Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 118 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    There are some interesting point of view expressed by different people on this thread.   People who are interested can read it on twitter. My question is given a choice, would we want this to happen on the streets of  London, Berlin, Toronto,Paris, New york?

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    میرے خیال سے کوئی بھی جانور ، اوپنلی ذبح نہی ہونا چاہئیں
    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ جانور ۔۔۔۔۔ زبح ہونے اور کھانے کے لیئے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

    چاھے روز مرہ زندگی میں ۔۔۔۔ برگر ۔۔۔ پلاؤ ۔۔۔ بنا کر کھا ئیں ۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔ قربانی کرکے کھائیں ۔۔ ۔۔ یہ ایک انسانی فوڈ ہے ۔۔۔۔ یہ ایک نیچرل ٹروتھ  ہے ۔۔۔۔

    ۔۔۔ دوسری بات ۔۔۔۔ درست ہے کہ ۔۔۔۔ خاص کر پا کستان میں ۔۔۔ اونٹ کو سڑک پر ۔۔۔۔ سرے عام ۔۔۔ زبح کیا جاتا جو ۔۔۔۔ بہت ہی جہالت لگتی ہے ۔۔۔

    اگر ان لوگوں نے اونٹ کو زبح کرنا ہی ہے تو ۔۔۔۔ تمیز اور انسانیت کے دائرے میں آکر کسی مناسب جگہ پر۔۔۔ کرنا چاھیے ۔۔۔۔ گندی نا پا ک سڑک پر کھڑے اونٹ کے گردن پر چھری چلا دیتے ہیں ۔۔۔

    اونٹ بے چارہ گھوم جاتا ہے ۔۔۔۔ چاروں طرف خون ہی خون  بھکر جاتا ہے ۔۔۔۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے ۔۔۔۔

    لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام میں قربانی کے حکم میں کوئی مسئلہ ہے  بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔

    اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ھمارے پا کستان میں لوگ اتنے زیادہ جا ھل اور ۔۔۔ عجیب و غریب دماغ ہوتے ہیں ۔۔۔ وہ اس طرح کی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔

    یہ مذ ھب کا مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔ یہ لوگوں کا زاتی جہا لت کا مسئلہ ہے ۔۔۔۔ ان کے پاس د ما غ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔۔۔

    بھائی ٹھیک ہے قربانی کا حکم ہے ۔۔۔ قربانی کرنی ہے ۔۔۔۔ اگر تمہارے پاس ۔۔۔قربانی کرنے کی جگہ دستیاب نہین ہے او ر تم سڑکوں پر اونٹ کی موت کا تماشہ لگا رھے ہو ۔۔۔

    اس سے تو اچھا ہے تمہارے پاس منا سب جگہ نہیں ہے تو مت کر و ۔۔۔ اتنا بڑا جانور کی قربانی  ۔۔۔۔ چھوٹا بکرا کرلو ۔۔۔۔۔

    ایک اور جا ھلانہ طریقہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ ۔۔۔ گلی میں گائے با ندھیں گے ۔۔۔ گلی میں گائے پیشاب گوبر کرے گی ۔۔۔

    اور پھر اسی گوبر پیشاب کے پاس گندی نالی کے پاس  ہی  ۔۔۔ گائے کو زبح کردیں گے ۔۔۔۔

    او بھائی انسان ہو ۔۔۔ کہ حیوان ہو ۔۔۔۔ اپنی صفائی کا خیال نہیں ہے تم کو تو کم ازکم ۔۔۔ قربانی کے تقد س کا ہی خیال کرلو ۔۔۔۔

    کیا اس طرح گوبر پیشاب کے پاس گندی گلی میں ۔۔۔۔ جا نور کو زبح کرنا ۔۔۔ انسان کو زیب دیتا ہے ۔۔

    ۔۔

    ۔۔۔

    میرے کہنے کا مقصد ۔۔۔ ھمارے لوگوں میں د ما غ کی بہت کمی ہے ۔۔۔۔ ابھی پچھلے دنوں ۔۔۔ انصافیوں اور ن لیگ ۔۔۔ کے بندوں نے ۔۔۔ دو جانوروں کو پیٹ پیٹ کر ادھ موا کردیا ۔۔۔

    یہ سب جہالتیں اور بغیر د ماغ کے عوام کے کا م ہیں ۔۔۔۔ میرے خیال سے یہ لوگ اگر اس کمیونیکشین کے دور میں انسان نہیں بنے ۔۔۔

    یہ کبھی بھی نہیں بنیں گے ۔۔۔۔۔۔۔

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4

    یہ مذہب ہی ہے جو انسانوں سے عقل و فہم، ادراک، رحمدلی، ہمدردی سب کچھ چھین لیتا ہے اور انسان کو ایک چلتا پھلتا روبوٹ بنا دیتا ہے، جس کا کنٹرول اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا، اس روبوٹ سے مذہب کے نام پر کچھ بھی کروایا جاسکتا ہے، جانوروں کے قتلِ عام سے لے کر انسانوں کے قتلِ عام تک، کچھ بھی۔۔ انسانیت کی بھلائی کے لئے مذہب کا سروناش ناگزیر ہے اور یہ ہوکر رہے گا، مغربی ممالک بہت حد تک مذہب سے پیچھا چھڑا چکے ہیں، ترقی پذیر ممالک، بدحال ممالک ابھی تک اس عفریت سے نبردآزما ہیں اور تب تک رہیں گے جب تک ان معاشروں میں بھوک اور جہالت ہے۔۔

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #5

    والبدن جعلنھا لکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر فاذکروا اسم اللہ علیھا صو آف فاذا وجبت جنوبھا فکلوا منھا واطعموا القانع والمعتر کذلک سخرنھا لکم لعلکم تشکرون​

    سورہ حج

    اور قربانی کے اونٹ کو ہم نے تمہارے لئے قدرت الہیہ کا شاہکار بنایا ہے، ان میں تمہارے لئے فائدہ ہے پس انہیں کھڑا کر کے ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لو پھر جب وہ ذبح ہو کر زمین پر گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال نہ کرنے والے اور سوال کرنے والے کو بھی کھلاؤ۔ اسی طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے تا کہ تم شکر ادا کر سکو۔

    جہاں تک میری معلومات ہیں تو اونٹ کی قربانی کا یہی اسلامی طریقہ ہے جو اس صفحہ کی پہلی تصویر میں دکھایا گیا ہے۔۔۔۔۔

    اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اونٹ کی قربانی بغیر کسی شرم کے صحیح اسلامی طریقے سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #6
    گزشتہ بقر عید پر ایک صاحب فرما رہے تھے کہ ایک فارم والے سے انہوں نے دنبہ حلال کرنے کا معاہدہ کیا اور ہاتھ سے چھری پھیرنے پر اصرار کیا عین حلال کرنے سے قبل اسنے اپنا پسٹل نکال کر دنبہ کے سر میں گولی مارنی چاہی تو ان صاحب نے کہا کہ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ ہم نے ہاتھ سے ذبح کرنا ہے فارم کے مالک نے کہا کہ بے شک چھری پھیر دینا مگر میں جانور کی تکلیف کم کرنے کے لئے اسکو گولی ماروں گا
    ہمارے پاکستانی مسلمان بھائی نے اسکو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر فارم کا مالک مان کر نہیں دیا ہمارے پاکستانی بھائی کو لگا گولی ماردی تو قربانی نہیں ہوگی اب کیا کریں
    تصور میں بیگم کا چہرہ آیا جو پردیس میں نا پید تازہ تازہ لیمپ کے کباب بنانے کی تیاریوں میں لگی ہوییں تھیں کچھ احباب کو بھی دعوت دے بیٹھے تھے لےهذا انہوں نے فارم کے مالک کو گولی مارنے کی اجازت دیدی اور بعد میں چھری بھی پھیر دی اور اس بات کی کسی کو ہوا بھی لگنے نہیں دی کہ مبادا احباب کباب کھانے سے انکار نہ کردیں
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #7

    یہ مذہب ہی ہے جو انسانوں سے عقل و فہم، ادراک، رحمدلی، ہمدردی سب کچھ چھین لیتا ہے اور انسان کو ایک چلتا پھلتا روبوٹ بنا دیتا ہے، جس کا کنٹرول اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا، اس روبوٹ سے مذہب کے نام پر کچھ بھی کروایا جاسکتا ہے، جانوروں کے قتلِ عام سے لے کر انسانوں کے قتلِ عام تک، کچھ بھی۔۔ انسانیت کی بھلائی کے لئے مذہب کا سروناش ناگزیر ہے اور یہ ہوکر رہے گا، مغربی ممالک بہت حد تک مذہب سے پیچھا چھڑا چکے ہیں، ترقی پذیر ممالک، بدحال ممالک ابھی تک اس عفریت سے نبردآزما ہیں اور تب تک رہیں گے جب تک ان معاشروں میں بھوک اور جہالت ہے۔۔

    زندہ رود صاحب،
    میرے خیال میں “درندگی” فطرت کا حصہ ہے اور بقا کی جدو جہد کا ایک رخ ہے صرف مذھب کو الزام دینا پورا انصاف نہیں ہوگا – تصور کریں ایک چیتا یا ریچھ اپنی زندگی کی بقا کے لئے کسی ہرن ، موس یا جنگلی بھینسا کے خاندان کے سب سے نو مولود اور کمزور فرد کا انتخاب کرکے اسکا شکار کھیلتے ہیں وہ بیچارہ کسطرح اپنی زندگی کو بچانے کے لئے سر پٹ دوڑنے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور یہ معصوم درندے کس طرح ادھ مویے شکار کے تازہ اور گرم لحم کو مزے لے لے کر نوش فرماتے ہیں
    میں خود بھی جانوروں کو تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا مگر فلحال مجھے اپنی نہاری قورمہ کباب وغیرہ کی رغبت کو کنٹرول کرنا نا ممکن لگتا ہے مگر کیا ہمارا معاشرہ اس موضوع پر گفتگو کے لئے تیار ہے کہ ہم کسطرح جانوروں کو کم سے کم تکلیف پہنچاکر اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں ؟ یا ہم کب تک ہر گلی محلہ میں جانوروں کے ساتھ غیر تربیت یافتہ افراد کا بیہمانہ سلوک ہوتا دیکھ کر اور سخت دباؤ میں اے ہوے جانور کو اپنی بقا میں ہاتھ پیر مارتا دیکھ کر خوشی کا اظھار کرتے رہیں گے ؟

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #8
    زندہ رود صاحب، میرے خیال میں “درندگی” فطرت کا حصہ ہے اور بقا کی جدو جہد کا ایک رخ ہے صرف مذھب کو الزام دینا پورا انصاف نہیں ہوگا – تصور کریں ایک چیتا یا ریچھ اپنی زندگی کی بقا کے لئے کسی ہرن ، موس یا جنگلی بھینسا کے خاندان کے سب سے نو مولود اور کمزور فرد کا انتخاب کرکے اسکا شکار کھیلتے ہیں وہ بیچارہ کسطرح اپنی زندگی کو بچانے کے لئے سر پٹ دوڑنے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور یہ معصوم درندے کس طرح ادھ مویے شکار کے تازہ اور گرم لحم کو مزے لے لے کر نوش فرماتے ہیں میں خود بھی جانوروں کو تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا مگر فلحال مجھے اپنی نہاری قورمہ کباب وغیرہ کی رغبت کو کنٹرول کرنا نا ممکن لگتا ہے مگر کیا ہمارا معاشرہ اس موضوع پر گفتگو کے لئے تیار ہے کہ ہم کسطرح جانوروں کو کم سے کم تکلیف پہنچاکر اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں ؟ یا ہم کب تک ہر گلی محلہ میں جانوروں کے ساتھ غیر تربیت یافتہ افراد کا بیہمانہ سلوک ہوتا دیکھ کر اور سخت دباؤ میں اے ہوے جانور کو اپنی بقا میں ہاتھ پیر مارتا دیکھ کر خوشی کا اظھار کرتے رہیں گے ؟

    Ghost Protocol sahib

    گھوسٹ پروٹوکول صاحب

    آپ کا کیا خیال ہے کے ہمارا معاشرہ اس اور اس جیسے کئی اہم، سنجیدہ اور مشکل موضوعات پر بات کرنے کو تیار ہے کے نہیں

    میرا خیال ہے کے نہیں

    اس محفل کے موضوعات کو ہی دیکھ لیں اور اندازہ کر لیں کے ہم کن موضوعات کو اپنا شرف قبولیت بخشتے ہیں

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #9
    Ghost Protocol sahib گھوسٹ پروٹوکول صاحب آپ کا کیا خیال ہے کے ہمارا معاشرہ اس اور اس جیسے کئی اہم، سنجیدہ اور مشکل موضوعات پر بات کرنے کو تیار ہے کے نہیں میرا خیال ہے کے نہیں اس محفل کے موضوعات کو ہی دیکھ لیں اور اندازہ کر لیں کے ہم کن موضوعات کو اپنا شرف قبولیت بخشتے ہیں

    جے بھیا،
    آپ سے اتفاق ہے عمومی طور پر معاشرہ اس قسم کے موضوع کو ہینڈل کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا- شاید میں اپنے خون کے رشتہ داروں سے بھی اس موضوع پر گفتگو کرنے سے گریز کروں گا اس محفل کی حد تک تو پہل کردی گئی ہے

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #10
    زندہ رود صاحب، میرے خیال میں “درندگی” فطرت کا حصہ ہے اور بقا کی جدو جہد کا ایک رخ ہے صرف مذھب کو الزام دینا پورا انصاف نہیں ہوگا – تصور کریں ایک چیتا یا ریچھ اپنی زندگی کی بقا کے لئے کسی ہرن ، موس یا جنگلی بھینسا کے خاندان کے سب سے نو مولود اور کمزور فرد کا انتخاب کرکے اسکا شکار کھیلتے ہیں وہ بیچارہ کسطرح اپنی زندگی کو بچانے کے لئے سر پٹ دوڑنے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور یہ معصوم درندے کس طرح ادھ مویے شکار کے تازہ اور گرم لحم کو مزے لے لے کر نوش فرماتے ہیں میں خود بھی جانوروں کو تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا مگر فلحال مجھے اپنی نہاری قورمہ کباب وغیرہ کی رغبت کو کنٹرول کرنا نا ممکن لگتا ہے مگر کیا ہمارا معاشرہ اس موضوع پر گفتگو کے لئے تیار ہے کہ ہم کسطرح جانوروں کو کم سے کم تکلیف پہنچاکر اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں ؟ یا ہم کب تک ہر گلی محلہ میں جانوروں کے ساتھ غیر تربیت یافتہ افراد کا بیہمانہ سلوک ہوتا دیکھ کر اور سخت دباؤ میں اے ہوے جانور کو اپنی بقا میں ہاتھ پیر مارتا دیکھ کر خوشی کا اظھار کرتے رہیں گے ؟

    گھوسٹ پروٹوکول صاحب! اگر آپ قدیم دور کے انسان کے حوالے سے بات کریں تو یہ درندگی اور بقاء کی جدوجہد سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ وہ انسان جانور سے زیادہ مختلف نہ تھا، اس کے پاس خوراک کے زیادہ وسائل نہ تھے، اس لئے اسے اپنی بقاء کے لئے گوشت پر انحصار کرنا پڑتا تھا، مگر آج کے انسان کے لئے یہ درست نہیں ہے، آج انسان کو ان گنت ذرائع خوراک میسر ہیں اور اگر وہ گوشت چھوڑ دے تو اسے بالکل بقا کا مسئلہ لاحق نہیں ہوگا۔۔ انسان نے ہزاروں سال کی اجتماعی زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے اورجیسے جیسے انسان زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور معاشی فکر سے آزاد ہوا اسے زندگی کے دیگر معاملات پر غور و فکر کرنے کا وقت ملا، اس کی فکر بلند ہوئی، پہلے انسان صرف اور صرف اپنے ہی بارے میں سوچتا تھا، اس کی سوچ کا مرکز صرف اپنی ذات تھی، اور اس نے اپنی ذات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قسم کے اخلاقی و قانونی اصول و ضوابط تشکیل دیئے، اس کا عکس آپ کو مذاہب میں بھی نظر آتا ہے، کسی مذہب میں جانوروں کے لئے مرنے کے بعد کی زندگی ، جنت ، جہنم کا کوئی ذکر نہیں، قرآن پڑھ کر دیکھ لیں، جانوروں کو انسان کی راحت کا سامان، ان کے لئے سواری اور گوشت خوری کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اس وقت کے انسان کی سوچ ہی اتنی تھی، وہ اس سے آگے بڑھ کر سوچنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا تھا، اس لئے اس نے مذہب میں بھی اسی حد تک درج کیا ہے، مگر آج بہت سے انسان ہیں جو انسان کی ذات کے حصار سے باہر نکل کر جانوروں کے متعلق سوچتے ہیں، ان کی فکر کرتے ہیں، یہ انسان کے ہزاروں سال کے علم اور تہذیبی شعور کا نتیجہ ہے، آپ کو یاد ہوگا بلیک شیپ نے ایک بار قوموں کی اجتماعی یادداشت کا ذکر کیا تھا، میں اس اصطلاح کو مختلف تناظر میں استعمال کررہا ہوں، انسان کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی اجتماعی یادداشت ہے، آج کا انسان جو علم ، جو باتیں صرف چند سال میں سیکھ لیتا ہے، اس علم کے حصول میں انسانوں کو ہزاروں سال لگے، ہزاروں سال تک انسان زمین کو چپٹی سمجھتا رہا، مگر آج ہم سب کے لئے کتنا معمولی سا علم ہے کہ زمین گول ہے، کائنات کی وسعت جاننے سے پہلے انسان زمین کو کتنا بڑا سمجھتا تھا، کائنات کا مرکز سمجھتا تھا، مگر آج یہ کتنی معمولی سی بات ہے ، ہر کوئی جانتا ہے کہ کائنات میں زمین ذرے سے بھی کم تر حیثیت کی مالک ہے، اسی طرح تہذیب و تمدن کے اصول، معاشرتی زندگی کے لئے کیا اچھا ، کیا برا، وہ اخلاقیات جو انسانوں نے ہزاروں سال کی اجتماعی کاوش سے حاصل کی ہیں، یہ وہ اجتماعی یادداشت ہے جو آج ہم پیدا ہونے والے ہر بچے کو چند برسوں میں منتقل کردیتے ہیں، یہ کتنا بڑا خزانہ ہے ، ذرا تصور کیجیے کہ آج اگر کوئی شخص جنگل میں پیدا ہو، آج کی دنیا سے بالکل دور، وہیں پلے بڑھے تو وہ آج کے انسان سے کتنا مختلف ہو اور قدیم دور کے انسان سے کتنا مماثل۔ 

    آج کے تہذیب یافتہ انسان اور قدیم دور کے وحشی انسان میں یہی فرق ہے کہ آج کا انسان جانوروں کے متعلق بھی سوچتا ہے، جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں بھی بن گئی ہیں، تہذیب یافتہ انسان اگر اپنی گوشت خوری پر قابو نہیں پاسکا تو اس نے اتنا ضرور کیا ہے کہ جانور کو انیستھیزیا دے کر یا کم سے کم تکلیف دے کر اپنی گوشت خوری کا سامان کیا ہے، مگر ابھی بھی بہت سے معاشرے ایسے ہیں جن میں قدیم دور کا وحشی انسان زندہ ہے، مذہب کو میں اس لئے موردِ الزام ٹھہراتا ہوں کہ مذہب لاجک، منطق کا قتل کرتا ہے، انسان سے عقل چھین لیتا ہے، اسے آج کے زمانے کی بجائے صدیوں پرانے زمانوں کی طرف دھکیلتا ہے، کسی بھی معاشرے میں جہاں جانوروں کو وحشیانہ طریقوں سے خوراک کا سامان بنایا جاتا ہو، یہ گفتگو ہوسکتی ہے کہ آیا کہ یہ درست ہے یا غلط یا پھر کس طرح جانوروں کی تکلیف کو کم کیا جاسکتا ہے، مگر کیا پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں جانور کو تکلیف دے کر اور تڑپا تڑپا کر مارنا مذہب کا حصہ ہو اور خدا کی خوشنودی کا سامان ہو، کیا کوئی اس کا ذکر بھی چھیڑ سکتا ہےکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے؟ مذہب انسانوں پر گفتگو تک کے دروازے بند کردیتا ہے۔  ہاں جانوروں کے ساتھ اس سلوک کا سارا الزام مذہب کو نہیں دیا جاسکتا ، مگر بقرہ عید کے دن دنیا بھر کے مسلمانوں جانوروں کا جو قتل عام کرتے ہیں، اس کا ذمہ دار پوری طرح مذہب ہی ہے۔ اور جب بقرہ عید کے دن یہ سب کچھ عام روٹین ہے تو عام دن میں کوئی مسلمان کیوں اس کا تردد کرے کہ جانوروں کو کم سے کم تکلیف دے کر جہانِ فانی سے رخصت کیا جائے۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Athar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #11

    یہ مذہب ہی ہے جو انسانوں سے عقل و فہم، ادراک، رحمدلی، ہمدردی سب کچھ چھین لیتا ہے اور انسان کو ایک چلتا پھلتا روبوٹ بنا دیتا ہے، جس کا کنٹرول اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا، اس روبوٹ سے مذہب کے نام پر کچھ بھی کروایا جاسکتا ہے، جانوروں کے قتلِ عام سے لے کر انسانوں کے قتلِ عام تک، کچھ بھی۔۔ انسانیت کی بھلائی کے لئے مذہب کا سروناش ناگزیر ہے اور یہ ہوکر رہے گا، مغربی ممالک بہت حد تک مذہب سے پیچھا چھڑا چکے ہیں، ترقی پذیر ممالک، بدحال ممالک ابھی تک اس عفریت سے نبردآزما ہیں اور تب تک رہیں گے جب تک ان معاشروں میں بھوک اور جہالت ہے۔۔

    یہ لوہار ہی ہے جس نے چھری بنائی

    اس نے انسانیت سوز عمل کیا

    چھری بنانا ہی دراصل فساد کی جڑ ہے

    ارے یار لوہار کو کیوں برا کہتے ہو اُس نے تو چھری بنائی تھی ہمارے فائدے کے لیئے اب کسی نے اگر چھری سے کسی کو قتل کر دیا تو اس میں بنانے والے کا کیا قصور

    نہیں نہیں نہیں میں جو کہہ رہا ہوں کہ چھری ہی نہیں ہونی چاہئے تھی تو بس اسی بات کو مانو کوئی دوسری بات میرے حلق میں اٹک جاتی ہے میرے کان بہرے ہوجاتے ہیں

    مجھے اور کچھ نہیں سننا بس چھری بنانے والے کی برائیاں کیئے جاوووو :yapping:   :yapping:   :yapping:   :yapping:   :yapping: ۔۔۔

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #12
    یہ لوہار ہی ہے جس نے چھری بنائی اس نے انسانیت سوز عمل کیا چھری بنانا ہی دراصل فساد کی جڑ ہے ارے یار لوہار کو کیوں برا کہتے ہو اُس نے تو چھری بنائی تھی ہمارے فائدے کے لیئے اب کسی نے اگر چھری سے کسی کو قتل کر دیا تو اس میں بنانے والے کا کیا قصور نہیں نہیں نہیں میں جو کہہ رہا ہوں کہ چھری ہی نہیں ہونی چاہئے تھی تو بس اسی بات کو مانو کوئی دوسری بات میرے حلق میں اٹک جاتی ہے میرے کان بہرے ہوجاتے ہیں مجھے اور کچھ نہیں سننا بس چھری بنانے والے کی برائیاں کیئے جاوووو :yapping: :yapping: :yapping: :yapping: :yapping: ۔۔۔

    افادیت کے اعتبار سے مذہب کا درجہ اس قدر نیچے ہے کہ اس کا موازنہ چھری کے ساتھ بھی نہیں کیا جاسکتا، چھری کے تو بہت سے مثبت استعمالات ہیں، جبکہ مذہب۔۔۔۔ مذہب  سوائے انسانوں کو تقسیم کرنے، نفرتیں پھیلانے اور عقلوں پر تالے لگانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا، مذہب ہر لحاظ سے ایک نیگیٹیو چیز ہے۔۔۔ 

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13

    افادیت کے اعتبار سے مذہب کا درجہ اس قدر نیچے ہے کہ اس کا موازنہ چھری کے ساتھ بھی نہیں کیا جاسکتا، چھری کے تو بہت سے مثبت استعمالات ہیں، جبکہ مذہب۔۔۔۔ مذہب سوائے انسانوں کو تقسیم کرنے، نفرتیں پھیلانے اور عقلوں پر تالے لگانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا، مذہب ہر لحاظ سے ایک نیگیٹیو چیز ہے۔۔۔

    ہر چیز یا نظریے کی افادیت کا دارومدار اس کے استعمال پر ہے۔ ورنہ تو جمہوریت نے بھی تین چار ملین بندہ صرف پچھلی دو تین دہائیوں میں ہی قتل کر دیا۔

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #14

    گھوسٹ پروٹوکول صاحب! اگر آپ قدیم دور کے انسان کے حوالے سے بات کریں تو یہ درندگی اور بقاء کی جدوجہد سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ وہ انسان جانور سے زیادہ مختلف نہ تھا، اس کے پاس خوراک کے زیادہ وسائل نہ تھے، اس لئے اسے اپنی بقاء کے لئے گوشت پر انحصار کرنا پڑتا تھا، مگر آج کے انسان کے لئے یہ درست نہیں ہے، آج انسان کو ان گنت ذرائع خوراک میسر ہیں اور اگر وہ گوشت چھوڑ دے تو اسے بالکل بقا کا مسئلہ لاحق نہیں ہوگا۔۔ انسان نے ہزاروں سال کی اجتماعی زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے اورجیسے جیسے انسان زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور معاشی فکر سے آزاد ہوا اسے زندگی کے دیگر معاملات پر غور و فکر کرنے کا وقت ملا، اس کی فکر بلند ہوئی، پہلے انسان صرف اور صرف اپنے ہی بارے میں سوچتا تھا، اس کی سوچ کا مرکز صرف اپنی ذات تھی، اور اس نے اپنی ذات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قسم کے اخلاقی و قانونی اصول و ضوابط تشکیل دیئے، اس کا عکس آپ کو مذاہب میں بھی نظر آتا ہے، کسی مذہب میں جانوروں کے لئے مرنے کے بعد کی زندگی ، جنت ، جہنم کا کوئی ذکر نہیں، قرآن پڑھ کر دیکھ لیں، جانوروں کو انسان کی راحت کا سامان، ان کے لئے سواری اور گوشت خوری کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اس وقت کے انسان کی سوچ ہی اتنی تھی، وہ اس سے آگے بڑھ کر سوچنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا تھا، اس لئے اس نے مذہب میں بھی اسی حد تک درج کیا ہے، مگر آج بہت سے انسان ہیں جو انسان کی ذات کے حصار سے باہر نکل کر جانوروں کے متعلق سوچتے ہیں، ان کی فکر کرتے ہیں، یہ انسان کے ہزاروں سال کے علم اور تہذیبی شعور کا نتیجہ ہے، آپ کو یاد ہوگا بلیک شیپ نے ایک بار قوموں کی اجتماعی یادداشت کا ذکر کیا تھا، میں اس اصطلاح کو مختلف تناظر میں استعمال کررہا ہوں، انسان کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی اجتماعی یادداشت ہے، آج کا انسان جو علم ، جو باتیں صرف چند سال میں سیکھ لیتا ہے، اس علم کے حصول میں انسانوں کو ہزاروں سال لگے، ہزاروں سال تک انسان زمین کو چپٹی سمجھتا رہا، مگر آج ہم سب کے لئے کتنا معمولی سا علم ہے کہ زمین گول ہے، کائنات کی وسعت جاننے سے پہلے انسان زمین کو کتنا بڑا سمجھتا تھا، کائنات کا مرکز سمجھتا تھا، مگر آج یہ کتنی معمولی سی بات ہے ، ہر کوئی جانتا ہے کہ کائنات میں زمین ذرے سے بھی کم تر حیثیت کی مالک ہے، اسی طرح تہذیب و تمدن کے اصول، معاشرتی زندگی کے لئے کیا اچھا ، کیا برا، وہ اخلاقیات جو انسانوں نے ہزاروں سال کی اجتماعی کاوش سے حاصل کی ہیں، یہ وہ اجتماعی یادداشت ہے جو آج ہم پیدا ہونے والے ہر بچے کو چند برسوں میں منتقل کردیتے ہیں، یہ کتنا بڑا خزانہ ہے ، ذرا تصور کیجیے کہ آج اگر کوئی شخص جنگل میں پیدا ہو، آج کی دنیا سے بالکل دور، وہیں پلے بڑھے تو وہ آج کے انسان سے کتنا مختلف ہو اور قدیم دور کے انسان سے کتنا مماثل۔

    آج کے تہذیب یافتہ انسان اور قدیم دور کے وحشی انسان میں یہی فرق ہے کہ آج کا انسان جانوروں کے متعلق بھی سوچتا ہے، جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں بھی بن گئی ہیں، تہذیب یافتہ انسان اگر اپنی گوشت خوری پر قابو نہیں پاسکا تو اس نے اتنا ضرور کیا ہے کہ جانور کو انیستھیزیا دے کر یا کم سے کم تکلیف دے کر اپنی گوشت خوری کا سامان کیا ہے، مگر ابھی بھی بہت سے معاشرے ایسے ہیں جن میں قدیم دور کا وحشی انسان زندہ ہے، مذہب کو میں اس لئے موردِ الزام ٹھہراتا ہوں کہ مذہب لاجک، منطق کا قتل کرتا ہے، انسان سے عقل چھین لیتا ہے، اسے آج کے زمانے کی بجائے صدیوں پرانے زمانوں کی طرف دھکیلتا ہے، کسی بھی معاشرے میں جہاں جانوروں کو وحشیانہ طریقوں سے خوراک کا سامان بنایا جاتا ہو، یہ گفتگو ہوسکتی ہے کہ آیا کہ یہ درست ہے یا غلط یا پھر کس طرح جانوروں کی تکلیف کو کم کیا جاسکتا ہے، مگر کیا پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں جانور کو تکلیف دے کر اور تڑپا تڑپا کر مارنا مذہب کا حصہ ہو اور خدا کی خوشنودی کا سامان ہو، کیا کوئی اس کا ذکر بھی چھیڑ سکتا ہےکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے؟ مذہب انسانوں پر گفتگو تک کے دروازے بند کردیتا ہے۔ ہاں جانوروں کے ساتھ اس سلوک کا سارا الزام مذہب کو نہیں دیا جاسکتا ، مگر بقرہ عید کے دن دنیا بھر کے مسلمانوں جانوروں کا جو قتل عام کرتے ہیں، اس کا ذمہ دار پوری طرح مذہب ہی ہے۔ اور جب بقرہ عید کے دن یہ سب کچھ عام روٹین ہے تو عام دن میں کوئی مسلمان کیوں اس کا تردد کرے کہ جانوروں کو کم سے کم تکلیف دے کر جہانِ فانی سے رخصت کیا جائے۔

    گوشت کھانے کا مذہب کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہر قدیم و جدید معاشرہ گوشت کھاتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو یا بلکل بھی کسی خدا کو نہ مانتا ہو۔ یہ ایک قدرتی؍یونیورسل نظام ہے کہ ایک سپیشیز کے لئے دوسری سپیشیز خوراک کا کام دیتی ہے، صرف انسان کو گوشت کھانے سے روکنے سے کام نہیں چلے گا ایک مایئکرو آرگانزم سے لاکھوں اقسام کے انسیکٹس سے مچھلیوں اور جانوروں کے ہاتھوں ہزاروں بلین دوسرے جاندار روزانہ اپنی جان کھوتے ہیں۔ اسی طرح آپ اپنی مثال بھی لے لیں تو روزانہ تقریبا پچیس سے تیس ملین جاندار بیکٹیریا کی جان لیتے ہیں۔ آپ کو بڑے جانور نظر آتے ہیں اس لئے آپ کی سوجھ بوجھ انہیں رجسٹر کرتی ہے ورنہ تو آپ کو آنکھیں بند کرکے ذرا بڑی پکچر دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

    Democrat
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #15
    پتا نہیں یار کیا مسلہ ھے

    جس نے گوشت کھانا ھے کھا لے اور جسکو پسند نہیں وہ نہ کھائے

    اپنی مرضی،خواھش اور سوچ کو دوسرے پر مسلط کرنا بالکل بھی ضروری نہیں

    میں تو سمجھتا ھوں کہ دنیا انسان کے لئے بنائی گئی ھے تاکہ وہ یہاں پرسکون رہ کر اپنے شب وروز گزارے،اللہ نے جو نعمتیں دی ھیں ان سے فائدہ اٹھائے،کھائے پیئے ، مزے کرے اور خدا کا شکر ادا کرے

    لیکن پھر وھی بات زبردستی تو خدا نے نہیں کی جسکا دل ھے وہ نہ کھائے اور اگر اپنی ایک سانس کا شکر ادا کرنا بھی گوارہ نہیں تو کونسا خدا زبردستی کہ رھا کہ شکریہ ادا کرو

    اسکا ایک نظام ھے اور وہ تمام عالم پر بغیر کسی رنگ ونسل اور مذھب کے لاگو ھے تو جس نے اس نظام میں رھتے ھوئے فائدہ اٹھانا ھے اٹھا لے جس نے کسی بھی وجہ سے نہیں اٹھانا وہ بھی موجیں کرے

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #16

     مذہب ہر لحاظ سے ایک نیگیٹیو چیز ہے۔۔۔

    لگتا ہے مذ ھب نے آپ کی خوب بجائی ہے ۔۔۔۔۔۔

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #17
    لگتا ہے مذ ھب نے آپ کی خوب بجائی ہے ۔۔۔۔۔۔

    میرے گلٹی طوطیا مَن موتیا۔۔۔۔۔

    اُوس گلی نہ جا۔۔۔۔۔

    اُوس گلی میں زندہ رُود ہے۔۔۔۔۔

    کہیں آپ کو اسلامی طریقے سے اونٹ سمجھ کر قربان نہ کردے۔۔۔۔

    :cwl:   ;-)   :cwl:

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #18
    ہر چیز یا نظریے کی افادیت کا دارومدار اس کے استعمال پر ہے۔ ورنہ تو جمہوریت نے بھی تین چار ملین بندہ صرف پچھلی دو تین دہائیوں میں ہی قتل کر دیا۔

    جمہوریت میں کہیں نہیں لکھا کہ لوگوں کو قتل کرو، لوگوں کو تقسیم کرو، مذہب میں لکھا ہے ۔۔۔۔

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #19
    گوشت کھانے کا مذہب کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہر قدیم و جدید معاشرہ گوشت کھاتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو یا بلکل بھی کسی خدا کو نہ مانتا ہو۔ یہ ایک قدرتی؍یونیورسل نظام ہے کہ ایک سپیشیز کے لئے دوسری سپیشیز خوراک کا کام دیتی ہے، صرف انسان کو گوشت کھانے سے روکنے سے کام نہیں چلے گا
    گوشت کھانے کا مذہب سے تعلق نہیں، میں لوگوں کو وحشی بنانے میں مذہب کا حصہ بتا رہا ہوں۔۔۔۔
    ایک مایئکرو آرگانزم سے لاکھوں اقسام کے انسیکٹس سے مچھلیوں اور جانوروں کے ہاتھوں ہزاروں بلین دوسرے جاندار روزانہ اپنی جان کھوتے ہیں۔ اسی طرح آپ اپنی مثال بھی لے لیں تو روزانہ تقریبا پچیس سے تیس ملین جاندار بیکٹیریا کی جان لیتے ہیں۔ آپ کو بڑے جانور نظر آتے ہیں اس لئے آپ کی سوجھ بوجھ انہیں رجسٹر کرتی ہے ورنہ تو آپ کو آنکھیں بند کرکے ذرا بڑی پکچر دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

    اگر میں کسی کو قتل کرکے کہوں کہ روزانہ اتنے لوگ مرتے ہیں، کیا ہوا جو ایک میں نے مار دیا، ویسے بھی اس نے ایک دن تو مر ہی جانا تھا۔۔۔ تو آپ کو یہ دلیل کیسی لگے گی؟

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #20
    گوشت کھانے کا مذہب کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہر قدیم و جدید معاشرہ گوشت کھاتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو یا بلکل بھی کسی خدا کو نہ مانتا ہو۔ یہ ایک قدرتی؍یونیورسل نظام ہے کہ ایک سپیشیز کے لئے دوسری سپیشیز خوراک کا کام دیتی ہے، صرف انسان کو گوشت کھانے سے روکنے سے کام نہیں چلے گا ایک مایئکرو آرگانزم سے لاکھوں اقسام کے انسیکٹس سے مچھلیوں اور جانوروں کے ہاتھوں ہزاروں بلین دوسرے جاندار روزانہ اپنی جان کھوتے ہیں۔ اسی طرح آپ اپنی مثال بھی لے لیں تو روزانہ تقریبا پچیس سے تیس ملین جاندار بیکٹیریا کی جان لیتے ہیں۔ آپ کو بڑے جانور نظر آتے ہیں اس لئے آپ کی سوجھ بوجھ انہیں رجسٹر کرتی ہے ورنہ تو آپ کو آنکھیں بند کرکے ذرا بڑی پکچر دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

    شاہد عباسی صاحب۔۔۔۔۔

    میرے خیال میں آپ کا جواب اُس موضوع پر بالکل بھی نہیں ہے جو گھوسٹ صاحب نے اٹھایا ہے اور جس کو زندہ رُود نے بہت ہی عمدہ طریقے سے اپنی تحریر میں اُس کی بنیاد میں موجود عناصر کو آشکار کیا ہے۔۔۔۔۔

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 118 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi