ایک بہت خوبصورت غزل کے شعار ہم سے کسی کے بخت کے تارا نہیں ملا بچھڑا جو ایک بار دوبارہ نہیں ملا کاغذ کی کشتوں پر سواری کا شوق تھا اب یہ شکاتیں ہیں ۔۔۔کنارہ نہیں ملا انصر ہمارے وہم و گمان میں ۔نہ تھا۔۔کہہ تم یہ کہہ کے چھوڑ دو گے سہارا نہیں ملا ہم سے کسی کے بخت کا تارا نہیں ملا بچھڑا جو ایک بار دہ بارہ نہیں ملا۔ 😢