Thread: ویکھ نی ماں
- This topic has 1 reply, 10 voices, and was last updated 6 years, 9 months ago by shahidabassi.
-
AuthorPosts
-
8 Jun, 2017 at 2:55 am #49بھتیجی۔ افسوس یا غمزدہ ہونے ضرورت نہیں ہے۔جتنی خدمت تمہارے حصے میں اللہ نے لکھی تھی اتنی ہی کی۔اب یہ کیا کرو کہ انکی مغفرت کی دعا روزانہ کیا کرو تاکہ ان کی روح کو سکون ملتارہے۔
ہر نماز کے بعد پہلی دعا ان کی مغفرت کے لئے ہی ہوتی ہے ..اور اس کے علاوہ جو بن پڑتا ہے ان کے نام سے کرنے کی کوشش کرتی ہوں .الله ہم سب کی غلطیاں در گزر کرے ..اور ہمارے لئے جنت میں جگہ بنائے رکھے
- local_florist 1 thumb_up 1
- local_florist آپکا اپنا چاچو thanked this post
- thumb_up Believer12 liked this post
8 Jun, 2017 at 3:58 am #50اپنے والد کی طرح ۔۔۔ آپ بھی جلدی مر جانا ۔۔۔۔ تاکہ ۔۔۔ آپ کے بچے بھی ۔۔۔ اپنی ماں ۔۔۔ کی ۔۔۔ ٹھنڈیاں چھاؤاں ۔۔۔ اچھی طرح انجوائے کرسکیں ۔۔الله نہ کرے
- thumb_up 1
- thumb_up Believer12 liked this post
8 Jun, 2017 at 4:47 am #51الله نہ کرےمیں نے اس کو ۔۔۔ احساس دلانے کے لیئے طنزاً۔۔۔۔ لکھا ۔۔۔ کوئی سچی مچی نہیں کہا ۔۔۔۔۔۔
- local_florist 2 thumb_up 1
- local_florist نادان, آپکا اپنا چاچو thanked this post
- thumb_up Believer12 liked this post
8 Jun, 2017 at 5:04 am #52میں نے اس کو ۔۔۔ احساس دلانے کے لیئے طنزاً۔۔۔۔ لکھا ۔۔۔ کوئی سچی مچی نہیں کہا ۔۔۔۔۔۔مجھے اچھی طرح معلوم ہےلیکن میں نے پھر بھی سمجھا کہ دعا کر لوں
- local_florist 2
- local_florist Believer12, آپکا اپنا چاچو thanked this post
8 Jun, 2017 at 2:57 pm #53بلیور بھائی ،پہلی تو آپ ایک بات ذھن نشین کر لیں میں جو بات کرتا ہوں اسکا مشاہدہ اپنے ارد گرد کر چکا ہوتا ہوں ،جہاں پاکستان میں والدین اپنے بچوں کو مذہب کے نام پر بلیک میل کر کہ اپنی خدمات کرواتے ہوں اس معاشرے کا حال ایسا ہی ہو گا جیسا اب پاکستان میں ہے یہاں اچھے یا برے کی بات نہیں ہو رہی اصول کی بات ہے اور جو ماں کا کردار خاص کر پاکستان میں ہے اسپر بحث ہے آپ نے جو یورپ کی مثال دی ہے بلکل بھی ایسا نہیں ہے ،ہاں لوگ اپنے بچوں کو دو سال اور زیادہ تر تین سال کی عمر میں نرسری بھج دیتے ہیں اور خود کام کاج کو نکل جاتے ہیں اور شام کو کام سے واپسی پر بچوں کو اسکول سے اٹھا لیتے ہیں ،ایسا تو نہیں ہوتا کے والدین بچوں کو اسکول بھیج کر خود خر مستیوں میں مشغول ہو جاتے ہیں یعنی بچے نرسری میں اسی وقت تک رہتے ہیں جب تک والدین کام پر ہوتے ہیں ،دوسری اہم بات کے زیادہ تر یورپ میں ماں کو پہلے ایک سال اور کچھ ممالک میں بچے کی پیدائش پر پہلے دو سال مکمل تنخواه پر چھٹی ملتی ہے اب یہ آپ کا دعوه کیا ہوا کے والدین اپنی اولاد کی پرواہ نہیں کرتے ؟ کبھی انکے بچوں کی طرف آپ مسکرا کر تو دیکھیں آپ کو دن میں چاند تارے دکھلا دیں گے اور پھر آپ نے ایک اور پھلجھڑی چھوڑی کے والدین اولاد کو ١٨ کے بعد گھر سے نکال دیتے ہیں ،ایسا نہیں ہے لیکن اسکے لئے کچھ کنڈیشن ہیں پہلی یہ کے اولاد خود بھی والدین کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی کیونکہ وہ اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں دوسری ،وہ والدین پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تیسری ،والدین انکی آزادی پر قدغں نہیں لگانا چاہتے چوتھی ،اگر وہ اپنی تعلیم سے کنارہ کش ہیں تو وہ انپر ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں اور ایک صورت میں والدین اولاد کو اس وقت تک گھر چھوڑنے کا نہیں کہتے اگر بچہ تعلیم حاصل کر رہا ہو ،یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے والدین کہتے تھے اگر پڑھائی نہیں کرنی تو سائیکل کی دکان پر کام سیکھو آپ نے جو یہ بات کی ہے کے ماں اولاد کو ٩ مہینے پیٹ میں رکھتی ہے فکر نہ کریں سائنس عنقریب ماں کو اس مشقت سے بھی چھٹکارا دلوانے میں کامیاب ہونے والی ہے کیا ہمیں اپنے والدین کو اولڈ ہاؤس چھوڑ آنا چاہیے ،یہ کافی غور طلب سوال کیا ہے …سیدھا جواب دوں ،تو ہاں آپ کبھی پاکستان میں رلتے والدین کو دیکھیں تو اولڈ ہاؤس جنت سے کم نہیں ہیں اور والدین کیوں رلتے ہیں ؟کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے لئے کچھ کیا نہیں ہوتا یا اولاد کا سہارے جینے کے خواب دیکھے ہوتے ہیں ،جنکا پایہ تکمیل پہنچنا کبھی ممکن نہیں بھی ہوتا ،تو اپنی بدحالی کے ذمہ دار وہ خود ہیں اولاد نہیں والدین سے لازمی پیار کریں ،جسکا جو حق ہے وہ اسے دیں ،ہر وقت ہائی اما ،ہائی اما نہ کرتے پھریںڈیمو کریٹک بھای میں ناروے کے ایسے علاقے میں تھا جہاں ایک بھی پاکستانی نہیں تھا گوروں کے ساتھ چار سال کام کیا تو ان کا طرز زندگی دیکھ کر ہی یہاں لکھ رہا ہوں ورنہ خواہ مخواہ اندھیرے میں تیر چلانے کی مجھے عادت نہیںآپ دو سال کے بچے پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ میں نے انکے کنڈرگارٹن میں ایک سال کے بچے بھی دیکھے ہیں جنکی نیپیز بھی وہاں کی کئیر مدرز کر رہی تھیں، ایسے بچے بھی دیکھے ہیں کہ وہ ابھی بول نہیں سکتے تھے یعنی چھ ماہ کی عمر کےمیں نے ایک نہیں ایک دو درجن گوروں سے اچھے تعلقات کے ساتھ یہ وقت گزارا اگرچہ بڑا مشکل تھا مگر کافی معلومات ملیں کہ ان کا کلچر کیسا ہےاٹھارہ کا نوجوان پڑھ رہا ہو یا نہ وہ علیحدہ اسلئے ہوجاتا ہے کہ اس کو طعنے ملتے ہیں، میرا ایک کولیگ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا تو باقی نارویجن اسے مذاق کرتے تھے کہ ابھی تک ماما کے ساتھ رہتا ہےکوی شاذونادر فیملی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو اٹھارہ کے بعد بھی ساتھ رکھتے ہیں، یہ بھی درست ہے کہ نوجوان خود ہی علیحدہ ہوجاتے ہیں مگر ایسا اسی لیے ہوتا کہ انکے کلچر میں یہ بات رائج ہوچکی ہےڈیموکریٹک بھای مجھے تو اپنا مشرقی کلچر ہی اچھا لگتا ہے جسمیں ماں بیٹے کے انتظار میں بارہ بجے تک بیٹھی رہتی ہے ، اس کے بچوں اور بہو کی راہنمای کرتی ہےاولڈ ہاوسز میں کبھی آپ نے جاب کی ہو تو ضرور اپنا مائینڈ چینج کرلیں گے میں ان کی ایک ایک کمزوری کو جانتا ہوں،یہ جگہیں بوڑھے والدین کیلئے جیل کی طرح ہیں
- local_florist 2 thumb_up 1
- local_florist آپکا اپنا چاچو, Democrat thanked this post
- thumb_up نادان liked this post
8 Jun, 2017 at 7:45 pm #54ڈیمو کریٹک بھای میں ناروے کے ایسے علاقے میں تھا جہاں ایک بھی پاکستانی نہیں تھا گوروں کے ساتھ چار سال کام کیا تو ان کا طرز زندگی دیکھ کر ہی یہاں لکھ رہا ہوں ورنہ خواہ مخواہ اندھیرے میں تیر چلانے کی مجھے عادت نہیں آپ دو سال کے بچے پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ میں نے انکے کنڈرگارٹن میں ایک سال کے بچے بھی دیکھے ہیں جنکی نیپیز بھی وہاں کی کئیر مدرز کر رہی تھیں، ایسے بچے بھی دیکھے ہیں کہ وہ ابھی بول نہیں سکتے تھے یعنی چھ ماہ کی عمر کے میں نے ایک نہیں ایک دو درجن گوروں سے اچھے تعلقات کے ساتھ یہ وقت گزارا اگرچہ بڑا مشکل تھا مگر کافی معلومات ملیں کہ ان کا کلچر کیسا ہے اٹھارہ کا نوجوان پڑھ رہا ہو یا نہ وہ علیحدہ اسلئے ہوجاتا ہے کہ اس کو طعنے ملتے ہیں، میرا ایک کولیگ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا تو باقی نارویجن اسے مذاق کرتے تھے کہ ابھی تک ماما کے ساتھ رہتا ہے کوی شاذونادر فیملی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو اٹھارہ کے بعد بھی ساتھ رکھتے ہیں، یہ بھی درست ہے کہ نوجوان خود ہی علیحدہ ہوجاتے ہیں مگر ایسا اسی لیے ہوتا کہ انکے کلچر میں یہ بات رائج ہوچکی ہے ڈیموکریٹک بھای مجھے تو اپنا مشرقی کلچر ہی اچھا لگتا ہے جسمیں ماں بیٹے کے انتظار میں بارہ بجے تک بیٹھی رہتی ہے ، اس کے بچوں اور بہو کی راہنمای کرتی ہے اولڈ ہاوسز میں کبھی آپ نے جاب کی ہو تو ضرور اپنا مائینڈ چینج کرلیں گے میں ان کی ایک ایک کمزوری کو جانتا ہوں،یہ جگہیں بوڑھے والدین کیلئے جیل کی طرح ہیںاگر آپ کو اپنا مشرقی کلچرل اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے باوجود اچھا لگتا ہے تو پھر تو بحث کی گنجائش ختم ہو جاتی ہےلیکن یہاں پھر بھی چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کروں گاجی یہ بات سچ ہے کےکچھ لوگ بچوں کو پیدائش کے بعد نرسری میں داخل کروا دیتے ہیں لیکن انکی تعداد محدود ہوتی ہے یعنی جہاں ٣٠ کی کلاس ہو گی تو انمیں سے ٢ یا ٤ بچے ہی دو سال سے کم ہوں گے لیکن زیادہ تعداد ٣ سال کی ہوتی ہے کیوں کہ اس سال کے بعد بچوں کی تعلیم فری ہو جاتی ہے اسے پہلے والدین کو پیسے ادا کرنے ہوتا ہےاور اگر دو چار بچے ٣٠ کی کلاس میں ہوں گے تو یہ کوئی ٹرینڈ سیٹ نہیں ہو گاجہاں تک ١٨ سال کے نوجوان کی بات ہے اسکو تانے اس لئے ملتے ہیں کے وہ سوسائٹی کے مطابق اپنا مقام بنانے ،اپنے آپ پر انحصار کرنے میں ناکام رہا ہے ،اسی لئے نہیں ملتے کے تم والدین کے پاس رہتے ہولیکن یہاں اس نقطے پر غور فرما لیں جو آپ نے تحریر کیا ،اسے پہلے آپ کہ رہے تھے کو والدین سب کو نکال دیتے ہیں اور اب آپ فرما رہے ہیں کے جو والدین کے پاس رھیں ،یعنی آپ نے تسلیم کر لیا کے والدین بچے کو نکالتے نہیں اسمیں اسکی اپنی مرضی بھی شامل ہوتی ہےجہاں تک اولڈ ہاؤس کا تعلق ہے آپ کبھی پاکستان کی گلیوں میں رلتے بزرگوں کو دیکھ لیں تو آپ کے ذھن کی تبدیلی ناگزیر ہے اور ازمائش شرط ہے
8 Jun, 2017 at 7:55 pm #55اگر آپ کو اپنا مشرقی کلچرل اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے باوجود اچھا لگتا ہے تو پھر تو بحث کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے لیکن یہاں پھر بھی چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کروں گا جی یہ بات سچ ہے کےکچھ لوگ بچوں کو پیدائش کے بعد نرسری میں داخل کروا دیتے ہیں لیکن انکی تعداد محدود ہوتی ہے یعنی جہاں ٣٠ کی کلاس ہو گی تو انمیں سے ٢ یا ٤ بچے ہی دو سال سے کم ہوں گے لیکن زیادہ تعداد ٣ سال کی ہوتی ہے کیوں کہ اس سال کے بعد بچوں کی تعلیم فری ہو جاتی ہے اسے پہلے والدین کو پیسے ادا کرنے ہوتا ہے اور اگر دو چار بچے ٣٠ کی کلاس میں ہوں گے تو یہ کوئی ٹرینڈ سیٹ نہیں ہو گا جہاں تک ١٨ سال کے نوجوان کی بات ہے اسکو تانے اس لئے ملتے ہیں کے وہ سوسائٹی کے مطابق اپنا مقام بنانے ،اپنے آپ پر انحصار کرنے میں ناکام رہا ہے ،اسی لئے نہیں ملتے کے تم والدین کے پاس رہتے ہو لیکن یہاں اس نقطے پر غور فرما لیں جو آپ نے تحریر کیا ،اسے پہلے آپ کہ رہے تھے کو والدین سب کو نکال دیتے ہیں اور اب آپ فرما رہے ہیں کے جو والدین کے پاس رھیں ،یعنی آپ نے تسلیم کر لیا کے والدین بچے کو نکالتے نہیں اسمیں اسکی اپنی مرضی بھی شامل ہوتی ہے جہاں تک اولڈ ہاؤس کا تعلق ہے آپ کبھی پاکستان کی گلیوں میں رلتے بزرگوں کو دیکھ لیں تو آپ کے ذھن کی تبدیلی ناگزیر ہے اور ازمائش شرط ہےایسے بے سہارا بوڑھے جنکو ان کے بچے اپنی بدبختی سے چھوڑ چکے ہوں انکے لیے ضرور اولڈ ہاوسز ہونے چاہئیں مگر آپ اور میرے جیسے جو اپنے والدیں کو خود سنبھال سکتے ہیں اولڈ ہاوسز کا سوچنا بھی گناہ ہے کیونکہ خدمت کرنے کا موقع بھی نصیب والوں کو ملتا ہےڈیموکریٹک بھای آپ تو ہاتھ سے نکل گئے لگتے ہو:(
- mood 2
- mood Democrat, آپکا اپنا چاچو react this post
8 Jun, 2017 at 9:05 pm #56ایسے بے سہارا بوڑھے جنکو ان کے بچے اپنی بدبختی سے چھوڑ چکے ہوں انکے لیے ضرور اولڈ ہاوسز ہونے چاہئیں مگر آپ اور میرے جیسے جو اپنے والدیں کو خود سنبھال سکتے ہیں اولڈ ہاوسز کا سوچنا بھی گناہ ہے کیونکہ خدمت کرنے کا موقع بھی نصیب والوں کو ملتا ہے ڈیموکریٹک بھای آپ تو ہاتھ سے نکل گئے لگتے ہوجی بلیور بھائی میں بھی انہی لوگوں کے لئے اولڈ ہاؤس کے قیام کی تجویز دے رہا ہوں جو پاکستان میں رلتے ہیں اور انھیں اولاد قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی ،یہ ایک بد قسمتی ہے لیکن تسلیم کریں یہ حقیقت ہے اور چونکہ یہ حقیقت ہے تو یہاں جذبات کی بجائے حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوے اسکا سدباب کرنا ہو گالیکن یہاں ضمنی سوال کھڑا ہوتا ہے کے آخر والدین یا بزرگ اس حال تک پہنچے کیونکر کے انھیں دوسروں پر سہارا کرنا پڑے ،آخر انھیں بھی اتنے ہی ہاتھ ملے جتنے دوسروں کو ہیں اتنی ہی دماغ ملا جتنا دوسرے افراد کو …تو انھیں نے اپنے مستقبل کے لئے پیش بندی کیوں نہ کی ؟اس بارے رہنمائی فرما دیںجہاں تک میرا تعلق ہے اور مجھے علم ہے کہ میرے خیالات سے لازمی میرے ہم وطنوں کو دھچکا پہنچنے کے شدید خدشات لاحق ہو جاتے ہیں لیکن آپ یقین کر لیں میں آپ کی سوچ کے بلکل برعکس ہوں ،یعنی میرے والدین کو مجھ سے کوئی شکایات نہیں ،وجہ صرف یہ ہے کے مینے کبھی ایسا موقعہ آنے ہی نہیں دیا ،مجھے انکی بات اچھی لگے یا بری کبھی اسے سننے سے انکار نہیں کیا ،عمل کرنے میں اکثر ڈنڈی مار جاتا ہوںآخری بات یہ کے میں اپنے والدین کا محتاج ہوں ،گھر ،گاڑی ،روپیہ پیسا سب کچھ انکا ہی ہے یہ کچھ ایسا ہوا کے جب میرے والد صاحب اپنی جوانی میں تھے تو انہوں نے اپنے بڑھاپے کا سامان مکمل کر لیا مینے اکثر انھیں یہ کہتے سنا مجھے اپنی اولاد پر بوجھ کسی صورت نہیں بننا میں انہیں دینے والا ہوں گا لینے والا ہرگز نہیں اور قسم لے لیں مجھے ہر دو تین مہینے بعد انکے در پر جا کر مالی امداد کی درخواست کرنا پڑتی ہے جسے وہ خاص مہربانی کے تحت رد نہیں کرتےلہٰذا یہاں میں انپر بوجھ ہوں اور اگر وہ چاہیں تو مجھے ١ منٹ میں گھر سے بے دخل کر سکتے ہیں پھر شاید آپ کو ایک جوان ہاؤس بھی تعمیر کرنا پڑےتو بھائی صاحب ،یہ انسانی رویۓ ہوتے ہیں ،اپنی غلطیاں ہوتی ہیں جس کی سزا ہم بگھتتے ہیں اور الزام دوسروں کو دیتے ہیں
- thumb_up 1
- thumb_up Believer12 liked this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.