اپوزیشن جماعتیں آج گوجرانوالہ میں اپنے پہلے جلسے کی کامیابی کے لیے پُرامید ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ آج کا یہ پاور شو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے سنگ بنیاد ثابت ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت 11 اپوزیشن جماعتوں کے حال ہی میں قائم ہونے والے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے گوجرانوالہ ریلی کو ’ایک بڑے پاور شو‘ میں تبدیل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور جلسہ گاہ کچھا کھچ بھرنے کی صورت میں وزیراطلاعات شبلی فراز سے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اپوزیشن کو چیلنج کیا تھا کہ وہ جناح پارک کو بھر کر دکھائے چونکہ حکومت نے تو عوامی اجتماع کی اجازت دے دی تھی۔
تاہم اس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید نے وفاقی وزیر سے کہا کہ ہمیں بتائیں کہ اگر جلسہ گاہ بھر گئی تو آپ فوری طور پر استعفیٰ دیں گے۔
خیال رہے کہ گوجرانوالہ مسلم لیگ (ن) کا ایک مضبوط گڑھ ہے لیکن پارٹی صرف اسی پر انحصار نہیں کر رہی بلکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پنجاب بھر میں اپنے ورکرز اور سپورٹرز کو متحرک کیا ہے اور انہیں ریلی کے مقام پر پہنچنے کا کہا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی بڑی تعداد میں اپنے چاہنے والوں کو لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
وہیں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری گزشتہ روز ہی گجرات میں لالا موسیٰ کے مقام پر قمر زمان کائرہ کی رہائش گاہ پہنچ گئے ہیں اور یہ متوقع ہے کہ وہ وہیں سے ریلی تک پیپلزپارٹی کے کارکنان کی قیادت کریں گے۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اعلان کیا کہ وہ لاہور جاتی امرا میں اپنی رہائش گاہ سے کارواں کی صورت میں نکلیں گے۔
مسلم لیگ (ن) لاہور چیپٹر کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کارکنوں اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد کو یقینی بنائیں۔
اگرچہ وہ دوپہر میں وہاں سے نکلیں گی تاہم پارٹی کی جانب سے یہ تصدیق نہیں کی گئی کہ آیا وہ شام میں جلسہ گاہ کے مقام پر پہنچیں گی۔
اس حوالے سے ایک پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’کسے معلوم کہ مریم نواز کے قافلے کو گوجرانوالہ پہنچنے میں کتنا وقت لگے‘۔
ادھر پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن فیروزپور روڈ لاہور پر واقع جامعہ اشرفیہ سے گوجرانوالہ کے لیے نکلیں گے تاہم جے یو آئی کی قیادت کی جانب سے حامیوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ براہ راست ریلی کے مقام پر پہنچیں۔
آج کے جلسے سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ جمعہ کا پاور شو غیرمعمولی ہو کیونکہ یہ پی ٹی آئی حکومت کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے تمام رہنماؤں کو یقین ہے کہ یہ ریلی حکومت کے خاتمے کے لیے ایک نئی رفتار سیٹ کرے گی۔
ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی کافی تعداد پہلے ہی گوجرانوالہ پہنچ چکی ہے جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے سڑکوں پر بڑی تعداد میں کنٹینرز رکھ دیے ہیں جو ارادے کو ظاہر کرتا ہے جو اپوزیشن کے ورکرز اور سپورٹرز کو زیادہ سے زیادہ روکنے کےلیے ہوسکتا ہے۔
تاہم اپوزیشن کو یقین ہے کہ بڑی تعداد میں گوجرانوالہ پہنچیں گے اور یہ رکاوٹیں انہیں ریلی کے مقام پر پہنچنے سے نہیں روک سکیں گی۔
دوسری جانب صوبائی دارالحکومت میں انتظامیہ نے اپوزیشن کی ریلی سے متعلق تمام بینرز اور پینافلیکس کو ہٹا دیا اس کے علاوہ گوجرانوالہ اور لاہور کی ضلعی انتظامیہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کےلیے پہلے ہی ہائی الرٹ ہے۔
تاہم اپوزیشن لیڈر کے مطابق انہوں نے انتظامیہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر پولیس نے جلسے کے مقام تک پہنچنے میں رکاوٹیں پیدا کیں تو کارکنان اور حمایتی لوگ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سہیل اشرف نے جناح پارک میں ریلی منعقد کرنے کے لیے پی ڈی ایم کو این او سی جاری کی تھی۔
انہوں نے تمام شرکار کو ہدایت کی تھی کہ وہ ماسک پہنیں اور سماجی فاصلہ اختیار کریں۔
اس حوالے سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ’منتظمین پر کسی کالعدم تنظیم کے اراکین کو جلسہ گاہ اور اسٹیج پر داخل کرنے پر پابندی ہے اور ان کی تقاریر کی بھی اجازت نہیں ہوگی، مزید یہ کہ ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر اور نعروں پر بھی پابندی ہوگی‘۔
اس سے قبل پنجاب پولیس پی ٹی ایم کے 400 سے زائد کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کرچکی ہے، جن میں زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے کارکنان ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے صوبے کے مختلف علاقوں میں کارنر میٹنگز کے دوران مبینہ طور پر کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی۔
علاوہ ازیں مریم نواز کا کہنا تھا کہ نواز شریف بھی اس جلسے سے خطاب کریں گے تاہم پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا نے پہلے ہی نواز شریف کی تقاریر کو نشر کرنے ان کے اشتہاری ملزم ہونے کی وجہ سے پابندی لگائی ہوئی ہے۔
گوجرانوالہ شہر کے اندر جلسہ گاہ کی طرف جانے والی سڑکوں کو پولیس اور انتظامیہ دھڑا دھڑ بند کر رہی ہے اور لوگوں میں مزید نفرت کو اُبھار رہی ہے اسی نفرت کے باعث عام لوگ واپس جانے کی بجائے پیدل چلتے ہوئے جلسہ گاہ پہنچ رہے ہیں ، عمران خان سے ایسی توقع بالکل نہ تھی #GujranwalaJalsa pic.twitter.com/pn8x9DkmJD
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) October 16, 2020
ابھی لاہور سے گوجرانوالہ جلسے کیلئے نکلا ہوں لیکن حکومت نے رنگ روڈ کو کنٹینرز لگا کر بند کر رکھا ہے۔ پہلے FIRs, بغاوت کے مقدمے، پھر گرفتاریاں، پھر بینرز پھاڑے گئے، پھر جلسے کی اجازت میں رکاوٹ اور اب کنٹینرز۔ کیا آج تک کوئی حکومت ایسے ہتھکنڈوں سے اپوزیشن کو دبانے میں کامیاب ہوئی؟ pic.twitter.com/y6bGUs4sBP
— Ameer Abbas (@ameerabbas84) October 16, 2020
کہنے کو تو پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن اِس جمہوریت میں ہر طرف خوف اور سازش کا ڈیرہ ہے۔ حکومت کو حکومت سے اور اپوزیشن کو اپوزیشن سے خوف ہے۔ صحافی بھی صحافی سے خوفزدہ ہے، اسی لئے آج کل اکثر سچ سرگوشیوں میں بولے جاتے ہیں لیکن جھوٹ بولنے کے لئے ہمارے کچھ دوست گلا پھاڑتے نظر آتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا اندر کی خبریں باہر لانے والوں کو بڑا صحافی سمجھا جاتا تھا۔
زیادہ پرانی بات نہیں، جب عمران خان اپوزیشن میں تھے اور کئی جلسوں میں اصرار کرکے ہمیں ساتھ لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ ہم اُن کے ساتھ اسلام آباد سے میانوالی جا رہے تھے، جہاں اُنہوں نے جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ گاڑی میں وسیم اکرم بھی تھے۔
وسیم اکرم نے مجھ سے پوچھا کہ میانوالی کے جلسے میں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوگی؟ میں نے جواب میں کہا کہ کل رات کو وزیراعلیٰ شہباز شریف سے پوچھا تھا کہ آپ میانوالی کا جلسہ روکیں گے تو نہیں، اُنہوں نے کہا میں پاگل ہوں کہ جلسہ روک کر عمران خان کو ہیرو بنائوں۔ یہ سُن کر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے عمران خان نے گردن گھما کر کہا کہ کسی کا باپ بھی میرا جلسہ نہیں روک سکتا، اِس ملک میں جمہوریت ہے، آمریت تو نہیں ہے۔
پھر اُنہوں نے گردن سیدھی کی اور بڑے معصومانہ انداز میں کہا کہ جب ہماری حکومت آئے گی تو ہم کبھی اپوزیشن کا جلسہ نہیں روکیں گے۔ خان صاحب کی یہ بات سُن کر وسیم اکرم کی باچھیں کھل گئیں اور اُنہوں نے میرے کان میں پوچھا …’’کیا خان صاحب واقعی وزیراعظم بن جائیں گے؟‘‘ میں نے جواب میں سوئنگ کے سلطان کے کان میں کہا کہ اگر محمد خان جونیجو پاکستان کا وزیراعظم بن سکتا ہے تو عمران خان بھی بن سکتا ہے۔ خان صاحب نے دوبارہ گردن گھمائی اور پوچھا …’’کیا کہا تم نے؟‘‘ اس سے پہلے کہ وسیم اکرم کچھ کہتا میں نے بات بدلنے کی کوشش کی لیکن وسیم اکرم نے بلند آواز میں اعلان کیا کہ میر صاحب نے مجھے بڑی اندر کی بات بتا دی ہے۔
ایک دفعہ خان صاحب نے فرمائش کی کہ تم پشاور کے جلسے میں میرے ساتھ چلو۔ میں نے مصروفیت کا بہانہ بنایا تو اُنہوں نے کہا راستے میں بڑی ضروری بات کرنی ہے۔ ہم بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر میں پشاور پہنچے۔ وہاں بہت بڑا جلسہ ہوا۔ واپسی پر موسم خراب ہو گیا تو ایئر پورٹ پر خان صاحب کے ساتھ لمبی گفتگو ہوئی جس میں وہ بڑے یقین سے کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف کو پاکستان کی خدمت کا موقع ملنے والا ہے۔
میں نے اُن کو یاد دلایا کہ آپ نے میانوالی جاتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری حکومت آئی تو ہم اپوزیشن کا جلسہ نہیں روکیں گے، وعدہ کریں کہ آپ وزیراعظم بن گئے تو انتقام کی سیاست نہیں کریں گے۔ خان صاحب نے کہا کہ میں انتقام نہیں لوں گا، میں احتساب کروں گا، نواز شریف اور زرداری سے لوٹی ہوئی دولت نکلوائوں گا اور پاکستان کے حالات بدل دوں گا۔ یہ سُن کر جہانگیر ترین نے بہت زور سے ان شاء اللہ کہا۔ میں خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد جہانگیر ترین نے مجھے پوچھا تم خاموش کیوں ہو گئے؟ میں نے جواب میں کہا کہ اگر پرویز مشرف جیسا مضبوط حکمران نواز شریف اور زرداری سے کوئی دولت نہیں نکلوا سکا تو آپ کیسے نکلوائیں گے؟
ترین صاحب خاموش رہے کیونکہ وہ تو خود مشرف دور کی کابینہ میں وزیر تھے۔ پھر خان صاحب کو اچانک کچھ یاد آیا اور کہنے لگے کہ گھبرائو نہیں اگر میں وزیراعظم بن گیا تو میڈیا کو مکمل آزادی ملے گی۔ میں تو یہ سُن کر خوش ہو گیا لیکن میری نظر جاوید ہاشمی پر پڑی جو ایک خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھ رہے تھے اور اُن کی آنکھوں میں صاف لکھا تھا کہ وہ عمران خان کے الفاظ پر یقین نہیں رکھتے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ تحریک انصاف چھوڑ گئے۔
یہ لمبی تمہید صرف یہ عرض کرنے کے لئے باندھی ہے کہ اِس ناچیز نے محترمہ بےنظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان سمیت کئی وزرائے اعظم کو اپوزیشن میں بھی قریب سے دیکھا ہے اور حکومت میں بھی لیکن جتنی تیزی سے عمران خان کی حکومت غیرمقبول ہوئی ہے، اُس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جیسی انتقامی کارروائیاں آج کی اپوزیشن کے ساتھ ہو رہی ہیں اُس کی بھی مثال نہیں ملتی اور جو کچھ میڈیا کے ساتھ اِس دور میں ہوا ہے وہ بھی بےمثال ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک اندر کی خبریں باہر لانے والے بڑے صحافی کہلاتے تھے، آج کے اکثر بڑے صحافی اندر کی خبریں چھپانے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ جو بھی اندر کی خبر باہر لاتا ہے، وہ غدار اور لفافہ کہلاتا ہے۔ وہ عمران خان جو ہمیں کہا کرتے تھے کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو کبھی اپوزیشن کا جلسہ نہیں روکیں گے، اُن کے دورِ حکومت میں اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام بنانے کے لئے پوری ریاستی مشینری متحرک ہے۔
ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ اپوزیشن کو جلسوں کی مکمل آزادی ہے، دوسری طرف گوجرانوالہ شہر کو کنٹینروں سے بھر دیا گیا ہے اور اپوزیشن کے بینر ہٹائے جا رہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے تک یہ تاثر تھا کہ مسلم لیگ ن میں دو گروپ ہیں۔ ایک گروپ کے قائد شہباز شریف ہیں اور دوسرے گروپ کی قائد مریم نواز ہیں لیکن عمران خان کی حکومت نے اِس تاثر کی نفی کر دی ہے۔ شہباز شریف اور اُن کے خاندان پر ایسا ایسا مقدمہ بنایا گیا کہ مریم نواز اپنے چچا کے حق میں چیخنے لگیں اور اب مریم نواز کی جاتی امرا میں رہائش گاہ کے باہر بھی کنٹینر کھڑے کر دیے گئے ہیں۔
عمران خان مانیں یا نہ مانیں لیکن وہ مریم نواز کے محسن بن چکے ہیں۔ اُنہوں نے مریم نواز کو ایک قد آور لیڈر بنا دیا ہے اور نون میں سے شین نکالنے کی سب کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے پہلے پہل یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ نواز شریف کی تقریر ٹی وی چینلز پر دکھانے کی اجازت دے کر بہت وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا، بعد میں نواز شریف پر پابندی لگا دی گئی۔ ایسی ہی پابندی گزشتہ سال آصف علی زرداری کے انٹرویو پر لگائی گئی تھی۔ نواز شریف کی تقاریر پر پابندی اور اپوزیشن کا راستہ کنٹینروں سے روکنے کی کوشش دراصل حکومت کی کمزوری کا اعتراف ہے۔
آنے والے دنوں میں حکومت کو کشمیری قیادت کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے بھارتی صحافی کرن تھاپڑ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارت نے ہمیں مذاکرات کا پیغام بھیجا ہے لیکن ہم کشمیریوں کو مذاکرات میں شامل کئے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔ جس دن معید یوسف نے یہ انٹرویو دیا اُسی شام مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی ایک سال کی نظر بندی کے بعد رہا ہو گئیں۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نجی محفلوں میں جو کچھ بتا رہے ہیں وہ سُن کر دل دہل جاتا ہے۔
معید یوسف کے آن دی ریکارڈ موقف اور راجہ فاروق حیدر کے آف دی ریکارڈ موقف میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور اگر راجہ صاحب بھی آن دی ریکارڈ آ گئے تو عمران خان کے لئے جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔ عمران خان کے لئے اصل خطرہ راجہ فاروق حیدر ہیں جو آج کل اپنے آپ کو آزاد کشمیر کا آخری وزیراعظم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر مجھے پاکستان کا مفاد عزیز نہ ہو تو عمران خان میری ایک پریس کانفرنس کی مار ہے۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا حکومت کے خلاف اعلان کردہ تحریک کا پہلا جلسہ گوجرانوالہ کے جناح اسٹیڈیم میں شروع ہو چکا ہے اور تقریباً تمام مرکزی رہنما ا سٹیج پر پہنچ چکے ہیں اور تقاریر کا آغاز ہو گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نواز کے تاحیات قائد محمد نواز شریف اس وقت جلسے سے خطاب کر رہے ہیں جہاں انھوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر حکومت ِ وقت کی تنقید کی اور اس کے علاوہ سوال اٹھایا کہ سویلین حکومتوں کو ان کی مدت مکمل کرنے کیوں نہیں دی جاتی۔
مقامی وقت کے مطابق رات سوا گیارہ بجے نواز شریف نے اپنی تقریر کا آغاز کیا جس میں انھوں نے ملک میں مہنگائی، ترقیاتی منصوبے، سول ملٹری تعلقات، انتخابات میں دھاندلی اور سیاستدانوں کو غدار کہلائے جانے جیسے مختلف موضوعات پر خطاب کیے۔
نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ تمام سیاستدانوں کو غدار کہلایا جاتا ہے اور شروع سے فوجی آمر سیاست دان جیسے فاطمہ جناح، باچا خان، شیخ مجیب الرحمان اور دیگر رہنماؤں کو غدار قرار دیتے ہیں۔
انھوں نے اپنی تقریر میں الزامات لگائے کہ پاکستان میں انتخابات میں مینڈیٹ کو چوری کیا گیا اور دھاندلی کی گئی۔
انھوں نے اپنی تقریر میں فوجی شعبہ تعلقات عامہ کے سابق سربراہ اور وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی برائے میڈیا لیفٹننٹ جنرل ریٹائیرڈ عاصم باجوہ کے خلاف حال میں لگنے والے الزامات کا بھی ذکر کیا۔
نواز شریف نے سیاستدانوں پر غداری کے الزامات لگائے جانے پر کہا کہ پاکستان میں محب وطن کہلائے جانے والے وہ ہیں جنھوں نے آئین کی خلاف ورزی کی اور ملک توڑا۔
اس سے قبل اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز کی مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد جلسہ گاہ پہنچے جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا قافلہ راستے میں ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے لالہ موسیٰ سے گوجرانوالہ کا سفر طے کیا جس سے کچھ ہی دیر قبل مریم نواز کا کاروان لاہور سے سات گھنٹے کے سفر کے بعد جناح اسٹیڈیم پہنچا تھا۔
دیگر جماعتوں کے اہم رہنما بشمول بلاول بھٹو، شاہد خاقان عباسی، محمود خان اچکزئی اور دیگر بھی اسٹیج پر موجود ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف ملک کی نو بڑی اور چھوٹی اپوزیشن جماعتوں نے اتحاد کیا ہے اور جناح اسٹیڈیم شرکا سے تقریباً مکمل طور پر بھرا ہوا ہے۔
اب تک جلسے سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال، خرم دستگیر، عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار، نیشنل پارٹی کے عبدل مالک بلوچ، پیپلز پارٹی کے سردار لطیف کھوسہ اور راجہ پرویز اشرف نے خطاب کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے کہا ہے کہ نواز شریف کی حکومت نے ملک سے دہشت گردی ختم کی ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں مہنگائی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو موجودہ حکومت سے نجات حاصل کرنا ضروری ہوگا۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیش نظر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے کو حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر کے ساتھ مشروط اجازت دی گئی ہے لیکن قانون توڑنے والوں کے خلاف کارروائی‘ کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔
جسلے میں مسلم لیگ ن کے علاوہ پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) بھی شامل ہوں گی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور ریلیاں گوجرانوالہ میں واقع اقبال اسٹیڈیم کی طرف رواں دواں ہیں۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل نے اس جلسے کو ’انڈین مفادات‘ کا حصہ بتاتے ہوئے سوال کیا ہے کہ ’آخر انڈیا اور ڈاکو موومنٹ کیوں ایک پیج پر ہیں؟
پی ڈی ایم کا جلسہ آج شام شروع ہو گا لیکن اس سے قبل اہم سیاسی رہنماؤں کے گھروں کے باہر کنٹینرز لگائے گئے ہیں جبکہ دیگر شہروں کو گوجرانوالہ سے ملانے والے راستوں پر بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔
جلسے سے قبل لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے مسلم لیگ ن کے ماڈل ٹاون سیکرٹریٹ اور شہباز شریف کی رہائش گاہ کے باہر کنٹینر لگا کر ان علاقوں کو سیل کر دیا ہے۔ جبکہ گوجرانوالہ میں لیگی رہنما اور سابق وزیر دفاع خرم دستگیر کے گھر کے باہر بھی کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں۔
جلسے کے لیے پنجاب کے دوسرے شہروں سے بھی مسلم لیگ نواز کے قافلے روانہ ہو رہے ہیں۔ لیگی رہنما خواجہ عمران نذیر کے مطابق لاہور سے ایم پی ایز جماعت کی نائب صدر مریم نواز کی ریلی کے ہمراہ روانہ ہوں گے۔
بی بی سی اُردو کے نامہ نگار عمر دراز ننگیانہ کے مطابق گوجرانوالہ میں 31 مقامات کو کنٹیرز لگا کر سیل کیا گیا ہے۔ لاہور میں رنگ روڈ کو بھی بلاک کیا گیا ہے جس سے موٹر وے تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے والد کی عدم موجودگی میں خود کو ان کا ’سپاہی‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ نواز شریف لندن سے اس جلسے میں خطاب کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت ’ہر ممکنہ حد تک لوگوں کو جلسہ گاہ پہنچنے سے روک رہی ہے۔۔۔ پورے پنجاب میں کنٹینرز لگا کر راستے بلاک کر دیے گئے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’تمام بینرز اور فلیکس پنجاب حکومت پہلے اتار چکی ہے
وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس کا کہنا ہے کہ ’غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والوں سے اداروں کا استحکام برداشت نہیں ہو رہا۔۔۔ جمہوری روایات سے نابلد افراد کے اکٹھ سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے۔ سیاسی بے روزگار اپنی روزی روٹی کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔
پاکستان کی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں نے پی ڈی ایم کے نام سے ایک حکومت مخالف اتحاد قائم کیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اس میں پیش پیش ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کو اس احتجاجی تحریک کا ایک اہم کردار تصور کیا جا رہا ہے۔
حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی حکومت مخالف آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے بعد تیار کردہ ایکشن پلان میں جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے ساتھ اسٹیبلیشمنٹ سے سیاست میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پی ڈی ایم نے اعلان کیا تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ کے جلسے سے ہو گا۔ 18 اکتوبر کو کراچی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے گا جبکہ 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں جلسہ منعقد ہو گا۔
باجوہ صاحب
جواب آپکو دینا ہوگا
—————
جواب بھی اب کوئی سیدھا فائر ہی ہوگا
سیاست کشتیاں جلاکر کی جاتی ہے
راستے کی چوکیوں سے لفٹ مانگ مانگ کر نہیں— Noor ul Huda Shah نورالھديٰ شاھ (@NoorulHudaShah) October 16, 2020
اگر زبیر صاحب سے معاملات طے ہو جاتے
پھر سوغات کا کون ذمہ دار ہوتا ؟
ظاہر ہے
دیوار سے لگایا ہے
تبھی سیدھی فائرنگ ہو رہی ہے
اپوزیشن کی امیدیں قائم رہتی تو
کام ویسے ہی چلتا رہتا
—————
باجوہ کو ایکسٹینشن مہنگی پڑتی لگتی ہے