- Advanced
- Find latest posts
- Find latest started threads
- Join Date: May 31st, 2017
Location: شمالی امریکہ
Forum Replies Created
-
AuthorPosts
-
3 May, 2018 at 1:38 am #10مذہبی معاملات کا تعلق دل سے ہے عقل سے نہیں، کم از کم میں اسلئے مذہبی احکامات کو مقدس سمجھتا ہوں کیونکہ یہی ایمان ہے۔ عقلی بنیادوں پر ہر معاملہ سملجھانے کی کوشش کی جائے تو مذہب مات کھاتا نظر آتا ہے۔ ایک مثال کے طور پر ایک جواری یا قاتل کا بیٹا اپنے باپ سے ہمیشہ انسیت رکھے گا حالانکہ عقلیت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ مجرم سے انسیت نہ رکھی جائے۔ اسی طرح مذہبی احکامات اور مذہبی شخصیات بغیر کسی وجہ کے میرے لئے محترم ہیں کیونکہ میں انہی سے نسبت رکھتا ہوں۔ عقل سے سوچا جائے تو سجدے کے دوران دوران خون سر کی جانب ہوجانے سے موت بھی ہوجانے کا خطرہ درپیش ہے لیکن اس کے باجود اربوں مسلمان دن رات سجدے کرتے ہیں کیونکہ یہ احکامات ہیں۔ اسی تناظر میں جب اللہ نے جانوروں کا مقصد سواری اور خوراک بتادیا تو اس میں عقلیت ڈھونڈنا کسی مذہبی کا کام نہیں۔ کسی جگہ پڑھا تھا کہ سبزیاں بھی جاندار ہیں اور ان کا سانس لینا اور ایک اور وجہ اس نظرئیے کی یہ بتائی گئی تھی کہ کسی درخت کے پاس روز کھڑے ہوکر اسے گالیاں بکنے سے وہ مرجھا جاتا ہے جبکہ روز اس سے شفقت کا مظاہرہ کرنے سے وہ مزید پھلتا پھولتا ہے۔ تو کیا سبزیوں کو جاندار مان کر میں یہ سوچنا شروع کردوں کہ ہم انسان ان کو کھا کر ناانصافی کررہے ہیں؟؟
ایسا نہیں ہے۔ بلکہ الٹ ہے
اگر ایسا ہوتا یا ہوا تو مذہب متعلق، مستعمل اور مفید(ریلیونٹ) نہیں رہتا، اور اگر آپ بھی یہی عقیدہ اپنی اگلی نسل کو تعلیم کریں گے تو بہت زیادہ امکان ہے کہ 40-50 سال بعد آپکی نسل کیلئے مذہب ایک فضول شئے بن کے رہ جائے گی
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
3 May, 2018 at 1:31 am #9یہ عقل اور جبلت کی کشمکش ہے جب جبلت منہ زور ہو جاتی ہے (جیسا کہ لڑی کی افتتاحی تحریر انصاف کیلئے ایک مہلک خواہش کی مظہر ہے) تو شعور کی دھوکہ دہی کا مغالطہ ذہن مین گھر کر لیتا ہے اور بے چین رکھتا ہے۔ جب عقل اس مظہر کی وضاحت پیش کر دیتی ہے تو سکون مل جاتا ہے۔ لیکن اس نکتے کو سمجھنے اور اس سے مستفید ہونے کیلئے ضروری ہے کہ عقل اور جبلت کے خالق کا وجود تسلیم کیا جائے3 May, 2018 at 1:14 am #36کیا مستقبل میں بھی ایتھنز کے لوگوں کا اُس وقت کا رویہ درست سمجھا جائے گا(کیا اِس کا جواب دیا بھی جاسکتا ہے)۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔کیا مستقبل میں بھی اُن کی قربانی کو ایسے ہی دیکھا جائے گا جیسا آج دیکھا جاتا ہے یا ماضی میں دیکھا جاتا رہا ہے۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔میری سائنس یا سائنس دانوں سے محبت کی ایک وجہ اُن کا مستقبل کے بارے میں لاداری رویہ(ایگنوسٹک رویہ)ہے۔۔۔۔۔ کہ نہیں پتا آگے کیا ہوگا۔۔۔۔۔سقراط کے عمل بارے رائے کسی حد تک دی جا سکتی ہے وہ اس طرح کہ (موجودہ یا مستقبل کی) عقل حد جاری کرتے وقت انحصار کس پر کرتی ہے؟ سودو زیاں پر یا پھر صحیح غلط پر؟ ان دونوں کی حدِ فاصل ایثار ہے جو ایک اخلاقی صفت ہے
امامؑ کی قربانی بارے تو جوش نے کافی عرصے سے کہہ رکھا ہے کہ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ؎
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسینتیسرے نکتہ پر مجھے ایک ذرا سا اختلاف کرنا ہے۔ سماجی ، نفسیاتی اور معاشی علوم کی تحقیق میں جو 2-3 بنیادی اور بڑے موضوعات ہیں ان میں ایک خصوصی توجہ کا مرکز ہر شعبے میں آلاتِ پیش بینی (پریڈکٹو ماڈلنگ) اور اس سلسلے میں نت نئے طور طریقوں کی دریافت اور ترقی ہے، اور ظاہر ہے یہ بلا وجہ نہیں ہے
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
3 May, 2018 at 12:45 am #8آپ نہ بخشنا کسی کو۔ کبھی غلطی ہو ہی جاتی ہے لکھاریوں سے ۔انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی، میں نے تو لطف لیا ان کے جملوں سے اور ان پر گرہ لگانے کی کوشش کی ہے
3 May, 2018 at 12:41 am #67دوگھڑی میسر ہو اسکا ہمسفر ہونا پھر ہمیں گوارا ہے اپنا دربدر ہونا اسکے وصل کی ساعت ہم پہ آئی تو جانا کس گھڑی کو کہتے ہیں خواب میں بسر ہوناہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے
ہم بہرحال بسر خواب تمہارا کرتے
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمہاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے
محو آرائش رخ ہے وہ قیامت سر بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے
جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لیے
پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے
کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے
ظرف آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے
(علیم)
3 May, 2018 at 12:29 am #48مجھے تو وہ آنسہ سہی لکھتے ہیںچلیں آپ آنسہ ہی سہی، مجھے تو اپنے تصور کا صحیح ہونا درکا تھا
3 May, 2018 at 12:26 am #5ڈاکٹر صاحب کی فراصت کی ایک دنیا پہلے ہی قائل ہے پر مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے چوٹی کے سیاست دان بھی دوسروں کی محنت چرانے سے نہی چونکتےشامی صاحب
ظاہر ہے ساری دنیا جانتی ہے کہ آپ کا لیڈر بہت ویلا ہے اسلئے اس کے پاس فرصتیں ہی فرصتیں ہیں اگر اس کے پاس فراست ہوتی تو کوئی ڈھنگ کا کام کرتا
باقی چرانے پر چونکنا کیسا؟ چرایا ہمیشہ خاموشی اور توجہ سے جاتا ہے تاکہ چراتے وقت کوئی شئے چُوک نہ جائے
2 May, 2018 at 4:20 am #36مادام۔۔۔۔۔ یہ کیا۔۔۔۔۔ آنسہ نایاب نے آپ کی درخواست کو ذرا بھی قابلِ غور نہیں سمجھا اور وہ عِلاقہِ غیر میں جانے کی بات علی الاعلان کررہی ہیں۔۔۔۔۔ آپ کی دُعا والے لاَرے لَپے کو بھی اہمیت نہیں دی۔۔۔۔۔ اَب کیا مَیں سَوکنوں والی لڑائی توقع کروں۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ میں نے کبھی نہیں دیکھی۔۔۔۔۔ویسے یہ مادام اور آنسہ کی تمیز و تفریق سے آپ دونوں معزز خواتین کو کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں؟
2 May, 2018 at 4:15 am #35شیراز صاحب، آپ کے اشتیاق کی وجہ ؟ویسے آپ یہی سوال شرم سے لال ہوئے بغر بھی پوچھ سکتے تھے
اور تھوڑے سے حُسن ظن کے ساتھ اس کو میری معصومیت پر بھی محمول کر سکتے تھے
ویسے آپ کے اس اشتیاق کے پیچھے جو اشتتیاق چھلک رہا ہے اس کیلئے یہ مصرعہ قبول کیجیئے
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے ؎
2 May, 2018 at 3:45 am #19بات پاکستانی معاشرے (اگر ایسی کوئی اکائی وجود رکھتی ہے تو) کے سیاسی شعور اور جمہوری ارتقا کی طرف مڑ گئی ہےمیں شعوری کوشش سے اس موضوع سے بچتا ہوں ایسا نہیں ہے کہ اس موضوع کی اہمیت نہیں ہے، بالکل ہے، معاشرے کی اصلاح و فلاح کیلئے اس سے بہتر وظیفہ و عمل کوئی نہیں ہے اور پھر تمام انبیاء اور مصلحین کا یہ پیشہ اور میراث رہی ہے، لیکن ہمارے ملک کے تناظر میں معدودے چند استثنیات کے ساتھ معاشرے کے اسفل و ارذل لوگ اسے کاروبار سمجھ کر اس کام میں لگے ہوئے اور انہوں نے اس پیشے کو ہی گالی بنا دیا ہے اسلئے اس موضوع پر آجکل کے سیاستدانوں کے حوالے سے کسی بھی تناظر میں ایک عمومی بات کرنا بےفائدہ، وقت کا زیاں اور ایک لایعنی مشق بن کر رہ گیا ہے اور اس کی وجوہات ہیں
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، ماضی قریب کو ہی دیکھ لیتے ہیں، ماضی کو بھلا کر میثاقِ جمہوریت پر دستخط ہوئے تھے، شریف برادران پر خلوص وعدوں اور نعروں کے ساتھ ایک نئی ابتدا کرنے آئے تھے، احمقِ اعظم نے اکتوبر 2011 کے جلسے سے 1967 ایک بعد ایک نئی امید دلائی تھی، لیکن زردای کے لالچ، شریفوں کا جاگیر چھن جانے کا خوف، احمق کی جلد بازیوں غرضیکہ ہر بڑے کردار کی نفسا نفسی (کل سے/مستقبل سے نا امیدی) نے ہمیں 7-8 سال میں ہی سیاسی و جمہوری حوالے سے پہلے سے بھی بد تر صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے اور جی ایچ کیو کی گرفت مضبوط تر۔
اس حقیقت نما تجزیے سے دو بڑے اور اہم سبق بڑی آسانی سے اخذ کئے جا سکتے ہیں، ایک: رہنمائی کے دعویداروں کی نہ کوئی اخلاقیات ہیں اور نہ ہی ایسا کچھ ان کے کردار میں نظر آتا ہے سب کے سب موقع پرست اور ذاتی/خاندانی/گروہی اور وقتی مفادات کے اسیر ہیں۔ دو: درج بالا شخصی و ذاتی برائیوں سے بڑھکر جو چیز قتلِ امید کا باعث بنتی ہے وہ شخصی آزادی اور خوداری کی کمی ہے، سب کے سب غلام، سب کے سب پُتلیاں۔ کوئی کل پُتلی تھا تو کوئی آج پُتلی پے، اور آپ میں سے کون ہے جو اپنے بیان/بات کا پاس کرنے والا ہے اور پورے شرحِ صدر کے ساتھ ان میں سے کسی ایک سیاستدان کے گارنٹی دے سکے کہ وہ اپنے ماضی کو نہیں دہرائے گا اور وقت پڑنے پر دوبارہ پُتلی نہیں بنے گا؟
اور اسکی بھی وجوہات ہیں، جی ایچ کیو کے جرنیلوں کا ریاست ہی نہیں ریاست کی سیاست پر بھی اجارہ ہے، ایک ادارے کی حیثیت اور اس ریاست کے مالک کی حیثیت سے ان کے پاس بے پناہ وسائل ہیں وہ منظم اور پیشہ ور (اپنے اصلی کام کا ان کو ککھ پتا نہیں ہے اور اس میں انکی ناکامی مطلق ہے) ہیں، ان کی ہر سیاسی حکمتِ عملی کے پیچھے تحقیق اور غوروفکر ہوتے ہیں اور سب سے بڑھکر وہ موجودہ سیاستدانوں کی اوقات (اخلاق، کردار، نفسیات اور قیمت) اچھی طرح جانتے ہیں
ایک اور پہلو بھی پیشِ نظر ہے، جو طرز اور انداز جی ایچ کیو کی موجودہ حکمتِ عملی کا پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے نظر آ رہا ہے وہ کسی بڑے منصوبے اور مقصد کا پتا دے رہا ہے (الطاف کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کر انہوں نے کس آسانی، مہارت اور چابکدستی (کلینیکل پریسیژن) سے ایم کیو ایم کو مکمل بے شناخت کر دیا ہے اور وہی تجربہ اب ن لیگ کے ساتھ دوہرا رہے ہیں) یہ ایک بڑے پیمانے اور سطح کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور نئی صف بندی (پولیٹیکل ری انجنیئرنگ) ہے اس کے باوجود بھی آپ سب دانشمند بلوان واقعات و شخصیات پر بحث کر کے اپنے تئیں جمہوری و سیاسی ارتقاء کی دانشورانہ خود لذتی سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے
ایسا نہیں ہے کہ صرف سیاسی جماعتوں کے مالکان (جن پر رہمنا کی تہمت ہم بڑے شوق سے لگاتے ہیں) پر ہی اس کی ذمہ داری ہے، لیکن بڑی اور بنیادی ذمہ داری انہی کی ہے، سماج کے دانشور اور دوسرے طبقات، سیاسی کارکنوں اور عوام کی بھی درجہ بدرجہ ذم داری ہے (لیکن اسی معاشرے کا فرد ہونے کی وجہ سے اوپر بیان کردہ دونوں وجوہات کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے) لیکن رہنمائی کے دعویدار اپنی شخصی اخلاقی ساکھ کی طاقت سے ان طبقات اور گروہوں کو تنظیم میں پرو کر ایک سمت مہیا کرتے ہیں، جو سیاسی جماعتوں کے مالکان کی طاقت وکرپشن کی ہوس اور ناپنسک پن اور معاشرے کی مجموعی صورتحال کی وجہ سے مستقبل قریب میں تو کارِ محال ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے
تو صاحبان جادو نگری میں ارتقاء نہیں ہوتا
جہاں آسیب کا سایہ ہو وقت وہاں بھی ٹھہر جاتا ہے
ہماری جادو نگری پر تو آسیب کا سایہ بھی ہے اور وہ بھی بہت گہرا، اور اس کے منیر شامی (یہ اپنے شامی صاحب کا ذکرِ خیر نہیں ہے بلکہ دیو مالائی کہانیوں کے شہزادے ہیں) کسی ارفع مقصد سے کورے اور اخلاقیات میں نامرد۔ اور جاہل رعایا کو اپنی معاشی مجبوریوں کے باعث جمہوریت نامی شہزادی کے خد و خال و خطوط جنہوں نے میرے دانشور دوستوں کا چین و قرار لوٹ کر انہیں حواس باختہ کر رکھا ہے، میں کوئی کشش نہیں، بلکہ وہ انہیں اپنی جہالت اور غربت کے باعث بوڑھی چڑیل لگتی ہے کیونکہ اپنے میاں صاحب کے حرم میں آ کر اس کی حالت واقعتاً ایسی ہی ہو گئی ہے، صرف نواز کے شخصی وفاداروں کو ہی وہ میاں کی شہزادی لگتی ہے
درج بالا ساری دانشوری میں منیر نیازی کے ذیل کے ایک شعر میں بھی سمیٹ سکتا تھا لیکن پھر اپنے اندر کے غبار کا کیا کرتا؟
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہملکی سیاست، سیاستدانوں، انکے چاہنے والوں اور ان سارے موضوعات پر بات کرنے والوں کی بھی عکاسی کر رکھی ہے منیر صاحب نے
سارے منظر ایک جیسے، ساری باتیں ایک سی
سارے دن ہیں ایک سے اور ساری راتیں ایک سیبے نتیجہ، بے ژمر، جنگ و جدل سود و زیاں
ساری جیتیں ایک سی اور ساری ماتیں ایک سیسب ملاقاتوں کا مقصد کاروبارِ زر گری
سب کی دہشت ایک جیسی، سب کی گھاتیں ایک سیاب کسی میں اگلے وقتوں کی وفا باقی نہیں
سب قبیلے ایک سے ہیں ساری ذاتیں ایک سیہوں اگر زیرِ زمیں تو فائدہ ہونے کا کیا
سنگ و گوہر ایک ہیں پھر ساری دھاتیں ایک سیایک ہی رخ کی اسیری خواب ہے شہروں کا اب
ان کے ماتم ایک سے، ان کی براتیں ایک سیاے منیرؔ آزاد ہو اس سحرِ یک رنگی سے دور
ہو گئے سب رنگ یکساں، سب نباتیں ایک سی@Shami 11
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
1 May, 2018 at 7:08 am #12دیکھیں ذرا رہتے باہر کے ملکوں میں ہیں اور امتیازی سلوک ڈس کرمنشن کے الزام میں اندر بھی ہو سکتے ہیںآپ کی نذر ہے
1 May, 2018 at 7:01 am #11نہیں …اوروں کے بارے میں زیادہ ہےاور میرے بارے تو یقیناً نہیں ہو گا، ہے ناں؟
1 May, 2018 at 6:59 am #10آپ کو اشتیاق اگر خاکسار کے بارے میں ہے تو پی ایم پر عمر تعلیم آمدنی اور ایک عدد تازہ تصویر بھی ارسال کردوں گااگر یہ پی ایم آپ مجھے کر سکیں تو ۔ ۔ ۔ ۔
مطلب مجھے پی ایم نہیں کرنا آتا
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
1 May, 2018 at 6:53 am #121مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔۔۔۔۔ بتایا تو تھا کہ میں بے یقینی کی کیفیت میں رہنا پسند کرتا ہوں۔۔۔۔۔بے یقینی کی کیفیت سے یاد آیا ایک شئے ہوتی ہے
سرشاری کے بھنور کے کناروں پر
آن دا پیریفری آف ایکسٹیسی
کبھی اس کا بھی تجربہ ہوا ہے؟
1 May, 2018 at 6:50 am #120ذاتی پیغام کرکے۔۔۔۔۔ سیٹنگز میں میسجز نظر آئیں گے۔۔۔۔۔کوشش کی ہے لیکن بے سود
جستہ جستہ سمجھائیں تو شائد بات بنے
1 May, 2018 at 6:49 am #119آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک غالبغالب والی بات تو نہیں ہے لیکن پھر بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
الجھے کانٹوں سے کہ کھیلے گل تر سے پہلے
فکر یہ ہے کہ صبا آئے کدھر سے پہلے
جام و پیمانہ و ساقی کا گماں تھا لیکن
دیدۂ تر ہی تھا یاں دیدۂ تر سے پہلے
ابر نیساں کی نہ برکت ہے نہ فیضان بہار
قطرے گم ہو گئے تعمیر گہر سے پہلے
(علی سردار)
1 May, 2018 at 6:37 am #117فورم پر ذاتی پیغام کی سہولت دستیاب ہے؟ اگر ہے تو رہنمائی درکار ہے کہ کیسے فائدہ اٹھایا جائے1 May, 2018 at 6:29 am #115مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔۔۔۔۔ بتایا تو تھا کہ میں بے یقینی کی کیفیت میں رہنا پسند کرتا ہوں۔۔۔۔۔اگر یونہی آپ سے صحبت کرتا رہا تو تھوڑے بہت یقین کا انتقال تو آپ کی طرف ضرور کر دوں گا
1 May, 2018 at 6:21 am #113کیا آپ کا تعلق بھی اُس مکتبہِ فکر سے ہے جو کہتے ہیں کہ اگر عورتیں بَن ٹھن کر باہر نہ نکلیں تو۔۔۔۔۔۔ﭘﯿﺪﺍ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﭘﺮﺍﮔﻨﺪﮦ ﻃﺒﻊ ﻟﻮﮒ ؎
ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺗﻢ ﮐﻮ ﻣﯿﺮ ﺳﮯ ﺻﺤﺒﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ
آپ کو کیا لگتا ہے؟
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
1 May, 2018 at 6:11 am #9Shiraz saahib,
We both agree that self declared guardian of state interest aka GHQ was fully involved in allowing foreign foot on ground than how one can maintain its status as patriotic and other not? Obviously, different people play their role to implement state’s policy and ought to be held responsible accordingly.
Since you agreed with gist of his argument but questioned his credentials and his presence on indian channel. My query was in this background that if there is another sensible voice complying strict criteria of patriotism and has the courage and access to patriotic media to present similar case.
Are n’t you mixing actual policy (allowing CIA contractors on motherland) vs formulation process of policy? I agree with the principle that you mentioned about formulation of policy, but which policy comply to this principle? However why actual policy of allowing CIA contractors on ground was conflicting the state interests? GHQ happily and conveniently looked other side while CIA allegedly was hunting common enemies down. Most obvious evidence to support this argument is infamous Raymond davis case in which how ISI colluded with justice system for a safe return of alleged murderer of citizens.
Thank You. That was my point. By discrediting HH, if we also decide to dump his arguments, country is at loss.
Are n’t you mixing actual policy (allowing CIA contractors on motherland) vs formulation process of policy?
No, I was not mixing them. I stated the principle.
I agree with the principle that you mentioned about formulation of policy, but which policy comply to this principle?
No policy and there is no likelihood of this happening in the foreseeable future.
However why actual policy of allowing CIA contractors on ground was conflicting the state interests?
Because as an autonomous person of a supposedly autonomous state, it hurts my self respect.
My query was in this background that if there is another sensible voice complying strict criteria of patriotism and has the courage and access to patriotic media to present similar case.
Yes, Asma for one comes to mind and most of the HRCP members are relatively quite vocal in their utterings in this regard.
Contribution of HH in this regard is a zero-sum proposition. Whatever he adds thru his propaganda abroad is offset at home soil by his colorful/ deceitful past, questionable moral credential and personal vendetta on one hand and by his choice of media outlets on the other hand.
My considered opinion is that Indian army/RAW has not damaged this country as much as our beloved GHQ and its macho general. Let alone the GHQ acts of commissions, even their acts of omissions are much larger in magnitude and impact than the magnitude and impact of combined acts of any civilian individual’s entire life in our history, let alone a small fry like HH!
-
AuthorPosts