Viewing 5 posts - 1 through 5 (of 5 total)
  • Author
    Posts
  • Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    پاکستان فوڈ ایکسپورٹر سے امپورٹر تک

    مرزا اشتیاق بیگ

    قومی اسمبلی کے فلور پر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے اِس انکشاف کہ ’’پاکستان غذائی کمی (Food Deficit) کا شکار ملک بن گیا ہے‘‘ نے ہر پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اِس سے قبل حکومت بجٹ میں یہ بلندبانگ دعوے کرتی رہی کہ ’’پاکستان میں بمپر فصلیں ہوئی ہیں اور زرعی شعبے کی پرفارمنس بہت اچھی رہی ہے۔‘‘ لیکن درحقیقت صورتحال اِس کے برعکس نظر آتی ہے اور اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان فوڈ ایکسپورٹر سے فوڈ امپورٹر ملک بن چکا ہے حالانکہ ماضی میں ہم نہ صرف زرعی شعبے میں خود کفیل تھے بلکہ اربوں ڈالر کی کاٹن اور دیگر زرعی اجناس ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمارہے تھے۔

    پاکستان دنیا میں ایک زرعی ملک کے طور پر پہچانا جاتا ہے جس کا 28فیصد رقبہ زرعی اراضی پر مشتمل ہے۔ زرعی شعبہ ملکی معیشت کا دوسرا اہم شعبہ ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 21فیصد ہے جبکہ ملک کی 45فیصد لیبر فورس کاشتکاری سے منسلک ہے اور اِسی شعبے سے اپنا روزگار کماتی ہے۔ 5بڑے دریائوں اور 4موسموں والا ملک پاکستان کبھی گندم، چینی، کپاس اور دیگر زرعی اجناس ایکسپورٹ کرتا تھا مگر افسوس کہ آج ہم اربوں ڈالر کی گندم، چینی، کپاس اور دیگر زرعی اجناس امپورٹ کررہے ہیں۔ مالی سال 2020-21 کے 11مہینوں میں حکومت نے 7.5ارب ڈالر کی زرعی اجناس امپورٹ کیں جن میں 1.5ارب ڈالر یعنی 237ارب روپے کی کاٹن، 160ارب روپے کی گندم، 100ارب روپے کی دالیں، 90ارب روپے کی چائے، 35ارب روپے کے مصالحہ جات اور 25ارب روپے کی چینی شامل تھی۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ ہم ملکی ضرورت کی 70فیصد دالیں امپورٹ کررہے ہیں جو غریب طبقے کی اہم غذا ہے۔

    زرعی شعبے میں سب سے تشویشناک بات کاٹن کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی ہے۔ ملک کی مجموعی ایکسپورٹس میں 60فیصد حصہ ڈالنے والا ٹیکسٹائل سیکٹر اپنے خام مال دھاگے اور کپڑے کی تیاری کیلئے زرعی شعبے کی اہم فصل کاٹن پر انحصار کرتا ہے۔ 2010سے 2018تک پاکستان میں کاٹن کی اوسطاً 13 ملین بیلز کی پیداوار ہوتی تھی جو گزشتہ 3برسوں میں بتدریج کم ہوکر 5.5ملین بیلز رہ گئی ہے اور یہ گزشتہ 30برسوں کے دوران کاٹن کی کم ترین پیداوار ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں کاٹن کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 1991-92میں پاکستان میں کاٹن کی پیداوار 12.8ملین بیلز اور بھارت میں 11.8ملین بیلز تھی۔ اس طرح پاکستان، بھارت سے ایک لاکھ ملین بیلز کاٹن زیادہ پیدا کررہا تھا مگر آج بھارت زرعی شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (R&D) کی بدولت 34ملین بیلز کاٹن پیدا کررہا ہے جبکہ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار مسلسل کم ہورہی ہے۔

    پاکستان میں زرعی شعبے کو جو مشکلات درپیش ہیں، وہ اچانک ظاہر نہیں ہوئیں بلکہ یہ گزشتہ کئی برسوں کا تسلسل ہے جس کی وجہ سے آج یہ شعبہ اِس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم، چینی اور کپاس کی درآمد پر مجبور ہے جس کی بنیادی وجہ کپاس کے رقبے کی جگہ گنے کی فصل نے لے لی ہے۔ پاکستان میں زرعی پیداوار میں کمی کی ایک اور اہم وجہ زرعی شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا فقدان ہے۔ اس مقصد کیلئے ادارے تو بنائے گئے ہیں مگر ان اداروں کو ملنے والے فنڈز ریسرچ کے بجائے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں کھپ جاتے ہیں۔ اسی طرح زرعی اراضی کو غیرزرعی مقاصد بالخصوص رئیل اسٹیٹ کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اور زیر کاشت زمینوں کو رہائشی اسکیموں میں تبدیل کیا جارہا ہے جس سے ملک کو مستقل زرعی بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ ہے۔

    پاکستان میں خوراک کی طلب میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے اِس وقت دنیا میں چھٹے اور اسلامی ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی آبادی میں ہر 8سیکنڈ بعد ایک نئے فرد کا اضافہ ہورہا ہے اور 1951کی مردم شماری کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی 6گنا بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر بڑھتی ہوئی بےہنگم آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ 30برسوں میں پاکستان کی آبادی دگنی ہو جائے گی جس سے مستقبل میں قحط سالی جیسی سنگین صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

    پاکستان کیلئے آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت روزبروز کم ہوتی جارہی ہے جس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت دیگر زرعی اجناس کی درآمد کی شکل میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں کیش کراپ یعنی گندم، کپاس، چاول اور چینی میں سے صرف چاول کے علاوہ باقی تینوں زرعی اجناس درآمد کی جارہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہوچکا ہے جہاں مستقبل میں فوڈ سیکورٹی کا بڑا خطرہ ہے مگر ہم ابھی تک خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور خوراک کے برآمد کنندہ سے درآمد کنندہ ملک بن چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایکسپورٹر نہ بنیں لیکن کم از کم اپنی خوراک میں اتنے خود کفیل تو ہو جائیں کہ ہمیں بیرون ملک سے خوراک امپورٹ نہ کرنی پڑے۔
    سورس

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #2
    مستقبل میں فوڈ انڈسٹری دنیا کی امیر ترین صنعت بننے جارہی ہے کیونکہ خشک سالی اور موسمی تغیرات کی وجہ سے خوراک کی پیداوار پوری دنیا میں ہی کم ہورہی ہے۔ افسوس کہ پاکستان کے کسی حکمران نے بھی بشمول موجودہ حکمران اس شعبے کیلئے کوی پلاننگ نہیں کی اور بڑے آرام سے خوراک میں بھی خود کفالت کی جگہ دوسروں پر انحصار شروع کردیا ہے۔ ہم کوی سعودیہ یا  یو اے ای نہیں کہ فوڈ امپورٹر بن کر سروائیو کرسکیں۔
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    یہ ڈرامے باز اشتیاق بیگ کو اس بات پر دھچکہ کیوں لگا کہ حکومت نے کہا اس دفعہ پاکستان میں بمپر فصلیں ہوئیں ہیں۔
    یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سال گندم، گنے اور مکئی کی پیداوار نے پرانے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں لیکن کیا اس کا مطلب یہ لینا چاہئیے کہ یہ پیداوار ملکی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔
    بیگ صاحب کا خود ہی کہنا ہے کہ ۱۹۵۱ سے اب تک آبادی چھ گنا بڑھی ہے۔ تو کیا زرعی پیداوار بھی ۱۹۵۱ کے مقابلے میں چھ گنا ہو جانی چاہئیے تھی؟ نہی ایسا نہی ہے۔ قابلِ کاشت رقبہ اس عرصے میں اڑھائی گنا بڑھا ہے۔ اس لئے جیسے جیسے آبادی بڑھتی جائے گی ویسے ویسے ہی ریکارڈ فصلوں کے باوجود گرین شارٹیج کا سامنا رہے گا۔
    پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں نے اگر کوئی ڈیم بنائے ہوتے یا بیج پر ریسرچ کے نام پر پیسہ کھانے والوں کی بجائے اچھے زرعی ریسرچ کے شعبے بنائے ہوتے تو کم ازکم اتنی جلدی ہم فوڈ کے نیٹ امپورٹر نہ بنتے۔ موجودہ حکومت بھاشا اور مہمند کے ساتھ ساتھ سات آٹھ چھوٹے ڈیمز پر اپنی پوری قوت لگا رہی ہے جس سے امید پیدا ہوتی ہے کہ شاید ۲۰۲۸ تک ہم اپنے قابلِ کاشت رقبے میں ایک ملین ایکڑز کا اضافہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کو سیڈ ریسرچ پر اینگیج کیا گیا ہے اوردودھ کی پراڈکشن ڈبل کرنے کے لئے چالیس ارب روپئیے کا سیمن اپمورٹ کیا جا رہا ہے جس سے ہونے والے فوائد دو سے چار سال کے عرصے میں نظر آنے شروع ہوجائیں گے۔ ایڈیبل آئل کے لئے زیتون کی افزائش پر بھی کافی کام ہوا ہے۔ لیکن ان سب اقدامات کے باوجود ہمارا سب سے بڑا دشمن آبادی کے بڑھنے کی شرح ہے۔
    Believer12
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #4
    یہ ڈرامے باز اشتیاق بیگ کو اس بات پر دھچکہ کیوں لگا کہ حکومت نے کہا اس دفعہ پاکستان میں بمپر فصلیں ہوئیں ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سال گندم، گنے اور مکئی کی پیداوار نے پرانے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں لیکن کیا اس کا مطلب یہ لینا چاہئیے کہ یہ پیداوار ملکی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ بیگ صاحب کا خود ہی کہنا ہے کہ ۱۹۵۱ سے اب تک آبادی چھ گنا بڑھی ہے۔ تو کیا زرعی پیداوار بھی ۱۹۵۱ کے مقابلے میں چھ گنا ہو جانی چاہئیے تھی؟ نہی ایسا نہی ہے۔ قابلِ کاشت رقبہ اس عرصے میں اڑھائی گنا بڑھا ہے۔ اس لئے جیسے جیسے آبادی بڑھتی جائے گی ویسے ویسے ہی ریکارڈ فصلوں کے باوجود گرین شارٹیج کا سامنا رہے گا۔ پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں نے اگر کوئی ڈیم بنائے ہوتے یا بیج پر ریسرچ کے نام پر پیسہ کھانے والوں کی بجائے اچھے زرعی ریسرچ کے شعبے بنائے ہوتے تو کم ازکم اتنی جلدی ہم فوڈ کے نیٹ امپورٹر نہ بنتے۔ موجودہ حکومت بھاشا اور مہمند کے ساتھ ساتھ سات آٹھ چھوٹے ڈیمز پر اپنی پوری قوت لگا رہی ہے جس سے امید پیدا ہوتی ہے کہ شاید ۲۰۲۸ تک ہم اپنے قابلِ کاشت رقبے میں ایک ملین ایکڑز کا اضافہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کو سیڈ ریسرچ پر اینگیج کیا گیا ہے اوردودھ کی پراڈکشن ڈبل کرنے کے لئے چالیس ارب روپئیے کا سیمن اپمورٹ کیا جا رہا ہے جس سے ہونے والے فوائد دو سے چار سال کے عرصے میں نظر آنے شروع ہوجائیں گے۔ ایڈیبل آئل کے لئے زیتون کی افزائش پر بھی کافی کام ہوا ہے۔ لیکن ان سب اقدامات کے باوجود ہمارا سب سے بڑا دشمن آبادی کے بڑھنے کی شرح ہے۔

    شاہد عباسی صاحب، ایک قابل فکر تجزیہ دینے کا شکریہ،،،یہ بات درست ہے کہ اشتیاق بیگ کی ن لیگ میں شمولیت ہوچکی ہے۔ پھر بھی اس کے پوائینٹس اچھے ہیں اگر ان پر ہنگامی بنیادوں پر عمل کیا جاے تو اگلے سال ہی بہتری پیدا ہوجاے گی کیونکہ ابھی تک ہماری زرعی زمین موجود ہے اور خشک سالی بھی سواے تھر کے کہیں نہیں  ہے۔

    ایک بات جو آپ نے کی ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور گرین ایریاز کم ہوتے جارہے ہیں۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ اسرائیل اور ڈنمارک  کا ایریا بہت کم ہے۔ (گرین لینڈ بہت بڑا جزیرہ ہے مگر وہاں برف ہے) یہ دونوں ملک دنیا کے بڑے فوڈ ایکسپورٹر ہیں۔ جتنی پیداوار ہم ایک مربع یا پچیس ایکڑ میں لیتے ہیں یہ اتنی ہی پیداوار ایک ایکڑ میں لیتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم پرانے طریقوں سے ابھی تک کھیتی باڑی کررہے ہیں اور دنیا بالکل جداگانہ طریقے آزما رہی ہے؟

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    شاہد عباسی صاحب، ایک قابل فکر تجزیہ دینے کا شکریہ،،،یہ بات درست ہے کہ اشتیاق بیگ کی ن لیگ میں شمولیت ہوچکی ہے۔ پھر بھی اس کے پوائینٹس اچھے ہیں اگر ان پر ہنگامی بنیادوں پر عمل کیا جاے تو اگلے سال ہی بہتری پیدا ہوجاے گی کیونکہ ابھی تک ہماری زرعی زمین موجود ہے اور خشک سالی بھی سواے تھر کے کہیں نہیں ہے۔ ایک بات جو آپ نے کی ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور گرین ایریاز کم ہوتے جارہے ہیں۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ اسرائیل اور ڈنمارک کا ایریا بہت کم ہے۔ (گرین لینڈ بہت بڑا جزیرہ ہے مگر وہاں برف ہے) یہ دونوں ملک دنیا کے بڑے فوڈ ایکسپورٹر ہیں۔ جتنی پیداوار ہم ایک مربع یا پچیس ایکڑ میں لیتے ہیں یہ اتنی ہی پیداوار ایک ایکڑ میں لیتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم پرانے طریقوں سے ابھی تک کھیتی باڑی کررہے ہیں اور دنیا بالکل جداگانہ طریقے آزما رہی ہے؟

    آپ نے ڈنمارک اور اسرائیل کی گندم کی پراڈکشن کو زیادہ ہی بڑھا چڑھا دیا۔ ڈںمارک کی فی ایکڑ پراڈکشن پینسٹھ سے ستر من ہے اور اسرائیل کی اس سے آدھی۔ ہمارے ہاں بھی کچھ علاقوں میں ۵۰ من نکلتی ہے لیکن زیادہ تر علاقوں میں ۳۰ سے ۳۵ من تک ہی اوسط نکلتی ہے۔ ڈنمارک میں زیادہ پیداوار کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں صرف ایک فصل ہوتی ہے۔ یعنی آدھا سال زمین خالی پڑی رہتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ پیداوار بیلجئم میں ہے جہاں فی ایکڑ چھیاسی من گندم حاصل کی جاتی ہے۔ بحرحال ہماری زمین کا موازنہ انڈینز کے ساتھ کیا جانا چاہئیے ۔ مجموعی طور پر انڈیا اور پاکستان کی اوسط فی ایکڑ پیداوار برابر ہے یعنی ۳۰ من فی ایکڑ لیکن صرف انڈین پنجاب کی اوسط دیکھی جائے تو وہ ۳۸ من کے قریب ہے۔
    ویسے ہماری فی ایکڑ پیداوار ترکی اور روس سے زیادہ ہے اور دنیا بھر کے ممالک کی لسٹ میں تقریبا درمیان میں ہے۔ تھوڑی بہت ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تو ہم چار پانچ من زیادہ پیداوار لے سکتے ہیں۔
    غور طلب بات یہ ہے کہ ہر سال پانچ ملین آبادی بڑھ رہی ہے۔ شہروں کے پھیلنے، موٹر ویز کے جال کے پھیلنے اور پانی کی کمی کی وجہ سے قابل کاشت زمین میں کمی ہو رہی ہے۔ اس لئے ہماری امید ڈیمز کے بننے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہمیں فوری طور پر بھاشا کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑے ڈیم کی اشد ضرورت ہو گی۔

Viewing 5 posts - 1 through 5 (of 5 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi