Viewing 1 post (of 1 total)
  • Author
    Posts
  • Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    دوسری اور آخری قسط

    السلام علیکم و رحمتاللہ

    السلام علیکم و رحمتاللہ
    درود شریف
    حاجی صاحب نے سلام پھیرتے ہوے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئیے اور امت مسلمہ کی ہدایت اور کامیابی کی دعا کی . اپنی بد اعمالیوں پر گڑ گڑا گڑ گڑا کر معافی طلب کی .
    نماز ختم ہونے کے بعد جاننے والے نمازیوں سے مصافحہ کیا کچھ سے معانقہ فرمایا اور گھر کی جانب رواں دواں ہو گئے .

    گھر پہنچے تو بیٹے کا دوست گھر میں آیا ہوا تھا
    السلام علیکم انکل،
    وعلیکم السلام پتر ، جیتے رہو . حاجی صاحب نے بیٹے کے دوست کو غور سے دیکھتے ہوے اپنے کمرے کی راہ لی .
    بتول ، یہ اکرم کے ساتھ کونسا دوست ہے پہلے تو اسکو کبھی نہیں دیکھا؟ ، حاجی صاحب نے کمرے کو سمیٹنے میں مصروف اپنی بیگم صاحبہ سے مخاطب ہوتے ہوے استفسار کیا

    کالج میں نیا نیا دوست بنا ہے دونوں آج ملکر پڑھائی کررہے ہیں -بتول بیگم صاحبہ نے وضاحت کی
    اچھا اچھا ، اچھی بات ہے مل کر پڑھنے سے برکت ہوتی ہے -حاجی صاحب نے اثبات میں سر ہلاتے ہوے ٹوپی اتار کر میز پر رکھ دی .

    چند روز کے بعد …………

    بتول او بتول ، یہ اکرم نظر نہیں آرہا؟ کہاں رہ گیا ہے ؟- حاجی صاحب نے گھر میں نظریں دوڑاتے ہوے بیگم کو آواز دی .

    وہ جی اپنے دوست کے گھر گیا ہوا ہے ، آج اسکے گھر میں پڑھائی ہو رہی ہے . بیگم صاحبہ نے حاجی صاحب کی قمیض پر استری کرتے ہوے جواب دیا .
    دوست کے گھر ، کونسے دوست کے گھر ؟ حاجی صاحب نے پوچھا
    وہی جو اس دن ہمارے گھر آیا ہوا تھا -بیگم صاحبہ نے جواب دیا

    کہاں رہتا ہے اسکا دوست ، کویی محلہ وغیرہ بھی تو بتاؤ

    جی وہ کوڑھی محلہ ہے نا ، وہیں اسکی رہائش ہے – بیگم صاحبہ نے جواب دیا .

    کیا کہا کیا کہا کوڑھی محلہ ، وہاں رہتا ہے وہ ؟ مجھے تو پہلے ہی شکل سے کوڑھی کوڑھی سا لگ رہا تھا -حاجی صاحب کی آواز میں ہلکی سی پریشانی کا عنصر صاف محسوس کیا جاسکتا تھا.

    اے لو ، پریشانی کی کیا بات ہے؟ کیا کوڑھی محلہ میں انسان نہیں رہتے ہیں ؟ بتول بیگم نے معصومانہ سوال کیا .
    او جھلی ، انسان تو رہتے ہیں مگر ان سب کو کوڑھ کا مرض لاحق ہے ، یہ بہت خطرناک مرض ہوتا ہے کہیں ہمارے اکرم کو بھی نہ لگ جائے -حاجی صاحب کی پریشانی بڑھنے لگی .
    آپ کو تو ہر بات میں وہم ہوجاتا ہے ، اچھا بھلا تو دوست تھا اسکا مجھے تو بچہ صحت مند اور تندرست ہی لگ رہا تھا – بتول بیگم نے چڑ چڑے انداز میں جواب دیا
    او ادھوری عقل والی عورت ، اگر تمہیں یہ باتیں سمجھ آتیں تو تم آج میرے ساتھ نہ ہوتیں . کوڑھ کا جو مرض ہوتا ہے نا، وہ دل اور دماغ میں ہوتا ہے ، بظاہر انسان بھلا مانس دکھتا ہے مگر یہ بہت خطرناک بیماری ہوتی ہے . اس مرض کی کویی دوا نہیں بنی ہے . اپنی حکومت ان لوگوں کا اعلاج اچھی طرح سے کررہی ہے – خصوصی ہسپتال بناہے گیے ہیں جن لوگوں کی بیماری بڑھ جاتی ہے انکو زبردستی ان ہسپتالوں میں داخل کرکے انکا خصوصی اعلاج کیا جاتا ہے ، اعلاج کے دوران اکثر دم توڑ جاتے ہیں مگر کچھ لوگ کوشش کریں اور ول پاور دکھایں تو بظاہر صحت مند ہوجاتے ہیں مگر ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ انمیں کوڑھ کے جراثیم پھر بھی باقی رہتے ہیں ، اللہ جسکو چاہتا ہے شفا دے دیتا ہے جسکو چاہتا ہے بیمار ہی رہنے دیتا ہے – حاجی صاحب نے کوڑھ کے مرض پر ایک تقریر جھاڑ دی .
    مجھے سمجھ نہیں آرہا ، آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھے تو اچھا بھلا بچہ لگ رہا تھا – بتول بیگم نے استری سے قمیض کی کریز درست کرتے ہوے جواب دیا
    مجھے بس اکرم کی فکر ہے کہیں اسکو بھی یہ مرض لاحق نہ ہوجاے . حاجی صاحب نے فکر مندی کا اظہار کیا.

    دوسرے دن

    اکرم بیٹا آپ کہاں جارہے ہو ؟ حاجی صاحب نے باہر جاتے اکرم سے سوال کیا
    ابو ہسپتال جارہا ہوں اپنے دوست کے بھائیڈھونڈنے اور اسکی تیمارداری کے لئے – کل رات ہسپتال والے اسکو گھر سے زبردستی لے گئے تھے . اکرم نے والد صاحب کو جواب دیا .
    ارے کونسے دوست اور کونسے ہسپتال کی بات کررہے ہو – حاجی صاحب نے چونکتے ہوے پوچھا .
    ابو وہی دوست جسکی آپ سے ملاقات ہویی تھی اس دن جب ہم مل کر پڑھائی کررہے تھے – اکرم نے یاد دلایا .
    ارے کیوں کیا ہوگیا اسکو ؟ حاجی صاحب نے استفسار کیا
    ابو مجھے تو اچھا بھلا لگ رہا تھا مگر ایمبولینس والے کہہ رہے تھے کہ اسکو کوڑھ کا مرض لاحق ہے جو کہ خطرناک مرحلہ پر پہنچ گیا ہے ، اسکا اعلاج کرنا پڑے گا . جاتے جاتے ہسپتال کا پتہ بھی نہیں بتایا اور لے گیے . میرے دوست کے والدین اور بہن بھائیوں نے بہت روکا مگر انہوں نے کہا کہ اسکا اعلاج ناگزیر ہے اور لے گیے . اکرم نے روہانسی سی آواز میں بتایا .
    بیٹا میں تو تمھاری والدہ کو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ وہ کوڑھی محلہ ہے اور وہاں کے بیشتر لوگوں کو کوڑھ کا مرض ہے مجھے تمہارا اس لڑکے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا درست نہیں لگتا کہیں تمہیں بھی مرض نہ لگ جائے . حاجی صاحب نے بیٹے کو سمجھانے والے انداز میں بتایا .
    ابو میری سمجھ نہیں آیا کہ جب مبینہ مریض ، اور اسکے گھر والوں کو پریشانی نہیں تھی ، انہوں نے اعلاج کے لئے رجوع نہیں کیا تو حکومت اتنی ایفشینٹ کسطرح ہو گئی ، ہمارے اپنے محلہ میں ایک سے ایک مریض ہے جنکا اعلاج ہونا چاہئے یہاں تو انکو کویی پوچھتا نہیں ہے تو کوڑھی محلہ میں حکومت کا رویہ مختلف کیوں ہے -اکرم نے حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوے پوچھا
    بیٹا آپ کو سمجھنا چاہئے کہ کوڑھ کا مرض کوڑھی محلہ میں اجتماعی طور پر موجود ہے اور ایک وبا کی شکل اختیار کرگیا ہے اس لئے وہاں حکومت کو خصوصی انتظام کرنا پڑ گئے ہیں کیوں کہ خطرہ تھا کہ وہ مرض ہمارے محلے میں بھی نہ پھیل جائے . جبکہ ہمارے محلہ میں بھی بیمیاریاں ضرور ہیں مگر انفرادی سطح پر ہیں ، وبا کی شکل میں نہیں ہیں معاشرے کو مجموعی طور پر خطرہ نہیں ہے اور ہمارے ہاں شریعت بھی تو نافذ ہے لوگوں کے حقوق ہیں لہذا وہ اگر رضا کارانہ طور پر اعلاج کروالیں تو انکی مرضی ، مگر حکومت انکو مجبور نہیں کرسکتی ، حاجی صاحب نے اپنے اور کوڑھی محلہ میں ہونے والے فرق کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کی .

    مگر ابو کوڑھی محلہ بھی تو ہمارے ہی شہر کا حصہ ہے تو وہاں کے لوگوں کے حقوق کیوں نہیں ہیں ؟ اکرم نے پوچھا

    او یار ایک تو اسطرح کے سوال ہمارے یہاں کویی نہیں پوچھتا تو نے اور دماغ خراب کردیا ہے تجھے تعلیم اس لئے تو نہیں دلوائی کے تو سوال پر سوال کرے . حاجی صاحب کو غصہ آنا شروع ہو گیا تھا

    (جاری ہے)

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
Viewing 1 post (of 1 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi