Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    پاکستان کی قومی اسمبلی میں سنیچر کے روز وزیراعظم عمران خان نے 178 اراکین کی حمایت حاصل کر کے پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے۔ اس وقت ایوان کی معمول کی کارروائی جاری ہے۔ اراکین اپنی تقاریر سے قبل وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے پر مبارکباد دے رہے ہیں۔
    اس موقعے پر وزیر اعظم عمران خان، پنجاب، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر اراکین کے ساتھ اسمبلی ہال میں موجود تھے۔
    اجلاس کے آغاز میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعتماد کے ووٹ کی کارروائی سے متعلق قرارداد پیش کی تھی۔
    اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا قومی اسمبلی میں خطاب
    وزیر اعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اراکین اسمبلی اور اتحادیوں کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ سب کو دل سے تکلیف تھی جس طرح ہم سینیٹ میں حفیظ شیخ کی نشست ہارے ہیں۔ ان کے مطابق یہ سب دیکھ کر انھیں اچھا لگا۔
    عمران خان کے مطابق اس وقت یہ ایک آزمائش ہے جس کا مقصد دیکھنا ہے کہ آپ اس سے کیسے نکلتے ہیں۔ ان کے مطابق پارٹی تب تگڑی ہوتی ہے جب اس پر آزمائش ہوتی ہے۔
    انھوں نے کہا کہ میں اپنی پارٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ اس مشکل وقت سے نکلے ہیں۔ ان کے مطابق کئی اراکین بڑی مشکل سے یہاں پہنچے ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جن کی طبیعیت بھی ٹھیک نہیں تھی۔
    وزیر اعظم عمران نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب قوم اپنے نظرے سے ہٹتی ہے تو پھر وہ مر جاتی ہے۔
    اس کارروائی کے دوران اسمبلی حال میں حزب اختلاف کا کوئی رکن موجود نہیں ہے کیونکہ حزب اختلاف نے اعتماد کے ووٹ کی اس کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔
    قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے یہ اجلاس آئین کے آرٹیکل 91 کی ذیلی شق سات کے تحت طلب کر کے وزیراعظم کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کو کہا۔
    خیال رہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق صدر اس شق کے تحت صرف اسی صورت میں وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کو کہہ سکتا ہے جب اسے یقین ہو کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے اراکین کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
    آئینی اور سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ صدر اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بارے میں کہہ رہا ہے۔
    تاہم حزب اختلاف نے اس اعتماد کے ووٹ کی کارروائی پر متعدد قانونی سوالات اٹھائے ہیں اور اس کارروائی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔
    مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آج صبح وفاقی کابینہ کے اراکین اور پی ٹی آئی کے اتحادیوں کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں حکومت کے اتحادیوں نے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی۔

    اجلاس سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ہنگامہ آرائی

    اجلاس شروع ہونے سے پہلے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے پارلیمنٹ کے باہر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ سوال پوچھا کہ صدر پاکستان نے کس پلیٹ فارم پر وزیر اعظم کو بتایا ہے کہ اب آپ کے پاس اکثریت نہیں رہی اور اب وہ اعتماد کا ووٹ لے۔
    جب سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب، احسن اقبال اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کے بعد واپس لوٹے تو وہیں بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے کارکنان بھی موجود تھے، جس کے بعد وہاں دونوں جانب سے دھکم پیل دیکھنے میں آئی۔
    سکیورٹی اہلکاروں نے صورتحال پر قابو پا لیا تو اس کے بعد ایک بار پھر لیگی رہنماؤں نے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف کے حامیوں نے ان پر حملہ کیا اور گالم گلوچ کی۔
    حزب اختلاف کی جانب سے قومی اسمبلی کی اس کارروائی کا بائیکاٹ کا فیصلہ جمعے کی شام پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے اہم اجلاس میں کیا تھا، جس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان پر عدم اعتماد سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کی صورت میں ہو چکا ہے۔
    ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا کوئی رکن اس اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا اور یہ کہ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد اس اجلاس کی کوئی سیاسی حیثیت باقی نہیں رہ گئی۔
    مولانا فضل الرحمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیا عمران خان سنیچر کو انھی ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینا چاہتے ہیں جو ان کے بقول بک گئے تھے۔
    بلاول بھٹو زرداری کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن اپنی مرضی کے وقت اور جگہ پر تحریکِ عدم اعتماد لائے گی

    عمران خان کو اعتماد کے ووٹ کی ضرورت کیوں پڑی؟

    وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ سینیٹ کے انتخابات کے دوران وفاقی دارالحکومت کی نشست پر حکومت کی غیرمتوقع شکست کے بعد کیا۔
    سینیٹ کے لیے اس نشست کے انتخاب میں قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کی عددی اکثریت کے باوجود متحدہ اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کوپانچ ووٹوں سے شکست دی تھی۔
    اس شکست کے بعد جہاں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہو کر نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ سامنے آیا تھا وہیں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ خود ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے کر یہ ثابت کر دیں گے انھیں اب بھی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔
    انھوں نے جمعرات کی شام قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ اکثریت کا خاتمہ عدم اعتماد نہیں ہوتا اور اپوزیشن کا مقصد یہ تھا کہ سینیٹ انتخابات کے نتائج کو استعمال کرتے ہوئے اُن کی حکومت پر ’عدم اعتماد کی تلوار لٹکا دیں‘ لیکن وہ خود ہی اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
    انھوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ ارکان اسمبلی اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں اور اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھیں اپنے وزیراعظم پر اعتماد نہیں رہا اور وہ انھیں اہل نہیں سمجھتے تو وہ حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں چلے جائیں گے۔
    عمران خان سنہ 2018 کے عام انتخابات میں اپنی جماعت تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد پارلیمنٹ سے 176 اراکین کا اعتماد حاصل کر کے وزیراعظم بنے تھے۔
    عمران خان نے کہا تھا کہ وہ خود ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے کر یہ ثابت کر دیں گے انھیں اب بھی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے
    تاہم اگر آئین کے آرٹیکل 63 اے (ون) (بی) کو دیکھا جائے تو بظاہر اعتماد کا ووٹ لینے میں وزیراعظم عمران خان کو کوئی مشکل درپیش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ سینیٹ الیکشن میں پارٹی کے ہدایت کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان اگر اعتماد کے ووٹ کے موقع پر ایسا کرتے ہیں یا ووٹ دینے سے اجتناب برتتے ہیں تو وہ اسمبلی کی رکنیت سے نا اہل ہو سکتے ہیں۔

    اعتماد کا ووٹ کیا ہے اور اسے حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

    پارلیمنٹ میں اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اراکین ایک منتخب قانون ساز رکن کو وزیراعظم بنانے یا برقرار رکھنے پر اپنا اعتماد ظاہر کرتے ہیں۔ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہی ایک شخص وزیر اعظم کا حلف اٹھاتا ہے۔

    وزیراعظم کی پانچ سالہ مدت کے دوران اسے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ کچھ یوں ہے:

    پارلیمان کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے تمام اراکین کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے ایوان میں پانچ منٹ تک گھنٹی بجائی جاتی ہے۔
    اس کے بعد لابی کی طرف جانے والے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ کسی کو اندر سے باہر جانے اور باہر سے اندر آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
    اس کے بعد سپیکر اسمبلی کے سامنے وزیراعظم پر اعتماد سے متعلق قرارداد پڑھتا ہے اور اراکین کو، جو قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالنا چاہتا ہیں، ایک قطار میں داخلی راستے کی جانب جانے کا کہتا ہے، جہاں ہر ممبر کا ووٹ ریکارڈ کرنے کے لئے ’ٹیلرز‘ یعنی اسمبلی اہلکار موجود ہوتے ہیں۔
    ہر ممبر ’ٹیلر‘ کی میز پر پہنچنے پر قواعد کے تحت الاٹ کردہ ’ڈویژن نمبر‘ پکارے گا۔
    ’ٹیلر‘ ممبر کا نام پکارتے ہوئے ڈویژن لسٹ سے اس کا نام کاٹ دے گا۔ وہاں سے آگے بڑھنے سے پہلے ممبر کو رُک کر واضح طور پر اپنا نام سننا ہو گا تاکہ اس کے ووٹ کو صحیح طرح سے ریکارڈ کیا جا سکے۔
    اپنے ووٹ کے اندراج کے بعد ممبر پارلیمان کو لازمی طور پر چیمبر چھوڑنا ہو گا اور ان کی واپسی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ ایک بار پھر گھنٹیاں نہ بجیں۔
    جب اسپیکر کو یہ معلوم ہو جائے گا وہ تمام اراکین جو وزیر اعظم کو ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں، نے اپنے ووٹ درج کروا دیے ہیں، تو وہ اعلان کرے گا کہ ووٹنگ ختم ہو گئی ہے۔
    اس کے بعد سیکرٹری ڈویژن کی فہرستوں کو جمع کرے گا، درج ووٹوں کی گنتی کرے گا اور اس کا نتیجہ سپیکر کے سامنے پیش کرے گا۔
    اس کے بعد پھر سے دو منٹ تک گھنٹی بجے گی تاکہ قانون سازوں کو چیمبر واپس بلا لیا جائے۔ ان کی واپسی پر سپیکر نتائج کا اعلان کرے گا۔
    اسپیکر صدر کو قرارداد منظور یا مسترد ہونے سے متعلق نتائج کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ کرے گا۔ سیکرٹری کے لیے ضروری ہے کہ وہ نتائج کا نوٹیفکیشن گزٹ آف پاکستان میں شائع کروائے۔

    ماضی میں کن وزرائے اعظم نے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیا؟

    یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلا موقع نہیں کہ کسی وزیراعظم کو اپنے دورِ اقتدار میں ایوان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا مرحلہ درپیش ہوا ہو۔
    سیاسی نظام میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں بحران تھم جائے اور حکومت اعتماد کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکے۔
    ماضی میں ایک ہی بار ایسا ہوا لیکن وزیر اعظم کو اعتماد ملنے کے باوجود سیاسی کشیدگی ختم نہیں ہوئی۔ 27 مئی 1993 کو جب نواز شریف نے اپنی حکومت کی بحالی کے بعد ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے رجوع کیا تھا تو 123 ارکان کی حمایت سے انھیں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
    قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری طاہر حنفی کے مطابق وہ کارروائی قومی اسمبلی کے ضابطہ 285 کے تحت ہوئی تھی جس میں ہاتھ کھڑے کر کے اعتماد کا ووٹ دیا گیا تھا۔
    ١٩٩٣ اور 2021 میں ممکنہ طور پر ہونے والے اعتماد کے ووٹ میں کیا فرق ہے؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ موجودہ کارروائی آئین کی دفعہ 91 شق ٧ کے تحت ہو رہی ہے جس کی تحریر کا ترجمہ یہ ہے کہ صدر مملکت کو اب یہ اعتماد نہیں رہا کہ وزیر اعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56289289

    Aamir Siddique
    Participant
    Offline
    • Expert
    #2
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3

    یوسف رضاگیلانی کرپٹ ترین آدمی ہے ‘گیلانی کے وزیراعظم بننے سے پہلے اور بعد کے اثاثے چیک کریں سب پتہ چل جائے گا، عمران خان کا سولہ ضمیر فروشوں سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد خطاب

    مانا کہ ستر سال کی عمر میں شادی ہو تو مجبوری شوہر کو بہت کچھ برداشت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے. حتی کہ آشنا کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے موقع پر پکڑی جانے والی بیوی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اسے وفادار تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے

    اگر شوہر نے آشنا کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے موقع پر پکڑی جانے والی بیوی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اسے وفادار تسلیم کر لیا ہے تو اس کے آشنا پر لال پیلے ہو کر غصہ نکالنا نہایت ہی کم ظرفی کی علامت ہے

    آج مجھے خاور مانیکا کی اعلی ظرفی یاد آ رہی ہے جس نے کہا تھا کہ

    عمران خان جیسا بھلا مانس آدمی اور بشریٰ جیسی نیک بیوی نہیں دیکھی ہے

    کاش عمران خان نے خاور مانیکا سے ہی کچھ سیکھا ہوتا

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    خاور مانیکا کے بیان کا خلاصہ یہ بنتا ہے

    بشری دنیا کی سب سے نیک عورت ہے مگر میرے کام کی نہیں اس لئے میں ایک نئے ماڈل کی یوزڈ پندرہ سو سی سی سابقہ مالک ایک ، ٹویوٹا آلٹس لینے جارہا ہوں

    :facepalm:

Viewing 4 posts - 1 through 4 (of 4 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi