Viewing 20 posts - 141 through 160 (of 259 total)
  • Author
    Posts
  • Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #141
    قرار صاحب۔۔۔۔۔ طاقت اور زمینی حقیقتوں کے تناظر میں یہ بہترین کالم پڑھیں۔۔۔۔۔ ایک خوش کن مثالیت پسندانہ سوچ رکھنا اور تلخ بنیادی زمینی حقیقتوں کے سایہ تلے پاور پولیٹکس کرنا، دو انتہائی، انتہائی مختلف جہاں ہیں۔۔۔۔۔ مثالیت پسندی کے سیارے میں رہتے ہوئے دُور پار کے طاقتی سیاست کے سیارے کی آب و ہوا کا اندازہ اتنی آرام سے نہیں لگایا جاسکتا۔۔۔۔۔ خواہشات ہمیشہ سے ہی لامحدود ہوتی ہیں لیکن زمینی حقیقتوں کے سامنے پنپنے کے امکانات ہمیشہ محدود ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فیض بھی یہ نہ کہتا کہ یوں نہ تھا، فقط مَیں نے چاہا تھا کہ یوں ہوجائے۔۔۔۔۔ Qarar

    بلیک شیپ صاحب …میں ان افراد میں سے نہیں تھا جو سمجھتے تھے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی …تاہم المیہ یہ ہے کہ کاریگری فوج کی ہے مگر بدنام سیاستدان ہوئے کہ بک گئے …میری راۓ میں اس قصے کا فائدہ بھی ہوا ہے کہ ریاست مدینہ کے دعوے دار پہچانے گئے …پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے انقلاب کے کیڑے اور انقلاب کے نعرے کو مارنا ضروری ہے

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #142
    مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔ پا کستان کے لوگ ابھی بھی ۔۔۔۔ سینٹ چیئر مین  ۔۔۔۔ الیکشن ۔۔۔۔۔ سپیکر ۔۔۔۔ الیکشن ۔۔۔۔ ضمنی الیکشن ۔۔۔۔ وغیرہ میں دلچسپی لیتے ہیں ۔۔۔۔

    گویا سچی مچی کے الیکشن ۔۔۔۔ اور سچی مچی ۔۔۔۔ کا سینیٹ چیئرمین ۔۔۔۔۔۔ بننے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

    میں تو کبھی نام بھی نہیں لیتا ۔۔۔۔ کونسی سینیٹ ۔۔۔۔ کو نسا چیئرمین ۔۔۔۔ کیسا الیکشن ۔۔۔۔۔۔

    آئی ایس آئی ۔۔۔۔ جس کو چاھے گی  سینیٹ کا چیئر مین ۔۔۔۔ کہلوادے گی ۔۔۔۔  بس اتنی سی بات ہے ۔۔۔ اور ۔۔۔

    ایک پھدو سا پینڈو ۔۔۔ سینیٹ کا چیئر  مین لگ جائے گا ۔۔۔ اس میں کیا  نئی بات ہے ۔۔۔ جو پہلے نہیں پتہ ہے  ۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    casanova
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #143
    ن لیگ نہ پہلے کبھی ٹینک کے سا منے لیٹی ہے نہ کبھی لیٹے گی ۔۔۔۔۔۔۔ التبہ تمہارا وزیراعظم ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ بڑے پچھواڑوں والے فوجی ۔۔۔۔۔۔ امریکہ کا کا میاب دورہ کرآئے ہیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کا میاب دورے کے بعد ۔۔۔۔ تازہ تازہ ۔۔۔۔۔ دس جوان تو پھڑک گئے ہیں ۔۔۔۔۔ تم اپنے پچھواڑوں کو ھا تھ رکھو ۔۔۔۔۔ تم لوگوں کی لترول اور چھترول کا وقت ہوا چا ھتا ہے ۔۔۔ ن لیگ تمہاری چھترول کا نظارہ ۔۔۔ گیلری میں بیٹھ کر کرنے والی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    مہاراج! آپ ہر وقت سائبر انگاروں پر “پڑوسنیاں” کیوں مارتے رہتے ہیں۔۔۔آپ کی ہر پوسٹ کے حواس پر پچھواڑے، چھترول، لترول، نظارے کا تشدد نظر آ رہا ہوتا ہے۔۔۔یوں گمان ہوتا ہے کہ آپ کے مسکراتے چہرے  کے نچلے اور پچھلے دھڑ پر “ڈارک ویب” کی وڈیو بنائی جا رہی ہو۔۔۔ آپ کب تک یوں اپنی چکی کو یکّی سٹیٹس پر لاگ ان رکھیں گے۔۔۔قانون کا دورازہ کھڑکائیے اور ساتھ ہی کسی معالج سے اپنا علاج کروائیے۔۔۔

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #144
    مہاراج! آپ ہر وقت سائبر انگاروں پر “پڑوسنیاں” کیوں مارتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔قانون کا دورازہ کھڑکائیے اور ساتھ ہی کسی معالج سے اپنا علاج کروائیے۔۔۔

    میں انگاروں پر پڑوسینا ں اس لیئے مارتا رھتا ہوں ۔۔۔۔ کہ ھر دوسرے دن ۔۔۔۔ پا نچ دس جوان ۔۔۔۔۔ شہید ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔

    جن کا خون ۔۔۔۔۔ پا ک فوج کی دفاعی سودے بازیوں اور آپ جیسے ۔۔۔۔۔ فوج پسند ۔۔۔۔ لڑاکا زھن ۔۔۔۔ طالبان کلچر ۔۔۔۔ عوام کے ھا تھوں پر ہے ۔۔۔

    مجھے قانون کا دروازہ کٹھکٹھا نے کی چندا ں ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔ قانون کے ادارے خود پھدووں سے بھرے ہیں ۔۔۔۔

    میں نے اپنا علاج کرتا رھتا ہوں ۔۔۔۔ روز صبح اٹھ کر ۔۔۔۔۔۔۔

    پرولتاری درویش
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #145
    پرولتاری دَرویش۔۔۔۔۔ اگر تو زُود حِسی ہے تو شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ اِن بے وقوفوں کی روز کی ایک ہی قوالی اب کچھ درجات بڑھ کر جُگالی بن چکی ہے۔۔۔۔۔ ;-) :cwl: ;-) پسِ تحریر۔۔۔۔۔ ویسے مَیں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ کیا یہ لوگ روزانہ ایک ہی جیسے بَین کر کر کے بور نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ مگر پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ بنی نوع انسان کے کچھ ذہین انسانوں نے روبوٹس بھی تو اِس لئے ایجاد کئے کہ بور کردینے والے کام اِن روبوٹس کے حوالے کردیے جائیں۔۔۔۔۔ لہٰذا مجھے اِن میں اور روبوٹس میں کوئی زیادہ فرق نہیں لگتا۔۔۔۔۔ آپ کوئی بھی نئی بات کرلیں لیکن یہ بنی نوع احمقان اتنے پریڈکٹبل ہیں کہ آپ کو پہلے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اِن کا لگا بندھا جواب کیا آئے گا۔۔۔۔۔ :cwl: :facepalm: :cwl:

    :lol: :lol: :lol: :lol:

    روبوٹ تو خیر نہیں کیونکہ وہ بے چارے تو جذبات سے تہی ہوتے ہیں لیکن اپنے یہ جگالی برادران تو ملکہء جذبات کے چھابے میں بھی ہاتھ مارتے نظر آتے ہیں

    بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے الفاظِ جُگالی سے اپنے ادارہ جاتی مخالفین کیلئے غصہ انتقام کینہ اور بے بسی کے ملے جلے احساسات اور اپنے ممدوح رہنما نما سیاسی ڈکیتوں اور وارداتیوں کیلئے عقیدت و محبت کے جذبات کس طرح قطار اندر قطار چھلک چھلک کر فورم کو سیلابی صورتحال سے دو چار کر رہے ہوتے ہیں

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    پرولتاری درویش
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #146
    آپ کی بات ٹھیک ہے

    حسب معمول موضوع پر کمینٹ کی بجائے رائے دینے والے پر کمینٹ شاید اس کی وجہ بنی

    تعصب سے میری مراد شیپ کا کچھ بلاگر سے شخصی اختلاف تھا جس کے باعث وہ فوج کی زیادتیوں کو جواز فراہم کرتے نظر آتے ہیں

    ہار کا ذمہ دار کمزور کو ٹھہرا دینا تو سب سے آسان اپروچ ہے، اس میں کوئی وجوہات تلاش کرنے والا عنصر دکھائی نہیں دیتا

    ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپکی بات بھی ٹھیک ہے

    :bigsmile: :bigsmile:

    پاکستان کے تناظر میں یہ بات کبھی ہمارے ذہن سے محو نہیں ہونی چاہیے کہ جرنیل اس ملک کو ایک طرح سے ذاتی و ادارہ جاتی ملکیت و چراگاہ سمجھتے ہیں اور یہ ملک اس وقت جتنا بھی کھوکھلا اور بیماریوں کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ مہم جُو اور کوتاہ نظر جرنیلوں کی طرف سے طاقت کا مطلق اور بلا روک ٹوک استعمال ہے اگر شیپ صاحب کو اس حوالےسے کوئی اشکال ہے تو انہیں اپنے موقف پر نظرِثانی کی ضرورت ہے

    لیکن دوسری طرف قومی سلامتی کے حوالے سے اس وقت ملک کو کچھ حقیقی خدشات بھی درپیش ہیں، جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس وقت ہم بحثیتِ ملک وقوم عشروں پر محیط انتہائی شدید بد نظمی و بد انتظامی کی وجہ سے انتہائی گہرے اور شدید مسئلے سے دو چار ہیں، یعنی بقا کا سوال ہے

    میرے خیال میں ایسی صورتحال میں جمہوری مثالیوں کیلئے جگہ ہر ملک و معاشرے میں کم پڑ جاتی ہے خاص طور پر وہاں جہاں آپکی سیاسی اشرافیہ بھی انتہائی حد تک نہ صرف گلی سڑی ہو بلکہ ملکی دولت لوٹ کر ملک سے باہر بھیجنے میں براہِ راست ملوث ہو۔

    ایسے ماحول میں ملک و معاشرے میں ایک نظم قائم کرنا اور اچھی انتظام کاری سے فوری درپیش مسئلے کو حل کرنا اگر پہلی ترجیح بن جائے تو کوئی اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے

    :)

    BlackSheep

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #147
    ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپکی بات بھی ٹھیک ہے

    :bigsmile: :bigsmile: پاکستان کے تناظر میں یہ بات کبھی ہمارے ذہن سے محو نہیں ہونی چاہیے کہ جرنیل اس ملک کو ایک طرح سے ذاتی و ادارہ جاتی ملکیت و چراگاہ سمجھتے ہیں اور یہ ملک اس وقت جتنا بھی کھوکھلا اور بیماریوں کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ مہم جُو اور کوتاہ نظر جرنیلوں کی طرف سے طاقت کا مطلق اور بلا روک ٹوک استعمال ہے اگر شیپ صاحب کو اس حوالےسے کوئی اشکال ہے تو انہیں اپنے موقف پر نظرِثانی کی ضرورت ہے لیکن دوسری طرف قومی سلامتی کے حوالے سے اس وقت ملک کو کچھ حقیقی خدشات بھی درپیش ہیں، جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس وقت ہم بحثیتِ ملک وقوم عشروں پر محیط انتہائی شدید بد نظمی و بد انتظامی کی وجہ سے انتہائی گہرے اور شدید مسئلے سے دو چار ہیں، یعنی بقا کا سوال ہے میرے خیال میں ایسی صورتحال میں جمہوری مثالیوں کیلئے جگہ ہر ملک و معاشرے میں کم پڑ جاتی ہے خاص طور پر وہاں جہاں آپکی سیاسی اشرافیہ بھی انتہائی حد تک نہ صرف گلی سڑی ہو بلکہ ملکی دولت لوٹ کر ملک سے باہر بھیجنے میں براہِ راست ملوث ہو۔ ایسے ماحول میں ملک و معاشرے میں ایک نظم قائم کرنا اور اچھی انتظام کاری سے فوری درپیش مسئلے کو حل کرنا اگر پہلی ترجیح بن جائے تو کوئی اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے

    :) BlackSheep

    پرولتاری دَرویش۔۔۔۔۔

    آپ کی تحریر متقاضی ہے کہ تفصیلی جواب لکھا جائے۔۔۔۔۔

    فرصت ملتے ہی لکھتا ہوں۔۔۔۔۔

    پسِ تحریر۔۔۔۔۔

    وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔۔۔۔۔

    ;-) :) ;-)

    پرولتاری درویش
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #148
    Darvaish Bhai, this is basically chicken and egg phenomena, one of them has enjoyed absolute power and its about time that others is given that free hand rather than undermining their powers and I believe your judgement will be more applicable after such occurance.

    From a tit-for-tat perspective, I might agree with your suggestion of “alternate turns” but in my opinion the country at the moment is left with too little substance to endure or sustain such an adventure. There was good comprehensive discussions on the thread about foreign debt crisis in this regard

    Fro me, it is also not chicken n egg. It is squarely the jernaili chicken that has laid all these problematic/rotten eggs. Further on this, I have detailed in my two previous posts.

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #149

    ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپکی بات بھی ٹھیک ہے

    :bigsmile: :bigsmile: پاکستان کے تناظر میں یہ بات کبھی ہمارے ذہن سے محو نہیں ہونی چاہیے کہ جرنیل اس ملک کو ایک طرح سے ذاتی و ادارہ جاتی ملکیت و چراگاہ سمجھتے ہیں اور یہ ملک اس وقت جتنا بھی کھوکھلا اور بیماریوں کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ مہم جُو اور کوتاہ نظر جرنیلوں کی طرف سے طاقت کا مطلق اور بلا روک ٹوک استعمال ہے اگر شیپ صاحب کو اس حوالےسے کوئی اشکال ہے تو انہیں اپنے موقف پر نظرِثانی کی ضرورت ہے لیکن دوسری طرف قومی سلامتی کے حوالے سے اس وقت ملک کو کچھ حقیقی خدشات بھی درپیش ہیں، جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس وقت ہم بحثیتِ ملک وقوم عشروں پر محیط انتہائی شدید بد نظمی و بد انتظامی کی وجہ سے انتہائی گہرے اور شدید مسئلے سے دو چار ہیں، یعنی بقا کا سوال ہے میرے خیال میں ایسی صورتحال میں جمہوری مثالیوں کیلئے جگہ ہر ملک و معاشرے میں کم پڑ جاتی ہے خاص طور پر وہاں جہاں آپکی سیاسی اشرافیہ بھی انتہائی حد تک نہ صرف گلی سڑی ہو بلکہ ملکی دولت لوٹ کر ملک سے باہر بھیجنے میں براہِ راست ملوث ہو۔ ایسے ماحول میں ملک و معاشرے میں ایک نظم قائم کرنا اور اچھی انتظام کاری سے فوری درپیش مسئلے کو حل کرنا اگر پہلی ترجیح بن جائے تو کوئی اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے

    :)

    پرولتاری دَرویش۔۔۔۔۔

    پہلے کچھ متعلقہ و غیر متعلقہ تبصرے۔۔۔۔۔

    آپ نے اکثر لبرل یا لیفٹسٹ حضرات کو یہ کہتے یا نصیحت کرتے سُنا ہوگا کہ لوگوں کو جج(اُن کی طبیعت و فطرت کے بارے میں اندازہ لگانا) نہیں کرنا چاہئے۔۔۔۔۔ مجھے کافی اختلاف ہوتا ہے اِس رائے سے۔۔۔۔۔ میرا سمجھنا ہے کہ لوگوں کو جج ضرور کرنا چاہئے۔۔۔۔۔ کہیں کسی اور شعبہ میں لوگوں کے بارے میں اندازے لگانے کی ضرورت ہو نہ ہو لیکن سیاست اور کاروبار کےپیشے میں یہ انتہائی ضروری ہے اور تمام ہی بڑے کاروباری و سیاست دان یہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ورنہ وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوتے۔۔۔۔۔

    سالوں پہلے جب مَیں آئیڈلزم نامی بُت کی پُوجا کیا کرتا تھا تو اُس وقت اگر کوئی مجھے کہتا تھا کہ طاقت کا خلا رہتا نہیں ہے اور اگر کوئی طاقت کو چھوڑتا ہے تو کوئی دوسرا آگے بڑھ کر اُس خلا کو پُر کرلیتا ہے، تو مَیں آگے سے کتابی اُصولوں کی گردان شروع کردیا کرتا تھا۔۔۔۔۔ خیر وہ بے وقوفانہ دور بھی گذر گیا۔۔۔۔۔ اور یہ بات سمجھ آنے لگی کہ واقعی طاقت میں کبھی خلا نہیں رہتا۔۔۔۔۔

    جب مَیں سیاسی مساوات میں فوج کے سیاست میں عمل دخل کو ایک کانسٹینٹ کا درجہ دیتا ہوں تو اُس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ مَیں اِس بات پر بہت حد تک یقین رکھتا ہوں کہ فوج تو یہ کرے گی ہی کرے گی یعنی مَیں تو یہ طے کر کے بیٹھا ہوں کہ فوج کا سیاست میں کردار گند پھیلائے گا۔۔۔۔۔ جہاں سیاستدانوں نے کمزوری دکھائی وہاں اُنہوں نے اندر گھس آنا ہے کہ طاقت کا خلا زیادہ دیر نہیں رہتا۔۔۔۔۔ پاکستان جیسی حالت والے ملکوں میں یہ خطرہ ہمیشہ رہے گا، اِسی وجہ سے مَیں اس کو ایک کانسٹینٹ کہتا ہوں۔۔۔۔ کوئی اور آکر اِس مستقل عُنصر کو سیاسی مساوات سے نہیں نکالے گا بلکہ یہ کام صرف اور صرف پاکستان کے لوگوں کا ہے۔۔۔۔۔ اِس پر بھی آگے بات ہوسکتی ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ایسا خطرہ کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔۔ شاید جمہور کی غیر جمہوری طبیعت و مزاج، سیاستدانوں کی نااہلیت وغیرہ وغیرہ اِس کے عوامل ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔ اب ہمارے قرار صاحب بھی جو نکتہ سمجھ نہیں رہے وہ یہ کہ فرض کریں ایک ملک ہے جہاں کے لوگوں کے اذہان میں جمہوری روایات ذرا زیادہ راسخ ہے۔۔۔۔۔ مناسب حجم کی فوج بھی ہے اور یاد رہے کہ دُنیا کی ہر ملک کی مناسب حجم کی فوج مارشل لاء لگا سکتی ہے لیکن اصل نکتہ اُس مارشل لاء کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن اگر اُس ملک کے عوام کا مزاج ذرا جمہوری ہے تو فوج بھی زیادہ دیر تک ٹِک نہیں پائے گی مگر پاکستان میں ایسا معاملہ بالکل نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہر مارشل لاء کے اگلےایک دو دن کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کیوں ملک کے عوام لاکھوں کی تعداد میں باہر نہیں نکلتے کہ اُنہیں کسی صورت مارشل لاء قبول نہیں ہیں۔۔۔۔۔ مَیں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی مارشل لاء کے بعد لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر آنا شروع ہوجائیں تو پھر اگلے دیدہ ور جنرل میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ مارشل لاء لگا سکے۔۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔۔۔۔۔ فوج گولی چلائے گی۔۔۔۔۔ لیکن کتنے لوگوں کو مار سکتی ہے۔۔۔۔۔ اِس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مگر وطنِ عزیز میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔۔۔۔۔

    ویسے یہاں پر ابراہام موسلو کا مشہور تکون بڑے زبردست طریقے سے اِس صورتحال کے اشکال(پیراڈوکس) کو بیان کرتا ہے۔۔۔۔۔ اُس پر بات پھر کبھی۔۔۔۔۔

    اب اِس دائمی مرض کا جو علاج مجھے سمجھ آتا ہے وہ صرف یہ کہ عوام ہی سیاستدانوں کو ذرا ٹائٹ کرکے رکھے کیونکہ آخرکار سیاستدان ہوتا عوام کا نمائندہ ہی ہے۔۔۔۔۔ آپ لاکھ فوج کو برا بھلا کہتے رہو، لاکھ بَین ڈالتے رہو لیکن اِس سے حقیقی زمینی صورتحال میں کوئی فرق نہیں آنا۔۔۔۔۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ روزانہ کی بنیادوں پر نوحہ گری کرنے پر جو توانائی خرچ ہوتی ہے کم از کم اُس توانائی کو ہی اپنے سیاستدانوں کو ذرا لگام ڈالنے میں استعمال کرلو۔۔۔۔۔ میرے خیال ہے کہ ذرا بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔۔۔۔۔ کیوں عام عوام کا اثر و رسوخ سوائے سیاست دانوں کے اور کس پر چل سکتا ہے۔۔۔۔۔ مسئلہ مگر جمہوری عزاداروں کے ساتھ یہ ہے کہ اگر اِن کے منافقانہ طرزِ عمل(جب تک ہمارے مَن پسند سیاسی رہنما کی پھینٹی نہیں لگتی، تب تک سَتے خیراں اور ہمارا رہنما تو فرشتہ ہے) سے اگر ایک لمحہ کیلئے صَرفِ نظر بھی کردیا جائے تو نکتہ یہ ہے کہ یہ لوگ مثالیت پسندانہ اوزاروں کی مدد سے حقیقی دُنیا کی مشینوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔۔۔ قدیم روم کی انصاف کی دیوی، لَسٹیٹیا یا لیڈی جسٹس، کے ایک ہاتھ میں اگر ترازو(خیالی و مثالی دُنیا) ہے تو دوسرے ہاتھ میں تلوار(حقیقتی طاقت کی دُنیا) بھی ہے۔۔۔۔۔ یہ باکمال نکتہ ہزاروں سال پہلے کے لوگ پا چکے تھے کہ صرف ترازو سے کام نہیں چلتا۔۔۔۔۔

    ایک اور نکتہ خواہشات کا ہے جس کی وجہ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہاں لوگوں کو اکثر بات سمجھ نہیں آتی۔۔۔۔۔

    مَیں اب جب بھی پاکستان کے سیاسی حالات پر بات کرتا ہوں تو اپنی خواہشات کو کبھی بھی بیچ میں نہیں لاتا، ایسا بالکل نہیں ہے کہ پاکستان کے حوالے سے میری کوئی خواہشات نہیں ہیں۔۔۔۔۔ وہی نصرت جاوید والی بات کہ کسی صورتحال کو حقیقی و منطقی و معروضی انداز میں دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے دماغ سے اُس مُلا کو نکال دینا چاہئے جو آپ کو صحیح غلط بتاتا ہے۔۔۔۔۔ اب جب مَیں انتہائی اجنبی بن کر(یہاں بھی ایگنوسٹک ہوتا ہوں) صورتحال کو دیکھتا ہوں اور بیان کرتا ہوں تو جمہوری عزاداروں کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ آپ نے اُس کو یا اِس کو گالیاں کیوں نہیں دیں۔۔۔۔۔ کچھ تو ایسے بھی حق پرست فارغ الدماغ ہیں جو باقاعدہ حوالے مانگتے ہیں کہ بتاؤ کب کب فوج کو گالیاں دیں تھی۔۔۔۔۔

    مَیں تو یہ کہہ کہہ کر بری طرح بور ہوچکا ہوں کہ خواہشات کو ذرا ایک طرف رکھ کر معاملات کو دیکھ لیا کرو تاکہ کچھ حقیقت سمجھ آسکے مگر اِن کا شاید سمجھنا ہے کہ عشقِ نواز و عشقِ الطاف و عشقِ عمران و عشقِ پی پی کے آگے مکمل اندھیرا ہے۔۔۔۔۔

    خواہشات کے حوالے سے ایک ذیلی نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ بہت لمبا، بہت ہی لمبا سفر ہے۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے فی الوقت اکلوتے حق پرست بلاگر نے یہاں میری ہی ایک پرانی تحریر واپس لگائی تھی۔۔۔۔۔ سمجھ تو شاید پہلی دفعہ بھی نہیں آئی تھی مگر واپس وہ تحریر لگا گر مجھے رسید بھی دی کہ واقعی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ لوک داستانوں میں لوگ عشق میں کچھ اور قربان کرتے آئے ہیں مگر یہ ذرا وکھرے لوگ ہیں جو عشقِ الطاف و نواز و عمران میں سب سے پہلے اپنے دماغ کی قربانی دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اِن کی قربانی بارگاہِ الطاف میں قبول ہو۔۔۔۔۔ آمین، ثم آمین۔۔۔۔۔

    خیر اُس تحریر میں بھی میرا زور اِس پر تھا کہ معاشروں کے مزاج میں تبدیلی دہائیوں صدیوں میں آتی ہے اور عوام ہی بالواسطہ ذمہ دار ہوتے ہیں اور عوام ہی بلاواسطہ بھگتتے ہیں۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #150
    پرولتاری دَرویش۔۔۔۔۔ پہلے کچھ متعلقہ و غیر متعلقہ تبصرے۔۔۔۔۔ آپ نے اکثر لبرل یا لیفٹسٹ حضرات کو یہ کہتے یا نصیحت کرتے سُنا ہوگا کہ لوگوں کو جج(اُن کی طبیعت و فطرت کے بارے میں اندازہ لگانا) نہیں کرنا چاہئے۔۔۔۔۔ مجھے کافی اختلاف ہوتا ہے اِس رائے سے۔۔۔۔۔ میرا سمجھنا ہے کہ لوگوں کو جج ضرور کرنا چاہئے۔۔۔۔۔ کہیں کسی اور شعبہ میں لوگوں کے بارے میں اندازے لگانے کی ضرورت ہو نہ ہو لیکن سیاست اور کاروبار کےپیشے میں یہ انتہائی ضروری ہے اور تمام ہی بڑے کاروباری و سیاست دان یہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ورنہ وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوتے۔۔۔۔۔ سالوں پہلے جب مَیں آئیڈلزم نامی بُت کی پُوجا کیا کرتا تھا تو اُس وقت اگر کوئی مجھے کہتا تھا کہ طاقت کا خلا رہتا نہیں ہے اور اگر کوئی طاقت کو چھوڑتا ہے تو کوئی دوسرا آگے بڑھ کر اُس خلا کو پُر کرلیتا ہے، تو مَیں آگے سے کتابی اُصولوں کی گردان شروع کردیا کرتا تھا۔۔۔۔۔ خیر وہ بے وقوفانہ دور بھی گذر گیا۔۔۔۔۔ اور یہ بات سمجھ آنے لگی کہ واقعی طاقت میں کبھی خلا نہیں رہتا۔۔۔۔۔ جب مَیں سیاسی مساوات میں فوج کے سیاست میں عمل دخل کو ایک کانسٹینٹ کا درجہ دیتا ہوں تو اُس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ مَیں اِس بات پر بہت حد تک یقین رکھتا ہوں کہ فوج تو یہ کرے گی ہی کرے گی یعنی مَیں تو یہ طے کر کے بیٹھا ہوں کہ فوج کا سیاست میں کردار گند پھیلائے گا۔۔۔۔۔ جہاں سیاستدانوں نے کمزوری دکھائی وہاں اُنہوں نے اندر گھس آنا ہے کہ طاقت کا خلا زیادہ دیر نہیں رہتا۔۔۔۔۔ پاکستان جیسی حالت والے ملکوں میں یہ خطرہ ہمیشہ رہے گا، اِسی وجہ سے مَیں اس کو ایک کانسٹینٹ کہتا ہوں۔۔۔۔ کوئی اور آکر اِس مستقل عُنصر کو سیاسی مساوات سے نہیں نکالے گا بلکہ یہ کام صرف اور صرف پاکستان کے لوگوں کا ہے۔۔۔۔۔ اِس پر بھی آگے بات ہوسکتی ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ایسا خطرہ کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔۔ شاید جمہور کی غیر جمہوری طبیعت و مزاج، سیاستدانوں کی نااہلیت وغیرہ وغیرہ اِس کے عوامل ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔ اب ہمارے قرار صاحب بھی جو نکتہ سمجھ نہیں رہے وہ یہ کہ فرض کریں ایک ملک ہے جہاں کے لوگوں کے اذہان میں جمہوری روایات ذرا زیادہ راسخ ہے۔۔۔۔۔ مناسب حجم کی فوج بھی ہے اور یاد رہے کہ دُنیا کی ہر ملک کی مناسب حجم کی فوج مارشل لاء لگا سکتی ہے لیکن اصل نکتہ اُس مارشل لاء کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن اگر اُس ملک کے عوام کا مزاج ذرا جمہوری ہے تو فوج بھی زیادہ دیر تک ٹِک نہیں پائے گی مگر پاکستان میں ایسا معاملہ بالکل نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہر مارشل لاء کے اگلےایک دو دن کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کیوں ملک کے عوام لاکھوں کی تعداد میں باہر نہیں نکلتے کہ اُنہیں کسی صورت مارشل لاء قبول نہیں ہیں۔۔۔۔۔ مَیں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی مارشل لاء کے بعد لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر آنا شروع ہوجائیں تو پھر اگلے دیدہ ور جنرل میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ مارشل لاء لگا سکے۔۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔۔۔۔۔ فوج گولی چلائے گی۔۔۔۔۔ لیکن کتنے لوگوں کو مار سکتی ہے۔۔۔۔۔ اِس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مگر وطنِ عزیز میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔۔۔۔۔ ویسے یہاں پر ابراہام موسلو کا مشہور تکون بڑے زبردست طریقے سے اِس صورتحال کے اشکال(پیراڈوکس) کو بیان کرتا ہے۔۔۔۔۔ اُس پر بات پھر کبھی۔۔۔۔۔ اب اِس دائمی مرض کا جو علاج مجھے سمجھ آتا ہے وہ صرف یہ کہ عوام ہی سیاستدانوں کو ذرا ٹائٹ کرکے رکھے کیونکہ آخرکار سیاستدان ہوتا عوام کا نمائندہ ہی ہے۔۔۔۔۔ آپ لاکھ فوج کو برا بھلا کہتے رہو، لاکھ بَین ڈالتے رہو لیکن اِس سے حقیقی زمینی صورتحال میں کوئی فرق نہیں آنا۔۔۔۔۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ روزانہ کی بنیادوں پر نوحہ گری کرنے پر جو توانائی خرچ ہوتی ہے کم از کم اُس توانائی کو ہی اپنے سیاستدانوں کو ذرا لگام ڈالنے میں استعمال کرلو۔۔۔۔۔ میرے خیال ہے کہ ذرا بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔۔۔۔۔ کیوں عام عوام کا اثر و رسوخ سوائے سیاست دانوں کے اور کس پر چل سکتا ہے۔۔۔۔۔ مسئلہ مگر جمہوری عزاداروں کے ساتھ یہ ہے کہ اگر اِن کے منافقانہ طرزِ عمل(جب تک ہمارے مَن پسند سیاسی رہنما کی پھینٹی نہیں لگتی، سَتے خیراں اور ہمارا رہنما تو فرشتہ ہے) سے اگر ایک لمحہ کیلئے صَرفِ نظر بھی کردیا جائے تو نکتہ یہ ہے کہ یہ لوگ مثالیت پسندانہ اوزاروں کی مدد سے حقیقی دُنیا کی مشینوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔۔۔ قدیم روم کی انصاف کی دیوی، لَسٹیٹیا یا لیڈی جسٹس، کے ایک ہاتھ میں اگر ترازو(خیالی و مثالی دُنیا) ہے تو دوسرے ہاتھ میں تلوار(حقیقتی طاقت کی دُنیا) بھی ہے۔۔۔۔۔ یہ باکمال نکتہ ہزاروں سال پہلے کے لوگ پا چکے تھے کہ صرف ترازو سے کام نہیں چلتا۔۔۔۔۔ ایک اور نکتہ خواہشات کا ہے جس کی وجہ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہاں لوگوں کو اکثر بات سمجھ نہیں آتی۔۔۔۔۔ مَیں اب جب بھی پاکستان کے سیاسی حالات پر بات کرتا ہوں تو اپنی خواہشات کو کبھی بھی بیچ میں نہیں لاتا، ایسا بالکل نہیں ہے کہ پاکستان کے حوالے سے میری کوئی خواہشات نہیں ہیں۔۔۔۔۔ وہی نصرت جاوید والی بات کہ کسی صورتحال کو حقیقی و منطقی و معروضی انداز میں دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے دماغ سے اُس مُلا کو نکال دینا چاہئے جو آپ کو صحیح غلط بتاتا ہے۔۔۔۔۔ اب جب مَیں انتہائی اجنبی بن کر(یہاں بھی ایگنوسٹک ہوتا ہوں) صورتحال کو دیکھتا ہوں اور بیان کرتا ہوں تو جمہوری عزاداروں کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ آپ نے اُس کو یا اِس کو گالیاں کیوں نہیں دیں۔۔۔۔۔ کچھ تو ایسے بھی حق پرست فارغ الدماغ ہیں جو باقاعدہ حوالے مانگتے ہیں کہ بتاؤ کب کب فوج کو گالیاں دیں تھی۔۔۔۔۔ مَیں تو یہ کہہ کہہ کر بری طرح بور ہوچکا ہوں کہ خواہشات کو ذرا ایک طرف رکھ کر معاملات کو دیکھ لیا کرو تاکہ کچھ حقیقت سمجھ آسکے مگر اِن کا شاید سمجھنا ہے کہ عشقِ نواز و عشقِ الطاف و عشقِ عمران و عشقِ پی پی کے آگے مکمل اندھیرا ہے۔۔۔۔۔ خواہشات کے حوالے سے ایک ذیلی نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ بہت لمبا، بہت ہی لمبا سفر ہے۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے فی الوقت اکلوتے حق پرست بلاگر نے یہاں میری ہی ایک پرانی تحریر واپس لگائی تھی۔۔۔۔۔ سمجھ تو شاید پہلی دفعہ بھی نہیں آئی تھی مگر واپس وہ تحریر لگا گر مجھے رسید بھی دی کہ واقعی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ لوک داستانوں میں لوگ عشق میں کچھ اور قربان کرتے ہیں مگر یہ ذرا وکھرے لوگ ہیں جو عشقِ الطاف و نواز و عمران میں سب سے پہلے اپنے دماغ کی قربانی دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اِن کی قربانی بارگاہِ الطاف میں قبول ہو۔۔۔۔۔ آمین، ثم آمین۔۔۔۔۔ خیر اُس تحریر میں بھی میرا زور اِس پر تھا کہ معاشروں کے مزاج میں تبدیلی دہائیوں صدیوں میں آتی ہے اور عوام ہی بالواسطہ ذمہ دار ہوتے ہیں اور عوام ہی بلاواسطہ بھگتتے ہیں۔۔۔۔۔

    گھوسٹ فوبیا بوٹ چاٹیوں کی زبانوں پر عقل کے پردہ کی طرح چھایا ہوا ہے
    یہ آپ لوگوں کو قبر میں بھی چین نہیں لینے دےگا

    :cwl: :cwl: :cwl:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #151
    BlackSheep

    فوج ایاز امیر اور اس ہی قسم کے بوٹ چاٹیوں جنکی بلیک شیپ سمیت اس فورم پر کمی نہیں ہے کی مدد سے نفسیاتی طور پر دو قسم کی ذہن سازی کرنے میں مصروف ہے

    ١) فوج تو قادر مطلق ہے صحیح غلط کچھ بھی کرے اس پر سوال اٹھانا پاپ ہے سوال اٹھاؤ گے بھی تو فرق نہیں پڑنے والا چونکہ وہ قادر مطلق ہے

    ٢) ہر کردہ نہ کردہ گناہ کا ذمہ دار وہ کرپٹ سیاسی رہنما ہے جو ہماری پولیٹیکل انجینیرنگ کے نتیجے میں تم پر مسلط ہے .

    جسطرح ننگی آنکھوں پر کپڑا باندھ کر بیچ چوراہے پر برہنہ رقص کرتے ہوے اس گمان میں ہوتی ہے کہ لوگوں کو اسکا بدنما جسم نظر نہیں آرہا ہوگا اسی طرح فورمی بوٹ چاٹیئے گز گز لمبی زبانوں سے فوجی بوٹ میں چھپی غلاظت کو صاف کررہے ہوتے ہیں تو شاید گمان یہ ہوتا ہے کہ اہل نگاہ انکی وارداتوں پر عش عش کررہے ہونگے –
    مقام اطمینان یہ ہے کہ عوام دشمن ،غیر حقیقی اور فلمی دانشوروں اور کتابی انتظامی انقلابیوں کی ہر قے اسقدر واضح ہوتی ہے کہ صرف ایک فطری بوٹ چاٹیہ ہی انکے چورن کو اتنی دیر تک وقعت دے سکتا ہے جتنی دیر مایع حالت میں پانی میں سوراخ برقرار رہ سکتا ہے
    آیئے انکے دونوں مفروضات کا جائزہ لیلتے ہیں
    ١) فوج تو قادر مطلق ہے صحیح غلط کچھ بھی کرے اس پر سوال اٹھانا پاپ ہے سوال اٹھاؤ گے بھی تو فرق نہیں پڑنے والا چونکہ وہ قادر مطلق ہے
    سب سے پہلی بات فوج قادر مطلق نہیں ہے اگر یہ قادر مطلق ہوتی تو اپنے تمام ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی اہداف حاصل کرچکی ہوتی یا اس راہ پر گامزن ہوتی حقیقت کیا ہے فوج نے ہر وہ ہدف کھویا ہے یا اسکو شکست ہویی ہے جس طرف اسنے ہاتھ ڈالا ہے – ملکی سطح پر کم وقتی اور شخصی مفادات کے زیر اثر اسنے جن سیاسی خانوادوں کی آبیاری کی ہے انمیں سے کویی بھی اس ملک کو رہنمائی فراہم کرنے میں کامیاب نہ رہا نتیجہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی پروردہ بتوں کو پھانسی، جیل اور ملک بدری کی سزایں دینی پڑیں -قوم سیاسی عمل اور اسکے نتیجے میں بننے والی سیاسی قیادت سے محروم رہا نتیجتا بائیس کروڑ کا ملک سیاسی یتیم بنا گھوم رہا ہے
    اگر فوج قادر مطلق ہوتی تو ستر سالوں سے کبھی پردہ کے پیچھے سے یا کبھی پردہ کے سامنے سے معیشت و انتظامیہ کی ڈورین سمبھالنے کے بعد بھی ملک معاشی ، انتظامی اور ریاستی تباہی کے دھانے پر نہیں ہوتا
    اگر فوج قادر مطلق ہوتی تو آج کشمیری سکھ اور چین کے ساتھ ترقی کے زینہ طے کررہے ہوتے اور آزادی کے اکہتر سالوں کے بعد بھی اپنے مستقبل کے بارے میں بے پناہ جانی مالی اور جذباتی قربانیوں کے باوجود غیر یقینی کی کیفیت کا شکار نہیں ہوتے
    اگر فوج قادر مطلق ہوتی تو پاکستان کا ہر پڑوسی لاکھوں جانوں اور اربوں ڈالروں کے نقصان کے باوجود بھی پاکستان پر تھو تھو نہیں کررہا ہوتا
    فوج اگر قادر مطلق ہوتی تو عام سے لوگوں کی زبانوں پر تالہ بندی کرنے کی کوشش نہیں کررہی ہوتی اور اپنی راے کے اظہار کے نتیجہ میں لوگوں کو لاپتہ نہیں کررہی ہوتی
    فوج اگر قادر مطلق ہوتی تو پیسے دے کر یا عوام دشمنی میں بننے والے بوٹ چاٹیوں کے ذرئیے اپنا شکست خوردہ بیانیہ بیچنے کی کوشش نہیں کررہی ہوتی –
    یہ کہنا کہ آینہ دکھانے سے فوج پر فرق نہیں پڑتا بلکل غلط ہے فوج تو چھوڑیں انکے بوٹ چاٹیوں کی چیخیں پورا آسمان سنتا ہے جب بھی انکا غلیظ اور بدنما چہرہ دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے اور یہ سفر اب رکنے والا نہیں ہے یہ آگے بڑھ رہا ہے لوگوں میں شعور آرہا ہے لوگوں میں خوف کم ہورہا ہے فوج بیک فوٹ پر جارہی ہے انکے بیک فوٹ پر جانے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اب فوج کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لئے اسکی آخری قوت یعنی بندوق کی طاقت استعمال کرنی پڑرہی ہے اسکے بعد کیا رہ جاتا ہے انکے تابوت میں مزید کیلیں عمران خان نے ہی تھونکنی ہیں یہ کیانی ڈاکٹرائن اور اسی قسم کے فلسفے بھی بڑھتے عوامی شعور کا نتیجہ ہیں اس سفر نے آگے ہی جانا ہے

    مفروضہ کا دوسرا حصہ ہے کہ

    ٢) ہر کردہ نہ کردہ گناہ کا ذمہ دار وہ کرپٹ سیاسی رہنما ہے جو ہماری پولیٹیکل انجینیرنگ کے نتیجے میں تم پر مسلط ہے .
    عوام دشمن بوٹ چاٹئے یہ چورن بھی عوام کو بیچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیاسی نظام کے ساتھ کی گئی واردات تو کوشر ہے مگر اسکے نتیجہ میں جو کرپٹ اور نہ اہل پراڈکٹ آپ کے سروں پر مسلط ہے وہ خود ہی اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں کنگ میکر کے کردار اور اسکو کم کرنے پر گفتگو بیوقوفی کھلاتی ہے جس بات کا یہ بوٹ چاٹئے جواب دینے سے کتراتے ہیں
    ا) کہ کیا اہل اور با کردار قیادت کے زیر اثر ریاست اور ریاستی اداروں کے مفادات میں ٹکراؤ نہیں ہوگا؟ اور اگر ہوگا تو کیا اہل اور با کردار قیادت کا وجود خود ریاستی اداروں کے مفادات سے نہیں ٹکراے گا ؟ ایسی صورت میں ریاستی ادارے کیوں کر اہل اور ایماندار قیادت کو پنپنے دیں گے؟ انکو تو بدکردار اور سر تاپا کرپشن سے لپٹی قیادت وارے میں آتی ہے- تو آخر وہ کونسی صورت ہوگی جس میں ایسی خیالی قیادت وجود میں اے گی ؟
    مطلب نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی

    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #152
      فورمی بوٹ چاٹیئے گز گز لمبی زبانوں سے فوجی بوٹ میں چھپی غلاظت کو صاف کررہے ہوتے ہیں تو شاید گمان یہ ہوتا ہے کہ اہل نگاہ انکی وارداتوں پر عش عش کررہے ہونگے – مقام اطمینان یہ ہے کہ عوام دشمن ،غیر حقیقی اور فلمی دانشوروں اور کتابی انتظامی انقلابیوں کی ہر قے اسقدر واضح ہوتی ہے کہ صرف ایک فطری بوٹ چاٹیہ ہی انکے چورن کو اتنی دیر تک وقعت دے سکتا ہے جتنی دیر مایع حالت میں پانی میں سوراخ برقرار رہ سکتا ہے
    زبردست
    ۔۔۔۔۔ بلیک شیپ ۔۔۔۔ بوٹ چا ٹیا سمجھتا ہے کہ ۔۔۔۔۔ یہ فلا سفری باتیں کرکے دنیا کو پھدو بنا سکتا ہے کہ ۔۔۔۔ یہ نیوٹرل ہے ۔۔۔۔۔
    حالانکہ یہ  بھی اسی طرح ۔۔۔۔۔ فوج پرست ہے ۔۔۔۔ جس طرح ۔۔۔۔۔ پا کستان کی ستر فیصد  دیہا تی اور جاھل آبادی ۔۔۔۔ فوج اسلحہ پرست ہے ۔۔۔۔۔۔
    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Guilty
    Participant
    Offline
    • Expert
    #153
    پروٹوکول ۔۔۔۔۔۔

    تمہارا یہ پوائینٹ بہت ہی زبردست ہے ۔۔۔۔۔ کہ پا ک فوج نے۔۔۔۔۔ آج تک جس کام جس معاملے  میں بھی ھاتھ ڈالا ۔۔۔۔۔۔ نا کام و نامراد ۔۔۔۔ رھی ۔۔۔۔۔

    پا ک فوج ۔۔۔۔ دھا ئیوں سے ۔۔۔ کشمیر میں ۔۔۔۔ مجا ھد ین کی آبیاری کررھی ہے ۔۔۔۔۔۔ کشمیر کی پا لیسی بری طرح ناکام ہے ۔۔۔۔ اور کشمیر کی آزادی ۔۔۔۔ کا  سین مزید دھندلا گیا ہے ۔۔۔۔

    پا ک فوج نے ۔۔۔۔ کابل میں ۔۔۔ پنگا لیا ۔۔۔۔۔۔ لاکھوں بندے مرواکر ۔۔۔۔ کا بل کا ایک انچ نہ ملا ۔۔۔۔۔۔

    افغا ن مجا  ھدین ۔۔۔۔ طا لبان ۔۔۔۔۔ لشکر ۔۔۔۔ بنا کر ۔۔۔۔۔ پا ک فوج نے ۔۔۔۔۔۔ علاقے میں ۔۔۔ دھشت گردی کا ماحول بنا یا ۔۔۔۔ و ہ خود ہی پا کستان کو ہی لے ڈوبا ۔۔۔۔۔

    اور الٹا پا کستان کے دشمن ۔۔۔۔۔ پا ک فوج کو ۔۔۔ دھشت گرد ۔۔۔۔ پروڈیوسنگ ۔۔۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔۔۔ پوری دنیا میں بد نام کرتے ہیں ۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    پاک  فوج کا ۔۔۔ بنا یا ہوا ۔۔۔۔۔ نواز شریف ۔۔۔۔۔ بھی ان کی بکواس پا لیسیوں سے ۔۔۔۔ متنفر ہوا ۔۔۔۔۔

    پا ک فوج کا  لا یا  ۔۔۔۔۔ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ بھٹو ۔۔۔۔۔۔ بھی ان کی  پا لیسیوں سے متنفر ہوا۔۔۔۔۔

    پا ک فوج نے ۔۔۔۔ اپنے بنا ئے ہوئے ۔۔۔۔ لشکر ۔۔۔۔ جھنگوی ۔۔۔۔ لشکر طیبہ ۔۔۔۔ مولانا اعظم طارق بھی خود مارے ۔۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔

    اس نے پورے ملک کو ۔۔۔ اکھٓاڑہ بنا یا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ ملک کو ۔۔۔۔ اندھیروں  میں  ۔۔۔۔ ڈبو دیا ۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اور بلیک شیپ ۔۔۔۔ بتا رھا ہے کہ ۔۔۔۔۔ یہ نا کا م و نامراد ۔۔۔۔۔ فوج ۔۔۔۔ سب سے بڑی ۔۔۔۔ کانسٹینٹ ۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔

    ۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #154
    گھوسٹ فوبیا بوٹ چاٹیوں کی زبانوں پر عقل کے پردہ کی طرح چھایا ہوا ہے یہ آپ لوگوں کو قبر میں بھی چین نہیں لینے دےگا :cwl: :cwl: :cwl:

    گھوسٹ پروٹوکول بھائی

    اب کیا آپ بوٹ چاٹنے والوں سے بوٹ چٹائی بھی چھڑائیں گے؟

    بوٹ چاٹنے والے فوجیوں کے بوٹ چاٹتے اچھے لگتے ہیں، انہیں کھل کھلا کر بوٹ چاٹنے دیا کریں

    ہو سکے تو انہیں بوٹ چاٹتے دیکھکر دعا دیا کریں

    اللہ کرے زور بوٹ چٹائی اور زیادہ

    ویسے آج کل فورم پر بوٹ چاٹیوں کا میلہ لگا ہوا ہے

    اب تو ٹھنڈی الماری خریدنے والے سردار کے اندر چھپا بوٹ چاٹیا بھی باہر نکل آیا یے

    :hilar: :hilar: :hilar: :hilar: :hilar:

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #155
    پرولتاری دَرویش۔۔۔۔۔ پہلے کچھ متعلقہ و غیر متعلقہ تبصرے۔۔۔۔۔ آپ نے اکثر لبرل یا لیفٹسٹ حضرات کو یہ کہتے یا نصیحت کرتے سُنا ہوگا کہ لوگوں کو جج(اُن کی طبیعت و فطرت کے بارے میں اندازہ لگانا) نہیں کرنا چاہئے۔۔۔۔۔ مجھے کافی اختلاف ہوتا ہے اِس رائے سے۔۔۔۔۔ میرا سمجھنا ہے کہ لوگوں کو جج ضرور کرنا چاہئے۔۔۔۔۔ کہیں کسی اور شعبہ میں لوگوں کے بارے میں اندازے لگانے کی ضرورت ہو نہ ہو لیکن سیاست اور کاروبار کےپیشے میں یہ انتہائی ضروری ہے اور تمام ہی بڑے کاروباری و سیاست دان یہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ورنہ وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوتے۔۔۔۔۔ سالوں پہلے جب مَیں آئیڈلزم نامی بُت کی پُوجا کیا کرتا تھا تو اُس وقت اگر کوئی مجھے کہتا تھا کہ طاقت کا خلا رہتا نہیں ہے اور اگر کوئی طاقت کو چھوڑتا ہے تو کوئی دوسرا آگے بڑھ کر اُس خلا کو پُر کرلیتا ہے، تو مَیں آگے سے کتابی اُصولوں کی گردان شروع کردیا کرتا تھا۔۔۔۔۔ خیر وہ بے وقوفانہ دور بھی گذر گیا۔۔۔۔۔ اور یہ بات سمجھ آنے لگی کہ واقعی طاقت میں کبھی خلا نہیں رہتا۔۔۔۔۔ جب مَیں سیاسی مساوات میں فوج کے سیاست میں عمل دخل کو ایک کانسٹینٹ کا درجہ دیتا ہوں تو اُس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ مَیں اِس بات پر بہت حد تک یقین رکھتا ہوں کہ فوج تو یہ کرے گی ہی کرے گی یعنی مَیں تو یہ طے کر کے بیٹھا ہوں کہ فوج کا سیاست میں کردار گند پھیلائے گا۔۔۔۔۔ جہاں سیاستدانوں نے کمزوری دکھائی وہاں اُنہوں نے اندر گھس آنا ہے کہ طاقت کا خلا زیادہ دیر نہیں رہتا۔۔۔۔۔ پاکستان جیسی حالت والے ملکوں میں یہ خطرہ ہمیشہ رہے گا، اِسی وجہ سے مَیں اس کو ایک کانسٹینٹ کہتا ہوں۔۔۔۔ کوئی اور آکر اِس مستقل عُنصر کو سیاسی مساوات سے نہیں نکالے گا بلکہ یہ کام صرف اور صرف پاکستان کے لوگوں کا ہے۔۔۔۔۔ اِس پر بھی آگے بات ہوسکتی ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ایسا خطرہ کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔۔ شاید جمہور کی غیر جمہوری طبیعت و مزاج، سیاستدانوں کی نااہلیت وغیرہ وغیرہ اِس کے عوامل ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔ اب ہمارے قرار صاحب بھی جو نکتہ سمجھ نہیں رہے وہ یہ کہ فرض کریں ایک ملک ہے جہاں کے لوگوں کے اذہان میں جمہوری روایات ذرا زیادہ راسخ ہے۔۔۔۔۔ مناسب حجم کی فوج بھی ہے اور یاد رہے کہ دُنیا کی ہر ملک کی مناسب حجم کی فوج مارشل لاء لگا سکتی ہے لیکن اصل نکتہ اُس مارشل لاء کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن اگر اُس ملک کے عوام کا مزاج ذرا جمہوری ہے تو فوج بھی زیادہ دیر تک ٹِک نہیں پائے گی مگر پاکستان میں ایسا معاملہ بالکل نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہر مارشل لاء کے اگلےایک دو دن کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کیوں ملک کے عوام لاکھوں کی تعداد میں باہر نہیں نکلتے کہ اُنہیں کسی صورت مارشل لاء قبول نہیں ہیں۔۔۔۔۔ مَیں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی مارشل لاء کے بعد لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر آنا شروع ہوجائیں تو پھر اگلے دیدہ ور جنرل میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ مارشل لاء لگا سکے۔۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔۔۔۔۔ فوج گولی چلائے گی۔۔۔۔۔ لیکن کتنے لوگوں کو مار سکتی ہے۔۔۔۔۔ اِس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مگر وطنِ عزیز میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔۔۔۔۔ ویسے یہاں پر ابراہام موسلو کا مشہور تکون بڑے زبردست طریقے سے اِس صورتحال کے اشکال(پیراڈوکس) کو بیان کرتا ہے۔۔۔۔۔ اُس پر بات پھر کبھی۔۔۔۔۔ اب اِس دائمی مرض کا جو علاج مجھے سمجھ آتا ہے وہ صرف یہ کہ عوام ہی سیاستدانوں کو ذرا ٹائٹ کرکے رکھے کیونکہ آخرکار سیاستدان ہوتا عوام کا نمائندہ ہی ہے۔۔۔۔۔ آپ لاکھ فوج کو برا بھلا کہتے رہو، لاکھ بَین ڈالتے رہو لیکن اِس سے حقیقی زمینی صورتحال میں کوئی فرق نہیں آنا۔۔۔۔۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ روزانہ کی بنیادوں پر نوحہ گری کرنے پر جو توانائی خرچ ہوتی ہے کم از کم اُس توانائی کو ہی اپنے سیاستدانوں کو ذرا لگام ڈالنے میں استعمال کرلو۔۔۔۔۔ میرے خیال ہے کہ ذرا بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔۔۔۔۔ کیوں عام عوام کا اثر و رسوخ سوائے سیاست دانوں کے اور کس پر چل سکتا ہے۔۔۔۔۔ مسئلہ مگر جمہوری عزاداروں کے ساتھ یہ ہے کہ اگر اِن کے منافقانہ طرزِ عمل(جب تک ہمارے مَن پسند سیاسی رہنما کی پھینٹی نہیں لگتی، سَتے خیراں اور ہمارا رہنما تو فرشتہ ہے) سے اگر ایک لمحہ کیلئے صَرفِ نظر بھی کردیا جائے تو نکتہ یہ ہے کہ یہ لوگ مثالیت پسندانہ اوزاروں کی مدد سے حقیقی دُنیا کی مشینوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔۔۔ قدیم روم کی انصاف کی دیوی، لَسٹیٹیا یا لیڈی جسٹس، کے ایک ہاتھ میں اگر ترازو(خیالی و مثالی دُنیا) ہے تو دوسرے ہاتھ میں تلوار(حقیقتی طاقت کی دُنیا) بھی ہے۔۔۔۔۔ یہ باکمال نکتہ ہزاروں سال پہلے کے لوگ پا چکے تھے کہ صرف ترازو سے کام نہیں چلتا۔۔۔۔۔ ایک اور نکتہ خواہشات کا ہے جس کی وجہ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہاں لوگوں کو اکثر بات سمجھ نہیں آتی۔۔۔۔۔ مَیں اب جب بھی پاکستان کے سیاسی حالات پر بات کرتا ہوں تو اپنی خواہشات کو کبھی بھی بیچ میں نہیں لاتا، ایسا بالکل نہیں ہے کہ پاکستان کے حوالے سے میری کوئی خواہشات نہیں ہیں۔۔۔۔۔ وہی نصرت جاوید والی بات کہ کسی صورتحال کو حقیقی و منطقی و معروضی انداز میں دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے دماغ سے اُس مُلا کو نکال دینا چاہئے جو آپ کو صحیح غلط بتاتا ہے۔۔۔۔۔ اب جب مَیں انتہائی اجنبی بن کر(یہاں بھی ایگنوسٹک ہوتا ہوں) صورتحال کو دیکھتا ہوں اور بیان کرتا ہوں تو جمہوری عزاداروں کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ آپ نے اُس کو یا اِس کو گالیاں کیوں نہیں دیں۔۔۔۔۔ کچھ تو ایسے بھی حق پرست فارغ الدماغ ہیں جو باقاعدہ حوالے مانگتے ہیں کہ بتاؤ کب کب فوج کو گالیاں دیں تھی۔۔۔۔۔ مَیں تو یہ کہہ کہہ کر بری طرح بور ہوچکا ہوں کہ خواہشات کو ذرا ایک طرف رکھ کر معاملات کو دیکھ لیا کرو تاکہ کچھ حقیقت سمجھ آسکے مگر اِن کا شاید سمجھنا ہے کہ عشقِ نواز و عشقِ الطاف و عشقِ عمران و عشقِ پی پی کے آگے مکمل اندھیرا ہے۔۔۔۔۔ خواہشات کے حوالے سے ایک ذیلی نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ بہت لمبا، بہت ہی لمبا سفر ہے۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے فی الوقت اکلوتے حق پرست بلاگر نے یہاں میری ہی ایک پرانی تحریر واپس لگائی تھی۔۔۔۔۔ سمجھ تو شاید پہلی دفعہ بھی نہیں آئی تھی مگر واپس وہ تحریر لگا گر مجھے رسید بھی دی کہ واقعی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ لوک داستانوں میں لوگ عشق میں کچھ اور قربان کرتے آئے ہیں مگر یہ ذرا وکھرے لوگ ہیں جو عشقِ الطاف و نواز و عمران میں سب سے پہلے اپنے دماغ کی قربانی دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اِن کی قربانی بارگاہِ الطاف میں قبول ہو۔۔۔۔۔ آمین، ثم آمین۔۔۔۔۔ خیر اُس تحریر میں بھی میرا زور اِس پر تھا کہ معاشروں کے مزاج میں تبدیلی دہائیوں صدیوں میں آتی ہے اور عوام ہی بالواسطہ ذمہ دار ہوتے ہیں اور عوام ہی بلاواسطہ بھگتتے ہیں۔۔۔۔۔

    بلیک  شیپ صاحب ….عام طور پر آپ کے دلائل اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ کوئی  آپ سے متفق نہ بھی ہو تو کم از کم دلائل کے وزن سے انکار نہیں کیا جاسکتا …تاہم کچھ ہفتوں سے آپ نے کچھ ایسے نکات اٹھائے ہیں جن سے میں قائل نہیں ہوسکا

    میں سیکولر نظام کا کتنا بڑا حامی ہوں …میں نے کئی ممبران سے لمبی لمبی بحث کی ہے کہ کیسے یہ نظام ریاست چلانے کے لیے بہتر ہے …لیکن کیا کبھی آپ نے مجھے یہ بحث کرتے دیکھا ہے کہ پاکستان میں اسے زبردستی نافذ کردیا جاۓ؟ نہیں …کیونکہ میرا یقین ہے کہ کسی بھی ملک میں صرف وہی نظام کامیاب ہوسکتا ہے جہاں اس کی اکثریت متفق ہوں ورنہ زبردستی کا ہر  نظام ناکام ہوگا …میرا جمہوریت کے بارے میں بھی یہی خیال ہے …پاکستان میں جمہوریت کیوں کامیاب نہیں ہوسکی ہے؟ کیونکہ پاکستان میں لوگ (بڑا طبقہ ) اسے بدیسی نظام سمجھتے ہیں جس میں لوگوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا …لوگ اموی ، عباسی، عثمانی اور مغلیہ دور کو یاد کرتے ہیں جوکہ موروثی بادشاہت پر مبنی تھے …آرمی چیف کی شکل میں انہیں ایک بادشاہ سے ملتی جلتی ایک شکل نظر آتی ہے …زندہ رود نے کچھ دن پہلے ایک پوسٹ لکھا تھا کہ پاکستان کے سیاستدان اگر ڈیلیور کرنے لگ بھی جایئں تو بھی آرمی کے لیے انہیں سائیڈ پر کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا کیونکہ عوام میں جمہوریت کے لیے کوئی خاص محبت نہیں …میرا ذاتی تجربہ ہے کہ عوام کو مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ سے کوئی بھی نجات دلا دے وہ اس کے ساتھ ہیں انہیں جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں

    آپ نے جب سے آرمی کو ایک کانسٹنٹ کا درجہ دیا ہے اس سے مجھے عورتوں کے حقوق پر ایک مثال یاد آگئی …کیا آپ کی نظر میں مردوں میں عورتوں کے لیے ہوس ایک کونسٹینٹ کا درجہ رکھتی ہے؟ یعنی عورتوں کو ہی اپنے لباس ، چال ڈھال اور رویے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے ورنہ جہاں عورت نے کوئی پردہ وغیرہ اتارا اس کا ریپ ہونے کا خدشہ ہوگا …اگر آپ کی ڈاکٹرائن لے کر ملک میں قانون سازی کی جاۓ تو مردوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاۓ گی بلکہ تمام کا تمام زور عورتوں کو مرقعے میں لپیٹنے پر ہوگا …یہاں میں آئیڈیلزم کی بات نہیں کر رہا…میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کے معاشرے میں کیسے عورتوں کو ان کے جائز حقوق ملنا مشکل ہیں لیکن میں عورتوں کو قصوروار نہیں ٹھہراؤں گا کہ جب تک وہ اپنے حقوق کے لیے نہیں اٹھیں گی ان کو کچھ نہیں ملنا چاہیے

    میں نے آپ سے سوال پوکچھا تھا کہ کیا بات ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں لوگ جمہوریت  کے بارے میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں..پاکستان مختلف کیوں ہے؟ ایاز امیر جیسے فوجی عذر خواہ دانشور انڈیا اور بنگلہ دیش یا سری لنکا میں کیوں نہی ملتے؟

    آپ نے یہ تحریر کیا تھا کہ دائمی اداروں نے پاکستان کی صورتحال کو دیکھ کر کچھ بڑے فیصلے کرلیے ہیں …لیکن آج کی صورتحال کیا ننانوے سے بھی بری ہے جب پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ گئی تھیں؟ پاکستان کے دائمی اداروں نے پہلے بھی ملک کو “نا اہل” سیاستدانوں سے ملک کو پاک کرنے کا گرینڈ پلان کئی دفعہ بنایا تھا ..اس دفعہ کیا مختلف ہے …جنرل باجوہ میں آخر ایسی کیا بات ہے جو پہلے جرنیلوں میں نہیں دیکھی  گئی؟ ہم لوگ بار بار ایک ہی سانپ سے اپنے آپ کو ڈسوانے کو کیوں تیار ہوتے ہیں؟ یا تو کسی جرنیل نے ایک بار ہی سہی کبھی ڈیلیور کیا ہو تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے

    جس طاقت کے خلاء کی آپ نے بات کیا ہے وہ ضرور پر ہوتا ہے مگر وہ خلاء بناتا بھی کون ہے؟ فوجی بھی تو عوام سے ہی ہیں …وہ کوئی مریخ سے تو نہیں آئے ..جتنے کرپٹ عوام ہیں ..جتنی وابستگی عوام  کو جمہوریت سے ہے اتنی ہی فوج کو بھی ہے
    آپ نے کہا تھا کہ آپ کا بس تو سیاستدانوں پر ہی چلتا ہے لہذا آپ اسے ہی برا کہیں گے ..یار  ہم کوئی پاکستان میں بیٹھے سیاستدان تو نہیں کہ ہمیں کسی ویڈیو کا خوف ہے یا جان جانے کا کا ڈر …ایک گمنام آئی ڈی سے بھی اگر فوج پر تنقید نہیں کرسکتے تو یہاں لکھنے کا کیا فائدہ؟
    میرے خیال میں سیاست دنوں پر چوبیس گھنٹے اور اور ان کے شیئر سے زیادہ تنقید ہوتی ہے ..لیکن شاہد عباسی صاحب نے کچھ دن پہلے فرمایا تھا کہ قصور نون اور زرداری کا ہے کہ ایسے بندوں کو ٹکٹ دیا جو صحیح نہیں تھے اور تحریک عدم اعتماد میں بک گئے …کیا اب فرشتوں  کو ٹکٹ دیا جاۓ؟

    انگریزی کا ایک فقرہ ہے کہ

    If you can’t beat them, join them!
    آپ کے ساتھ بھی تو یہی معاملا نہیں ہوا؟

    :lol:

    معاشیات پر بات کرتے وقت بھی آپ نے کم و بیش یہی بات کہی تھی اور بیلنس شیٹ کی مثال دی تھی …برآمدات اور درآمدات میں فرق تجارتی خسارہ …قرضوں کی اقساط، ٹیکس کولیکشن، اور بیرون ملک سے آنے والے پیسے …غرض آپ نے ایک بیلنس شیٹ بنائی اور کہا کہ آمدنی تو یہی رہنی ہے (یعنی پھر وہی مستقل یا کونسٹینٹ)  …تو درآمدات کو گھٹا کر ہی کام چلایا جاسکتا ہے …میں نے وہاں بھی عرض کی تھی کہ جس حساب سے آبادی بڑھ رہی ہے …آمدنی مستقل رکھنے (یا بچت کرکے معمولی سی بڑھانے) کا کوئی فائدہ نہیں …صرف درآمدات وقتی طور پر بڑھا کر …خسارہ بڑھا کر …برآمدات بڑھانے پر کام کیا جاۓ تو ہی ڈالرز بڑھنے کا امکان ہے …آپ یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ پلان کا عمل دارآمد صحیح نہیں ہوا ..یا کہ خسارہ اتنا نہیں بڑھانا چاہیے تھا …لیکن سٹریٹجی کو فضول نہیں کہ سکتے
    امید ہے کہ آپ وقت نکالنے پر کبھی پاکستان کے بنگلہ دیش کی طرح چالیس سے باسٹھ بلین ڈالرز کے بجٹ تک پونھچنے پر بھی بات کریں گے ..کہ یہ کیسے ممکن ہوگا

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #156
    بلیک شیپ صاحب …آپ بار بار اس بات پر زور کیوں دیتے ہیں کہ آپ غیر جانبدار ہیں …ذاتی راۓ رکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے …غور سے دیکھیں تو آپ کی اپنی تحریروں میں بھی جانبداری ہے …آپ کو شاید اس کا احساس نہیں ہے …ویسے بھی انسان خود اپنی تحریروں کا جج نہیں بن سکتا

    BlackSheep

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #157
    :serious: گلٹی – لگتا ہے مجھے آپ کو بھی ان لوگوں میں شامل کرنا پڑے گا جو لاجیکل باتیں کرنا چھوڑتے جا رہے ہیں

    شائد بلیک شیپ کی مراد فوجی فاؤنڈیشن اور ڈی ایچ اے کی مختلف اسکیموں سے ہو

    پروٹوکول ۔۔۔۔۔۔ تمہارا یہ پوائینٹ بہت ہی زبردست ہے ۔۔۔۔۔ کہ پا ک فوج نے۔۔۔۔۔ آج تک جس کام جس معاملے میں بھی ھاتھ ڈالا ۔۔۔۔۔۔ نا کام و نامراد ۔۔۔۔ رھی ۔۔۔۔۔
    ۔ اور بلیک شیپ ۔۔۔۔ بتا رھا ہے کہ ۔۔۔۔۔ یہ نا کا م و نامراد ۔۔۔۔۔ فوج ۔۔۔۔ سب سے بڑی ۔۔۔۔ کانسٹینٹ ۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔ ۔
    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #158
    بلیک شیپ صاحب آج کل اپنے پرانے گناہوں کو دھونے کی تیرتھ یاترا پر ہیں

    :lol: :lol: :lol:

    بلیک شیپ صاحب …آپ بار بار اس بات پر زور کیوں دیتے ہیں کہ آپ غیر جانبدار ہیں …ذاتی راۓ رکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے …غور سے دیکھیں تو آپ کی اپنی تحریروں میں بھی جانبداری ہے …آپ کو شاید اس کا احساس نہیں ہے …ویسے بھی انسان خود اپنی تحریروں کا جج نہیں بن سکتا BlackSheep
    پرولتاری درویش
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #159
    پرولتاری دَرویش۔۔۔۔۔ پہلے کچھ متعلقہ و غیر متعلقہ تبصرے۔۔۔۔۔ آپ نے اکثر لبرل یا لیفٹسٹ حضرات کو یہ کہتے یا نصیحت کرتے سُنا ہوگا کہ لوگوں کو جج(اُن کی طبیعت و فطرت کے بارے میں اندازہ لگانا) نہیں کرنا چاہئے۔۔۔۔۔ مجھے کافی اختلاف ہوتا ہے اِس رائے سے۔۔۔۔۔ میرا سمجھنا ہے کہ لوگوں کو جج ضرور کرنا چاہئے۔۔۔۔۔ کہیں کسی اور شعبہ میں لوگوں کے بارے میں اندازے لگانے کی ضرورت ہو نہ ہو لیکن سیاست اور کاروبار کےپیشے میں یہ انتہائی ضروری ہے اور تمام ہی بڑے کاروباری و سیاست دان یہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ورنہ وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوتے۔۔۔۔۔ سالوں پہلے جب مَیں آئیڈلزم نامی بُت کی پُوجا کیا کرتا تھا تو اُس وقت اگر کوئی مجھے کہتا تھا کہ طاقت کا خلا رہتا نہیں ہے اور اگر کوئی طاقت کو چھوڑتا ہے تو کوئی دوسرا آگے بڑھ کر اُس خلا کو پُر کرلیتا ہے، تو مَیں آگے سے کتابی اُصولوں کی گردان شروع کردیا کرتا تھا۔۔۔۔۔ خیر وہ بے وقوفانہ دور بھی گذر گیا۔۔۔۔۔ اور یہ بات سمجھ آنے لگی کہ واقعی طاقت میں کبھی خلا نہیں رہتا۔۔۔۔۔ جب مَیں سیاسی مساوات میں فوج کے سیاست میں عمل دخل کو ایک کانسٹینٹ کا درجہ دیتا ہوں تو اُس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ مَیں اِس بات پر بہت حد تک یقین رکھتا ہوں کہ فوج تو یہ کرے گی ہی کرے گی یعنی مَیں تو یہ طے کر کے بیٹھا ہوں کہ فوج کا سیاست میں کردار گند پھیلائے گا۔۔۔۔۔ جہاں سیاستدانوں نے کمزوری دکھائی وہاں اُنہوں نے اندر گھس آنا ہے کہ طاقت کا خلا زیادہ دیر نہیں رہتا۔۔۔۔۔ پاکستان جیسی حالت والے ملکوں میں یہ خطرہ ہمیشہ رہے گا، اِسی وجہ سے مَیں اس کو ایک کانسٹینٹ کہتا ہوں۔۔۔۔ کوئی اور آکر اِس مستقل عُنصر کو سیاسی مساوات سے نہیں نکالے گا بلکہ یہ کام صرف اور صرف پاکستان کے لوگوں کا ہے۔۔۔۔۔ اِس پر بھی آگے بات ہوسکتی ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ایسا خطرہ کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔۔ شاید جمہور کی غیر جمہوری طبیعت و مزاج، سیاستدانوں کی نااہلیت وغیرہ وغیرہ اِس کے عوامل ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔ اب ہمارے قرار صاحب بھی جو نکتہ سمجھ نہیں رہے وہ یہ کہ فرض کریں ایک ملک ہے جہاں کے لوگوں کے اذہان میں جمہوری روایات ذرا زیادہ راسخ ہے۔۔۔۔۔ مناسب حجم کی فوج بھی ہے اور یاد رہے کہ دُنیا کی ہر ملک کی مناسب حجم کی فوج مارشل لاء لگا سکتی ہے لیکن اصل نکتہ اُس مارشل لاء کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن اگر اُس ملک کے عوام کا مزاج ذرا جمہوری ہے تو فوج بھی زیادہ دیر تک ٹِک نہیں پائے گی مگر پاکستان میں ایسا معاملہ بالکل نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہر مارشل لاء کے اگلےایک دو دن کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ کیوں ملک کے عوام لاکھوں کی تعداد میں باہر نہیں نکلتے کہ اُنہیں کسی صورت مارشل لاء قبول نہیں ہیں۔۔۔۔۔ مَیں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی مارشل لاء کے بعد لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر آنا شروع ہوجائیں تو پھر اگلے دیدہ ور جنرل میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ مارشل لاء لگا سکے۔۔۔۔۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔۔۔۔۔ فوج گولی چلائے گی۔۔۔۔۔ لیکن کتنے لوگوں کو مار سکتی ہے۔۔۔۔۔ اِس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔۔۔۔۔ مگر وطنِ عزیز میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔۔۔۔۔ ویسے یہاں پر ابراہام موسلو کا مشہور تکون بڑے زبردست طریقے سے اِس صورتحال کے اشکال(پیراڈوکس) کو بیان کرتا ہے۔۔۔۔۔ اُس پر بات پھر کبھی۔۔۔۔۔ اب اِس دائمی مرض کا جو علاج مجھے سمجھ آتا ہے وہ صرف یہ کہ عوام ہی سیاستدانوں کو ذرا ٹائٹ کرکے رکھے کیونکہ آخرکار سیاستدان ہوتا عوام کا نمائندہ ہی ہے۔۔۔۔۔ آپ لاکھ فوج کو برا بھلا کہتے رہو، لاکھ بَین ڈالتے رہو لیکن اِس سے حقیقی زمینی صورتحال میں کوئی فرق نہیں آنا۔۔۔۔۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ روزانہ کی بنیادوں پر نوحہ گری کرنے پر جو توانائی خرچ ہوتی ہے کم از کم اُس توانائی کو ہی اپنے سیاستدانوں کو ذرا لگام ڈالنے میں استعمال کرلو۔۔۔۔۔ میرے خیال ہے کہ ذرا بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔۔۔۔۔ کیوں عام عوام کا اثر و رسوخ سوائے سیاست دانوں کے اور کس پر چل سکتا ہے۔۔۔۔۔ مسئلہ مگر جمہوری عزاداروں کے ساتھ یہ ہے کہ اگر اِن کے منافقانہ طرزِ عمل(جب تک ہمارے مَن پسند سیاسی رہنما کی پھینٹی نہیں لگتی، سَتے خیراں اور ہمارا رہنما تو فرشتہ ہے) سے اگر ایک لمحہ کیلئے صَرفِ نظر بھی کردیا جائے تو نکتہ یہ ہے کہ یہ لوگ مثالیت پسندانہ اوزاروں کی مدد سے حقیقی دُنیا کی مشینوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔۔۔ قدیم روم کی انصاف کی دیوی، لَسٹیٹیا یا لیڈی جسٹس، کے ایک ہاتھ میں اگر ترازو(خیالی و مثالی دُنیا) ہے تو دوسرے ہاتھ میں تلوار(حقیقتی طاقت کی دُنیا) بھی ہے۔۔۔۔۔ یہ باکمال نکتہ ہزاروں سال پہلے کے لوگ پا چکے تھے کہ صرف ترازو سے کام نہیں چلتا۔۔۔۔۔ ایک اور نکتہ خواہشات کا ہے جس کی وجہ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہاں لوگوں کو اکثر بات سمجھ نہیں آتی۔۔۔۔۔ مَیں اب جب بھی پاکستان کے سیاسی حالات پر بات کرتا ہوں تو اپنی خواہشات کو کبھی بھی بیچ میں نہیں لاتا، ایسا بالکل نہیں ہے کہ پاکستان کے حوالے سے میری کوئی خواہشات نہیں ہیں۔۔۔۔۔ وہی نصرت جاوید والی بات کہ کسی صورتحال کو حقیقی و منطقی و معروضی انداز میں دیکھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے دماغ سے اُس مُلا کو نکال دینا چاہئے جو آپ کو صحیح غلط بتاتا ہے۔۔۔۔۔ اب جب مَیں انتہائی اجنبی بن کر(یہاں بھی ایگنوسٹک ہوتا ہوں) صورتحال کو دیکھتا ہوں اور بیان کرتا ہوں تو جمہوری عزاداروں کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ آپ نے اُس کو یا اِس کو گالیاں کیوں نہیں دیں۔۔۔۔۔ کچھ تو ایسے بھی حق پرست فارغ الدماغ ہیں جو باقاعدہ حوالے مانگتے ہیں کہ بتاؤ کب کب فوج کو گالیاں دیں تھی۔۔۔۔۔ مَیں تو یہ کہہ کہہ کر بری طرح بور ہوچکا ہوں کہ خواہشات کو ذرا ایک طرف رکھ کر معاملات کو دیکھ لیا کرو تاکہ کچھ حقیقت سمجھ آسکے مگر اِن کا شاید سمجھنا ہے کہ عشقِ نواز و عشقِ الطاف و عشقِ عمران و عشقِ پی پی کے آگے مکمل اندھیرا ہے۔۔۔۔۔ خواہشات کے حوالے سے ایک ذیلی نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ بہت لمبا، بہت ہی لمبا سفر ہے۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے فی الوقت اکلوتے حق پرست بلاگر نے یہاں میری ہی ایک پرانی تحریر واپس لگائی تھی۔۔۔۔۔ سمجھ تو شاید پہلی دفعہ بھی نہیں آئی تھی مگر واپس وہ تحریر لگا گر مجھے رسید بھی دی کہ واقعی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ لوک داستانوں میں لوگ عشق میں کچھ اور قربان کرتے آئے ہیں مگر یہ ذرا وکھرے لوگ ہیں جو عشقِ الطاف و نواز و عمران میں سب سے پہلے اپنے دماغ کی قربانی دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اِن کی قربانی بارگاہِ الطاف میں قبول ہو۔۔۔۔۔ آمین، ثم آمین۔۔۔۔۔ خیر اُس تحریر میں بھی میرا زور اِس پر تھا کہ معاشروں کے مزاج میں تبدیلی دہائیوں صدیوں میں آتی ہے اور عوام ہی بالواسطہ ذمہ دار ہوتے ہیں اور عوام ہی بلاواسطہ بھگتتے ہیں۔۔۔۔۔

    لبرلز لوگوں کی ذاتی زندگی یا فردی آزادی پر حکم لگانے کے خلاف ہیں جس کی میں بھی حمائت کرتا ہوں، لیکن اگر کسی شخص کے عمل یا لائحہ عمل سے دوسرے لوگوں یا معاشرے کی اجتماعی زندگی متاثر ہو رہی ہو یا ہونے کا خدشہ یا امکان ہو تو یہ بات پبلک پالیسی کے دائرے میں آجاتی ہے اور وہاں ایسے شخص/اشخاص پر قطع نظر لبرل یا رجعت پسند کی بحث کے ضرور حکم لگایا جانا چاہیے اور ان کی نیّتوں پر رائے زنی ہونی چاہیے

    میں آپ کے طاقت کے خلاء والے مقدمے سے خود کو متفق نہیں پاتا، یہ بھی امکان ہے کہ مجھے آپ کا مقدمہ سمجھ ہی نہ آیا ہو۔ جسٹس رمدے کے عدالت میں افتخار چوہدری کی بحالی کے حق میں دلیل دیتے ہوئے فخر جی ابراہیم نے بھی ایک کمال کا جملہ کہا تھا “جو آدمی بندوق لے کر آپ کے سر پر بیٹھا ہے اس کا آپ کیا کریں گے؟” اسلئے میرا نہیں خیال کسی بندوق والے کے سامنے طاقت کا کوئی خلاء ہوتا ہے یا وہ اس کے انتظار میں رہتا ہے اور ہماری تاریخ تو اس سلسلے میں مثالوں سے بھری پڑی ہے

    میرا یہ بھی خیال ہے کہ خواہش سے خالی ہونا انسان کیلئے ممکن نہیں، خواہش سے خالی انسان اپنے تجزیئے کی بنیاد کہاں یا کس حوالے (ریفرینس پوائنٹ) پر رکھے گا؟ ہاں، تجزیئے کی بنیاد/ریفرینس پوائنٹ کا چناؤ انتہائی احتیاط اور حتی الامکان غیر جانبداری سے ہونا چاہیے نہ کہ کسی علاقے، زبان، نسل سے تعلق یا کسیشخصیت سےعشق کی بنیاد پر

    ذاتی طور پر میرے تجزیئے کی آخری بنیاد اکثر اکثریت کی زیادہ سے زیادہ فلاح یا پچھڑے ہوئے لوگ/طبقات ہوتے ہیں، اسی بنیاد پر موجودہ سیاسی جمہوری انتظام کے حوالے سے میرے دو سوال ابھی بھی جواب طلب ہیں

    ایک: جرنیلوں اور نام نہاد خاندانی سیاسی یا فسطائی رہنماؤں کی بے نتیجہ لڑائی میں اکیس کروڑ لوگوں کے ملک کے ساتھ جو زنا ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟

    دو: موجودہ حکومتی انتظام کی اس وقت جو ترجیحات ہیں یا جو انتظامی و مالی اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ کیوں ٹھیک نہیں ہیں؟؟ اور ان کا متبادل کیا ہے؟؟؟

    جمہور کی غیر جمہوری طبیعت والے نکتے سے اتفاق ہے یہ ہمارے جاگیردارانہ ماحول و مزاج اور ذات پات پر مبنی نظام کے تحت لمبے عرصے تک زندگی گذارنے کی تلچھٹ ہے لیکن اس طبیعت کی تربیت کی ذمہ داری بھی ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے آمر مزاج نسل در نسل ہم پر مسلط ہونے والے لیڈروں پر عائد ہوتی ہے کسی جرنیل پر نہیں

    کیونکہ ایک طاقت صرف دوسری اور برتر طاقت کی ہی زبان سمجھتی ہے، طاقت بھیک میں نہیں ملتی، نہ کوئی دیتا ہے، طاقت چھیننی پڑتی ہے بندوق والے سے اپنے یقین، نظم اور تنظیم کی بنیاد پر

    جرنیل کسی مساوات میں مستقل کا کردار ادا نہیں کرتے بلکہ وہ نہ صرف مساوات کے اجزاء کی تخلیق و ترتیب دیتے ہیں بلکہ مساوات کی تشکیل بھی کرتے ہیں اور خود ہی مساوات کی طرفین بن جاتے ہیں

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #160
    بلیک شیپ صاحب ….عام طور پر آپ کے دلائل اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ کوئی آپ سے متفق نہ بھی ہو تو کم از کم دلائل کے وزن سے انکار نہیں کیا جاسکتا …تاہم کچھ ہفتوں سے آپ نے کچھ ایسے نکات اٹھائے ہیں جن سے میں قائل نہیں ہوسکا میں سیکولر نظام کا کتنا بڑا حامی ہوں …میں نے کئی ممبران سے لمبی لمبی بحث کی ہے کہ کیسے یہ نظام ریاست چلانے کے لیے بہتر ہے …لیکن کیا کبھی آپ نے مجھے یہ بحث کرتے دیکھا ہے کہ پاکستان میں اسے زبردستی نافذ کردیا جاۓ؟ نہیں …کیونکہ میرا یقین ہے کہ کسی بھی ملک میں صرف وہی نظام کامیاب ہوسکتا ہے جہاں اس کی اکثریت متفق ہوں ورنہ زبردستی کا ہر نظام ناکام ہوگا …میرا جمہوریت کے بارے میں بھی یہی خیال ہے …پاکستان میں جمہوریت کیوں کامیاب نہیں ہوسکی ہے؟ کیونکہ پاکستان میں لوگ (بڑا طبقہ ) اسے بدیسی نظام سمجھتے ہیں جس میں لوگوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا …لوگ اموی ، عباسی، عثمانی اور مغلیہ دور کو یاد کرتے ہیں جوکہ موروثی بادشاہت پر مبنی تھے …آرمی چیف کی شکل میں انہیں ایک بادشاہ سے ملتی جلتی ایک شکل نظر آتی ہے …زندہ رود نے کچھ دن پہلے ایک پوسٹ لکھا تھا کہ پاکستان کے سیاستدان اگر ڈیلیور کرنے لگ بھی جایئں تو بھی آرمی کے لیے انہیں سائیڈ پر کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا کیونکہ عوام میں جمہوریت کے لیے کوئی خاص محبت نہیں …میرا ذاتی تجربہ ہے کہ عوام کو مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ سے کوئی بھی نجات دلا دے وہ اس کے ساتھ ہیں انہیں جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں آپ نے جب سے آرمی کو ایک کانسٹنٹ کا درجہ دیا ہے اس سے مجھے عورتوں کے حقوق پر ایک مثال یاد آگئی …کیا آپ کی نظر میں مردوں میں عورتوں کے لیے ہوس ایک کونسٹینٹ کا درجہ رکھتی ہے؟ یعنی عورتوں کو ہی اپنے لباس ، چال ڈھال اور رویے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے ورنہ جہاں عورت نے کوئی پردہ وغیرہ اتارا اس کا ریپ ہونے کا خدشہ ہوگا …اگر آپ کی ڈاکٹرائن لے کر ملک میں قانون سازی کی جاۓ تو مردوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاۓ گی بلکہ تمام کا تمام زور عورتوں کو مرقعے میں لپیٹنے پر ہوگا …یہاں میں آئیڈیلزم کی بات نہیں کر رہا…میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کے معاشرے میں کیسے عورتوں کو ان کے جائز حقوق ملنا مشکل ہیں لیکن میں عورتوں کو قصوروار نہیں ٹھہراؤں گا کہ جب تک وہ اپنے حقوق کے لیے نہیں اٹھیں گی ان کو کچھ نہیں ملنا چاہیے میں نے آپ سے سوال پوکچھا تھا کہ کیا بات ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں لوگ جمہوریت کے بارے میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں..پاکستان مختلف کیوں ہے؟ ایاز امیر جیسے فوجی عذر خواہ دانشور انڈیا اور بنگلہ دیش یا سری لنکا میں کیوں نہی ملتے؟ آپ نے یہ تحریر کیا تھا کہ دائمی اداروں نے پاکستان کی صورتحال کو دیکھ کر کچھ بڑے فیصلے کرلیے ہیں …لیکن آج کی صورتحال کیا ننانوے سے بھی بری ہے جب پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ گئی تھیں؟ پاکستان کے دائمی اداروں نے پہلے بھی ملک کو “نا اہل” سیاستدانوں سے ملک کو پاک کرنے کا گرینڈ پلان کئی دفعہ بنایا تھا ..اس دفعہ کیا مختلف ہے …جنرل باجوہ میں آخر ایسی کیا بات ہے جو پہلے جرنیلوں میں نہیں دیکھی گئی؟ ہم لوگ بار بار ایک ہی سانپ سے اپنے آپ کو ڈسوانے کو کیوں تیار ہوتے ہیں؟ یا تو کسی جرنیل نے ایک بار ہی سہی کبھی ڈیلیور کیا ہو تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے جس طاقت کے خلاء کی آپ نے بات کیا ہے وہ ضرور پر ہوتا ہے مگر وہ خلاء بناتا بھی کون ہے؟ فوجی بھی تو عوام سے ہی ہیں …وہ کوئی مریخ سے تو نہیں آئے ..جتنے کرپٹ عوام ہیں ..جتنی وابستگی عوام کو جمہوریت سے ہے اتنی ہی فوج کو بھی ہے آپ نے کہا تھا کہ آپ کا بس تو سیاستدانوں پر ہی چلتا ہے لہذا آپ اسے ہی برا کہیں گے ..یار ہم کوئی پاکستان میں بیٹھے سیاستدان تو نہیں کہ ہمیں کسی ویڈیو کا خوف ہے یا جان جانے کا کا ڈر …ایک گمنام آئی ڈی سے بھی اگر فوج پر تنقید نہیں کرسکتے تو یہاں لکھنے کا کیا فائدہ؟ میرے خیال میں سیاست دنوں پر چوبیس گھنٹے اور اور ان کے شیئر سے زیادہ تنقید ہوتی ہے ..لیکن شاہد عباسی صاحب نے کچھ دن پہلے فرمایا تھا کہ قصور نون اور زرداری کا ہے کہ ایسے بندوں کو ٹکٹ دیا جو صحیح نہیں تھے اور تحریک عدم اعتماد میں بک گئے …کیا اب فرشتوں کو ٹکٹ دیا جاۓ؟ انگریزی کا ایک فقرہ ہے کہ If you can’t beat them, join them! آپ کے ساتھ بھی تو یہی معاملا نہیں ہوا؟ :lol: معاشیات پر بات کرتے وقت بھی آپ نے کم و بیش یہی بات کہی تھی اور بیلنس شیٹ کی مثال دی تھی …برآمدات اور درآمدات میں فرق تجارتی خسارہ …قرضوں کی اقساط، ٹیکس کولیکشن، اور بیرون ملک سے آنے والے پیسے …غرض آپ نے ایک بیلنس شیٹ بنائی اور کہا کہ آمدنی تو یہی رہنی ہے (یعنی پھر وہی مستقل یا کونسٹینٹ) …تو درآمدات کو گھٹا کر ہی کام چلایا جاسکتا ہے …میں نے وہاں بھی عرض کی تھی کہ جس حساب سے آبادی بڑھ رہی ہے …آمدنی مستقل رکھنے (یا بچت کرکے معمولی سی بڑھانے) کا کوئی فائدہ نہیں …صرف درآمدات وقتی طور پر بڑھا کر …خسارہ بڑھا کر …برآمدات بڑھانے پر کام کیا جاۓ تو ہی ڈالرز بڑھنے کا امکان ہے …آپ یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ پلان کا عمل دارآمد صحیح نہیں ہوا ..یا کہ خسارہ اتنا نہیں بڑھانا چاہیے تھا …لیکن سٹریٹجی کو فضول نہیں کہ سکتے امید ہے کہ آپ وقت نکالنے پر کبھی پاکستان کے بنگلہ دیش کی طرح چالیس سے باسٹھ بلین ڈالرز کے بجٹ تک پونھچنے پر بھی بات کریں گے ..کہ یہ کیسے ممکن ہوگا

    تو آپ کے مطابق جرنیلوں کا یہ کھیل عوام کی مرہونِ منت ہے؟
    عوام ہی جرنیلوں کو سیاست دانوں کا نعم البدل سمجھتی ہے اور انہیں اس کام پر شہہ دیتی ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو جنرلز یہ سب کچھ کرتے عوام کے غضب سے ضرور ڈرتے؟؟؟
    آپ کی اس توجیح کو پڑھ کر تو مجھے آپ بھی وہیں کھڑے نظر آتے ہیں جہاں بلیک شیپ صاحب کھڑے ہیں۔ یعنی جرنیلوں کو اس کام سے ہٹانے کی کنجی عوام کے ہاتھ میں ہے۔

    :thinking: :thinking:

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
Viewing 20 posts - 141 through 160 (of 259 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi