Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 49 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    اسی کی دھائی میں ایم کیو ایم پاکستان کے افق پر ایک ایسا انقلابی فنومنا بن کر سامنے آی کہ بڑے بڑے سیاست دان ،تجزیہ نگار، دانشور حضرات ششد رہ گئے اس فنومنا نے کراچی حیدر آباد اور دیگر شہری علاقوں کو اس قدر تیزی سے اپنی گرفت میں لیا کہ تمام ملک کی قوتوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا.

    Altaf Hussain

    ایم کیو ایم کے قیام کے مطلق مختلف آرا پھلائی جاتی رہیں ہیں مگر اس کی بنیادی وجہ سندھ کے شہری علاقوں میں پایا جانے والا شدیدمعاشی، تعلیمی سیاسی، اور معاشرتی احساس محرومی تھا جو خصوص لسانی تعصب اور معاشی اور تعلیمی نہ انصافی پر مبنی کوٹہ سسٹم کے بعد نہایت گہرا ہوگیا تھا میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ کسی دانشور، ادارے یا سیاست دان کو یہ احساس محرومی ایم کیو ایم کے قیام سے قبل نظر آیا بھی تھا یا نہیں اور اگر نظر آیا بھی تھا تو اسکے ازالے کے لئے کسی نے اس کو ایڈریس بھی کیا تھا یا نہیں؟

    یہ احساس محرومی آبادی کے اس طبقہ میں پیدا ہوا تھا کہ جس کی پہچان پاکستان کے علاوہ کچھ بھی نہ تھی دیگر لسانی اکائیوں کے برخلاف جو کہ سر زمین پاک پر صدیوں سے آباد تھی آبادی کے اس طبقہ کا وجود محض اور محض پاکستان کا مرہون منت تھا اس آبادی کے تقریباً ہر گھر کی پاکستان کے قیام کے حوالے سے اپنی ایک قربانی کی کہانی تھی. نظریہ پاکستان کا سب سے سب سے بڑا مظاہرہ وجود پاکستان کے بعد کچھ تھا تو ان لوگوں کی اس سرزمین پر موجودگی تھی جنوہن نے صدیوں سے قائم اپنے بزرگوں کی سر زمین سے ایک نظریہ کی خاطر ناطہ توڑ لیا تھا

    ظالمانہ اور نہ انصافی پر مبنی کوٹہ سسٹم نے ایک ماحول کو جنم دیا اور اس احساس محرومی کو آواز ایک انقلابی طرز کے سحر انگیز نوجوان رہنما جناب الطاف حسین نے دی اور اس کے خلاف نہ صرف احتجاج کیا بلک عوام کا شعور بھی بیدار کیا شہری علاقوں کے عوام کو جیسے ایک نئی روح مییسر آگئی اور انوہں نے ١٩٨٧ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کو جتوا کر اپنے اعتماد کا اظہار کیا

    ذولفقار علی بھٹو نے کوٹا نافظ کر کے سندھ کے دیہی عوام میں اپنی حمایت مضبوط کرلی تھی اور مختلف وجوہات کی بنا پر سندھ کی دیہی عوام کے لئے مضبوط شہری قیادت کا وجود قابل قبول نہیں تھا اور دیہی سندھ کی عوام آج تک پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ کے سماجی معاشی اور سیاسی حقوق کا نگہبان تصور کرتی ہے اور محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنی اس حمایت کا احساس تھا لهذہ ١٩٨٨ کے انتخابات میں وزیر اعظم بن نے کے لئے حمایت کی خاطر تو محترمہ نے بادل نہ خواستہ عزیزآبد کا طواف کیا

    مگر وزیر اعظم بن نے کے بعد وہ ایم کیو ایم کو جائز ہ رعایت یا حق دلانے کے لئے تییار نہیں تھیں کیوں کہ اس سے ان کے سیاسی سپورٹ پر براہ راست اثر پڑنے کا اندیشہ تھا اسی کش مکش میں ١٨ مہینہ اقتدار میں رہ کر ایم کیو ایم نے حکومت سے علحیدگی اختیار کرلی اسکا انتقام محترمہ نے حیدرابداد کے عوام پر جرائم پیشہ افراد اور پولیس سے آپریشن کرواکر لیا

    پکا قلہ حیدر آباد پر عوام کا پانی اور بجلی بند کر کے غریب بستیوں پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ایسے ماحول میں نواز شریف نے الطاف حسسیں کا ہاتھ تھا ما اورسندھ شہری عوام کو پنجاب کے عوام کی بھرپور حمایت کا یقین دلایا اور الطاف حسین کو پنجاب کے عوام سے خطب کرنے کے کئی مواقے فراہم کئے جس سے پنجاب میں ایم کیو ایم کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوا

    اسی دوران پاکستان کی اصل حکمران قوت یانی اسٹبلشمنٹ کی توجہ بھی ایم کیو ایم اور الطاف حسسیں نے حاصل کرلی تھی اور اسٹیبلشمنٹ نے دیگر قوتوں کی طرح ایم کیو ایم کو بھی اپنے زیر اثر لانے کے لئے جال ڈالنا شروع کئے مگر الطاف حسین نے سرکشی کی انتہا کرتے ہویے جنرل حمید گل کا بھجوایا ہوا نوٹوں کا برف کیس واپس کرکے اسٹبلشمنٹ کے قہر کو دعوت دی ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اس بات کا علم نوے کی دھائی سے تھا مگر پاکستان کے عوام پر یہ انکشاف مشہور زمانہ میجر امتیاز نے اپنے ایک انٹرویو میں کئی سالوں کے بعد کیا تھا

    ایم کیو ایم کا وجود پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور دیگر سیاسی قوتوں کے لئے مختلف وجوہات کی بنا پر نا قابل برداشت تھا اسٹبلشمنٹ کسی ایسی سیاسی قوت کا وجود جو اسکے قابو میں نہ ہو اور پاکستان کے معاشی حب کو کنٹرول کرے برداشت کرنے کے لئے تییار نہیں

    تھی جب کے سیاسی قوتوں کے لئے ایم کیو ایم کا وجود درج زیل وجوہات کی وجہ سے نا قابل برداشت تھا ١) الطاف حسین کی کرشماتی شخصیت ٢) غریب اور درمیانہ طبقہ کی پڑھی لکھی قیادت ٣) تنظیم کا قابل رشک ڈھانچہ اور نظم و ضبط ٤)عوام کے ساتھ بےمثال رابطہ ٥) عوامی مسائل پر بے لچک رویہ ٦)بے لوس اور قربانی کے لئے تییار کارکنان٧) ایم کیو ایم کا درمیانہ اور پڑھے لکھے طبقہ کی قیادت کا نہایت پر کشش نظریہ

    لےہذا یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکا اور اسٹبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کا وجود مٹانے کا فیصلہ کرلیا

    (جاری ہے )

    • This topic was modified 54 years, 5 months ago by .
    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو کبھی اوپر آنے نہیں دے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کی واحد نمائیندہ جماعت ہے اور اس صورت میں یہ ایک بڑی سیاسی طاقت ہونے کے ناطے اسٹیبلشمنٹ کو لگام ڈال سکتی ہے۔ اس پارٹی کی جمہوری ساخت اسے ہر دیگر سیاسی جماعت سے جدا کرتی ہے اسلئے اس کا اردو بولنے والوں کے علاوہ دیگر اقوام میں مقبول ہوجانا بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ تیسرا اور اہم فیکٹر یہ ہے کہ اس پارٹی میں ملک کے ذہین ترین افراد موجود ہیں جن کا سیاسی، سماجی اور علمی شعور ہر حال میں کسی ایف اے پاس حوالدار سے کئی سو گنا اوپر ہے اسلئے پالیسیاں بنانے والے کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ اختیار ان سے چھن کر کسی دماغ والے انسان کے پاس جائے۔ہم الطاف حسین سے اختلاف کرسکے ہیں لیکن چونکہ وہ کراچی اور حیدرآباد کی عوام کا نمائیندہ ہے اسلئے اسکا احترام واجب ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر کراچی حیدرآباد کے عوام مائینس الطاف پر راضی ہوں تو الطاف حسین کی مخالفت میں ہرج نہیں لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہزارہا سازشوں کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ الطاف حسین کا نام لوگوں کے دل سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی تو پھر اسکا مطلب ہے کہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے کیونکہ کراچی اور حیدرآباد کی عوام سیاسی لحاظ سے بہت باشعور ہے اور وہ کسی صورت کسی جلاد یا کرپٹ شخص کو خود پر مسلط نہیں ہونے دے گی۔ اسکا مطلب الطاف حسین اس تصویر سے یکسر مختلف ہے جو اسٹیبلشمنٹ ہمیں دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔
    Shirazi
    Participant
    Offline
    • Professional
    #3
    Altaf Hussain made some speeches that dent him. No one knows how big that dent was. He still has time to settle things after Raheel Sharif left and before the next elections. Who knows MQM may have their first CM Sindh ever next year.
    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4
    جی پی صاحب …اچھا آرٹیکل ہے ….اسٹیبلشمنٹ اپنا مکروہ کھیل نہ کھیلے تو کئی سیاستدان شاید عوام میں اپنی ہمدردی کھو بیٹھیں ….نواز شریف کو پہلی دو باریوں میں مدت مکمل کرنے دی جاتی تو عوام کو قابلیت کا اندازہ ہوجاتا اور ہمدردی کے ووٹ بھی نہ ملتے …..الطاف حسین کے ساتھ بھی یہی معاملا ہے …اس کی شخصیت اور قابلیت پر سوال نہیں مگر ہر عروج کو زوال ہے… اس لیے الطاف نے بھی ایک دن جانا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کے ڈرامے اس کی مقبولیت کو برقرار رکھنے میں ایک کردار ادا کرتے ہیںمیرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کراچی اور حیدر آباد کے عوام کو الطاف سے بہتر پیکیج نہیں مل سکتا …جمہوریت کھیل ہے کم تر برائی کو چننے کا …اگر الطاف حسین کو عوام کے دلوں سے مٹانا ہے تو اس سے بہتر متبادل لانا ہوگا …جو فلحال دور دور تک نظر نہیں آتا
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #5

    گزشتہ سے پیوستہ -دوسری قسط

    ایک طرف الطاف حسین کو احساس ہوگیا تھا کہ عوام کو ایم کیو ایم سے بہت زیادہ توقعات ہوگئیں ہیں اور یہ بھی سمجھ آرہا تھا کہ محض کراچی حیدرآباد وغیرہ سے گنتی کی نشستیں جیت کر حکومت بناکر کر اختیار حاصل کے بنا عوام کی توقعات پر پورا اترنا نا ممکن ہے الطاف حسین کو یہ بھی احساس ہورہا تھا کہ پاکستان کے عوام مجموی طور پر مراعات یافتہ طبقات کے ہاتوں یر غمال ہیں اسی خیال کے پیش نظر اور ملک کے دیگر علاقوں سے حوصلہ افزا ردعمل کے نتیجہ میں موہاجر قومی محاذ کو پورے ملک میں متحدہ قومی محاذ میں تبدیل کرکے پھیلانے کا منصوبہ بنایا کارکناں کی فکری نشستوں میں انکو ذہنی طور پر تیار کرنا شروع کردیا گیا ابتدائی طور پر ملتان میں ایک کامیاب کارنر میٹنگ کی گئی اور فیصلہ ہوا کہ ١٤ اگست ١٩٩٢ کو متحدہ قومی محاذ کا اعلان کردیا جائے گا

    دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے نا خداؤں کا منصوبہ کچھ اور ہی بن رہا تھا اسٹبلشمنٹ نے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر نکالے جانے والے عناصر جن میں عامر خان اور آفاق احمد نمایاں تھے کو اکھٹا کرکے انکو ایم کیو ایم کے مقابل ایک دھڑا جو ” این ٹی” کے نام سے معروف تھا کو تییار کرنا شروع کردیا گیا ١٩٩١ کے اواخر میں آفاق احمد کے ذرے ضیاء ادیں ہسپتال میں زیر علاج الطاف حسین پر حملہ کروایا گیا تو ساتھیوں کے پر زور اسرار پر الطاف حسسیں براستہ سعودی عرب برطانیہ جا پہنچے اور پھر ١٩ جون ١٩٩٢ میں سندھ کے پتھارے داروں کے نام پر ہونے والے آپریشن کو ایم کیو ایم کی طرف موڑ دیا گیا

      پھر انسانی آنکھ نے ظلم کے وہ منظر دیکھے جو سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ اپنی ہی محافظ فوج اپنے ہی محب وطن شہریوں کے خلاف کسطرح کرسکتی ہے ایم کے ایم کے باغی ارکان فوجی ٹرکوں میں بیٹھ کر اے اور ایم کیو ایم کے دفاتر پر سکاری سپرستی میں قبضہ کرنا شروع کیا اور انسانی خون کی ہولی کھیلنا شروع کی گئی مسلہ یہ تھا کہ ایم کیو ایم کو کرش کرنے کے سٹرٹیجک منصوبہ کو ملک کے دیگر عوام میں مقبولیت دلانے کے لئے ملک دشمنی، جناح پور کے الزامات لگاے گئے ہر گلی محلے سے ٹارچر سیلون کی من گھڑت خبریں اور فوٹجیس سرکاری میڈیا سے نشر کی گیں

    پنجاب کے دانشوروں، کولم نویسوں، تجزیہ نگاروں کو خصّوسیجہاز میں کراچی لا کر ان کے ذرے عوام میں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف دن رات منفی پروپگنڈا مہم چلائی گئی ان تمام اقدامات کے اسٹبلشمنٹ کے لیے نہایت حوصلہ افضا نتائج نکلے ایک طرف تو انکے ظالمانہ اقدامات کو ملک کے دیگر حصوں کے عوام کی حمایت حاصل ہوگئی اور ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے لئے ایک خاص قسم کی نفرت نے جنم لیا نتیجہ اسکا یہ ہوا کہ ہوم ٹرف پر بھی ایم کیو ایم کا ڈھانچہ بکھر گیا مرکزی قائدین یا تو ماردے گئے یا روپوش ہوگے کارکنان کی بڑی تعداد کو گرفتار کرکے ماوراے عدالت قتل کردیا گیا اور ایم کے ایم کے ملک میں پھیلنے کے امکانات تو چھوڑیں بقا کے ہی لالے پر گیے

    تمام مظالم اور پروپگنڈہ کے باوجود الطاف حسین کا اپریشن کے دوران اپنے کارکنان کے لئے میسج

    https://www.youtube.com/watch?v=bXm5PTHnWoY

       

    جاری ہے

    • This reply was modified 54 years, 5 months ago by .
    EasyGo
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #6
    Will wait for completion and then ask few questions in my mind.
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #7

    (گزشتہ سے پیوستہ (تیسری قسط ) 

    جس وقت پاکستان ملٹری اپنے ہی سب سے بڑے شہری علاقوں کو بغیر کسی مزاحمت کے فتح کے مشن پر گامزن تھی اور اپنے طفیلی صحافیوں کی بدولت پورے ملک سے واہ واہ سمیٹ رہی تھی نواز حکومت اپنی دیگر وجوہات کی بنا پر برخواست کردی گئی اور عوام کو اپنی راے کے اظہار کا موقع ملگیا ١٩٩٣ کے انتخابات کی بدولت. اور عوام نے بھی کیا خوب راے کا اظہار کیا قومی اسسمبلی کے انتخابات کا بویکاٹ کرکے اور صوبائی اسسمبلی کے انتخابات میں ایم کیو ایم پر بھرپور اعتماد کرکے.

    ڈیڑھ سال کے آپریشن اور ظلم و ستم کے بعد ملٹری کی قیادت کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے منصوبہ الٹ ہوگے ہیں اور جو سرجری جلاد نما پہلوانوں نے کرنے کی کوشش کی ہے کم سے کم جسم نے اسکو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ہاں مگر ملک کے دیگر حصوں کے عوام خصوصا پنجاب کے عوام میں ملک دشمنی اور قتل غارت گر کا امیج ایم کیو ایم کا بن چکا تھا تو یہ ایک بڑی کامیابی تھی اس سے ایم کیو ایم کے ملک کے دیگر حصوںمیں سرائیت کے امکانات تقریبا معدوم ہوگے تھے ١٩٩٣ کے انتخابات کے نتیجہ میں محترمہ بینظر نے وزیر اعظم بن کر مری ہویی ایم کیو ایم کو اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر کسی قسم کی گنجایش دینے کے حق میں نہیں تھیں اور چا ھتی تھیں کہ فوج اپنا آپریشن جاری رکھے اور متحدہ کا مکمل صفایا کرے مگر فوج کو جو بدنامی ملنا شروع ہوگئی تھی اسکے پیش اس نے تو انکار کردیا اور سول اداروں سے آپریشن کرنے پر زور دیا محترمہ نے بھی موقع غنیمت جانا اور پولیس کے ذرے نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں ایک نیا اپریش ایم کیو ایم کلین اپ شروع ہوا

     

    پولیس جیسا کرپٹ اور نا اہل ادارہ جو ہر کام نہایت بےڈھنگے طریقہ سے کرنے کی خدا داد صلاحیتوں کے علاوہ با قاعدہ تربیت یافتہ بھی ہوتا ہے نے اپنے گل کھلانا شروع کردیا ١٥ سال سے ٣٠ سال تک کے نوجوان انکا خصوصی شکار تھے ماوراے عدالت قتل کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا کسی بھی نوجوان کو اٹھاکر اور دہشت گر قرار دیکر جان بخشی کے عیوض بوڑھے والدین کی جمع پونجی لوٹنے کے لاتعداد واقعات پیش آے پولیس نے اس آپریشن میں نفسیات کا ایک نیا کھیل کھیلنا شروع کیا اور وہ ماوراۓ عدالت قتل ہونے والے کسی بھی شخص کے نام کے ساتھ نفرت انگیز عرفیت جوڑ دیتے جو اس بات کی ضمانت ہوتا کے مرنے والا حقیقی طور پر دہشت گرد ہی تھا مثلا دادا ،لمبا، چریا وغیرہ.

    اس دوران ١٩٩٦ میں محترمہ کے اپنے صدر جناب فاروق احمد لغاری نے محترمہ کی حکومت برخواست کردی اور دیگر سنگین الزامات کے علاوہ سندھ کے شہری علاقوں میں ماوراے عدالت قتل کو بھی بنیادی وجہ بتایا گیا اس طرح ایک مرتبہ پھر عوام کو اپنی رہے کے اظہار کا موقع میسر آیا اور جو انوہں نے ملٹری اور پولیس کے آپریشن اور پروپیگنڈا مہم کے باوجود ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرکے کیا.

    شریفوں نے ١٩٩٢ میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت سے لندن میں رابطہ کرکے آپریشن کی ذمہ داریوں سے خود کو مبرا کرکے سارا الزام ملٹری جرنیلوں پر رکھ دیا اور خود کو مظلوم ثابت کرتے ہویے اس بات کا یقین دلایا کہ اقتدار میں آکر ایم کیو ایم کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا

    پانچ سالہ آپریشن کے پس منظر میں جیسے ہی ایم کیو ایم کو سانس لینے کا موقع ملا تو لندن کی قیادت اپنے ادھورے اجینڈا یعنی پورے ملک کے عوام تک اپنا غریب اور متوسط طبقہ کی قیادت کا سنہرا خواب پہونچانے کے لئے اپنا نام ١٩٩٧ میں متحدہ قومی محاذ میں تبدیل کرلیا. واضح رہے کہ آپریشن کے نتیجہ میں ایم کیو ایم کی بانی قیادت یا تو ختم کردی گئی تھی یا روپوش ہوگئی تھی زندہ بچ جانے والے کارکنان کی بڑی تعداد کو جہاں موقع ملا فرار ہوگئے کئی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کی رہ جانے والے کارکنان نے یا تو روپوشی اختیار کی یا خاموشی کی زندگی اختیار کرلی

    چناچہ اس پس منظر میں ١٩٩٧ کے انتخابات کے نتیجہ میں نواز شریف ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بنے اور ایم کیو ایم کے ساتھ ملکر سندھ میں حکومت بنائی اس صورت حال سے یقینا وہ ادارے اور اجنسیاں جنوہن نے پچھلے پانچ سال ایم کیو ایم کو شکار کرتے گزارے تھے خوش نہیں تھے اس دوران مرے بچپن کے ہیرو اور مشہور سماجی کارکن جناب حکیم سعید کا بہیمانہ قتل ہوگیا

    (جاری ہے )

    • This reply was modified 54 years, 5 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #8

    گزشتہ سے پیوستہ (چوتھی قسط )

    حکیم سعید جیسی ہر دل عزیز شخصیت کے قتل نے پورے ملک میں غم اور غصے کی لہر دوڑادی. اس قتل کا الزام بھی سرکاری اداروں نے حسب سابق ایم کیو ایم پر لگادیا بغیر کسی معتبر وجہ کہ، بعد میں ہونے والی تحقیقات میں ایم کیو ایم پر یہ الزام بھی جھوٹا ثابت ہوا مگر اس وقت جناب نواز شریف نے سندھ میں گرنر راج لگا کر ایک مرتبہ پھر ٹوٹی پھوٹی ایم کیو ایم کے خلاف پولیس آپریشن شروع کردیا ١٩٩٩ میں نواز حکومت کو مشرف نے برطرف کردیا اور ٢٠٠٠ میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا .باوجود نواز حکومت میں ظلم کا نشانہ بن نے کے، متحدہ نے اصولی بنیادوں پر مشرف کی مخالفت کی اور آمر کے زیر انتظام انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہے بائیکات کردیا یہ وہ وقت تھا جب مفاد پرست عناصر مشرف کی گود میں یا تو بیٹھ گئے تھے یا بیٹھنے کی کوشش کررہے تھے

    چودھری کی سپریم کورٹ نے مشرف کو ٣ سال عطا کردئیے ٢٠٠٢ میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر عوام نے ایم کیو ایم کو اپنے روایتی حلقوں سے جتواکر اس پر لگنے والے الزامات کو رد کردیا مشرف کو پاکستان کے اقتصادی ڈھانچے میں کراچی کی مرکزی حیثیت اور اس کے استحکام کی اہمیت کا اندازہ تھا اور اسنے شہری علاقوں کے مینڈیٹ سے ٹکرانے کے بجاے اس کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کیا یہ فیصلہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اسکو سیاسی اتحادیوں کی تلاش تھی پنجاب میں چوھدری بردران نے اور سندھ میں ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ نے یہ خلہ پر کیا مشرف نے ترقیاتی فنڈز دل کھول کر ناظمین کو دیے جن کو پہلے کراچی میں نعمت اللہ صاھب نے نہایت خوش اصلوبی سے استمعال کیا اور شہر میں بے مثال ترقیاتی کام کرواے اور ان کے بعد مصطفیٰ کمال نے ان کاموں کو نا صرف جاری رکھا بلکے ان کو ایک نے مقام پر لے گئے مصطفیٰ کمال کے ساتھ ایم کیو ایم کی تنظیم اور صوبائی حکومت بھی موجود تھی اور مشرف کی بھی آشیر باد حاصل تھی لہذا اس دور میں کراچی اور حیدر آباد میں ہونے والی ترقیاتی کام پوری پاکستان کو نظر اے ٢٠٠٢ سے ٢٠٠٧ کے درمیان کراچی میں بے مثال امن اور استحکام لوٹ آیا کراچی ایک مرتبہ پھر راتوں کو جاگنے لگا شہر میں روایتی ادب و ثقافت کا رنگ جھلکنے لگا ایم کیو کی نرم شبیہ ایک مرتبہ پھر ملک کے گوشے گوشے میں پھلنے لگی

    اسی اثنا میں سانحہ ١٢ مئی پیش آگیا اس کی وجوہات اور تفصیلات میں جائے بغیر یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اس دن ایم کیو ایم سے بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگئی تقریبا ٥٠ قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں اور میڈیا کے تعاون سے سیاسی مخالفین نے اس کا الزام ایم کیو ایم پر لگا دیا اور ایم کیو ایم کو حاصل ہونے والی نیک نامی اور ترقیاتی کاموں اور ٢٠٠٥ کے زلزلہ میں رفاہی کاموں کے ضری حاصل ہویی تھی ایک مرتبہ پھر داغ دار ہوگئی

    ٢٠٠٨ کے انتخابات میں عوام نے ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا محترمہ کی المناک ہلاکت کے بعد ہمدردیاں پیوپلس پارٹی کے ساتھ تھیں جناب آصف زرداری نے پارٹی کی بھاگ دوڑ سمبھال لی تھی زرداری کو بھی ماضی کے تجربات سے ایسا لگا کے یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ ملک میں کامیاب حکمرانی کے لئے کراچی پر کنٹرول ہونا ضروری ہے پہلے مرحلے میں اسنے متحدہ کے ساتھ ماضی کی تلخیاں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہے

    مرکزی اور صوبائی دونو حکومتوں میں متحدہ کو شریک کیا. میری نظر میں زرداری کا ذہن ایک سٹریٹ کریمنل سے زیادہ سوچ سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ایک طرف اسنے متحدہ کو اپنے ساتھ ملا کر بظاہر شہری مینڈیٹ کو اپنے ساتھ ملا لیا دوسری طرف در پردہ اس مینڈیٹ پر نقب لگانے لئے اسنے پہلے تو زلفقار مرزا جیسے شخص کو سندھ کا وزیر داخلہ لگایا اور اسکو متحدہ کو “لگام ” کس نے کا ٹاسک دیا ساتھ میں اے این پی کو کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابل برابر کی قوت بنا کر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی مقصد انٹی ایم کیو ایم قوتوں کو شہر میں مضبوط کرکے متحدہ کی پوزیشن اور اسکی حیثیت کمزور کرنا تھا اس سلسلے میں سب سے پہلے تو اسنے بلدیاتی انتخابات کروانے سے انکار کردیا کیوں کہ اسکو پتا تھا متحدہ کی اصل طاقت عوام کے ساتھ رابطہ اور ترقیاتی کام تھے اور ناظمین کا نظام متحدہ کو طاقت فراہم کرنے کے مترادف تھا

    زلفقار مرزا نے لیاری کے گنگس کو امن کمیٹی کے نام پر اکھٹا کرنا شروع کیا این پی نے اپنی ٢ یا ٣ نشستوں کے ساتھ شہر پر برابری کا دعویٰ کرنا شروع کردیا ساتھ ہی ساتھ دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں طالبان اور دیگر ایسی قوتوں نے کراچی میں کنٹرول اور لوٹ مار کا بازار گرم کرنا شروع کردیا ٢٠٠٨ سے ٢٠١٣ کے درمیان شہر میں امن و امان کی صورت حال نہایت مخدوش رہی ہزاروں شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے کاروبار ٹھپ ہوگیا سیاسی جماتیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہیں مگر شہر میں امن و امان کے لئے کویی سنجیدہ کوشش نہیں ہویی اور ہوتی بھی کیسے جب حکومت کی اپنی جماعت اور صدر دہشت گردوں کی براہ راست سرپرستی کررہا ہو لوٹ مار اور بھتہ خوری میں ملوث ہو متحدہ نے اس دوران بے سروپا سیاست کی اقتدار کی تن آسانیاں متحدہ کے “نظریاتی” کارکنوں کو لگنا شروع ہوگئیں ان کے شہر میں خون کی ندیاں بہتی رہیں لوگ جان و مال سے ہاتھ دھوتے رہے کاروباری حالت مخدوش ہوتی رہی بلدیاتی انتخابات لے نے میں ناکام رہی مگر اقتدار کی گلیوں میں بھی چکر لگاتی رہی اور اپنے ووٹرز کو نہایت مایوس کیا ٢٠١٣ کے انتخابات میں حالانکہ متحدہ نے اپنی بیشتر نشستیں حاصل کرلیں تھیں مگر ایک نیا سیاسی کھلاڑی میدان میں کود چکا تھا کراچی کی مڈل اور اپپر مڈل کلاس نوجوان نسل نے اس روز روز کے ہنگاموں سے اپنی نفرت کا اظہار کیا اور پی ٹی آی کو آٹھ لاکھ ووٹ شہر سے پڑ گئے متحدہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے ووٹ بینک میں غیر مقبول ہونے لگی تھی دوسری جانب مرکز میں نواز شریف کی حکومت ترقی کے اجینڈا کے ساتھ وارد ہویی.

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    گھوسٹ پروٹوکول بھائی جیمیں بھی ایزی گو بھائی کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ آپ پہلے اپنا کیس مکمل کر لیں، پھر اس پر تفصیلی بحث کا آغاز کرتے ہیںاگرچہ میں کراچی اور سندھ کے بارے میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ کراچی اور سندھ کے اردو اور سندھی بولنے والے دوستوں سے اندر کی کہانیاں جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہوں لیکن پھر بھی کراچی اور سندھ کی سیاست کے بہت سے معاملات میری اور میری طرح بہت سے دوسرے دوستوں کی نظروں سے اوجھل ہیں جو آپکی تحریر سے سامنے آ سکتے ہیں
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #10

    گزشتہ سے پیوستہ -آخری قسط اپنی گزارشات کو اس قسط میں سمیٹنے کی کوشش کرونگا، اگر کسی صاحب کو میری گزارشات سے اختلاف یا مزید تجسس ہوا تو جواب دینے کی کوشش کروں گا ٢٠١٣ کے انتخابات میں متحدہ کو اپنے ووٹ بینک کی پچلے پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر ناراضگی یا نا خوشی کا ادراک ہوگیا تھا. دوسری جانب دہشت گردی کی جنگ میں سے نکلتے ہویے امریکی امداد کی فراہمی اسٹبلشمنٹ کو مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی تھی

     

    کم ہوتی بیرونی امداد کے نتیجہ میں فوجی اسٹبلشمنٹ کو ملکی ذرا ع آمدنی کی اہمیت زیادہ محسوس ہونے لگی تھی لہٰذا جب بھی فوجی افسران نے کراچی کی تجارتی برادری سے رابطہ کیا تو امن و امان کی مخدوش صورت حال اور توانائی کی عدم فراہمی کے سبب تجارتی اور کاروباری سر گرمیوں میں کمی کا رونا سب نے رویا. یہی اسسسمنٹ نواز شریف کی بھی تھی اور اسکو اندازہ تھا کہ کراچی کی امن و امان کی بہتری کے بغیر اقتصادی ترقی کے سپنے محظ سپنے ہی رہیں گے. سندھ اور کراچی میں سیاسی اسٹیک نہ ہونے کے سبب نواز شریف کے پاس ہار نے کے لئے کچ بھی نہیں تھا لہٰذا ملک کی سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کو اپنے اپنے وجوہات کی وجہ سے کراچی آپریشن سے بہتر کویی دوسرا راستہ نظر نہیں آیا

    پچلھے چند سالوں میں کراچی میں طالبان سمیت مختلف شدت پسند تنظیموں نے بھی ڈیرے ڈال لئے تھے جس کا انکار تقریبا تمام ادارے اور قیادت نہایت ڈھٹائی سے کرتے رہے یہاں تک کے پانی سر سے اوپر نہیں پہنچ گیا

    اسی طرح لیاری گنگ وار سرکاری سرپرستی میں نہ صرف شہر کے لئے بلکہ آپس میں بھی درد سر بن چکا تھا عسکری قیادت نے ایسے گروپوں کے ساتھ ساتھ ماضی کی مرغوب ترین، سب سے آسان اور دلپسند شکار شہری سندھ کی سیاسی قیادت یعنی متحدہ پر ہاتھ صاف کرنے کا منصوبہ بھی ساتھ ہی بنالیا اور اس سلسلہ میں ماضی کی طرح قیادت سے ناراض اراکین کو اکھٹا کرنا شروع کردیا. سکرپٹ رائیٹر نے اپنے پسندیدہ صحافیوں جن میں نجم سیٹھی بھی شامل تھے کے ذریے مستقبل کے نقشہ بھی عوام تک پہونچانا شروع کردئے ایک نیا اپریشن شہری علاقوں میں سپتمبر ٢٠١٣ میں شروع ہوا اور پہلی مرتبہ رنجرس نے متحدہ کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیموں پر بھی ہاتھ کسنا شروع کیا

    . اپریشن کے نتیجہ میں امن و امان کی مجموعی صورت حال میں بہتری آگئی لیاری گنگ کا خاتمہ ہوا طالبان اور شدت پسند تنظیموں کا اثر کم ہوا. ساتھ ہی ساتھ شہری سندھ کی نمایندہ جماعت پر بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے نقب زنی کی گئی بعد کے حالات کے بارے میں تو امید ہے بیشتر ممبران آگاہ ہونگے

    درج بالا حالات کے نتیجہ میں شہری سندھ کے عوام میں درج زیل تحفظات پاے جارہے ہیں

    ١) پچھلے ٤٤ سال سے نافظ کوٹہ سسٹم کی آڑ میں جس پر عمل درآمد بھی نہ ہونے کے برابر ہوا ہے شہری سندھ کی نمایندگی انتظامیہ میں تقریبا ختم ہوچکی ہے. دیہی سندھ میں روزگار کے اور کاروبار کے نہ مناسب بندو بست کی وجہ سے پپوپلز پارٹی اپنے ورکروں اور ہمدردوں کو شہری سندھ کے تقریبا ہر محکمہ میں کھپا چکی ہے. تقریبا تمام محکموں کے علی سے عدنہ اہل کاروں کا تعلق دیہی سندھ سے ہے

    ٢) کوٹہ کی وجہ سے دیہی سندھ اور ملک کے دیگر حصوں کے عوام کو شہری سندھ کے تعلیمی اداروں میں تو داخلہ مل جاتا ہے مگر شہری سندھ کے طلبہ کے پاس ایسے اپشن تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں جس کہ نتیجہ میں صاحب حیثیت افراد تو اپنے بچوں کو ہوش ربا فیسوں کی بدولت پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوالیتے ہیں مگر غریب اور درمیانہ طبقہ پر علی تعلیم کے موقے نہیات محدود ہو چکے ہیں

    ٣) دیہی سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں کے افراد جو شہری سندھ میں مستقل آباد ہیں وہ بھی شہری سندھ کی شناخت کی بے ووقاتی کی بدولت وقت پڑنے پر اپنے آبائی علاقوں کے ڈومیسائل کا استمعال کرتے ہویے تعلیمی اور سرکاری روزگار حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں

    ٤) شہری سندھ کے وسائل اور انتظامات پر غیر شہری سندھ کی قیادت کے مکمل کنٹرول کی وجہ سے بنیادی نوعیت عوام کے مسائل جن میں صحت و صفائی ، پانی کی عدم فراہمی اور ٹینکر مافیہ کا قبضہ، انفرا سٹرکچر کی تعمیر اور دیکھ بھال کی طرف مجرمانہ غفلت، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ پر مافیا کے قبضہ وغیرہ وہ مسائل ہیں جن سے ہر شیری کا واسطہ ہر روز پڑتا ہے مگر ھل کی کویی صورت نذر نہیں آتی.

    ٥) ملکی خزانے میں کے ٦٥% اور صوبائی خزانے میں ٩٥% حصہ داری کے باوجود شہرا علاقوں کے لئے ترقیاتی کاموں کے لئے بجٹ کی عدم فراہمی

    ٦) ان مسائل کے ھل کے لئے شہری سندھ کی پچھلے ٢٥ سالوں سے منتخب سیاسی قیادت کی مسلسل بے توقیری، سازشوں کی بدولت حصہ بخرہ کرنے کی مسلسل کوشش اور اسکو بے وقعت کرنے کی سازشیں

    ٧) قانون نافظ کرنے والے اداروں کی طرف سے اے دن کی انسانی حقوق کی پامالی اور شہریوں سے حقارت پر مبنی شرمناک سلوک

    ٨) ملکی میڈیا، دانشوروں، تجزیہ نگاروں جن میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہونے کی وجہ سے محظ ایک خاص نقطہ نظر کی تشریح اور نشرو اشاعت

    ٩) خواص کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں کے عوام کا شہری سندھ سے ہونے والی واضح زیادتیوں کے با وجود عدم اظہار یکجہتی

    ١٠) شہری سندھ کے سیاسی مینڈیٹ پر واضح طور پر نظر آنے والی نقب زنی پر اظہار اطمینان

    درج بالا صورت حال کی وجہ سے شہری عوام میں ایک خاص قسم کی بے چینی چند دھائیوں سے لاوا کی طرح پک رہی ہے اس لاوہ کو دانشمندی سے نہیں نپٹا گیا تو آبادی کے ایک بہت بڑے طبقہ میں بے چارگی، لاچاری، مظلومیت کے جذبات خطر ناک روپ بھی دھار سکتے ہیں

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #11
    گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔۔۔۔۔یہ ساری تحاریر آپ نے خود لکھی ہیں ہیں یا ایم کیو ایم کے میڈیا سَیل کی تخلیق ہیں۔۔۔۔۔

    اسی اثنا میں سانحہ ١٢ مئی پیش آگیا اس کی وجوہات اور تفصیلات میں جائے بغیر یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اس دن ایم کیو ایم سے بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگئی تقریبا ٥٠ قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں اور میڈیا کے تعاون سے سیاسی مخالفین نے اس کا الزام ایم کیو ایم پر لگا دیا اور ایم کیو ایم کو حاصل ہونے والی نیک نامی اور ترقیاتی کاموں اور ٢٠٠٥ کے زلزلہ میں رفاہی کاموں کے ضری حاصل ہویی تھی ایک مرتبہ پھر داغ دار ہوگئی

    میرا تو خیال ہے کہ تفصیلات میں جانا کافی ضروری ہے۔۔۔۔۔ آخر اُس دن ایم کیو ایم(لندن و پاکستان۔۔۔ جب دونوں یک جان تھے) سے ایسی کیا  خَطا ہوگئی تھی۔۔۔۔۔

    muntazir
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #12

    گزشتہ سے پیوستہ -آخری قسط اپنی گزارشات کو اس قسط میں سمیٹنے کی کوشش کرونگا، اگر کسی صاحب کو میری گزارشات سے اختلاف یا مزید تجسس ہوا تو جواب دینے کی کوشش کروں گا ٢٠١٣ کے انتخابات میں متحدہ کو اپنے ووٹ بینک کی پچلے پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر ناراضگی یا نا خوشی کا ادراک ہوگیا تھا. دوسری جانب دہشت گردی کی جنگ میں سے نکلتے ہویے امریکی امداد کی فراہمی اسٹبلشمنٹ کو مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی تھی

    کم ہوتی بیرونی امداد کے نتیجہ میں فوجی اسٹبلشمنٹ کو ملکی ذرا ع آمدنی کی اہمیت زیادہ محسوس ہونے لگی تھی لہٰذا جب بھی فوجی افسران نے کراچی کی تجارتی برادری سے رابطہ کیا تو امن و امان کی مخدوش صورت حال اور توانائی کی عدم فراہمی کے سبب تجارتی اور کاروباری سر گرمیوں میں کمی کا رونا سب نے رویا. یہی اسسسمنٹ نواز شریف کی بھی تھی اور اسکو اندازہ تھا کہ کراچی کی امن و امان کی بہتری کے بغیر اقتصادی ترقی کے سپنے محظ سپنے ہی رہیں گے. سندھ اور کراچی میں سیاسی اسٹیک نہ ہونے کے سبب نواز شریف کے پاس ہار نے کے لئے کچ بھی نہیں تھا لہٰذا ملک کی سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کو اپنے اپنے وجوہات کی وجہ سے کراچی آپریشن سے بہتر کویی دوسرا راستہ نظر نہیں آیا

    پچلھے چند سالوں میں کراچی میں طالبان سمیت مختلف شدت پسند تنظیموں نے بھی ڈیرے ڈال لئے تھے جس کا انکار تقریبا تمام ادارے اور قیادت نہایت ڈھٹائی سے کرتے رہے یہاں تک کے پانی سر سے اوپر نہیں پہنچ گیا

    اسی طرح لیاری گنگ وار سرکاری سرپرستی میں نہ صرف شہر کے لئے بلکہ آپس میں بھی درد سر بن چکا تھا عسکری قیادت نے ایسے گروپوں کے ساتھ ساتھ ماضی کی مرغوب ترین، سب سے آسان اور دلپسند شکار شہری سندھ کی سیاسی قیادت یعنی متحدہ پر ہاتھ صاف کرنے کا منصوبہ بھی ساتھ ہی بنالیا اور اس سلسلہ میں ماضی کی طرح قیادت سے ناراض اراکین کو اکھٹا کرنا شروع کردیا. سکرپٹ رائیٹر نے اپنے پسندیدہ صحافیوں جن میں نجم سیٹھی بھی شامل تھے کے ذریے مستقبل کے نقشہ بھی عوام تک پہونچانا شروع کردئے ایک نیا اپریشن شہری علاقوں میں سپتمبر ٢٠١٣ میں شروع ہوا اور پہلی مرتبہ رنجرس نے متحدہ کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیموں پر بھی ہاتھ کسنا شروع کیا

    . اپریشن کے نتیجہ میں امن و امان کی مجموعی صورت حال میں بہتری آگئی لیاری گنگ کا خاتمہ ہوا طالبان اور شدت پسند تنظیموں کا اثر کم ہوا. ساتھ ہی ساتھ شہری سندھ کی نمایندہ جماعت پر بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے نقب زنی کی گئی بعد کے حالات کے بارے میں تو امید ہے بیشتر ممبران آگاہ ہونگے

    درج بالا حالات کے نتیجہ میں شہری سندھ کے عوام میں درج زیل تحفظات پاے جارہے ہیں

    ١) پچھلے ٤٤ سال سے نافظ کوٹہ سسٹم کی آڑ میں جس پر عمل درآمد بھی نہ ہونے کے برابر ہوا ہے شہری سندھ کی نمایندگی انتظامیہ میں تقریبا ختم ہوچکی ہے. دیہی سندھ میں روزگار کے اور کاروبار کے نہ مناسب بندو بست کی وجہ سے پپوپلز پارٹی اپنے ورکروں اور ہمدردوں کو شہری سندھ کے تقریبا ہر محکمہ میں کھپا چکی ہے. تقریبا تمام محکموں کے علی سے عدنہ اہل کاروں کا تعلق دیہی سندھ سے ہے

    ٢) کوٹہ کی وجہ سے دیہی سندھ اور ملک کے دیگر حصوں کے عوام کو شہری سندھ کے تعلیمی اداروں میں تو داخلہ مل جاتا ہے مگر شہری سندھ کے طلبہ کے پاس ایسے اپشن تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں جس کہ نتیجہ میں صاحب حیثیت افراد تو اپنے بچوں کو ہوش ربا فیسوں کی بدولت پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوالیتے ہیں مگر غریب اور درمیانہ طبقہ پر علی تعلیم کے موقے نہیات محدود ہو چکے ہیں

    ٣) دیہی سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں کے افراد جو شہری سندھ میں مستقل آباد ہیں وہ بھی شہری سندھ کی شناخت کی بے ووقاتی کی بدولت وقت پڑنے پر اپنے آبائی علاقوں کے ڈومیسائل کا استمعال کرتے ہویے تعلیمی اور سرکاری روزگار حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں

    ٤) شہری سندھ کے وسائل اور انتظامات پر غیر شہری سندھ کی قیادت کے مکمل کنٹرول کی وجہ سے بنیادی نوعیت عوام کے مسائل جن میں صحت و صفائی ، پانی کی عدم فراہمی اور ٹینکر مافیہ کا قبضہ، انفرا سٹرکچر کی تعمیر اور دیکھ بھال کی طرف مجرمانہ غفلت، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ پر مافیا کے قبضہ وغیرہ وہ مسائل ہیں جن سے ہر شیری کا واسطہ ہر روز پڑتا ہے مگر ھل کی کویی صورت نذر نہیں آتی.

    ٥) ملکی خزانے میں کے ٦٥% اور صوبائی خزانے میں ٩٥% حصہ داری کے باوجود شہرا علاقوں کے لئے ترقیاتی کاموں کے لئے بجٹ کی عدم فراہمی

    ٦) ان مسائل کے ھل کے لئے شہری سندھ کی پچھلے ٢٥ سالوں سے منتخب سیاسی قیادت کی مسلسل بے توقیری، سازشوں کی بدولت حصہ بخرہ کرنے کی مسلسل کوشش اور اسکو بے وقعت کرنے کی سازشیں

    ٧) قانون نافظ کرنے والے اداروں کی طرف سے اے دن کی انسانی حقوق کی پامالی اور شہریوں سے حقارت پر مبنی شرمناک سلوک

    ٨) ملکی میڈیا، دانشوروں، تجزیہ نگاروں جن میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہونے کی وجہ سے محظ ایک خاص نقطہ نظر کی تشریح اور نشرو اشاعت

    ٩) خواص کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں کے عوام کا شہری سندھ سے ہونے والی واضح زیادتیوں کے با وجود عدم اظہار یکجہتی

    ١٠) شہری سندھ کے سیاسی مینڈیٹ پر واضح طور پر نظر آنے والی نقب زنی پر اظہار اطمینان

    درج بالا صورت حال کی وجہ سے شہری عوام میں ایک خاص قسم کی بے چینی چند دھائیوں سے لاوا کی طرح پک رہی ہے اس لاوہ کو دانشمندی سے نہیں نپٹا گیا تو آبادی کے ایک بہت بڑے طبقہ میں بے چارگی، لاچاری، مظلومیت کے جذبات خطر ناک روپ بھی دھار سکتے ہیں

    بھائی جی میں اسے پہلے آپ سے مہاجر قومی موومنٹ پر بات کروں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کے کیا آپ اس جماعت کے نظریہ اور ان کے کارناموں کو حق بجانب سمجھتے ہیں ؟

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #13
    گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔۔۔۔۔ یہ ساری تحاریر آپ نے خود لکھی ہیں ہیں یا ایم کیو ایم کے میڈیا سَیل کی تخلیق ہیں۔۔۔۔۔ میرا تو خیال ہے کہ تفصیلات میں جانا کافی ضروری ہے۔۔۔۔۔ آخر اُس دن ایم کیو ایم(لندن و پاکستان۔۔۔ جب دونوں یک جان تھے) سے ایسی کیا خَطا ہوگئی تھی۔۔۔۔۔

    بلیک شیپ صاحب،جی بلکل میری اپنی تحریر ہے ضرور جاییں تفصیلات میں اور جانا بھی ضروری ہے . یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وکلا تحریک اپنے چیف کی بحالی کی تحریک تھی اور آرمی چیف و صدر پرویز مشرف کے خلاف تھی متحدہ اس تنازع کا براہ راست فریق نہیں تھی یہ بہت اہم بات ہے اس کی اہمیت کم نہیں ہوسکتی . وکلا کی تحریک اور مارچ کے جواب میں آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف نے متحدہ کو جوابی ریلی نکالنے کے لئے مجبور کیا. باوجود واضح وارننگس کے اور دوستوں کے سمجھانے کہ متحدہ نے اپنی ریلی ملتوی نہیں کی اور تصادم کے ایک موقع کو ختم نہیں کیا اور یہی میری نظر میں متحدہ کی غلطی تھی

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #14
    بھائی جی میں اسے پہلے آپ سے مہاجر قومی موومنٹ پر بات کروں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کے کیا آپ اس جماعت کے نظریہ اور ان کے کارناموں کو حق بجانب سمجھتے ہیں ؟

    بھائی جی،آپ بلا تکلف اپنی بات کریں بات کی مقصدیت کو سامنے رکھیں اور ذاتیات سے دور رکھیں چاہے مہاجر ہو یا متحدہ اس کی عوامی حمایت تابت شدہ ہے میری ذات سے امید ہے آپ کو دلچسپی نہیں ہوگی

    muntazir
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #15

    بھائی جی، آپ بلا تکلف اپنی بات کریں بات کی مقصدیت کو سامنے رکھیں اور ذاتیات سے دور رکھیں چاہے مہاجر ہو یا متحدہ اس کی عوامی حمایت تابت شدہ ہے میری ذات سے امید ہے آپ کو دلچسپی نہیں ہوگی

    بھائی جی ذات سے بھی دلچسپی ہونی چاہیے ہے پر ذاتیات پر نہیں آنا چاہیے ہے پر خیر میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کے ایم قو ایم کے آنے سے کراچی کے اور بلخسوس اردو بولنے والوں کی زندگی پر کیا اثرات ہوے ؟ کیا اس سے پہلے کراچی ایک بہتر شہر نہیں تھا >؟ یا ان کے آنے کے بعد زیادہ پر امن ہوا ؟ابھی صرف یہی پوچھنا چاہتا ہوں کیوں کے میں بھی ادھر کا ہی باسی ہوں مجھے آج بھی اپنے بچپن کے گول مارکیٹ میں گزرے دن یاد ہیں

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #16
    گھوسٹ پروٹوکول صاحب ….اپنے موقف کے حق میں اتنی جامع اور دلائل سے بھرپور تحریر پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں …آپ کے دلائل سے یا راۓ سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس بات پر نہیں کہ آپ نے ان آرٹیکلز پر محنت نہیں کی ….میں بھی جلد اس پر اپنی رائے دینے کی کوشش کروں گا
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #17
    بھائی جی ذات سے بھی دلچسپی ہونی چاہیے ہے پر ذاتیات پر نہیں آنا چاہیے ہے پر خیر میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کے ایم قو ایم کے آنے سے کراچی کے اور بلخسوس اردو بولنے والوں کی زندگی پر کیا اثرات ہوے ؟ کیا اس سے پہلے کراچی ایک بہتر شہر نہیں تھا >؟ یا ان کے آنے کے بعد زیادہ پر امن ہوا ؟ابھی صرف یہی پوچھنا چاہتا ہوں کیوں کے میں بھی ادھر کا ہی باسی ہوں مجھے آج بھی اپنے بچپن کے گول مارکیٹ میں گزرے دن یاد ہیں

    بھائی منتظر، آپ نے دھاگہ کے عنوان اور گزارشات پر شاید توجہ نہیں دی اگر حالات بہتر ہویے ہوتے تو احساس محرومی کیوں ہوتا؟ اپنی گزارشات میں انہی عوامل کا جائزہ لے نے کی کوشش کی ہے. پپلز پارٹی کے قائدین نے سیاست کے کھیل میں اپنی جانیں قربان کی ہیں مگر اس سے پہلے بھٹو صاحب ملک کے علی ترین عہ�