Viewing 20 posts - 101 through 120 (of 125 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #101

    گھوسٹ پروٹوکول صاحب۔۔۔ کیا بتاؤں میری تو خدائی دیوالیہ پن کے قریب آلگی، ایک کن ٹٹے مشیر نے میری معیشت کا بیڑہ غرق کردیا، اس کی پالیسیوں پر چلتے چلتے میں گٹے گوڈوں تک مقروض ہوچکا ہوں، اب میں نے سارے فرشتے بھاری شرح سود پر مارکیٹ میں کرائے پر اٹھا دئیے ہیں، جس سے میری دال روٹی چل رہی ہے، ایک آخری فرشتہ بچا تھا اس کو بھی پرسوں کرائے پر اٹھا دیا، خوامخواہ فارغ بیٹھا انسانوں کی چغلیاں کرتا رہتا تھا۔۔ خیر یہ تو ضمنی باتیں تھیں، اصل بات تو یہ ہے کہ آپ نے کہا اللہ میاں کے پاس بہت فرشتے ہیں تو میرے کان کھڑے ہوئے، کرائے پر فرشتوں کا حصول تو بہانہ ہے اصل نشانہ تو یہ ویریفائی کرنا ہے کہ میرے علاوہ مارکیٹ میں اور کون آگیا ہے فرشتے لے کر، لہذا جلدی سےمیری اللہ میاں سے ڈیل کروائیں، وگرنہ میں سمجھوں کہ کوئی اللہ میاں نہیں ہے اور آپ نے محض ہوائی اڑائی۔۔۔۔

    اللہ میاں کے پاس فلحال کویی فرشتہ فارغ نہیں ہے پوری کی پوری ایک بٹالین نادان جی کے اعمال کا حساب رکھنے پر لگی ہویی ہے کیوں کہ یہ ایک فرشتہ کا کام نہیں ہے

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    نادان

    casanova
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #102
    اللہ میاں کے پاس فلحال کویی فرشتہ فارغ نہیں ہے پوری کی پوری ایک بٹالین نادان جی کے اعمال کا حساب رکھنے پر لگی ہویی ہے کیوں کہ یہ ایک فرشتہ کا کام نہیں ہے :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile: نادان

    گھوسٹ جی! ایک بوری پیکر فرشتہ فارغ تو ھے آجکل۔۔۔اسی کو بھیج دیں زندہ رود دا “چاہ” بھی پورا ہو جائے گا۔۔۔۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #103
    ایک امیر المومنین تو جہاز میں رکھی آموں کی پیٹیوں کی نذر ہو گیا :thinking:

    توبہ، توبہ، توبہ

    :sorry: :sorry:

    یہ دن بھی میری زندگی میں آنا تھا جب آپکو ان “شہیدوں” کا مذاق اڑاتے دیکھنا تھا جن کے بوٹ پالش کرنا آپکے ایمان کا لازمی جزو ہے

    :hilar: :hilar: :hilar: :hilar: :hilar:

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #104
    میں تو مزید لینے کے ویسے ہی خلاف ہوں، یا اگر لینا بھی چاہتا ہوں تو بین الاقوامی سیاسی تعلقات کو استعمال کر کے نسبتاً نرم شرائط پر، تاکہ ہماری ادائیگیوں کی صلاحیت کا اتنا بیڑا غرق نہ ہو جتنا موجودہ کرتا دھرتاؤں نے کر دیا ہے۔ اسلئے بعینہہ مجھے بھی آپ جتنا یقین نہ سہی لیکن اچھا خاصا اعتماد ہے کہ یہ حکومت اور اس کے موجودہ معاشی نابغے ئی ایم ایف کے سامنے نہ لیٹتے تو ڈالر 140 سے 145 کے درمیان ہوتا اور آپ کو پانچ ارب پھینکنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ آپ کی ادائیگیوں کا حجم موجودہ سے کہیں کم ہونا تھا

    پرولتاری درویش۔۔۔۔۔

    کیا یہ آپ نے ہی لکھا ہے؟

    آپ کی تحریر کا یہ حصہ کسی اور نے تو آپ کی آئی ڈی ہیک کر کے نہیں لکھ دیا۔۔۔۔۔

    اگر آپ نے ہی لکھا ہے تو معذرت کے ساتھ، آپ نے اِس تحریر میں معیشت کے اُصولوں کے ساتھ جیسا جابرانہ کابونگا کیا ہے ویسا تو میاں صاحب کی حکومت نے بھی پاکستان کی معیشت کے ساتھ نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔

    سر جی خوابوں میں تو مَیں بھی ڈالر کو روزانہ ہی پچاس روپے پر لے آتا ہوں۔۔۔۔۔ طاق راتوں کے خوابوں میں تو پچاس سے بھی نیچے چلے جاتا ہے۔۔۔۔۔

    میرا آپ کو انتہائی مخلصانہ مشورہ ہے کہ ایک دفعہ اپنی اِس تحریر کو ذرا واپس دیکھیں، کچھ غور و فکر کریں اور اِس تحریر سے مکمل طور پر غیر مشروط برأت کا اعلان کردیں۔۔۔۔۔

    مجھے کافی سے زیادہ اُمید ہے کہ سَینیٹی پریوَیل کرے گی۔۔۔۔۔

    :facepalm: ;-) :facepalm:

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #105

    ایک شاطر صحافی کی طرح آپ مجھے اس راہ پر لے کر گئے ور اپنی پسند کے پیرائے میں ایک جملہ مجھ سے لکھوانے میں کامیاب رہے

    نہیں سَر جی۔۔۔۔۔ مَیں آپ سے کچھ بھی اپنا من پسند نہیں لکھوانا چاہ رہا۔۔۔۔۔ اور نہ ہی مَیں آپ کو کسی راہ پر لے کر گیا ہوں۔۔۔۔۔ آپ خود اِس معاشی بحث کو سیاسی حوالوں کی طرف لے کر گئے تھے۔۔۔۔۔

    بس اتنی عرض کر رہا ہوں کہ اُس گاؤں نہ جائیں جس کا کم از کم میرے حوالے سے اِس بحث کا کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔

    کیونکہ جو میں نے لکھا ہے وہ پی ٹی آئی کے سنجیدہ سیاسی موقف سے بہت زیادہ دور نہیں ہے

    یہ بات۔۔۔۔۔

    مَیں ایک دفعہ پھر کہہ رہا ہوں کہ مجھے اِس سے قطعاً قطعاً کوئی غرض نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کا سنجیدہ موقف کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ مَیں اُس پر سرے سے بات ہی نہیں کررہا ہوں۔۔۔۔۔

    جب سے مَیں اِس پوری بحث میں شرکت کررہا ہوں میری ہر ممکن کوشش ہے اِس موضوع کو انتہائی ایگنوسٹک(ایگنوسٹک اِس سَینس میں کہ پچھلی حکومت کون سی تھی اور موجودہ حکومت کس پارٹی کی ہے) ہو کر صرف اور صرف بڑے بڑے اعداد و شمار اور معیشت کے بنیادی اُصولوں کی مدد سے دیکھا جائے۔۔۔۔۔

    اگر آپ کو میرے زاویہ ِ نگاہ سے اختلاف ہے تو اُس سے ضرور اختلاف کریں لیکن اِن بچگانہ باتوں میں بالکل نہ جائیں کہ کسی سیاسی پارٹی کے جلسوں میں، ٹاک شوز میں، حتیٰ کہ اُس پارٹی کے منشور میں کیا کیا دعوے تھے۔۔۔۔۔ یہ قطعاً ایک الگ بحث ہے جس میں میری ذرہ بھر بھی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔۔۔ یہاں بحث معیشت پر ہے جس کو معاشی اُصولوں کی مدد سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔ اگر سیاسی حوالوں سے بحث کرنی ہے تو وہ الگ سے کریں۔۔۔۔۔

    اور اگر اِس وجہ سے آپ بھی مجھ پر کسی کی حمایت کا یا کسی کے بغض کا الزام لگائیں تو میری بات یقین کیجیے میری کھال بہت موٹی ہے، مجھے ایسی باتوں سے ذرا فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #106
    میرے رائے میں جو تفاصیل آپ نے قلمبند کی ہیں ہمارا مکالمہ ان سے کہیں آگے جا چکا ہے۔

    آپ کہہ تو رہے ہیں کہ مَیں نے جو کچھ اپنی تفصیلی تحریر میں لکھا، مکالمہ اُس سے آگے جاچکا ہے۔۔۔۔۔ مگر مجھے ایسا بالکل نہیں لگتا۔۔۔۔۔

    کیونکہ مَیں اُس تفصیلی تحریر کے بعد بھی اور لگتا ہے اگلے کچھ دن بھی مجھے اپنی اُسی تحریر کے لفظوں ری سائیکل کر کر کے واپس لکھنا پڑے گا۔۔۔۔۔ اور مَیں یہی کررہا ہوں۔۔۔۔۔

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #107
    پرولتاری درویش۔۔۔۔۔  اگر مَیں اِس بحث کے دوسری طرف آکر دلائل دینا شروع کروں یعنی آپ اور جیو جی  وغیرہ کی طرف آ کر تو یقین مانیے مَیں بہت ہی اچھی لفاظی دکھا سکتا ہوں۔۔۔۔۔ لیکن میرے وہ دلائل وہ تحاریر صرف اور صرف لفاظی ہوگی۔۔۔۔۔ اُن تحاریر میں صرف اور صرف خوابوں خیالوں کی عظیم باتیں اور روحانی بشارتیں ہوں گی جن کا حقیقی صورتحال سے ذرا بھی تعلق نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ میرے وہ دلائل کبھی بھی یہ نہیں بتائیں گے کہ اِس مسئلہ سے نکلنے کا حل کیا ہے۔۔۔۔۔ وہ صرف اور صرف میری خواہشات خیالوں خوابوں بشارتوں پر مبنی لفاظی ہوگی۔۔۔۔۔   معذرت کے ساتھ اِس بحث میں آپ کی طرف سے لفاظی کا شاندار مظاہرہ ہورہا ہے لیکن میرے خیال میں حقیقت سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔  مثال کے طور پر۔۔۔۔۔ آپ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے خلاف ہیں۔۔۔۔۔ چلیں ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں آئی ایم ایف کی مخالفت کی آپ کے نزدیک ایک نفسیاتی وجہ اُن کا ساہوکار ہونا بھی ہے اور ایک پرولتاری اور ساہوکار، پانی اور آگ کی مانند ہیں جو اکھٹے نہیں رہ سکتے ۔۔۔۔۔ اور ساہوکار انسانی تاریخ میں قرض داروں کی مُشکیں کستے آئے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی کستے رہیں گے۔۔۔۔۔ مجھے بھی اِس پہلو پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔۔۔ میرا بھی بالکل یہ ماننا ہے کہ ساہوکاروں کے چنگل سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔۔۔۔۔ یہ بڑی ہی عظیم باتیں ہیں۔۔۔۔۔ اور میرا یہ بھی ماننا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ساہوکاروں کو ایسا ہی سمجھتی آئی ہے۔۔۔۔۔

    لیکن پھر ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ پچھلے پانچ ہزار دس سال کی ہی انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ ہر دور میں ساہوکار کیسے موجود رہے۔۔۔۔۔ لوگوں کی اکثریت ساہوکاروں کو، سود پر قرض دینے والوں کو برا سمجھتی آئی ہے۔۔۔۔۔ پچھلے دو ہزار سال کو دیکھ لیں تو لوگوں کی یہودیوں سے ایک عمومی نفرت اِسی وجہ سے بھی رہی ہے۔۔۔۔۔ لیکن سوال یہ بھی تو پیدا ہوتا ہے کہ یہ قرض دینے والے ساہوکار ہر معاشرے میں آخر زندہ کیسے رہے۔۔۔۔۔

    ایک ہی جواب ہے اِس کا۔۔۔۔۔ لیکن ایک عوام پرور یا پرولتاری کیلئے اِس جواب کو تسلیم کرنا بہت ہی مشکل رہا ہے۔۔۔۔۔

    جواب یہ کہ ہر دور میں لوگوں کو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ساہوکاروں کی شدید ضرورت رہی ہے۔۔۔۔۔ اور جب شدید ضرورت ہوگی تو وہ شئے، یا وہ ادارہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔۔۔۔۔ یہ صرف معیشت کا بنیادی اصول نہیں ہے بلکہ یہ فطرت کا بھی ایک بنیادی اُصول ہے۔۔۔۔۔ اور انسانی تاریخ اِس بات پر بھی شاہد ہے کہ انسانوں کے ساتھ مجبوری بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے۔۔۔۔۔

    لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک پرولتاری(مَیں جنرل بات کررہا ہوں آپ کیلئے نہیں) کیلئے یہ حقیقت تسلیم کرنا کیوں مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔۔

    بحث موضوع سے ذرا سی سائڈ ٹریک ہوگی لیکن نفسیاتی وجوہات پر بات کرنا ضروری ہوتی ہے کیونکہ یہ نفسیاتی پہلو ہی کسی بھی بحث میں شرکت کرنے والے کا موقف تعمیر کرتا ہے۔۔۔۔۔ میری ذاتی رائے میں ایک پرولتاری(آپ کی بات نہیں ہورہی بلکہ ایک عمومی پیرائے میں بات ہے) کا سب سے زیادہ زور ہمیشہ خواہش یا حسرت پر ہوتا ہے۔۔۔۔۔ کہ ایسا ہونا چاہئے، یا ایسا ہونا چاہیے تھا، پیریڈ۔۔۔۔۔ لیکن جب ایک پرولتار پرور یہ موقف اپناتا ہے تو اُس کی نگاہوں سے کچھ بنیادی حقیقتیں غائب ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔ بنیادی حقیقت جیسے کہ آیا ایسا ہو بھی سکتا ہے جس کی خواہش کی جارہی ہے۔۔۔۔۔ لیکن ایک پرولتاری اِس پر زور نہیں دیتا اور نہ ہی توجہ دے پاتا ہے کیونکہ اُس کے دماغ پر اُس کی خواہش کا غلبہ اتنا ہوتا ہے وہ دوسرے پہلوؤں کو نہیں دیکھ پاتا۔۔۔۔۔ اگر پرولتاری حقیقت کو اچھی طرح سے دیکھ سکتا ہوتا تو دُنیا آج سوشلسٹ کمیونسٹ ممالک سے بھری ہوئی ہوتی۔۔۔۔۔

    اب آپ کہتے ہیں کہ اپنے بین الاقوامی تعلقات کو استعمال کر کے نرم شرائط پر قرضہ لیتے۔۔۔۔۔ مگر آپ نے پھر وہ راز چھپا لیا کہ کہاں سے، کس ملک سے، کس ادارے سے۔۔۔۔۔ اور یہ حکومت آٹھ دس مہینے سے دَر دَر جا کر اور کیا کررہی تھی۔۔۔۔۔ لیکن نہیں ہو پایا ناں۔۔۔۔۔ اور اصل بات جو ایک سربستہ راز ہے جو ڈاکٹر اشفاق سے لیکر اِس فورم کے کچھ شرکاء(آپ سمیت) تک کہے چلے جارہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہئے تھا، لیکن یہ بھی نہیں بتارہے کہ کہاں سے اتنا پیسہ ملے گا کہ بیلنس آف پیمنٹ کے مسئلے سے باہر نکلا جاسکے۔۔۔۔۔ اور آپ کی تان صرف قرض پر اور قرض کی ادائیگیوں پر آکر ٹوٹ رہی ہے قرضوں کا حجم اتنا بڑھ گیا ہے اور قرضوں کی ادائیگی کیسے ہوگی۔۔۔۔۔

    یہ نکتہ سمجھانے کیلئے ایک مثال دیتا ہوں۔۔۔۔۔

    پہلا سیناریو۔۔۔۔۔

    کسی ملک کے اوپر سو ارب ڈالر کا مجموعی قرضہ ہو، فارن ریزروز پندرہ ارب ڈالر ہوں اور موجودہ مالی سال میں پینتیس بلین ڈالر(تمام مجموعی ادائیگیاں یعنی ٹریڈ ڈییفیسٹ جمع قرضوں کی اقساط جمع دیگر مدات) کی ادائیگی کرنی ہو۔۔۔۔۔

    دوسرا سیناریو۔۔۔۔۔

    دو سال بعد اُس ملک کے اوپر ڈیڑھ سو بلین ڈالر کا مجموعی قرضہ کا ہوگا، فارن ریزروز پندرہ ارب ڈالر کے ہوں گے اور اگلے دو سال بعد سالانہ بین الاقوامی ادائیگیاں دس سے بارہ ارب ڈالر کی ہوں گی۔۔۔۔۔

    کوئی بھی ملک ہو، پہلے سیناریو والی حالت میں ہو، وہ پلک جھپکنے میں دوسرے سیناریو میں جانے کی کوشش کرے گا۔۔۔۔۔

    لیکن آپ صرف یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ مجموعی قرضے تو سو سے ڈیڑھ سو ہوگئے۔۔۔۔۔ لہٰذا یہ آپشن برا ہے۔۔۔۔۔ تو پھر سوال تو جائز بنتا ہے ناں کہ پھر اچھا آپشن کون سا ہے۔۔۔۔۔ لیکن لگتا ہے وہ اچھا آپشن ایک ایسا راز ہے جس کی قسمت میں تاقیامت پوشیدہ رہنا ہی لکھ دیا گیا ہے۔۔۔۔

    دو پہلو ہیں اِس فرضی مثال کے(اور یہ اتنی بھی فرضی مثال نہیں ہے، بہت حد تک پاکستان کے معاملے پر فٹ بیٹھتی ہے)۔۔۔۔۔ ایک پہلو یہ کہ مجموعی قرض کا کم ہونا مگر ادائیگیاں برداشت سے باہر ہونا اور دوسرا پہلو یہ کہ مجموعی قرض کا اچھی خاصی حد تک بڑھ جانا لیکن ادائیگیاں برداشت کے قابل ہونا۔۔۔۔۔ دیکھا جائے تو یہ دونوں آپشن ہی برے ہیں لیکن دوسرا سیناریو پہلے والے سے بہت حد تک بہتر ہے۔۔۔۔۔ اگر اِن سیناریوز میں کاروبار کی صورت میں بھی دیکھوں اور مَیں اُس کاروبار کا مالک ہوں اور کاروبار بچانا چاہتا ہوں تو پلک چھپکنے میں مزید قرض لینے کا فیصلہ کروں گا۔۔۔۔۔

    لیکن مَیں یہاں ایک بات کہہ دوں کہ آپ کا موقف صرف اور صرف ایک ہی شرط پر بالکل درست ہوگا۔۔۔۔۔ وہ یہ کہ آپ کو معلوم ہو اگلے دو سال بعد یا تین سال بعد پاکستان ہر صورت ڈیفالٹ کرے گا لہٰذا کل کے کرتے آج ہی ڈیفالٹ کردو بجائے یہ کہ مزید قرض لیکر مشکل میں وقت گذارا جائے۔۔۔۔۔ پھر مَیں بھی آپ کے موقف کا حامی ہوں وگرنہ آپ کے موقف کی دُرستگی صرف اور صرف اِس صورت میں ہی ہے ورنہ نہیں۔۔۔۔۔ اِس کیلئے آپ اِس نکتے پر گذارشات پیش کرنی ہوں گی پاکستان کیسے اگلے دو تین سال بعد ڈیفالٹ کرے گا یا اور کچھ نہیں ہو کم از کم یہ بتائیں کہ آئی ایم ایف(اور دیگر اداروں سے) سے قرض لینے کے بعد اِس قرض کی ہی وجہ سے پاکستان کیسے اُس صورتحال میں واپس آئے گا جیسی صورتحال دو ہزار اٹھارہ میں تھی۔۔۔۔۔

    پسِ تحریر۔۔۔۔۔

    مَیں قرار کے ساتھ جب بات کررہا تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ تندور میں ہوں کیونکہ کچھ چھوٹی موٹی باتیں سمجھانا بہت مشکل ہورہا تھا لیکن اب آپ کے ساتھ تو بات کرتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ تندور سے نکل کر دوزخ میں آگیا ہوں۔۔۔۔۔

    ;-) :) ;-)
    کم از کم قرار یہ نکتہ تو بخوبی سمجھ رہا تھا کہ پاکستان کیلئے آئی ایم ایف جانا ضروری تھا اور اِس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔۔۔

    پرولتاری درویش

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    پرولتاری درویش
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #108

    <b>مگر میرے خیال میں پاکستان کو اگلے دو سالوں کیلئے ایک لائف لائن مل گئی ہے۔۔۔۔۔</b>

    اصولی طور پر تو آپ کے اس جملے کے بعد اس بحث کو ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن آپ نے اپنے لیٹیسٹ راؤنڈ آف پوسٹس کے ذریعے کچھ اور ضمنی نکات اٹھا دئیے ہیں پہلے ان کا سرسری ذکر ہو جائے اس کے بعد آپ کے موقف کا بہت ہی سادہ آسان اور انتہائی بنیادی زاویہ نظر مزید جائزہ لینے کہ کو شش کریں گے

    ضمنی نکات والی بات اس لئے اٹھائی ہے کہ اس فورم پر آپ بھی بحث کو موضوع پر رکھنے کے سُرخیل ہیں لیکن مجھے کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بحث ضمنیوں میں جانے کی کوشش کر رہی ہے ہمیں اسے شعوری کوشش سے موضوع پر ہی رکھنا ہے اور اس کا لہجہ (ٹون) بھی تبدیل ہونے کی کو شش کر رہا ہے ہمیں اس سے بھی بچنا ہے اور الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کے ذریعے احترامِ باہمی کو قائم رکھنا ہے اس مکالمے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں آپ اپنا نکتہ تو دوسرے سے کسی نہ کسی طرح منوا لیں لیکن بندہ گنوا دیں

    مجھے کچھ غلط فہمی سی تھی کہ آپ میرا اظہار (ایکسپریشن) آپ کے نزدیک قابلِ تحسین ہے لیکن اب یہ آپ کو لفاظی محسوس ہونے لگا ہے۔ میری طرف سے اس سلسلے میں کس شعوری کوشش کی تو مکمل نفی ہے، ہو سکتا ہے لاشعوری طور پر کچھ تبدیل ہوا ہو، تو کیا آپ موضوع سے ہٹ کر کسی علیحدہ پوسٹ میں میرے ایک دو جملوں کی بطور نمونہءلفاظی نشاندہی کر سکتے ہیں؟ اور یہ بھی کہ بغیر لفاظی کے انہیں کیسے تحریر کیا جانا چاہیے تھا؟؟ 

    اب آجائیں ان ضمنی نکات پر جنہیں میں مستقبل میں بشرطِ باہمی فرصت آپ کے ساتھ بات چیت میں موضوعِ بحث بنانا چاہوں گا۔ آپ نے کچھ تصورات کو بدیہی حقیقتیں جان کر سینے سے لگا رکھا ہے میری رائے میں انہیں تھوڑا گہرائی میں جا کر بارِدیگر جانچنے کی ضرورت ہے ان میں سے جو ابھی تک میرے مشاہدے میں آئے ہیں وہ درج ذیل ہیں

    صحیح یا غلط کچھ نہیں ہوتا صرف نکتہ نظر ہوتا ہے

    تجزیئے میں ذاتی خواہشات کو پرے رکھ کر ایک سنگدل قسم کی معروضیت (آبجیکٹووٹی) ممکن ہے (یہ نکتہ یہاں آپ کی اس خواہش سے منسلک ہے جس کے تحت آپ معیشت کو سیاسی بیان بازی سے علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں

    مثالیوں کیلئے اس دنیا کوئی جگہ نہیں ہے دنیا عملیت پر قائم ہے یا عملیت پسندی کی ہی افادیت ہے

    ایک اور نکتہ بھی ہے جو فی الحال ذہن سے اوجھل ہو رہا ہے جیسے ہی رسائی ہوتی ہے یہاں درج کرتا ہوں

    اب کچھ مختصر تبصرے آپ کی آج آنے والی تحریروں کے چیدہ چیدہ نکات پر۔ آپ نے جس دوسرے منظر نامے کی صورت گری کی ہے اس میں موجودہ حکومت کے چنیدہ حکمتِ عملی جس کی آپ اپنے موقف کے ذریعے مسلسل تائید کئے جا رہے ہیں چھلانگ ممکن نہیں ہے وہ آپ کی خوش فہمی سے جنم لینے والا سراب ہے

    مجھے پی ٹی آئی اور فوج بارے آپ کی پسند نا پسند جب وضاحت سے معلوم ہے تو میں آپ کو ان میں سے کسی کے ساتھ ساتھ بے جا طور پر نتھی کرنے کی کوشش کیوں کروں گا؟؟ میرا خیال ہے کہ اس بحث کی وجہ آپ مجھے ضرور ایک پی ٹی آئی مخالف کے روپ میں دیکھنے لگے ہیں، اگر ایسا ہے تو غلط ہے۔ میری تو اپنی رائے ہے کہ اس وقت ملک اور مقتدر لوگوں کے پاس بھی یہی ایک سیاسی انتخاب ہے اور جہان تک ہو سکے اسے قائم رہنا چاہیے اور ملک و قوم کے مفاد میں کارکردگی دکھائی چاہیے اور جہاں ہمیں لگے کہ کچھ صحیح نہیں ہو رہا تو اس کی نشاندہی ہونی چاہیے

    باقی تندور یا دوزخ میں خود کو محسوس کرنا خالصتاً بحث سے آپ کی نا آسودہ توقعات اور اُن کی بناء پر آپ کے شخصی احساسات کا مسئلہ ہے بظاہر تو مجھے لگتا ہے کہ میں اس سلسلے میں معذور ہوں لیکن پھر بھی اگر میں کچھ کر سکوں تو براہ کرم کُھل کر بتائیے گا

    :bigsmile: :bigsmile:

    اب یہی دیکھ لیں کہ کتنا سارا وقت اور توانائی ضمنیوں پر ہی ضائع ہو گئی موضوع سے براہ راست متعلقہ نکتے کی باری اب آئی ہے

    ذرا مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کیجئیے کہ آپ قرض کو کیا سمجھتے ہیں؟ ایک موقع/راستہ، ایک سہولت یا ایک طرزِ زندگی؟؟؟ اور کب یہ سہولت سے نکل/ہٹ کر ایک طرز زندگی کی شکل اختیار کر لیتا ہے؟ امید تو نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر آپ اسے طرزِ زندگی سمجھنے پر مُصر ہوں تو یہ فرمائیے گا کہ کیا یہ ایک پائیدار و پُرسکون طرزِ زندگی ہے؟ میرا خیال ہے کہ اگر آپ اپنی زندگی کے ساتھ انتہائی سنگدلی کا سلوک کرنے پر نہیں تُل گئے ہیں تو کب اس قرض کے جال سے نکلنے کا فیصلہ کریں گے؟

    اب آپ اپنی سنگدل معروضیت کو ایک لمحے کیلئے بھول کر اسی زاویہءنظر کا اطلاق اس ملک پر کرنے کی کوشش کریں جس سے آپ کو ابھی بھی کچھ ہمدردی محسوس ہوتی ہے اور اسی ہمدردی کے زیرِ اثر آپ اس فورم پر بہت سے معرکے لڑتے ہیں 

    :) :) :)

    میں نے جو متبادل راستے/تجاویز دیں تھی آپ نے ان پر بغیر کسی مناسب غور کے کچھ غیر سنجیدہ سے انداز میں اِن تحاریر میں ان کا پُھلکا اڑانے کی کوشش کی ہے میرا خیال ہے میں نے مناسب حد تک اُن کے خدوخال واضح کر دئیے تھے اور باقی تفاصیل بشرطِ دلچسپی بحث کیلئے کُھلی چھوڑ دیں تھیں میں اپنی اس تحریر کا لنک تلاش کر کے لگاتا ہوں تاکہ آپ ان پر ایک دفعہ مناسب غور کر لیں اور پھر اپنا سنجیدہ تبصرہ دیں جس سے بات آگے بڑھے

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #109
    اسی ترتیب سے جوابی گذارشات پیش ہیں ۔(1) یہ وہی معاملے کو حد سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کرنے کا طریقہ ہے جس کی طرف میں پہلے بھی توجہ دلا چکا ہوں ہر ملک/جگہ کی اپنی معاشی مبادیات، ان کے تحرکات اور ذرائع پیداوار ہوتے ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے بہت مختلف کر دیتے ہیں اس لئے اس طرح کے سادہ تقابل کی یہاں کوئی جگہ نہیں بنتی ہے۔ دوسری بات آپ یہاں کچھ ایسے اشاریئوں کے حوالے دے رہے ہیں جن کا سوائے سالانہ پیداواری شرح کے ادائیگیوں کے توازن سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے جو زیادہ متعلقہ اور براہ راست اثر انداز ہونے والے اشاریئے ہیں ان میں سرکاری ترقیاتی پروگراموں پر خرچ، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور ملکی غیر حکومتی شعبے کی سرمایہ کاری کا حجم شرح فی صد میں۔ اگر ان میں سے کوئی اشاریہ پچھلے کسی دور سے بہتر ہے تو آپ نشاندہی کر سکتے ہیں ۔(2) اس نکتے میں کسی حد تک وزن ہے لیکن اتنا نہیں جتنا بھاری آپ نے اس کو بنانے کی کوشش کی ہے اور اس کی وجوہات ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے میرے حساب کتاب میں یہ نکتہ اب تک اوجھل تھا، توجہ دلانے کا شکریہ، اس کا جتنا حقیقی وزن ہونا چاہیے اسی حساب سے میں نے اپنےاندازوں میں ترمیم کر لی ہے ۔(3) میری دہائی قرض کے خلاف نہیں ہے، پچھلی ادائیگیوں کی سکت نہ ہونے کے باوجود نئے اور بھاری قرض خریدنے کے خلاف ہے۔ دوسری بات 38 ارب کی رقم بھی حتمی یا طے شدہ نہیں ہے یہ شیخ کے خوش فہمی پر مبنی اندازے ہیں جو نقّادوں کے خدشات کی شدت کو کم کرنے کیلئے ہے جیسے آئی ایم ایف کے معاہدے سے پہلےعالمی بنک سے کسی بات چیت کے بِنا ہی وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے ایک رقم کا انداہ اخبار نویسوں کو دیدیا جس کی عالمی بنک سے فوراً ہی تردید آ گئی تھی ۔(4،5) میں تو مزید لینے کے ویسے ہی خلاف ہوں، یا اگر لینا بھی چاہتا ہوں تو بین الاقوامی سیاسی تعلقات کو استعمال کر کے نسبتاً نرم شرائط پر، تاکہ ہماری ادائیگیوں کی صلاحیت کا اتنا بیڑا غرق نہ ہو جتنا موجودہ کرتا دھرتاؤں نے کر دیا ہے۔ اسلئے بعینہہ مجھے بھی آپ جتنا یقین نہ سہی لیکن اچھا خاصا اعتماد ہے کہ یہ حکومت اور اس کے موجودہ معاشی نابغے ئی ایم ایف کے سامنے نہ لیٹتے تو ڈالر 140 سے 145 کے درمیان ہوتا اور آپ کو پانچ ارب پھینکنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ آپ کی ادائیگیوں کا حجم موجودہ سے کہیں کم ہونا تھا ۔(6) یہاں بھی میں آپ سے جزواً متفق ہوں کہ شریفوں کا کیا دھرا 5 سال تو کیا 10 سال میں بھی صحیح ہو جائے تو غنیمت ہو گی لیکن شریفوں کا کیا دھرا انہی کے رستے پر چل کر کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟؟ اس کیلئے آپ کو ایک مختلف راستے کا حوصلہ درکار تھا جو کہ یہ حکومت نہیں دکھا سکی

    اسی ترتیب سے۔۔

    ۔(۱) میں صرف موجودہ معاشی مسئلے کو سامنے رکھ کر یہ بات نہی کی بلکہ مکمل معاشی صورتِ حال، پیداواری کیپیسٹی، اس کے ذرائع اور مستقبل قریب کی معاشی پیشنگوئیوں کو مدِنظر رکھ کر یہ بات کی ہے۔ جن ممالک کو سامنے رکھ کر میں نے یہ بات کی ہے ان کے معاشی اشارئیے ہم سے کافی بہتر تھے۔ اور جن اعدادوشمار کا میں نے حوالہ دیا ہے ان کا نجی، حکومتی اور بیرونی سرمایہ کاری سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ میرا آپ کو عاجزانہ مشورہ ہے کہ معیشت میں سب کچھ ایک زنجیر کی طرح جڑا ہوتا ہے اس لئے ان چیزوں کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھا کریں۔ اب ذرا سرکار کی ترقیاتی کاموں کی سرمایہ کاری ہی کو لے لیں جو کہ آپ کے لئے بہت اہم ہے۔ جب سرکار کے پاس پیسہ ہی نہی تو وہ ان سولہ سترہ سو ارب (جو کہ وہ اب سالانہ کر رہی ہے) سے زیادہ کیسے کرے گی۔ جبکہ وہ پہلے ہی سے اپنے اخراجات، قرضوں کی سروس، صوبوں کو ۳۰۰۰ ارب دینے کے لئے ڈیفیسٹ میں چل رہی ہے اور قرضے لے کر یہ سب کچھ پورا کر رہی ہے۔ کیا مزید قرضے لے کر سپینڈنگ بڑھائیں یا مزید ٹیکس لے کر جسے کہ آپ عوام کا تیل نکالنے کے مترادف سمجھتے ہیں؟

    .
    ۔(۲) اسے اسی وزن سے اپنے اندازوں میں ترمیم کر لیں جس قدر میں نے بیان کیا ہے۔ اگر سوچ پراجیکٹس میں موجود امپورٹ فیکٹر پر گئی ہے تو عرض ہے کہ اس خریداری کو پہلے ہی سے امپورٹس میں جمع کر لیا گیا ہے۔

    .
    ۔(۳) اگر دہائی قرض پر نہی بلکہ پہلے ہی قرضوں کی ادائیگیوں کی سکت نہ ہوتے ہوئے نئے قرض لینے پر ہے تو پھر دل بڑا کریں اور اب بتا ہی دیں کہ یہ( ۳۸ ہوں یا پچاس ارب ڈالر) ادائیگیاں پھر کیسے کرنی ہیں۔ دوست ملکوں سے، قرض دینے والوں کو کوئی دھمکی دے کر یا ایسے ہی دوسرے ڈھکوسلے تو اس کا کسی صورت بھی جواب نہی ہیں۔ بہت کم ممالک ہیں جو کسی دوسرے ملک کو قرض دے سکیں اور وہ بھی اتنی بڑی رقم کا تو کبھی بھی نہیں اور پھر ان بہت کم ممالک میں سے بھی ہمارے دوست دو یا تین تھے جن سے ہم جس قدر ممکن تھا لے بھی چکے (ان ۳۸ ارب کی ضرورت سے قبل)۔ اور ہاں یہ بھی قرض ہی ہے امداد نہیں۔ اور اگر آپ آسان مالی شرایظ کی بات کریں تو بین القوامی مالیاتی اداروں زیادہ سے سستے اور لمبے ترین عرصے میں واپس ادائیگی والے قرض کوئی دوست ملک بھی کبھی نہی دیتا۔

    .

    ۔(۴ اور ۵) یہ آپ کی چھٹی حس کہتی ہے کہ روپئیہ ۱۴۰ اور ۱۴۵ کے درمیان خود ہی رک جاتا یا کسی کیلکولیشن کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ ۱۶۰ پر بھی کھلا چھوڑنے سے ہی گیا ہے نا کہ اسے دھکیل کر وہاں پہنچایا گیا ہو۔ اور یہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے سے ادائیگیوں کا حجم کیسے کم ہوجانا تھا۔

    .

    ۔(۶) شریفوں کے رستے پر چلتے تو سالانہ ۳۴ ارب چاہیئے ہوتے بلکہ یہ ڈیفیسٹ ۲۱ فیصد کی رفتار سے بڑھنے بھی دیا جاتا تو اس سے بھی زیادہ یعنی پانچ سال میں ۱۵۶ ارب ڈالر قرض لازم ہوتا۔ اور اس رست پر چلتے تو کیا بیرونی ڈیفیسٹ کو ۲۴ ارب سالانہ سے ۱۳ اور اب ۶ کی طرف گامزن ہوتے؟

    .
    بحرحال اس بحث کا آسان طریقہ یہی ہے کہ آپ اگلے تین سال میں تقریبا ۳۸ ارب ڈالر کی ادائیگیوں کا کوئی متبادل (بغیر قرض لئے ) کلئیر رستہ بتا دیں اور ساتھ ہی پندرہ بیس ارب ڈالر مزید بھی تاکہ مارکیٹ میں پھینک کر ڈالر کو نیچے رکھا جا سکے تو یہ بحث ہی ختم ہو جائے۔

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #110

    الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کے ذریعے احترامِ باہمی کو قائم رکھنا ہے اس مکالمے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں آپ اپنا نکتہ تو دوسرے سے کسی نہ کسی طرح منوا لیں لیکن بندہ گنوا دیں

    پرولتاری درویش۔۔۔۔۔

    اِس نکتے پر مَیں ایک باقاعدہ صفحہ بھی بنا چکا ہے کہ میرے نزدیک شخصی احترام اور اُس شخص کی رائے کا احترام دو مختلف شئے ہیں۔۔۔۔۔

    مَیں کچھ انسانوں کا ضرور احترام کرتا ہوں لیکن مَیں اُن ہی انسانوں کی رائے کا احترام نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ اِسی طرح مَیں آپ کا شخصی احترام کروں گا لیکن آپ کی رائے یا نظریات کا احترام نہیں کروں گا۔۔۔۔۔

    البتہ یہ ضرور کہہ دوں کہ مَیں بحث و مباحثہ میں بہت خُشک نہیں ہوتا بلکہ دلائل پر ہلکے پھلکے طنزیہ و مزاحیہ جملے پھینکتا رہتا ہوں۔۔۔۔۔ جو مَیں سمجھتا ہوں کہ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔

    میری ایک بہت گہری دوست ہے جو ایک پکی سوشلسٹ ہے، باقاعدہ لیبر پارٹی کی ممبر ہے، اُس کے نظریات کی شدت کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اُس نے ایک دفعہ مارگریٹ تھیچر پر تھوکنے کی کوشش کی تھی یا تھوک دیا تھا۔۔۔۔۔

    اور میرے معاشی نظریات کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں۔۔۔۔۔

    مَیں اور وہ بہت دفعہ ایسے بحث و مباحثہ کرتے رہتے ہیں، کافی ہیٹڈ آرگومنٹس بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اِس کے باوجود ہماری جو بہت گہری دوستی ہے، وہ اپنی جگہ رہتی ہے۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    پرولتاری درویش
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #111
    پرولتاری درویش۔۔۔۔۔ اِس نکتے پر مَیں ایک باقاعدہ صفحہ بھی بنا چکا ہے کہ میرے نزدیک شخصی احترام اور اُس شخص کی رائے کا احترام دو مختلف شئے ہیں۔۔۔۔۔ مَیں کچھ انسانوں کا ضرور احترام کرتا ہوں لیکن مَیں اُن ہی انسانوں کی رائے کا احترام نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ اِسی طرح مَیں آپ کا شخصی احترام کروں گا لیکن آپ کی رائے یا نظریات کا احترام نہیں کروں گا۔۔۔۔۔ البتہ یہ ضرور کہہ دوں کہ مَیں بحث و مباحثہ میں بہت خُشک نہیں ہوتا بلکہ دلائل پر ہلکے پھلکے طنزیہ و مزاحیہ جملے پھینکتا رہتا ہوں۔۔۔۔۔ جو مَیں سمجھتا ہوں کہ اتنی بڑی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ میری ایک بہت گہری دوست ہے جو ایک پکی سوشلسٹ ہے، باقاعدہ لیبر پارٹی کی ممبر ہے، اُس کے نظریات کی شدت کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اُس نے ایک دفعہ مارگریٹ تھیچر پر تھوکنے کی کوشش کی تھی یا تھوک دیا تھا۔۔۔۔۔ اور میرے معاشی نظریات کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں۔۔۔۔۔ مَیں اور وہ بہت دفعہ ایسے بحث و مباحثہ کرتے رہتے ہیں، کافی ہیٹڈ آرگومنٹس بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن اِس کے باوجود ہماری بہت گہری دوستی ہے، وہ اپنی جگہ رہتی ہے۔۔۔۔۔

    شخصی احترام اور شخص کی رائے کا احترام کے درمیان جو ایک تعلق ہے اس سے بھی ایک مغالطہ جڑا ہے اس پر بھی بات ہونی چاہیے اِس کو بھی اوپر دی گئی فہرست شامل کر لیں، اور اس تعلق کا پہلو یہ ہے کہ رائے میں موجود دلیل کے عنصر کو چھوڑ کر، جب رائے پر رائے طنزیہ یا تضحیک آمیز پیرائے میں دی جائے تو اس طنز یا تضحیک کا نشانہ صرف وہ رائے نہیں رہتی بلکہ اس رائے کہ پیچھے کھڑا شخص بھی بلواسطہ یا /اور نادانستگی میں اس کا نشانہ بن جاتا ہے، لکھنے/کرنے والے کی نظر میں نہ سہی (کیونکہ اسے تو شائد اپنی نیت کا پتا ہو گا) لیکن قاری کی نظر میں ضرور۔ 

    چونکہ آپ مان چکے ہو کہ طنز اور وہ بھی کاٹ دار اور گہرا طنز آپ کی فطرت ہے، اسلئے میری رائے میں آپ کو تو اس نکتے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ آپ کو کس جگہ طنز کرنا اور کس جگہ نہیں کرنا، اور جب کرنا ہے تو کس مقدار میں کرنا،  فطرتاً کرنا ہے یا دانستاً

    میرا ذاتی فی الحال کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ کسی مکالمے میں شرکت  میری صوابدید ہے مجھے لگے گا کہ کسی مخصوص شخص سے مکالمہ کرنا میرئ افتادِطبع یا مزاج کیلئے گراں ہے تو میں اس مکالمے میں شرکت ہی کیوں کروں گا؟ نہ ہی زیرِبحث موضوع پر اب تک کی بات چیت میں کوئی ایسی بات ہوئی جو مجھ پر گراں گذری ہو، اس نکتے کا اظہار فقط  بطور پیش بندی یا کسی احتمال کے پیشِ نظر  تھا

    پرولتاری درویش
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #112
    ایک درویش جو پرولتاری چوغہ پہن کر کنبھ کے میلے میں اشنان کرنے نکلا تھا اسے دنیاوی مال و زر کے حسابی جال نے بورژوازی شکنجے میں جکڑ دیا۔۔۔۔۔ یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ہر اک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی نگاہوں میں الجھن دلوں میں اداسی یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

      :bigsmile:  کاسانووا جی، زہے نصیب کہ آپ کو بھی فرصت ہوئی اور اس بھی بڑھ کر کہ توجہ کا سزاوار جانا

      :)  اگر بورژوائی شکنجے میں جکڑا جائے  تو درویش کیوں کہلائے؟

      :)  ویسے یہ لفظ کنبھ یا کُھمب؟ وضاحت اسلئے چاہی کہ آپ بھی نِک سُک سے درست املاء لکھتے ہیں اور میری اصلاھ ہو جائے

    پرولتاری درویش
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #113
    اسی ترتیب سے۔۔ ۔(۱) میں صرف موجودہ معاشی مسئلے کو سامنے رکھ کر یہ بات نہی کی بلکہ مکمل معاشی صورتِ حال، پیداواری کیپیسٹی، اس کے ذرائع اور مستقبل قریب کی معاشی پیشنگوئیوں کو مدِنظر رکھ کر یہ بات کی ہے۔ جن ممالک کو سامنے رکھ کر میں نے یہ بات کی ہے ان کے معاشی اشارئیے ہم سے کافی بہتر تھے۔ اور جن اعدادوشمار کا میں نے حوالہ دیا ہے ان کا نجی، حکومتی اور بیرونی سرمایہ کاری سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ میرا آپ کو عاجزانہ مشورہ ہے کہ معیشت میں سب کچھ ایک زنجیر کی طرح جڑا ہوتا ہے اس لئے ان چیزوں کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھا کریں۔ اب ذرا سرکار کی ترقیاتی کاموں کی سرمایہ کاری ہی کو لے لیں جو کہ آپ کے لئے بہت اہم ہے۔ جب سرکار کے پاس پیسہ ہی نہی تو وہ ان سولہ سترہ سو ارب (جو کہ وہ اب سالانہ کر رہی ہے) سے زیادہ کیسے کرے گی۔ جبکہ وہ پہلے ہی سے اپنے اخراجات، قرضوں کی سروس، صوبوں کو ۳۰۰۰ ارب دینے کے لئے ڈیفیسٹ میں چل رہی ہے اور قرضے لے کر یہ سب کچھ پورا کر رہی ہے۔ کیا مزید قرضے لے کر سپینڈنگ بڑھائیں یا مزید ٹیکس لے کر جسے کہ آپ عوام کا تیل نکالنے کے مترادف سمجھتے ہیں؟ . ۔(۲) اسے اسی وزن سے اپنے اندازوں میں ترمیم کر لیں جس قدر میں نے بیان کیا ہے۔ اگر سوچ پراجیکٹس میں موجود امپورٹ فیکٹر پر گئی ہے تو عرض ہے کہ اس خریداری کو پہلے ہی سے امپورٹس میں جمع کر لیا گیا ہے۔ . ۔(۳) اگر دہائی قرض پر نہی بلکہ پہلے ہی قرضوں کی ادائیگیوں کی سکت نہ ہوتے ہوئے نئے قرض لینے پر ہے تو پھر دل بڑا کریں اور اب بتا ہی دیں کہ یہ( ۳۸ ہوں یا پچاس ارب ڈالر) ادائیگیاں پھر کیسے کرنی ہیں۔ دوست ملکوں سے، قرض دینے والوں کو کوئی دھمکی دے کر یا ایسے ہی دوسرے ڈھکوسلے تو اس کا کسی صورت بھی جواب نہی ہیں۔ بہت کم ممالک ہیں جو کسی دوسرے ملک کو قرض دے سکیں اور وہ بھی اتنی بڑی رقم کا تو کبھی بھی نہیں اور پھر ان بہت کم ممالک میں سے بھی ہمارے دوست دو یا تین تھے جن سے ہم جس قدر ممکن تھا لے بھی چکے (ان ۳۸ ارب کی ضرورت سے قبل)۔ اور ہاں یہ بھی قرض ہی ہے امداد نہیں۔ اور اگر آپ آسان مالی شرایظ کی بات کریں تو بین القوامی مالیاتی اداروں زیادہ سے سستے اور لمبے ترین عرصے میں واپس ادائیگی والے قرض کوئی دوست ملک بھی کبھی نہی دیتا۔ . ۔(۴ اور ۵) یہ آپ کی چھٹی حس کہتی ہے کہ روپئیہ ۱۴۰ اور ۱۴۵ کے درمیان خود ہی رک جاتا یا کسی کیلکولیشن کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ ۱۶۰ پر بھی کھلا چھوڑنے سے ہی گیا ہے نا کہ اسے دھکیل کر وہاں پہنچایا گیا ہو۔ اور یہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے سے ادائیگیوں کا حجم کیسے کم ہوجانا تھا۔ . ۔(۶) شریفوں کے رستے پر چلتے تو سالانہ ۳۴ ارب چاہیئے ہوتے بلکہ یہ ڈیفیسٹ ۲۱ فیصد کی رفتار سے بڑھنے بھی دیا جاتا تو اس سے بھی زیادہ یعنی پانچ سال میں ۱۵۶ ارب ڈالر قرض لازم ہوتا۔ اور اس رست پر چلتے تو کیا بیرونی ڈیفیسٹ کو ۲۴ ارب سالانہ سے ۱۳ اور اب ۶ کی طرف گامزن ہوتے؟ . بحرحال اس بحث کا آسان طریقہ یہی ہے کہ آپ اگلے تین سال میں تقریبا ۳۸ ارب ڈالر کی ادائیگیوں کا کوئی متبادل (بغیر قرض لئے ) کلئیر رستہ بتا دیں اور ساتھ ہی پندرہ بیس ارب ڈالر مزید بھی تاکہ مارکیٹ میں پھینک کر ڈالر کو نیچے رکھا جا سکے تو یہ بحث ہی ختم ہو جائے۔

    ۔(1) آپ کو یہ کیوں/کہاں لگا کہ میں معاشی عوامل کو ایک دوسرے سے جوڑ کا یا ان کی ایک دوسرے پر اثرپذیری سے صرفِ نظر کر کے دیکھ رہا ہوں؟ میرا تو اپنا گلہ معیشت پر بات کرنے والے بہت سے بلاگرز سے یہی ہے کہ وہ اس عامل سے صرف نظر کرتے ہیں۔ آپ کو شائد یاد ہو میں نے یہاں ہونے والے معاشی تجزئیوں کی دو خامی کی بطورِ خاص نشاندی کی تھی۔

    آپ ان ملکوں کے نام بتانا شائد پھر بھول گئے ہیں جن سے تقابل میں آپ نے اپنے نتائج اخذ کئے

    جب آپ مزید قرض نہیں لیں گے اور موجودہ قرض خواہوں سے مہلت حاصل کر لیں گے تو موجودہ ادائیگیوں کا حجم کم ہو جائے گا اس سے آپ کو ایک مالی مہلت (فسکل سپیس) ملے گی جس سے آپ غیر حکومتی بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری کی غیر موجودگی سرکاری ترقیاتی اخراجات بڑھا سکیں گے

    ۔(2) کسی منصوبے میں درآمدی عنصر کتنا ہو گا یہ میری یا آپ کی صوابدید پر نہیں، اس قرض کی شرائط میں متعین طور پر درج ہوتا ہے جو کسی منصوبے پر آپ کو ملتا ہے، جب ابھی منصوبے ہی طے نہین ہوئے اور ان پر قرض کے معاہدے بھی نہیں ہوئے تو اس عنصر کو مجموعی درآمدات میں کس حساب سے شامل کر لیا گیا ہے؟

    ۔(3) فخر ابراہیم نے عدالت عظمی میں دلیل دی تھی کہ جو آدمی بندوق لے کر بیٹھا ہے آپ اس کا کیا کریں گے؟ اسی طرح جس شخص میں قرض اتارنے کی سکت ہی باقی نہیں بچے گی آپ یا دنیا اس کا کیا کرے گی، خاص طور پر جب اس کے پاس ایٹم بمب بھی ہو (کشمیر/بھارت کیلئے تو اس نے کام نہیں آنا، کوئی اور کام بھی نہیں لیا جا سکتا؟)؟ آپ مجھے 38 یا 50 ارب کا مختلف مدات،  کن مدتوں میں کتنی رقوم کے تحت حساب کتاب وضاحت سے لکھ دیں پھر میں کچھ عرض کرتا ہوں کیونکہ اب آپ نے اس رقم کو 38 سے بڑھا کر 50 کر دیا ہے

    ۔(4،5) میرا اندازہ/کیلکولیشن یہ ہے کہ دوست ملکوں سے امدادی قرض مل چکا تھا، تجارتی خسارہ کم ہو رہا تھا اور پچھلے سال کی مطلوبہ ادائیگیاں ہو چکیں تھیں اور روپئے پر دباؤ یا ڈالر کی طلب کو بڑھانے والے عوامل موجود نہیں رہے تھے۔ آپ کے خیال میں ان سب کا کیا نتیجہ نکلنا چاہیے تھا؟

    ۔(6) جب شریفوں کے رستے کا حوالہ آتا ہے تو ان کے انفرادی، تفصیلی مالی اقدامات کی بات نہیں ہوتی بلکہ جو سمت یا مالی فلسفہ انہوں نے اختیار کئے رکھا، اسی کو اس حکومت نے جاری رکھا

    casanova
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #114
    :bigsmile: کاسانووا جی، زہے نصیب کہ آپ کو بھی فرصت ہوئی اور اس بھی بڑھ کر کہ توجہ کا سزاوار جانا :) اگر بورژوائی شکنجے میں جکڑا جائے تو درویش کیوں کہلائے؟ :) ویسے یہ لفظ کنبھ یا کُھمب؟ وضاحت اسلئے چاہی کہ آپ بھی نِک سُک سے درست املاء لکھتے ہیں اور میری اصلاھ ہو جائے

    درویش جی! کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔۔ آپ جب بھی اپنے درویشی وجدان سے پرولتاری سمویدان پر نگاہ ڈالیں گے خاکسار آپ کے گیان کی چاہ میں وہاں کھڑا نظر آئے گا۔۔۔۔ لفظوں کے فرہنگی اسلوب پر تو مجھ سے کہیں بہتر نظر رکھتے ہیں۔۔ کُمنبھ، کھُمب یا کھُنگ۔۔۔ ان تینوں میں سے کوئی ایک ضرور ہے۔۔۔ :) ۔۔

    Host
    Moderator
    Offline
      #115

      ویسے یہ لفظ کنبھ یا کُھمب؟ وضاحت اسلئے چاہی کہ آپ بھی نِک سُک سے درست املاء لکھتے ہیں اور میری اصلاھ ہو جائے

       کُمنبھ، کھُمب یا کھُنگ۔۔۔ ان تینوں میں سے کوئی ایک ضرور ہے۔۔۔ :) ۔۔

      دو تین کتابوں میں اس لفظ کو کُمبھ پڑھا ہے اسلئے یہی درست معلوم ہوتا ہے۔

      نادان
      Participant
      Offline
      • Expert
      #116
      اللہ میاں کے پاس فلحال کویی فرشتہ فارغ نہیں ہے پوری کی پوری ایک بٹالین نادان جی کے اعمال کا حساب رکھنے پر لگی ہویی ہے کیوں کہ یہ ایک فرشتہ کا کام نہیں ہے :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile: نادان

      مجھے کلین چٹ  دے کر پوری بٹالین اب فارغ ہے .جس کو ضرورت ہے ان سے رجوع  کر لے

      :bigthumb:

      نادان
      Participant
      Offline
      • Expert
      #117
      زندہ رود صاحب، اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ نے خدائی کا دعوی کیا تھا آپ کو کم تر درجہ پر فرشتوں کی کیا حاجت پڑ گئی؟ :thinking: :thinking: :thinking:

      خدائی کے جھوٹے دعوے کرنے والے دو نمبریوں کا یہ ہی حال ہوتا ہے

      :lol:

      Ghost Protocol
      Participant
      Offline
      • Expert
      #118
      مجھے کلین چٹ دے کر پوری بٹالین اب فارغ ہے .جس کو ضرورت ہے ان سے رجوع کر لے :bigthumb:

      نادان جی،
      آپ کی بات درست ہے نیک اعمال والا فرشتہ تو مکھیاں ہی مار رہا ہے باقی بٹالین کو تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں مل رہی

      :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

      Ghost Protocol
      Participant
      Offline
      • Expert
      #119
      خدائی کے جھوٹے دعوے کرنے والے دو نمبریوں کا یہ ہی حال ہوتا ہے :lol:

      اب قہر زندہ رود سے آپ کو کویی نہیں بچا سکتا

      Zinda Rood

      :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

      Zinda Rood
      Participant
      Offline
      • Professional
      #120
      خدائی کے جھوٹے دعوے کرنے والے دو نمبریوں کا یہ ہی حال ہوتا ہے :lol:

      نادان جی۔۔ کچھ خدا کا (میرا) خوف کریں، آپ بھی دہریت کے راستے پر چل نکلیں۔۔ ذرا غور کریں، روز مشرق سے سورج کون نکالتا ہے اور اس کو مغرب میں کون ڈبوتا ہے، کون ہے جو زمین کو لٹو کی طرح سورج کے گرد گھماتا ہے اور کون ہے جو سورج کو غبارے کی طرح خلا میں بلند کئے ہوئے ہے۔۔؟؟؟

    Viewing 20 posts - 101 through 120 (of 125 total)

    You must be logged in to reply to this topic.

    ×
    arrow_upward DanishGardi