Viewing 13 posts - 1 through 13 (of 13 total)
  • Author
    Posts
  • GeoG
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    انگریزی کا محاورہ ہے ” بارکنگ اپ دی رانگ ٹری “۔یعنی غلط درخت پر بھونکنا۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ کتا کسی شکار کا تعاقب کرتا ہے اور شکار تیزی سے ایک درخت پر چڑھ کر دوسرے پر چھلانگ مارتے ہوئے یہ جا وہ جا۔ مگر کتا پہلے درخت کے نیچے ہی کھڑا بھونکتا رہتا ہے ۔بہت دیر بعد احساس ہوتا ہے کہ شکار تو کب کا کہیں سے کہیں نکل لیا اور درخت بے قصور ہے۔

    اب ذرا غور فرمائیے کہ ہم سب روزانہ کتنی بار یہ حرکت بذاتِ خود فرماتے ہیں۔ پھل یا سبزی مہنگے ملیں تو گالیاں ٹھیلے والے کو پڑتی ہیں حالانکہ وہ غریب تو خود اپنا سامان منڈی کے کسی ذخیرہ اندوز آڑھتی سے مہنگے داموں خرید کر لایا ہے اور اپنا منافع رکھ کے آپ کو فروخت کر رہا ہے۔

    پٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے لیٹر کا اضافہ ہو جائے تو موٹر سائیکل سوار پٹرول پمپ والے لڑکے پر غصہ نکالتا ہے۔ جب کہ اضافہ تو اوگرا کی سفارش پر حکومت کرتی ہے۔اس غریب لڑکے کا اس پورے معاملے سے نہ لینا ایک نہ دینا دو۔

    میں نے تو کئی معصوم صارفین کو بجلی اور گیس کے بل میں اضافے کی شکایت بھی اس مسکین بینک کیشئر سے کرتے دیکھا ہے جس کا کام بس اتنا ہے کہ آپ سے بل لے کر پیسے گنے اور جمع کر کے مہر لگا کے بل واپس کر دے۔

    بینکوں نے کریڈٹ کارڈ کی شکایات کے لیے کال سنٹرز کے مخصوص نمبر دے رکھے ہیں۔ میں نے کئی پڑھے لکھے کریڈٹ کارڈ ہولڈرز کو ان نمبروں پر فون کر کے کال اٹینڈ کرنے والے آپریٹرز کو گالیاں دیتے سنا ہے ۔گویا کریڈٹ کارڈ سٹیٹمنٹ میں غلطی کے ذمہ دار دراصل یہی دیہاڑی دار آپریٹرز ہیں۔حالانکہ ان کا کام تو بس آپ کی بات یا شکایت سن کر کارروائی کے لیے آگے بڑھانا ہے۔آگے بینک جانے اور آپ ۔

    عید کے موقع پر من مانے کرائے ٹرانسپورٹ کمپنی کے سیٹھ کی تجوری میں جا رہے ہیں مگر مشتعل مسافروں کے ہاتھ بس ڈرائیور اور کلینر کے گریبان پر ہیں۔ ہر بازار میں مفت پارکنگ کی جگہوں پر بھی پیسے بدمعاشیہ وصول کر رہی ہے مگر گاڑی والے پارکنگ کی پرچی تھمانے والے اس لمڈے کی ماں بہن ایک کر رہے کہ جو خود دو ڈھائی سو روپے کی دہاڑی پر یہ گالیاں سننے پر مجبور ہے۔اس بچارے کو تو اصلی بدمعاش کا نام تک نہیں معلوم ۔

    اور یہی سب حرکتیں کرنے والے ہم اور آپ اب پی ٹی آئی حکومت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان بچاروں کا بس اتنا قصور ہے کہ انہیں بچپن سے حکومت سنبھالنے کا شوق تھا۔ بادشاہ گروں نے ان کا شوق پورا کر دیا اور ظالم مجمع کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا۔

    بالکل ایسے ہی جیسے چھوٹا بچہ جب گاڑی چلانے کی مسلسل ضد کرتا ہے تو بڑا بھائی یا باپ اسے گود میں بٹھا لیتا ہے اور بچہ سٹیرنگ گھماتے ہوئے سمجھتا ہے کہ وہی ڈرائیو کر رہا ہے۔

    اب کہیں آٹھ نو ماہ بعد احساس ہو رہا ہے کہ یہ حکومت نہیں چا کری ہے اور کام بس اتنا ہے کہ روزانہ داتا صاحب جانا ہے ، لنگر سے خود بھی پیٹ بھرنا ہے اور شاپر ڈبل کروا کے مالک کے لئے بھی کھانا لانا ہے۔

    ممکن ہے میں مبالغہ کر رہا ہوں اور صورتِ حال ایسی نہ ہو۔چلئے اس کو یوں سمجھ لیتے ہیں کہ گورنمنٹ لمیٹڈ کمپنی میں پی ٹی آئی کو اکیاون فیصد شئیرز دئیے گئے اور انچاس فیصد دیگر اداروں نے اپنے ہاتھ میں رکھے۔خان صاحب کو کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیرمین بنا دیا گیا۔

    مگر سٹاک کے حالات بہتر ہونے کے بجائے کچھ اتنی تیزی سے بگڑے کہ پی ٹی آئی کو اپنے تیس فیصد حصص دیگر شئیرز ہولڈرز کو فروخت کرنے پڑ گئے تاکہ کمپنی دیوالیہ نہ ہو جائے۔اب پی ٹی آئی کے پاس اکیس فیصد اور دیگر کے پاس اناسی فیصد شئیرز آ گئے ہیں۔پالیسی اکثریتی شیئر ہولڈرز کی چل رہی ہے مگر خان صاحب بدستور اعزازی چیرمین ہیں ۔تاکہ جس کو جو بھی اچھا برا کہنا ہے وہ ان کی تصویر سے کہہ لے اور توجہ پسِ تصویر نہ جائے۔

    بہت عرصے پہلے اخبارات میں خبریں آتی تھیں کہ سادہ لوح افراد کو ریکروٹنگ ایجنٹ نے دوبئی کا جھانسہ دیا اور دو دن کے سفر کے بعد لانچ کو گوادر کے قریب ویرانے میں لنگر انداز کر کے مسافروں سے کہا لو بھئی ، تمہارے پیسے پورے ۔دوبئی آ گیا۔

    مجھے لگتا ہے موجودہ حکومت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہاتھ ہوا ہے۔اسے کچھ کہنا بارکنگ اپ دی رانگ ٹری ہے۔

    https://www.bbc.com/urdu/48490407

    یہ وسعت الله بھی بوٹ چاٹیا تو نہیں کہ رہا

    :lol: :lol:

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2
    خبردار ملک صاحب اسے بوٹ چاٹیا کہا میرا پسندیدہ کالم نگار ہے اب ہر بندے میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کی ہمت تو نہیں ہوتی دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کون لے گا شیر کو کون کہے گا کہ وہ دانت صاف نہیں کرتا اور اس کے منہ سے بد بو آتی ہے – اچھا لکھتا ہے اس کے ٹیلینٹ کو داد دیں –

    GeoG

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    اس ملک کا سب سے زیرک سیاستدان مولانا فضل الرحمان ہے، اس بندے کو سیاست کے تمام اسباق زیر زبر پیش سمیت رٹے ہوے ہیں

    مولانا سے زیادہ کسی کو نہیں معلوم کہ حکومت دراصل وہی بنتی ہے جس کے پاس امریکی اشیر واد ہو، مولانا نے بھی ایک دعوت پر امریکی سفیر کو بلوایا اور پھر اپنی وفاداری کا یقین دلایا مگر امریکی اشیرواد  نہ لے سکا، شائد وہ اس کی داڑھی سے کنفیوزڈ ہوگئے، اب بھی فوج نے ضرور عمران حکومت قائم کرنے میں مدد کی ہے مگر اس کے پیچھے اصل سفارش امریکہ کی ہوگی

    EasyGo
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #4
    Perception count more than reality
    GeoG
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #5
    خبردار ملک صاحب اسے بوٹ چاٹیا کہا میرا پسندیدہ کالم نگار ہے اب ہر بندے میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کی ہمت تو نہیں ہوتی دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کون لے گا شیر کو کون کہے گا کہ وہ دانت صاف نہیں کرتا اور اس کے منہ سے بد بو آتی ہے – اچھا لکھتا ہے اس کے ٹیلینٹ کو داد دیں – GeoG

    اعوان بھائی میں نے پی ٹی آئی کو بوٹ چاٹیا لکھا ہے – وسعت اللہ کی نظر میں

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #6
    اعوان بھائی میں نے پی ٹی آئی کو بوٹ چاٹیا لکھا ہے – وسعت اللہ کی نظر میں

    اچھا کیا آپ نے کلئیر کر دیا – کئی سال پہلے جب سی پیک کی بات نئی نئی شروع ہوئی تھی تو وسعت اللہ نے ایک خوبصورت کالم لکھا – مختصر یہ ہے کہ پنجاب میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بننے سے پہلے بارانی زمین تھی اور بہت غربت تھی – انگریز بہادر کو ایک دن خیال آیا اس کے پاس ہزاروں میں فالتو سرکاری ملازم ہے اور مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں پورے ہندستان سر فالتو سٹاف کو پنجاب لایا گیا اور انہیں نہریں کھودنے پر لگا دیا – چند سالوں میں نہری نظام مکمل ہو گیا اور اس علاقے کے لوگوں کی زندگی میں انقلاب آ گیا – نہری پانی سے فصلیں کئی گنا بڑھ گئیں اور ہر طرف خوشحالی ہو گئی – انگریز بہادر کو بھی خوب لگان ملا – وسعت اللہ نے اسے اس دور کا سی پیک کہا –

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    ہے تو بیچارہ بے قصور ہی

    اس سلیکٹڈ وزیر اعظم کو تو فوجیوں نے ننگے پاؤں شاہی درباروں میں بھیج کر بھیک مانگنے کے لیے رکھا ہوا یے

    بجت تک کے فیصلے تو فوجی خود کرتے ہیں جس کا اعتراف سلیکٹڈ وزیر اعظم اور اس کے مشیر خزانہ خود کرتے ہیں

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #8
    Bawasahib

    محترم باوا صاحب

    اسلام علیکم

    ویسے اگر فوج موجودہ اقتصادی اور معاشی حالات میں اپنے خرچے کی کٹوتی نہ کرتی تو یہ بہتا ممکن ہے کے یہ سننے کو ملتا کے ہر کوئی قربانی دے رہا ہے مگر فوج نہیں

    اگر فوج کٹوتی کرتی ہے تو یہ سننے کو ملتا ہے فوج ہر فیصلہ کرتی ہے

    جائیں تو جائیں کہاں

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    Bawasahib

    محترم باوا صاحب

    اسلام علیکم

    ویسے اگر فوج موجودہ اقتصادی اور معاشی حالات میں اپنے خرچے کی کٹوتی نہ کرتی تو یہ بہتا ممکن ہے کے یہ سننے کو ملتا کے ہر کوئی قربانی دے رہا ہے مگر فوج نہیں

    اگر فوج کٹوتی کرتی ہے تو یہ سننے کو ملتا ہے فوج ہر فیصلہ کرتی ہے

    جائیں تو جائیں کہاں

    و علیکم السلام محترم جے بھائی جی

    بات کٹوتی کی نہیں بجٹ میں اصافہ نہ کرنے کی ہو رہی ہے

    فوج کے بجٹ میں کٹوتی کرنے یا اضافہ کرنے کا اختیار حکومت کا ہے یا فوج کا؟

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #10
    و علیکم السلام محترم جے بھائی جی بات کٹوتی کی نہیں بجٹ میں اصافہ نہ کرنے کی ہو رہی ہے فوج کے بجٹ میں کٹوتی کرنے یا اضافہ کرنے کا اختیار حکومت کا ہے یا فوج کا؟

    Bawasahib

    محترم باوا صاحب

    کہنے والے تو کہتے ہیں جن کی حکومت ہے وہی فیصلہ کر رہے ہیں. آپ شاید دونوں میں فرق دیکھ رہے ہیں

    EasyGo
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #11
    Bawasahib

    محترم باوا صاحب

    اسلام علیکم

    ویسے اگر فوج موجودہ اقتصادی اور معاشی حالات میں اپنے خرچے کی کٹوتی نہ کرتی تو یہ بہتا ممکن ہے کے یہ سننے کو ملتا کے ہر کوئی قربانی دے رہا ہے مگر فوج نہیں

    اگر فوج کٹوتی کرتی ہے تو یہ سننے کو ملتا ہے فوج ہر فیصلہ کرتی ہے

    جائیں تو جائیں کہاں

    جے بھائی

    کمی کم ہے

    اور چرچا زیادہ

    بہتر ہوتا ساتھ میں یہ بھی بتایا جاتا

    پچھلے سال کیا تھا

    کتنا زیادہ کرنا پڑا

    اب کتنا کم ہو رہا ہے

    مجھے تو لگتا ہے

    کچھ مد میں صرف اضافہ نہیں لیا جا رہا

    کمی کم ہی ہے

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12
    Bawasahib محترم باوا صاحب کہنے والے تو کہتے ہیں جن کی حکومت ہے وہی فیصلہ کر رہے ہیں. آپ شاید دونوں میں فرق دیکھ رہے ہیں

    محترم جے بھائی جی

    یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ حکومت کون چلا رہا ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے؟

    میں کچھ کہوں گا تو آپ کہیں گے کہ مجھے تو فوج اور اسکی سلیکٹڈ حکومت سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ میں وسعت اللہ خان کے ہی الفاظ کاپی پیسٹ کرتا ہوں

    ہم اور آپ اب پی ٹی آئی حکومت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان بچاروں کا بس اتنا قصور ہے کہ انہیں بچپن سے حکومت سنبھالنے کا شوق تھا۔ بادشاہ گروں نے ان کا شوق پورا کر دیا اور ظالم مجمع کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا۔

    بالکل ایسے ہی جیسے چھوٹا بچہ جب گاڑی چلانے کی مسلسل ضد کرتا ہے تو بڑا بھائی یا باپ اسے گود میں بٹھا لیتا ہے اور بچہ سٹیرنگ گھماتے ہوئے سمجھتا ہے کہ وہی ڈرائیو کر رہا ہے

    وسعت اللہ خان مزید لکھتے ہیں کہ عنقریب حکومت کو کسی لانچ کے مسافروں کی طرح “لانچ” کو کسی ویرانے میں لنگر انداز کر کے مسافروں سے کہا جائے گا

    لو بھئی ، تمہارے پیسے پورے ۔دوبئی آ گیا

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13

    جے بھائی کمی کم ہے اور چرچا زیادہ بہتر ہوتا ساتھ میں یہ بھی بتایا جاتا پچھلے سال کیا تھا کتنا زیادہ کرنا پڑا اب کتنا کم ہو رہا ہے مجھے تو لگتا ہے کچھ مد میں صرف اضافہ نہیں لیا جا رہا کمی کم ہی ہے

    حیرت ہے کہ ایک خبر جو جنگ میں اسطرح پڑھی جاسکتی ہے کہ فوج نے اپنے سالانہ بجٹ میں اضافہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے

    یہی خبر بوٹ لیکرز جنرلسٹس نے یوں شایع کردی کہ فوج نے اپنے بجٹ میں کمی کردی

    فوج کے ترجمان کے بیان کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک دھیلے کی بھی کمی نہیں ہوی اور گزشتہ سال والا بجٹ ہی جوں کا توں رہنے دیا

    میرے خیال میں فوج کو پچاس ارب تک کمی کرنی چاہئے تھی، اس کمی کے باوجود فوج کا بجٹ ایک کھرب کے قریب ہوتا

Viewing 13 posts - 1 through 13 (of 13 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi