Viewing 20 posts - 81 through 100 (of 362 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #81
    کسی کو جیب میں ہاتھ ڈال کر کھجانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟؟ آپکو معلوم ہونا چاہیئے کہ بال ٹیمپرنگ جرم ہے :serious: ۔

    کھجلی ہوگی تو کھجایں گے بھی فراز
    جلنے والے کا منہ سفید (نوٹ سفید کو کالا بھی پڑھا جاسکتا ہے آجکل ذرا ریس ازم وغیرہ ان ہے اس لئے احتیاط برتی ہے)

    :facepalm: :facepalm: :facepalm:

    Atif Qazi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #82
    کھجلی ہوگی تو کھجایں گے بھی فراز جلنے والے کا منہ سفید (نوٹ سفید کو کالا بھی پڑھا جاسکتا ہے آجکل ذرا ریس ازم وغیرہ ان ہے اس لئے احتیاط برتی ہے) :facepalm: :facepalm: :facepalm:

    ہر وقت کی کھجلی تجھے برباد نہ کردے

    تنہائی کے لمحوں میں کبھی نہا بھی لیا کر

    (یہی شعر اگر کسی حریف کو بھیجنا ہو تو کھجلی کی جگہ خارش لفظ استعمال کیا جائے، نتائج دگنے اور دیرپا آتے ہیں۔)

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #83
    آدھی عمر آپ اسلام کے تالاب میں غوطہ کھا چکے ..بس ایک گزارش ہے ..ایک مہینہ اس سمندر میں بھی ڈبکی لگالیں .بنا کسی تعصب کے ..صرف جاننے کے لئے ..خود کو ایجوکیٹ کرنے کے لئے . اس کی آٹھ ویڈیوز ہیں ..سچائی کے ساتھ سنئے گا

    آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے میں نے جاوید غامدی کو بھی کافی سنا ہوا ہے، وہ صرف زمانے اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جو میری نظر میں اچھی کوشش ہے، مگر علمی میدان میں اس کے دلائل بے کار ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد ہی غلط ہے، یعنی پہلے ایک مذہبی خدا کے تصور پر یقین لاؤ، پھر بات سمجھ میں آئے گی۔۔ 

      فار دی سیک آف آرگیومنٹ میں یہاں یہ تسلیم کرلیتا ہوں کہ ہمارا اور اس کائنات کا ایک خالق، ایک انٹیلیجنٹ ڈیزائنر وجود رکھتا ہے۔ کائنات کی وسعت اور کاریگری، حیات کی پیچیدگی پر غور کیا جائے تو یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ وہ بہت ہی ذہین کاریگر ہوگا جس نے یہ سب تخلیق کیا ہے۔ ایک لمحے کیلئے یہ بھی مان لیتا ہوں (اگرچہ میری نظر  میں اس کا امکان صفر اعشاریہ ایک فیصد بھی نہیں) کہ مرنے کے بعد ہماری اس ذہین کاریگر سے ملاقات ہوگی۔ تو مجھے یقین ہے کہ وہ سب مذہبی حضرات کو لائن میں کھڑا کرکے بہت پھینٹا لگائے گا کہ کم عقلو! تم نے مجھے اتنا ہی نالائق سمجھ لیا تھا کہ میرا اتنا چھوٹا، کم تر اور سطحی قسم کا تصور گھڑ کر اس کی ترویج اور پرستش کرتے رہے۔

    علمی مباحث میں کسی مذہب یا مذہبی کلام کی ذرا برابر بھی حیثیت نہیں۔ خدا پر مباحث ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہوتے ہیں، مگر ان سنجیدہ مباحث میں کسی مذہبی خدا، یا ابراہیمی خدا کے ذکر کا گزر نہیں، کیونکہ یہ تصوراتِ خدا اتنے مضحکہ خیز ہیں کہ صرف پست ذہن اور لو آئی کیو لوگوں کو ہی متاثر کرسکتے ہیں۔۔  

    میرے دوستوں میں ہر مذھب کے لوگ شامل رہے ہیں .اور یہ قرآن کے خلاف ہر گز نہیں ہے .

    تو لیجئے۔۔۔ اپنے اسلامی علم کی کجی کو دور فرمائیے۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    حسن داور
    Participant
    Offline
    • Expert
    #84

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #85

    تو اور کیا کہوں ..ملحدوں کا پلڑا بھاری ہو تو آپ ان کی سائیڈ  پر ہوجاتے ہیں ..ہم مسلمانوں کا غلبہ ہو جائے تو آپ ہمارا ساتھ دینے لگتے ہیں

    :serious:

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #86

    آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے میں نے جاوید غامدی کو بھی کافی سنا ہوا ہے، وہ صرف زمانے اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جو میری نظر میں اچھی کوشش ہے، مگر علمی میدان میں اس کے دلائل بے کار ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد ہی غلط ہے، یعنی پہلے ایک مذہبی خدا کے تصور پر یقین لاؤ، پھر بات سمجھ میں آئے گی۔۔

    فار دی سیک آف آرگیومنٹ میں یہاں یہ تسلیم کرلیتا ہوں کہ ہمارا اور اس کائنات کا ایک خالق، ایک انٹیلیجنٹ ڈیزائنر وجود رکھتا ہے۔ کائنات کی وسعت اور کاریگری، حیات کی پیچیدگی پر غور کیا جائے تو یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ وہ بہت ہی ذہین کاریگر ہوگا جس نے یہ سب تخلیق کیا ہے۔ ایک لمحے کیلئے یہ بھی مان لیتا ہوں (اگرچہ میری نظر میں اس کا امکان صفر اعشاریہ ایک فیصد بھی نہیں) کہ مرنے کے بعد ہماری اس ذہین کاریگر سے ملاقات ہوگی۔ تو مجھے یقین ہے کہ وہ سب مذہبی حضرات کو لائن میں کھڑا کرکے بہت پھینٹا لگائے گا کہ کم عقلو! تم نے مجھے اتنا ہی نالائق سمجھ لیا تھا کہ میرا اتنا چھوٹا، کم تر اور سطحی قسم کا تصور گھڑ کر اس کی ترویج اور پرستش کرتے رہے۔

    علمی مباحث میں کسی مذہب یا مذہبی کلام کی ذرا برابر بھی حیثیت نہیں۔ خدا پر مباحث ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہوتے ہیں، مگر ان سنجیدہ مباحث میں کسی مذہبی خدا، یا ابراہیمی خدا کے ذکر کا گزر نہیں، کیونکہ یہ تصوراتِ خدا اتنے مضحکہ خیز ہیں کہ صرف پست ذہن اور لو آئی کیو لوگوں کو ہی متاثر کرسکتے ہیں۔۔

    تو لیجئے۔۔۔ اپنے اسلامی علم کی کجی کو دور فرمائیے۔۔۔

    جب تک میں نے جاوید غامدی صاحب کو ” کافی ” سنا تھا ..اتنا اثر نہیں ہوا تھا ..جب انکو باقاعدہ سننا شروع کیا تو سمجھ آئی کہ وہ ہمارے لئے دین سمجھنا کتنا آسان بنا دیتے ہیں ..یہاں ان کی وڈیو ” قرآن کا تعارف ” لگائی تھی ..اس پکی امید کے ساتھ آپ میں سے ان کو کوئی نہیں سنے گا ..اگر سن لیا ہوتا تو جو قرانی آیتیں لگائی ہیں .ان کا مطلب سمجھ آجاتا …

    غامدی صاحب ہمیں قرآن سکھا رہے ہیں ..آپ کو نہیں ..اس لئے آپ کا یہ کہنا کہ پہلے خدا پر ایمان لاؤ پھر سمجھو گے ..غلط ہے ..اگر موقع ملے تو آپ ان سے ڈائریکٹ سوال کر لیجئے گا ..امکان ہے وہ آپ کو مطمئن کرکے ہی گھر بھیجیں گے

    ان کی وجہ سے مذھب میں مجھے اتنی دلچسپی ضرور ہو گئی ہے کہ اب عربی زبان سیکھنے کو دل چاہنے لگا ہے ..کیا پتا کبھی سیکھ ہی لوں

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #87
    جب تک میں نے جاوید غامدی صاحب کو ” کافی ” سنا تھا ..اتنا اثر نہیں ہوا تھا ..جب انکو باقاعدہ سننا شروع کیا تو سمجھ آئی کہ وہ ہمارے لئے دین سمجھنا کتنا آسان بنا دیتے ہیں ..یہاں ان کی وڈیو ” قرآن کا تعارف ” لگائی تھی ..اس پکی امید کے ساتھ آپ میں سے ان کو کوئی نہیں سنے گا ..اگر سن لیا ہوتا تو جو قرانی آیتیں لگائی ہیں .ان کا مطلب سمجھ آجاتا … غامدی صاحب ہمیں قرآن سکھا رہے ہیں ..آپ کو نہیں ..اس لئے آپ کا یہ کہنا کہ پہلے خدا پر ایمان لاؤ پھر سمجھو گے ..غلط ہے ..اگر موقع ملے تو آپ ان سے ڈائریکٹ سوال کر لیجئے گا ..امکان ہے وہ آپ کو مطمئن کرکے ہی گھر بھیجیں گے ان کی وجہ سے مذھب میں مجھے اتنی دلچسپی ضرور ہو گئی ہے کہ اب عربی زبان سیکھنے کو دل چاہنے لگا ہے ..کیا پتا کبھی سیکھ ہی لوں

    آپ کو قرآن سیکھنے کیلئے غامدی صاحب کی ضرورت کیوں پڑی؟ قرآن میں کوئی الجبرا کے سوالات تو ہیں نہیں، نہ ہی کیمسٹری کی اکیوشنز ہیں، اپنی زبان میں ترجمہ کی ہو تو سیدھی سادے الفاظ میں لکھی ہوئی کتاب ہے۔ آپ کو یہ سیدھی سادی کتاب سیکھنے کیلئے غامدی جیسوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔۔۔؟؟؟ میں بتاتا ہوں۔۔۔

    آج کے دورِ جدید کا امن پسند ذہن رکھنے والا مسلمان جب قرآن پڑھتا ہے تو وہ حیران و پریشان ہوجاتا ہے۔ قرآن میں جا بجا خون بہانے، قتل و غارتگری، لڑائیوں اور مار پھٹول کے احکامات پڑھ کر اس کا دل برگشتہ ہونے لگتا ہے۔ قرآن کی خلافِ انسانیت تعلیمات اس کو دین سے دور کرنے لگتی ہیں۔ پھر وہ اپنے اشکالات دور کرنے کیلئے مختلف مولویوں کو سنتا ہے، ہر کسی کا چونکہ اپنا اپنا مختلف آئی کیو لیول ہوتا ہے ، اس لئے اس کی ذہنی تشفی یا سکیپٹزم کی بھی درجہ بندی مختلف ہوتی ہے۔ کوئی مولوی طارق جمیل کی تاویل سن کر قائل ہوجاتا ہے، کسی کو طارق جمیل کی دلیل بودی لگتی ہے تو وہ ذاکر نائیک کی تقریر سن کر تشفی پاجاتا ہے۔ جس کو ذاکر نائیک بھی مطمئن نہیں کرپاتا، وہ پھر غامدی کے پاس پہنچ جاتا ہے، کچھ لوگ غامدی کی باتوں سے مطمئن ہوجاتے ہیں، جن لوگوں کا آئی کیو ذرا بلند ہوتا ہے، وہ غامدی کے قصے کہانیوں میں بھی نہیں آتے۔ وہ سارا قصہ سمجھ جاتے ہیں اور مذہب کا طوق گلے سے اتار پھینکتے ہیں۔ کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں اور اپنی زندگی اپنی من مرضی سے گزارتے ہیں۔ 

    کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ غامدی صاحب سے قرآن سیکھنے نہیں جاتیں، آپ قرآن میں پائی جانے والی خلافِ انسانیت، خلاف عقل باتوں کی تاویلات کرنے کیلئے غامدی صاحب کو سنتی ہیں، تاکہ آپ کا ذہن مطمئن ہوسکے، اگر صاف الفاظ میں کہا جائے تو آج کے دور میں غامدی صاحب “اسلامی خدا” کی غلطیوں کی درستگی کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔

    بائی دا وے۔۔۔ غامدی صاحب نے غیر مسلمانوں اور کافروں سے دوستی سے منع کرنے والی آیات کی جو تاویلات کی ہیں، وہ کافی مضحکہ خیز ہیں۔۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیات اسی دور سے متعلقہ تھیں، ان کو اسی کانٹیکسٹ میں دیکھیں (اگرچہ اعتراض پھر بھی بنتا ہے، پر چلیں اس سے صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تو)  بندہ پوچھے  جنابِ عالی پھر قیامت تک کیلئے ان کو داخلِ کتاب کرنے کی کیا تُک بنتی تھی۔۔۔

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #88
    آبجیکشن نمبر ایکقرآن کوئی کمیسٹری کی ٹیکسٹ بک تو ہے نہی کے اس میں سے نیاء میٹریل ڈال دیا جائے اور پرانا نکال دیا جائے

    آبجیکشن نمبر دو قرآن میں جا بجا خون بہانے، قتل و غارتگری، لڑائیوں اور مار پھٹول کے احکامات پڑھ کر اس کا دل برگشتہ ہونے لگتا ہے۔ قرآن کی خلافِ انسانیت تعلیمات اس کو دین سے دور کرنے لگتی ہیں

    یہ آپ کی ذہنی اختراع سے زیادہ کچھ بھی نہی

    آپ کو قرآن سیکھنے کیلئے غامدی صاحب کی ضرورت کیوں پڑی؟ قرآن میں کوئی الجبرا کے سوالات تو ہیں نہیں، نہ ہی کیمسٹری کی اکیوشنز ہیں، اپنی زبان میں ترجمہ کی ہو تو سیدھی سادے الفاظ میں لکھی ہوئی کتاب ہے۔ آپ کو یہ سیدھی سادی کتاب سیکھنے کیلئے غامدی جیسوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔۔۔؟؟؟ میں بتاتا ہوں۔۔۔

    آج کے دورِ جدید کا امن پسند ذہن رکھنے والا مسلمان جب قرآن پڑھتا ہے تو وہ حیران و پریشان ہوجاتا ہے۔ قرآن میں جا بجا خون بہانے، قتل و غارتگری، لڑائیوں اور مار پھٹول کے احکامات پڑھ کر اس کا دل برگشتہ ہونے لگتا ہے۔ قرآن کی خلافِ انسانیت تعلیمات اس کو دین سے دور کرنے لگتی ہیں۔ پھر وہ اپنے اشکالات دور کرنے کیلئے مختلف مولویوں کو سنتا ہے، ہر کسی کا چونکہ اپنا اپنا مختلف آئی کیو لیول ہوتا ہے ، اس لئے اس کی ذہنی تشفی یا سکیپٹزم کی بھی درجہ بندی مختلف ہوتی ہے۔ کوئی مولوی طارق جمیل کی تاویل سن کر قائل ہوجاتا ہے، کسی کو طارق جمیل کی دلیل بودی لگتی ہے تو وہ ذاکر نائیک کی تقریر سن کر تشفی پاجاتا ہے۔ جس کو ذاکر نائیک بھی مطمئن نہیں کرپاتا، وہ پھر غامدی کے پاس پہنچ جاتا ہے، کچھ لوگ غامدی کی باتوں سے مطمئن ہوجاتے ہیں، جن لوگوں کا آئی کیو ذرا بلند ہوتا ہے، وہ غامدی کے قصے کہانیوں میں بھی نہیں آتے۔ وہ سارا قصہ سمجھ جاتے ہیں اور مذہب کا طوق گلے سے اتار پھینکتے ہیں۔ کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں اور اپنی زندگی اپنی من مرضی سے گزارتے ہیں۔

    کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ غامدی صاحب سے قرآن سیکھنے نہیں جاتیں، آپ قرآن میں پائی جانے والی خلافِ انسانیت، خلاف عقل باتوں کی تاویلات کرنے کیلئے غامدی صاحب کو سنتی ہیں، تاکہ آپ کا ذہن مطمئن ہوسکے، اگر صاف الفاظ میں کہا جائے تو آج کے دور میں غامدی صاحب “اسلامی خدا” کی غلطیوں کی درستگی کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔

    بائی دا وے۔۔۔ غامدی صاحب نے غیر مسلمانوں اور کافروں سے دوستی سے منع کرنے والی آیات کی جو تاویلات کی ہیں، وہ کافی مضحکہ خیز ہیں۔۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیات اسی دور سے متعلقہ تھیں، ان کو اسی کانٹیکسٹ میں دیکھیں (اگرچہ اعتراض پھر بھی بنتا ہے، پر چلیں اس سے صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تو) بندہ پوچھے جنابِ عالی پھر قیامت تک کیلئے ان کو داخلِ کتاب کرنے کی کیا تُک بنتی تھی۔۔۔

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #89
    آبجیکشن نمبر ایکقرآن کوئی کمیسٹری کی ٹیکسٹ بک تو ہے نہی کے اس میں سے نیاء میٹریل ڈال دیا جائے اور پرانا نکال دیا جائے

    اپنے اس اعتراض کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کرلیں کہ کونسی کتاب زیادہ مفید ہوتی ہے، وہ کتاب جس میں علم زمانے کے حساب سے بڑھتا اور بدلتا رہے یا پھر وہ کتاب جو ایک پتھر کی طرح جامد ہو۔۔۔

    آبجیکشن نمبر دو – قرآن میں جا بجا خون بہانے، قتل و غارتگری، لڑائیوں اور مار پھٹول کے احکامات پڑھ کر اس کا دل برگشتہ ہونے لگتا ہے۔ قرآن کی خلافِ انسانیت تعلیمات اس کو دین سے دور کرنے لگتی ہیں

    یہ آپ کی ذہنی اختراع سے زیادہ کچھ بھی نہی

    آپ کے اعتراض سے واضح ہے کہ آپ نے قرآن اپنی زبان میں نہیں پڑھا۔ موجودہ حکومت کا یہ اقدام نہایت احسن ہے کہ انہوں نے ترجمے کے ساتھ قرآن کی تعلیم لازم کردی۔۔ سیمپل کے طور پر کچھ آیات پڑھ لیں۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #90

    آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے میں نے جاوید غامدی کو بھی کافی سنا ہوا ہے، وہ صرف زمانے اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جو میری نظر میں اچھی کوشش ہے، مگر علمی میدان میں اس کے دلائل بے کار ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد ہی غلط ہے، یعنی پہلے ایک مذہبی خدا کے تصور پر یقین لاؤ، پھر بات سمجھ میں آئے گی۔۔

    فار دی سیک آف آرگیومنٹ میں یہاں یہ تسلیم کرلیتا ہوں کہ ہمارا اور اس کائنات کا ایک خالق، ایک انٹیلیجنٹ ڈیزائنر وجود رکھتا ہے۔ کائنات کی وسعت اور کاریگری، حیات کی پیچیدگی پر غور کیا جائے تو یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ وہ بہت ہی ذہین کاریگر ہوگا جس نے یہ سب تخلیق کیا ہے۔ ایک لمحے کیلئے یہ بھی مان لیتا ہوں (اگرچہ میری نظر میں اس کا امکان صفر اعشاریہ ایک فیصد بھی نہیں) کہ مرنے کے بعد ہماری اس ذہین کاریگر سے ملاقات ہوگی۔ تو مجھے یقین ہے کہ وہ سب مذہبی حضرات کو لائن میں کھڑا کرکے بہت پھینٹا لگائے گا کہ کم عقلو! تم نے مجھے اتنا ہی نالائق سمجھ لیا تھا کہ میرا اتنا چھوٹا، کم تر اور سطحی قسم کا تصور گھڑ کر اس کی ترویج اور پرستش کرتے رہے۔

    علمی مباحث میں کسی مذہب یا مذہبی کلام کی ذرا برابر بھی حیثیت نہیں۔ خدا پر مباحث ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہوتے ہیں، مگر ان سنجیدہ مباحث میں کسی مذہبی خدا، یا ابراہیمی خدا کے ذکر کا گزر نہیں، کیونکہ یہ تصوراتِ خدا اتنے مضحکہ خیز ہیں کہ صرف پست ذہن اور لو آئی کیو لوگوں کو ہی متاثر کرسکتے ہیں۔۔

    تو لیجئے۔۔۔ اپنے اسلامی علم کی کجی کو دور فرمائیے۔۔۔

    زندہ رود بھائی۔مجھے نہی معلوم غامدی اس بارے کیا کہتا ہے لیکن میری توجیع کچھ اس طرح ہے کہ

    اول۔ یہ ترجمہ ہی غلط ہے۔ اولیاء کا مطلب دوست نہی ہے۔ اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی کا مطلب سرپرست ہے۔

    دوئم۔ رسول اکرم کا عیسائیوں اور یہودیوں سے دوستانہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیات کسی خاص کافروں کے متعلق ہے اور مسلمانوں کو ان کو اپنے سرپرست بنانے سے منع کیا جا رہا ہے۔ اس بارے دو آیات بھی کوٹ کر دیتا ہوں۔

    Allah forbids you not with regard to those who fight you not for your faith, nor drive you out of your homes, from dealing kindly and justly with them. For Allah loves those who are just. Allah only forbids you with regard to those who fight you for your faith, and drive you out of your homes and support others in driving you out, from turning to them for protection (or taking them aswali). Those who seek their protection they are indeed wrong- doers.] (Al-Mumtahinah 60: 8-9)

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #91
    آبجیکشن

    آپ نے اپنی روایت برقرار رکھنی ہے ، ایک دو آیتیں لگا کر اپنا مقدمہ پیش کر دیا اور نہ ہی آپ نے آیات کے پاس منظر کو بیان کرنا مناسب سمجھا

    اپنے اس اعتراض کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کرلیں کہ کونسی کتاب زیادہ مفید ہوتی ہے، وہ کتاب جس میں علم زمانے کے حساب سے بڑھتا اور بدلتا رہے یا پھر وہ کتاب جو ایک پتھر کی طرح جامد ہو۔۔۔

    آپ کے اعتراض سے واضح ہے کہ آپ نے قرآن اپنی زبان میں نہیں پڑھا۔ موجودہ حکومت کا یہ اقدام نہایت احسن ہے کہ انہوں نے ترجمے کے ساتھ قرآن کی تعلیم لازم کردی۔۔ سیمپل کے طور پر کچھ آیات پڑھ لیں۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    SAIT
    Participant
    Offline
    • Professional
    #92
    اب دہریوں کی رانی توپ دل ہی دل میں زیڈ کو گالیاں دے رہی ہونی ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ میری بھی عزت خراب کروا دی ہے

    :hilar: :hilar: :hilar:

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #93

    آپ کو قرآن سیکھنے کیلئے غامدی صاحب کی ضرورت کیوں پڑی؟ قرآن میں کوئی الجبرا کے سوالات تو ہیں نہیں، نہ ہی کیمسٹری کی اکیوشنز ہیں، اپنی زبان میں ترجمہ کی ہو تو سیدھی سادے الفاظ میں لکھی ہوئی کتاب ہے۔ آپ کو یہ سیدھی سادی کتاب سیکھنے کیلئے غامدی جیسوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔۔۔؟؟؟ میں بتاتا ہوں۔۔۔

    آج کے دورِ جدید کا امن پسند ذہن رکھنے والا مسلمان جب قرآن پڑھتا ہے تو وہ حیران و پریشان ہوجاتا ہے۔ قرآن میں جا بجا خون بہانے، قتل و غارتگری، لڑائیوں اور مار پھٹول کے احکامات پڑھ کر اس کا دل برگشتہ ہونے لگتا ہے۔ قرآن کی خلافِ انسانیت تعلیمات اس کو دین سے دور کرنے لگتی ہیں۔ پھر وہ اپنے اشکالات دور کرنے کیلئے مختلف مولویوں کو سنتا ہے، ہر کسی کا چونکہ اپنا اپنا مختلف آئی کیو لیول ہوتا ہے ، اس لئے اس کی ذہنی تشفی یا سکیپٹزم کی بھی درجہ بندی مختلف ہوتی ہے۔ کوئی مولوی طارق جمیل کی تاویل سن کر قائل ہوجاتا ہے، کسی کو طارق جمیل کی دلیل بودی لگتی ہے تو وہ ذاکر نائیک کی تقریر سن کر تشفی پاجاتا ہے۔ جس کو ذاکر نائیک بھی مطمئن نہیں کرپاتا، وہ پھر غامدی کے پاس پہنچ جاتا ہے، کچھ لوگ غامدی کی باتوں سے مطمئن ہوجاتے ہیں، جن لوگوں کا آئی کیو ذرا بلند ہوتا ہے، وہ غامدی کے قصے کہانیوں میں بھی نہیں آتے۔ وہ سارا قصہ سمجھ جاتے ہیں اور مذہب کا طوق گلے سے اتار پھینکتے ہیں۔ کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں اور اپنی زندگی اپنی من مرضی سے گزارتے ہیں۔

    کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ غامدی صاحب سے قرآن سیکھنے نہیں جاتیں، آپ قرآن میں پائی جانے والی خلافِ انسانیت، خلاف عقل باتوں کی تاویلات کرنے کیلئے غامدی صاحب کو سنتی ہیں، تاکہ آپ کا ذہن مطمئن ہوسکے، اگر صاف الفاظ میں کہا جائے تو آج کے دور میں غامدی صاحب “اسلامی خدا” کی غلطیوں کی درستگی کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔

    بائی دا وے۔۔۔ غامدی صاحب نے غیر مسلمانوں اور کافروں سے دوستی سے منع کرنے والی آیات کی جو تاویلات کی ہیں، وہ کافی مضحکہ خیز ہیں۔۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیات اسی دور سے متعلقہ تھیں، ان کو اسی کانٹیکسٹ میں دیکھیں (اگرچہ اعتراض پھر بھی بنتا ہے، پر چلیں اس سے صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تو) بندہ پوچھے جنابِ عالی پھر قیامت تک کیلئے ان کو داخلِ کتاب کرنے کی کیا تُک بنتی تھی۔۔۔

    :doh:

    جو میرے کہنے سے قرآن کا تعارف نامی وڈیو دیکھ لی ہوتی تو اتنا لمبا بھاشن دینے سے بچ جاتے …جتنی تفصیل سے انہوں نے بتایا ہے ..میں شاید بتا نا پاؤں .

    مختصرا قرآن رسول کی سرگزشت انظار  ہے ..رسول قوم کو خبردار کرنے آتا ہے …یہاں رسول کے مخاطب اس زمانے کے مشرکین ، یہودی اور نصاریٰ ہیں ..میں اور آپ نہیں …

    رسول جب آتا ہے تو الله کا پیغام لاتا ہے ..شریعت  لاتا ہے . ..اپنی قوم کو الله کا پیغام دیتا ہے ..اتمام حجت کرتا ہے ..اس کے بعد الله کا فیصلہ سنا کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے …جو فیصلے الله نے قیامت کے دن بڑے  پیمانے پر کریں گے ..وہ چھوٹے پیمانے پر اس دنیا میں نافذ  کر کے چلا جاتا ہے ..

    حضرت محمد صلعم  سے پہلے کے تمام رسولوں کی قوم کو الله نے خود اپنے طور پر سزا دی ..رسولوں کو وہاں سے نکال کر کہیں طوفان لے آیا تو کہیں زلزلہ ..لیکن حضرت محمد کی امت کو سزا کا طریقہ دوسرا رہا ..یہاں نیک لوگوں اور نا فرمان لوگوں کو الگ کر کے نیک لوگوں کے ہاتھوں قتل کی سزا دی ..یہ آیتیں اس سے متعلق ہیں ..یہ سزا رسول کے ذریعے صرف الله ہی دے سکتا ہے ..یہ میں اور آپ نہیں کر سکتے ..اب ہمارے بیچ نہ رسول ہیں اور نہ ہی ہم ایسی کوئی سزا کسی نا فرمان ، کافر ، منافق کو دینے کا حق رکھتے ہیں .اب فیصلے روز قیامت  ہی ہونگے

    غامدی کو سننے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کسی آیت  کی شان نزول کیا ہے ..آپ سیاق و سباق سے ہٹ  کر بات نہیں کر سکتے

    لکھنے کو بہت کچھ ہے ..مجھ سے لمبا لمبا نہیں لکھا جاتا اور آپ نے اپنے کانوں پر مہر لگا لی ہے ..جو چن کر ویڈیوز بھیجتی ہوں .وہ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں ..کیونکہ آپ کا مقصد جاننا نہیں ..محض  اعتراض برائے اعتراض ہے ا…وہی رویہ جو رسولوں کی قومیں اپنائے ہوئے ہوتی تھیں ..جب رسول انہیں مطمئن نہ کر سکے تو میں یا غامدی صاحب کیا کر لیں گے ..تو صاحب اب روز قیامت کا انتظار کرتے ہیں ..اس دن ہم بھی دیکھیں گے اور آپ بھی

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #94
    لیں ایک وڈیو اور دیکھ لیں جس میں غامدی صاحب  نے خود اپنا . قرآن ، حدیث اور سنت کا تھوڑا تھوڑا تعارف کروایا ہے

    Zed
    Participant
    Offline
    • Professional
    #95
    زندہ رود بھائی۔مجھے نہی معلوم غامدی اس بارے کیا کہتا ہے لیکن میری توجیع کچھ اس طرح ہے کہ اول۔ یہ ترجمہ ہی غلط ہے۔ اولیاء کا مطلب دوست نہی ہے۔ اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی کا مطلب سرپرست ہے۔ دوئم۔ رسول اکرم کا عیسائیوں اور یہودیوں سے دوستانہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیات کسی خاص کافروں کے متعلق ہے اور مسلمانوں کو ان کو اپنے سرپرست بنانے سے منع کیا جا رہا ہے۔ اس بارے دو آیات بھی کوٹ کر دیتا ہوں۔ Allah forbids you not with regard to those who fight you not for your faith, nor drive you out of your homes, from dealing kindly and justly with them. For Allah loves those who are just. Allah only forbids you with regard to those who fight you for your faith, and drive you out of your homes and support others in driving you out, from turning to them for protection (or taking them aswali). Those who seek their protection they are indeed wrong- doers.] (Al-Mumtahinah 60: 8-9)

    Bawa ji

     یہ لیں، میرے اندازے کے عین مطابق نیا کٹا کھل گیا ہے یعنی اب اس بات پر دھینگا مشتی ہو گی کے کونسا ترجمہ صحیح ہے کونسا غلط؟ کونسا پڑھنا ضروری کونسا نہیں؟ ویسے قران پاک کے اردو میں کتنے ترجمہ ہیں؟ کیا ترجمے کرنے والا غلطی نہیں کر سکتا؟ ترجمہ صحیح غلط کا فیصلہ کو کرے گا۔

    نادان

    ان آیات کے بارے میں غامدی صاحب کا کیا ارشاد ہے؟

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ – 9:28

    اے ایمان والو مشرک جو ہیں سو پلید ہیں سو نزدیک نہ آنے پائیں مسجدالحرام کے اس برس کے بعد ۲۴ اور اگر تم ڈرتے ہو فقر سے تو آئندہ غنی کر دے گا تم کو اللہ اپنے فضل سے اگر چاہے بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے ۲

    قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ – 9:29

    لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ حرام جانتے ہیں اسکو جس کو حرام کیا اللہ نے اور اسکے رسول نے اور نہ قبول کرتے ہیں دین سچا ان لوگوں میں سے جو کہ اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے

    ہاتھ سے ذلیل ہو کر

    وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ – 9:30

    اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے ۲۷ اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ باتیں کہتے ہیں اپنے منہ سے ریس کرنے لگے اگلے کافروں کی بات کی  ہلاک کرے ان کو اللہ کہاں سے پھرے جاتے ہیں

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zed
    Participant
    Offline
    • Professional
    #96
    خلافت کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ..تو عاطف صاحب کیا قائم کریں گے ..وہ تو ویسے بھی چوں چوں کا مربہ ہیں Atif Qazi باقی کل ..شب بخیر …لاک ڈاون کے مزے ختم

    خلافت سے اسلام کا کوئی لینا دینا نہیں تو زمیں پر الله کا قانون کیسے نافذ ہو گا. خلفایے راشدین بھی اسلام سے ہٹ کر حکومت کر رہے تھے؟

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #97
    Bawa ji

    یہ لیں، میرے اندازے کے عین مطابق نیا کٹا کھل گیا ہے یعنی اب اس بات پر دھینگا مشتی ہو گی کے کونسا ترجمہ صحیح ہے کونسا غلط؟ کونسا پڑھنا ضروری کونسا نہیں؟ ویسے قران پاک کے اردو میں کتنے ترجمہ ہیں؟ کیا ترجمے کرنے والا غلطی نہیں کر سکتا؟ ترجمہ صحیح غلط کا فیصلہ کون کرے گا؟

    زیڈ بھائی

    یہ سمجھنا تو کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے

    ہر زبان کے ایک لفظ کے کئی کئی مطلب نکلتے ہیں، عربی کے بھی اسی طرح مختلف الفاظ کے کئی مطلب نکلتے ہیں۔ جو شخص زبان کو سمجھنے کے قابل ہو جائے گا وہ درست مطلب بھی سمجھ لے گا اور جو زبان سمجھنے سے قاصر ہوگا وہ اپنا ہی مطلب نکالے گا

    یہ نہ سمجھی صرف الفاظ تک محدود نہیں ہے بلکہ بعض اوقات جملوں تک کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ الفاظ اور جملوں کو درست طور پر سمجھنے کے لئے تحریر کے سیاق و سباق سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے ورنہ آپ الفاظ اور جملوں کے اصل مطلب تک نہیں پہنچ سکتے ہیں

    پوری قوم پنجاب حکومت کے اس قدم کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی اور یقین دوسرے صوبے بھی پنجاب حکومت کے اس قدم کی پیروی کریں گے

    یہ کٹا کھلنے اور دھینگا مستی والی باتیں صرف اپنے آپ کو تسلی دینے کے لئے ہیں

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #98

    زندہ رود بھائی۔مجھے نہی معلوم غامدی اس بارے کیا کہتا ہے لیکن میری توجیع کچھ اس طرح ہے کہ

    اول۔ یہ ترجمہ ہی غلط ہے۔ اولیاء کا مطلب دوست نہی ہے۔ اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی کا مطلب سرپرست ہے۔

    دوئم۔ رسول اکرم کا عیسائیوں اور یہودیوں سے دوستانہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیات کسی خاص کافروں کے متعلق ہے اور مسلمانوں کو ان کو اپنے سرپرست بنانے سے منع کیا جا رہا ہے۔ اس بارے دو آیات بھی کوٹ کر دیتا ہوں۔

    Allah forbids you not with regard to those who fight you not for your faith, nor drive you out of your homes, from dealing kindly and justly with them. For Allah loves those who are just. Allah only forbids you with regard to those who fight you for your faith, and drive you out of your homes and support others in driving you out, from turning to them for protection (or taking them aswali). Those who seek their protection they are indeed wrong- doers.] (Al-Mumtahinah 60: 8-9)

    شاہد عباسی صاحب۔۔ کہاں غائب رہتے ہیں آپ، کافی عرصے بعد آپ سے شرفِ گفتگو حاصل ہورہا ہے۔۔

    آپ نے شاید غور نہیں کیا، ایک آیت میں بطانۃ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جس کا مطلب دلی دوست ہے۔ اسی طرح ولی بھی دوست کے معنوں میں عربی میں عام مستعمل ہے۔ مختلف اسلامی مکاتب فکر کے ممتاز علمائے دین نے بھی تراجمِ قرآن میں یہی ترجمہ کیا ہے۔۔

    دوئم۔ رسول اکرم کا عیسائیوں اور یہودیوں سے دوستانہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیات کسی خاص کافروں کے متعلق ہے اور مسلمانوں کو ان کو اپنے سرپرست بنانے سے منع کیا جا رہا ہے۔ اس بارے دو آیات بھی کوٹ کر دیتا ہوں۔

    Allah forbids you not with regard to those who fight you not for your faith, nor drive you out of your homes, from dealing kindly and justly with them. For Allah loves those who are just. Allah only forbids you with regard to those who fight you for your faith, and drive you out of your homes and support others in driving you out, from turning to them for protection (or taking them aswali). Those who seek their protection they are indeed wrong- doers.] (Al-Mumtahinah 60: 8-9)

    سرکارِ دو عالم نے یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ کے سات سو لوگوں کو ذبح بھی تو کیا تھا، قرآن میں یہودیوں اور عیسائیوں کی بار بار کی بیشنگ اس بات کی گواہی ہے کہ ان کے ساتھ کوئی خاص دوستانہ تعلقات نہیں تھے۔۔

    بائی دا وے آپ کو یہ بات کس قدر منطقی لگتی ہے کہ آپ جس کو پوری کائنات کا خالق اور انٹیلی جنٹ ڈیزائنر (خدا) مانتے ہوں، وہ صرف ایک شخص کی ذات کو مرکز و محور مان لے اور پوری دنیا کیلئے احکامات صرف اسی کی ذات کو مدنظر رکھ کر جاری کرے۔ اس کے ساتھ کوئی معمولی سا واقعہ بھی پیش آجائے، اس کی اپنی بیویوں کے ساتھ کوئی تکرار ہوجائے، یا اس کے دوست گھر میں تھوڑی دیر زائد بیٹھ جائیں، تو وہ مالکِ کائنات / انٹیلی جنٹ ڈیزائنر  فوراً حرکت میں آکر احکامات جاری کردے، (مثلاً آپ کو ان آیات کی آج کے دور میں کیا افادیت نظر آتی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ صحابہ اپنی آوازیں نبی کی آوازوں سے پست رکھیں اور نبی کے گھر میں کھانا پکنے سے پہلے نہ آکر بیٹھ جایا کریں اور کھانا کھانے کے بعد جلدی چلے جایا کریں)۔۔

    ایک طرف تو دعویٰ کیا جارہا ہے کہ قیامت تک کے انسانوں کیلئے وہ مبینہ مالکِ کائنات / انٹیلی جنٹ ڈیزائنر ہدایات نامہ جاری کررہا ہے جس کے تحت وہ مرنے کے بعد ان کا احتساب کرے گا، دوسری طرف وہی مبینہ خالقِ کائنات صرف ایک شخص کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے ہی اپنے احکامات جاری کرتا ہے۔  کیا آپ کو یہ سارا منظر نامہ لاجیکل لگتا ہے؟

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #99
    :doh: جو میرے کہنے سے قرآن کا تعارف نامی وڈیو دیکھ لی ہوتی تو اتنا لمبا بھاشن دینے سے بچ جاتے …جتنی تفصیل سے انہوں نے بتایا ہے ..میں شاید بتا نا پاؤں . مختصرا قرآن رسول کی سرگزشت انظار ہے ..رسول قوم کو خبردار کرنے آتا ہے …یہاں رسول کے مخاطب اس زمانے کے مشرکین ، یہودی اور نصاریٰ ہیں ..میں اور آپ نہیں … رسول جب آتا ہے تو الله کا پیغام لاتا ہے ..شریعت لاتا ہے . ..اپنی قوم کو الله کا پیغام دیتا ہے ..اتمام حجت کرتا ہے ..اس کے بعد الله کا فیصلہ سنا کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے …جو فیصلے الله نے قیامت کے دن بڑے پیمانے پر کریں گے ..وہ چھوٹے پیمانے پر اس دنیا میں نافذ کر کے چلا جاتا ہے .. حضرت محمد صلعم سے پہلے کے تمام رسولوں کی قوم کو الله نے خود اپنے طور پر سزا دی ..رسولوں کو وہاں سے نکال کر کہیں طوفان لے آیا تو کہیں زلزلہ ..لیکن حضرت محمد کی امت کو سزا کا طریقہ دوسرا رہا ..یہاں نیک لوگوں اور نا فرمان لوگوں کو الگ کر کے نیک لوگوں کے ہاتھوں قتل کی سزا دی ..یہ آیتیں اس سے متعلق ہیں ..یہ سزا رسول کے ذریعے صرف الله ہی دے سکتا ہے ..یہ میں اور آپ نہیں کر سکتے ..اب ہمارے بیچ نہ رسول ہیں اور نہ ہی ہم ایسی کوئی سزا کسی نا فرمان ، کافر ، منافق کو دینے کا حق رکھتے ہیں .اب فیصلے روز قیامت ہی ہونگے غامدی کو سننے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کسی آیت کی شان نزول کیا ہے ..آپ سیاق و سباق سے ہٹ کر بات نہیں کر سکتے لکھنے کو بہت کچھ ہے ..مجھ سے لمبا لمبا نہیں لکھا جاتا اور آپ نے اپنے کانوں پر مہر لگا لی ہے ..جو چن کر ویڈیوز بھیجتی ہوں .وہ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں ..کیونکہ آپ کا مقصد جاننا نہیں ..محض اعتراض برائے اعتراض ہے ا…وہی رویہ جو رسولوں کی قومیں اپنائے ہوئے ہوتی تھیں ..جب رسول انہیں مطمئن نہ کر سکے تو میں یا غامدی صاحب کیا کر لیں گے ..تو صاحب اب روز قیامت کا انتظار کرتے ہیں ..اس دن ہم بھی دیکھیں گے اور آپ بھی

    آپ کا یہ خاصہ ہے کہ آپ جس چیز کو صحیح سمجھتی ہیں، کھل کر اور صاف الفاظ میں صحیح کہتی ہیں اور غلط کو کھل کر غلط کہتی ہیں، اس لئے آپ کے کمنٹس میں اکثر اوقات صراحت ہوتی ہے، بات صاف لکھی ہوتی ہے بغیر کسی ابہام کے۔  مگر اس بار آپ نے کیا لکھا ہے، آپ ایک بار خود ضرور پڑھیے گا، مجھے یقین ہے آپ کو خود سمجھ نہیں آئے گا کہ آپ نے کیا لکھا ہے۔۔

    آپ کے کہنے پر غامدی صاحب کی ویڈیو کا کافی سارا حصہ سنا ہے اور مجھے حسبِ توقع کوئی نئی بات نہیں ملی۔۔ غامدی کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ ہمیں ہر صورت اسلام کی ہر چیز کو مثبت انداز میں دیکھنا ہے اور جو چیزیں منفی ہوں یا قابلِ دفاع نہ ہوں، انہیں چھوڑ دینا ہے۔ یعنی چیری پکنگ کرنی ہے۔۔ چیری پکنگ سے تو آپ ہٹلر کو بھی دنیا کیلئے سراپا رحمت ثابت کرسکتے ہیں۔ جب مقصد سچ تک پہنچنا نہ ہو، بلکہ اپنے مغالطوں کا بھرم قائم رکھنا ہو تو پھر چیری پکنگ ہی واحد رستہ رہ جاتا ہے۔۔ غالبا فریڈرک نیچے نے کہا تھا

    Sometimes people don’t want to hear the truth because they don’t want their illusions destroyed…

    غامدی کو سننے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کسی آیت کی شان نزول کیا ہے ..آپ سیاق و سباق سے ہٹ کر بات نہیں کر سکتے لکھنے کو بہت کچھ ہے ..مجھ سے لمبا لمبا نہیں لکھا جاتا اور آپ نے اپنے کانوں پر مہر لگا لی ہے ..جو چن کر ویڈیوز بھیجتی ہوں .وہ بھی سننے کو تیار نہیں ہیں ..کیونکہ آپ کا مقصد جاننا نہیں ..محض اعتراض برائے اعتراض ہے ا…وہی رویہ جو رسولوں کی قومیں اپنائے ہوئے ہوتی تھیں ..جب رسول انہیں مطمئن نہ کر سکے تو میں یا غامدی صاحب کیا کر لیں گے ..تو صاحب اب روز قیامت کا انتظار کرتے ہیں ..اس دن ہم بھی دیکھیں گے اور آپ بھی

    یہ بات آپ کے سابقہ موقف کے خلاف جاتی ہے۔ کیونکہ آیات کے شانِ نزول اور سیاق و سباق کو جاننے کیلئے آپ کو احادیث، تفاسیر اور تاریخ اسلام کی مدد لینی ہوگی، اس سے ایک تو قرآن کے مکمل کتاب ہونے کا دعویٰ باطل قرار پائے گا،دوسرا آپ پھر چیری پکنگ نہیں کرسکتیں، جیسا کہ آپ نے بیانیہ قائم کیا ہوا ہے کہ جو بات قرآن سے مطابقت رکھتی ہے، وہ اٹھا لینی ہے، باقی چھوڑ دینی ہے۔ کیونکہ جس کتاب پر آپ آیات کا سیاق و سباق جاننے کیلئے اعتبار کررہی ہیں، اس میں لکھی اس بات پر بھی آپ کو اعتبار کرنا ہوگا جو آپ کی نظر میں آپ کے دین یا پیغمبر کا غلط امیج پیش کرتی ہے۔۔۔

    بطور سابقہ “عالمِ دینِ اسلام” کے میں آپ کو اس بات سے بھی آگاہ کردوں کہ اگر آپ آیات کے شانِ نزول کا مطالعہ کرنا شروع کریں تو آپ کو وہاں سے راہِ فرار اختیار کرنے میں دیر نہیں لگے گی، کیونکہ زیادہ مواد آپ کے حسبِ منشا نہیں ملے گا، اس کی ایک مثال اسی تھریڈ پر موجود ہے، جب میں نے ایک آیت کی شان نزول بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ نہ جانے کہاں سے پڑھ سن کر آجاتے ہیں۔۔۔ سو بی کیئرفل۔ :) ۔۔

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #100
    آبجیکشن آپ نے اپنی روایت برقرار رکھنی ہے ، ایک دو آیتیں لگا کر اپنا مقدمہ پیش کر دیا اور نہ ہی آپ نے آیات کے پاس منظر کو بیان کرنا مناسب سمجھا

    شامی صاحب۔۔ آپ کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ میں جو نے قرآن میں قتل و غارت اور خون خرابے کی تعلیمات کی بات کی ہے یہ میرے اپنے ذہن کی اختراع ہےاور قرآن میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اب کم از کم آپ کو یہ تو تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ سب کچھ میں نے اپنے ذہن سے نہیں گھڑا، بلکہ قرآن میں موجود ہے۔۔۔

    آپ ان آیات کے پسِ منظر کو جاننا چاہتے ہیں، میں مختصراً بیان کئے دیتا ہوں۔ آپ کو یہ تو علم ہی ہوگا کہ دورِ نبوت کے تئیس سال میں سے ابتدائی تیرہ سال سرکارِ دو عالم نے مکہ میں گزارے۔۔  اس کے اس دور کو مکی دور کہا جاتا ہے۔ مکی دور میں سرکارِ دو عالم کے اوپر جو “وحی” نازل ہوتی رہی، اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صبر، صلہ رحمی، اخلاق اور برداشت کی تعلیم دی گئی ہے۔ جیسا کہ سورۃ الکافرون میں کہا گیا کہ تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔ مکی دور میں “نازل شدہ” آیات میں آپ کو قتل و غارتگری اور خون خرابے کی تعلیم نہیں ملے گی، کیونکہ اس وقت مسلمان بہت کم تھے، کمزور تھے اور مقابلے کی اہلیت نہ رکھتے تھے۔ مکی دور کے تیرہ سالوں میں جب تک سرکارِ دو عالم پیار سے اسلام کی تبلیغ کرتے رہے، بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا اور وہ لوگ بھی بیشتر ایسے تھے جو کوئی خاص سماجی حیثیت نہ رکھتے تھے۔ خیر سرکارِ دو عالم جب اپنے گنے چنے ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے اور انہیں وہاں انصار مدینہ کی مدد حاصل ہوگئی تو انہیں کافی سہارا مل گیا۔  وہاں سے پھر جنگوں  (غزوات) کا ایک دور شروع ہوتا ہے جس کی ابتدا بدر سے ہوتی ہے۔ غزوہ بدر بھی ہمارے سکول کی کتابوں میں ایسے ہی پڑھایا جاتا ہے جیسے مطالعہ پاکستان میں پاک بھارت جنگیں۔ یعنی حقیقت کے برعکس۔ جیسے پڑھایا جاتا ہے کہ 65 میں رات کے اندھیرے میں اچانک بھارتی فوجوں نے پاکستان پر ہلہ بول دیا اور پاکستانی فوج تو بیچاری معصوم / شرافت کی پیکر انڈیا کے ساتھ پنگا لینے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اسی طرح غزوہ بدر بھی مسلمانوں کی جارحیت کی وجہ سے برپا ہوا، جبکہ پڑھایا اس کے الٹ جاتا ہے۔

    غزوہ بدر   کی تفصیل یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔۔۔

     اسلام کے مدنی دور میں چونکہ جنگوں اور لڑائیوں سے مسلمان رفتہ رفتہ طاقتور ہوتے گئے اس لئے ان کی پالیسی بھی بدل گئی۔ اب پیار سے بات کرنے کی بجائے طاقت کا استعمال شروع ہوگیا۔ اس لئے “وحی” میں بار بار مختلف انداز سے کافروں کی ٹھکائی کے احکامات آتے رہے۔۔ یہ جتنی بھی آیات لڑائی اور مار دھاڑ والی ہیں، یہ سب مدنی دور کی ہیں۔ اسلام کے طاقت کے دور کی۔۔۔ 

Viewing 20 posts - 81 through 100 (of 362 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi