Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 100 total)
  • Author
    Posts
  • اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #1
    فطرت ہمیں جبلتوں کا اسیر پیدا کرتی ہے والدین اور ہمارا ماحول/کلچر ان جبلتوں کو تھوڑا بہت سَدھا کر ہمیں ایک چالو معاشرے کا فرد بنا دیتے ہیں اور اکثر صورتوں میں کسی صحیح غلط کی تخصیص کے بغیر ہم وہی کرنے لگتے ہیں جو معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے، ہمارے جیسے ملکوں کی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے جمود و انحطاط کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ ہماری سوچ کا جامد ہونا ہے اس میں سب سے زیادہ قصور ہمارے تعلیم نطام اور فرسودہ روایات کا ہے لیکن یہ باتیں تو بہت دفعہ کہی جا چکی ہیں اور ابھی بھی کسی جگہ پر لکھی اور کہی جا رہی ہونگی

    تو یہ صورتحال بدلے کیسے؟

    ایسا نہیں کہ ہم بحیثیتِ معاشرہ بدل نہیں رہے، ہم بدل رہے ہیں لیکن ہم میں شعوری بدلاؤ نہیں آ رہا، ہمارا بدلاؤ رد عمل کا اور کسی مخصوص سمت سے عاری بدلاؤ ہے، ایک یہ بھی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے بدلنے کا احساس نہیں ہورہا کیونکہ اس کی رفتار بہت ہی آہستہ ہے جدید ٹیکنالوجی کی مثال لے لیں، بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ فرسودہ روایات اور جہالت سے جان چھوٹے گی، لیکن ٹیکنالوجی نے تو بس ہمارے ہاتھ میں آلات پکڑا دیئے ہیں جن کو پڑھا لکھا اور جاہل دونوں اپنے اپنے ظرف کے مطابق استعمال کر رہے ہیں، جس فرسودہ روایت نے ٹوٹنا تھا وہ تو اپنی جگہ ہے بس اس نے پیرہن بدل لیا ہے

    یہ صورتحال کیا بتاتی ہے؟ یہی کہ بظاہر ہم بدل رہے ہیں لیکن بدل بھی کچھ نہیں رہا، وجہ؟؟ یہ ہماری سوچ ہے جو جامد ہے، کوئی بھی شعبہ زندگی لے لیں، بت کم ندرت ہے بہت کم جدت ہے۔  جو دو شعبے سب سے زیادہ معاشرے کے دوسرے شعبوں (کلچر/ثقافت) پر اثر رکھتے اور ڈالتے ہیں وہ مذہب اور سیاست ہیں اور وہی سب سے زیادہ جمود کا شکار ہیں، مذہب فی الحال میرا موضوع نہیں ہے سیاست پر اس فورم پر بہت بات ہوتی ہے بلکہ معرکے لڑے جاتے ہیں، میں خود بھی توفیق مطابق حصہ ڈالتا ہوں اور مجھے اس پر کوئی ایسا فخر نہیں کیونکہ میں بعض اوقات جذباتی اور کبھی کبھی ردعمل میں متشدد ہو جاتا ہوں جو کہ نہیں ہونا چاہیے جو رویہ کسی مثبت بدلاؤ کی کچھ بھی خدمت نہیں کر پاتا

    لیکن میری ان معروضات کا مقصد میرے سمیت اس فورم کے ممبران کے عمومی سیاسی رویوں پر ایک بحث اٹھانا ہے کہ کیا اس فورم پر سیاسی مباحث کا معیار اس فورم کے  ممبران کی شعوری صلاحیتوں (پوٹینشل) کے مطابق/تناسب سے ہے یا بہتری کی گنجائش ہے؟ میرے خیال میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش ہے اگر ہم اپنی جبلتوں کی اسیری سے رہائی پا سکیں اور اپنی سیاسی سوچ میں پسماندگی اور فرسودگی سے بچا کر شعوری بدلاؤ (ایکٹو چینج بمقابلہ ری ایکٹو چینج) کی راہ پر ڈال سکیں، ہم دو برائیوں میں موازنے اور اپنے اپنے کم برے انتخاب سے اوپر اٹھیں

    تو ہم بدلیں کیسے؟؟

    جب بچپن چھوڑ کر ہم نوجوانی میں داخل  ہو جاتے ہیں تو پھر ہمیں کوئی نہیں بدل سکتا، اگر توفیق ہو تو ہم خود ہی خود کو بدلتے ہیں ورنہ بھیڑوں کے ساتھ چلنے لگتے ہیں، یہاں پھر اس شعوری بدلاؤ کے نکتے کو دہرانے کی ضرورت ہے اور وہ کیسے آئے؟ ماحول، دوست احباب اور تجربہ بس ہمیں معلومات دیتے ہیں بدلتے نہیں، بدلتے ہم خود ہیں جب ان معلومات پر ہمارا غور فکر انکے حسن و قبح کا فیصلہ ہماری افتادِ طبع اور رجحانات کے مطابق کرتا ہے حسین کو اپنا لیتا ہے اور قبیح کو مسترد کر دیتا ہے یہ ایک تدریجی اور پیچیدہ عمل ہے اور اس کی بنیادی و کلیدی شرط جبلتوں سے رہائی کی دُھن/لگن ہے جو شعوری بدلاؤ کیلئے دائم مہمیز کا کام کرتی ہے

    Shah G
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2
    کسی زمانے میں میں بھی ان لوگوں کو دوست مان کر  نصیحتیں کرتا رہتا تھا ، پھر ایک وقت آیا کہ میں نے سوچا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ، کچھ عرصے بعد واپس آیا تو دیکھا ہر بندہ بد سے بد تر حالت میں آ چکا ہے
    .
    میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ . . . . . . . . . . .
    چل رہن دے یار . . . . . کیا فائدہ بھینس کے آگے بین بجانے کا . . . . یہ لوگ نہیں سدھرنے والے
    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    عقلمند پہلے خود کو بدلتا ہے اور پھر دوسروں کے بدلنے کی بات کرتا ہے جبکہ احمق خود کو بدلنے کی بجائے دوسروں کے بدلنے کی باتیں کرتا ہے. تبدیلی اسوقت آتی ہے جب آپ اپنے آپ کو بدلتے ہیں، اپنی سوچ اور فکر بدلتے ہیں اور اپنا طرز عمل اور رویہ بدلتے ہیں

    ایک احمق چار سو کنال کے محل میں بیٹھکر تبدیلی کی باتیں کرتا ہے اور لوگوں سے ڈیم بنانے کیلیے پیسے مانگتا ہے. جس احمق کو اپنی جیب سے ڈیم فنڈ میں ایک پیسہ دینے کی بھی توفیق نہیں ہو سکی ہے وہ کس فٹے منہ سے لوگوں سے پیسے مانگتا ہے؟

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #4
     مذہب اور سیاست ہیں اور وہی سب سے زیادہ جمود کا شکار ہیں، مذہب فی الحال میرا موضوع نہیں ہے

    ہمارے معاشرے میں عوام کی سوچ کو جامد کرنے میں جس عنصر کا سب سے اہم اور زیادہ کردار اس پر تو آپ نے بحث کرنے سے ہی گریز فرما دیا، انسانی سوچ میں تنوع / ترقی / جدت کے لئے اس کے دماغ کا کام کرنا / سوچنا بہت ضروری ہے، فطرتاً انسان منطقی انداز میں ہی سوچتا ہے تاوقتیکہ اس کو ایک طویل اور خاص عمل سے گزار کر عقل کے استعمال ترک کردینے کی عادت ڈال دی جائے، اور یہ کام مذہب کرتا ہے، ہمارے جیسے معاشروں میں بچپن سے چاروں طرف مذہبی چھتری تنی ہوتی ہے اور اس سے باہر جھانکنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی، سینکڑوں سال پرانے پریوں، فرشتوں کے افسانوی / مافوق الفطرت / عقل سے بالاتر واقعات سنا سنا کر عقل کی بینڈ بجا دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مذہبی آدمی کو بے وقوف بنانا سب سے آسان کام ہوتا ہے، مذہب کے ذریعے بچپن سے لے کر جوانی تک جو برین واشنگ ہوتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اچھا بھلا انسان روبوٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی منطقی انداز سے سوچنا ترک کردیتا ہے۔ اور اس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی کوئی تخصیص نہیں، بہت سے نام نہاد پڑھے لکھے، پی ایچ ڈی حضرات بھی دیکھے ہیں کہ چھیلو تو اندر سے سینکڑوں سال پرانا گدھے پر بیٹھا عربی بدو نکلتا ہے۔۔۔ 

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #5
    عقلمند پہلے خود کو بدلتا ہے اور پھر دوسروں کے بدلنے کی بات کرتا ہے جبکہ احمق خود کو بدلنے کی بجائے دوسروں کے بدلنے کی باتیں کرتا ہے. تبدیلی اسوقت آتی ہے جب آپ اپنے آپ کو بدلتے ہیں، اپنی سوچ اور فکر بدلتے ہیں اور اپنا طرز عمل اور رویہ بدلتے ہیں ایک احمق چار سو کنال کے محل میں بیٹھکر تبدیلی کی باتیں کرتا ہے اور لوگوں سے ڈیم بنانے کیلیے پیسے مانگتا ہے. جس احمق کو اپنی جیب سے ڈیم فنڈ میں ایک پیسہ دینے کی بھی توفیق نہیں ہو سکی ہے وہ کس فٹے منہ سے لوگوں سے پیسے مانگتا ہے؟

    میں نے اپنی معروضات میں اسی نکتے پر زور دیا ہے کہ تبدیلی کا سب سے پہلا مرکز ذات ہونی چاہیے بلکہ اس سے بھی بڑھکر ذات کے اندر وہ منہ زور جبلتیں جو نہ صرف فرد کا ذاتی بلکہ معاشرے میں بھی بگاڑ/نقصان کا باعث بنتی ہیں، خود تنقیدی و محاسبہءذات کے عمل کے ذریعے ان کی شناخت اور پھر اصلاحِ احوال کی کوشش ہونی چاہیے، اگر مجھ میں ایسی اہلیت نہیں ہے تو مجھے کسی دانا سے مدد لینے سے بھی ہچکچانا/شرمانا نہیں چاہیے

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #6
    کسی زمانے میں میں بھی ان لوگوں کو دوست مان کر نصیحتیں کرتا رہتا تھا ، پھر ایک وقت آیا کہ میں نے سوچا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ، کچھ عرصے بعد واپس آیا تو دیکھا ہر بندہ بد سے بد تر حالت میں آ چکا ہے . میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ . . . . . . . . . . . چل رہن دے یار . . . . . کیا فائدہ بھینس کے آگے بین بجانے کا . . . . یہ لوگ نہیں سدھرنے والے

    آپ کا تبصرہ کچھ اس قسم کا تاثر دے رہا ہے جیسے آپ کو عرفان و نروان حاصل ہو چکے ہیں مزید کسی سدھار کی ضرور باقی نہیں رہی، بس اب دوسروں کو گیان بانٹنا اور سدھارنا ہے، ایسا ہی ہے؟

    ویسے انسان کا سب سے بڑا وصف اور منشاء کیا ہے آپکی نظر میں؟

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #7

    ہمارے معاشرے میں عوام کی سوچ کو جامد کرنے میں جس عنصر کا سب سے اہم اور زیادہ کردار اس پر تو آپ نے بحث کرنے سے ہی گریز فرما دیا، انسانی سوچ میں تنوع / ترقی / جدت کے لئے اس کے دماغ کا کام کرنا / سوچنا بہت ضروری ہے، فطرتاً انسان منطقی انداز میں ہی سوچتا ہے تاوقتیکہ اس کو ایک طویل اور خاص عمل سے گزار کر عقل کے استعمال ترک کردینے کی عادت ڈال دی جائے، اور یہ کام مذہب کرتا ہے، ہمارے جیسے معاشروں میں بچپن سے چاروں طرف مذہبی چھتری تنی ہوتی ہے اور اس سے باہر جھانکنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی، سینکڑوں سال پرانے پریوں، فرشتوں کے افسانوی / مافوق الفطرت / عقل سے بالاتر واقعات سنا سنا کر عقل کی بینڈ بجا دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مذہبی آدمی کو بے وقوف بنانا سب سے آسان کام ہوتا ہے، مذہب کے ذریعے بچپن سے لے کر جوانی تک جو برین واشنگ ہوتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اچھا بھلا انسان روبوٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی منطقی انداز سے سوچنا ترک کردیتا ہے۔ اور اس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی کوئی تخصیص نہیں، بہت سے نام نہاد پڑھے لکھے، پی ایچ ڈی حضرات بھی دیکھے ہیں کہ چھیلو تو اندر سے سینکڑوں سال پرانا گدھے پر بیٹھا عربی بدو نکلتا ہے۔۔۔

    مجھے کچھ کچھ حُسنِ ظن ہے کہ مجھ سے بہتر مذہب کا پیرہن کم کم لوگ ہی اتار سکتے ہیں، لیکن مسئلہ مذہب کا پیرہن اتارنا نہیں ہے بلکہ مذہب کو بطور سوچ کے ایک مربوط نظام کے دیکھنا ہے پھر اس پر مفید/نقصان دہ کا حکم لگانا ہے بہت ساری وجوہ کی بناء پر عام آدمی ان پیچیدگیوں میں نہیں پڑتا

    میں جب مذہب کی مخالفت کرتا ہوں تو میرے پاس عام آدمی کو بطور متبادل دینے کیلئے کچھ نہیں یا بہت کم ہوتا ہے بہ نسبت اسکے جو پہلے ہی اس کو مذہب سے مل رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف انتخابات کے ذریعے پاکستانی معاشرے نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ مذہب کے عملی طور پر ناکارہ تصور کو قبول نہیں کرتا، آج سے 50-60 سال پہلے جماعتِ اسلامی کا سیاسی اسلام کا تصور جدیدیت/زمانے سے ہم آہنگی لئے ہوئے تھا، اب دیکھ لیں اس کا کیا حال ہے، کیوں؟؟ تعبیر پیچھے رہ گئی اور وقت آگے نکل گیا

    عقل کے استعمال بارے آپ کا استدلال مجموعی نہیں بلکہ یک رُخی ہے، جیسے کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، عام انسان نے (زندگی کی) پیچیدگیوں اور (عملی) ترجیحات کی وجہ سے مذہب کو صرف ایک روحانی سکون کے ماخذ تک محدود کر دیا ہے ورنہ وہ اپنی معاشرت اور معاش کے سارے فیصلے عقلی اور منطقی نظر سے ہی کرتا ہے، اور مذہبی طبقے کی شدید ناکامی یہ ہے کہ وہ ان پیچیدگیوں کو عام آدمیوں کی فہم کیلئے آسان بنانے اور ان کے عملی حل دینے میں ناکام رہا ہے اور ہے

    مذہب کو فی الحال ایک طرف اس لئے کیا کہ مذہب کا ہمارے انفرادی و اجتماعی معاملات کو بگاڑنے میں اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا سیاست کا ہے کیونکہ آخرالذکر کا وظیفہ معاشرے کی سمت متعین کرنا اور انتظام کاری ہے

    دوسری گذارش آپ سے یہ کہ اگر آپ نے مذہب پر بات کرنی ہی ہے تو آپ ایک ذرا سلیقے اور احترام سے بات کریں، مذہب لوگوں کی عقیدتوں کا مسئلہ ہے، مجھے احساس ہے کہ جن لوگوں کو نیا نیا “پا لیا” “پا لیا” کا “عرفان” نصیب ہوا ہوتا ہے وہ جوش و جذبے کی کسی اور ہی لہر پر سوار ہوتے ہیں، لیکن انسانی تفسیات کا ایک موٹا سا اصول ہے کہ آپ کسی کی عقیدت پر حملہ کر کے اس کو اس عقیدت سے چھڑانا تو کیا ایک ذرا منفی انداز میں سوچنے پر بھی مائل نہیں کر سکتے

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #8
    دوسری طرف انتخابات کے ذریعے پاکستانی معاشرے نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ مذہب کے عملی طور پر ناکارہ تصور کو قبول نہیں کرتا، آج سے 50-60 سال پہلے جماعتِ اسلامی کا سیاسی اسلام کا تصور جدیدیت/زمانے سے ہم آہنگی لئے ہوئے تھا، اب دیکھ لیں اس کا کیا حال ہے، کیوں؟؟ تعبیر پیچھے رہ گئی اور وقت آگے نکل گیا 

    پاکستانی عوام مذہبی طبقے کو ووٹ دے کر حکمران بھلے نہ بناتے ہوں لیکن قوم کی فکری لگامیں مذہبی طبقے / مولویوں کے ہاتھ میں ہی ہیں، احمدیوں کے خلاف قانون سازی اس کی زندہ مثال ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون پاس نہیں ہوسکتا جو مولوی کی مرضی کے خلاف ہو اور یہ پاور مولوی کی نہیں بلکہ اس کے  پیچھے بیس بائیس کروڑ مذہبی عوام کی ہے جو انہوں نے مولوی کے ہاتھ میں تھمائی ہے۔

     عقل کے استعمال بارے آپ کا استدلال مجموعی نہیں بلکہ یک رُخی ہے، جیسے کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، عام انسان نے (زندگی کی) پیچیدگیوں اور (عملی) ترجیحات کی وجہ سے مذہب کو صرف ایک روحانی سکون کے ماخذ تک محدود کر دیا ہے ورنہ وہ اپنی معاشرت اور معاش کے سارے فیصلے عقلی اور منطقی نظر سے ہی کرتا ہے، اور مذہبی طبقے کی شدید ناکامی یہ ہے کہ وہ ان پیچیدگیوں کو عام آدمیوں کی فہم کیلئے آسان بنانے اور ان کے عملی حل دینے میں ناکام رہا ہے

    پاکستان جیسے معاشروں میں اگر عام انسان نے مذہب کو صرف روحانی سکون تک محدود کردیا ہوتا تو مذہب انفرادی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے، جبکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے، آج بھی یہ قوم پوری طرح مذہب میں گتھی ہوئی ہے، زندگی کے بیشتر معاملات میں مذہب سے رہنمائی لی جاتی ہے اور مذہب کو بطور اجتماعی عنصر کے لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر ایک شخص مذہب چھوڑتا ہے تو دوسرے اس کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔

     مذہب کو فی الحال ایک طرف اس لئے کیا کہ مذہب کا ہمارے انفرادی و اجتماعی معاملات کو بگاڑنے میں اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا سیاست کا ہے کیونکہ آخرالذکر کا وظیفہ معاشرے کی سمت متعین کرنا اور انتظام کاری ہے

    اگر آپ مسئلے کی جڑ میں جا کر دیکھیں تو آپ کو مذہب کا اس قوم کے بگاڑ میں بہت بڑا ہاتھ نظر آئے گا۔۔ دو اسلامی نظریات نے قوم کی بربادی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ایک یہ کہ رزق اللہ دیتا ہے۔۔ دوسرا یہ کہ بچے زیادہ پیدا کرو تاکہ آخرت میں امتِ مسلمہ کا ہجوم باقی سب مذاہب سے زیادہ ہو۔۔۔ رزق کے لئے خدا پر آسرا رکھنا/ توکل/ تقدیر یہ سب کام چوری کے تصورات ہیں اور بنا کچھ کام کئے کچھ پانے کی ترغیب دیتے ہیں اور ہماری قوم کا زیادہ تر طبقہ یہی کررہا ہے۔ آبادی کے معاملے میں دیکھیں تو مولوی حضرات کی وجہ سے کوئی بھی حکومت آبادی کنٹرول کرنے کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے سے ڈرتی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ایک گھر میں دس دس بارہ بارہ بچے عام ہوتے ہیں اور کمانے والا صرف ایک ہوتا ہے۔ نتیجہ وہی نکلنا ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔۔

     دوسری گذارش آپ سے یہ کہ اگر آپ نے مذہب پر بات کرنی ہی ہے تو آپ ایک ذرا سلیقے اور احترام سے بات کریں، مذہب لوگوں کی عقیدتوں کا مسئلہ ہے، مجھے احساس ہے کہ جن لوگوں کو نیا نیا “پا لیا” “پا لیا” کا “عرفان” نصیب ہوا ہوتا ہے وہ جوش و جذبے کی کسی اور ہی لہر پر سوار ہوتے ہیں، لیکن انسانی تفسیات کا ایک موٹا سا اصول ہے کہ آپ کسی کی عقیدت پر حملہ کر کے اس کو اس عقیدت سے چھڑانا تو کیا ایک ذرا منفی انداز میں سوچنے پر بھی مائل نہیں کر سکتے

    آخری جملہ میں نے دانستہ لکھا تھا، مقصد مذہب کے معاملے میں آپ کی حساسیت کا لیول چیک کرنا تھا اور نتیجہ حسبِ توقع ہی نکلا۔ یہ بھی ایک اہم اشو ہے۔ مذہب کے معاملے میں خاص طور پر مسلمانوں کی حساسیت کی لیول بہت اونچا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر ان کے نازک جذبات مجروح ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے آئے روز گستاخی یا توہین رسالت / توہین مذہب کے نام پر کسی نہ کسی کی جان آزار میں آئی ہوتی ہے۔ آسیہ مسیح ایک زندہ مثال ہے۔۔ مسلمانوں کے جذبات کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ ایک عور ت کو صرف اس لئے مار ڈالنا چاہتے ہیں کہ اس پر شبہ ہے کہ اس نے ان کے نبی کے متعلق چند تنقیدی الفاظ کہے ہیں۔۔۔۔ کیا آپ کو نہیں لگتا یہ نام نہاد حساسیت انسانیت کے لئے خطرہ ہے۔۔۔ 

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Shah G
    Participant
    Offline
    • Professional
    #9
    آپ کا تنصرہ کچھ اس قسم کا تاثر دے رہا ہے جیسے آپ کو عرفان و نروان حاصل ہو چکے ہیں مزید کسی سدھار کی ضرور باقی نہیں رہی، بس اب دوسروں کو سدھارنا ہے، ایسا ہی ہے؟

    نہیں

    ویسے انسان کا سب سے بڑا وصف اور منشاء کیا ہے آپکی نظر میں؟

    الله کے فرمانبردار بندے بن جانا

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10

    پاکستانی عوام مذہبی طبقے کو ووٹ دے کر حکمران بھلے نہ بناتے ہوں لیکن قوم کی فکری لگامیں مذہبی طبقے / مولویوں کے ہاتھ میں ہی ہیں، احمدیوں کے خلاف قانون سازی اس کی زندہ مثال ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون پاس نہیں ہوسکتا جو مولوی کی مرضی کے خلاف ہو اور یہ پاور مولوی کی نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیس بائیس کروڑ مذہبی عوام کی ہے جو انہوں نے مولوی کے ہاتھ میں تھمائی ہے۔

    پاکستان جیسے معاشروں میں اگر عام انسان نے مذہب کو صرف روحانی سکون تک محدود کردیا ہوتا تو مذہب انفرادی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے، جبکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے، آج بھی یہ قوم پوری طرح مذہب میں گتھی ہوئی ہے، زندگی کے بیشتر معاملات میں مذہب سے رہنمائی لی جاتی ہے اور مذہب کو بطور اجتماعی عنصر کے لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر ایک شخص مذہب چھوڑتا ہے تو دوسرے اس کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔

    اگر آپ مسئلے کی جڑ میں جا کر دیکھیں تو آپ کو مذہب کا اس قوم کے بگاڑ میں بہت بڑا ہاتھ نظر آئے گا۔۔ دو اسلامی نظریات نے قوم کی بربادی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ایک یہ کہ رزق اللہ دیتا ہے۔۔ دوسرا یہ کہ بچے زیادہ پیدا کرو تاکہ آخرت میں امتِ مسلمہ کا ہجوم باقی سب مذاہب سے زیادہ ہو۔۔۔ رزق کے لئے خدا پر آسرا رکھنا/ توکل/ تقدیر یہ سب کام چوری کے تصورات ہیں اور بنا کچھ کام کئے کچھ پانے کی ترغیب دیتے ہیں اور ہماری قوم کا زیادہ تر طبقہ یہی کررہا ہے۔ آبادی کے معاملے میں دیکھیں تو مولوی حضرات کی وجہ سے کوئی بھی حکومت آبادی کنٹرول کرنے کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے سے ڈرتی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ایک گھر میں دس دس بارہ بارہ بچے عام ہوتے ہیں اور کمانے والا صرف ایک ہوتا ہے۔ نتیجہ وہی نکلنا ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔۔

    آخری جملہ میں نے دانستہ لکھا تھا، مقصد مذہب کے معاملے میں آپ کی حساسیت کا لیول چیک کرنا تھا اور نتیجہ حسبِ توقع ہی نکلا۔ یہ بھی ایک اہم اشو ہے۔ مذہب کے معاملے میں خاص طور پر مسلمانوں کی حساسیت کی لیول بہت اونچا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر ان کے نازک جذبات مجروح ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے آئے روز گستاخی یا توہین رسالت / توہین مذہب کے نام پر کسی نہ کسی کی جان آزار میں آئی ہوتی ہے۔ آسیہ مسیح ایک زندہ مثال ہے۔۔ مسلمانوں کے جذبات کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ ایک عور ت کو صرف اس لئے مار ڈالنا چاہتے ہیں کہ اس پر شبہ ہے کہ اس نے ان کے نبی کے متعلق چند تنقیدی الفاظ کہے ہیں۔۔۔۔ کیا آپ کو نہیں لگتا یہ نام نہاد حساسیت انسانیت کے لئے خطرہ ہے۔۔۔

    جگر جی ۔

    آپ نے اس معاملے میں ہمارے جانی دشمن ۔اقبال کو رگڑا نہیں لگایا ۔۔۔۔۔کہتے جب تک اللہ کے حضور  گڑ  گڑا کے معافی نہ مانگی جائے قبول نہیں ہوتی ۔۔۔۔بالکل اسی طرح جب تک اقبال کو گھوٹنا نہ پھرے مجھے آرام نہئں آتا ۔۔۔

    :bigsmile:

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #11
    جگر جی ۔ آپ نے اس معاملے میں ہمارے جانی دشمن ۔اقبال کو رگڑا نہیں لگایا ۔۔۔۔۔کہتے جب تک اللہ کے حضور گڑ گڑا کے معافی نہ مانگی جائے قبول نہیں ہوتی ۔۔۔۔بالکل اسی طرح جب تک اقبال کو گھوٹنا نہ پھرے مجھے آرام نہئں آتا ۔۔۔ :bigsmile:

    حضرتِ اقبال تو صرف اس قوم کے ہی نہیں بلکہ پاکستان نامی جزیرے کے بھی معمار ہیں، انہوں نے ہی تو لسی پی کر غنودگی کے عالم میں ایسی اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا جہاں ہر دم لوگ تلوار ہاتھ میں لئے ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار رہیں۔۔

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12

    حضرتِ اقبال تو صرف اس قوم کے ہی نہیں بلکہ پاکستان نامی جزیرے کے بھی معمار ہیں، انہوں نے ہی تو لسی پی کر غنودگی کے عالم میں ایسی اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا جہاں ہر دم لوگ ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں شلوار پکڑے  ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار رہیں۔۔

    میں نے آپکی پوسٹ میں تبدیلی کی ہے ۔۔ذرا ویکھ  کے بتانا  کہہ ایسی  بد دینتی قابل قبول ہے ۔۔

    یا پھر میں تبدیل کر دوں

    :bigsmile:

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #13
    میں نے آپکی پوسٹ میں تبدیلی کی ہے ۔۔ذرا ویکھ کے بتانا کہہ ایسی بد دینتی قابل قبول ہے ۔۔ یا پھر میں تبدیل کر دوں :bigsmile:

    بڑی کمال کی تبدیلی کی ہے آپ نے :clap: :clap: :clap: ، حقیقتاً صورتِ حال یہی ہے۔۔۔۔

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #14

    پاکستانی عوام مذہبی طبقے کو ووٹ دے کر حکمران بھلے نہ بناتے ہوں لیکن قوم کی فکری لگامیں مذہبی طبقے / مولویوں کے ہاتھ میں ہی ہیں، احمدیوں کے خلاف قانون سازی اس کی زندہ مثال ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون پاس نہیں ہوسکتا جو مولوی کی مرضی کے خلاف ہو اور یہ پاور مولوی کی نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیس بائیس کروڑ مذہبی عوام کی ہے جو انہوں نے مولوی کے ہاتھ میں تھمائی ہے۔

    اس بڑھکر مبالغہ آمیز بیان کوئی ہو سکتا ہے؟ وہ اسلئے کہ آپ کو خوب پتا ہے کہ ایک انتہائی چھوڑی سی اقلیت کو یہ طاقت کس نے دی ہے

    پاکستان جیسے معاشروں میں اگر عام انسان نے مذہب کو صرف روحانی سکون تک محدود کردیا ہوتا تو مذہب انفرادی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے، جبکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے، آج بھی یہ قوم پوری طرح مذہب میں گتھی ہوئی ہے، زندگی کے بیشتر معاملات میں مذہب سے رہنمائی لی جاتی ہے اور مذہب کو بطور اجتماعی عنصر کے لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر ایک شخص مذہب چھوڑتا ہے تو دوسرے اس کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔

    یہاں بھی مبالغہ آمیزی ہے ایک چھوٹی سی اقلیت کے پاگل پن کو آپ پورے معاشرے پر تھوپ رہے ہیں اگر معاشرے کی بے حسی تک محدود رہتے تو کوئی بات بھی تھی

    اگر آپ مسئلے کی جڑ میں جا کر دیکھیں تو آپ کو مذہب کا اس قوم کے بگاڑ میں بہت بڑا ہاتھ نظر آئے گا۔۔ دو اسلامی نظریات نے قوم کی بربادی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ایک یہ کہ رزق اللہ دیتا ہے۔۔ دوسرا یہ کہ بچے زیادہ پیدا کرو تاکہ آخرت میں امتِ مسلمہ کا ہجوم باقی سب مذاہب سے زیادہ ہو۔۔۔ رزق کے لئے خدا پر آسرا رکھنا، توکل، تقدیر یہ سب کام چوری کے تصورات ہیں اور بنا کچھ کام کئے کچھ پانے کی ترغیب دیتے ہیں اور ہماری قوم کا زیادہ تر طبقہ یہی کررہا ہے۔ آبادی کے معاملے میں دیکھیں تو مولوی حضرات کی وجہ سے کوئی بھی حکومت آبادی کنٹرول کرنے کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے سے ڈرتی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ایک گھر میں دس دس بارہ بارہ بچے عام ہوتے ہیں اور کمانے والا صرف ایک ہوتا ہے۔ نتیجہ وہی نکلنا ہے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔۔

    عام مشاہدہ آپکے اس دعوی کی تائید بھی نہیں کرتا، آپکے خیال میں پاکستان میں کتنے فیصد گھرانوں میں اتنے بچے پیدا ہوتے ہیں؟؟ اب تو گاؤں میں بھی عموماً 3-4 سے زیادہ کسی کے نہیں ہوتے، جھگیوں یا کچی آبادیوں میں غربت اور جہالت کی وجہ سے (کسی اسلامی تعلیم یا آگہی کے زیرِ اثر نہیں، کیونکہ اس طبقے کا مولوی مسجد سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے) کہیں کہیں 6-8 بچے ہوتے ہوں گے، وہی مبالغہ آمیزی ایک دفعہ پھر جس نے آپ کے پورے تبصرے کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے

    آخری جملہ میں نے دانستہ لکھا تھا، مقصد مذہب کے معاملے میں آپ کی حساسیت کا لیول چیک کرنا تھا اور نتیجہ حسبِ توقع ہی نکلا۔ یہ بھی ایک اہم اشو ہے۔ مذہب کے معاملے میں خاص طور پر مسلمانوں کی حساسیت کی لیول بہت اونچا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر ان کے نازک جذبات مجروح ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے آئے روز گستاخی یا توہین رسالت / توہین مذہب کے نام پر کسی نہ کسی کی جان آزار میں آئی ہوتی ہے۔ آسیہ مسیح ایک زندہ مثال ہے۔۔ مسلمانوں کے جذبات کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ ایک عور ت کو صرف اس لئے مار ڈالنا چاہتے ہیں کہ اس پر شبہ ہے کہ اس نے ان کے نبی کے متعلق چند تنقیدی الفاظ کہے ہیں۔۔۔۔ کیا آپ کو نہیں لگتا یہ نام نہاد حساسیت انسانیت کے لئے خطرہ ہے۔۔۔

    آپ یہ دانستہ حرکت حسبِ موقع، حسبِ توفیق اکثر فرماتے رہتے ہیں، چونکہ آپ کے نزدیک یہ ایک اہم مسئلہ ہے اسی لئے آپ اس تشدد کو روا سمجھتے ہیں حالانکہ آپ اس دن صاف مُکر گئے تھے

    یہ سکے کے دو رُخ ہیں اب پتا نہیں کہ آپ متشدد زیادہ ہیں یا دوسرے حساس زیادہ ہیں، فیصلہ کوئی تیسرا ہی کر سکتا ہے، آپ سمجھنے لگ گئے ہیں چونکہ آپ نے سُچّا گیان اب پراپت کر لیا ہے تو اس صدیوں سے سوچ کے جمود کا شکار معاشرے کو بھی یکدم چھلانگ لگا کر آپکے ہم پلّہ و ہمسفر ہو جانا چاہیے اور اس کیلئے اپ کا غزنوی بننا ازحد ضروری ہے، لگے رہو غزنوی بھائی ۔ ۔ ۔

    حساسیت کبھی بھی خطرہ نہیں ہو سکتی، حساسیت اگر کہیں ملے تو بہت ہی نرم لیکن طاقتور جذبہ ہے جس سے اگر آپ صحیح سمت اور حکمت عملی سے رجوع کریں تو بہت جلد انسانوں کو اپنے اور معاشرے کیلئے مفید بنا سکتے ہیں

    جیسا کہ شروع میں ہی زور دیا گیا ہمارے معاشرے میں مذہب سے بھی بڑھ کے مسئلہ سیاسی جہت لئے ہوئے ہے سیاسی لوگ ٹھیک ہو جائیں گے تو سیاست ٹھیک ہو جائے اور خادم رضوی جیسے لوگوں کو جس دن یہ پتا چل گیا کہ سیاسی لوگ مانگے تانگے کی سمجھوتوں والی طاقت پر نہیں کھڑے بلکہ  انکے رہنماؤں کے اندرریڈٓڑھ کی ہڈی کی بنیاد عوامی شعور ہے اس دن نہ یہ نظر آئیں گے اور نہ ہی رضوی کی پُتلی نچانے والے

    لیکن عوامی شعور طاقت میں اس دن ڈھلے گا جب فرد انفرادی سطح پر شعوری بدلاؤ کے راستے پر چلے گا یہ نہیں کہ اپنی ذات جبلتوں (اور مفادات) کا اسیر رہے

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #15
    نہیں الله کے فرمانبردار بندے بن جانا

    تو پھر یہ کیسی منشاء ہے کہ بننا تو ایک طرف، 80-90 ٪ تو ایسی یا اس طرف کوئی کوشش بھی نہیں کرتے؟؟؟

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #16
    مجھے احساس ہے کہ جن لوگوں کو نیا نیا “پا لیا” “پا لیا” کا “عرفان” نصیب ہوا ہوتا ہے وہ جوش و جذبے کی کسی اور ہی لہر پر سوار ہوتے ہیں، لیکن انسانی تفسیات کا ایک موٹا سا اصول ہے کہ آپ کسی کی عقیدت پر حملہ کر کے اس کو اس عقیدت سے چھڑانا تو کیا ایک ذرا منفی انداز میں سوچنے پر بھی مائل نہیں کر سکتے

    کافی سال پہلے مَیں اپنے دوست کے ساتھ مندر گیا تھا۔۔۔۔۔ وہاں ذرا ڈھول والی موسیقی کے حوالے سے بھی ایک پروگرام تھا۔۔۔۔۔ سب سے دلچسپ بات جو مجھے اُس موسیقی کے پروگرام کے حوالے سے لگی وہ یہ تھی کہ جو نیو کنورٹس گورے تھے وہ ایک الگ ہی جذبہ کے ساتھ ڈھول بجا رہے تھے جو دیگر شرکاء میں مفقود تھا۔۔۔۔۔

    :cwl:   :cwl:   :cwl:

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Shah G
    Participant
    Offline
    • Professional
    #17
    تو پھر یہ کیسی منشاء ہے کہ بننا تو ایک طرف، 80-90 ٪ تو ایسی یا اس طرف کوئی کوشش بھی نہیں کرتے؟؟؟

    اس پر منحصر ہے کہ آپ کا ” بڑے ” سے کیا مراد ہے اگر اس سے تعداد مراد ہے تو آپ صحیح ہیں میں اسے عظیم کے معنی سمجھ گیا

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #18
    اس پر منحصر ہے کہ آپ کا ” بڑے ” سے کیا مراد ہے اگر اس سے تعداد مراد ہے تو آپ صحیح ہیں میں اسے عظیم کے معنی سمجھ گیا

    آپ اس سے تعداد مراد لیکر ہی کچھ فرمائیں، عظیم کو فی الحال رہنے دیں

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #19
    کافی سال پہلے مَیں اپنے دوست کے ساتھ مندر گیا تھا۔۔۔۔۔ وہاں ذرا ڈھول والی موسیقی کے حوالے سے بھی ایک پروگرام تھا۔۔۔۔۔ سب سے دلچسپ بات جو مجھے اُس موسیقی کے پروگرام کے حوالے سے لگی وہ یہ تھی کہ جو نیو کنورٹس گورے تھے وہ ایک الگ ہی جذبہ کے ساتھ ڈھول بجا رہے تھے جو دیگر شرکاء میں مفقود تھا۔۔۔۔۔ :cwl: :cwl: :cwl:

    :lol: :lol:   :lol:

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #20
    اس بڑھکر مبالغہ آمیز بیان کوئی ہو سکتا ہے؟ وہ اسلئے کہ آپ کو خوب پتا ہے کہ ایک انتہائی چھوڑی سی اقلیت کو یہ طاقت کس نے دی ہے یہاں بھی مبالغہ آمیزی ہے ایک چھوٹی سی اقلیت کے پاگل پن کو آپ پورے معاشرے پر تھوپ رہے ہیں اگر معاشرے کی بے حسی تک محدود رہتے تو کوئی بات بھی تھی عام مشاہدہ آپکے اس دعوی کی تائید بھی نہیں کرتا، آپکے خیال میں پاکستان میں کتنے فیصد گھرانوں میں اتنے بچے پیدا ہوتے ہیں؟؟ اب تو گاؤں میں بھی عموماً 3-4 سے زیادہ کسی کے نہیں ہوتے، جھگیوں یا کچی آبادیوں میں غربت اور جہالت کی وجہ سے (کسی اسلامی تعلیم یا آگہی کے زیرِ اثر نہیں، کیونکہ اس طبقے کا مولوی مسجد سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے) کہیں کہیں 6-8 بچے ہوتے ہوں گے، وہی مبالغہ آمیزی ایک دفعہ پھر جس نے آپ کے پورے تبصرے کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے آپ یہ دانستہ حرکت حسبِ موقع، حسبِ توفیق اکثر فرماتے رہتے ہیں، چونکہ آپ کے نزدیک یہ ایک اہم مسئلہ ہے اسی لئے آپ اس تشدد کو روا سمجھتے ہیں حالانکہ آپ اس دن صاف مُکر گئے تھے یہ سکے کے دو رُخ ہیں اب پتا نہیں کہ آپ متشدد زیادہ ہیں یا دوسرے حساس زیادہ ہیں، فیصلہ کوئی تیسرا ہی کر سکتا ہے، آپ سمجھنے لگ گئے ہیں چونکہ آپ نے سُچّا گیان اب پراپت کر لیا ہے تو اس صدیوں سے سوچ کے جمود کا شکار معاشرے کو بھی یکدم چھلانگ لگا کر آپکے ہم پلّہ و ہمسفر ہو جانا چاہیے اور اس کیلئے اپ کا غزنوی بننا ازحد ضروری ہے، لگے رہو غزنوی بھائی ۔ ۔ ۔ حساسیت کبھی بھی خطرہ نہیں ہو سکتی، حساسیت اگر کہیں ملے تو بہت ہی نرم لیکن طاقتور جذبہ ہے جس سے اگر آپ صحیح سمت اور حکمت عملی سے رجوع کریں تو بہت جلد انسانوں کو اپنے اور معاشرے کیلئے مفید بنا سکتے ہیں جیسا کہ شروع میں ہی زور دیا گیا ہمارے معاشرے میں مذہب سے بھی بڑھ کے مسئلہ سیاسی جہت لئے ہوئے ہے سیاسی لوگ ٹھیک ہو جائیں گے تو سیاست ٹھیک ہو جائے اور خادم رضوی جیسے لوگوں کو جس دن یہ پتا چل گیا کہ سیاسی لوگ مانگے تانگے کی سمجھوتوں والی طاقت پر نہیں کھڑے بلکہ انکے رہنماؤں کے اندرریڈٓڑھ کی ہڈی کی بنیاد عوامی شعور ہے اس دن نہ یہ نظر آئیں گے اور نہ ہی رضوی کی پُتلی نچانے والے لیکن عوامی شعور طاقت میں اس دن ڈھلے گا جب فرد انفرادی سطح پر شعوری بدلاؤ کے راستے پر چلے گا یہ نہیں کہ اپنی ذات جبلتوں (اور مفادات) کا اسیر رہے

    آپ نے کمال مہربانی سے میرے تمام نکات کو بہ یک جنبشِ کی بورڈ مبالغہ آمیزی قرار دے دیا، ایسا لگتا ہے آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان میں نہیں گزرا (اگر میں غلط ہوں تو درست کیجئے گا)۔۔۔

    اور میں متشدد نہیں ہوں، آپ کی حساسیت ہی اتنی بڑھی ہوئی ہے (طب کی زبان میں اس مرض کو ذکاوتِ حس کہتے ہیں) کہ آپ کو میری ہلکی پھلکی بات، یوں کہیے کہ میرا اچھالا ہوا پھول بھی پتھر لگتا ہے، میرے پھول کو آپ تشدد قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف مومنین کی حساسیت کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ یہ کبھی خطرہ نہیں ہوسکتی۔۔ مومنین کی حساسیت تو گردن کاٹنے سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتی،اب یہی دیکھ لیجیے کہ ہم ان پڑھ لوگوں کی مذہبی انتہا پسندی کا تو رونا روتے ہی رہتے ہیں مگر یہاں آپ جیسے پڑھے لکھے، باعلم عالم فاضل مذہب، سیاست اور فلسفے پر سیر حاصل گفتگو کرنے والے شخص کی حالت یہ ہے کہ ذرا سی بات پر حساسیت جاگ اٹھی۔۔۔

    ویسے  ملحدین کے “تشدد” بمقابلہ مومنین کی حساسیت  کی بہترین تصویر کشی اس کارٹون میں ملاحظہ کیجیے۔

     

     آپ یہ دانستہ حرکت حسبِ موقع، حسبِ توفیق اکثر فرماتے رہتے ہیں، چونکہ آپ کے نزدیک یہ ایک اہم مسئلہ ہے اسی لئے آپ اس تشدد کو روا سمجھتے ہیں حالانکہ آپ اس دن صاف مُکر گئے تھے یہ سکے کے دو رُخ ہیں اب پتا نہیں کہ آپ متشدد زیادہ ہیں یا دوسرے حساس زیادہ ہیں، فیصلہ کوئی تیسرا ہی کر سکتا ہے، 

    میں ایسا جان بوجھ کر کرتا ہوں یا نہیں، اس بات کو فی الحال رہنے دیجئے مگر اس نکتے پر غور کیجیے کہ اس میں بھلا آپ مومنین حضرات کا ہی ہے، چونکہ آپ لوگوں کی حس ایک خطرناک لیول تک بڑھ چکی ہے تو اس کا بغیر درد دیئے علاج یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً اس پر ہلکے ہلکے چرکے لگاتے رکھے جائیں تاکہ آپ کی حس آہستہ آہستہ نارمل سطح پر آسکے۔ میں چونکہ اس طرزِ علاج سے گزر کر ہی شفایاب ہوا ہوں اور آپ کے بقول “سُچا گیان” حاصل کیا ہےاس لئے میں دوسروں کے لئے بھی یہی علاج تجویز کرتا ہوں۔ آزمائش شرط ہے۔

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 100 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi