Forum Replies Created

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 193 total)
  • Author
    Posts
  • Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #19
    یہ تھریڈ نارمل تازہ خبر کی طرز پر کھولا گیا تھا اس کا مقصد کوئی پوانٹ سکورنگ کرنا نہیں تھا لیکن آپ تو جذباتی ہوگئی ہیں مقابلے میں سالوں پرانی وڈیو یو ٹیوب سے سیرچ کر کر کے لگا رہی ہیں ہر صوبے کو اپنا کام کرنا ہے دوسرے صوبے کے عیب پر انگلی اٹھانے سے اپنے صوبے عیب کم نہیں ہو جاتے صحت تعلیم اور پولیس صرف خان صاحب کا نعرہ تھا اور اسی منشور پر ووٹ لیے تھے نون لیگ نے بجلی بحران اور دہشت گردی ختم کرنے کے منشور پر ووٹ مانگے تھے

    سب ہی نہیں مگرہم پاکستانیوں کی اکثریت اندھی محبت، اندھی نفرت کا شکار ہو کر خانوں میں بٹ چکی ہے۔چونکہ محبت اندھی ہوتی ہےاور نفرت اندھی کے ساتھ بہری بھی ، تو ہم اپنے محبوب میں کوئی عیب دیکھ ہی نہیں سکتے۔اسی طرح جس سے نفرت کرتے ہیں اس کی اچھائیاں دیکھنا تو ہمارے بس میں ہوتا ہی نہیں سچ اورحقیقت سننے سےکان بھی معزوری کا اظہار کر دیتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہدلوں کو جوڑنے والے، اتفاق، اتحاد، بھائی چارے  اور پیار کا راستہ دکھا کر قوم کو متحد رکھنے کے ذمہ دارجنہوں نےتعمیری  منثبت اور شائستہ سیاست کے لئے نئی نسل کے لئے مینارہ نور  بننا تھاہمارے محترم لیڈرزان  ہی ، وقتی سیاسی مفاد کے لئے عوام کو اس حال تک لے جانے کے ذمہ دار ہیں۔

    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #35
    کسی کی محبت پر شک کرنا کس زمرے میں آئے گا

    مجھے کوئی حق نہیں کہ کسی کی محبت پر شک کروں۔اگر کوئی اپنی زبان سے کچھ کہتا ہے جو میرا ضمیر مجھے کہنے سے روکتا ہے تو میں اس کا حوالہ دے سکتا ہوں؟ یا اس کی بھی اجازت نہیں؟

    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #33
    پاکستانی فوج دشمن کی فوج ہی تو ہے

    خاتوں،ایسا آپ کہہ سکتی ہیں،ہم جیسے لوگ نہیں،،ہم جو اسی دھرتی پہ پیدا ہوئے، ،اسی کی ہوا، اسی کا پانی  اورہ اسی کی پیدا کردہ خوراک استعمال کرکےپلے بڑھے،اسی کے موسم کی سختیاں، نرمیاں جھیلتے ہوئےدن رات بسر کرتے رہے۔ ہم جنہیں کل مرنے کے بعد اسی کی نرم مٹی میں سما جانا ہے۔ہم ایسا بالکل بھی نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اس دھرتی  کا جو کچھ بھی ہے ہمارا پنا ہے۔ اور ہمیں اس سے عشق ہے، پیار ہے ، محبت ہے۔ کوئی اپنی ماں کو بھلا کیونکر برا کہہ سکتا ہے۔ یہ دھرتی ہماری ماں ہے ۔سو دھرتی ماں کو سلام ہے، اس کی عظمت کو سلام ہے۔ اس کے بچوں کو سلام ہے اور ان اداروں کو سلام ہے جو امن امان رکھنے اور بیرونی بھیڑیوں کے ناپاک عزائم کی راہ روکنے کے ذمہ دار ہیں ان کو سلام ہے اور سلام ہے انصاف فراہم کرنے کے ذمہ داروں کو بھی جن کی عزت اور احترام ہی کسی صحت مند معاشرے کی نشانی ہے۔افواج پاکستان کو ہم دشمن کی فوج کیوں سمجھیں گے،، بی بی یہ ہمارے ہی بچے ہیں بھائی ہیں ۔ ان کے مشکل ترین فرائض کون نہیں جانتا۔ یہ ہماری پر سکون نیند کے لئے راتوں کو جاگ کر پہرہ دیتے ہیں۔ہماری جانوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں نثار کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جبہوں نے ہمارے کل کے لئے اپنا آج قربان کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی،، یہ ہمارا فخر ہیں، ہمارا مان ہیں۔ ہماری آن اور ہماری شان ہیں ،ہم انہیں دشمن کی فوج کیسے سوچ بھی سکتے ہیں۔کسی بھی مہذب معاشرے میں جو مقام ،جو عزت اور جو احترام عدلیہہ کو حاصل ہے اس سے کون واقف نہیں۔ ان پر بلا وجہ انگلی اٹھانا، انہیں تضحیک کا نشانہ بنانہ ۔اپنے ہی پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔  اور ہر با شعور سمجھتا ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہیئے۔مگرمعاشرے کا کوئی فرد یا طبقہ اگر سمجھتا ہے کہ کہیں کوئی نا انصافی ہو رہی ہے۔ یا کوئی ادارہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کر رہا ہے تو اس کی نشان دہی کرنا اور احساس دلانے سے صرف اور صرف ملکی بھلائی اور بہتری مقصود ہوتی ہے ،نہ کہ کسی کی انا کو مجروح کرنا ، اس پر غصہ ہونے کی بجائے غور و فکر کرنا ہی مثبت  سوچ ہے نہ کر ہر تعمیری سوچ کے مطابق بات کرنے والے کو دشمن سمجھ لینا۔پاک فوج سے محبت اور ان کے وقار کا احترام کرنا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح عدالتوں کی عظمت برقرار رکھنا لازم ہے کسی کو بھی عدلیہ پر کیچر اچھالنا نہیں چاہیئے۔ کیونکہ اگر یہ ادارےاپنا وقار کھو دیں گے تو معاشرہ جنگل کا معاشرہ بن جائے گا۔ اسی طرح پارلیمنٹ کا ادارہ بھی ایک مقام رکھتا ہے۔  اس ملک کے کروڑوں لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک معنوں میں یہ ادارہ پورے پاکستان کے عوام کی نمائیدگی کرتا ہے۔ اس کی توہین، براہ راست عوام کی توہین ہے۔ کسی دوسرے ادارے کو اگر آئین نے یہ اختیار نہیں دیا  کہ اس کے فیصلوں کو رد کر سکے تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ اسے بھی جائز عزت و احترام دیا جانا چاہیے۔ہم جیسے لوگ مثبت تنقید کو بھی عزت ، احترام  کے دائرے سے باہر دیکھنا نا پسند کرتے ہیں چاہتے ہیں کہ سب ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا اپنا فرض ادا کریں۔ اداروں میں کھیچا تانی، ٹوٹ بھوٹ۔ اور ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی کوشش نے ملک کو ماضی میں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم تو صرف عرض ہی کر سکتے ہیں جیسا کہ آج ذولفار احمد چیمہ صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ہے۔۔اداروں کی اناریاست سے بڑی ہو جائے تو ریاست ان کے بوجھ تلے پِس جاتی ہے۔ ہدف، اگر اپنے اپنے ادارے کی برتری قائم کرنا اور دوسروں کو نیچا دکھانا ہی رہا تو ملک کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے، اگر بڑوں نے اپنے اپنے ادارے کو قبیلہ سمجھ کر قبائلی عصبیّت کی چادر اوڑھ لی اور اسی عصبیّت کی عینک سے دیکھنا بند نہ کیا تو ہم خدانخواستہ پھرکسی بڑے حادثے کا شکار ہوجائیں گے۔عدالت عظمیٰ ہو یا جی ایچ کیو،رائے ونڈ ہو یا بنی گالا ، ان تمام مراکز کے مکین قائدؒ کے پاکستان کے وارث اور محافظ ہیں۔ اُن پر لازم ہے کہ وہ کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے وطنِ عزیز کے سبز ہلالی پرچم کو ضرور دیکھا کریں اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے قائدؒکی تصویر پر ہی نظر ڈال لیا کریں اور یہ سوچا کریں کہ میرے اس اقدام کا پاکستان کے مستقبل پر کیا اثر پڑیگا اور اگر قائدؒ زندہ ہوتے تو اس اقدام کے بارے میں اُنکا ردّ ِعمل کیا ہوتا!لقمہء تَر کی ہَوس میں مبتلا چند چرب زبانوں کو نظر انداز کردیں ورنہ پوری قوم کسی فرد یا ادارے کی بالادستی نہیں، صرف آئین اور قانون کی بالادستی چاہتی ہے عوام سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ ، عدلیہ اور فوج سب قابلِ احترام ادارے ہیں ۔ سب کی عزت بجا مگر ملک کی عزت ان سب سے کہیں زیادہ بلند ، برتر اور مقدس ہے ۔ سب سے اہم پاکستان کی بقاء اور مستقبل ہے۔ جب بھی فرد یا ادارے نے اپنی عزت کو ملک کی عزت پر ترجیح دی ، جب بھی وطنِ عزیز کے مفاد کو اپنی اناؤں پر قربان کیا گیا بڑا نقصان اُٹھانا پڑا اور وطنِ عزیز کے جسم پر بڑے گہرے گھاؤ لگے۔یہ حقیقت کسی کو بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم دسویں صدی میں نہیں رہ رہے، جب ریاست کے فیصلے تلوار کے زور پر ہوتے تھے، ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکے ہیں جب ریاستوں کو چلانے کا فیصلہ بندوق، توپ یا ٹینک سے نہیں،آئین ،قانون اور جمہور کی اجتماعی دانش سے ہوتا ہے۔ اور پھر ہم یہ کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ پاکستان مختلف زبانیں بولنے والے مختلف خطوں اور صوبوں پر مشتمل ہے۔ یہ چھ اکائیوں کا مجموعہ ہے جسے ٹینکوں اور توپوں نے نہیں ایک ایسی دستاویز نے یکجا رکھا ہوا ہے جسے آئین کہا جاتا ہے، آئین کو پامال اور بے توقیر کیا جائے گا تو خدانخواستہ اکائیاں بکھر جائیں گی۔افراد اور گروہوں کے اندھے پیروکار میرے مخاطب نہیں، مگر ملک سے محبت کرنے والے اور اس کے مستقبل کے بارے میں فکرمندہر باشعور شہری کے چہرے پر یہی التجا ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہے، اس سے تجاوز نہ کرے اور اپنے اندرونی معاملات بہتر کرے۔ہر ادارے میں اصلاحِ احوال کی بڑی گنجائش ہے سیاسی حکومت کو فرسودہ عدالتی نظام کی اصلاح کرنی چاہیے تھی جو وہ نہیں کرسکی۔ موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم کیا ڈلیور کررہا ہے، اور اس کی برکات سے عوام النّاس کسقدر مستفیض ہو رہے ہیں اس کا اندازہ ملک کی کسی بھی ضلع کچہری کے باہر کھڑے ہزاروں پریشان حال لوگوں کی زبوں حالی سے لگایا جاسکتا ہے، وہ صبح سے شام تک کھڑے رہتے ہیں اور شام کو نئی تاریخ لے کر رخصت ہوجاتے ہیں اور دوسری صبح ان کی جگہ لینے کے لیے افتادگانِ خاک کا ایک نیا انبوہِ کثیرآجاتا ہے ۔برسوں سے یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ نہ کبھی پارلیمنٹ میں بیٹھے قانون سازوں کو ووٹ دینے والے ان عوام کی حالت پر ترس آیا اور نہ ہی مسندِ عدل پر بیٹھے ہوئے جج صاحبان کو! نہ ہی کبھی حکومتوں نے اس فرسودہ نظام کو بدل کر ایسا نظامِ عدل نافذ کرنے کی منصوبہ بندی کی جس کے تحت چند دنوں میں نہیں تو چند ہفتوں میں فیصلے ہوجایا کریں اور مسکین عوام کو پیسے اور وقت کی بربادی اور ذہنی اذیّت سے نجات مل جائے۔ ایسے فرسودہ نظام کا خاتمہ اور نظامِ عدل کی اصلاح ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحِ اوّل کیوں نہ بن سکی؟۔ تعلیمی نظام ہی ہجوم کو ایک قوم بناتا ہے، اس میں اصلاح کیوں نہیں کی جاسکی؟سیاسی قیادت کی کوتاہیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر بدترین حکومت کی گوشمالی کا حق بھی عوام کے پاس ہے۔ کسی دوسرے ادارے کو پارلیمنٹ کو کمزور اور بے وقار کرنے یا سیاسی اداروں کو غیر مستحکم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔اب تو ہرباخبر شخص اعلانیہ کہہ رہاہے کہ سابق وزیرِ اعظم سے وجۂ ناراضگی کرپشن نہیں تھی ورنہ کرپشن کے خاتمے کے لیے مختلف پارٹیوں ، حکومتوں اور اداروں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو افسوس بھی ہوتا ہے اور ندامت بھی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بڑی بڑی عدالتوں سے کبھی کسی بڑے آدمی کوکرپشن کے جرم پر سزا نہیں ملی۔ قبلہ زرداری صاحب، جو اس میدان کے شہسوار ہیں ، ہمیشہ عدالتوں سے تاریخیں لینے میں کامیاب رہے، نہ کبھی عدالتی نگرانی میں کام کرنیوالی جے آئی ٹی بنی نہ فیصلے کرنے کی معیاد مقرر ہوئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ موصوف نے کوئی مقدمہ سرے نہیں چڑھنے دیا اور سزا سے بچتے رہے۔ فوجی آمروں نے جب بھی آئین توڑ کر حکومتوں پر قبضہ کیا تو قبضے کی وجہ سول حکومت کی کرپشن قرار دیا مگرکچھ ہی دیر بعد کرپٹ اور بدنام ترین سیاستدانوں کو ساتھ ملالیا۔ سندھ کا ہر شخص جانتا ہے کہ حکمران ٹولہ اربوں کی دیہاڑیاں لگا رہا ہے۔جنرل راحیل کے دور میں فوج نے ایک بار تاثر ضرور دیا تھاکہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی مگر ڈاکٹر عاصم کے سوا حکمران خاندان کا کوئی ایک شخص بھی کرپشن پر نہ گرفتار کیا گیا نہ کسی کے خلاف کارروائی ہوئی اور یہ تو تاریخ ہے کہ کرپشن کے تمام مقدمے ختم کرنے اور اسے قانونی تخفظ فراہم کرنے کا عظیم کارنامہ بھی ایک عظیم جرنیل پرویز مشرف نے انجام دیا تھا۔کرپشن میں ملوث ہونے والوں کو اگر سزا دی ہے تو صرف عوام نے دی ہے، جس پارٹی نے کرپشن کو ہی اپنا دین ایمان اور منشور بنا لیااسے عوام نے تین صوبوں سے نکال باہر پھینکا جو پارٹی ایک صوبے میں بدنام ہوئی اسے اس صوبے سے فارغ کردیا۔خیر اور شر کے خالق کے ہاں بھی اور ملکی قانون میں بھی ہر جرم ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ہر جرم کی سنگینی اور سزا مختلف ہے ، ٹیکس نہ دینا، کوئی اثاثہ چھپانا، منی لانڈرنگ کرنا بلاشبہ جرائم ہیں اور ان جرائم میں ملوث افراد کو سزا ملنی چاہیے مگر ان سے کہیں زیادہ سنگین جرم آئین توڑنا ہے جسکی سزا موت ہے ۔ خالقِ کائنات اور یومِ حساب کے مالک کے نزدیک بدکاری اور انسانی قتل سب سے سنگین جرائم ہیں جنکی سزا سب سے سخت ہے۔ایم کیو ایم کے جس شخص کو کراچی کا میئر بنادیا گیا ہے اس پر 12مئی 2007کو پچاس کے قریب بے گناہ لوگوں کو قتل کروانے کا الزام ہے ، کراچی کا ہر شریف شہری پوچھتا ہے کہ فوج اور عدلیہ دونوں اس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کرسکے اور اسے نااہل کیوں نہ قرار دیا گیا؟۔ اس کے جرائم زیادہ سنگین ہیں یا بیٹے سے تنخواہ نہ لینا بڑا جرم ہے ، زرداری صاحب اہل ہوں،ان کی ہمشیرگان بھی اہل ہوں، ان کے سب وزیر اہل ہوں، وسیم اختر اہل ہو، جہانگیر ترین اہل ہو، علیم خان اہل ہو، شیخ رشید اہل ہو اور صرف نوازشریف تاحیات نااہل ہو تو کون ایسے فیصلے کو منصفانہ کہے گا؟ملک کا درد رکھنے والے جمہوریت پسند لکھاری پریشان ہیں کہ ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ جمہوریت کے حق میں بات کرنا جرم قرار پائے۔جو یہ کہے کہ “جمہوریت ہی ملک کے بقاء کی ضامن ہے ” اُس پر مچانوںپر بٹھائے گئے تیرانداز تیروں کی بوچھاڑ کر دیں۔ جو ووٹ کی حرمت کا نام لے اُس پر کرائے کے تو پچی گولے برسانے لگیں۔اس وطنِ عزیز کے نام پر ، جسکے لیے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں قربان ہوئیں ، میں عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ اور پاک فوج کے سپہ سالار سے گزارش کرتا ہوں (دونوں پر اس لیے حق رکھتا ہوں کہ ایک میرے ہم جماعت ہیں اور دوسرے گرائیں یعنی ہم تحصیل ) کہ جمہوریّت ہی ہمارے لیے مقّدم ہے کہ بانیٔ پاکستان نے یہی نظام اس ملک کے لیے پسند کیا تھا اور یہی نظام ہی تمام اکائیوں کو متحد رکھ سکتا ہے۔ مگرٹی وی چینلوں پر جمہوریّت کو رُسوا رکرنے کی مہم کیوں شروع کردی گئی ہے! اس کا تخفّظ آپکی بھی ذمّہ داری ہے، عدالتِ عظمیٰ کی بھی اور پاک فوج کی بھی!۔ دونوں کا موجودہ طرزِ عمل تاریخ کا حصہ بنے گا۔ ہماری دعا بھی ہے اور امّید بھی کہ وہ اس امتحان میں سرخرو ہونگے۔ فوج کے جمہوریت پسند سربراہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا کسی حاضر سروس فوجی افسرکو سیاست بازی کی اجازت ہونی چاہیے؟ کیایہ ملک کے کے لیے نقصان دہ نہیں ہے؟اگر کوئی فوجی افسر کسی سیاستدان، صحافی یا اینکر کو سیاسی امور کے بارے میں ہدایات دیتا ہے تو یہ آئین اور قانون کے منافی ہے، فوج کوئی حکومت مخالف جماعت نہیں ہے۔ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے اور کسی شخص کو سیاسی مقاصد کے لیے فوج کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔جنرل باجوہ صاحب! فوج کی بالادستی کے خواہشمندوں کو سختی سے سمجھائیں کہ”مجھے ادارے کی عزت بے حد عزیز ہے مگر ملک کا مستقبل اس سے کہیں زیادہ عزیز ہے”۔ وطن عزیز عالمی سازشوں کی زد میں ہے، کل صدرِ مملکت سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے اس پربے حد تشویش کا اظہار کیا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تاریخ کے اس اہم مرحلے پر ملک کے تمام اداروں اور تمام اہم افراد کو اپنے مفاد اور انا سے بلند ہوکر فیصلہ کرنے کی توفیق اور جرأت عطا فرمائیں۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #8
    کراچی جسے عروس البلاد کہا جاتا تھا، جو واقعی روشنیوں کا شہر تھا، جہاں راتوں کو بھی دن کا سماں ہوتا تھا۔ امن ،محبت اور بھائی چارے کا گہوارہ ایک ماں کی سی شففقت بھری آغوش رکھنے والا شہر جو وطن عزیز کے چپے چپے سے رزق کی تلاش میں آئے بیٹوں کوخود میں سما لیتا تھا اور مایوس نہیں کرتا تھا۔ اورپھر اسے نظر لگ گئی،پھر نفرت اور بغض کی آندھی چلی، یہاں کے باسیوں کو جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈے سےایک دوسرے سے منتفر کرنے کی خون آشام مہم چلی،منی پاکستان میں بسنے والے کو مہاجر، پشتون، پنجابی اور سندھی جیسےٹکروں میں بانٹ دیا گیا۔ نفرت کے بیچ اتنی تیزی سے پھلے پھولے کہ دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت بن گئے۔بھائی بھائی کا دشمن ہی نہیں خون کا پیاسا بنا دیا گیا۔ ذاتی مفادات اور سیاست کے لئےنو گو ایریاز بن گئے۔ ایک کمیونیٹی کے علاقے میں دوسری کمیونٹی کا فرد جا نہیں سکتا تھا۔ علاقے علاقہ غیر بنا دئے گئے۔ نتیجے میں شہر خون خون بھی ہوا۔ بے گناہوں کی لاشیں بھی گریں۔ ہر فرد کے لئے دوسرا فرد مشکوک ہو گیا۔جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ امن کی فاختائیں جگہ جگہ مردہ پڑی ہوں تو  زیتون کی شاخیں کوئل کی پیار بھری کوک کی بجائے اس کی درد بھری  آہوں کی گرمی سے جھلس جایا کرتی ہیں۔ گلستانوں میں شکوفے بننا،اور پھول کھلنا بند ہو جاتے ہیں۔ چہار سو نغمے گاتے طیور چمن کی بربادی پر چار آنسو بہا کر کہیں اور جا بستے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ہر طرف خاک ہی اڑا کرتی ہے۔۔۔ اس پر شکوہ کیسا؟سچ ہے آج کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں۔۔ سبب اس کا یہی ہے کہ مہاجروں نے خود کو تنہا کر لیاہے،اس شہر کو اپنا کہہ کہہ کر باور کرا دیا ہے کہ وہ پاکستانیوں یا سندھیوں سے کوئی الگ مخلوق ہیں۔ حالانکہ ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ “موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں”انہیں سندھ کی اکثریتی آبادی کے دھارے میں رہ کر اپنے مسائل کے حل کے لئے اس مشترکہ قوت کو استعمال کرنا چاہیئے تھاآج بھی کراچی، سندھ اور پاکستان کی بھلائی اور بہتری مطلوب ہے تو،نفرتوں کو ختم کرنا اور محبتوں کو بڑھانا ہوگا۔ سیاست کے لئے طبقاتی نفرت ابھارنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ خاص طور پر مہاجروں کو نفرت کے خول سے باہر نکل کر سندھیوں کو اتنا ہی کراچی کا وارث سمجھنا ہوگا جتنا خود کو سمجھتے ہیں۔ نتیجے میں اسمبلیوں میں کثیر تعداد میں بیٹھے سندھی نمائیدے اور حکومت کراچی کو مہاجروں ہی کا نہیں اپنا بھی شہر سمجھیں گے۔ اگرچہ اندرون سندھ ترقیاتی معاملات بہت اچھے نہیں ہیں پھر بھی امید ہے کراچی کو ترجیحی بنیادوں پر ٹریٹ کیا جائے گا۔
    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #16
    سفید جھوٹ ۔۔۔۔ کوئی چور ی نہیں پکڑی گئی ۔۔۔۔۔ صرف بیٹے سے تنخوانہ لینا کا بہانہ بنا یا گا ۔۔۔۔۔۔۔ بے ایمانی اور بے انصافی کو فروغ دیا گیا ۔۔۔۔۔

    سچ بات تو یہ ہے کہ سال بھر میڈیا ٹرائل جس سے نواز لیگ کا عام ووٹر بھی کچھ کچھ شک کا شکار ہو نے لگا تھا۔اسے لگنے لگا تھا کہ شاید واقعی اربوں کھربوں لوٹ لئے گئے ہیں۔اتنا لوٹا گیا ہے کہ اگر ملک میں واپس آ جائے تو ملک کے تمام قرضے اتارے جا سکتے ہیں۔ملک کو کسی سے امداد یا قرضوں کی حاجت ہی نہیں رہے گی۔مگر فیصلے کے بعد ایک تصویر ابھر کر سامنے آئی کہ میڈیا پر مسلسلکردار کشی اور الزام تراشی ، نواز شریف اور اسکی جماعت کا سیاسی مستقبل تباہ کرنے کی نیت سے کی جا رہی تھی۔اور یہ کہ شاید واحد مقصد نواز شریف کو منظر سے ہٹانا ہی تھا۔اس فیصلے سے ذہنوں پھر چھائے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئےمنظر صاف ہو گیا۔اسلام آباد سے لاہور تک اس کے استقبال نے اس یقین پر مہر تصدیق لگا دی۔آج نواز شریف کا ووٹر ایک ماہ پہلے سے  زیادہ  نواز شریف کے حق میں مظبوط پیروں پہ کھڑا ہے۔آنے والے دنوں میں نیب مقدمات میں ان کی جتنی کھنچائی ہوتی ہے،یہاں تک کہ اگر جیل بھی جانا پڑتا ہے تو اس سےمیاں صاحب کو ذہنی اور جسمانی تکلیف تو ہو سکتی ہے مگرسیاسی فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس کا ووٹر اسے اس فیصلے کے تناظر ہی میں دیکھے گا۔اسے یہ سب سیاسی انتقام اور جبر ہی محسوس ہوگا۔الیکشن اس کی جماعت کے لئے اور آسان ہو جائے گا۔اس کا احساس عمران خان کو بھی ہے اسی لئے جھنجھلاہٹ میں اس نے ن لیگی حامیوں کو کھلے عام  “بے وقوف “کہہ دیا ہہے۔اٹھارہ کے جنرل الیکشن میں اگر نواز شریف کو ذاتی طور پر حصہ نہ بھی لینے دیا گیا تب بھی اس کی جماعت( اگر متحد رہی تو) ہی فاتح بن کر نکلے گی۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #3
    گڈی لٹ گروپ کی تو آس ہی گڈی کے کٹ جانے سے ہوتی ہے۔ہر چڑھنے والی گڈی کٹ جانی چااہیئے خواہ فائول پلے سے کوئی گاٹی ڈال کر ہی کیوں نہ کاٹ دے۔اان کے ہاتھ تبھی کچھ آ سکتا ہے،وزارت عظمی بھی خواہ وہ تین ماہ ہی کی کیوں نہ ہو اور لمبے عرصے کے لئے پنجاب کی وزارت اعلی بھی ۔ اس کے لئے آمر کو وردی میں بار بار منتخب کروانے جیسی خدمت سر انجام دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔  ۔اگر کھیل قوائد و ضوابط کی سخت پابندیوں کے تحت ہونے لگا تو؟؟؟؟ان بے چاروں کا کیا بنے گا۔ ؟
    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #10
    او بھائی میرے ۔۔۔۔ تین مرتبہ نواز شریف کو ۔۔۔۔ اقتدار میں ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ بغیر اقتدار کے پرکھا ہے ۔۔۔۔ تب جا کر ۔۔۔۔۔ اس کو سپورٹ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اندھے نہیں ھم ۔۔۔۔ یہ تم لوگ ہو ۔۔۔۔ جو پانچویں جما عمت کے بچے کی طرح ۔۔۔ اداکاروں ۔۔۔ اور ۔۔۔ با ولروں سے ۔۔۔ متاثر ۔۔۔۔ ہوکر ۔۔۔۔۔۔۔ فین کلب کھو ل کر بیٹھے ہو ۔۔۔۔ قوم اور ملت ۔۔۔۔۔ بہت سنجیدہ ۔۔۔ چیز ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔ لڑکیوں بچوں کا ۔۔۔ فین کلب نہیں ہوتیں ۔۔۔۔۔ قوموں نے یا ڈوبنا ہوتا ہے یا ابھرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ چھچھوروں ۔۔۔ لونڈوں ۔۔۔۔ لپاڑوں ۔۔۔۔ باولروں ۔۔۔۔ کا میچ نہیں ۔۔۔۔ ملک یا ۔۔۔ چین کر طرح ابھرتے ہیں ۔۔۔ یا ۔۔۔ عراق کی طرح ۔۔۔ برباد ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔ دونوں چیزیں انتہائی ۔۔۔۔ سنجید ہ ہوتی ہیں ۔۔۔۔ قوم اور ملک ۔۔۔ کو ۔۔۔۔ سنجیدہ زھن۔۔۔ بردبار ۔۔۔ ترقی پسند ۔۔۔۔ پریکٹیکل قائد کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ بہتان باز ی ۔۔ تماش بینی سے ۔۔۔ مجمعہ اکٹھے کرنے والے ۔۔۔ مداری تو ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔ ماوزے تنگ ۔۔۔۔۔ نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔۔۔۔

    گلٹی صاحب، عمران خان جیسے مہاں لیڈر کا مخالف لیڈر کے ہمدردوں کے بارے خیال یہ ہے کہ یہ سب بے وقوف ہیں۔اگر لیڈر کا یہ حال ہے تو پیروکاروں کا “اندھے” کہہ کر مخاطب کرتا تو بہت چھوٹی بات ہے۔آخر پیروکار لیڈر ہی کی پیروی تو کرتے ہیں۔

    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #5

    خواہشات اور خواب دیکھنے پر پابندی نہیں ہے https://pbs.twimg.com/media/DGvTPTNXoAA_2J4.jpg

    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #173
    سیاسی ورکروں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ اپنی جماعت اور قیادت کی وکالت کریں۔ہمارے ہاں  تو عام عوام بھی نفرت اور محبت میں انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ اپنا انتخاب فرشتہ اور ہر خطا سے پاک تصور کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف کوئی ثبوت چاہے روز روشن کی طرح عیاں ہو، سازش اور مخالفین کا پراپیگنڈہ مان کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ایسا ایک پارٹی کے لئے مخصوص نہیں ،ہر طرف ایسا ہی ہے۔عمران خان ہو،زرداری، نواز شریف ہو یہاں تک کے الطاف حسین کے پیروکار بھی قیادت کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے۔ایسا اگر انفرادی طور پر ہوتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا، بد قسمتی