گوجرہ میں عیسائیوں کی بستی کو جلایا گیا تو چاروں طرف ایک ہجوم تھا شام تک مجمع چھٹا تو گھروں سے جلی ہوی لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، آج بھی وہ لاشیں دیکھ کر دل جلتا ہے کیونکہ واقعے میں نامزد مجرموں کو پکڑ کر چھوڑ دیا گیا، ظاہر ہے وہ لشکر جھنگوی کے بدمعاش تھے جو انہی کے ایک متحرک رکن کی فون کال پر دوپہر تک پنہچ گئے تھے،اس وقت تک کوی بندہ زخمی بھی نہیں ہوا تھا پولیس نے مجمع کو کنٹرول کرنے کیلئے مزید کمک طلب کرلی تھی جو پنہچ چکی تھی لیکن لشکر جھنگوی کے سات یا آٹھ تربیت یافتہ بدمعاشوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پانسہ پلٹ دیا چرچ جلادئیے گئے گھروں کو فائرنگ کی زد پر رکھ کر آگ لگاتے گئے اور بھاگنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور پولیس دیکھتی رہ گئی
پھر کوٹ رادھا کشن میں عیسای میاں بیوٰی توہین قرآن کے الزام میں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی ادھ مری لاشوں کو ٹریکٹر کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا گیا اس موقع پر ان کے بچے بھی موجود تھے رور ہے تھے یا سکتہ میں تھے بس اتنا سمجھ لیں کہ ظلم کی انتہا دیکھ کر ان کا رونا بھی تھم گیا تھا، نتیجہ وہی نکلا کہ وزیراعلی شہباز شریف کی بڑھکوں کے باوجود آج تک کسی مجرم کو پھانسی نہیں مل سکی۔
مشال حسین کے واقعہ نے تو جیسے بدنوں سے لہو نچوڑ لیا کسی نامعلوم توہین دینی کے الزام میں جو عدالت میں بھی ثابت نہ ہوسکا اسے مارا گیا، بہت سوہنا جوان اور انرجی سے بھرپور جسم تھا مار کھاتا رہا اوپری فلور سے گولی مار کر اسے نیچے پھینک دیا گیا مگر وہ زندہ رہا اور ہسپتال پنہچانے کا کہہ رہا تھا پھر درندوں نے اسے ڈنڈوں سے مارا اور جب تک سانس آتی رہی مارتے رہے اس کے بعد لاش کو بھی مارتے رہے، پچاس کے قریب ویڈیو میں ریکارڈ شیطان صفت درندے اس کی مردہ باڈی پر جمپ کرتے رہے مگر نتجہ کیا نکلا، پانچ چھ لوگوں کو سزا ہوی اور ایک کو موت کی سزا دی گئی، یہ سزائیں بھی کینسل کردی گئیں کیونکہ سول عدالت کا جج شائد اسی قسم کے سلوک کو مستحق سمجھتا تھا، میں اگرجج ہوتا تو مردہ لاش کی بے حرمتی کرنے والوں کو بھی پھانسی کی سزا دیتا کیونکہ ایسا وحشیانہ سلوک اسلام کے نام پر کیا جارہا تھا اور اسلام کو بدنام کرنے کی سزا اگر مشال حسین کو دے رہے تھے تو خود بھی اسی سزا کے مستحق تھے
گوجرانوالہ میں ایک ویڈیو کلپ جو یوٹیوب پر آج بھی موجو دہے کی وجہ سے تنازعہ ہوا اور احمدیوں کے انیس گھروں کو گھیر کر بندوں سمیت جلانا شروع کردیا دوکانوں کو لوٹ لیا گیا اور شام تک سو سال سے آباد احمدیوں میں سے ایک بھی اس جگہ پر موجود نہیں تھا بس جلے ہوے گھر ، دوکانیں اور چار عدد بچوں کی لاشیں تھیں باقی لوگ فرزندان اسلام نے بھگا دئیے، کسی کو سزا نہیں ملی بلکہ مدرسہ پہلے سے بھی زیادہ پررونق ہے
کل پھر ہجوم نے جمع ہوکر ہزارہ ٹاون میں تین نوجوانوں کو پکڑ کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک کو موقع پر ہی ہلاک کردیا، الزام جو بھی دھر دیں لیکن ہجوم کا فیصلہ ہمیشہ کسی دردناک نہ بھولنے والے واقعہ کو جنم دیتا ہے، یہی ہزارہ ٹاون کے شیعہ حضرات کو جب مارا جاتا تھا تو ہم ان کی حمایت میں سیاست پی کے پر خوب لکھتے تھے مگر آج انہوں نے وہی کام خود بھی کرکے یہ ثابت کیا کہ یہاں کو مظلوم نہیں ، سب کے سب ظالم ہیں بس چانس لگنے کی دیر ہے سب ایک جیسے ہیں
عاطف بھای سے درخواست ہے کہ ہوسکے تو تازہ صورتحال پوسٹ کریں
نسلی بنیاد پر میں ان ہزاروں کی نسل کشی پر ہمیشہ آواز آٹھاتا رہا ہوں لیکن ہمیشہ میں نے یہی لکھا کہ یہ ایک وحشی قوم ہے اور اگر سپاہ صحابہ والے وحشی مردود ان ہزاروں کی نسل کشی نہ کرتے تو یہ ہمارے لئے دوسرے داعش ثابت ہوتے۔ نوے کی دہائی میں ان ہزارہ لڑکوں کے غول کے غول شہر میں گشت کیا کرتے اور اکیلے سُنی لڑکوں سے بلاوجہ جھگڑے کرتے پھرتے اور انہیں خنجر ضرور مارتے۔ اس نسل پر ان سے بڑے وحشیوں یعنی رفیق مینگل وغیرہ کا عذاب اترا جس نے ان کی نسل کا ہی کوئٹہ سے صفایا کردیا۔ اب یہ کوئیٹ کے نواحی علاقے کے پہاڑ کے دامن میں اپنی کمیونٹی الگ کرکے رہائش رکھے ہوئے ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ کوئٹہ شہر کے اندر آئے۔
کل کے واقعے کے بعد پشتون قبائل میں انتہائی شدید غم و غصہ ہے اور آج شام تمام قبائلی مشر یعنی معززین اور بڑے لوگوں نے یہ متفقہ فیصلہ دیا ہے کہ آئیندہ ہزارہ افراد کے بلوچستان میں کسی بھی تفریحی مقام پر جانے یا پھر ہوٹل ریسٹورنٹ وغیرہ پر جانے پر پابندی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ لین دین کرنے والے کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا جو ہزارہ قبیلے کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
عجیب روح فرسا اور وحشتناک واقعہ ہے۔ جس پٹھان نوجوان کو قتل کیا گیا ہے وہ وہاں ہزارہ ٹاون میں ایک ہزارے سے اپنی بیچی ہوئی گاڑی کے پیسے لینے گیا تھا کیونکہ دس دن بعد اس کی شادی تھی۔ جس نے پیسے دینے تھے وہ ایک حجام تھا اور اس کا نام جواد تھا۔ جواد نے بلال اور اس کے دو دوستوں کو حمام میں بٹھایا اور پھر اپنے چند دوستوں کی مدد سے ان لوگوں کو زبردستی محبوس رکھا اور موبائل چھین لئے۔ ان موبائلوں سے راہ چلتی پردہ دار خواتین کی ایک ویڈیو بنائی گئی اور پھر مشہور کردیا گیا کہ یہ لوگ ہمارے علاقے میں راہ چلتی لڑکیوں کی تصاویر بنا رہے تھے۔ اس کے بعد تقریبا” چار سو لوگوں نے مل کر ان تینوں پر وحشیانہ تشدد کیا۔ بلال کو جان سے مارنے کے بعد اس کی آنکھیں خنجر سے نکالی گئی اور لاش کو آگ لگائی گئی۔ کچھ لوگوں کے بیچ میں پڑنے کی وجہ سے لاش جلائی نہ جاسکی تو اس کے کپڑے پھاڑ کر اسے بیچ روڈ پر پھینک دیا گیا جہاں یہ افراد اس کی لاش پر کودتے رہے۔ بلال کے ساتھ جو دو پٹھان لڑکے اور تھے ان پر اتنا زیادہ تشدد کیا گیا ہے کہ ان کی صورتیں پہچاننے کے قابل نہیں، ساتھ میں جگہ جگہ خنجر سے زخم لگائے گئے ہیں اور دونوں ایک دن سیریس کنڈیشن میں رہنے کے بعد آج شام کو خطرے سے باہر آئے ہیں۔ نسلی بنیاد پر میں ان ہزاروں کی نسل کشی پر ہمیشہ آواز آٹھاتا رہا ہوں لیکن ہمیشہ میں نے یہی لکھا کہ یہ ایک وحشی قوم ہے اور اگر سپاہ صحابہ والے وحشی مردود ان ہزاروں کی نسل کشی نہ کرتے تو یہ ہمارے لئے دوسرے داعش ثابت ہوتے۔ نوے کی دہائی میں ان ہزارہ لڑکوں کے غول کے غول شہر میں گشت کیا کرتے اور اکیلے سُنی لڑکوں سے بلاوجہ جھگڑے کرتے پھرتے اور انہیں خنجر ضرور مارتے۔ اس نسل پر ان سے بڑے وحشیوں یعنی رفیق مینگل وغیرہ کا عذاب اترا جس نے ان کی نسل کا ہی کوئٹہ سے صفایا کردیا۔ اب یہ کوئیٹ کے نواحی علاقے کے پہاڑ کے دامن میں اپنی کمیونٹی الگ کرکے رہائش رکھے ہوئے ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ کوئٹہ شہر کے اندر آئے۔ کل کے واقعے کے بعد پشتون قبائل میں انتہائی شدید غم و غصہ ہے اور آج شام تمام قبائلی مشر یعنی معززین اور بڑے لوگوں نے یہ متفقہ فیصلہ دیا ہے کہ آئیندہ ہزارہ افراد کے بلوچستان میں کسی بھی تفریحی مقام پر جانے یا پھر ہوٹل ریسٹورنٹ وغیرہ پر جانے پر پابندی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ لین دین کرنے والے کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا جو ہزارہ قبیلے کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ہماری ساری قوم ایک ہجوم ہے اور یہاں پر قانون کی عملداری اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ مجرموں کو سخت ترین سزائیں نہیں دی جاتیں، سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو جسطرح پورے گاوں نے جسطرح بہمانہ تشدد سے مارا ان کی ہڈیاں توڑیں اور پکی سڑک پر سر سے اوپر اٹھا کر پٹختے رہے
یوحنا آباد میں عیسای جو سب سے مظلوم کمیونٹی کہلاتی ہے جب ان کے ہاتھ مسلمان لگے تو انہوں نے جو سلوک کیا وہ شائد کسی نے بھی نہ کیا ہو، غرض یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، ان سب کمیونٹیز کے لیڈر جو ایسے مواقع پر اشتعال انگیز تقاریر کرکے نوجوانوں کو انتقام پر اکساتے ہیں انہیں پھانسیاں دی جائیں تو شائد حالات نارمل ہوجائیں
ب انصاف کا تقاضا ہے کہ اس حجام اور ان ساتھیوں کو نمونہ عبرت بنا دیا جاے تاکہ باقی لوگ عبرت پکڑیں
میں کل بھی سوچ رہا تھا کہ پشتون نوجوان اتنے بے وقوف تو نہیں ہونگے کہ ہزارہ ٹاون میں جاکر ان کی لڑکیوں کی ویڈیوز بناتے رہے اور پھر وہیں بیٹھ رہے کہ آو اور ہمیں مارو اور نہ ہی وہ اتنی دور بال کٹوانے گئے ہونگے
ا وئے ظا لموں ۔۔۔ منا فقو ۔۔۔۔۔۔ کبھی ۔۔۔ دھشت گردی ۔۔۔ نسل پرستی ۔۔۔۔ کی اصل ۔۔۔۔ ما ں جی ۔۔۔۔۔۔ پاک فوج ۔۔۔ خفیہ ایجنسی ۔۔۔۔۔ پربھی ۔۔۔۔۔ کوئی کلمہ پڑھ دیا کرو ۔۔۔۔۔۔
یا ساری عمر ۔۔۔۔۔ حجا موں ۔۔۔۔۔ کو ہی گا لیاں د یتے رھو گے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔