Viewing 20 posts - 21 through 40 (of 155 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #21

    Ironically enough it was the Bengali Muslims who shed their blood and suffered tremendously for the achievement of Pakistan. If not for their immense contribution it may well be possible that Pakistan would never become a reality. Bengal was the only place where the Muslim League was a party with mass support and could hold mammoth rallies. Their commitment to Pakistan was much more than any other province. The Bengalis hoped that in the new nation they would be proud citizens and their great contribution towards the establishment of Pakistan. However their hopes were soon to be dashed.  

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #22

    The Bengalis hoped that in the new nation they would be proud citizens and their great contribution towards the establishment of Pakistan. However their hopes were soon to be dashed.

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #23

    The Punjabi-dominated West Pakistani rulers saw the movement as a sectional uprising against Pakistani national interests and the ideology of Pakistan. West Pakistani politicians considered Urdu a product of Indian Islamic culture, as the dictator Ayub Khan said, as late as in 1967, “East Bengalis… still are under considerable Hindu culture and influence.”

    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #24

    جب تک بے وقوف لوگ موجود ہیں، چورن بکتا رہے گا۔۔۔۔

    جہاں تک میں نے مشاہدہ کیا ہے، مسلمانوں میں ایک خاص قسم کا کیڑا پایا جاتا ہے (فورم کے سب مسلمان بھراؤں سے معذرت کے ساتھ، سچ تو بہرحال کہنا پڑے گا) جو انہیں دوسری قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے نہیں دیتا، یہ دنیا میں کہیں بھی رہیں، اپنے اور دوسروں کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں، ہزار سال تک یہ برصغیر پر حکومت کرتے رہے، چونکہ اس وقت یہ حکمران رہے، ہندو ان کے محکوم تھے، لہذا انہیں ان کے ساتھ حاکم بن کر رہنے میں کوئی پرابلم نہ تھی، مگر جب انگریزوں کی حکومت ختم ہونے کے قریب ہوئی، تو ان کو لگا کہ ہندو جمہوریت میں اکثریت کے بل بوتے پر ان پر حاکم ہوجائیں گے اور ان کا حکمرانی میں حصہ کم ہوگا، لہذا ان کا کیڑا بیدار ہوا اور انہوں نے دو قومی چورن ایجاد کیا کہ ہم دو الگ الگ قومیں ہیں، ہم بھلا ایک ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں، کتنی بڑی واہیات بات ہے کہ صرف مذہب کی بنیاد پر اتنے بڑے خطے میں لکیر کھینچ دی جائے کہ فلاں مذہب والے ادھر آجائیں اور ڈھمکاں مذہب والے لکیر کے اس پار چلے جائیں۔۔۔

    This is actually your eternal love for the Muslims otherwise recent history of the world is a testimony to the contrary, South Sudan, East Timor are two nations where religion was the division motivator and then we saw what happened in Bosia but let me not stop you from Muslim hate mongering, please continue….

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #25

    The catastrophic cyclone on November 12, 1970  killed an estimated 300,000 to 500,000 people. It is known as the deadliest tropical cyclone on record. The callous attitude of the West Pakistani leadership added to the grievances of the Bengalis at that time. At a meeting of the military top brass, Yahya Khan declared: “Kill three million of them and the rest will eat out of our hands.” 

    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #26

    Gulraiz
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #27

    and he is tearing off resolution for seize fire—- what an idiot, following army orders.

    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #28
    Bawa sahib Zinda Rood sahib

    کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان الحاق ایک فطریالحاق تھا یا وقتی مجبوری اور ایک لمحہ کا وہ ملاپ جسے گناہ بے لذت ہوتا ہے

    کیا ١٩٧١ میں جو ہوا اسکی بنیاد ١٩٧١ کے واقعات تھے یا ١٩٤٧ سے غلطیوں پر غلطی

    میں جہاں محترم باوا صاحب کی ان باتوں سے کافی حد اتفاق کرتا ہوں کے “تاریخ سےکوئی سبق نہیں سیکھتا ” اور “تاریخ اپنے کو دہراتی ہے” وہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کے ایک دو اور چیزوں کی طرح تاریخ کے ساتھ اکثر ہم جو کرتے ہیں وہ میری نظر میں انتہائی بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے. ہم تاریخ کو اپنے حساب سے گھڑتے ہیں، اپنی مرضی سے پیش کرتے ہیں، اپنی مرضی سے شروع کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے ختم کرتے ہیں .

    جہاں تک جمہوری برتری کا تعلق ہے تو ڈھاکہ کو دار الخلافہ اور بنگلہ کو سرکاری زبان ہونا چاہیے تھامگر ایسا ہو نہ سکا اور اب یہ عالم کے تو نہیں تیری جستجو بھی نہیں . اگر ضرروت پڑی تو وہ اعداد بھی پیش کرسکتا ہوں جو ظاہر کرتے ہیں کے بنگالی عوام کو ہم نے افسر شاہی اور فوج میں کیا حصہ دیا . ویسے جب جمہوریت صرف سیٹوں کی تعداد تک جمہوریت ہو تو کوئی جمہوریت نہیں چل سکتی اور ہم مزاج اور خیال میں صرف سیٹوں اور ووٹوں کی تعداد کو جمہوریت سمھجتے ہیں.

    میں معزز زندہ رود صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کے مذہب انسانوں کو قوم نہیں بنا سکتا. آج بھی سندھ مبینہ بد عنوان اور ایکنا اہل جماعت کو زبان کا نام پر بار بار اقتدار پر فائز کرتا ہے. آج بھی اردو بولنے والے ہر قسم کے تحفظات کو دور رکھ کر ایم قیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں. آج کے دور میں بھی عوامی نیشنل پارٹی ملکی پارٹی نہیں بن سکی اور اپنی دکان صرف پٹھانوں کے سامنے سجا سکتی ہے . آج بھی بلوچ نام سے بلوچستان میںووٹ ملتے ہیں اور پنجاب میں بلوچستان کے ان انتہائی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیات کو شائد ہی کوئی سو ووٹ دے . ایک جماعت ایک بڑے صوبے میں سیٹیں جیت کر پورے ملک میں حکومت کا قانونی حق تو حاصل کر لیتی ہے مگر جب تک اسکو ملک کے ہر حصے میں پزیرائی نہ ملے تو شائد حکومت کرنا اتنا آسان نہ ہو . جہاں بھٹو کو مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی وہیں عوامی لیگ کو مغربی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی. جب مغربی پاکستان کے عوام مشرقی پاکستان سے ابھرے رہنما کو قبول کرنے کو تیار نہ تھے اور مشرقی پاکستان کسی ایسے رہنما کو جو مغربی پاکستان سے ابھرا ہو تو کہاں ہے متحدہ پاکستان؟

    ہندوستان میں علاقائی جماعتوں کی تعداد اور طاقت میں اضافہ، سری لنکا میں تامل اور سنہالی زبان کے درمیان رسہ کشی نے کیا ستم نہ ڈھایا . زبان عوام کو قریب لاتی ہے نہ کے مذہب .

    فوج کا کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہوتا ہے مگر جب فوج کو اندر اور باہر دونوں جگہہ جنگ لڑنی پڑے تو بہت مشکل ہوتا ہے جنگ جیتنا . اور اگر دیکھا جاۓ تو جب بھی پاکستان میں فوج کے خلاف اگر کوئی آواز اٹھی تو ان صوبوں سے جن کو فوج میں ایک قلیل تعداد میں حصہ ملا. سندھ ہو ، بنگال ہو، بلوچستان ہو یا اب پختونخواہ ہوآواز یہیں سے اٹھی . لاشیں یہی گریں جب پنجاب سے ابھرے وزیر اعظم کے اقتدار کو خطرہ ہوا اور انہوں نے مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہونے کے خطرات سے آگاہ کیا تو کہیں بھی کوئی آواز نہ اٹھی کہیں بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا . نہ سندھ میں نہ بلوچستان میں نے خیبر پختونخواہ میں اور حسب معمول نہ پنجاب میں

    سلام محترم جے بھائی جی

    آپکی باتوں سے اختلاف کرنا تو ممکن نہیں ہوتا ہے لیکن آپ نے کچھ اہم سوالات اٹھائے ہیں انکے غلط یا صحیح جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں

    آپکا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان الحاق ایک فطری الحاق تھا یا وقتی مجبوری اور ایک لمحہ کا وہ ملاپ جسے گناہ بے لذت ہوتا ہے؟

    آپکے اس کا جواب پاکستان کے قیام سے قبل کی تاریخ میں جا کر ڈھونڈنا پڑے گا

    یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کا قیام مسلم لیگ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور پاکستان کے قیام میں قرارداد پاکستان اور انیس سو چھیالیس کے انتخابات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے

    وہ مسلم لیگ جس نے پاکستان بنایا تھا، اسکا قیام کہیں اور نہیں اسی بنگال اور اسی ڈھاکہ شہر میں عمل میں لایا گیا تھا. مسلم لیگ کا قیام عمل میں لانے والا یعنی بانی بھی کوئی اور نہیں ابلکہ اسی ڈھاکہ شہر کا نواب خواجہ سلیم الله تھا. پاکستان کے قیام کی قرار داد بھی ایک بنگالی مولوی اے کے فضل الحق نے ہی پیش کی کی. بات یہیں نہیں رک جاتی ہے. بنگال وہ واحد صوبہ تھا جس کے مسلمانوں نے انیس سو چھپالیس کے انتخابات میں مسلم لیگ کو اٹھانوے فیصد ووٹ دے کر پاکستان کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا تھا

    آپکا دوسرا سوال ہے کہ کیا ١٩٧١ میں جو ہوا اسکی بنیاد ١٩٧١ کے واقعات تھے یا ١٩٤٧ سے غلطیوں پر غلطی؟

    اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد غلطیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ غلطیاں کس نے کی ہیں اور کیا ان غلطیوں کا وہی نتیجہ برآمد ہونا تھا اگر انیس سو ستر میں انتخابات جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کر دیا جاتا؟

    فوج کے ملک پر قبضے اور خصوصا ون یونٹ کے قیام نے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا کیا اور وہ ملک میں فوجی آمریت ہونے کی وجہ سے شریک اقتدار ہونے سے محروم ہو گئے. بنگالی اپنی تمام تر محرومیوں کے باوجود فوج سے نفرت ضرور کرتے تھے لیکن علیحدگی پسند نہیں تھے. بنگال اپنے حقوق اور صوبائی خود مختاری ضرور چاہتے تھے اور یہ اکثریت ہیں ہونے کی وجہ سے انکا حق بھی تھا ان میں کبھی بھی علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں تھی. انیس سو پینسٹھ کے صدارتی انتخابات کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں کہ مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف تمام تر سرکاری مشینری اور میڈیا کے استعمال کے باوجود مشرقی پاکستان کس کے ساتھ کھڑا تھا؟ ڈھاکہ میں تو فاطمہ جناح نے کلین سویپ کیا تھا. تب علیحدگی کی تحریک کہاں تھی؟ بنگلہ دیش کا بانی شیخ مجیب الرحمان تو مادر ملت کا چیف پولنگ آفیسر تھا. یہ وہی شیخ مجیب الرحمان تھا جو اپنی ٹوٹی ہوئی سائیکل پر قیام پاکستان کی حمایت میں گاؤں گاؤں جاتا تھا. مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی آوازیں تب اٹھنہ شروع ہوئی تھیں جب فوجی امر یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں بلایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس بغیر نئی تاریخ دیے ملتوی کر دیا. تب بنگالیوں کو پختہ یقین ہوگیا کہ انکے انتخابات جیتنے کے باوجود فوجی کبھی بھی انہیں اقتدار منتقل نہیں کریں گے. بقول کرنل صدیق سالک شیخ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان میں تعین فوجی جرنیلوں کی منتیں کرتے رہا کہ یحییٰ خان سے قومی اسمبلی کے اجلاس کی نئی تاریخ لے دیں، میں اپنے لوگوں کو کنٹرول کر لوں گا لیکن فوجی جرنیلوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور اقتدار بنگالیوں کے سپرد کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن شروع کر دیا جس کے نتیجے میں بنگالییوں کی واپسی کا راستہ بند ہوگیا

    جہاں تک بنگالی زبان کو قومی زبان اور ڈھاکہ کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کی بات ہے تو اردو زبان کو دو وجوہات کی بنا پر قومی زبان بنایا گیا تھا. ایک تو وجہ یہ تھی زبان برصغیر میں تاریخی و ثقافتی طور پر مسلمانوں کی زبان سمجھتی جاتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اردو پاکستان میں شامل کسی بھی صوبے کی زبان نہیں تھی. اگر کسی ایک صوبے کی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جاتا تو دوسرے صوبے اپنی زبان کو بھی قومی زبان بنانے کا مطالبہ کرنے لگتے جس سے ایک سنگین مسئلہ کھڑا ہو جاتا. ڈھاکہ کو دارالحکومت بنانے کی بات بھی سمجھ سے بالاتر نہیں ہے. کراچی نہ صرف کاروباری مرکز اور بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا. ڈھاکہ کو دارالحکومت بنانے والا مسئلہ کوئی اتنا بڑا نہیں ہے. اگر ملک میں جمہوریت ہوتی اور پارلیمنٹ فیصلہ کرتی تو دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کی بجائے ڈھاکہ میں بھی منتقل ہو سکتا تھا

    آپکی یہ بات تاریخی طور شاید درست نہیں ہے کہ جہاں بھٹو کو مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی وہیں عوامی لیگ کو مغربی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی. حقیقت یہ ہے کہ نہ تو بھٹو نے مشرقی پاکستان میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا کیا تھا اور نہ ہی مجیب الرحمان نے مغربی پاکستان میں اپنا کوئی امید وار نامزد کیا تھا. جب دونوں پارٹیوں کا کوئی امید وار ہی نہ ہو تو عوام کیسے بھٹو کو مشرقی پاکستان میں اور مجیب الرحمان کو مغربی پاکستان میں سیٹ دے سکتے تھے؟ ان حالات کا زمہ دار کون تھا؟ وہ کون تھا جس نے سیاسی پارٹیوں کو کام کرنے سے روک رکھا تھا؟ انتخابات سے پہلے سیاسی پارٹیوں کو انتخانی مہم کیلیے مختصر وقت دیا گیا تھا اور اس مختصر وقت میں ہر سیاسی پارٹی کی یہی کوشش تھی کہ وہ وہیں سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں لینے کی کوشش کرے جہاں اسکا اثر و رسوخ ہے. ملک میں جمہوریت چل رہی ہوتی اور سیاسی پارٹیوں کو پورے ملک میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی آزادی ہوتی تو بھٹو بھی مشرقی پاکستان سے سیٹیں لیتا اور شیخ مجیب الرحمان کے امیدوار بھی مغربی پاکستان سے جیتتے

    جہاں تک مذھب کی بات ہے تو مذھب انسانوں کو اسی وقت جوڑتا ہے جب انسانوں کو مذہب کے مطابق دی گئی آزادی ہو. مذھب نہ بھائی کو اس کے حقوق سے محروم کرنے کی اجازت دیا ہے اور نہ ہمسائے اور دیگر لوگوں کے. مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا الزام مذھب کو دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے. کیا پاکستان سے الگ ہو کر بنگالی مذھب سے بیگانہ ہو گئے ہیں یا وہ مذھب کو انکے حقوق سے محروم کرنے کا زمہ دار سمجھتے ہیں؟ آج بھی بنگالیوں سے ملتا ہوں تو وہ یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ مذھب سے لگاو رکھنے والے ہیں. کسی بنگالی کے دل میں کسی پاکستانی کیلیے نفرت نہیں دیکھی ہے لیکن پاکستانی فوج کو وہ لاکھوں بنگالیوں کا قاتل اور بنگالی خواتین کی عزتوں لوٹنے والے زورو سمجھتے ہیں

    بات وہیں آ کر ختم ہوتی ہے کہ اگر فوجی ملک میں جمہوریت چلنے دیتے، عوام اپنے نمائیندوں کے ذریعے اقتدار میں شریک ہوتی تو کسی بھی صوبے کے لوگوں کو نہ احساس محرومی ہوتا، نہ انکی حق تلفی نہ ہوتی اور نہ ہی کسی کو کسی سے علیحدگی کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی. جب ملک میں آمریت ہو، لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہو، لوگوں کو بولنے اور لکھنے کی آزادی نہ ہو تو صوبوں کے عوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہی ہیں

    آج تک کسی اکثریت کبھی کسی اقلیت سے آزادی حاصل نہیں کی ہے لیکن ہماری فوج کی ہوس اقتدار نے دنیا کی تاریخ میں یہ “کارنامہ” بھی انجام دیا ہے

    انداز بیان گر چہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

    :)

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #29
    باوا جی ٠ ہمیشہ کی طرح ایک بہترین تحریر – ان باتوں کا کافی لوگوں کا علم نہی

    سلام محترم جے بھائی جی آپکی باتوں سے اختلاف کرنا تو ممکن نہیں ہوتا ہے لیکن آپ نے کچھ اہم سوالات اٹھائے ہیں انکے غلط یا صحیح جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں آپکا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان الحاق ایک فطری الحاق تھا یا وقتی مجبوری اور ایک لمحہ کا وہ ملاپ جسے گناہ بے لذت ہوتا ہے؟ آپکے اس کا جواب پاکستان کے قیام سے قبل کی تاریخ میں جا کر ڈھونڈنا پڑے گا یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کا قیام مسلم لیگ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور پاکستان کے قیام میں قرارداد پاکستان اور انیس سو چھیالیس کے انتخابات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے وہ مسلم لیگ جس نے پاکستان بنایا تھا، اسکا قیام کہیں اور نہیں اسی بنگال اور اسی ڈھاکہ شہر میں عمل میں لایا گیا تھا. مسلم لیگ کا قیام عمل میں لانے والا یعنی بانی بھی کوئی اور نہیں ابلکہ اسی ڈھاکہ شہر کا نواب خواجہ سلیم الله تھا. پاکستان کے قیام کی قرار داد بھی ایک بنگالی مولوی اے کے فضل الحق نے ہی پیش کی کی. بات یہیں نہیں رک جاتی ہے. بنگال وہ واحد صوبہ تھا جس کے مسلمانوں نے انیس سو چھپالیس کے انتخابات میں مسلم لیگ کو اٹھانوے فیصد ووٹ دے کر پاکستان کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا تھا آپکا دوسرا سوال ہے کہ کیا ١٩٧١ میں جو ہوا اسکی بنیاد ١٩٧١ کے واقعات تھے یا ١٩٤٧ سے غلطیوں پر غلطی؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد غلطیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ غلطیاں کس نے کی ہیں اور کیا ان غلطیوں کا وہی نتیجہ برآمد ہونا تھا اگر انیس سو ستر میں انتخابات جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کر دیا جاتا؟ فوج کے ملک پر قبضے اور خصوصا ون یونٹ کے قیام نے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا کیا اور وہ ملک میں فوجی آمریت ہونے کی وجہ سے شریک اقتدار ہونے سے محروم ہو گئے. بنگالی اپنی تمام تر محرومیوں کے باوجود فوج سے نفرت ضرور کرتے تھے لیکن علیحدگی پسند نہیں تھے. بنگال اپنے حقوق اور صوبائی خود مختاری ضرور چاہتے تھے اور یہ اکثریت ہیں ہونے کی وجہ سے انکا حق بھی تھا ان میں کبھی بھی علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں تھی. انیس سو پینسٹھ کے صدارتی انتخابات کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں کہ مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف تمام تر سرکاری مشینری اور میڈیا کے استعمال کے باوجود مشرقی پاکستان کس کے ساتھ کھڑا تھا؟ ڈھاکہ میں تو فاطمہ جناح نے کلین سویپ کیا تھا. تب علیحدگی کی تحریک کہاں تھی؟ بنگلہ دیش کا بانی شیخ مجیب الرحمان تو مادر ملت کا چیف پولنگ آفیسر تھا. یہ وہی شیخ مجیب الرحمان تھا جو اپنی ٹوٹی ہوئی سائیکل پر قیام پاکستان کی حمایت میں گاؤں گاؤں جاتا تھا. مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی آوازیں تب اٹھنہ شروع ہوئی تھیں جب فوجی امر یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں بلایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس بغیر نئی تاریخ دیے ملتوی کر دیا. تب بنگالیوں کو پختہ یقین ہوگیا کہ انکے انتخابات جیتنے کے باوجود فوجی کبھی بھی انہیں اقتدار منتقل نہیں کریں گے. بقول کرنل صدیق سالک شیخ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان میں تعین فوجی جرنیلوں کی منتیں کرتے رہا کہ یحییٰ خان سے قومی اسمبلی کے اجلاس کی نئی تاریخ لے دیں، میں اپنے لوگوں کو کنٹرول کر لوں گا لیکن فوجی جرنیلوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور اقتدار بنگالیوں کے سپرد کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن شروع کر دیا جس کے نتیجے میں بنگالییوں کی واپسی کا راستہ بند ہوگیا جہاں تک بنگالی زبان کو قومی زبان اور ڈھاکہ کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کی بات ہے تو اردو زبان کو دو وجوہات کی بنا پر قومی زبان بنایا گیا تھا. ایک تو وجہ یہ تھی زبان برصغیر میں تاریخی و ثقافتی طور پر مسلمانوں کی زبان سمجھتی جاتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اردو پاکستان میں شامل کسی بھی صوبے کی زبان نہیں تھی. اگر کسی ایک صوبے کی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جاتا تو دوسرے صوبے اپنی زبان کو بھی قومی زبان بنانے کا مطالبہ کرنے لگتے جس سے ایک سنگین مسئلہ کھڑا ہو جاتا. ڈھاکہ کو دارالحکومت بنانے کی بات بھی سمجھ سے بالاتر نہیں ہے. کراچی نہ صرف کاروباری مرکز اور بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا. ڈھاکہ کو دارالحکومت بنانے والا مسئلہ کوئی اتنا بڑا نہیں ہے. اگر ملک میں جمہوریت ہوتی اور پارلیمنٹ فیصلہ کرتی تو دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کی بجائے ڈھاکہ میں بھی منتقل ہو سکتا تھا آپکی یہ بات تاریخی طور شاید درست نہیں ہے کہ جہاں بھٹو کو مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی وہیں عوامی لیگ کو مغربی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی. حقیقت یہ ہے کہ نہ تو بھٹو نے مشرقی پاکستان میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا کیا تھا اور نہ ہی مجیب الرحمان نے مغربی پاکستان میں اپنا کوئی امید وار نامزد کیا تھا. جب دونوں پارٹیوں کا کوئی امید وار ہی نہ ہو تو عوام کیسے بھٹو کو مشرقی پاکستان میں اور مجیب الرحمان کو مغربی پاکستان میں سیٹ دے سکتے تھے؟ ان حالات کا زمہ دار کون تھا؟ وہ کون تھا جس نے سیاسی پارٹیوں کو کام کرنے سے روک رکھا تھا؟ انتخابات سے پہلے سیاسی پارٹیوں کو انتخانی مہم کیلیے مختصر وقت دیا گیا تھا اور اس مختصر وقت میں ہر سیاسی پارٹی کی یہی کوشش تھی کہ وہ وہیں سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں لینے کی کوشش کرے جہاں اسکا اثر و رسوخ ہے. ملک میں جمہوریت چل رہی ہوتی اور سیاسی پارٹیوں کو پورے ملک میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی آزادی ہوتی تو بھٹو بھی مشرقی پاکستان سے سیٹیں لیتا اور شیخ مجیب الرحمان کے امیدوار بھی مغربی پاکستان سے جیتتے جہاں تک مذھب کی بات ہے تو مذھب انسانوں کو اسی وقت جوڑتا ہے جب انسانوں کو مذہب کے مطابق دی گئی آزادی ہو. مذھب نہ بھائی کو اس کے حقوق سے محروم کرنے کی اجازت دیا ہے اور نہ ہمسائے اور دیگر لوگوں کے. مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا الزام مذھب کو دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے. کیا پاکستان سے الگ ہو کر بنگالی مذھب سے بیگانہ ہو گئے ہیں یا وہ مذھب کو انکے حقوق سے محروم کرنے کا زمہ دار سمجھتے ہیں؟ آج بھی بنگالیوں سے ملتا ہوں تو وہ یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ مذھب سے لگاو رکھنے والے ہیں. کسی بنگالی کے دل میں کسی پاکستانی کیلیے نفرت نہیں دیکھی ہے لیکن پاکستانی فوج کو وہ لاکھوں بنگالیوں کا قاتل اور بنگالی خواتین کی عزتوں لوٹنے والے زورو سمجھتے ہیں بات وہیں آ کر ختم ہوتی ہے کہ اگر فوجی ملک میں جمہوریت چلنے دیتے، عوام اپنے نمائیندوں کے ذریعے اقتدار میں شریک ہوتی تو کسی بھی صوبے کے لوگوں کو نہ احساس محرومی ہوتا، نہ انکی حق تلفی نہ ہوتی اور نہ ہی کسی کو کسی سے علیحدگی کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی. جب ملک میں آمریت ہو، لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہو، لوگوں کو بولنے اور لکھنے کی آزادی نہ ہو تو صوبوں کے عوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہی ہیں آج تک کسی اکثریت کبھی کسی اقلیت سے آزادی حاصل نہیں کی ہے لیکن ہماری فوج کی ہوس اقتدار نے دنیا کی تاریخ میں یہ “کارنامہ” بھی انجام دیا ہے انداز بیان گر چہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات :)
    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #30

    جب تک بے وقوف لوگ موجود ہیں، چورن بکتا رہے گا۔۔۔۔

    جہاں تک میں نے مشاہدہ کیا ہے، مسلمانوں میں ایک خاص قسم کا کیڑا پایا جاتا ہے (فورم کے سب مسلمان بھراؤں سے معذرت کے ساتھ، سچ تو بہرحال کہنا پڑے گا) جو انہیں دوسری قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے نہیں دیتا، یہ دنیا میں کہیں بھی رہیں، اپنے اور دوسروں کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں، ہزار سال تک یہ برصغیر پر حکومت کرتے رہے، چونکہ اس وقت یہ حکمران رہے، ہندو ان کے محکوم تھے، لہذا انہیں ان کے ساتھ حاکم بن کر رہنے میں کوئی پرابلم نہ تھی، مگر جب انگریزوں کی حکومت ختم ہونے کے قریب ہوئی، تو ان کو لگا کہ ہندو جمہوریت میں اکثریت کے بل بوتے پر ان پر حاکم ہوجائیں گے اور ان کا حکمرانی میں حصہ کم ہوگا، لہذا ان کا کیڑا بیدار ہوا اور انہوں نے دو قومی چورن ایجاد کیا کہ ہم دو الگ الگ قومیں ہیں، ہم بھلا ایک ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں، کتنی بڑی واہیات بات ہے کہ صرف مذہب کی بنیاد پر اتنے بڑے خطے میں لکیر کھینچ دی جائے کہ فلاں مذہب والے ادھر آجائیں اور ڈھمکاں مذہب والے لکیر کے اس پار چلے جائیں۔۔۔

    پھدو بندے ۔۔۔۔۔

    توخود بھی تو مذ ھب کی بناء پر ہی مسلمانوں کا دشمن بنا ہوا ۔۔۔۔۔ ورنہ تیری کو نسی ۔۔۔  بکری ریپ کردی ہے مسلمانوں نے ۔۔۔۔۔۔۔

    مذ ھب ۔۔۔۔ آف کورس ۔۔۔۔زندگی کا سب سے اھم ۔۔۔۔ جز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی کی بیس پر سیاست بھی ہوگی  کاروبار بھی ہوگا ۔۔۔۔ مملکت بھی ہوگی ۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    صحرائی
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #31

    and he is tearing off resolution for seize fire—- what an idiot, following army orders.
    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #32
    اگر بھارت میں کئی قومیں رہ سکتی ہیں تو بنگالی بھی رہ سکتے تھے ہمارے ساتھ مگر ان کی لوکیشن کی وجہ سے ان کا ہمارے ساتھ طویل عرصہ رہنا مشکل تھا – اس دو ٹکرے ہونے میں فوج کے ساتھ بھٹو کا بھی قصور تھا جسے آدھے ملک کا اقتدار منظور تھا مگر پورے ملک کو بچانے کے لئے اقتدار کسی اور کو دینا منظور نہ تھا – کس کس کو کوسیں جہاں سے کپڑا ہٹاتے ہیں خود ہی ننگا ہوتے ہیں – ایک قوم کی حثیت سے ہمارا کردار مثالی نہ تھا کیا فوج اور کیا سیاستدان سب نے بنگالیوں سے زیادتیاں کی اور مسلے کو اتنا آگے جانے دیا کہ بنگالی خود ہی ہمارے خلاف ہو گئے – الله ہمارے باقی ملک کو سلامت رکھے –
    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #33
    یہاں چھوٹے سر والی فکری بیوہ دو قومی نظریے کا سیاپا کرتی پائی گئی ہے

    :hilar: :hilar:   :hilar:

    کیا فکری بیواؤں کو کچھ پتہ بھی ہے کہ دو قومی نظریہ کیا تھا؟ کیا مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے دو قومی نظریے کی نفی ہوئی ہے؟

    فکری بیوہ کی معلومات کے لیے دو قومی نظریے اور اس کے پس منظر پر تھوڑی روشنی ڈال دیتا ہوں

    دو قومی نظریہ انڈین نیشنل کانگریس کے اس دعوے کے جواب میں پیش کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں صرف اور صرف ایک قوم آباد ہے اور وہ قوم ہندو ہے اور باقی سب اسکا حصہ ہیں

    اس کے جواب میں آل انڈیا مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ پیش کرکے اسکی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان کسی لحاظ ہے ہندو قوم کا حصہ نہیں ہیں بلکہ وہ ایک الگ قوم ہیں. ہندوستان میں یہ قوم اسی وقت وجود میں آ گئی تھی جب ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید’ ہے۔ نہ وطن ہے اور نہ نسل۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ اپنی پہلی قوم کا فرد نہیں رہا بلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی قصبہ اور ایک ہی شہرمیں رہنے کے باوجود کسی ایک قوم میں مدغم نہیں ہوسکتے۔ وہ ہمشیہ دو علیحدہ قوموں کی حیثیت سے رہتے چلے آرہے ہیں

    دو قومی نظریے کا تعلق پاکستان سے نہیں بر صغیر کے مسلمانوں سے ہے. دو قومی نظریے نے پاکستان کو جنم دیا لیکن پاکستان نے دو قومی نظریے کو جنم نہیں دیا. پاکستان وجود میں نہ بھی آتا تو بھی دو قومی نظریہ زندہ ہوتا. یہ دو قومی نظریۂ پاکستان بننے سے پہلے بھی موجود تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی موجود ہے. اور اسوقت تک موجود رہے گا جب تک برصغیر میں ایک بھی مسلمان باقی ہے. پاکستان کا قیام یا بنگلہ دیش کا قیام کسی طرح بھی دو قومی نظریۂ ختم نہیں کر سکتا. نہ تو پاکستان بننے سے مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ختم ہوتا ہے اور نہ ہی بنگلہ دیش بننے سے. آج بھی پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ممالک کا سرکاری مذھب اسلام ہے

    http://bdlaws.minlaw.gov.bd/print_sections_all.php?id=367

    بنگلہ دیش بننے سے دو قومی نظریے کے خاتمے کا ذکر کرنے والے بتا سکتے ہیں کہ کیا مشرقی پاکستان کے مسلمانوں نے اپنا الگ وجود ختم کر دیا ہے اور خود کو ہندو قوم کا حصہ تسلیم کر لیا ہے؟ اگر مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کا ہندوؤں سے الگ تشخص قایم ہے تو دو قومی نظریہ زندہ ہے

    کیا آپ کواںدرا گاندھی کا وہ بیان یاد ہے جو اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت دیا تھا؟ کیا اندرا گاندھی کے بیان سے بھی پتہ نہیں چلا کہ دو قومی نظریہ کیا ہے؟

    اندرا گاندھی نے انڈین نیشنل کانگریس کے وہی پرانے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ

    ہم نے دو قومی نظریہ اٹھا کر خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے اور مسلمانوں سے ہزار سال پرانا بدلہ لے لیا ہے

    کیا اندرا گاندھی نے پاکستان کو مخاطب کیا تھا یا برصغیر کے مسلمانوں کو یاد دلایا تھا کہ ہم نے آپ سے ہزار سال پرانا بدلہ لے لیا ہے؟ پاکستان کو تو وجود میں آئے ہوئے ابھی صرف پچیس سال ہوئے تھے، پھر ایک ہزار سال پرانا بدلہ پاکستان سے کیسے ہو سکتا تھا؟

    اندرا گاندھی کے بیان میں کہیں بھی پاکستان کا ذکر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا ذکر ہے. پاکستان قایم ہوئے تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں. اس نے پاکستانیوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہزار سال پرانا بدلہ لینے کا ذکر کیا ہے اور یقینا ہزار سال پہلے پاکستان کا وجود نہ تھا. اندرا گاندھی کے مخاطب پاکستانی نہیں بلکہ مسلمان تھے، وہی مسلمان جو کہتے ہیں کہ ہم ہندو قوم کا حصہ نہیں ہیں اور جنہوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی تھی. اندرا گاندھی کا بیان یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ دو قومی نظریے کا تعلق مسلمانوں سے ہے پاکستان سے نہیں

    مختصر یہ کہ

    دو قومی نظریہ اسی روز وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا اور اسوقت تک زندہ رہے گا جب تک بر صغیر میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #34
    سلام محترم جے بھائی جی آپکی باتوں سے اختلاف کرنا تو ممکن نہیں ہوتا ہے لیکن آپ نے کچھ اہم سوالات اٹھائے ہیں انکے غلط یا صحیح جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں آپکا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان الحاق ایک فطری الحاق تھا یا وقتی مجبوری اور ایک لمحہ کا وہ ملاپ جسے گناہ بے لذت ہوتا ہے؟ آپکے اس کا جواب پاکستان کے قیام سے قبل کی تاریخ میں جا کر ڈھونڈنا پڑے گا یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ پاکستان کا قیام مسلم لیگ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور پاکستان کے قیام میں قرارداد پاکستان اور انیس سو چھیالیس کے انتخابات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے وہ مسلم لیگ جس نے پاکستان بنایا تھا، اسکا قیام کہیں اور نہیں اسی بنگال اور اسی ڈھاکہ شہر میں عمل میں لایا گیا تھا. مسلم لیگ کا قیام عمل میں لانے والا یعنی بانی بھی کوئی اور نہیں ابلکہ اسی ڈھاکہ شہر کا نواب خواجہ سلیم الله تھا. پاکستان کے قیام کی قرار داد بھی ایک بنگالی مولوی اے کے فضل الحق نے ہی پیش کی کی. بات یہیں نہیں رک جاتی ہے. بنگال وہ واحد صوبہ تھا جس کے مسلمانوں نے انیس سو چھپالیس کے انتخابات میں مسلم لیگ کو اٹھانوے فیصد ووٹ دے کر پاکستان کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا تھا آپکا دوسرا سوال ہے کہ کیا ١٩٧١ میں جو ہوا اسکی بنیاد ١٩٧١ کے واقعات تھے یا ١٩٤٧ سے غلطیوں پر غلطی؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد غلطیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ غلطیاں کس نے کی ہیں اور کیا ان غلطیوں کا وہی نتیجہ برآمد ہونا تھا اگر انیس سو ستر میں انتخابات جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل کر دیا جاتا؟ فوج کے ملک پر قبضے اور خصوصا ون یونٹ کے قیام نے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا کیا اور وہ ملک میں فوجی آمریت ہونے کی وجہ سے شریک اقتدار ہونے سے محروم ہو گئے. بنگالی اپنی تمام تر محرومیوں کے باوجود فوج سے نفرت ضرور کرتے تھے لیکن علیحدگی پسند نہیں تھے. بنگال اپنے حقوق اور صوبائی خود مختاری ضرور چاہتے تھے اور یہ اکثریت ہیں ہونے کی وجہ سے انکا حق بھی تھا ان میں کبھی بھی علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں تھی. انیس سو پینسٹھ کے صدارتی انتخابات کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں کہ مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف تمام تر سرکاری مشینری اور میڈیا کے استعمال کے باوجود مشرقی پاکستان کس کے ساتھ کھڑا تھا؟ ڈھاکہ میں تو فاطمہ جناح نے کلین سویپ کیا تھا. تب علیحدگی کی تحریک کہاں تھی؟ بنگلہ دیش کا بانی شیخ مجیب الرحمان تو مادر ملت کا چیف پولنگ آفیسر تھا. یہ وہی شیخ مجیب الرحمان تھا جو اپنی ٹوٹی ہوئی سائیکل پر قیام پاکستان کی حمایت میں گاؤں گاؤں جاتا تھا. مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی آوازیں تب اٹھنہ شروع ہوئی تھیں جب فوجی امر یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں بلایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس بغیر نئی تاریخ دیے ملتوی کر دیا. تب بنگالیوں کو پختہ یقین ہوگیا کہ انکے انتخابات جیتنے کے باوجود فوجی کبھی بھی انہیں اقتدار منتقل نہیں کریں گے. بقول کرنل صدیق سالک شیخ مجیب الرحمان مشرقی پاکستان میں تعین فوجی جرنیلوں کی منتیں کرتے رہا کہ یحییٰ خان سے قومی اسمبلی کے اجلاس کی نئی تاریخ لے دیں، میں اپنے لوگوں کو کنٹرول کر لوں گا لیکن فوجی جرنیلوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور اقتدار بنگالیوں کے سپرد کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن شروع کر دیا جس کے نتیجے میں بنگالییوں کی واپسی کا راستہ بند ہوگیا جہاں تک بنگالی زبان کو قومی زبان اور ڈھاکہ کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کی بات ہے تو اردو زبان کو دو وجوہات کی بنا پر قومی زبان بنایا گیا تھا. ایک تو وجہ یہ تھی زبان برصغیر میں تاریخی و ثقافتی طور پر مسلمانوں کی زبان سمجھتی جاتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اردو پاکستان میں شامل کسی بھی صوبے کی زبان نہیں تھی. اگر کسی ایک صوبے کی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جاتا تو دوسرے صوبے اپنی زبان کو بھی قومی زبان بنانے کا مطالبہ کرنے لگتے جس سے ایک سنگین مسئلہ کھڑا ہو جاتا. ڈھاکہ کو دارالحکومت بنانے کی بات بھی سمجھ سے بالاتر نہیں ہے. کراچی نہ صرف کاروباری مرکز اور بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا. ڈھاکہ کو دارالحکومت بنانے والا مسئلہ کوئی اتنا بڑا نہیں ہے. اگر ملک میں جمہوریت ہوتی اور پارلیمنٹ فیصلہ کرتی تو دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونے کی بجائے ڈھاکہ میں بھی منتقل ہو سکتا تھا آپکی یہ بات تاریخی طور شاید درست نہیں ہے کہ جہاں بھٹو کو مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی وہیں عوامی لیگ کو مغربی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی. حقیقت یہ ہے کہ نہ تو بھٹو نے مشرقی پاکستان میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا کیا تھا اور نہ ہی مجیب الرحمان نے مغربی پاکستان میں اپنا کوئی امید وار نامزد کیا تھا. جب دونوں پارٹیوں کا کوئی امید وار ہی نہ ہو تو عوام کیسے بھٹو کو مشرقی پاکستان میں اور مجیب الرحمان کو مغربی پاکستان میں سیٹ دے سکتے تھے؟ ان حالات کا زمہ دار کون تھا؟ وہ کون تھا جس نے سیاسی پارٹیوں کو کام کرنے سے روک رکھا تھا؟ انتخابات سے پہلے سیاسی پارٹیوں کو انتخانی مہم کیلیے مختصر وقت دیا گیا تھا اور اس مختصر وقت میں ہر سیاسی پارٹی کی یہی کوشش تھی کہ وہ وہیں سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں لینے کی کوشش کرے جہاں اسکا اثر و رسوخ ہے. ملک میں جمہوریت چل رہی ہوتی اور سیاسی پارٹیوں کو پورے ملک میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی آزادی ہوتی تو بھٹو بھی مشرقی پاکستان سے سیٹیں لیتا اور شیخ مجیب الرحمان کے امیدوار بھی مغربی پاکستان سے جیتتے جہاں تک مذھب کی بات ہے تو مذھب انسانوں کو اسی وقت جوڑتا ہے جب انسانوں کو مذہب کے مطابق دی گئی آزادی ہو. مذھب نہ بھائی کو اس کے حقوق سے محروم کرنے کی اجازت دیا ہے اور نہ ہمسائے اور دیگر لوگوں کے. مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا الزام مذھب کو دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے. کیا پاکستان سے الگ ہو کر بنگالی مذھب سے بیگانہ ہو گئے ہیں یا وہ مذھب کو انکے حقوق سے محروم کرنے کا زمہ دار سمجھتے ہیں؟ آج بھی بنگالیوں سے ملتا ہوں تو وہ یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ مذھب سے لگاو رکھنے والے ہیں. کسی بنگالی کے دل میں کسی پاکستانی کیلیے نفرت نہیں دیکھی ہے لیکن پاکستانی فوج کو وہ لاکھوں بنگالیوں کا قاتل اور بنگالی خواتین کی عزتوں لوٹنے والے زورو سمجھتے ہیں بات وہیں آ کر ختم ہوتی ہے کہ اگر فوجی ملک میں جمہوریت چلنے دیتے، عوام اپنے نمائیندوں کے ذریعے اقتدار میں شریک ہوتی تو کسی بھی صوبے کے لوگوں کو نہ احساس محرومی ہوتا، نہ انکی حق تلفی نہ ہوتی اور نہ ہی کسی کو کسی سے علیحدگی کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی. جب ملک میں آمریت ہو، لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہو، لوگوں کو بولنے اور لکھنے کی آزادی نہ ہو تو صوبوں کے عوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہی ہیں آج تک کسی اکثریت کبھی کسی اقلیت سے آزادی حاصل نہیں کی ہے لیکن ہماری فوج کی ہوس اقتدار نے دنیا کی تاریخ میں یہ “کارنامہ” بھی انجام دیا ہے انداز بیان گر چہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات :)

    Bawa sahib

    محترم باوا صاحب

    سلام علیکم

    آپ اختلاف کریں اور کھل کر کریں کینوکہ اختلاف بحث اور گفتگو کا حسن ہے اور دوسرا آپکا علم اور سیاسی بصیرت اور سیاسی امور کے بارے میں علم بہت اعلیٰ ہے اور میں اس معاملے میں صفر لہٰذا آپکی بات چیزوں کو سمجھنے میں سب کی مدد کر سکتی ہے

    یہ سب کو پتا ہے کے پاکستان کی قرارداد کس نے پیش کی اور کہاں کی . اسی طرح مجیب صاحب کی محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ کی حمایت بھی ایک حقیقت ہے . یہ بھی حقیقت ہے کے بنگال نے مسلم لیگ کو انتخابات میں اکثریت دلائی مگر یہ کہیں بھی یہ ثابت نہیں کرتا کے دونوں خطے فطری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے تیار تھے . دونوں خطوں کے درمیان ایک دشمن ملکموجود تھا. دونوں خطوں کی تہذیب، زبان، ثقافت اور تاریخ مختلف تھی . دونوں خطے ہندوستان سے الگ ہونا چاہتے تھے مگر کیا اک ساتھ چلنا چاہتے تھے یہ بات بحث طلب ہے.

    آپ کا کہنا درست ہے کے بھٹو نے مشرقی پاکستان اور مجیب صاحب نے مغربی پاکستان سے امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے . انتخابات کا اعلان نومبر 28 ، 1969 میں ہوا تھا اور انتخاب اکتوبر 5، 1970 میں ہونے تھے جو سیلاب کی وجہ سے دسمبر تک ملتوی ہو گئے . یہ بہت لمبا عرصہ ہے امیدوار ڈھونڈنے اور کھڑا کرنے لے لئے مگر دونوں جماعتیں ایسا نہیں کر سکیں. بھاشانی صاحب کی عوامی لیگ نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا کیونکہ وہ مزید وقت مانگ رہے تھے اور انکے ووٹ بھی مجیب صاحب کو ملے. اسکے برعکس مغربی پاکستان میں دوسری جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا . اگر انتخاب میں مقابلہ ہی نہ ہو تو سیٹیں تو سب اپنی ہوئیں .

    بھٹو اور مجیب صاحب کے درمیان اس بات پر بھی اختلاف تھا کے بھٹو مظبوط وفاق چاہتا تھا اور مجیب صاحب مضبوط صوبے . مجیب صاحب وفاق کی نسبت صوبوں کو مزید اختیارات دینا چاہتے تھے . عجیب ستم ظریفی ہے کے 2013 کی پیپلز پارٹی نے صوبوں کو مزید اختیارات دئیے .

    مجیب صاحب بھارت سے دوستی بڑھانا چاہتے تھے اور بھٹو بھارت کے خلاف تھا

    اردو کو عوامی زبان بنانے کی بات مدلل ہے مگرکیا یہ سیاسی طور پر درست ہے یا نہیں یہ ایک سوال ہے. کراچی کو دارلحکومت بنانا اور پھر مرحوم لیاقت علی خان کو وزیر اعظم بنانا . بنگال کوملی نہ زبان نہ دارلحکومت نہ وزیر اعظم

    کچھ دنوں میں کچھ اعداد اور شمار پیش کروں گا جو شائد یہ ظاہر کر سکیں کے بنگال کے ساتھ پہلے دن سے نا انصافی ہوئی

    سیاست دانوں اور فوج نہ شائد ملک کو توڑا مگر عوام نے بھی تو کچھ نہیں کیا

    Zed
    Participant
    Offline
    • Professional
    #35
    To me this is not a tragedy at all, we are all better off without Bangladesh. Old Pakistan was set up for a failure from the get go, a country geographically separated by its arch nemesis had no chance of survival. It was a tactical defeat by military not a political defeat. If Pakistan shared its boundaries with Bangladesh there was absolutely no chance that it would have gained independence. Mukti Bahni with the help of India played a crucial role in this battle.

    As far as Bangali rights etc are concerned than India is committing far more heinous crimes against Kashmiris and as of right now Kashmir has absolutely no chance of separation or independence because of its geographical connection to India.

    Nawaz Sharif was ousted for his corruption which was exposed in Panama scandal. It’s wrong to claim that Pakistan will disintegrate if something happens to him or pnln. Keep in mind that we (wrongly) hanged a popular PM from a minority province and absolutely nothing happened. ( I am all for repeating this practice, this time with the PM of hearts from a majority province and see what happens, my bet is on absolutely nothing will happen).  :bigsmile:

    Altaf bhai would have been the best specimen for repeating the Bhutto experiment but unfortunately he is in UK. Hypothetically if Altaf was hanged by Pakiatani courts, would Karachi separate from Pakistan? I think absolutely not!!

    :lol:

    #achasorry

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Shah G
    Participant
    Offline
    • Professional
    #36
    سنی اکثریت بنگالیوں نے سنی پاکستانیوں کے منہ پر کالک ملتے ہوئے ہندووں کی گود میں بیٹھنا پسند کیا . لہٰذا ثابت ہوا کہ سنی کوئی قوم نہیں بلکے ایک مفاد پرست گروہ ہے
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #37
    This is actually your eternal love for the Muslims otherwise recent history of the world is a testimony to the contrary, South Sudan, East Timor are two nations where religion was the division motivator and then we saw what happened in Bosia but let me not stop you from Muslim hate mongering, please continue….

    جی او جی صاحب۔۔۔ میں مسلمانوں کے خلاف نہیں ہوں، میں تو صرف حقائق بیان کررہا ہوں، میں یہ بھی مانتا ہوں کہ مذہبی انتہا پسندی، مذہب کے نام پر منافرت صرف مسلمانوں میں ہی نہیں دیگر مذاہب کے لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن جب میں مسلمانوں کا موازنہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ کرتا ہوں تو مسلمانوں کا رتبہ مجھے کافی بلند نظر آتا ہے، میں نے پچھلے تبصرے میں جس کیڑے کا ذکر کیا تھا، اس کو مسلمانوں کے روحانی لیڈر حضرتِ اقبال نے بھی پہچان لیا تھا، ملاحظہ کیجئے حضرتِ اقبال کے الفاظ میں

    خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

    حضرتِ اقبال کے الفاظ میں یہ قوم اپنی ترکیب میں خاص ہے اور میں بھی اسی خصوصیت کا تذکرہ کررہا ہوں۔ میں اور اقبال جس ترکیبِ خاص کا ذکر کرتے ہیں، اس کی تعلیم آپ کے دین میں ہی موجود ہے، مسلمانوں میں یہ جو آخری مذہب ، آخری قوم کا تصور ہے، صرف خود کو سچا اور دوسروں کو غلط اور جھوٹا سمجھنے کا خناس ہے، یہ ان میں ایک خاص قسم کا احساسِ برتری پیدا کرتا ہے، جس کے زیرِ اثر وہ دیگر قوموں کو اپنے سے الگ اور حقیر جانتے ہیں اور یہ وائرس مسلمانوں میں انفرادی سطح پر پایا جاتا ہے، اس لئے زیادہ گھاتک ہے۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #38
    پھدو بندے ۔۔۔۔۔ توخود بھی تو مذ ھب کی بناء پر ہی مسلمانوں کا دشمن بنا ہوا ۔۔۔۔۔ ورنہ تیری کو نسی ۔۔۔ بکری ریپ کردی ہے مسلمانوں نے ۔۔۔۔۔۔۔ مذ ھب ۔۔۔۔ آف کورس ۔۔۔۔زندگی کا سب سے اھم ۔۔۔۔ جز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی کی بیس پر سیاست بھی ہوگی کاروبار بھی ہوگا ۔۔۔۔ مملکت بھی ہوگی ۔۔۔۔

    میری بے وقوف مخلوق۔۔۔ مذہب بیشتر لوگوں کی اپنی چوائس نہیں ہوتا، تم خود ہی سوچو، اگر میں تمہیں مسلمان گھرانے میں پیدا کرنے کی بجائے امیزون کے جنگل میں پیدا کردیتا تو تم آج ننگے نہ گھوم رہے ہوتے اور مذہب کے نام تک سے واقف نہ ہوتے۔۔۔؟؟

    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #39
    Bawa sahib

    محترم باوا صاحب

    سلام علیکم

    آپ اختلاف کریں اور کھل کر کریں کینوکہ اختلاف بحث اور گفتگو کا حسن ہے اور دوسرا آپکا علم اور سیاسی بصیرت اور سیاسی امور کے بارے میں علم بہت اعلیٰ ہے اور میں اس معاملے میں صفر لہٰذا آپکی بات چیزوں کو سمجھنے میں سب کی مدد کر سکتی ہے

    یہ سب کو پتا ہے کے پاکستان کی قرارداد کس نے پیش کی اور کہاں کی . اسی طرح مجیب صاحب کی محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ کی حمایت بھی ایک حقیقت ہے . یہ بھی حقیقت ہے کے بنگال نے مسلم لیگ کو انتخابات میں اکثریت دلائی مگر یہ کہیں بھی یہ ثابت نہیں کرتا کے دونوں خطے فطری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے تیار تھے . دونوں خطوں کے درمیان ایک دشمن ملکموجود تھا. دونوں خطوں کی تہذیب، زبان، ثقافت اور تاریخ مختلف تھی . دونوں خطے ہندوستان سے الگ ہونا چاہتے تھے مگر کیا اک ساتھ چلنا چاہتے تھے یہ بات بحث طلب ہے.

    آپ کا کہنا درست ہے کے بھٹو نے مشرقی پاکستان اور مجیب صاحب نے مغربی پاکستان سے امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے . انتخابات کا اعلان نومبر 28 ، 1969 میں ہوا تھا اور انتخاب اکتوبر 5، 1970 میں ہونے تھے جو سیلاب کی وجہ سے دسمبر تک ملتوی ہو گئے . یہ بہت لمبا عرصہ ہے امیدوار ڈھونڈنے اور کھڑا کرنے لے لئے مگر دونوں جماعتیں ایسا نہیں کر سکیں. بھاشانی صاحب کی عوامی لیگ نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا کیونکہ وہ مزید وقت مانگ رہے تھے اور انکے ووٹ بھی مجیب صاحب کو ملے. اسکے برعکس مغربی پاکستان میں دوسری جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا . اگر انتخاب میں مقابلہ ہی نہ ہو تو سیٹیں تو سب اپنی ہوئیں .

    بھٹو اور مجیب صاحب کے درمیان اس بات پر بھی اختلاف تھا کے بھٹو مظبوط وفاق چاہتا تھا اور مجیب صاحب مضبوط صوبے . مجیب صاحب وفاق کی نسبت صوبوں کو مزید اختیارات دینا چاہتے تھے . عجیب ستم ظریفی ہے کے 2013 کی پیپلز پارٹی نے صوبوں کو مزید اختیارات دئیے .

    مجیب صاحب بھارت سے دوستی بڑھانا چاہتے تھے اور بھٹو بھارت کے خلاف تھا

    اردو کو عوامی زبان بنانے کی بات مدلل ہے مگرکیا یہ سیاسی طور پر درست ہے یا نہیں یہ ایک سوال ہے. کراچی کو دارلحکومت بنانا اور پھر مرحوم لیاقت علی خان کو وزیر اعظم بنانا . بنگال کوملی نہ زبان نہ دارلحکومت نہ وزیر اعظم

    کچھ دنوں میں کچھ اعداد اور شمار پیش کروں گا جو شائد یہ ظاہر کر سکیں کے بنگال کے ساتھ پہلے دن سے نا انصافی ہوئی

    سیاست دانوں اور فوج نہ شائد ملک کو توڑا مگر عوام نے بھی تو کچھ نہیں کیا

    و علیکم السلام محترم جے بھائی جی

    علم کے معاملے میں تو میں آپکے سامنے طفل مکتب ہوں اور ہمیشہ آپ سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں

    جہاں تک آپکی اس بات کا تعلق ہے کہ دونوں خطے فطری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے تیار تھے یا نہیں اور دونوں خطوں کے درمیان ایک دشمن ملک موجود تھا اور پھر دونوں خطوں کی تہذیب، زبان، ثقافت اور تاریخ بھی مختلف تھی تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ کیا بنگالی اس حقیقت سے بے خبر تھے جب وہ قرار داد پاکستان پیش کر رہے تھے یا جب وہ سارے کے سارے متفقہ طور پر پاکستان کے قیام کیلیے مسلم لیگ کو ووٹ دے رہے تھے یا پھر پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے بانی کی بہن کی حمایت میں فوجی آمریت کے خلاف سینے تان کر کھڑے تھے؟ بنگالی کبھی بھی علیحدگی نہیں چاہتے تھے جب تک ان کو یہ پختہ یقین نہیں ہوگیا تھا کہ فوجی انہیں کبھی بھی انکے حقوق نہیں دیں گے. کیا قومی اسمبلی کا اجلاس بغیر تاریخ دیے ملتوی کرنے سے پہلے کبھی ان میں علیحدگی کے آثار نظر آئے تھے؟ ڈھاکہ اسی دن مقتل گاہ بنا تھا جس دن یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا تھا اور پھر پاکستان کے تابوت میں آخری کیل فوجیوں نے معاملے کا سیاسی حل نکالنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن شروع کرکے اور شہروں کے شہر مقتل گاہ بنا کر ٹھونک دی تھی. اس کے بعد بنگالیوں نے جو فوجیوں کے ساتھ پلٹن گراونڈ میں کیا وہ سب کے سامنے ہے

    آپ نے لکھا ہے کہ انتخابات کا اعلان نومبر 28 ، 1969 میں ہوا تھا اور انتخاب اکتوبر 5، 1970 میں ہونے تھے اور یہ بہت لمبا عرصہ تھا امیدوار ڈھونڈنے اور کھڑا کرنے لے لئے. یہ کوئی دس ماہ کا عرصۂ بنتا ہے جس میں چند ماہ سیلات کی تباہ کاریوں کی نذر بھی ہو گئے تھے. اس سے پہلے سیاسی سر گرمیوں پر پابندی تھی. نہ تحریر کی آزادی تھی اور نہ ہی تقریر کی اور پھر یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ کبھی انتخابات ہونگے بھی یا نہیں کیونکہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک ایک طویل عرصۂ سے پاکستان میں عام انتخابات ہوئے ہی نہیں تھے؟ پھر یہ بھی یقین نہیں تھا کہ اگر انتخابات ہوتے بھی ہیں تو کس قسم کے ہونگے؟ کیا جنرل ایوب خان کی طرح پھر کوئی فوجی آمر زبردستی خود کو صدر منتخب کروا لے گا؟ پھر اس غیر یقینی صورتحال کے ساتھ دونوں حصوں میں ایک ہزار میل کی دوری کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کو ملک کے دونوں حصوں میں سرگرمیاں جاری رکھنا اور دونوں حصوں کی عوام تک اپنا پروگرام پہنچانا بھی ممکن نہیں تھا. انتخابی سرگرمیوں کیلیے دفاتر بنانے پڑتے ہیں، جلسے کرنے پڑتے ہیں، مناسب پارٹی عہدیدار اور انتخابات لڑنے کے قابل امید وار ڈھونڈنے پڑتے ہیں. آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مجیب نے مشرقی پاکستان میں سیٹیں اور بھٹو نے مغربی پاکستان میں سیٹیں صرف انہی نو دس ماہ کی انتخابی مہم چلا کر لی ہیں؟

    رہی بات بھٹو اور مجیب الرحمان کے اختلافات کی تو سیاسی پارٹیوں کے منشور اور نظریات مختلف ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے. یہ فیصلہ تو ملک کے عوام کرتے ہیں کہ وہ وفاق کو مضبوط بنانے والی پارٹی کو پسند کرتے ہیں یا صوبائی خود مختاری کی حمایت کرنے والی پارٹی کو ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں. کس ملک کے ساتھ تعلقات کیسے رکھنے ہیں، یہ اختیار بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارٹی کا ہی ہے. اگر کوئی پارٹی عوام کی توقع کے خلاف کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس پارٹی کو مسترد کرنے کا اختیار بھی عوام کے پاس ہے. پاکستان کی تقدیر کے فیصلے تو فوجی آمر تن تنہا کرتے رہے ہیں اور عوام کا ان فیصلوں میں کہیں عمل دخل ہی نہیں تھا. جب سیاسی سرگرمیاں نہ ہوں، ملک میں سنسر شپ کا نفاذ ہو، ایک حصے کی عوام ملک کے دوسرے حصے کی عوام سے کٹی ہوئی ہو تو آپ نہ تو سیاسی پارٹیوں اور نہ ہی عوام کو الزام دے سکتے ہیں

    فوجی ملک پر قابض نہ ہوتے، جمہوریت چلتی رہتی، عوام اور انکے منتخب لوگوں کو فیصلے کرنے کا اختیار ہوتا تو بنگال سے وزیر اعظم بھی آ سکتا تھا، بنگالی قومی زبان بھی بن سکتی تھی اور ڈھاکہ پاکستان کا دارالحکومت بھی بن سکتا تھا کیونکہ پالیمانی جمہوریت میں تمام فیصلے کرنے کا اختیار عوام کے منتخب نمائیندوں کے پاس ہوتا ہے

    مختصر طور پر یہی کہوں گا کہ جن فوجیوں کو ہم نے اس گھر کی حفاظت اور رکھوالی کیلیے رکھا تھا وہ گھر کر قبضہ کرکے اسلحے اور بدمعاشی کے زور پر نہ صرف گھر کے مالک بن بیٹھے بلکہ گھر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کیلیے گھر دو لخت بھی کر دیا ہے. بنگالیوں نے تو ان دہشتگرد قاتلوں اور عزتوں کے لٹیروں کے ساتھ پلٹن گراونڈ والی کرکے آزادی حاصل کر لی ہے لیکن ہمیں ابھی ان فوجیوں کے ساتھ قذافی سٹیڈیم والی کرکے کرنل قذافی کے انجام کو پہنچانا ہے

    :)

    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #40
    قوم نے دہشت گردی کی وہ قیمت ادا کی جس کا تخمینہ نہیں لگاسکتے، آرمی پبلک سکول کے شہداء کو نہیں بھولے، صدر، وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر، آرمی چیف

    کیا فوجی آرمی پبلک سکول کے ڈیڑھ سو معصوم بچوں اور اساتذہ کی جانیں لیکر قوم کی توجہ پلٹن گراونڈ والی سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟

    آج کسی اخبار میں نہ تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر کسی فوجی، حکومتی اور سیاسی شخصیت کا کوئی بیان نظر آیا ہے اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل پر کسی فوجی، حکومتی اور سیاسی شخصیت کی طرف سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق سیکھنے کی کوئی بات کی گئی ہے

    لگتا ہے آرمی پبلک سکول کے بچوں اور اساتذہ کی “قربانی” رنگ لائی ہے اور فوج آج کے دن دکھائی جانے والی بے غیرتی اور بزدلی سے توجہ ہٹانے میں بظاہر کامیاب رہی ہے

Viewing 20 posts - 21 through 40 (of 155 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi