Viewing 2 posts - 1 through 2 (of 2 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم حقانی گروپ کے بانی جلال الدین حقانی طویل علالت کے بعد چل بسے ہیں۔
    طالبان کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ کئی برسوں سے علیل تھے۔
    بیان میں ان کے لیے جہادیوں سے دعائے مغفرت کی اپیل کی گئی ہے لیکن ان کے مرنے کی تاریخ اور تدفین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
    بیان میں ان کی موت کا اعلان اس طرح کیا گيا: ‘بڑے افسوس کے ساتھ ہم اپنے ایمان والے مجاہد افغانیوں اور وسیع اسلامی امت کو یہ اطلاع دیتے ہیں کہ معروف جہادی شخصیت ممتاز عالم، مثالی جنگجو اور جہادیوں کے پیش رو، اسلامی امارات میں سرحد کے وزیر اور قائد کونسل کے رکن محترم الحاج مولائی جلال الدین حقانی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون ۔
    جلال الدین حقانی افغانستان کے جنگجوؤں میں ممتاز اہمیت کے حامل رہے ہیں جن کی طالبان اور القاعدہ دونوں سے قربت تھی۔
    انھوں نے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کو سنہ 1990 کی دہائی میں تربیتی کیمپ قائم کرنے میں تعاون کیا تھا۔
    ١١ ستمبر سنہ 2001 کے حملے کے بعد حقانی نے اپنے نیٹ ورک کی کمان اپنے بیٹے کے ہاتھوں میں سونپ دی تھی۔
    امریکہ حقانی نیٹ ورک پر کئی بڑے بڑے حملے کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔
    اس سے قبل بھی حقانی نیٹ ورک کے سربراہ کی موت کی خبریں آتی رہیں ہیں اور ان کی تردید جاری کی جاتی رہی ہے۔ سنہ 2015 میں افغانستان میں شدت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک کے قریبی ذرائع نے بتایا تھا کہ جلال الدین حقانی ایک برس قبل انتقال کر گئے تھے۔
    ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جلال الدین حقانی کی موت طویل علالت کی وجہ سے ہوئی اور ان کی تدفین افغانستان میں کی گئی۔


    افغانستان میں نیٹو اور افغان افواج پر حملوں، کابل سمیت مختلف علاقوں میں شدت پسند واقعات کا الزام حقانی نیٹ ورک پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔
    حقانی نیٹ ورک افغانستان کے شمال مشرقی صوبوں کنڑ اور ننگرہار اور جنوب میں زابل، قندھار اور ہلمند میں مضبوط گروپ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
    جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے تھا اور انھوں نے 1980 کی دہائی میں شمالی وزیرستان سے سابقہ سویت یونین کے افغانستان میں قبضے کے دوران منظم کارروائیاں کیں۔
    حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی 2001 کے آخر میں اسلام آباد کے آخری سرکاری دورے پر آنے والے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔
    یہ وہی وقت تھا جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔
    اس کے بعد حقانی روپوش ہو گئے اور کئی مہینوں کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان میں سامنے آئے جہاں انہوں نے مغربی طاقتوں کے خلاف شدت پسندوں پر مشتمل ایک مزاحتمی گروپ تشکیل دیا۔
    اس کے بعد سے اس گروپ نے جتنا نقصان مغربی افواج کو پہنچایا کسی اور گروپ نے نہیں پہنچایا۔ اس گروپ کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔

    https://www.bbc.com/urdu/regional-45404887

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2

    سوویت یونین کےافغانستان پر تسلط کے دوارن امریکی ادارے سی آئی اے کے سب سے قیمتی اثاثہ تصور کیے جانے والے جلال الدین حقانی طویل علالت کے بعد وفات پا گئے ہیں۔
    سوویت یونین کے تسلط کے خلاف لڑنے والوں کو جب صف آرا کیا جا رہا تھا تو جلال الدین کو اس وقت امریکی ادارے سی آئی اے کا ایک قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا تھا لیکن نیٹو افواج کی افغانستان آمد کے بعد ان کا شمار امریکہ کے بڑے دشمنوں میں کیا جاتا تھا جن کی سروں کی قمیت مقرر کی گئی تھی۔
    حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے تھا اور ان کی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جائیدادیں تھیں جو شاید اب بھی ہیں۔ انھوں نے سنہ انیس سو اسی کی دہائی میں شمالی وزیرستان سے سابقہ سویت یونین کے افغانستان میں قبضے کے دوران منظم کارروائیاں کیں۔
    جلال الدین حقانی کا شمار پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے پسندیدہ کمانڈروں میں ہوتا تھا جو یہ فیصلہ کرتا تھا کہ کس کمانڈر کو سابقہ سویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے کتنے فنڈز اور ہتھیار درکار ہیں۔
    جلال الدین حقانی کا گروپ مشرقی افغانستان کے علاقے پکتیکا سے ننگر ہار تک پورے طور پر مؤثر اور متحرک ہے اور اسے جنگجو گروپوں کا ’گاڈ فادر‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
    جلال الدین حقانی ایک عشرے سے اپنے گروپ کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کے حوالے کر چکے تھے۔
    سوویت یونین کے افغانستان سے نکلنے کے بعد حقانی گروپ متحرک رہا اور نیٹو افواج کی افغانستان آمد کے بعد حقانی گروپ کو افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر مہلک حملوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔
    اگرچہ پاکستان اور مغرب میں متعدد افراد جلال الدین حقانی کو آئی ایس آئی کا اثاثہ سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کی فوج اس کی تردید کرتی رہی ہے۔
    تاہم دفاعی تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ حالیہ برسوں میں آئی ایس آئی کی حقانی نیٹ ورک پر گرفت کمزور پڑ گئی ہے۔
    حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی سنہ دو ہزار ایک کے آخر میں اسلام آباد کے آخری سرکاری دورے پر آنے والے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب امریکہ نے افغانستان کے خلاف جنگ شروع کی۔
    اس کے بعد حقانی اسلام آباد میں روپوش ہو گئے اور کئی مہینوں کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان میں سامنے آئے جہاں انھوں نے مغربی طاقتوں کے خلاف شدت پسندوں پر مشتمل ایک مزاحتمی گروپ تشکیل دیا۔
    اس کے بعد سے اب تک اس گروپ نے جتنا نقصان مغربی افواج کو پہنچایا ہے شاید کسی اور گروپ نے نہیں پہنچایا۔


    اکتوبر سنہ دو ہزار ایک میں جب امریکہ نے افغانستان میں بمباری شروع کی تو ہزاروں کی تعداد میں عرب اور سینٹرل ایشیا کے جنگجوؤں نے پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کا رخ کیا۔
    پاکستانی فوج کی جانب سے ان جنگجوؤں کی پاکستان آمد کو روکنے کے لیے نیم دلانہ کوششوں کی وجہ سے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں سنہ دو ہزار دو اور چار میں پرتشدد تصادم کا آغاز ہوا جن میں سینکڑوں سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
    جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین نے سنہ دو ہزار چھ میں جنوبی وزیرستان کے احمد زئی اور وزیر قبائل کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا اور ان کی کوششوں سے متعدد قبائل یکجا ہوئے۔
    جلال الدین حقانی کے دو بھائی سنہ دو ہزار آٹھ سے دو ہزار گیارہ کے دوران حقانی نیٹ ورک اور تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان امن معاہدے کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔

    https://www.bbc.com/urdu/regional-45410881

Viewing 2 posts - 1 through 2 (of 2 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi