Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 155 total)
  • Author
    Posts
  • Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    آج یوم پلٹن گراونڈ والی ہے

    آج کے دن فوجی جرنیلوں نے اقتدار کی ہوس میں حکومت انتخابات جیتنے والی پارٹی کے سپرد کرکے واپس بیرکوں میں چلے جانے کی بجائے اقتدار کی ہڈی اپنے گندے منہ سے نہ چھوڑنے کی پاداش میں نہ صرف ملک دو لخت کروایا تھا بلکہ پچانوے ہزار کی تعداد میں دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے والی ذلت و رسوائی کا داغ بھی اپنے ماتھے پر لگوایا تھا

    تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ہے

    سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد توقع تھی کہ فوج نے پلٹن گراونڈ میں ذلیل و خوار ہو کر کوئی سبق سیکھا ہوگا اور اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنے سے توبہ کر لی ہوگی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور اقتدار کی ہوس فوج کے ذہن سے نہ نکل سکی. فوج آج بھی اسی طرح اقتدار پر قابض ہے، کبھی براہ راست مارشل لا لگا کر اور کبھی پس پردہ رہ کر منتخب حکومتوں کے خلاف سازشیں کرکے اور انہیں گرا کر بر سر اقتدار ہے. فوج کی تاریخی ذلت و رسوائی اور دشمن کی قید بھی فوجیوں کی سوچ نہیں بدل سکی ہے

    تاریخ کا دوسرا سبق یہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے

    آج بھی ملک پر فوج قابض ہے. آج بھی ملک میں پارلیمنٹ کی بجائے فوج کی بالادستی ہے. آج بھی جوڈیشری فوج کی لونڈی بنی ہوئی ہے. آج بھی ملکی معاملات منتخب سیاسی حکومتوں کی بجائے ملاں، ملٹری، جوڈیشری اور میڈیا الائنس ہی چلا رہا ہے. آج بھی عوام کے منتخب نمائندے غدار قرار پا رہے ہیں. آج بھی فوجی اور سول ایجنسیوں کے ذریعے شہریوں کو اغوا کرکے قتل کیا جا رہا ہے. آج بھی ملک دشمن عناصر کے خلاف ملٹری آپریشن کے نام پر شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے اور محلوں کے محلے بمباری کرکے مسمار کیے جا رہے ہیں. آج بھی جن علاقوں میں ملٹری آپریشن جاری ہے وہاں میڈیا کو رسائی نہیں دی جا رہی ہے. آج بھی ملک کے اکثر علاقوں پر فوج کا کنرکنترول ہے. آج بھی فوجی عدالتیں فیصلے کر رہی ہیں

    کل آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلیے ملٹری آپریشن کیا گیا تھا اور اب آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلیے جوڈیشل آپریشن کیا گیا ہے. کل ملک کے سب سے بڑے صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کرنے پر فوجیوں کے بوٹ چاٹنے والوں نے خوشیاں منائی تھیں اور کہا گیا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچا لیا گیا ہے اور اب ملک کے سب سے بڑے صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کے خلاف ملٹری و جوڈیشل آپریشن کرنے پر فوجیوں کے بوٹ چاٹنے والے خوشیاں منا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچا لیا گیا ہے. کل ملک کے سب سے بڑے صوبے کی سب سے بڑی پارٹی فتح یاب ہوئی تھی اور ملٹری آپریشن کرنے والے ڈھاکہ کے پلٹن گراونڈ میں ذلیل و خوار ہوئے تھے اور اب پھر ملک کے سب سے بڑے صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کے خلاف ملٹری و جوڈیشل آپریشن کرنے والوں کا منہ کالا ہوگا. حقیقت اسوقت بھی سامنے آنے میں دیر نہیں لگی تھی اور حقیقت اب بھی سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی. عوام کے فیصلے تسلیم نہ کرنے سے اور عوام کی منتخب قیادت کو جیلوں میں ڈال کر شخصی اور سازشی فیصلے زبردستی عوام پر مسلط کرنے سے نہ صرف تاریخ بدل جاتی ہے بلکہ جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے

    میں کچھ لوگوں کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ فوج تو جو کر رہی ہے وہ ستر سالوں سے ہمارے سامنے ہے لیکن سیاستدان جو کچھ کر رہے ہیں، ان سے بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتی ہیں. ایک سیاستدان فوج کی گود سے اٹھتا ہے تو دوسرا جا کر بیٹھ جاتا ہے. گویا فوج کی گود میں بیٹھنے والوں کی بھی باریاں لگی ہوئی ہیں. جب اقتدار چھنتا ہے تو سیاستدانوں کو جمہوریت یاد آ جاتی ہے اور جب اقتدار لینا ہوتا ہے تو فوج کے بوٹ چاٹنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی ہے. سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ ایسے دست و گریباں ہوتے ہیں جیسے بھوکے کتے ہڈی حاصل کرنے کیلیے ایک دوسرے پر پورا منہ کھول کر بھونکتے اور اچھل اچھل کر حملے کرتے ہیں. جب سیاستداں اسقدر پستی میں گرے ہوں تو کون آئین، پارلیمنٹ، سویلینز اور حکومت کی بالادستی کو مانے گا؟ پھر وہی ہوگا جو اس وقت ہو رہا ہے. فوج، عدلیہ، میڈیا اور مسلح مذہبی گروپس سب مل کر پارلیمنٹ کی بالادستی کو تہس نہس کر دیں گے اور سیاستدان کتوں کی طرح اقتدار کی ہڈی پر لڑتے رہ جائیں گے. سیاستدانوں نے اپنے طور طریقے نہ بدلے تو وہ دن دور نہیں جب پارلیمنٹ میں بھی سیاست دانوں کی سیٹوں پر فوجی، ججز، حوالدار انکرز اور مذہبی دہشتگرد بیٹھے ہونگے

    اس بات میں کافی وزن ہے کہ جمہوری حکمرانوں نے حکمرانی کی کوئی اچھی مثالیں قائم نہیں کی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں صحیح معنوں میں جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں ہے. فوج نے قیام پاکستان کے فوری بعد سے ملک اور حکومت پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے. کبھی یہ براہ راست حکومت کر رہی ہوتی ہے اور کبھی پس پردہ رہ کر. فوج نے ملک میں جمہوریت کو کبھی چلنے ہی نہیں دیا ہے اور اسکے نتیجے میں خالص سیاسی ذہن رکھنے والے لوگ جنم نہیں لے سکے ہیں. جن سیاستدانوں کو بنیاد بنا کر فوج کی سیاست میں مداخت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کر رہے ہیں وہ بھی اصل میں فوج کی بھٹی سے نکلے ہوئے ہی سیاست دان ہیں. جب کوئی نیم جمہوری حکمران پر نکالنے لگتا ہے یا فوجیوں سے بغاوت یا حکم عدولی کی کوشش کرتا ہے تو اسے یا تو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے یا پھر اسے میڈیا، عدلیہ. مذہبی جماعتوں اور فوج کی غلام سیاسی پارٹیوں کی مدد سے سبق سکھایا جاتا ہے اور فوج کے قدموں میں جھکنے پر مجبور کیا جاتا ہے. فوجی اقتدار پر اپنا تسلط برقرار رکھنے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ملاں اور میڈیا کے ذریعے جمہوریت کے خلاف اتنا زہر اگلتے ہیں کہ ہمیں فوجی تمام تر کالے کرتوتوں کے باوجود فرشتے لگتے ہیں اور جمہوری حکمرانوں کی معمولی غلطیاں بھی ہمیں پہاڑ نظر آتی ہیں

    مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھی میں سیاستدانوں کو بری الزمہ نہیں سمجھتا ہوں لیکن جو پچانوے ہزار کی تعداد میں ہتھیار ڈالنے والی، اپنے ملک (مشرقی پاکستان) سے ذلیل ہو کر نکلنے والی اور بار بار مارشل لاء لگا کر اور آئین توڑ کر اپنا ملک فتح کرنے والی ذلت و رسوائی فوجیوں کے حصے میں آئی ہے، سیاستدان اس سے بچے ہوئے ہیں. کبھی کسی سیاستدان یا سیاسی حکمران نے آئین نہیں توڑا ہے. آئین توڑنا غداری ہے اور فوج اس ملک کے ساتھ چار بار غداری کر چکی ہے. جس ملک کی فوج ہی ملک سے غدار ہو اس سے ملک کے دفاع کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ ویسے بھی اس فوج کو ملک توڑنے اور ہتھیار ڈالنے کا “اعزاز” حاصل ہے. سیاستدانوں کا اتنے “عظیم اعزاز” کی حامل فوج سے کیا مقابلہ؟ سیاستدان آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں، ہر جمہوری ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے. سیاستدانوں کی اقتدار کے حصول کیلیے لڑائی کل بھی تھی اور آج بھی ہے. یہ کوئی غیر معمولی صورتحال نہیں تھی اور نہ ہی آج ہے. فوج کا اقتدار پر قبضہ کرنا کل بھی قابل نفرت تھا اور امور مملکت میں اسکی دخل اندازی آج بھی فوج پر لعنت ڈالنے کا سبب ہے. فوج کی ہوس اقتدار کو لاکھ اسباب اور وجوہات کے پیچھے چھپانے کی کوشش کریں لیکن حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فوج قیام پاکستان سے ہی اقتدار کی بھوکی تھی اور اسی وقت سے اسکی نظریں پاکستان کے اقتدار پر جمی ہوئی تھیں. قائد اعظم کی عقابی نظریں فوج کی ہوس اقتدار کو دیکھ چکی تھیں. یہی وجہ تھی کہ انہوں نے فوجیوں کو انکا نہ صرف حلف پڑھکر سنایا تھا بلکہ انہیں صاف صاف الفاظ میں بتایا تھا کہ

    مت بھولو کہ تم ریاست کے ملازم ہو۔ تم پالیسی نہیں بناتے ۔ عوام کے نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے؟ تمہارا کام صرف اپنے سول حاکموں کے فیصلوں پر عمل کرنا ہے

    انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ فوجی افسروں کو امور ریاست میں مداخلت پر نہ صرف زبردست ڈانٹ پلائی تھی بلکہ سیاست اور امور ریاست میں دلچسپی رکھنے والے فوجی افسروں (خصوصا ایوب خان) کے سٹارز اتروا کر انکے وردی پہننے پر پابندی لگا دی تھی. قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد فوج کو گندہ کھیل کھیلنے اور اسلحہ کے زور پر ملکی اقتدار پر غیر آئینی اور غیر قانونی قبضہ کرنے کا موقع گیا. سیاستدان فرشتے بھی ہوتے تب بھی فوج نے بدمعاشی کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنا ہی تھا کیونکہ اقتدار کی ہوس شروع دن سے انکی آنکھوں سے جھلک رہی تھی. بعض لوگ یہ منطق پیش کرتے ہیں کہ سیاستداں خود کو ٹھیک کر لیں تو فوج سیاست اور امور مملکت میں مداخلت کرنا بند کر دے گی اور آئین اور قانون کا احترام کرنے لگے گی. میرے نزدیک اس منطق کی کوئی اہمیت نہیں ہے. میں اس بات کا قائل ہوں کہ ہر ادارے کو آئین اور قانون کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور کسی ادارے کو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسرے ادارے کے کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے. آئین نے ہر ایک ادارے کی حدود واضح طور پر مقرر کر رکھی ہے. ہر ادارے کو آزادانہ طور پر خود کو ٹھیک کرنا ہے. اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ فوج خود کو تب ٹھیک کرے گی جب سیاستدان اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں گے. فوج کے خود کو ٹھیک کرنے اور سیاستدانوں کے خود کو ٹھیک کرنے کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے. ہر ادارے کو دوسرے ادارے کی مداخلت کے بغیر اپنی اصلاح خود کرنی چاہیے. ہم دنیا کی بہترین جمہوریت کا اعزاز بھی حاصل کر لیں لیکن جب تک فوج خود کو کو آئین اور قانون کا پابند نہیں بناتی ہے اور وردی پہن کر اپنی بد معاشی جاری رکھتی ہے تب تک حکومت، پارلیمنٹ اور دیگر ادارے فوج کی بد معاشی اور دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں. آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور ہر ادارہ اسے جوابدہ ہے. پارلیمنٹ عوام کے منتخب لوگوں پر مشتمل ہے اور عوام کو جوابدہ ہے.. عوام اپنی منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے فوج سمیت دیگر اداروں کو کنٹرول کرتی ہے. فوج کی طرف سے آئین کی مسلسل خلاف ورزی اور ملک پر ناجائز قبضے کی وجہ سے ہم مشرقی پاکستان کھو چکے ہیں. اب بھی اگر فوج کو شرم نہ آئی اور اس نے آئین کی خلاف ورزی اور ریاستی امور میں مداخلت جاری رکھی تو خدا نخواستہ پھر تاریخ اپنے آپ کو دھرا سکتی ہے

    اگر ہم نے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر قائم رکھنا ہے تو ہمیں جمہوریت اور جمہوری روایات کو فروغ دینا پڑے گا اور فوجیوں کی امور مملکت میں مداخلت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا پڑے گا. آئین اور قانون کا احترام اور جمہوریت کا فروغ ہی ہمارے روشن کا ضامن ہے. کرپٹ جمہوری حکمرانوں کو بنیاد بنا کر فوجیوں کی سیاست اور امور مملکت میں مداخلت بند کرنا پڑے گی. جمہوری حکمرانوں کا متبادل جمہوری حکمران ہی ہیں، فوجی آمر ہرگز ہرگز نہیں. مشرقی پاکستان میں جو فصل ہم نے کاٹی ہے وہ فوج ہی کی بوئی ہوئی تھی

    اگر یہ ملک آئین، قانون اور جمہوری روایات کے مطابق چلے گا اور یہاں آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہوگی تو یہ ملک انشاءاللہ تک قیامت قائم رہے گا لیکن اگر فوجی اپنے کالے کرتوتوں سے باز نہیں آئیں گے اور آئین کو جوتے کی نوک پر لکھنا اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کرنی نہیں چھوڑیں گے تو مشرقی پاکستان کا سانحہ پاکستان کی بوری کے سوراخ سے گرنے والا پہلا دانہ نہیں ہوگا بلکہ بلوچستان اور فاٹا کی صورتحال کسی وقت بھی دھماکہ خیز ہو سکتی ہے. اگر بلوچستان اور فاٹا کا دانہ گر گیا تو بوری کو خالی ہوتے دیر نہیں لگے گی. فوجیوں کو کو اب آئین و قانون کے آگے سر جھکانا چاہئیے اور عوام کو بلڈی سویلینز سمجھنے کی بجائے عوام اور عوام کی منتخب اداروں کی بالادستی کو تسلیم کرنا چاہئیے. فوج کے پاس فیصلہ کرنے کیلیے اب زیادہ وقت نہیں ہے

    ساز کی شوخیاں بتاتی ہیں کوئی نغمہ مچلنے والا ہے
    اب بھی اچھا ہے گر سنبھل جاو وقت کروٹ بدلنے والا ہے

    • This topic was modified 54 years, 4 months ago by .
    Jack Sparrow
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #2
    I wish happy liberation day to Bangladeshi people.
    صحرائی
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3

    اور جب ہم مثبت خبریں دے رہے تھے عوام کو
    ہماری فوج جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو سیلوٹ مار رہی تھی

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4
    میرے خیال میں جو افراد انسانی حقوق اور خاص کر آزادی و خودمختاری جیسی اقدار پر یقین رکھتے ہیں انہیں تو سولہ دسمبر کے دن خوش ہونا چاہئے کہ اُس دن ایک کمزور اکثریت کو ایک طاقتور اقلیت سے نجات مل گئی۔۔۔۔۔

    البتہ جو لوگ بنگالیوں کو مزید کچھ عرصہ غلام رکھنے کے قائل تھے(ہیں) وہ سانحہ سانحہ اندوہناک سانحہ یا ہائے پلٹن ہائے پلٹن کی تسبیح جاری رکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔

    :cwl:   ;-)   :cwl:

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #5

    آج کے دن دو قومی نظریے کا چورن بیچے والے سوداگروں کی دوکان چوپٹ ہوگئی تھی، آج کے دن یہ ثابت ہوا تھا کہ صرف مذہب کی رسی سے آپ قوموں کا باندھ کر نہیں رکھ سکتے، نہ ہی مذہب کی بنیاد پر کوئی قوم تشکیل پاتی ہے۔۔۔ 

    بہرحال جن لوگوں نے چوتھی جماعت کی معاشرتی علوم میں اس “اندوہناک سانحے” پر سیاپے کا درس پڑھا ہے، وہ دھاڑیں مار مار کر روپیٹ سکتے ہیں، میدان کھلا ہے۔۔۔ 

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #6

    اگر فوجی اپنے کالے کرتوتوں سے باز نہیں آئیں گے اور آئین کو جوتے کی نوک پر لکھنا اور جمہوریت کے خلاف سازشیں کرنی نہیں چھوڑیں گے

    مجھے تو فی الحال فوج جمہوریت کی بھرپور حمایت کرتی نظر آرہی ہے، فوج کا موجودہ جمہوری حکومت کے ساتھ مثالی تعاون چل رہا ہے، کوئی سازش نظر نہیں آرہی، لگتا ہے بڈاوا سائیں کے نزدیک کل جمہوریت حضرت میاں محمد نواز شریف مدظلہ العالی کا نام ہے۔ :cwl: :cwl: :cwl: :cwl: ۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    میرے خیال میں جو افراد انسانی حقوق اور خاص کر آزادی و خودمختاری جیسی اقدار پر یقین رکھتے ہیں انہیں تو سولہ دسمبر کے دن خوش ہونا چاہئے کہ اُس دن ایک کمزور اکثریت کو ایک طاقتور اقلیت سے نجات مل گئی۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ بنگالیوں کو مزید کچھ عرصہ غلام رکھنے کے قائل تھے(ہیں) وہ سانحہ سانحہ اندوہناک سانحہ یا ہائے پلٹن ہائے پلٹن کی تسبیح جاری رکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ :cwl: ;-) :cwl:

    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8

    آج کے دن دو قومی نظریے کا چورن بیچے والے سوداگروں کی دوکان چوپٹ ہوگئی تھی، آج کے دن یہ ثابت ہوا تھا کہ صرف مذہب کی رسی سے آپ قوموں کا باندھ کر نہیں رکھ سکتے، نہ ہی مذہب کی بنیاد پر کوئی قوم تشکیل پاتی ہے۔۔۔

    بہرحال جن لوگوں نے چوتھی جماعت کی معاشرتی علوم میں اس “اندوہناک سانحے” پر سیاپے کا درس پڑھا ہے، وہ دھاڑیں مار مار کر روپیٹ سکتے ہیں، میدان کھلا ہے۔۔۔

    Chooran still selling after 70 odd years

    and by your logic Bangladesh should have submerged in India, isn’t it??

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #9
    Bawa sahib

    Zinda Rood sahib

    کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان الحاق ایک فطریالحاق تھا یا وقتی مجبوری اور ایک لمحہ کا وہ ملاپ جسے گناہ بے لذت ہوتا ہے

    کیا ١٩٧١ میں جو ہوا اسکی بنیاد ١٩٧١ کے واقعات تھے یا ١٩٤٧ سے غلطیوں پر غلطی

    میں جہاں محترم باوا صاحب کی ان باتوں سے کافی حد اتفاق کرتا ہوں کے “تاریخ سےکوئی سبق نہیں سیکھتا ” اور “تاریخ اپنے کو دہراتی ہے” وہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کے ایک دو اور چیزوں کی طرح تاریخ کے ساتھ اکثر ہم جو کرتے ہیں وہ میری نظر میں انتہائی بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے. ہم تاریخ کو اپنے حساب سے گھڑتے ہیں، اپنی مرضی سے پیش کرتے ہیں، اپنی مرضی سے شروع کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے ختم کرتے ہیں .

    جہاں تک جمہوری برتری کا تعلق ہے تو ڈھاکہ کو دار الخلافہ اور بنگلہ کو سرکاری زبان ہونا چاہیے تھامگر ایسا ہو نہ سکا اور اب یہ عالم کے تو نہیں تیری جستجو بھی نہیں . اگر ضرروت پڑی تو وہ اعداد بھی پیش کرسکتا ہوں جو ظاہر کرتے ہیں کے بنگالی عوام کو ہم نے افسر شاہی اور فوج میں کیا حصہ دیا . ویسے جب جمہوریت صرف سیٹوں کی تعداد تک جمہوریت ہو تو کوئی جمہوریت نہیں چل سکتی اور ہم مزاج اور خیال میں صرف سیٹوں اور ووٹوں کی تعداد کو جمہوریت سمھجتے ہیں.

    میں معزز زندہ رود صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کے مذہب انسانوں کو قوم نہیں بنا سکتا. آج بھی سندھ مبینہ بد عنوان اور ایکنا اہل جماعت کو زبان کا نام پر بار بار اقتدار پر فائز کرتا ہے. آج بھی اردو بولنے والے ہر قسم کے تحفظات کو دور رکھ کر ایم قیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں. آج کے دور میں بھی عوامی نیشنل پارٹی ملکی پارٹی نہیں بن سکی اور اپنی دکان صرف پٹھانوں کے سامنے سجا سکتی ہے . آج بھی بلوچ نام سے بلوچستان میںووٹ ملتے ہیں اور پنجاب میں بلوچستان کے ان انتہائی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیات کو شائد ہی کوئی سو ووٹ دے . ایک جماعت ایک بڑے صوبے میں سیٹیں جیت کر پورے ملک میں حکومت کا قانونی حق تو حاصل کر لیتی ہے مگر جب تک اسکو ملک کے ہر حصے میں پزیرائی نہ ملے تو شائد حکومت کرنا اتنا آسان نہ ہو . جہاں بھٹو کو مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی وہیں عوامی لیگ کو مغربی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی. جب مغربی پاکستان کے عوام مشرقی پاکستان سے ابھرے رہنما کو قبول کرنے کو تیار نہ تھے اور مشرقی پاکستان کسی ایسے رہنما کو جو مغربی پاکستان سے ابھرا ہو تو کہاں ہے متحدہ پاکستان؟

    ہندوستان میں علاقائی جماعتوں کی تعداد اور طاقت میں اضافہ، سری لنکا میں تامل اور سنہالی زبان کے درمیان رسہ کشی نے کیا ستم نہ ڈھایا . زبان عوام کو قریب لاتی ہے نہ کے مذہب .

    فوج کا کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہوتا ہے مگر جب فوج کو اندر اور باہر دونوں جگہہ جنگ لڑنی پڑے تو بہت مشکل ہوتا ہے جنگ جیتنا . اور اگر دیکھا جاۓ تو جب بھی پاکستان میں فوج کے خلاف اگر کوئی آواز اٹھی تو ان صوبوں سے جن کو فوج میں ایک قلیل تعداد میں حصہ ملا. سندھ ہو ، بنگال ہو، بلوچستان ہو یا اب پختونخواہ ہوآواز یہیں سے اٹھی . لاشیں یہی گریں جب پنجاب سے ابھرے وزیر اعظم کے اقتدار کو خطرہ ہوا اور انہوں نے مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہونے کے خطرات سے آگاہ کیا تو کہیں بھی کوئی آواز نہ اٹھی کہیں بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا . نہ سندھ میں نہ بلوچستان میں نے خیبر پختونخواہ میں اور حسب معمول نہ پنجاب میں

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10
    باوا بھائی! تھریڈ کا نام بہت چُن کر رکھا ہے، بہت ہی معنی خیز بلکہ ذومعنی ٹائٹل ہے یہ۔

    میرا خیال ہے کہ جتنی باتیں آپ نے اس آرٹیکل میں لکھی ہیں ، فوج کے لئے یہ نئی نہیں ہیں بلکہ پاک فوج پچھلے چالیس پینتالیس برس سے یہ سنتی آرہی ہے لیکن  کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

    یہاں مجھے ایک کثیفہ یاد آگیا کہ کسی دل والے نے بازار میں راہ چلتی کسی خاتون کے ساتھ انگشت درازی کرڈالی، خاتون نے شور ڈال دیا اور لوگوں نے اِس بندے کو خوب پیٹا۔ پٹائی سے فراغت پاکر اس کھلاڑی نے تھوڑی دور جاکر ایک اور خاتون کے ساتھ یہ حرکت دہرائی۔ لوگوں نے ایکبار پھر پکڑ کر اسے خوب پیٹا اور پھر چھوڑ دیا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک خاتون کو دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ سکا اور پھر وہی حرکت کر ڈالی۔ اب کی بار مارنے والوں میں ایک ایسا آدمی موجود تھا جس نے پچھلی دو وارداتوں میں اس کی پٹائی کا فریضہ ثواب سمجھ کر سرانجام دیا تھا۔ پیٹنے کے بعد اس آدمی نے انگشت دراز سے پوچھا کہ مردود تُو تین بار اسی حرکت پر پِٹ چکا ہے آخر تجھے سبق کیوں نہیں ملتا؟؟ اس پر اس  خوش ذوق نے جواب دیا کہ “صاحب! شوق دا کوئی مُل نہیں”۔

    تو گذارش ہے کہ تھریڈ میں بیان کی گئی تمام برائیاں یا آپ کے تمام اندیشے پاک فوج کیلئے ایک شوق کی حیثیت رکھتے ہیں اسلئے فوج کو اچھا بُرا سمجھانے کے بجائے بس کڑھنے پر دھیان رکھیں۔ یہی راہ عافیت است۔

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #11
    Chooran still selling after 70 odd years and by your logic Bangladesh should have submerged in India, isn’t it??

    جب تک بے وقوف لوگ موجود ہیں، چورن بکتا رہے گا۔۔۔۔

    جہاں تک میں نے مشاہدہ کیا ہے، مسلمانوں میں ایک خاص قسم کا کیڑا پایا جاتا ہے (فورم کے سب مسلمان بھراؤں سے معذرت کے ساتھ، سچ تو بہرحال کہنا پڑے گا) جو انہیں دوسری قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے نہیں دیتا، یہ دنیا میں کہیں بھی رہیں، اپنے اور دوسروں کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں، ہزار سال تک یہ برصغیر پر حکومت کرتے رہے، چونکہ اس وقت یہ حکمران رہے، ہندو ان کے محکوم تھے، لہذا انہیں ان کے ساتھ حاکم بن کر رہنے میں کوئی پرابلم نہ تھی، مگر جب انگریزوں کی حکومت ختم ہونے کے قریب ہوئی، تو ان کو لگا کہ ہندو جمہوریت میں اکثریت کے بل بوتے پر ان پر حاکم ہوجائیں گے اور ان کا حکمرانی میں حصہ کم ہوگا، لہذا ان کا کیڑا بیدار ہوا اور انہوں نے دو قومی چورن ایجاد کیا کہ ہم دو الگ الگ قومیں ہیں، ہم بھلا ایک ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں، کتنی بڑی واہیات بات ہے کہ صرف مذہب کی بنیاد پر اتنے بڑے خطے میں لکیر کھینچ دی جائے کہ فلاں مذہب والے ادھر آجائیں اور ڈھمکاں مذہب والے لکیر کے اس پار چلے جائیں۔۔۔ 

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #12
    Bawa sahib Zinda Rood sahib

    کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان الحاق ایک فطریالحاق تھا یا وقتی مجبوری اور ایک لمحہ کا وہ ملاپ جسے گناہ بے لذت ہوتا ہے

    کیا ١٩٧١ میں جو ہوا اسکی بنیاد ١٩٧١ کے واقعات تھے یا ١٩٤٧ سے غلطیوں پر غلطی

    میں جہاں محترم باوا صاحب کی ان باتوں سے کافی حد اتفاق کرتا ہوں کے “تاریخ سےکوئی سبق نہیں سیکھتا ” اور “تاریخ اپنے کو دہراتی ہے” وہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کے ایک دو اور چیزوں کی طرح تاریخ کے ساتھ اکثر ہم جو کرتے ہیں وہ میری نظر میں انتہائی بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے. ہم تاریخ کو اپنے حساب سے گھڑتے ہیں، اپنی مرضی سے پیش کرتے ہیں، اپنی مرضی سے شروع کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے ختم کرتے ہیں .

    جہاں تک جمہوری برتری کا تعلق ہے تو ڈھاکہ کو دار الخلافہ اور بنگلہ کو سرکاری زبان ہونا چاہیے تھامگر ایسا ہو نہ سکا اور اب یہ عالم کے تو نہیں تیری جستجو بھی نہیں . اگر ضرروت پڑی تو وہ اعداد بھی پیش کرسکتا ہوں جو ظاہر کرتے ہیں کے بنگالی عوام کو ہم نے افسر شاہی اور فوج میں کیا حصہ دیا . ویسے جب جمہوریت صرف سیٹوں کی تعداد تک جمہوریت ہو تو کوئی جمہوریت نہیں چل سکتی اور ہم مزاج اور خیال میں صرف سیٹوں اور ووٹوں کی تعداد کو جمہوریت سمھجتے ہیں.

    میں معزز زندہ رود صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کے مذہب انسانوں کو قوم نہیں بنا سکتا. آج بھی سندھ مبینہ بد عنوان اور ایکنا اہل جماعت کو زبان کا نام پر بار بار اقتدار پر فائز کرتا ہے. آج بھی اردو بولنے والے ہر قسم کے تحفظات کو دور رکھ کر ایم قیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں. آج کے دور میں بھی عوامی نیشنل پارٹی ملکی پارٹی نہیں بن سکی اور اپنی دکان صرف پٹھانوں کے سامنے سجا سکتی ہے . آج بھی بلوچ نام سے بلوچستان میںووٹ ملتے ہیں اور پنجاب میں بلوچستان کے ان انتہائی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیات کو شائد ہی کوئی سو ووٹ دے . ایک جماعت ایک بڑے صوبے میں سیٹیں جیت کر پورے ملک میں حکومت کا قانونی حق تو حاصل کر لیتی ہے مگر جب تک اسکو ملک کے ہر حصے میں پزیرائی نہ ملے تو شائد حکومت کرنا اتنا آسان نہ ہو . جہاں بھٹو کو مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی وہیں عوامی لیگ کو مغربی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی. جب مغربی پاکستان کے عوام مشرقی پاکستان سے ابھرے رہنما کو قبول کرنے کو تیار نہ تھے اور مشرقی پاکستان کسی ایسے رہنما کو جو مغربی پاکستان سے ابھرا ہو تو کہاں ہے متحدہ پاکستان؟

    ہندوستان میں علاقائی جماعتوں کی تعداد اور طاقت میں اضافہ، سری لنکا میں تامل اور سنہالی زبان کے درمیان رسہ کشی نے کیا ستم نہ ڈھایا . زبان عوام کو قریب لاتی ہے نہ کے مذہب .

    فوج کا کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہوتا ہے مگر جب فوج کو اندر اور باہر دونوں جگہہ جنگ لڑنی پڑے تو بہت مشکل ہوتا ہے جنگ جیتنا . اور اگر دیکھا جاۓ تو جب بھی پاکستان میں فوج کے خلاف اگر کوئی آواز اٹھی تو ان صوبوں سے جن کو فوج میں ایک قلیل تعداد میں حصہ ملا. سندھ ہو ، بنگال ہو، بلوچستان ہو یا اب پختونخواہ ہوآواز یہیں سے اٹھی . لاشیں یہی گریں جب پنجاب سے ابھرے وزیر اعظم کے اقتدار کو خطرہ ہوا اور انہوں نے مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہونے کے خطرات سے آگاہ کیا تو کہیں بھی کوئی آواز نہ اٹھی کہیں بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا . نہ سندھ میں نہ بلوچستان میں نے خیبر پختونخواہ میں اور حسب معمول نہ پنجاب میں

    جے ایم پی صاحب۔۔ آپ نے بہت خوبصورتی سےمعاملات کو واضح کیا، مذہب ریاست یا قوم کی تشکیل کیلئے بائنڈنگ فورس کا کردار ادا نہیں کرسکتا، میری نظر میں مفادات وہ مضبوط عنصر ہے جو لوگوں کو جوڑکر رکھنے کا باعث بنتا ہے، جتنے مشترکہ مفادات ہوں گے، اتنا ہی تعلق مضبوط ہوگا۔۔  

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13

    جب تک بے وقوف لوگ موجود ہیں، چورن بکتا رہے گا۔۔۔۔

    جہاں تک میں نے مشاہدہ کیا ہے، مسلمانوں میں ایک خاص قسم کا کیڑا پایا جاتا ہے (فورم کے سب مسلمان بھراؤں سے معذرت کے ساتھ، سچ تو بہرحال کہنا پڑے گا) جو انہیں دوسری قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے نہیں دیتا، یہ دنیا میں کہیں بھی رہیں، اپنے اور دوسروں کیلئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں، ہزار سال تک یہ برصغیر پر حکومت کرتے رہے، چونکہ اس وقت یہ حکمران رہے، ہندو ان کے محکوم تھے، لہذا انہیں ان کے ساتھ حاکم بن کر رہنے میں کوئی پرابلم نہ تھی، مگر جب انگریزوں کی حکومت ختم ہونے کے قریب ہوئی، تو ان کو لگا کہ ہندو جمہوریت میں اکثریت کے بل بوتے پر ان پر حاکم ہوجائیں گے اور ان کا حکمرانی میں حصہ کم ہوگا، لہذا ان کا کیڑا بیدار ہوا اور انہوں نے دو قومی چورن ایجاد کیا کہ ہم دو الگ الگ قومیں ہیں، ہم بھلا ایک ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں، کتنی بڑی واہیات بات ہے کہ صرف مذہب کی بنیاد پر اتنے بڑے خطے میں لکیر کھینچ دی جائے کہ فلاں مذہب والے ادھر آجائیں اور ڈھمکاں مذہب والے لکیر کے اس پار چلے جائیں۔۔۔

    اگر آپ ہسٹری پڑھیں(پاکستانی بیوروکریٹس کی مرتب کردہ نہیں) تویہ جان کر حیران ہونگے کہ پاکستان کا قیام اقتصادی معاملات میں ہندو اکثریت سے مسلمانوں کو بچانے کی غرض سے تھا، باونڈریز بھی علامتی تھیں مگر بعد میں ویزے بنا ایکدوسرے کے ملک میں جانا ممکن نہ رہا، قائداعظم نے بمبئی میں اپنی پراپرٹی تک نہیں بیچی تھی کہ وہاں جاکر رہا کریں گے

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #14
    Bawa sahib Zinda Rood sahib

    کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان الحاق ایک فطریالحاق تھا یا وقتی مجبوری اور ایک لمحہ کا وہ ملاپ جسے گناہ بے لذت ہوتا ہے

    کیا ١٩٧١ میں جو ہوا اسکی بنیاد ١٩٧١ کے واقعات تھے یا ١٩٤٧ سے غلطیوں پر غلطی

    میں جہاں محترم باوا صاحب کی ان باتوں سے کافی حد اتفاق کرتا ہوں کے “تاریخ سےکوئی سبق نہیں سیکھتا ” اور “تاریخ اپنے کو دہراتی ہے” وہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کے ایک دو اور چیزوں کی طرح تاریخ کے ساتھ اکثر ہم جو کرتے ہیں وہ میری نظر میں انتہائی بد دیانتی کے زمرے میں آتا ہے. ہم تاریخ کو اپنے حساب سے گھڑتے ہیں، اپنی مرضی سے پیش کرتے ہیں، اپنی مرضی سے شروع کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے ختم کرتے ہیں .

    جہاں تک جمہوری برتری کا تعلق ہے تو ڈھاکہ کو دار الخلافہ اور بنگلہ کو سرکاری زبان ہونا چاہیے تھامگر ایسا ہو نہ سکا اور اب یہ عالم کے تو نہیں تیری جستجو بھی نہیں . اگر ضرروت پڑی تو وہ اعداد بھی پیش کرسکتا ہوں جو ظاہر کرتے ہیں کے بنگالی عوام کو ہم نے افسر شاہی اور فوج میں کیا حصہ دیا . ویسے جب جمہوریت صرف سیٹوں کی تعداد تک جمہوریت ہو تو کوئی جمہوریت نہیں چل سکتی اور ہم مزاج اور خیال میں صرف سیٹوں اور ووٹوں کی تعداد کو جمہوریت سمھجتے ہیں.

    میں معزز زندہ رود صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کے مذہب انسانوں کو قوم نہیں بنا سکتا. آج بھی سندھ مبینہ بد عنوان اور ایکنا اہل جماعت کو زبان کا نام پر بار بار اقتدار پر فائز کرتا ہے. آج بھی اردو بولنے والے ہر قسم کے تحفظات کو دور رکھ کر ایم قیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں. آج کے دور میں بھی عوامی نیشنل پارٹی ملکی پارٹی نہیں بن سکی اور اپنی دکان صرف پٹھانوں کے سامنے سجا سکتی ہے . آج بھی بلوچ نام سے بلوچستان میںووٹ ملتے ہیں اور پنجاب میں بلوچستان کے ان انتہائی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیات کو شائد ہی کوئی سو ووٹ دے . ایک جماعت ایک بڑے صوبے میں سیٹیں جیت کر پورے ملک میں حکومت کا قانونی حق تو حاصل کر لیتی ہے مگر جب تک اسکو ملک کے ہر حصے میں پزیرائی نہ ملے تو شائد حکومت کرنا اتنا آسان نہ ہو . جہاں بھٹو کو مشرقی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی وہیں عوامی لیگ کو مغربی پاکستان میں ایک سیٹ نہ ملی. جب مغربی پاکستان کے عوام مشرقی پاکستان سے ابھرے رہنما کو قبول کرنے کو تیار نہ تھے اور مشرقی پاکستان کسی ایسے رہنما کو جو مغربی پاکستان سے ابھرا ہو تو کہاں ہے متحدہ پاکستان؟

    ہندوستان میں علاقائی جماعتوں کی تعداد اور طاقت میں اضافہ، سری لنکا میں تامل اور سنہالی زبان کے درمیان رسہ کشی نے کیا ستم نہ ڈھایا . زبان عوام کو قریب لاتی ہے نہ کے مذہب .

    فوج کا کام ملک کی سرحدوں کا دفاع ہوتا ہے مگر جب فوج کو اندر اور باہر دونوں جگہہ جنگ لڑنی پڑے تو بہت مشکل ہوتا ہے جنگ جیتنا . اور اگر دیکھا جاۓ تو جب بھی پاکستان میں فوج کے خلاف اگر کوئی آواز اٹھی تو ان صوبوں سے جن کو فوج میں ایک قلیل تعداد میں حصہ ملا. سندھ ہو ، بنگال ہو، بلوچستان ہو یا اب پختونخواہ ہوآواز یہیں سے اٹھی . لاشیں یہی گریں جب پنجاب سے ابھرے وزیر اعظم کے اقتدار کو خطرہ ہوا اور انہوں نے مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہونے کے خطرات سے آگاہ کیا تو کہیں بھی کوئی آواز نہ اٹھی کہیں بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا . نہ سندھ میں نہ بلوچستان میں نے خیبر پختونخواہ میں اور حسب معمول نہ پنجاب میں

    :rock:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #15
    تاریخ سے سبق سیکھ لیا گیا ہے
    ڈرو اس بچے سے جو پیچھے کھڑا سب دیکھ رہا ہے

    Democrat
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #16
    پاک فوج نے پاکستان کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے ۔۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر پاک فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرے تو سیاستدان ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں جیسے کہ اکہتر میں کر دیئے تھے ۔۔ دسمبر انیس سو اکہتر میں بھی اگر فوج اقتدار میں ہوتی تو پاکستان نہ ٹوٹتا ۔۔ اکہتر میں اگر کوئی فوجی جنرل حکمران ہوتا تو ملک کو ٹوٹنے نہ دیتا ۔۔ اکہتر سے پہلے کم از کم تیرہ برس تک اگر فوجی حکومت تسلسل سے قائم رہی ہوتی تو وہ حالات پیدا ہی نہ ہونے دیتے جاتے کہ ملک ٹوٹنے کی نوبت آئے ۔۔ اکہتر میں بھی سویلین و جمہوری حکومت تھی ۔۔ فوج مجبور تھی اور بیرکوں میں تھی ۔۔ سیاست دان ملک کو دانتوں سے نوچ رہے تھے ۔۔ جمہوریت پسندوں کی ملک دشمنیاں عروج پر تھیں ۔۔ بنگالی عوام چوبیس برسوں سے فوجی راج کا مطالبہ کر رہے تھے ۔۔ پاک فوج ذندہ باد کے نعرے لگاتے ان کے حلق دم توڑ رہے تھے لیکن فوج مجبور تھی ۔۔ بے بسی سے اپنے بنگالی بھائیوں کا دکھ محسوس کر رہی تھی ۔۔ لیکن بے بس تھی ۔۔ پھر ایک دن ملک ٹوٹ گیا ۔۔ اس روز فوج اقتدار میں ہوتی تو ایسا کبھی نہ ہوتا ۔۔

    منقول

    Gulraiz
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #17

    مثبت خبریں

    آج کے دن جنرل نیازی نے دنیا کا سب سے بڑا یو ٹرن لیا تھا ، اس ریکارڈ کو کوئی نہیں توڑ سکتا
    |
    آج دو پاکستان بن گئے تھے ، یعنی ڈبل ہوگئے تھے ، اور یہ عظیم کارنامہ پاک فوج نے انجام دیا
    |
    مجیب جیسے غدار کو اقتدار نہ دیکر پاک فوج نے ملک کی لاج رکھہ لی
    |
    آج پاکستان کی چائنا کٹنگ فوج کے ذریعے ہوئی، جس کی نقل میں ایمکیو ایم نے کراچی میں چائنا کٹنگ کی ، پچہلی سب بھول گئے مگر کراچی کی چائنا کٹنگ ہر محب وطن کو ہمیشہ یاد رہے گی ، نقل اور وہ بھی پاک فوج کی
    |
    آج کے دن دشمن کے چھکے اور اٹھے چھوٹ گئے تھے ، جب اسے پتہ چلا کہ یہ مارنے نہیں مروانے آئے ہیں
    \
    پاک فوج نے غدار بنگالیوں پر احسان کیا تھا کہ پچاس ساٹھہ لاکھہ کی جگہ صرف اور فقط تیس لاکھہ بنگالی مارے تھے ، اور یہ نمبر بھی صرف چنگیز خان کے ریکارڈ توڑنے کے لئیے کیا تھا
    |
    مقدس کنواری گائے نے ایک بچہ جنا تھا ، جسکا نام بنگلہ دیش ہے اور آج اسکی سالگرہ ہے

    Gulraiz
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #18

    Was world supporting us

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19
    میرے خیال میں تو بنگالی عوام کو پاک فوج کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کی بدولت آزادی نصیب ہویی ورنہ سیاست دانوں نے انکو میٹھے بول بول کر اپنے ساتھ ملا کر بھی رکھنا تھا اور استحصال بھی کرنا تھا . بانی بنگلہ دیش کی فہرست میں ایوب خان،یحییٰ خان خان کا مقام مجیب سے کہیں اوپر ہے

    گلٹی صحیح کہتا ہے جہاں جہاں فوج جائے وہاں کے عوام کو شکایات کرنے کے بجاے انکا شکر گزار ہونا چاہئے – بلوچستان اور فاٹا لائن میں سندھ سے آگے کھڑے ہیں

    Guilty

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #20

    I am posting an article published in Bengali News Paper. See what has changed.

    Victory Day: Bangladesh wins freedom
    The nation embarked on a nine-month-long Liberation War which culminated in victory on December 16, 1971. The valiant freedom fighters with help from the Indian armed forces inflicted a crushing defeat on the Pakistani army-which boasted of being the best in the world

    http://www.theindependentbd.com/post/179038

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 155 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi