی اس فتوی کی تائید کی ۔

    نیچے دی گئی گیارہ احادیث مبارکہ سے ثابت  ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام  قرب قیامت میں آئیں گے 

    ان احادیث مبارکہ سے آپ کے عقیدے کی  عمارت گر گئی ہے  

    اب آپ کے پاس ایک ہی راستہ ہے یا تو احادیث کو قبول کرکے حیات عیسی علیہ السلام کو قبول کرلو 

    یا احادیث کا انکار کرکے منکر حدیث کہلاؤ ۔

    ۔1۔حضرت ابو حریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے تو لوگوں میں چالیس سال بسر فرمائیں گے۔(رواہ الطبرانی و ابن عساکر)

    ۔2۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال زمین پر گذار کر وفات پائیں گے مسلمان آپ کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور ہمارے نبی کریم ﷺ کے ساتھ یا (روضہ اقدس ،مدینہ طیبہ) میں مدفون ہونگے۔ (رواپ اب ابی شیبہو احمد بن جریر و ابن حبان)

    ۔3۔ حضرت ابن مسعود رجی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر کر دجال کو قتل کریں گے چالیس سول لوگ مزے کی زندگی گذاریں گے (رواہ ابن ابی شیبہ و الحاکم فی المستدرک)

    ۔4۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کی سیدنا عیسیٰ ابن مریم نزول فرماکر دجال کو قتل کریں گے اور وہ زمین پر امام عادل اور حاکم انصاف کرنے والے ہوکرچالیس سال گذاریں گے۔ (رواہ احمد و ابو یعلیٰ و ابن عساکر)

    ۔5۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس سال بسر فرمائیں گے اگر وہ پتھریلی زمین کو فرمائیں کہ وہ شہد بہائے تو وہ شہد بہائے گی۔ (رواہ احمد فی الزہد)

    ۔6۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عیسیٰ بن مریم زمین پر نزول فرماکر خنزیز کو قتل کریں گے ،صلیب کو مٹائیں گے ، ان کے لیئے نماز باجماعت کا اہتمام ہوگا،عوام کو اتنا مال دیں گے کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا ، خراج معاف کریں گے، روحاء وادی پر نازل ہوکر حج و عمرہ کریں گے ۔ (رواہ احمد و ابن جریر و ابن عساکر)

    ۔7۔حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فج روحاء سے حج یا عمرے کے لیئے احرام باندھیں گے یا دونوں (حج و عمرہ)اکٹھا ادا کریں گے۔ (رواہ مسلم)

    ۔8۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابن مریم علیہ السلام حاکم عادل اور امام انصاف بن کر اتریں گےاور راستہ میں ٹھہریں گے ،حج یا عمرہ کے ارادہ پر اور میرے مزار پر آئیں گے ، سلام عرض کریں گے میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔ (رواہ الحاکم و صحیحہ و ابن عساکر )

    ۔9۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو تم میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملے تو انہیں میری جانب سے سلام کہہ دے۔ (رواہ الحاکم)

    ۔10۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تورات میں حضور ﷺ کی صفات لکھی ہوئی ہیں اور یہ بھی مکتوب ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام حضور ﷺ کے ساتھ مدفون ہوں گے۔ (رواہ الترمذی و حسنہ و ابن عساکر)

    ۔11۔ سیدنا عیسیٰ اب مریم علیہ السلام رسول اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدفون ہوں گے ، روضہ اقدس میں چوتھی قبر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ (رواہ البخاری فی تاریخ طبرانی وابن عساکر)

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    SachGoee
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #18

    ذرا روشنی ڈالیں کہ قیامت کے دن جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اللہ تعالٰی سے مقالمہ ہو گا جو کہ قرآن مجید میں درج ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اگر زندہ ہیں جو انکو دنیا میں واپس آکر تخلیث کے عقیدے ٹرینیٹی کا کیسے علم نہیں ہوگا کہ ان کے بات عیسائیوں نے کیا عقائد گھڑھ لیے ؟ وہ تو کہہ رہے ہونگے کہ جب تک میں ان میں تھا ایسی کوئی بات نہ تھی، پھر جب تو نے مجھےوفات دی تو تو ہی ان پر نگران تھا۔ یہاں آپکا عقیدہ دھڑام گر جاتا ہے دو لحاظ سے۔ نمبر 1: اگر واپس آتے قیامت سے پہلے تو پتہ ہوتا اس کا انہیں اور کہتے کے درستگی بھی کروائی اور مسلمان بھی کروایا۔ نمبر 2: قیامت کے مکالمے میں زمین ہر ایک دور کا ذکر ہے نبوت کے بعد کا وفات سے پہلے۔ آسمان پہ چڑھنے اور پھر زمین پر واپس آنے دوسرے دور کا ذکر تک نہیں ہے۔

    اس آیت شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ میں انکے حالات کو اپنی موجودگی میں تو دیکھ رہا تھا ، لیکن جب آپ نے مجھے آسمان پر زندہ اٹھا لیا ، اس وقت وہ میری نگرانی سے خارج تھے اور آپ ہی ان پر نگہبان تھے۔ مفسرین نے بھی اسی طرح اس آیت کو بیان فرمایا ہے۔

    سیدنا ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : “عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے کہ: الٰہی! یہ تیرے بندے ہیں (مگر انہوں نے میری غیرحاضری میں مجھے خدا بنایا اس لئے) واقعی انہوں نے اپنے اس عقیدے کی بنا پر اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنالیا ہے اور اگر آپ بخش دیں، یعنی ان لوگوں کوجن کو صحیح عقیدے پر چھوڑ کر گیا تھا اور (اسی طرح ان لوگوں کو بھی بخش دیں جنہوں نے اپنے عقیدہ سے رجوع کرلیا) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر لمبی کردی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ آخری زمانے میں دجال کو قتل کرنے کے لئے آسمان سے زمین کی طرف اتارے جائیں گے، تب عیسائی لوگ اپنے قول سے رجوع کرلیں گے، تو جن لوگوں نے اپنے قول سے رجوع کیا اور تیری توحید کے قائل ہوگئے اور اقرار کرلیا کہ ہم سب (بشمول عیسیٰ علیہ السلام کے) خدا کے بندے ہیں پس اگر آپ ان کو بخش دیں جبکہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ہے تو آپ عزیز و حکیم ہیں۔”

    (تفسیر در منثور ج:۲ ص:۳۵۰)

    قرآن کی آیات کی تفسیر کے چند اصول ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی آیت کی تفسیر کے لیے سب سے پہلے قرآن میں دیکھا جائے گاکہ آیا کوئی دوسری آیت اسکے مطلب کی وضاحت کررہی ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ، پھر اقوال صحابہ سے مدد لی جائے گی۔ اس عقیدہ رفع ، نزول و حیات عیسی کی تائید میں احادیث تو اتنی موجود ہیں کہ اتنی ارکان اسلام کے متعلق بھی نہیں، بیس سے زائدجید صحابہ روایت کررہے ہیں ، اسی طرح صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، آئمہ اور تمام بڑے علمائے امت کے ان پر اتفاق و اجماع کیوجہ سے انکو تلقی بالقبول حاصل ہے۔

    وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾ (النساء157،159 پارہ 6) ترجمہ: اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسی کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسی کو قتل نہیں کرپائے۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے۔( آسان ترجمۃ القرآن، 157، 158) آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہیں ۔ پہلی بات آیت میں وما قتلو“۔۔۔۔”وما صلبو“۔۔۔۔”وما قتلو یقینا کے الفاظ سے ان کے قتل/ موت کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ دوسری قتل سے بچانے کا انتظام یہ کیا گیا کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ ، بلکہ اللہ نے اٹھا لیا اس کو اپنی طرف”۔ یہاں “بل “کے بعد بصیغہ ماضی” رفعہ” کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے’الیہ’ یعنی اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔ وکان اللہ عزیزا حکیما ۔

    لفظ’ توفی’ کی قرآن سے وضاحت کچھ لوگ ” إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ۔)اٰ ل عمران 55 پارہ 3( میں متوفیک“ سے مطلق ”موت“مراد لیتے ہیں، جبکہ اگر یہاں اس سے موت مراد لے لی جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کافروں نے جو عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی تھی وہ اس میں کامیاب ہوگئےتھے۔ ۔ !! جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ بہتر تدبیر اللہ کی ہی رہی’۔ لفظ’توفی’ کی وضاحت کے لیے بھی ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں ۔ 1. اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ) الزمر 42 پارہ 24( ترجمہ : اللہ تمام روحوں کو انکی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، انکو بھی انکی نیند کی حالت میں ، پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا، انہیں اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چھوڑ دیتا ہے۔ اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ ”توفی“بمعنی موت کے نہیں ہیں ،بلکہ ”توفی“موت کے علاوہ کوئی شے ہے جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہوجاتی ہےتو کبھی نیند کے ساتھ ۔ اور”حِينَ مَوْتِهَا “کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ”توفی“ موت کے وقت بھی ہوتی ہے عین موت نہیں ۔جس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو رات کو “توفی” دیتا ہےاور صبح اٹھ کر لوگ ایک بار پھر زندہ ہوکر اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام “توفی” کے بعد بھی حیات ہیں اور قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، جسکی وضاحت احادیث میں موجود ہے۔ 2. وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ الخ (الانعام 60 پارہ 7 ) ترجمہ:وہ ہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اس مقام پر بھی ”توفی“موت کے بجائے نیند کے موقع پر استعمال کیا گیا ۔ اگر توفی سے مراد صرف موت ہی ہوتی تو یہاں اسکو استعمال نہ کیا جاتا۔ 3. حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ الخ (النساء15 پارہ 4) ترجمہ : یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کر لے جائے۔ اگر توفی کا معنی بھی موت تھا تو آگے لفظ ‘موت’ لانے کی کیا ضرورت تھی ؟حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ ”توفی “ کے ساتھ موت اور اس کے لوازم کا ذکر ہوگا ۔اس جگہ ”توفی “سے مراد موت لی جائے گی ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ الخ ( السجدة 11 پارہ 21) ترجمہ : تو کہہ قبض کر لیتا ہے تم کو فرشتہ موت کا جو تم پر مقرر ہے پھر اپنے رب کی طرف پھر جاؤ گے۔ اس مقام پر ملک الموت کے قرینہ سے ”توفی “سے مرادموت لی جائے گی ۔ اسی طرح قرآن میں دوسرے انبیاء کی موت کا جہاں کہیں تذکرہ ہے وہاں موت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ۔ نبی علیہ السلام کے لیے انک میت وانہم میتون، افائن مت فہم الخالدون اسی طرح سلیمان علیہ السلام فلما قضینا علیہ الموت ما دلھم علی موتہ ۔ ۔ جبکہ عیسی علیہ السلام کے لیے رفع اور توفی استعمال کیا ہے۔اور توفی جیسا کہ اوپر دی گئی آیات کی مثالوں سے ظاہر ہے جسمانی موت کے لیے وہاں استعمال ہوتا ہےجہاں اس کے ساتھ موت کے لوازمات کا بھی ذکر کیا جائے جبکہ غامدی صاحب کی پیش کی گئی آیت میں اس لفظ کے بعد موت کی کسی علامت کا تذکرہ کرنے کے بجائے قرآن کی دوسری آیت کی ہی تائید میں رافعک کا ذکر ہے، یہی بات فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ میں بھی ہے۔اس ساری تفصیل یہ واضح ہے کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق آپ کے عقیدے کو قرآن بھی غلط قرار دے رہا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول عیسی کے متعلق ارشادات کے علاوہ قرآن میں بھی انکے نزول کے واضح اشارے موجود ہیں۔ مثلا قرآن میں دو جگہ انکے بچپن اور ادھیڑ عمر میں بات کرنے کے معجزے کا ذکر ہے۔ وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ (پارہ3 ،سورہ آل عمران ،آیت 46) اور وہ ماں کی گود میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا اور بڑی عمر میں بھی، اور راست باز لوگوں میں سے ہوگا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں کلام کرنا تو ایک معجزہ تھا ادھیڑ عمرمیں تو مومن، کافر، جاہل ہر کوئی کلام کیا کرتا ہے اس کو ساتھ خصوصی طور پر ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی،؟ اسکا جواب یہ ہے کہ روایات عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی عمر تیس اور پینتیس سال کے درمیان بتاتی ہیں ، اب ادھیڑ عمر میں جبھی کلام ہوسکتا ہے جب وہ دوبارہ تشریف لائیں ، یہی انکا معجزہ ہے۔ جو لوگ یہود کی طرح انکے بارے میں بدگمانی اور شبہ میں پڑ کران کے دوبارہ نزول کے منکر ہوجائیں گے اس اشارہ سے انہیں بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ ضرورتشریف لائیں گے اور بڑھاپے کی عمر پائیں گے ۔ اسی کی وضاحت ایک اور آیت سے ہورہی ہے۔ وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ۔) سورۃ الزخرف آیت 61 اور یقین رکھو کہ وہ (عیسی علیہ السلام) قیامت کی ایک نشانی ہیں ۔ اس لیے تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مانو۔ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ انکی دوبارہ تشریف آوری اس بات کی نشانی ہوگی کہ قیامت قریب آگئی ہے ، اس بات کی تائید صحیح احادیث بھی کررہی ہیں۔قرآن اسکا بھی تذکرہ کرتا ہے کہ قیامت کے قریب اہل کتاب کا انکو دیکھ کر ردعمل کیا ہوگا ؟ ’’وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ الخ النساء 158 اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ضرور بالضرور عیسی پر ایمان نہ لائے،۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ و تابعین کی بڑی جماعت نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ جو اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ رہے گا جو ان پر ایمان نہ لائے۔”

    (البحر المحیط ج 3 ص 392) (تفسیر بیضاوی ج 1 ص 255)

    آپ لوگ عقیدہ حیات نزول مسیح کی قرآن و احادیث کی واضح تائید کو جھٹلا کر محض اپنے تفرد میں اپنے گھڑے ہوئے عقیدہ پر بضد ہیں۔

    عقیدہ حیات و نزول مسیح کا منکر ناصرف قرآنی دلائل کو جھٹلاتا ہے بلکہ متواتر احادیث کا بھی انکار کرتا ہے۔ برصغیر کے علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں عیسی علیہ السلام کےآسمانوں پر زندہ ہونے اور دوبارہ تشریف لانے کے منکر کو کافر قرار دیا، اس کے لیے عرب کے بڑے علماء سے بھی رائے لی گئی اور شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ جیسے عرب شیوخ نے بھی اس فتوی کی تائید کی ۔

    نیچے دی گئی گیارہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت میں آئیں گے

    ان احادیث مبارکہ سے آپ کے عقیدے کی عمارت گر گئی ہے

    اب آپ کے پاس ایک ہی راستہ ہے یا تو احادیث کو قبول کرکے حیات عیسی علیہ السلام کو قبول کرلو

    یا احادیث کا انکار کرکے منکر حدیث کہلاؤ ۔

    ۔1۔حضرت ابو حریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے تو لوگوں میں چالیس سال بسر فرمائیں گے۔(رواہ الطبرانی و ابن عساکر)

    ۔2۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال زمین پر گذار کر وفات پائیں گے مسلمان آپ کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور ہمارے نبی کریم ﷺ کے ساتھ یا (روضہ اقدس ،مدینہ طیبہ) میں مدفون ہونگے۔ (رواپ اب ابی شیبہو احمد بن جریر و ابن حبان)

    ۔3۔ حضرت ابن مسعود رجی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر کر دجال کو قتل کریں گے چالیس سول لوگ مزے کی زندگی گذاریں گے (رواہ ابن ابی شیبہ و الحاکم فی المستدرک)

    ۔4۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کی سیدنا عیسیٰ ابن مریم نزول فرماکر دجال کو قتل کریں گے اور وہ زمین پر امام عادل اور حاکم انصاف کرنے والے ہوکرچالیس سال گذاریں گے۔ (رواہ احمد و ابو یعلیٰ و ابن عساکر)

    ۔5۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زمین پر چالیس سال بسر فرمائیں گے اگر وہ پتھریلی زمین کو فرمائیں کہ وہ شہد بہائے تو وہ شہد بہائے گی۔ (رواہ احمد فی الزہد)

    ۔6۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عیسیٰ بن مریم زمین پر نزول فرماکر خنزیز کو قتل کریں گے ،صلیب کو مٹائیں گے ، ان کے لیئے نماز باجماعت کا اہتمام ہوگا،عوام کو اتنا مال دیں گے کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا ، خراج معاف کریں گے، روحاء وادی پر نازل ہوکر حج و عمرہ کریں گے ۔ (رواہ احمد و ابن جریر و ابن عساکر)

    ۔7۔حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فج روحاء سے حج یا عمرے کے لیئے احرام باندھیں گے یا دونوں (حج و عمرہ)اکٹھا ادا کریں گے۔ (رواہ مسلم)

    ۔8۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابن مریم علیہ السلام حاکم عادل اور امام انصاف بن کر اتریں گےاور راستہ میں ٹھہریں گے ،حج یا عمرہ کے ارادہ پر اور میرے مزار پر آئیں گے ، سلام عرض کریں گے میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔ (رواہ الحاکم و صحیحہ و ابن عساکر )

    ۔9۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو تم میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملے تو انہیں میری جانب سے سلام کہہ دے۔ (رواہ الحاکم)

    ۔10۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تورات میں حضور ﷺ کی صفات لکھی ہوئی ہیں اور یہ بھی مکتوب ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام حضور ﷺ کے ساتھ مدفون ہوں گے۔ (رواہ الترمذی و حسنہ و ابن عساکر)

    ۔11۔ سیدنا عیسیٰ اب مریم علیہ السلام رسول اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدفون ہوں گے ، روضہ اقدس میں چوتھی قبر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ (رواہ البخاری فی تاریخ طبرانی وابن عساکر)

    آپ اپنا نام کاپی پیسٹ رکھ لیں۔آپ نے جفرمادیا کہ اگر توفی کے معنی وفات کے لیئے جائیں تو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے اور بلیور بھائی نے سوال کیا کہ رفع کا کیا ہوگا ؟ کیا رفع ہوگیا ہے یا ابھی نہیں ہوا رفع ؟ آپ نے جواب دینے کی بجائے کاپی پیسٹ کرنا شروع کر دیا ہے دوبارہ۔اس سے پہلے میں نے آپکو چیلنج دیا کہ اللہ فاعل ہو بندہ مفعول اور آیت میں لفظ توفی توفا یتوفی یتفیک ہو اور ذکر عیسٰی علیہ السلام کا نہ ہو تو کسی ایک آیت سے ثابت کریں کہ توفی کے معنی وفات یا سونے کے نہیں ہیں ؟جواب نہیں آیا اسکا بھی۔اور قیامت کے مکالمے کی تفسیر میں بریکٹ میں آپ نے یعنی عصر حاضر کے مولویوں نے اپنی تاویلیں گھڑی ہیں جنکا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہو سے کوئی تعلق نہیں۔حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دو اداور کا ذکر کیا ہے۔ ایک توفی سے پہلے کا اور دوسرا توفی کے بعد کا جب عیسٰی علیہ السلام ان میں موجود نہ تھے۔ آپکے عقیدے کے تیسرے دور کا ذکر ہے ہی نہیں سرے سے۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ بتا رہے تخلیث کا انہیں پتہ ہی نہیں کہ انکی توفی کے بعد کیا ہوا۔ اور نہ وہ کہہ رہے کہ میں ابھی قیامت سے پہلے جب واپس ہو کے آیا تو درستی کر کے آیا ہوں۔ بلکہ وہ بے خبر ہیں۔چوتھی بات وما محمد الا رسول والی آیت کا مودودی صاحب کا ترجمہ پوسٹ کیا۔ گزر گئے۔ اگر گزر گئے کا مطلب وفات نہیں پھر تو تمام نبی زندہ ہیں اور صرف وفات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوئی ہے۔ اگر گزر گئے کا مطلب وفات ہے تو اس سے نہ قرآن کریم عیسٰی علیہ السلام کو استثنا دے رہا ہے اور نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہو نے استثنا دیا تھا۔آپ نے دوبارہ حدیثوں پر چھلانگ لگا دی۔ ابھی صرف دو آیتوں کی بات ہوئی ہے اس پر بھی آپ نے جواب نہیں دیا سوالوں کا۔ پہلے ان سوالوں کے جواب دیں۔ پھر وفات مسیح ناصری کی باقی آیتوں پر بات ہوگی۔ اسکے بعد امت محمدی میں آنے والے مسیح محمدی کی بات ہوجائے گی۔اگر مسیح ناصری علیہ السلام زندہ ثابت ہونگے تو ہی دوبارہ آئیں گے۔ اگر قرآن مجید سے مردہ وفات شدہ رحلت شدہ ثابت ہوگئے پھر دوبارہ نہیں آ سکتے۔

    Najamuddin
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #19
    آپ اپنا نام کاپی پیسٹ رکھ لیں۔ آپ نے جفرمادیا کہ اگر توفی کے معنی وفات کے لیئے جائیں تو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اور بلیور بھائی نے سوال کیا کہ رفع کا کیا ہوگا ؟ کیا رفع ہوگیا ہے یا ابھی نہیں ہوا رفع ؟ آپ نے جواب دینے کی بجائے کاپی پیسٹ کرنا شروع کر دیا ہے دوبارہ۔ اس سے پہلے میں نے آپکو چیلنج دیا کہ اللہ فاعل ہو بندہ مفعول اور آیت میں لفظ توفی توفا یتوفی یتفیک ہو اور ذکر عیسٰی علیہ السلام کا نہ ہو تو کسی ایک آیت سے ثابت کریں کہ توفی کے معنی وفات یا سونے کے نہیں ہیں ؟ جواب نہیں آیا اسکا بھی۔ اور قیامت کے مکالمے کی تفسیر میں بریکٹ میں آپ نے یعنی عصر حاضر کے مولویوں نے اپنی تاویلیں گھڑی ہیں جنکا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہو سے کوئی تعلق نہیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دو اداور کا ذکر کیا ہے۔ ایک توفی سے پہلے کا اور دوسرا توفی کے بعد کا جب عیسٰی علیہ السلام ان میں موجود نہ تھے۔ آپکے عقیدے کے تیسرے دور کا ذکر ہے ہی نہیں سرے سے۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ بتا رہے تخلیث کا انہیں پتہ ہی نہیں کہ انکی توفی کے بعد کیا ہوا۔ اور نہ وہ کہہ رہے کہ میں ابھی قیامت سے پہلے جب واپس ہو کے آیا تو درستی کر کے آیا ہوں۔ بلکہ وہ بے خبر ہیں۔ چوتھی بات وما محمد الا رسول والی آیت کا مودودی صاحب کا ترجمہ پوسٹ کیا۔ گزر گئے۔ اگر گزر گئے کا مطلب وفات نہیں پھر تو تمام نبی زندہ ہیں اور صرف وفات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوئی ہے۔ اگر گزر گئے کا مطلب وفات ہے تو اس سے نہ قرآن کریم عیسٰی علیہ السلام کو استثنا دے رہا ہے اور نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہو نے استثنا دیا تھا۔ آپ نے دوبارہ حدیثوں پر چھلانگ لگا دی۔ ابھی صرف دو آیتوں کی بات ہوئی ہے اس پر بھی آپ نے جواب نہیں دیا سوالوں کا۔ پہلے ان سوالوں کے جواب دیں۔ پھر وفات مسیح ناصری کی باقی آیتوں پر بات ہوگی۔ اسکے بعد امت محمدی میں آنے والے مسیح محمدی کی بات ہوجائے گی۔ اگر مسیح ناصری علیہ السلام زندہ ثابت ہونگے تو ہی دوبارہ آئیں گے۔ اگر قرآن مجید سے مردہ وفات شدہ رحلت شدہ ثابت ہوگئے پھر دوبارہ نہیں آ سکتے۔

    جناب عالی سو بات کی ایک بات رب کریم نے گواہی دے دی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے سولی دی گئی ہے 

    شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾ (النساء157،159 پارہ 6) ترجمہ: اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسی کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسی کو قتل نہیں کرپائے۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے۔( آسان ترجمۃ القرآن، 157، 158)

    آپ قادیانیوں والا عقیدہ اپنے پاس ہی رکھیں 

    میرے لیئے یہی  ایک آیت ہی کافی ہے جس میں رب کریم نے گواہی دے دی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے سولی دی گئی ہے

    لکم دینکم ولی دین 

    muntazir
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #20

    جناب عالی سو بات کی ایک بات رب کریم نے گواہی دے دی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے سولی دی گئی ہے

    شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾ (النساء157،159 پارہ 6) ترجمہ: اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کردیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسی کو قتل کیا تھا ، نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسی کو قتل نہیں کرپائے۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا، اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے۔( آسان ترجمۃ القرآن، 157، 158)

    آپ قادیانیوں والا عقیدہ اپنے پاس ہی رکھیں

    میرے لیئے یہی ایک آیت ہی کافی ہے جس میں رب کریم نے گواہی دے دی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اسے سولی دی گئی ہے

    لکم دینکم ولی دین

    نجم الدین صاحب یہ قادیانیوں والا عقیدہ کونسا ہوتا ہے براے مہربانی اس پر اپنے قلم سے روشنی ڈالیں

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 45 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi