Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 51 total)
  • Author
    Posts
  • Qarar
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    قرار نامہ

    6/15/2018

    ایک دو دن پہلے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج …جناب کیف جسٹس کو …اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود …حمزہ شہباز اور عائشہ احد کے خانگی معاملات نمٹاتے سنا تو خیال ماضی کی طرف چلا گیا ….چیف جسٹس افتخار چوہدری کے زمانے کی حد درجہ فعال عدلیہ پاکستان میں ایک نیا اور انوکھا رجحان تھی ….افتخار چوہدری سے پہلے کی عدلیہ کو حکومت کا ایک ماتحت ادارہ سمجھا جاتا تھا …اور ریاست کے تین بڑے ستونوں یعنی …مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کا موازنہ کرتے ھوئے یہ بات کہی جاسکتی تھی کہ عدلیہ انتہائی نچلے مقام پر تھی …لیکن حالات نے ایک ایسی کروٹ بدلی کہ وکلاء تحریک کے نتیجے میں عدالت اور جج حضرات کے حکومت کے پنجے سے آزاد ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے لیکن… اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

    چیف جسٹس افتخار چوہدری پر شاید کچھ پریشر تھا کہ اس نے عوام میں یہ ثابت کرنا تھا کہ قوم نے اس پر جو اعتماد کیا تھا …وہ اس پر پورا اتر سکتا تھا …ایک مشہور قول ہے کہ

    With great power comes great responsibility!

    لیکن افسوس کہ جسٹس افتخار کی متحرک عدلیہ نے نہ تو عوام کو کچھ دیا اور نہ ہی عدلیہ کو ….لیکن “جوڈیشل ایکٹیوزم” کی جو ٹیڑھی بنیاد کچھ سال پہلے رکھی گئی …اس سے ایک عمارت وجود میں آچکی ہے مگر یہ عمارت بھی ٹیڑھی ہے

    موجودہ چیف جسٹس …ثاقب نثار کے دور پر نظر ڈالی جاۓ تو سوائے جمہوریت کو کمزور کرنے …اداروں کی بنیادیں ہلانے یر …قانون شکنی کرنے …آئین اور قانون کی آئین سے ماورا تشریحات کرنے ..اور عدالت عظمیٰ کی جگ ہنسائی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوا ..مجھے پنجابی کا ایک محاورہ یاد آرہا ہے

    باندر ہتھ کٹورا لگیا …پانی پی پی آپھریا

    یہاں ارتقاء اور اس کی رفتار کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے …پاکستان میں آج اچانک سیکولرزم نافذ کردیا جاۓ تو اس کا ناکام ہونا یقینی ہے …کیونکہ حد درجہ مذہبی عوام اسے قبول نہیں کریں گے …اسی طرح ایک غریب کو اچانک کروڑوں کی جائداد مل جاۓ تو شاید اس سے سنبھالی نہ جاۓ ….اسی طرح عدلیہ کو بھی آزادی بتدریج نہیں ملی بلکہ حادثاتی طور پر ملی ہے …اور بہت سے ججوں سے آزادی سنبھالی نہیں جارہی ….ملک کا گلا سڑا عدالتی نظام …جس میں نچلے درجے میں انتہا درجے کی کرپشن ہے …جہاں زمینوں کے مقدمات کے فیصلے نسلوں مکمل نہیں ہوتے …جہاں قتل اور دیگر جرائم کے مقدمات برسوں نہیں بلکہ عشروں جاری رہتے ہیں ..اور سب سے بڑھ کر …جہاں انصاف کا قتل کیا جارہا ہے …وہاں چیف جسٹس کے لیے عدالتی اصلاحات ضروری نہیں… بلکہ چیف جسٹس کا زیادہ وقت …مختلف شہروں میں پینے کے پانی کا معائنہ کرنے …کراچی اور لاہور میں صفائی کا معیار دیکھنے ……دودھ میں پانی کی مقدار چیک کرنے …میڈیکل کالجز میں ایڈمیشن پالیسیز مسترد کرنے ….موبائل فون کے چارجز ختم کرنے ….شادی اور طلاق کے معاملات اپنے چیمبر میں نمٹانے …اور ایک عوامی لیڈر جیسی سیاسی تقریریں کرنے میں صرف ہو رہا ہے

    بلاول بھٹو نے موجودہ چیف جسٹس کے بارے میں ایک دلچسپ ٹویٹ کیا تھا کہ …..چیف صاحب اچھا ہر کام بہت اچھا کر رہے ہیں سوائے اپنے کام کے

    یہ عوام اپنے ٹیکس کی کمائی سے چیف جسٹس کو تنخواہ اس لیے نہیں دیتی کہ وہ پانی اور دودھ کا معیار چیک کرے… بلکہ اسے اس لیے نامزد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرے …..ترقیاتی کاموں.. عوام کی حالت بہتر بنانے ..امن و امان اور نوکریاں دینے کے لیے عوام نے دوسرے ادارے بنا رکھے ہیں یا افراد کو منتخب کر رکھا ہے …اور ان حکمرانوں سے باز پرس کا بھی ایک طریقہ موجود ہے …یہ ہر سیاستدان کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ ڈیلیور کرے ورنہ الیکشن ہار کر حکومت سے باہر ہوجاۓ گا …لیکن نامزد افسران …یا جج حضرات نے ایک مقررہ وقت پر ریٹائر ہونا ہوتا ہے . اور یہ عوام کو براہ راست جوابدہ بھی نہیں ہوتے ….کیا کوئی ادارہ یا عوام چیف جسٹس سے باز پرس کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب نہ میں ہے ….میں ذاتی طور پر کسی بھی شخص اور ادارے کے …اور خاص طور پر وہ افراد جو منتخب کردہ نہیں بلکہ نامزد کردہ ہیں …ان کے احتساب سے بالا ہونے پر یقین نہیں رکھتا ….چیف جسٹس …آرمی چیف ..اور چیئرمین نیب کچھ مثالیں ہیں جوکسی کو بھی اپنی کارکردگی پر جوابدہ نہیں

    جس طرح چیف جسٹس نے متحرک ہوکر پچھلی حکومت کو مفلوج کر رکھا تھا ….اور ہر حکومتی اقدام اور قانون سازی میں اپنی ٹانگ اڑا رکھی تھی …کیا اسی طریقے کو اپنا کر کوئی سیاستدان …یا وزیر عدلیہ کے کام میں داخل اندازی کرسکتے ہیں؟ اور کیا ان کو اس کی اجازت ہونی چاہیے؟ فرض کیا وزیر قانون اعلان کرتا ہے کہ فلاں فلاں زمین کے مقدمات کا فیصلہ پچلے چالیس سالوں سے نہیں ہوا …لہذا وہ وزیر خود اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیں گے …..یاکہ حکومت ان تمام ججز کو معطل کرنے کا حکم جاری کرے جنہوں نے دس سال پرانے مقدمات کا بار وقت فیصلہ نہیں کیا….کیا اس کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ اگرچہ کچھ لوگ یہ عذر تراش سکتے ہیں کہ کہ بلکل اجازت ہونی چاہیے …آخر عوامی مفاد میں ہی تو حکومت کام کر رہی ہے …چالیس چالیس سال پرانے مقدمات کا فیصلہ جلدی ہوجاۓ تو مضائقہ کیا ہے؟

    مضائقہ ہے اور بلکل ہے کیونکہ عوام نے اور آئین نے کسی وزیر کو جج کے اختیارات نہیں دیے …اور چاہے اس میں عوام کو وقتی ریلیف مل سکتا ہے مگر حکومت عدلیہ کا انتظام نہیں سنبھال سکتی
    مجھے تاسف ہوتا ہے جب بڑے بڑے اینکر حضرات یہ راۓ دیتے پائے گئے کہ آخر چیف جسٹس کون سا برا کام کر رہے ہیں …اگر عوام کو صاف پانی اور خالص دودھ مل جاۓ تو برائی کیا ہے …اگر حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی تو آخر کسی کو تو مداخلت کرنی پڑے گی

    مندرجہ بالا وہ راۓ ہے جوکہ پاکستان کا عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی رکھتا ہے …یعنی اگر حکومت ڈیلیور نہیں کر رہی تو پھر کوئی اور مداخلت کر سکتا ہے ….اسی لیے پاکستان میں جمہوریت کامیاب نہیں ہوئی …یہاں فوجی ہمیشہ سیاستدانوں کی نا اہلی کو جواز بنا کر شب خون مارتے رہے ہیں …اور عوام اسے خوش آمدید کہتے رہے ہیں …ان ناتواں اذہان کے نزدیک لوڈ شیڈنگ ختم کرنا یا ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرنا زیادہ ضروری ہے …لیکن یہ کون کرتا ہے اور کس طریقے سے کرتا ہے وہ اہم نہیں …اور یہی سوچ فساد کی جڑ ہے .فرض کیا آپ نے ایک اعلیٰ گاڑی خریدی …مگر آپ ڈرائیور کی کارکردگی سے ممکن نہیں …لیکن بجاۓ کہ ڈرائیور کو بدل کر ایک اور ڈرائیور کو رکھ لیں جس کا تجربہ اچھا ہے …اگر آپ گھر کے چوکیدار کو ڈرائیوری دے دیں کیونکہ وہ برا نیک اور پرہیز گار انسان ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

    یہی وجہ ہے کہ فوجی افسران جن کی ساری زندگی کی ٹریننگ جنگ کرنے اور دشمن کو قتل کرنے پر مشتمل ہوتی ہے وہ ملک کی خارجہ پالیسی نہیں چلا سکتے اور نہ کسی سے مذاکرات کرنے کے قابل ہیں …اور یہی وجہ ہے کہ جج حضرات جن کی ساری زندگی عدلیہ میں گزری ہے وہ بھی ڈیم بنوا کر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں کر سکتے ..جس کا کام اسی کو ساجھے …اور اگر کوئی اچھے کام نہیں کرتا تو پھر الیکشن میں اس جماعت کا بوریا بستر گول ہوجاتا ہے …چیف جسٹس اپنے کام یا کارکردگی پر کس کو جوابدہ ہے؟ کیا کسی نے افتخار چوہدری سے احتساب کیا کہ اس نے بلوچستان میں رکوڈک کے بین القوامی معاہدوں کو ہوا میں اڑا کر …جرمانے کی مد میں پاکستان کو کتنے بلین ڈالر کا ٹیکا لگوایا تھا؟ نہیں… کیونکہ چیف جسٹس کسی کو بھی جوابدہ نہیں

    مجھے یاد ہے کہ جب افتخار چوہدری ثاقب نثار کو لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں …آوٹ آف ٹرن …طریقے سے لا رہا تھا…اور پی پی حکومت ایسا نہیں چاہتی تھی تو کچھ صحافیوں نے سوال کیا کہ جج صاحب آپ کی کیا منشاء ہے؟ اس پر ثاقب نثار نے جواب دیا کہ “میں افتخار چوہدری کا سپاہی ہوں …وہ جو کہیں گے میں کروں گا” ….اور اب بھی وکلاء کے ساتھ اکثر تقاریر میں ثاقب نثار کو یہی بار دہراتے دیکھا ہے کہ مجھے کسی سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ..میں تو سپہ سالار ہوں ..جج میرے جرنیل ہیں اور وکلاء میرے سپاہی

    چیف جسٹس کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ سپریم کورٹ کے دوسرے جج تمھارے جرنیل نہیں بلکہ سب جج بشمول چیف جسٹس برابر ہیں اور سب کا ایک ہی ووٹ ہے ..البتہ چیف جسٹس کو کچھ اضافی انتظامی اختیارات حاصل ہیں ..مگر دوسرے جج چیف کے ماتحت ہرگز نہیں اور نہ ہی وکلاء چیف یا کسی اور جج کے سپاہی ہیں یا ماتحت ہیں…..جو چیف جسٹس …مثال میں بھی اپنے آپ کو فوجیوں سے یا جرنیلوں سے کسی طرح وابستہ کرتا ہے وہ انہی کی طرح عمل بھی کرتا ہے …یعنی ایک چیف کے نزدیک آئین کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ..چاہے وہ چیف جسٹس ہو یا آرمی چیف

    موجودہ چیف جسٹس نے توہین عدالت کو جس طرح بے دریغ ..انتقام لینے کے لیے استعمال کیا ہے وہ قابل مذمت ہونے کے ساتھ ساتھ کافی دلچسپ بھی ہے …یوں لگتا ہے یہ چیف جسٹس کا سارا وقت ٹی وی دیکھنے اور سوشل میڈیا کا مطالعہ کرنے میں صرف ہوتا ہے …جہاں اتنے بڑے مقدمات چیف کے منتظر ہیں وہاں نہال ہاشمی کی گنتی کے چند لوگوں کے ساتھ ویڈیو چیف کی توجہ کا مرکز بنتی ہے اور سپریم کورٹ میں باقاعدہ چلوائی بھی جاتی ہے ….چیف کو یہ بھی پتا ہے کہ کس طلال دانیال اور فیصل رضا عابدی نے کیا اور کب کہا …بس اگر نظر سے اوجھل ہے تو وہ ویڈیو جس میں ایک حاضر سروس جرنیل دھرنے کے شرکاء میں پیسے بانٹتا پایا گیا… یاکہ ایک اور ویڈیو جس میں ایک مولوی دھرنے کے دوران ججوں کی ماں بہن ایک کرتا نظر آیا ….توہین عدالت یہ نہیں کہ کہ معمولی بات پر کسی کو طلب کرلیا اور معافی منگوا لی مگر گالیاں دینے والوں اور اپنے سے بلند مقام رکھنے والوں کو نظر انداز کردیا ….اگر توہین کا قانون لگانا ہے تو سب پر لاگو کرو اور ان ساتھی ججز پر بھی جنہوں سیاستدانوں کو مافیا اور گینگسٹر ہونے کے القابات دیے تھے …انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے

    ہر معاشرہ تبدیلی چاہتا ہے لیکن بعض تبدیلیاں ناخوشگوار بھی ثابت ہوتی ہیں ….مثال کے طور پر موجودہ دور میں جس طرح آئی ایس آئی کھلم کھلا سرگرم عمل ہے .پہلے ایسا نہیں تھا …خواتین صحافیوں کو بھی بخشا نہیں جارہا …مخالفین کو اغوا کیا جارہا ہے …تشدد ہو رہا ہے اور قتل کیا جارہا ہے …اور کبھی بلوچستان میں ڈنکے کی چوٹ پر دھونس دھمکیوں سے حکومت کی تبدیلی لائی جارہی ہے …اس سے کبھی کبھار یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ کاش جنرل باجوہ کی جگہ جنرل کیانی ہی ہوتا …کم از کم یہ حرکتیں آئے دن تو نہیں ہوتی تھیں …اور کچھ پردہ داری بھی رکھی جاتی تھی

    کچھ ہفتے قبل امریکا میں اپنے ایک دوست سے گفتگو ہورہی تھی …وہ ایک مکمل ڈیموکریٹ ہے اور ریپبلکن پارٹی سے نفرت کی حد تک ناپسندیدگی رکھتا ہے …صدر ٹرمپ نے جس طرح امریکی معاشرے میں طبقاتی اور مذہبی خلیج کو بڑھاوا دیا ہے ..اور نسلی برتری کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کی ہے …اس نے اس جیسے کافی اور امریکیوں کو رنجیدہ کیا ہے …میرے دوست کا یہ کہنا تھا کہ وہ ڈیموکریٹ ہوتے ھوئے بھی آج سابق ریپبلکن صدر بش کو بہت مس کرتا ہے ….اگر سارے ریپبلکن بش جیسے ہی ہوتے تو کوئی مضائقہ نہ تھا ….ٹرمپ نے تو وائٹ ہاؤس کی عزت اور تکریم کا حلیہ بگاڑ دیا ہے …..لہٰذا ثاقب نثار کی حرکتوں کو دیکھتے ھوئے لگتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دردمند پاکستانی بھی یہ کہنا شروع کردیں کہ یار اس سے تو بہتر تھا کہ افتخار چوہدری ہی رہتا

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    بہت شکریہ قرار جی

    آپکے چول نامے نے عید کا لطف دوبالا کر دیا ہے

    :bigsmile:

    Qarar

    آپکا اپنا چاچو
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3
    بھتیجے قرار کورٹ میں کیا کرتے پھر رئے ہو

    آپکا اپنا چاچو
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #4
    بہت شکریہ قرار جی آپکے چول نامے نے عید کا لطف دوبالا کر دیا ہے :bigsmile: Qarar

    بھتیجے لڑائی منع ہے

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #5
    بہت اچھا تجزیہ ہے قرا ر بھائی – یہاں ایک بات اور ہے کہ اگر چیف جسٹس کسی کا ایجنڈا نہ چلا رہا ہو اور مخلص ہو تو پھر بھلے ذاتی تشیر کے لئے کر رہا ہو کیا وہ یہ سب کر سکتا ہے ؟ – میرا خیال ہے افتخار چودھری کا مہملہ کچھ ایسا ہی تھا مگر عوام اور قانون سمجھنے والوں نے اسے بھی پسند نہیں کیا – میں بھی اسی نتیجے پر پوھنچا ہوں کہ عدلیہ ایگزیکٹوز کے مہملات میں ٹانگ اڑانے کا حق نہیں رکھتی – یا کوئی عام چیف جسٹس ہو گا یا خاص جو اپنے ادارے میں بہت بہتری لاہے لیکن پتا نہیں ان لوگوں کو سستی شھرت کا شوق کیوں ہے کیا ان میں اپنے اداری کی خامیاں دور کرنی کی صلاحیت نہیں ؟

    Qarar

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #6
    بھتیجے لڑائی منع ہے

     چاچو جی اوپر والا ایکٹر مرفی چیف جسٹس ہے جو عدالت میں بہت اچھل رہا ہے نیچے والا بروس لی نواز شریف ہے جو کیہ رہا ہے مت کرو بہت ماروں گا –

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #7

    آج تک کسی بھی چیف جسٹس نے اپنے ادارے کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی، نچلے درجے کی عدالتوں میں عوام اتنی ذلیل ہوتی ہے، کھلے عام قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں، جج رشوتیں لے کر فیصلے دیتے ہیں، کیسز کو سالوں تک بلاوجہ گھسیٹا جاتا ہے، پولیس ہر کیس میں پیسے اور طاقت کا ساتھ دیتی ہے، کبھی کسی چیف جسٹس نے ان معاملات کو درست کرنے کا نہیں سوچا، ان کے لئے عوام میں مقبول ہونے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خبروں میں اِن رہا جائے، موبائل کارڈ پر پندرہ دن کے لئے پورے 100 روپے کا لوڈ دے دیا، عوام خوش۔۔۔ عوام بھی تو احمق ہے، بھلا یہ کوئی اشو ہے، اس سے عوام کو کتنا فائدہ ہوجائے گا؟ عوام کو نہ تو اپنے مسائل کا ادراک ہے اور نہ اصل مسائل کے حل کی طالب ہے، اگر ان کو ذرا سا بھی ادراک ہوتا آج ان کے حالات مختلف ہوتے، اس عوام کو تو کوئی بھی چند منٹ میں الو بنا کر زیرو سے ہیرو بن سکتا ہے، بہت بار ایسا ہوا بھی ہے۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8
    مجھے پورا یقین ہے اس گھٹیا شخص کو بچپن میں مشہور ہونے کا بہت شوق ہوگا مگر کیسے یہ اس کو سمجھ نہیں آرہا ہوگا والدین شاید ڈاکٹر یا انجنئیر بنانا چاہتے ہونگے مگر اس شوباز کے صرف شوبازی میں نمبر اچھے آتے ہونگے ایک دفع کسی بزرگ خاتون کو تنگ کیا ہوگا تو اسکی بد دعا لگ گئی ہوگی کہ پاکستان میں وکیل لگ گیا مگر اسکو عزت راز نہیں آی تو یہ چیپ جسٹس کی کرسی تک پہنچ گیا -اسکا اگلا فیز وہ بد ترین ذلت کا ہے جو شاید ہی کسی اور جج کو نصیب ہوا ہے
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    Qarar

    قرار جی

    آپکی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سول حکمرانوں اور سول بیروکریسی کی طرح فوجیوں، ججز، نیب چیرمین اور ممبران الیکشن کمیشن کا بھی احتساب ہونا چاہئیے. کسی کو بھی مقدس گائے بنا کر انصاف سے بالاتر قرار نہیں دینا چاہیے حتی کے صدر مملکت کا استثنیٰ بھی ختم کرنا چاہیے تاکہ اعلی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کا کردار عوام کے سامنے ہو

    آپ جسے عدلیہ کی آزادی قرار دے رہے ہیں میرے نزدیک وہ صرف عدلیہ کی بحالی ہے. ہر کوئی جانتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی دراصل عدلیہ کی بحالی ہے اور بحالی بھی وہ جو فوج کی طرف سے خیرات میں ملی ہے. اگر فوج کی مدد نہ شامل ہوتی تو عدلیہ کی وہ شکل نہ ہوتی جو آج دکھائی دے رہی ہے. عدلیہ نہ کبھی آزاد تھی اور نہ ہی اب بھی آزاد ہے. عدلیہ ہمیشہ فوج کی غلام تھی اور آج بھی ہے. آج بھی عدلیہ پر آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے ججز کی نہیں بلکہ پی سی او ججز کی حکمرانی ہے. آج بھی عدلیہ اپنے تمام سیاسی فیصلے آئین و قانون کے مطابق نہیں بلکہ فوج کے اشارے اور حکم پر کرتی ہے. عدلیہ ہمیشہ وہی کرتی ہے جو فوج اسے کرنے کو کہتی ہے

    ہماری عدلیہ کی آزادی میں فوج ہمیشہ سے رکاوٹ رہی ہے اور عدلیہ کو اپنی لونڈی سمجھتی ہے. عدلیہ نے بھی کبھی خود کو فوج سے آزاد کروانے کی کوشش نہیں کی ہے اور ہمیشہ فوج کی لونڈی بن کر رہنے کو ترجیع دی ہے. بعض ججز نے انفرادی طور فوج کا غیر آئینی حکم ماننے سے گریز کیا ہے اور اسکی پاداش میں انہیں اپنی نوکریوں کی قربانی دینا پڑی ہے لیکن اجتماعی طور پر عدلیہ نے فوج کی غلامی کو صدق دل سے قبول کیا ہے

    اس عدلیہ نے اپنی بحالی سے اب تک کوئی ایک بھی فیصلہ ایسا نہیں دیا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ عدلیہ اپنی آزادی کی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے. عدلیہ کی موجودہ آزادی عام لوگوں یا سیاستدانوں تک محدود ہے. عدلیہ کی آزادی اب بھی وہاں جا کر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے فوجیوں کے بوٹ شروع ہوتے ہیں. فوجیوں کی یونیفارم اور ٹوپی تو بہت دور کی بات ہے. اگر کسی کو یقین نہیں آ رہا تو مجھے ایک بھی ایسا فیصلہ بتا دیں جہاں عدلیہ فوجیوں کے بوٹوں سے آگے بڑھی ہو. عدلیہ کو مکمل آزادی اسوقت حاصل ہوگی جب عدلیہ کے ہاتھ سویلینز کے ساتھ ساتھ فوجیوں کے گریبانوں تک پہنچیں گے کیونکہ اب تک عدلیہ کی آزادی وہاں جا کر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے فوجیوں کے بوٹ شروع ہوتے ہیں. عدلیہ کو اسی وقت آزاد و خود مختار سمجھا جائے گا جب اسکا دست انصاف فوجیوں کے گریباں تک بھی پہنچے گا ورنہ عدلیہ کی آزادی محدود محدود اور فوجیوں کے زیر کنٹرول ہی سمجھی جائے گی بیشک عدلیہ اپنی آزادی اور غیر جانبداری کا جتنا مرضی قسمیں اٹھا اٹھا کر یقین دلانے کی کوشش کرے

    عدلیہ کو آزادی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے. عدلیہ کو آزادی کی منزل کی طرف بڑھنے کے لیے اہم جرات مندانہ فیصلے کرنے ہونگے بیشک ان فصلوں سے ججوں ی کی نوکریاں ہی کیوں خطرے میں پڑ جائیں. عدلیہ کو فوجیوں کے ڈنڈے کے ڈر سے فیصلے کرنے کی بجائے فوج کو “نو مور” کا واضح پیغام دینا چاہیے اور سویلینز کے ساتھ ساتھ فوجیوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے. عدلیہ کو جرات اور حوصلہ سے کام لینا پڑے گا اور ججز کو ذہن میں رکھنا پڑے گا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے

    عدلیہ کے لیے مکمل آزادی کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے. عدلیہ کو تب ہی آزاد سمجھا جائے گا جب عدلیہ بلا تفریق سب کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی اور اسکا دست انصاف بلا خوف آئین کی دھجیاں اڑانے والے فوجیوں، کرپٹ سیاستدانوں، بیوروکریٹس، کاروباری لوگوں، سرکاری افسران کے گریباں تک جائے گا. یہ کام اور آزادی کا یہ راستہ کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے. یہ منزل عدلیہ کو تب ملے گی جب عدلیہ نہ صرف خود آئیں پاکستان کے تابع ہوگی بلکہ معاشرے کے دوسرے طبقوں اور اداروں بشمول فوج کو پاکستانی آئین پر عمل کرنے پر مجبوراور فوج کی دیگر اداروں پر روایتی اجارہ داری ختم کر دے گی

    جہاں عدلیہ کا اپنے ادارے کے اندر احتساب کا انتہائی ناقص نظام ہمارے عدل و انصاف کا منہ چڑاتا ہے وہیں عدلیہ کے اندر چیف جسٹس کے عہدے کی مدت کا تعین نہ ہونا بھی اس ادارے پر ایک سیاہ دھبہ ہے. پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی جج کا نہ تو احتساب ہوا ہے اور نہ ہی کرپشن اور بد عنوانی پر آج تک کسی جج کو کوئی سزا ہوئی ہے. حتی کہ آئین توڑنے والے فوجی حکمرانوں کو سند حکمرانی عطا کرنے والے ججز کے خلاف بھی کبھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے بلکہ سزا انہیں دی گئی ہے جنہوں نے فوجیوں کے غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دینے سے انکار کیا ہے. جب انصاف کرنے والا ادارہ خود اندر سے اتنا کھوکھلا ہو تو وہ کس منہ سے دوسروں سے انصاف کرے گا؟ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت کا مقرر نہ ہونا بھی اس ادارے کی جگ ہنسائی کا سبب ہے. عجیب ادارہ ہے کہ کوئی جج چند ماہ کیلیے چیف جسٹس بنتا ہے تو کوئی سالہا سال اس عہدے سے چمٹا رہتا ہے. کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت مقرر نہ ہونے کی کوئی منطق ہے؟

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10
    گھوسٹ بھائی – ڈاکٹر یا انجنئیر تو ہر والدین کا خواب ہوتا ہے پر جو نکمے رہ جاتے ہیں وہ ایل ایل بی کر لیتے ہیں اور پھر جو بڑا ایل ہو وہ پوری قوم کو اپنے ایل پر کر لیتا ہے

    مجھے پورا یقین ہے اس گھٹیا شخص کو بچپن میں مشہور ہونے کا بہت شوق ہوگا مگر کیسے یہ اس کو سمجھ نہیں آرہا ہوگا والدین شاید ڈاکٹر یا انجنئیر بنانا چاہتے ہونگے مگر اس شوباز کے صرف شوبازی میں نمبر اچھے آتے ہونگے ایک دفع کسی بزرگ خاتون کو تنگ کیا ہوگا تو اسکی بد دعا لگ گئی ہوگی کہ پاکستان میں وکیل لگ گیا مگر اسکو عزت راز نہیں آی تو یہ چیپ جسٹس کی کرسی تک پہنچ گیا -اسکا اگلا فیز وہ بد ترین ذلت کا ہے جو شاید ہی کسی اور جج کو نصیب ہوا ہے
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11
    گھوسٹ بھائی – ڈاکٹر یا انجنئیر تو ہر والدین کا خواب ہوتا ہے پر جو نکمے رہ جاتے ہیں وہ ایل ایل بی کر لیتے ہیں اور پھر جو بڑا ایل ہو وہ پوری قوم کو اپنے ایل پر کر لیتا ہے

    شامی بھائی

    چ جسٹس کو تو ایل سے بہت الرجی ہے

    نہال، طلال، دانیال کی طرح جس بھی شخص کے نام میں ایل دیکھتا ہے، اسے توہین عدالت کا مرتکب قرار دے دیتا ہے

    :hilar: :hilar:   :hilar:

    آپکا اپنا چاچو
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #12
    چاچو جی اوپر والا ایکٹر مرفی چیف جسٹس ہے جو عدالت میں بہت اچھل رہا ہے نیچے والا بروس لی نواز شریف ہے جو کیہ رہا ہے مت کرو بہت ماروں گا –

    بھتیجے اعوان ۔ چیف جی یہ ہیں  وہ قرار ہے

    Shirazi
    Participant
    Offline
    • Professional
    #13
    Judges have no power a nominal authority they are enjoying this ride due to ever stressed civ-mil relations. Our opposition loves to do politics from the shoulders of GHQ and SC. When Politicians fixed President House and 58-2B GHQ replinished that lost ground with a new power center SC. Judges doesn’t try to fix Generals or vice versa. Generals, Judges and Opposition Politicians act as one team to erode executive authority. BB and NS this formula to get rid of Mushraaf, now GHQ has turned the table and these Judges are establishment’s biggest pawn only second to Sheikh Rasheed & co.
    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #14
    یہاں کون اپنا کام کرتا ہے

    جن کو حکومت کرنی چاہئے وہ تجارت کرتے ہیں

    جن کو تجارت کرنی چائے وہ صحافت کرتے ہیں .

    جن کو انصاف کرنا چائے وہ حکومت کرتے ہیں

    جن کو حفاظت کرنی چائے ، وہ سب کچھ کرتے ہیں

    Qarar

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #15
    Judges have no power a nominal authority they are enjoying this ride due to ever stressed civ-mil relations. Our opposition loves to do politics from the shoulders of GHQ and SC. When Politicians fixed President House and 58-2B GHQ replinished that lost ground with a new power center SC. Judges doesn’t try to fix Generals or vice versa. Generals, Judges and Opposition Politicians act as one team to erode executive authority. BB and NS this formula to get rid of Mushraaf, now GHQ has turned the table and these Judges are establishment’s biggest pawn only second to Sheikh Rasheed & co.

    Shirazi bhai if judges were given a power they would have not chosen this. Neutral persons in judiciary cannot praise this and in fact judges are getting themselves humiliated from Noon, anti-establish and neutral persons within and outside judiciary. These judges do not have courage to say no to save themselves getting humiliated. It is rather asking someone to eat 20 plates of biryani continually.

    Shirazi
    Participant
    Offline
    • Professional
    #16
    @awan Bhai

    What do you mean by neutral? Judges ain’t neutral, they have political leanings even in developed world. In Pakistan not just judges politicians, Beauracts, business men everyone is controlled by Army …

    رب نیڈے کہسن

    Awan
    Participant
    Offline
    • Professional
    #17
    @awan Bhai What do you mean by neutral? Judges ain’t neutral, they have political leanings even in developed world. In Pakistan not just judges politicians, Beauracts, business men everyone is controlled by Army … رب نیڈے کہسن

     No one is neutral not even judges. All lawyers are affiliated with one party or another and one of them become a judge. Almost all judges try to show themselves neutral or not unbiased towards any party. Saqib Nisar was not tilted to any party initially although there was news that he could go to PTI. After Nawaz disqualification and aggression against judiciary and military; he took a clear-cut position quite late. I do feel he was dragged by the military in this mess in addition to Nawaz’s hated comments to the judiciary. Judiciary is very clear now that they are pro-establishment and anti-Nawaz; Nawaz obviously is against both and more clear in his wording than before.

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19
    یہاں کون اپنا کام کرتا ہے جن کو حکومت کرنی چاہئے وہ تجارت کرتے ہیں جن کو تجارت کرنی چائے وہ صحافت کرتے ہیں . جن کو انصاف کرنا چائے وہ حکومت کرتے ہیں جن کو حفاظت کرنی چائے ، وہ سب کچھ کرتے ہیں Qarar

    عذر گناہ ۔۔۔۔ بد تر ۔۔۔ از ۔۔۔ گنا ہ ۔۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #19
    باوا جی – اس کو اپنے ایل سے نہی ہے ، باقی سب کے ایل سے اسے خارش ہوتی ہے

    شامی بھائی چ جسٹس کو تو ایل سے بہت الرجی ہے نہال، طلال، دانیال کی طرح جس بھی شخص کے نام میں ایل دیکھتا ہے، اسے توہین عدالت کا مرتکب قرار دے دیتا ہے :hilar: :hilar: :hilar:
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #20
    باوا جی – اس کو اپنے ایل سے نہی ہے ، باقی سب کے ایل سے اسے خارش ہوتی ہے

    یہ آپ لوگوں نے کیا ایل ایل لگا رکھا ہے پورا لکھا کریں کہ ایل سے لکڑی

    :lol: :lol:

Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 51 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi