Viewing 9 posts - 1 through 9 (of 9 total)
  • Author
    Posts
  • unsafe
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #1

    فرض کرو یہ مان لیتے ہیں کہ خدا نے   یہ  تمام کائنات  انسان کے  واسطے  پیدا کی ہے پر  انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے لئے تو  فلوقت ایک نظام شمسی ہی کافی ہے جہاں صرف ابی انسان صرف زمین کے چاند پر قدم رکھ سکا ہے  لیکن اربوں  کھربوں کہکشاوں کی کیا ضرورت تھی” 

    انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایک کہکشاں جس میں ارب ہا ستارے اور سیارے ہوتے ہیں وہ بھی بہت ہے …. جو ایک دوسرے سے کئی کئی نوری سال کے فاصلے پر ہوتے ہیں اور جہاں تک نوری سال کا تعلق ھے تو سورج کی کرن ایک سال کے دوران جتنا فاصلہ طے کرتی ھے اسے ایک نوری سال کہا جاتا ھے جو کہ تقریبن سات کھرب میل بنتا ہے …. 

    مذھب نے بذات خود  فضول خرچی کرنے سے ممانعت فرمائی ہے … یہاں تک کہ وضو کے  دوران پانی زیادہ استعمال کرنے پر بھی پابندی ہے … حلانکے کہ دنیا میں پانی کی مقدار خشکی سے بہت زیادہ ہے لیکن اتنی بڑی کائنات میں انسان کے لئے اتنی فضول چیزیں بناننے کا مقصد کیا تھا جو انسان کی پونچھ سے باہر ہیں … اس سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ کائنات کو کسی انسان کے لئے پیدا نہیں گیا …. اور جو نظریہ یہ کہتا ہے اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں 

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    پہلے یہ سمجھو کہ کائنات کا مطلب کیا ہے؟

    ہر جاندار کی کائنات میں اتنی ہی وسعت ہے جتنا اس کا علم کا دائرہ، کہتے ہیں۔ کسی کو محدود علم کا طعنہ دینا ہو تواسے کنویں کا مینڈک کہتے ہیں یعنی مینڈک جس کی کائنات ایک کنویں کی پانچ فٹ چوڑی دیواریں ہیں ، باہر کیا ہے اسے کچھ علم نہیں

    قرآن خود اس نظرئیے کی نفی کرتاہے کہ کائنات میں میں صرف انسان ہی ایک مخلوق پای جاتی ہے۔ پہلے تو یہ درست کرلیں کہ دنیا میں بھی ایک انسان ہی نہیں لاکھوں اقسام کے جاندار ہیں جو مخلوق خدا ہی کہلاتے ہیں، رہی بات اشرف المخلوقات کی تو انسان کی طرح کی ذہین مخلوقات اور دنیائیں اور بھی ہیں بلکہ مستقبل میں ان سے رابطے کا امکان بھی موجود ہے

    unsafe
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #3

    قران پاک میں انسانی لیول کی کسی اور مخلوق کا ذکر نہیں … اگر ہے تو آپ آیت بیان کریں … اور کسی دوسرے اور تیسرے سیارے پر مخلوق یہ ذکر تو بکل بھی نہیں …. قران میں سات آسمانوں اور سات زمینوں کا ذکر ہے … جو کہ اس زمانے میں مجود سائنس تھی … اور سب کو معلوم ہے اب نظام شمسی کے سیاروں کی تعداد زیادہ ہو چکی ہے … اور یہاں بات یہ ہو رہی ہے کیا کائنات انسان کے لئے بنائی گی ہے جیسے کہ مختلف مذہیب نے کہا … تو یہ بات بلکل غلط ہے اور جہاں تک باقی مخلوقات کا تعلق ہے تو ممکن ہے وہ مجود ہیں … لیکن ابھی تک انسانی ذہانت کی کسی مخلوق سے انسان کا رابطہ نہیں ہوا اور شائد نہ کبھی ہو سکے … اس کی وجہ یہ ہے

    انسان پچھلے سو سے ریڈیو سگنل سپیس میں بھیج رہا ہے اور یہ سگنل روشنی کی رفتار سے سپیس میں سفر کر رہے ہیں اور اب یہ ریڈیو سگنل سو نوری سال دور جا چکے ہیں زمین سے لکن اب تک انسان کو کوئی جوابی سگنل وصول نہیں ہوا … ملکی وے کہکشاں تو بہت بڑی ہے جس کا ایک سرے دوسرے سرے کا فاصلہ 1 لاکھ نوری سال بنتا ہے اور انسان کے بھیجھے گیے سگنل تو ابھی پاس کے ستاروں تک ہی پوھنچے ہوگے مثال کے طور پر اگر کوئی سیارہ ہم سے چودہ سو نوری سال دور ہے تو ہمارا بھیجھا گیا پیغام تو ان تک چودہ سو سال میں ہی پوھنچے گا اور خلائی مخلوق ہمیں جوابی پیغام بھیجھے گے تو چودہ سو سال کا وقت لگے گا یہ بات نہ ممکن لگتی ہے کے زمین پر ہی صرف زندگی ہے اس پوری کائنات میں اور شاید یہ بھی ممکن ہے ہمارا کبھی رابطہ نہ ہو سکے کسی خلائی مخلوق سے کیوں کے ستاروں کے درمیان فاصلے بہت زیادہ ہیں … اور اس سے یہ بات جھوٹ ثابت ہوتی کہ یہ کائنات انسان کے لئے ہر گز نہیں بنائی گئی … بس دل کو خوش کرنے کے لئے کسی نے چول ماری ہے

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4

    قران پاک میں انسانی لیول کی کسی اور مخلوق کا ذکر نہیں … اگر ہے تو آپ آیت بیان کریں … اور کسی دوسرے اور تیسرے سیارے پر مخلوق یہ ذکر تو بکل بھی نہیں …. قران میں سات آسمانوں اور سات زمینوں کا ذکر ہے … جو کہ اس زمانے میں مجود سائنس تھی … اور سب کو معلوم ہے اب نظام شمسی کے سیاروں کی تعداد زیادہ ہو چکی ہے … اور یہاں بات یہ ہو رہی ہے کیا کائنات انسان کے لئے بنائی گی ہے جیسے کہ مختلف مذہیب نے کہا … تو یہ بات بلکل غلط ہے اور جہاں تک باقی مخلوقات کا تعلق ہے تو ممکن ہے وہ مجود ہیں … لیکن ابھی تک انسانی ذہانت کی کسی مخلوق سے انسان کا رابطہ نہیں ہوا اور شائد نہ کبھی ہو سکے … اس کی وجہ یہ ہے

    انسان پچھلے سو سے ریڈیو سگنل سپیس میں بھیج رہا ہے اور یہ سگنل روشنی کی رفتار سے سپیس میں سفر کر رہے ہیں اور اب یہ ریڈیو سگنل سو نوری سال دور جا چکے ہیں زمین سے لکن اب تک انسان کو کوئی جوابی سگنل وصول نہیں ہوا … ملکی وے کہکشاں تو بہت بڑی ہے جس کا ایک سرے دوسرے سرے کا فاصلہ 1 لاکھ نوری سال بنتا ہے اور انسان کے بھیجھے گیے سگنل تو ابھی پاس کے ستاروں تک ہی پوھنچے ہوگے مثال کے طور پر اگر کوئی سیارہ ہم سے چودہ سو نوری سال دور ہے تو ہمارا بھیجھا گیا پیغام تو ان تک چودہ سو سال میں ہی پوھنچے گا اور خلائی مخلوق ہمیں جوابی پیغام بھیجھے گے تو چودہ سو سال کا وقت لگے گا یہ بات نہ ممکن لگتی ہے کے زمین پر ہی صرف زندگی ہے اس پوری کائنات میں اور شاید یہ بھی ممکن ہے ہمارا کبھی رابطہ نہ ہو سکے کسی خلائی مخلوق سے کیوں کے ستاروں کے درمیان فاصلے بہت زیادہ ہیں … اور اس سے یہ بات جھوٹ ثابت ہوتی کہ یہ کائنات انسان کے لئے ہر گز نہیں بنائی گئی … بس دل کو خوش کرنے کے لئے کسی نے چول ماری ہے

    “And among His Signs is the creation of the heavens and the earth, and of whatever living creatures he has spread forth in both. And He has the power to gather them together whenever he pleases.”

    Holy Quran, 42:30

    .

    Do not the disbelievers see that the heavens and the earth were a closed-up mass (ratqan), then We opened them out (fafataqnahuma)? And We made from water every living thing. Will they not then believe? (21:31)

    .

    And We have built the heaven with Our own hands, and verily We go on expanding it. (51:48)

    unsafe
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #5

    “And among His Signs is the creation of the heavens and the earth, and of whatever living creatures he has spread forth in both. And He has the power to gather them together whenever he pleases.”

    Holy Quran, 42:30

    .

    Do not the disbelievers see that the heavens and the earth were a closed-up mass (ratqan), then We opened them out (fafataqnahuma)? And We made from water every living thing. Will they not then believe? (21:31)

    .

    And We have built the heaven with Our own hands, and verily We go on expanding it. (51:48)

    شاہد بھائی اگر آپ آیتوں پر غور کر تو زمین جمع کے صغیہ میں استعمال نہیں ہوئی … جس کا مطلب ہے ہماری زمین پر مجود جانداروں کی بات ہو رہی ہے …. جہاں تک پہلی آیت کا تعلق ہے 

    اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور ان جانوروں کا جو اس نے ان میں پھیلا رکھے ہیں اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر قادر ہے

    اس میں آیت میں آسمانوں کے ساتھ صرف ایک زمین کا ذکر ہے زمینوں کا ذکر نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین پر مجود مخلوق کی بات ہو رہی کیوں کہ آسمانوں میں یا خلا میں تو کوئی جاندار مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی .. یہ اس وقت کی مشہور سائنس تھی کہ سات آسمان مجود ہیں … یہ  بات ایک اور آیت میں بھی بیان ہوئی ہے اے کہ ہم نے قریب کے آسمان کو ستاروں سے زنیت تھی … جب کے آج سب کو معلوم ہو گیا آسمان نامی کوئی چیز مجود نہیں ہر طرف پھیلی ہوئی خلا ہے ….

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6

    شاہد بھائی اگر آپ آیتوں پر غور کر تو زمین جمع کے صغیہ میں استعمال نہیں ہوئی … جس کا مطلب ہے ہماری زمین پر مجود جانداروں کی بات ہو رہی ہے …. جہاں تک پہلی آیت کا تعلق ہے

    اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور ان جانوروں کا جو اس نے ان میں پھیلا رکھے ہیں اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر قادر ہے

    اس میں آیت میں آسمانوں کے ساتھ صرف ایک زمین کا ذکر ہے زمینوں کا ذکر نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین پر مجود مخلوق کی بات ہو رہی کیوں کہ آسمانوں میں یا خلا میں تو کوئی جاندار مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی .. یہ اس وقت کی مشہور سائنس تھی کہ سات آسمان مجود ہیں … یہ بات ایک اور آیت میں بھی بیان ہوئی ہے اے کہ ہم نے قریب کے آسمان کو ستاروں سے زنیت تھی … جب کے آج سب کو معلوم ہو گیا آسمان نامی کوئی چیز مجود نہیں ہر طرف پھیلی ہوئی خلا ہے ….

    تفسیر بھی آپ ہی نے کرنی ہے تو پھر کچھ نہیں ہوسکتا قرآن کو آپ الہامی کتاب نہیں مانتے تو اس بات پر بحث ہی نہیں بنتی بقول آپ کے یہ ایک انسانی ہاتھ سے لکھی گئی کتاب ہے

    ہم چونکہ قرآن کو ایک الہامی کتاب مانتے ہیں لہذا اس کی تفسیر بھی ہم ہی کر سکتے ہیں نہ کہ آپ

    unsafe
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #7

    بلیور صاحب آپ تفسیر بے شک کریں پر اس میں ڈالڈا نہ ڈالیں … جو بات لکھی ہے اس کے قریب قریب کریں تو بھی بات بنتی ہے آپ ہاتھی ہے کھڑا ہے اس کو بندر بنا کر پیش کرو تو یہ بات تو غلط ہو گی … ویسے آپ کی انفارمشن کے لئے عرض ہے … جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کائنات انسان کے لئے نہیں بنائی گئی آپ دلیل سے اپنی الہامی کتاب سے مجھے جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں ….

    روشنی ایک سیکنڈ میں لگ بھگ تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ تین لاکھ کلومیٹر کو 3600 سے ضرب دینے سے جواب آتا ہے 1،080،000،000 کلومیٹر۔ یہ ہے روشنی کا ایک گھنٹے میں طے کردہ فاصلہ۔ ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں یعنی اوپر حاصل کردہ نمبر کو 24 سے ضرب دینے سے روشنی کا ایک دن میں طے کردہ فاصلہ حاصل ہوگا، جو کہ 25،920،000،000 کلومیٹر ہے۔ اب اس حاصل ہونے والے نمبر کو 365 سے ضرب دینے سے ہمیں روشنی کا ایک سال میں طے کردہ فاصلہ حاصل ہوگا۔ اسی فاصلے کو ایک لائیٹ ائیر کہا جاتا ہے۔ یعنی روشنی ایک سال میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے اسے ایک نوری سال کہا جاتا ہے اور اس کی ویلیو 9،460،800،000،000 کلومیٹر ہے۔
    دنیا کے لحاظ سے یہ فاصلہ بہت بڑا ہے, بہت ہی بڑا ہے۔ پوری دنیا کے اردگرد ایک چکر لگائیں تو طے کردہ فاصلہ کچھ 40،000 کلومیٹر تک ہوگا۔
    لیکن کائنات کی جسامت کے لحاظ سے ایک نوری سال کے فاصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مثال کے طور سورج کے بعد زمین کا قریب ترین ستارہ پروکیسما سینٹوری ہے۔ اور یہ سورج سے 4 نوری سال سے بھی زیادہ فاصلے پر موجود ہے۔ 4.244 نوری سال۔ یعنی 9،460،800،000،000 کلومیٹر کو مزید 4.244 سے ضرب دینی پڑے گی۔

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8

    شاہد بھائی اگر آپ آیتوں پر غور کر تو زمین جمع کے صغیہ میں استعمال نہیں ہوئی … جس کا مطلب ہے ہماری زمین پر مجود جانداروں کی بات ہو رہی ہے …. جہاں تک پہلی آیت کا تعلق ہے

    اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور ان جانوروں کا جو اس نے ان میں پھیلا رکھے ہیں اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر قادر ہے

    اس میں آیت میں آسمانوں کے ساتھ صرف ایک زمین کا ذکر ہے زمینوں کا ذکر نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین پر مجود مخلوق کی بات ہو رہی کیوں کہ آسمانوں میں یا خلا میں تو کوئی جاندار مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی .. یہ اس وقت کی مشہور سائنس تھی کہ سات آسمان مجود ہیں … یہ بات ایک اور آیت میں بھی بیان ہوئی ہے اے کہ ہم نے قریب کے آسمان کو ستاروں سے زنیت تھی … جب کے آج سب کو معلوم ہو گیا آسمان نامی کوئی چیز مجود نہیں ہر طرف پھیلی ہوئی خلا ہے ….

    ان سیف صاحب ۔ ا نٹرپریٹیشن پر منحصر ہے کہ آپ ان آیات کو کیسے سمجھتے ہیں۔
    جی ہاں ایک ہی زمین اور یونیورس کی بات ہو رہی ہے۔ اللہ تعالی جن سے مخاطب ہے چونکہ وہ اس زمین پر رہتے ہیں تو اس کا ذکر ہے اور ساتھ آسمانوں یعنی یونیورس کا۔ زمین اور آسمانوں یعنی دونوں میں موجود حیات کا واضح ذکر ہے۔
    رہا سوال آسمانوں یا سات آسمانوں برائے قدیم زمانے میں عام یقین کی تو آپ کو اس سے کچھ آگے بڑھ کر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس زمانے میں مزید کونسی کونسی تھیوریوں پر یقین کیا جاتا تھا اور کیا ان میں ۹۹ فیصد غلط نہی تھیں؟ اگر اسلام نے قران میں موجود سائنسی اعشارات ان تھیوریوں سے لئے ہوتے تو کیا قران میں بتائے ایسی باتوں کا بھی واضح طور ۹۹ فیصد تک غلط ہونا لازمی نہ ہوتا؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بھی ایسی غلطی آپ بیان نہی کر سکتے جو واضح اور جس کی تردید نا ممکن ہو۔
    دوسری اور تیسری آیت میں سارے مادہ کا پہلے ایک ہی ہونا اور پھر اسے پھاڑ کر الگ الگ کردینے یعنی بگ بینگ کا واضح ذکر ہے اور تیسری آیت میں واضح لکھا ہے کہ یہ ایکسپینڈ ہو رہی ہے۔
    یقیناً یہ حقیقتوں کی طرف صرف اشارے ہیں ساینسی ڈیٹیلز نہی ہیں۔

    unsafe
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #9
    ان سیف صاحب ۔ ا نٹرپریٹیشن پر منحصر ہے کہ آپ ان آیات کو کیسے سمجھتے ہیں۔ جی ہاں ایک ہی زمین اور یونیورس کی بات ہو رہی ہے۔ اللہ تعالی جن سے مخاطب ہے چونکہ وہ اس زمین پر رہتے ہیں تو اس کا ذکر ہے اور ساتھ آسمانوں یعنی یونیورس کا۔ زمین اور آسمانوں یعنی دونوں میں موجود حیات کا واضح ذکر ہے۔ رہا سوال آسمانوں یا سات آسمانوں برائے قدیم زمانے میں عام یقین کی تو آپ کو اس سے کچھ آگے بڑھ کر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس زمانے میں مزید کونسی کونسی تھیوریوں پر یقین کیا جاتا تھا اور کیا ان میں ۹۹ فیصد غلط نہی تھیں؟ اگر اسلام نے قران میں موجود سائنسی اعشارات ان تھیوریوں سے لئے ہوتے تو کیا قران میں بتائے ایسی باتوں کا بھی واضح طور ۹۹ فیصد تک غلط ہونا لازمی نہ ہوتا؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بھی ایسی غلطی آپ بیان نہی کر سکتے جو واضح اور جس کی تردید نا ممکن ہو۔ دوسری اور تیسری آیت میں سارے مادہ کا پہلے ایک ہی ہونا اور پھر اسے پھاڑ کر الگ الگ کردینے یعنی بگ بینگ کا واضح ذکر ہے اور تیسری آیت میں واضح لکھا ہے کہ یہ ایکسپینڈ ہو رہی ہے۔ یقیناً یہ حقیقتوں کی طرف صرف اشارے ہیں ساینسی ڈیٹیلز نہی ہیں۔

    شاہد بھائی … بات یہ ہے کہ اگر کوئی غلطی تسلیم ہی نہ کرنا چاہا رہا ہو اور آنکھیں بند لے تو اس کو کوئی بھی غلطی تسلیم نہیں کروا سکتا …… اصل میں سائنس کی بنیاد راشنلزم یا عقلیت پسندی پر ہے … سائنس ہزاروں سالوں کے راشنلزم کا نتیجہ ہے ، اور راشنلزم ہمیشہ مذھب اور عقائد کے خلاف رہا ہے … آپ نے اکثر دیکھا ہو گا … اکثر مذھبی حضرات سائنسی پوسٹ کے نیچے سبحان الله ، الله و اکبر کے نعرے لگا کر اس کو مذھب کی طرف موڑ لیتے ہیں … قرانی سائنسی علم بھی بس ایسا ہے … جو اس زمانے کی سائنس تھی اس کی تفریف ادب کی زبان اشاروں کنایوں اور ڈھکے چھپے شعرو شاعری کے الفاظ میں کر کے اپنے نظریہ اسلام کو تقویت دی گی ہے … … ورنہ آپ خود دیکھ لیں سرکار دو عالم نے کون سی سائنسی ایجاد کی …. کون سی یونیورسٹی قائم کی … کون سی کوئی بجلی ، کوئی کمپیوٹر ایجاد کیا … …

    عقیدہ جذبات پر چلتا ہے جبکہ سائنس سوچ ، مشائدے اور تجبربات کا نام ہے .. آپ نے اکثر دیکھا ہو گا جب کوئی نئی ، ایجاد ، سائنسی تھیوری آتی ہے سب سے زیادہ اس کو مذھبی حضرات سے مزحمت کا سامنا کرتا ہے … کچھ لوگ اس کو قبول نہیں کرتے اور کچھ اس کو قبول کر لیتے ہیں جیسے کہ بلیور غامدی صاحب ہو گے لیکن اپنی کتاب کے مہفوم اس حساب سے بدل لیتے ہیں … جیسا کہ شاعر مشرقین اور مغربین جناب درویش عرب  نے فرمایا

    خود بدلتے نہیں، قُرآں کو بدل دیتے ہیں
    ہُوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
    ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
    کہ سِکھاتی نہیں بلیور کو غلامی کے طریق!

    آپ اگر صحابہ اکرام جن کے بارے میں سرکار دو عالم نے کہا کہ مرے بعد جس نے میرے صحابہ کی اطاعت کی وہ گھراحی سے بچ گیا ان کی قرانی تفسیروں اور پھر قرون اولا کے مسلمانوں مولانا جامی وغیرہ کی تفسیریں دیکھیں جو کہتے تھے زمین ساکن ہے ان میں زمین آسمان کا فرق ہے …. یہ سب عقلیت پسندی کا کمال ہے کہ آج جو کچھ بھی دریافت ہو رہا ہے مسلمان اس کو اپنی کتاب اور مذھب کی طرف موڑے جا رہے ہیں …

    … ویسے قرآن کے بیانات میں سائنسی اور فکری تضاد ہے لیکن آپ سے رہنمائی چاہوں گا کہ آپ اس تضاد کے براۓ کیا فرمائیں گے …
    ایک ہی سورہ میں دو بیان
    سورہ یس پارہ 23 آیت71:
    اولم یرواناخلقنا لھم مماعملت ایدینا
    ترجمہ “کیاانہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے اپنے”ہاتھ”سے ان کے لیے چوپاۓ پیدا کیے”
    آگےاسی پارہ اسی سورہ کی آیت82:
    انماامرہ اذااردہ شیاء ان یقول لہ کن فیکون

    ترجمہ:”اور جب وہ کسی کام کا اردہ کرتا ہے وہ کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے”.
    سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کن کہنے سے ہوجاتا ہے تو ہاتھ کی کیا ضرورت تھی اوپر والی آیات میں خدا کے ہاتھ کا ذکر ہوا …. جب کہ ایک اور سورہ اخلاص میں خدا نے صاف الفاظ میں کہ دیا ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں … پھر بھی یہ ہاتھ کیسا ہے ….اب آپ حضرت کہیں گے اس ہاتھ کا وہ مطلب نہیں جو آپ سمجھ رہے اور تسلیم نہیں کریں گے کہ یہ تضاد ہے .. کیوں کہ آپ کی سوچ کے پیچھے عقیدہ اور تقدس ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا

Viewing 9 posts - 1 through 9 (of 9 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi