Thread: نون لیگ کے حرامی پنے
- This topic has 4 replies, 4 voices, and was last updated 2 years, 5 months ago by unsafe.
-
AuthorPosts
-
20 Oct, 2021 at 7:53 pm #1
وہ سیاسی جماعتیں جن کے ہم مخالف ہیں، ہماری ان پر ہر نظر ہی تنقیدی ہوتی ہے۔ یوں ہمیں ان کے حرامی پنے آسانی سے نظر بھی آجاتے ہیں اور ہم ان پر بات کرکے لوگوں کو متوجہ بھی کر لیتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ جماعتیں جن کے ہم حامی ہوتے ہیں، ہماری بس “پیار” والی نظر ہی پاتی ہیں۔ ان کی بڑی غلطیاں بھی ہماری نظروں میں آجائیں تو ہم “حسن ظن” سے کام لے کر ان کی توجیہ پیش کرنے لگ جاتے ہیں۔ یوں ہمیں سب سے زیادہ خطرہ اپنی ہی حمایت یافتہ جماعت سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم یہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہوتے کہ یہ جماعت بھی کوئی حرامی پنا کر سکتی ہے۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ انسان نقصان وہیں سے اٹھاتا ہے جہاں سے وہ غیر محتاط ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بہت باریک بینی کے ساتھ سب سے گہری نظر خود نون لیگ پر ہی رکھتا ہوں۔ کیونکہ یہ میری حمایت یافتہ جماعت ہے۔ اگر کوئی نوجوان یا بزرگ میرے کسی استدلال سے متاثر ہوکر اس جماعت کا حامی ہوا اور نقصان اٹھایا تو میں ہی اس کا ذمہ دار ہوں گا۔ حرامی پنے تو ان کے پوری “ووٹ کو عزت دو” تحریک کے دوران ہی نظر آتے رہے مگر چونکہ وہ ان کی قیادت کے لئے ابتلا کا دور تھا سو ان حرامی پنوں کو زیربحث لانا مناسب نہ تھا۔ اب ان کا ابتلا کا دور ختم ہوچکا۔ انہیں کھل کر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ یوں لازم ہے کہ اب اس جماعت کی حمایت کے ساتھ ساتھ اس کے حرامی پنے بھی زیر بحث لائے جائیں۔ اور اس کے ہر سنجیدہ حامی کو چاہئے کہ اسی طرز عمل پر چلے۔
اس جماعت کا سب سے بڑا حرامی پنا یہ ہے کہ اس کی “ووٹ کو عزت دو تحریک” قطعا اس مقصد کے لئے نہیں ہے کہ ملک کا نظام تبدیل کیا جائے اور فوج کی سیاست میں مداخلت ہمیشہ کے لئے ختم کروائی جائے۔ اگر ان کی تحریک اسی مقصد کے لئے ہوتی تو پھر یہ موجودہ حکومت کے خاتمے کو اپنے ایجنڈے سے خارج رکھتی۔ اور ملک کو جام کرکے اگلوں کو مجبور کرتی کہ سارے سٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر بٹھا کر نیا نظام طے کریں ورنہ ہم ملک کو اب پرانے نظام کے تحت نہیں چلنے دیں گے۔ لیکن اس کے برخلاف ان کی جد و جہد یہ ہے کہ فوج کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ سلیکٹڈ کی حمایت ترک کرکے اسے چلتا کرے اور فورا نئے انتخابات کرائے۔ کیونکہ اس بار ہمیں گندے نظام میں ہی پچھلی بار سے زیادہ ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ میرا اعتراض یہ نہیں کہ یہ اپنی حمایت کیش کرانے کے لئے فوری انتخابات کیوں چاہتے ہیں ؟ میرا اعتراض یہ ہے کہ جب نظر آپ کی اب بھی پرانے نظام کی برکت پر ہے تو پھر ووٹ کو عزت دو کا ڈرامہ کیوں ؟ کیا پرانے فرسودہ اور پٹے ہوئے نظام میں ووٹ کو عزت مل سکتی ہے ؟ اگر اسی نظام کے تحت الیکشن ہوئے تو انہیں تو آپ صاف و شفاف اسی صورت مانیں گے کہ نتیجہ آپ کے حق میں ہوا۔ لیکن اگر آپ کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہوگیا تو آپ تو نتائج ہی مسترد کردیں گے۔ کیا ایسی صورت میں آپ پر یہ اعتراض جائز نہ ہوجائے گا کہ آپ نے نئے نظام کے دعوے سے دستبردار ہوکر پرانے نظام کے تحت انتخابات مانگے ہی کیوں تھے ؟کیا آپ جانتے نہ تھے کہ پرانے نظام میں کیا ہوتا ہے ؟
آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ میں ووٹ کو عزت دو والے نعرے اور تحریک کو ڈرامہ کیوں کہہ رہا ہوں ؟ سو اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ آپ کو یاد ہے پچھلے سال تک یہ جماعت ایک “گرینڈ ڈائیلاگ” کی بات کر رہی تھی ؟ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران یہ چپکے سے اس سے دستبردار ہوئی کہ نہیں ؟ اب آپ کو اس کا ذکر ان کی زبان پر ملتا ہے ؟ یہ ہے ان کا پہلا حرامی پنا۔ ان کا دوسرا حرامی پنا یہ ہے کہ جب ووٹ کو عزت دو تحریک شروع ہوئی تو نواز شریف اور مریم نواز نے پوری فوج کو نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ فوج کی پوری “جرنیل کلاس” کو نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ وہ ایک اجتماعی بات کرتے کسی فرد واحد کا ذکر نہ ہوتا۔ بات “ستر سال” کی کرتے، اور کسی کو نامزد کرنے کے بجائے جمع کا جملہ بولتے ہوئے “وہ۔۔ انہوں نے۔۔ان کے ہاتھوں” جیسے جملے استعمال کرتے۔ اب اگر ہم مان لیں کہ یہ تحریک دن بہ دن کامیاب ہو رہی تھی تو پھر تو لازم تھا کہ ان عمومی جملوں کو برقرار رکھا جاتا ۔ اور اسی طرح آگے بڑھا جاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ جرنیلوں کی بجائے یہ پسپا ہوئے۔ اور وہ یوں کہ انہوں نے پوری جرنیل کلاس میں سے تین کے نام لے کر انہیں نامزد کردیا۔ گویا “ستر سال کا حساب” ختم اب صرف 2018 کا حساب مانگا جائے گا۔ نظریاتی ابا اور ان کی پیتل کے گلاس والی نظریاتی صاحبزادی کی جانب سے کچھ عرصہ تو یہ تین نامزد افراد والا ریٹ ہی رکھا گیا۔
یہ آپ کو آگے چل کر معلوم ہو ہی جائے گا کہ اس جملے میں “ریٹ” لفظ کیوں استعمال ہوا۔ فی الحال اس نکتے کی جانب آیئے کہ ہمیں پورے تیقن کے ساتھ بتایا گیا کہ پنجاب جاگ گیا ہے اب تو تحریک اپنے پیک پر ہے۔ اور ساتھ ہی پی ڈی ایم کے لانگ مارچ اور دھرنے کی باتیں شروع کردی گئیں۔ لیکن اچانک پیپلز پارٹی کھسک گئی۔ کیونکہ اس کی تو پہلے سے ہی جرنیلوں کے ساتھ سیٹنگ طے ہے۔ وہ پیپلز پارٹی جس کا پنجاب سے جنازہ نکل چکا ہے اس کے کھسکنے کے نتیجے میں لانگ مارچ کی کہانی ہی لپیٹ دی گئی۔ پیپلز پارٹی کھسک گئی تو کیا ہوا ؟ پنجاب پیپلز پارٹی کے لئے تو نہیں جاگا تھا۔ وہ تو مریم اور ان کے ابا کے لئے جاگا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کھسکنے پر مریم نواز اس جاگے ہوئے پنجاب کو لے کر اسلام آباد پر چڑھائی سے کیوں گریزاں ہوئیں ؟ اگر تاریخ میں پہلی بار جاگنے والا پنجاب اسلام آباد پر چڑھائی کے لئے ناکافی ہے تو پھر یہ “جاگ” کس کام کی ؟ایسی جاگ کی بتیاں بنا کر اپنے ٹویٹر والے چمچوں میں بانٹ دیجئے۔ جرم صرف یہ نہیں کہ یہ لانگ مارچ سے دستبردار ہوئے بلکہ یہ ہے کہ یہ مزید پسپا ہوکر تین ناموں سے ایک نام یعنی جنرل فیض حمید پر آگئے۔ یعنی تماشا دیکھئے کہ پٹھان مولانا فضل الرحمن ہیں اور15 ہزار والا قالین پانچ سو میں مریم نواز بیچ رہی ہیں۔ یہ ستر سال کے حساب سے دستبردار ہوکر صرف تین جرنیلوں پر آئے۔ اور پھر تین جرنیلوں سے صرف ایک جنرل فیض حمید پر آگئے۔ کیوں ؟ صرف اقتدار کے لئے۔ بخدا یہ جنرل فیض کے نام سے بھی دستبردار ہونے کو تیار ہیں مگر اس کے لئے بس ایک فون کال چاہتے ہیں۔ یہ ہے ان کا دوسرا حرامی پنا کہ ووٹ کی عزت کا لیبل لگا کر ایکسپائری نظام ہی بیچا جا رہا ہے۔ جاگا ہوا پنجاب ان کے لئے نظام کی تبدیلی کا ٹول نہیں بلکہ فقط ایک “ووٹ بینک” ہے جسے کیش کرانے کو یہ بیتاب ہیں۔
میں عطاء الحق قاسمی نہیں ہوں کہ سفیر یا ایم ڈی پی ٹی وی بننے کے چکر میں حرامی پنے بھی سونا بتا کر بیچوں۔ میں عرفان صدیقی بھی نہیں ہوں کہ مشیری کی آرزو میں گوبر کو زعفران بتاؤں۔ اور نہ ہی میں وجاہت مسعود ہوں کہ کسی ایسے قومی اعزاز پر نظر ہو جو اب ارشد شریفوں اور مہوش حیاتوں کو بھی مل جاتا ہے۔ مجھے آپ کے منشور اور سیاسی ایجنڈے سے غرض ہے بس۔ وہ ٹھیک رکھیں گے تو ہم آپ کو سر پر رکھیں گے۔ حرامی پنا کریں گے تو اپنا تو ٹریک ریکارڈ ہی یہ ہے کہ دیوبندی ہوکر سخت ترین تنقید دیوبندیوں پر ہی کرتے ہیں۔ ملا ہوکر ملا کو نہیں بخشتے۔ آپ کے پٹوار خانے کو بھی دیکھ لیں گے
نوٹ: پلیز کمنٹس میں یہ چورن نہ بیچنا شروع کر دیجئے گا کہ “اقتدار میں آکر نظام تبدیل کریں گے” اقتدار میں تو یہ اتنے پست لیول پر چلے جاتے ہیں کہ جرنیلوں کے جذبات مجروح کرنے پر اپنے وزیروں اور مشیروں سے استعفے لے لیتے ہیں۔ یاد ہے نا پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان وغیرہ کے ساتھ کیا کیا تھا ؟بشکریہ …. رعایت اللہ فاروقی
23 Oct, 2021 at 6:37 pm #3بڑوں کی بات میں بچے نہیں بولا کرتے ۔۔۔۔۔ جب با ت کا ۔۔۔۔ سر۔۔۔۔ پیر ۔۔۔۔ ہی نہ پتہ تو۔۔۔۔۔۔ صفحے کالے کرکے ضا ئع کرنے والی با ت ہےکالم نگار نے تمہارے جیسے دوغلے لوگوں کی پینٹ اور دھوتی نیچے کر کے تمہاری ننگی تشریف پر چھتر مارے ہیں۔ اب برف سے ٹکور کر۔
24 Oct, 2021 at 7:25 pm #4کالم نگار نے تمہارے جیسے دوغلے لوگوں کی پینٹ اور دھوتی نیچے کر کے تمہاری ننگی تشریف پر چھتر مارے ہیں۔ اب برف سے ٹکور کر۔تیرے اور با کسری ۔۔۔۔ کے لیے ۔۔۔۔ ہوگا کالم نگار میرے حساب سے تو ۔۔۔ پھد و ۔۔۔۔ پھٹیچر ۔۔۔ چولیں ماررھا ہے ۔۔۔۔
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
26 Oct, 2021 at 1:19 pm #5بھائی جان جان کچھ ایسے بھی وفا دار قسم کے نمک حرام ہوتے ہیں .. کہ جس جماعت کا نمک کھا لیں چاہے وہ نمک حرام کا ہی کیوں نہ ہو … اس جماعت سے نمک حرامی کا سوچ بھی نہیں سکتے …. ایسے ہی نمک حراموں کے بارے غالب نے فرمایا تھا …
نمک حرامی بشرط استواری اصل ایماں ہے -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.