Viewing 8 posts - 1 through 8 (of 8 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    کورونا وائرس جب انڈیا پہنچا تو ایک جانب مندر اور مساجد بند کر دیے گئے وہیں دوسری جانب رامائن جیسا ٹی وی سیریل بہت مقبول شو بن گیا۔
    ایسے میں لوگ کیا اپنے بھگوان سے مایوس تھے یا پھر ان کا عقیدہ زیادہ مضبوط ہو گیا۔
    رامائن سیریل میں سیتا کا کردار نبھانے والی اداکارہ دہیکا چکالیہ ٹوپی والا کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا زیادہ ہی روحانی ہو جائے گی۔
    ان کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے دوران آبادی کے ایک بڑا حصے کا رحجان قدرت اور روحانیت کی جانب بڑھے گا۔
    اجمیر میں صوفی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے نگراں سید گوہر اس وائرس کو اللہ کا عذاب کہتے ہیں۔
    گوہر اور ان کے جیسے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ کے فرشتے کورونا وائرس کو مسجد میں نہیں آنے دیں گے۔
    جبکہ کچھ لوگوں نے گائے کے پیشاب کو کورونا وائرس کا علاج بتایا۔

    مذاہب کے لیے ’نیو نارمل

    غیر یقینی صورتِ حال پریشان ضرور کرتی ہے لیکن جب تک کورونا وائرس کے لیے کوئی ویکسین نہیں بن جاتی لوگوں کو ایک نئی دنیا میں اپنی زندگی شروع کرنی ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کئی مہینے یا کئی سال سکتے ہیں۔
    حالانکہ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ انڈین معاشرہ زیادہ مذہبی ہو جائے گا یا پھر اس معاشرے میں سائنس کے لیے سمجھ بڑھے گی لیکن اس بحران زدہ ماحول میں کچھ اشارے مل رہے ہیں۔ دلی میں رہنے والی سماجی کارکن گیتا شرما ایک ماڈرن اور پراعتماد خاتون ہیں۔
    ان کا خیال ہے کہ اگر میں موجودہ وقت کی بات کروں تو کہوں گی کہ بھگوان نے ہمیں روحانیت کی جانب جانے کا موقع دیا ہے۔ گیتا پیشے سے ایک صحافی ہیں اور لاک ڈاؤن کے دوران وہ اپنے ہی ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہیں۔
    ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کوئی ’عذاب‘ یا ’شراپ‘ نہیں بلکہ ایک سبق ہے اور اس کا جواب مراقبہ ہے۔ بنگلور میں ایک بڑا اشرم چلانے والے گرو جی شری شری روی شنکر کے دنیا بھر میں لاکھوں پیرو کار ہیں۔
    انھوں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کر کے لوگوں کو مراقبے کا مشورہ دیا ہے۔ سید گوہر کا کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ اب لوگ اللہ کے نزدیک آئیں گے۔

    آن لائن عبادت کا دور

    انڈیا میں دو ماہ سے زیادہ عرصے کے لیے تقریباً ہر مندر، مسجد، گرودوارہ یا گرجا گھر بند رہے۔ حالانکہ حال ہی میں ان عبادت گاہوں کو کھولا گیا ہے لیکن وہاں جانے کے لیے کئی طرح کے اقدامات اور رہنما اصول طے کیے گئے ہیں۔
    مذہبی دنیا میں بھی سماجی دوری کو تسلیم کرنے کا رجحان نظر آ رہا ہے۔
    ریاست راجستھان کے کوٹہ ضلع کے ایک دوکاندار خورشید عالم خواجہ معین الدین چشتی سے عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں درگاہ تک نہیں جا سکتا لیکن اکثر ویڈیو کال کر کے دعاؤں میں شریک ہو جاتا ہوں۔
    خورشید جیسے کئی لوگ ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے مذہبی فرائض کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
    لاک ڈاؤن کے دوران درگاہ پر انٹرنیٹ کے ذریعے دعا کرنے یا نظرانہ پیش کرنے کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے۔سید گوہر کہتے ہیں کہ یہ رجحان جاری رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ہم انٹرنیٹ کے ذریعے دعاؤں کی خدمات پیش کرتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ کورونا کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘
    ریاست پنجاب میں گولڈن ٹیمپل کی نگرانی کرنے والی تنظیم شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی یعنی اے ایس جی پی سی کے چیف سیکریٹری روپ سنگھ کہتے ہیں کہ سکھ عقیدت مند گرودوارے میں واپس آنے کے منتظر ہیں۔
    ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے لوگ یہاں آنا چاہتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن میں جاری کچھ رجحانات بعد تک جاری رہیں گے۔
    ویٹی کن سے پوپ فرانسس کی دعائیہ تقریبات اور پیغامات کو انٹرنیٹ کے ذریعے دکھایا جا رہا ہے۔ امریکہ میں گرجا گھر اور اسرائیل میں سینیگاگ میں دعائیہ تقریبات اور عبادات کو انٹرنیٹ پر شروع کر دیا گیا ہے۔
    یہاں تک کے مکہ کی عظیم مسجد نبوی بھی بند ہے۔ دن میں صرف پانچ مرتبہ اذان کی لائیو سٹریمنگ شہر کی خاموشی کو توڑتی ہے۔

    مذہب سے جڑی معیشت

    اچانک لاک ڈاؤن کے بعد سے مذہبی مقامات کو ملنے والے عطیات اور چندہ میں زبردست کمی آئی ہے۔ دلی سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر منجِندر سنگھ سرسا کہتے ہیں پہلے ہزاروں لوگ گرودوارہ آیا کرتے تھے تو عطیات دیا کرتے تھے جو اب بلکل بند ہے۔
    ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور وہ انٹرنیٹ پر لوگوں سے چندہ دینے کی اپیل کر رہے ہیں۔
    لاک ڈاؤن سے پہلے دلی کے بنگلہ صاحب گرودوارے میں رضا کار ہر روز 25 ہزار لوگوں کا کھانا بنایا کرتے تھے جبکہ ہفتہ اور اتوار کو یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ پہنچ جاتی تھی۔
    چونکہ لاک ڈاؤن کے سبب غریب لوگوں کے پاس کام نہیں ہے اور کھانے پینے کی پریشانی ہے، ایسے میں گرودوارے میں رضا کار ہر روز دو لاکھ لوگوں کے لیے کھانا بنا رہے ہیں۔

    کورونا کی وبا کے بعد مذہب کتنا بدل جائے گا؟

    سرسا کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد جب مذہبی مقامات پوری طرح کھل جائیں گے تب بھی کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں کم ہی لوگ گرودوارے آئیں گے اور گرودواروں کو پہلے کی طرح پیسے کی کمی کو پورا کرنے میں کئی سال لگ جائیں گے۔
    ان کا کہنا ہے کہ گروداوارہ جس پیسے سے اپنا خرچ چلاتا ہے اس میں کمی آئی ہے لیکن ابھی بھی دنیا بھر سے الگ الگ مذاہب کے لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے عطیات بھجوا رہے ہیں،جس سے کام چل رہا ہے۔

    https://www.bbc.com/urdu/regional-53073261

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #2
    کافی تبدیلی ا چکی ہے اور ثابت ہو گیا کہ ایک چھوٹا سا وائرس خداؤں کے کاروبار کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہوا ہے اس نے تو خداؤں کا حلیہ بگاڑ دیا ہے . مطلب ایک ایک وائرس نے ثابت کر دیا کہ کہ انسانوں کے خدا اپنے گھروں کی حفاظت نہیں کر سکتے تو انسانوں کی کیا خاک کریں گے
    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    کافی تبدیلی ا چکی ہے اور ثابت ہو گیا کہ ایک چھوٹا سا وائرس خداؤں کے کاروبار کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہوا ہے اس نے تو خداؤں کا حلیہ بگاڑ دیا ہے . مطلب ایک ایک وائرس نے ثابت کر دیا کہ کہ انسانوں کے خدا اپنے گھروں کی حفاظت نہیں کر سکتے تو انسانوں کی کیا خاک کریں گے

    On the contrary it has turned more people to religion.

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #4
    On the contrary it has turned more people to religion.

    sweet dreams. people are attached to religion not because they are true but due to their cultural and social needs (like marriage ceremonies, funerals) etc. As science is growing people care more about teachers than preachers.

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #5
    ایک کرونا نے آ کر سبھی قبر پرستی بت پرستی ، پیر فقیری مذہب پرستی خدا پرستی کا کاروبار ختم کر دیا اب امید ہے عبادتیں ان لائن ہو جایں اور لوگ ورچوئل طور پر خانہ کعبہ کا چکر لگا لیں گھر بیٹھے بیٹھے
    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    sweet dreams. people are attached to religion not because they are true but due to their cultural and social needs (like marriage ceremonies, funerals) etc. As science is growing people care more about teachers than preachers.

    This is an undisputed fact that Believers turn to their respective Gods in their difficult hours and the recent Pandemic was no exception.

    Fact that people care more about teacher than preachers is under normal circumstances but your argument was at time of difficulties not in normal times so don`t change and play with words.

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #7
    ایک کرونا نے آ کر سبھی قبر پرستی بت پرستی ، پیر فقیری مذہب پرستی خدا پرستی کا کاروبار ختم کر دیا اب امید ہے عبادتیں ان لائن ہو جایں اور لوگ ورچوئل طور پر خانہ کعبہ کا چکر لگا لیں گھر بیٹھے بیٹھے

    So you are saying there has been a significant decrease in the numbers of religious people in the world after the outbreak of this Pandemic?

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #8
    So you are saying there has been a significant decrease in the numbers of religious people in the world after the outbreak of this Pandemic?

    Religious activities have been decreased like Hajj Umara, Nimaz etc

Viewing 8 posts - 1 through 8 (of 8 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi