Viewing 13 posts - 21 through 33 (of 33 total)
  • Author
    Posts
  • shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #21
    شاہد بھائی، آپ نے میرا جو تبصرہ قوٹ کیا ہے اسمیں میں نے فوج کے عناصر کا پی ڈی ایم کی پشت پناہی کے بارے میں کویی تجزیہ پیش نہیں کیا ہے ہاں اپنے پچھلے ایک تبصرے میں اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ فوج کے ہی کچھ عناصر میں کچھ لوگ پی ڈی ایم کی پشت پناہی کررہے ہوں. ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ فوج میں ایک بہت بڑا طبقہ میاں صاحب سے ہمدردی رکھتا ہو گا اور ہو سکتا ہے عمران خان کو پسند نہ کرتا ہو خصوصا حکومت کی انتہائی نقص کارکردگی کے چلتے بھی یہ ناراضگی بڑھ رہی ہو مگر ڈسپلن کی وجہ سے خاموش ہو. فوج کے ہائر رینکس میں باجوہ صاحب کی ایکسٹنشن کی وجہ سے کچھ افسران کا ان سے ناراض ہونا بھی قابل فہم ہے ماضی میں وکلا تحریک کے بارے میں شنید رہی ہے کہ کیانی صاحب نے اسکو ہوا دینے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا اور مشرف کی رخصتی کا سب سے زیادہ فائدہ بھی کیانی صاحب کو ہوا تھا. دوسرے خان نے ایک سے زیادہ مرتبہ حالیہ دنوں میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ حکومت جاتی ہے تو جائے مگر میں نے چوروں کو نہیں چھوڑنا ہے تو سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسکی روایتی بونگی ہے یا دال میں کچھ کالا بھی ہے؟ یہ بہرحال ایک امکان ہے اور پاکستان کے تناظر میں عجیب و غریب امکانات کی گنجائش ہمیشہ برقرار رہتی ہے .

    پاکستانی سیاستدانوں کے حوالے سے عوام مفادات کے خلاف خصوصا بلدیاتی اختیارات کو غضب کرنے والے آپ کے مشاہدے سے سو فیصد متفق ہوں لوگوں کی ایسی ذہنیت بن گئی ہے کہ بلدیاتی سطح کے منصوبوں کی شروعات ، انکا افتتاح اور انکا کریڈٹ وزیر اعلی اور وزیر اعظم کی سطح سے لیا جاتا ہے مگر آپ اس بات پر بھی غور کریں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آپ نے ایک طرح سے میری ہی بات کی تصدیق کی ہے کہ اگر سیاستدان فوجی فیکٹری کی پیداوار ہوگا تو اسکے ذاتی مفادات اور عوامی مفادات میں اشتراک کم سے کم ہوگا اور کہیں تو یہ عوامی مفادات کے معکوس ہی ہوگا آپ نے جیسا کہ اپنے تبصرے میں فرمایا ہے کہ اصولی طور پر اور مغربی ممالک میں تو شاید سیاستدان اور عوامی مفادات میں اشتراک ہوتا ہے اور وہاں ایسا اسی لئے ہوتا ہے کہ وہاں کی فوج انتخابی عمل میں من مانی نہیں کرتی ہے اور یہی ہماری بھی منزل ہونی چاہئے ہماری فوج بھی بجائے سیاست کو کنٹرول کرنے کے اگر سول اداروں یعنی الیکشن کمیشن، میڈیا ، پولیس، احتسابی اداروں اور عدلیہ کے پیچھے اپنا وژن رکھ دے اور ہر قسم کی بد معاشی سے ان اداروں کو محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے تو کچھ بعید نہیں ہے کہ ایک ڈیڑھ دھائی میں جمہوری کلچر پروان چڑھ جائے اور ہماری تنقید فوج پر اور بوٹ چاٹیوں پر اسی حوالے سے ہوتی ہے

    آپ نے نون لیگ کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے حوالے سے انتہائی دلچسپ نکتہ بیان کیا ہے جو کہ گاہے بگاہے شاید آپ اپنے پرانے تبصروں میں بھی بیان کرتے آئے ہیں مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ آپ نے اس وجہ پر کسی قسم کا اعتراض یا تبصرہ نہیں کیا ہے جسنے آپ کے بقول نون لیگ کو معیشت کو دانستہ نقصان پہنچانے پر مجبور کیا تھا . میرا اپنا خیال ہے کہ اسحاق ڈار اتنا قابل وزیر خزانہ نہیں تھا کہ اپنی مرضی سے معیشت کو انگلیوں پر نچاسکے . موجودہ حکومت کی نالائقی اور ناہلی کی وجہ سے اربوں ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ زرعی اجناس اور ایل این جی کی درآمد پر خرچ ہورہا ہے. میری انتہائی غیر پیشہ ورانہ دانست میں تجارتی خسارہ میں کمی کا جو ڈھنڈورہ موجودہ حکومت پیٹ رہی ہے اسکی بنیادی وجہ معیشت میں آہستگی اور ترسیلات زر میں اضافہ ہے ، جب معیشت تیری سے ترقی کرے گی تو درآمدات پھر سے بڑھیں اور یہ تجارتی خسارہ پھر سے بڑھ جائے گا اس پر طرہ نا اہلی کی وجہ سے اربوں ڈالر کے ضیاع کی وجہ سے حالت مزید خراب ہوں گے . جو بات موجودہ حکومت کی قابل تعریف ہے وہ ترسیلات زر میں اضافہ کے لئے اوور سیز پاکستانیوں کے ڈالر ، یوروز ،ریال و دھرم کو لبھانے کی کوشش ہے اور انکو تعمیراتی شعبہ میں سرمایہ کاری کی ترغیب ہے آپ اور ہم دونوں جانتے ہیں کہ تعمیراتی شعبہ میں سرمایہ کاری سے معیشت عارضی طور پر ضرور مستحکم ہوگی مگر دور رس ترقی کے لئے برآمدات میں اضافہ نا گزیر ہے

    گھوسٹ بھائی۔ یہ تو ایک قدرتی امر ہے کہ حکومتی اہل کار بھی انسان ہونے کے ناطے مختلف سیاسی پارٹیوں کی لئے ہمدردی رکھتے ہیں لازما ایسا فوج میں بھی ہو گا۔ لیکن فوج کے ڈسپلن میں ایسا نہی ہوتا کہ کچھ اہل کار فوج کے خلاف کسی پارٹی یا اتحاد کو سپورٹ کر رہے ہوں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ظاہری طور پر انٹیلیجنس اداروں کے کچھ اہل کار پی ڈی ایم سے رابطے میں رہتے ہوں اور انہیں گائیڈ بھی کرتے ہوں لیکن ایسا وہ فوج ہی کی وسیع تر حکمت عملی کے تحت کر رہے ہوتے ہیں کہ کسی دھڑے کو فوجی چاہے نا پسند بھی کرتے ہوں تو اس میں بھی اپنا اثرورسوخ بنائے رکھتے ہیں اور ان کا ہاتھ ہمیشہ ایک سے زیادہ پارٹیوں پر ہوتا ہے۔۔ باقی اخبار نویس بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں جیسا کہ کیانی کے بارے میں کسی نے لکھ دیا کہ وہ وکلاء تحریک کے پیچھے تھا۔ عجیب بات ہو گی کہ اس اخبار نویس کو تو یہ معلوم پڑ گیا اور ساری قوم کو بھی لیکن مشرف کو اپنی ساری انٹیلیجنس کے باوجود اس بارے شک بھی نہی ہوا اور جاتے جاتے وہ کیانی ہی کو آرمی چیف بھی بنا گیا۔ ایسی باتیں قیاس آرائیوں تک تو ٹھیک ہوتی ہیں لیکن حقیقت سے دور ہوا کرتی ہیں۔ اس وقت کے آئی بی کے چیف برگیڈیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ بھی اس بات کو بڑے مزاحیہ انداز میں یہ کہتے ہوئے رد کرچکا ہے کہ افتخار چوہدری کے خلاف تو سارا ریفرنس اور اس کی چھٹی کا پلان ہی کیانی کا بنایا ہوا تھا۔

    رہی بات کہ کیا ہمارے سیاست دانوں کے فوجی فیکٹریوں سے نکلنا اس بات کی وجہ ہے کہ ان کے مفادات عوامی مفادات سے مسابقت کم ہی رکھتے ہیں تو میں اس لاجک کو سمجھنے سے آری ہوں کہ اگر نواز شریف اور بھٹوفوجی فیکٹری سے نکلے تھے تو اس کی وجہ سے ان کے مفادات عوام کے مفادات سے متصادم کیوں ہونگے۔ کیا فوجی فیکٹری نے انہیں بلینز آف ڈالر کا گھپلا کرنے کا کہا ہوگا یا پھر انہوں نے انہیں یہ سبق پڑھایا ہو گا کہ بلدیاتی اداروں کو ختم کردو۔ بلکل اسی طرح اب دو سال ہونے کو ہیں تو پنجاب اور کے پی میں پاور اور فنانسز کوبلدیاتی سطع پر تقسیم کرنے میں اس حکومت کے رشتے میں کیا چیز حائل ہے؟ میرے خیال میں ہمارے سیاست دان کو طاقت کا نشہ اور پیسے کی ہوس اس قدر زیادہ ہے کہ یہ عوام سے زیادہ اپنے منافع کے تابع رہتے ہیں اور اس عادت کا فوج کی فیکٹری سے کوئی تعلق نہی۔
    آپ کینیڈا میں رہتے ہوئے بلدیاتی نظام اور اس کی آفادیت سے خوب واقف ہونگے اور یہ کہ یہ وہاں کی جمہوریت کا لازمی جز ہے۔ پاکستان میں ہم فوج کے قومی حکومتوں پر قدغن پر تو ڈھول پیٹتے ہیں لیکن قومی حکومتوں کہ بلدیاتی جمہوریت پر قدغن پر کوئی احتجاج نہی کرتے۔ مجھے تو ان دونوں میں کوئی فرق نظر نہی آتا، دونوں طاقتیں اپنے سے نیچے والے(بانسبت پاور فیکٹر ) جمہوری اداروں میں دخل اندازی کرتے ہیں ۔ بلکہ فوج تو صرف مداخلت کرتی ہے جبکہ قومی حکومتیں تو ۲۰۰۸ سے آن ورڈ بلدیاتی نظام کو ہڑپ ہی کئے بیٹھی ہیں۔ مختصراً کہنا یہ چاہتا ہوں کہ یہاں کا سارا نظام ہی گلا سڑا ہے۔ یہاں فوجی آمریت بھی ہے اور سیاسی آمریت بھی اور یہ دونوں ہی جمہوریت کی نفی ہیں۔ بلدیاتی نظام بارے تو صرف ایک مثال دی ہے لیکن سارے نظام پر نظر ڈالیں تو یہاں مجھے کچھ بھی جمہوری نہی لگتا سوائے اس کے کہ ہر پانچ سال بعد یہاں الیکشن کا ایک ڈھونگ رچایا جاتا ہے جبکہ ان الیکشنوں میں دونوں ہی طرف غیر جمہوری گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔ ہنسنے کی بات بھی ہے کہ جب مشرف نے نواز کی چھٹی کرائی تو بے نظیر نے ان اقدام کی پبلکلی تعریف کی، جب فوج نے گیالانی کو نکالا تونواز وکیل بنے کالا کوٹ پہن کر فوج کی حمایت میں عدالت پہنچ گیا، جب نواز کی ڈان لیکس پر فوج نے چھٹی کرائی تو عمران خان بغلیں بجاتا رہا اور اب مریم نواز فوج سے کہہ رہی ہے کہ عمران خان کو گھر بھیجو اور ہم سے بات کرو تو ہم تیار ہیں۔ اس سینیریو میں جمہوریت کے خواب دیکھنے پر تو قدغن نہی ہے لیکن صرف فوج کو برا بھلا کہنے سے کام نہی چلے گا۔

    .

    معیشت پر موجودہ حکومت کی کارکردگی ایک عام آدمی اور معیشت سے لا تعلق بندے کے لئے تو ناقص ہے کہ بے روزگاری بھی ہے، مہنگائی بھی اور قرضوں میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس معاملے کو اس کی تہہ تک جانتا ہو تو وہ اسے بری کارکردگی بلکل نہی کہہ سکے گا۔ بے روزگاری، انفلیشن اور قرضے دراصل اسی تصیحی عمل کا حصہ اور ن کی کارستانیوں پر عوام کی ادا کی گئی قیمت ہے۔ آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ معاشی سگرمیوں میں اضافے سے امپورٹس بڑھیں گیں اورخسارہ پھر سے پیدا ہو گا لیکن اصل مسئلہ خسارے کا نہی بلکہ اس کے سائز کا ہے۔ اگر معاشی سرگرمیاں بڑھنے سے امپورٹس میں بھڑوتی کے ساتھ ساتھ ایکسپوڑٹ میں اضافہ بھی اسی تناسب سے نہ ہو تو اسے امپورٹس بیسڈ گروتھ کہتے ہیں اور ایسی گروتھ اقوام کے دیوالئے پر ہی ختم ہوتی ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس بات ہی سے لگا لیں کہ ۲۰۱۶ میں ن حکومت کے پاس ۲۴ ارب ڈالر کے ریزروز تھے، سٹاک مارکیٹ ۵۲۰۰۰ پر تھی اور ڈالر ایک سو پر باندھ رکھا تھا، اس کے بعد ۲۰۱۷ اور ۲۰۱۸ میں ساڑے چار اور ساڑھے پانچ فیصد گروتھ حاصل کی تو رئیل ریزرو منفی میں چلے گئے، سٹاک مارکیٹ ۴۰۰۰۰ پر آگئی اور مفتاح ہی کے ہوتے ڈالر ۱۲۵ تک پہنچ گیا بلکہ اس کے پاس مزید وقت ہوتا تو اسی کے ہوتے ۱۶۰ تک پہنچ جاتا۔ کیا یہ سارے اعشارئیے یہ نہی بتا رہے تھے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے جس کے بھیانک اثرات آنے والے سالوں میں نظر آئیں گے۔ گھوسٹ صاحب حکومتیں معیشت کو ری سیٹ کرکے شروعات نہی کرتیں۔ نواز شریف کو زرداری نے اڑھائی ارب ڈالر کا خسارہ دیا تھا اور وہ اسے ۲۰ ارب پر چھوڑ کر ہی نہی گیا بلکہ آخری مہینوں کے ٹرینڈز ۲۴ ارب ڈالر خسارے کے تھے۔ اس ۲۴ ارب خسارے اور گیارہ ارب قسط کے ساتھ ڈالر کے ٹھہراؤ کے لئے تین چار ڈالر ملا کر اڑتیس سے چالیس ارب ڈالر سالانہ قرض چاہیئے تھا۔ اس خسارے کی وجہ سے ڈالرپر انتہا کا دباؤ تھا کہ اب وہ تین چار ارب ڈالر مارکیٹ میں پھینک کر روکا نہی جا سکتا تھا۔ کیا یہ دیوالئے کی صورت حال نہ تھی؟ کہتے ہیں سی پیک کی مشینری آرہی تھی اس کی وجہ سے امپورٹ زیادہ تھی، اللہ کے بندو ۲۰۱۸ میں صرف ساٹھ کروڑ کی سی پیک مشینری آئی جو چائنا سے نہی تھی۔ ورنہ تو چین سے آنے والی مشینری ہماری امپورٹ میں گنی ہی نہی جارہی تھی کیونکہ ایگزم بنک کے سارے قرضے ڈیفرڈ تھے اور چین کو ایک پیسے کی ہم نے پیمنٹ نہی کی ۔

    .
    کیا یہ نواز حکومت نے جان بوجھ کر کیا۔ عمومی طور پر موجودہ حکومت کے خلاف بات کرنے والے مشہور معیشت دان ڈاکٹر اشفاق کا یہی ماننا ہے کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ آنے والی حکومت کو مزا چکھایا جائے اور عوام اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں، اور میں اسے ڈاکٹر اشفاق سے بھی زیادہ وثوق سے مانتا ہوں۔ ڈان لیکس کے بعد اور فوجیوں کے عمرانی دھرنے میں رول کو دیکھ کر نونی یہ جان گئے تھے کہ اگلی حکومت کس کی بننے جا رہی ہے۔
    ن لیگ کے پیدا کردہ معاشی بحران کا حل بہت تکلیف دہ ہے اور اس کی تصیح نہ صرف تکلیف دہ ہے بلکہ اس کے لئے ایک خودکار کیساد بازاری پیدا کرنی پڑتی ہے، ڈالر کو فری چھوڑنا پڑتا ہے، قرضوں پر سود کو بڑھانا پڑتا ہے جس سے حکومت کے قرضوں پر سود کا خرچ دگنا ہو جاتا ہے، کیساد بازاری سے کمپنیاں منافع کم کماتی ہیں تو ٹیکس بھی کم دیتی ہیں، ٹیکس کم اکٹھا ہو اور سود کی رقم دگنی ہو جائے تو قرض لینا پڑتا ہے۔ لوگ مہنگائی پر چیکھتے ہیں۔
    یہ سب کچھ اس لئے کہ نواز شریف کے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات عوامی مفادات کے تحت نہی تھے۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #22
    شاہد بھائی، آپ نے میرا جو تبصرہ قوٹ کیا ہے اسمیں میں نے فوج کے عناصر کا پی ڈی ایم کی پشت پناہی کے بارے میں کویی تجزیہ پیش نہیں کیا ہے ہاں اپنے پچھلے ایک تبصرے میں اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ فوج کے ہی کچھ عناصر میں کچھ لوگ پی ڈی ایم کی پشت پناہی کررہے ہوں. ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ فوج میں ایک بہت بڑا طبقہ میاں صاحب سے ہمدردی رکھتا ہو گا اور ہو سکتا ہے عمران خان کو پسند نہ کرتا ہو خصوصا حکومت کی انتہائی نقص کارکردگی کے چلتے بھی یہ ناراضگی بڑھ رہی ہو مگر ڈسپلن کی وجہ سے خاموش ہو. فوج کے ہائر رینکس میں باجوہ صاحب کی ایکسٹنشن کی وجہ سے کچھ افسران کا ان سے ناراض ہونا بھی قابل فہم ہے ماضی میں وکلا تحریک کے بارے میں شنید رہی ہے کہ کیانی صاحب نے اسکو ہوا دینے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا اور مشرف کی رخصتی کا سب سے زیادہ فائدہ بھی کیانی صاحب کو ہوا تھا. دوسرے خان نے ایک سے زیادہ مرتبہ حالیہ دنوں میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ حکومت جاتی ہے تو جائے مگر میں نے چوروں کو نہیں چھوڑنا ہے تو سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسکی روایتی بونگی ہے یا دال میں کچھ کالا بھی ہے؟ یہ بہرحال ایک امکان ہے اور پاکستان کے تناظر میں عجیب و غریب امکانات کی گنجائش ہمیشہ برقرار رہتی ہے .

    پاکستانی سیاستدانوں کے حوالے سے عوام مفادات کے خلاف خصوصا بلدیاتی اختیارات کو غضب کرنے والے آپ کے مشاہدے سے سو فیصد متفق ہوں لوگوں کی ایسی ذہنیت بن گئی ہے کہ بلدیاتی سطح کے منصوبوں کی شروعات ، انکا افتتاح اور انکا کریڈٹ وزیر اعلی اور وزیر اعظم کی سطح سے لیا جاتا ہے مگر آپ اس بات پر بھی غور کریں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آپ نے ایک طرح سے میری ہی بات کی تصدیق کی ہے کہ اگر سیاستدان فوجی فیکٹری کی پیداوار ہوگا تو اسکے ذاتی مفادات اور عوامی مفادات میں اشتراک کم سے کم ہوگا اور کہیں تو یہ عوامی مفادات کے معکوس ہی ہوگا آپ نے جیسا کہ اپنے تبصرے میں فرمایا ہے کہ اصولی طور پر اور مغربی ممالک میں تو شاید سیاستدان اور عوامی مفادات میں اشتراک ہوتا ہے اور وہاں ایسا اسی لئے ہوتا ہے کہ وہاں کی فوج انتخابی عمل میں من مانی نہیں کرتی ہے اور یہی ہماری بھی منزل ہونی چاہئے ہماری فوج بھی بجائے سیاست کو کنٹرول کرنے کے اگر سول اداروں یعنی الیکشن کمیشن، میڈیا ، پولیس، احتسابی اداروں اور عدلیہ کے پیچھے اپنا وژن رکھ دے اور ہر قسم کی بد معاشی سے ان اداروں کو محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے تو کچھ بعید نہیں ہے کہ ایک ڈیڑھ دھائی میں جمہوری کلچر پروان چڑھ جائے اور ہماری تنقید فوج پر اور بوٹ چاٹیوں پر اسی حوالے سے ہوتی ہے

    آپ نے نون لیگ کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے حوالے سے انتہائی دلچسپ نکتہ بیان کیا ہے جو کہ گاہے بگاہے شاید آپ اپنے پرانے تبصروں میں بھی بیان کرتے آئے ہیں مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ آپ نے اس وجہ پر کسی قسم کا اعتراض یا تبصرہ نہیں کیا ہے جسنے آپ کے بقول نون لیگ کو معیشت کو دانستہ نقصان پہنچانے پر مجبور کیا تھا . میرا اپنا خیال ہے کہ اسحاق ڈار اتنا قابل وزیر خزانہ نہیں تھا کہ اپنی مرضی سے معیشت کو انگلیوں پر نچاسکے . موجودہ حکومت کی نالائقی اور ناہلی کی وجہ سے اربوں ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ زرعی اجناس اور ایل این جی کی درآمد پر خرچ ہورہا ہے. میری انتہائی غیر پیشہ ورانہ دانست میں تجارتی خسارہ میں کمی کا جو ڈھنڈورہ موجودہ حکومت پیٹ رہی ہے اسکی بنیادی وجہ معیشت میں آہستگی اور ترسیلات زر میں اضافہ ہے ، جب معیشت تیری سے ترقی کرے گی تو درآمدات پھر سے بڑھیں اور یہ تجارتی خسارہ پھر سے بڑھ جائے گا اس پر طرہ نا اہلی کی وجہ سے اربوں ڈالر کے ضیاع کی وجہ سے حالت مزید خراب ہوں گے . جو بات موجودہ حکومت کی قابل تعریف ہے وہ ترسیلات زر میں اضافہ کے لئے اوور سیز پاکستانیوں کے ڈالر ، یوروز ،ریال و دھرم کو لبھانے کی کوشش ہے اور انکو تعمیراتی شعبہ میں سرمایہ کاری کی ترغیب ہے آپ اور ہم دونوں جانتے ہیں کہ تعمیراتی شعبہ میں سرمایہ کاری سے معیشت عارضی طور پر ضرور مستحکم ہوگی مگر دور رس ترقی کے لئے برآمدات میں اضافہ نا گزیر ہے

    اعوان صاحب، عباسی صاحب کے تبصرے اور ان کی یک طرفہ ڈھلک کے بارے میں تو پڑھنے والے خوب جانتے ہیں تاہم ڈان لیک کو شجر ممنوعہ بنانے ، اور اسے قوم کے سامنے غداری اور محب الوطنی کے ترازو کے طور پر زور اور شور سے ڈھنڈورا پیٹنے والوں میں شاید اس بات کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرت نہیں کہ اسی پھوج نے اس معاملے میں گنڈے بھی پورے کھائے اور چھتر بھی پورے برداشت کیے ۔ کیا کوئ بتا سکتا ہے کہ آج مولانا سعید کہاں ہے ، اور اسکی جماعت ادعوہ کا انہی فوجیوں نے کیا بنایا ہے ؟ نواز شریف نے یہی بات اپنے وقت سے بہت پہلے کہہ دی تھی اور اسی بات کو ٹی وی اور میڈیے پر فوجی جنتا نے حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کے طور پر خوب استعمال کیا ۔
    نواز شریف ایک کمزور اور بزدل سیاستدان نکلا ۔ جو بات اس نے سالوں پہلے بیان کی تھی وہ قومی مفاد کے عین مطابق تھی اور محب الوطنی کا تقاضا تھا کہ وہ مخالفت اور چیں چیں کرنے والے جنرلوں کی پتلونیں اترواتا ، لیکن کمزور لیڈر اپنی شلوار کھلوا کر بیٹھ گیا ۔

    پی ٹی آئ کی نااھلیت کے طوطا زن اگر پاکستان کی 2013 کی صورتحال دیکھتے تو اپنی لمبی چوڑی لفاظی کے بجائے خاموشی اختیار کرتے ۔ مشرف کے دس سال کراچی میں بھتا سیاست کو فروغ دینے اور لوگوں کی زبانوں میں ڈرل کرنے والوں سے اتحاد میں گزرے ۔ اگر پھوج میں اس قتل عام کو بند کروانی کی اھلیت ہوتی تومشرف اپنے آمرانہ دور میں کر گزرتا ، پھوجی تو اپنی یونیفارم شلوار کے اندر چھپا کر باہر نکلتے تھے ۔
    موجودہ حکومت کے اپنے دعووں کے مطابق ، ان کے پاس زندگی کے ہر شعبہ کے لیے ماہرین کی ٹیمیں تیار بیٹھی تھیں ، بس صرف اقتدار ملنے کی دیر تھی پاکستان میں گھن بارش کی طرح برستا ۔ صرف پہلے آٹھ ماہ ہی میں اسد عمر کی پشت پرلات مار کر زرداری کے وزیر خزانہ کو بلانا پڑا ۔ شفیق الرحمان کی مزید حماقتیں کی نئ جلد ۔ ذرا ان کی وزیر اطلاعات کا چناؤ دیکھیں ۔جو پارٹی اپنے دفاع کے لیے کنجروں کی محتاج ہو اسکی قابلیت پر کسی کو شک کرنے کی کیا وجہ ہے ۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #23

    پی ٹی آئ کی نااھلیت کے طوطا زن اگر پاکستان کی 2013 کی صورتحال دیکھتے تو اپنی لمبی چوڑی لفاظی کے بجائے خاموشی اختیار کرتے ۔۔

    زیدی صاحب آپ نے دو ہزار تیرہ کی بات کی تو یاد آیا کہ زرداری جب ۲۰۰۸ میں حکومت میں آیا تو پاکستان کا بیرونی خسارہ ۸ ارب ڈالر تھا۔ اس وقت کا ۸ ارب خسارہ بھی شاید ۲۰۱۸ کے ۲۰ ارب ڈالر خسارے جتنا ہی مشکل مرحلہ تھا۔ تب زرداری حکومت نے بھی وہی کیا تھا جو آج کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی انفلیشن چودہ پندرہ فیصد تھا اور سود کی شرح بھی تقریبا یہی تیرہ چودہ فیصد رہی ہوگی۔ جی ڈٰ پی گروتھ جو ۲۰۰۵ میں نو فیصد اور اس کے بعد ۲۰۰۶، ۲۰۰۷ اور ۲۰۰۸ میں ۵ فیصد سے زیادہ تھی وہ ایک دم سے آدھے فیصد سے بھی کم رہ گئی تھی۔ لوگ اس وقت بھی زرداری کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ لیکن زرداری نے ایکسپورٹس کو ۲۰ ارب سے ۲۵ ارب تک بڑھایا اور جب حکومت نواز شریف کو دی تو بیرونی خسارہ صرف اڑھائی ارب تھا۔ اسی طرح جی ڈی پی گروتھ بھی پانچ فیصد سے کچھ ہی کم تھی۔ زرداری مشکل کام سر انجام دے چکا تھا اور جب سب کچھ ٹھیک ہو گیا تو حکومت میاں صاحب کو مل گئی۔

    .

    میاں صاحب نے تین سال تو آئی ایم ایف کے دباؤ میں بیرونی خسارے کو اڑھائی فیصد ہی پر رکھا لیکن اس کے بعد انہوں نے وہ کیا جس کا رزلٹ پچھلے دو سال میں نظر آتا ہے۔خسارہ اڑھائی ارب ڈالر سے ۲۰ ارب ڈالر پر لے گئے اور پانچ سال میں ایکسپورٹ ۲۵ ارب سے ساڑھے ۲۳ ارب پر لا کھڑی کی۔
    رہی بات بجلی کے کارخانوں اور موٹر وے کی کہ جن پر اخراجات کا رونا رو کر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی تاویل پیش کی جاتی ہے تو سی پیک پراجیکٹس کا تو ایک پیسہ بھی ادا نہی کیا گیا جبکہ موٹر وے پر خوش ہونا صرف پرائیرٹیزپر منحصر ہے کہ مثلا کووڈ آنے پر مزدوروں اور چھوٹے بزنسز کو دیا گیا ۱۲۰۰ ارب کا پیکچ ہی موٹر ویز پر پانچ سال میں لگنے والے پیسے سے دوگنا ہے۔

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Zaidi
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #24
    زیدی صاحب آپ نے دو ہزار تیرہ کی بات کی تو یاد آیا کہ زرداری جب ۲۰۰۸ میں حکومت میں آیا تو پاکستان کا بیرونی خسارہ ۸ ارب ڈالر تھا۔ اس وقت کا ۸ ارب خسارہ بھی شاید ۲۰۱۸ کے ۲۰ ارب ڈالر خسارے جتنا ہی مشکل مرحلہ تھا۔ تب زرداری حکومت نے بھی وہی کیا تھا جو آج کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی انفلیشن چودہ پندرہ فیصد تھا اور سود کی شرح بھی تقریبا یہی تیرہ چودہ فیصد رہی ہوگی۔ جی ڈٰ پی گروتھ جو ۲۰۰۵ میں نو فیصد اور اس کے بعد ۲۰۰۶، ۲۰۰۷ اور ۲۰۰۸ میں ۵ فیصد سے زیادہ تھی وہ ایک دم سے آدھے فیصد سے بھی کم رہ گئی تھی۔ لوگ اس وقت بھی زرداری کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ لیکن زرداری نے ایکسپورٹس کو ۲۰ ارب سے ۲۵ ارب تک بڑھایا اور جب حکومت نواز شریف کو دی تو بیرونی خسارہ صرف اڑھائی ارب تھا۔ اسی طرح جی ڈی پی گروتھ بھی پانچ فیصد سے کچھ ہی کم تھی۔ زرداری مشکل کام سر انجام دے چکا تھا اور جب سب کچھ ٹھیک ہو گیا تو حکومت میاں صاحب کو مل گئی۔ . میاں صاحب نے تین سال تو آئی ایم ایف کے دباؤ میں بیرونی خسارے کو اڑھائی فیصد ہی پر رکھا لیکن اس کے بعد انہوں نے وہ کیا جس کا رزلٹ پچھلے دو سال میں نظر آتا ہے۔خسارہ اڑھائی ارب ڈالر سے ۲۰ ارب ڈالر پر لے گئے اور پانچ سال میں ایکسپورٹ ۲۵ ارب سے ساڑھے ۲۳ ارب پر لا کھڑی کی۔ رہی بات بجلی کے کارخانوں اور موٹر وے کی کہ جن پر اخراجات کا رونا رو کر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی تاویل پیش کی جاتی ہے تو سی پیک پراجیکٹس کا تو ایک پیسہ بھی ادا نہی کیا گیا جبکہ موٹر وے پر خوش ہونا صرف پرائیرٹیزپر منحصر ہے کہ مثلا کووڈ آنے پر مزدوروں اور چھوٹے بزنسز کو دیا گیا ۱۲۰۰ ارب کا پیکچ ہی موٹر ویز پر پانچ سال میں لگنے والے پیسے سے دوگنا ہے۔

    عباسی صاحب، لمبی چوڑی بحث میں جانے کی بجائے ان حالات کا اندازہ کریں جب ملک میں 1999 سے لیکر 2007 تک بجلی کی پیداوار میں ایک میگاواٹ کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا ۔ یہاں تو عام صارفین 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتا تھا تو صنعت کو بجلی کہاں سے مہیا کی جاتی ۔ امن وامان کی صورتحال درگرو تھی اور کوئ کمپنی اس صورتحال میں پاکستان آنے کو تیار نہیں تھی ۔ مسلم لیگ کی حکومت نے جن حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ دیکھنے سےتعلق رکھتی تھی ۔
    بجلی کی پیداوار کے منصوبے ایک یا پانچ سال میں ہی نہیں لگتے اور جب صنعتوں کو انرجی ہی نہ مہیا کی جاسکے تو پھر برآمدات میں اضافے کی توقع فضول ہے ۔ ھاں 2013 سے 2018 تک انفرا اسٹکچر کے منصوبوں نے نتائج دینا شروع کردے تھے اور وہ پرائم ٹائم تھا جب برآمدات میں اضافے کی منصوبہ بندی شروع کی جاتی ۔
    کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے قرض لینے میں کوئ برائ نہیں جبکہ مجموعی جی ڈی پی کی مناسب شرح کے اندر رہتے ہوئے وہ قرض لیا جائے ۔ جب جی ڈی پی ، 5 اعشاریہ 6 سے ایک ہی سال میں منفی کی سطح پر آجائے ، وزیر خزانہ کو سمجھ نہ آئے کہ کیا کرنا ہے ، روپے سے آئ ایم ایف کے کہنے پر یکمشت پیگ ھٹادیا جائے ، سودی ریٹز کو 8 فیصد سے ساڑھے تیرہ فیصد کردیا جائے ، تو ملک میں مہنگائ نہیں بڑھے گی تو کیا ہوگا ۔

    بونگی حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ سی اے ڈی 20 ارب سے 2 ارب پر لے آئے ، شاید یہ اسی لیے حکومت میں آئے تھے ، درآمدات مکمل بند کرکے ملک کی معشیت کی قیمت پر یہ حدف آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ کوئ راکٹ سائنس نہیں ہے ۔
    جہاں تک قرضوں کا معاملہ ہے ، پچھلے دو سالوں میں لیے جانے والے قرضے تو پچھلے پانچ سال کے قرضوں سے بھی زیادہ ہیں ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گرانے سے جو اضافہ قرض میں ہوا ہے وہ خود ہوش ربا ہے۔
    پھر کررونا کے مقابلے میں کونسی حکومت حکمت عملی تھی ، جس کی وجہ سے کرونا کیسز میں اضافہ نہیں ہوا ؟ کوئ ایک بھی ایسا عمل بتا دیں جو ساری دنیا سے منفرد اختیار کیا گیا ہو اور اسکے نتیجے میں پاکستان میں کررونا پر قابو پایا گیا ہو ؟

    آپ کا یہاں آکر یہ کہنا کہ چونکہ مسلم لیگ کو ڈان لیک کے بعد اپنے اقتدار کو کھونے کا علم ہوگیا تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے جان بوجھ ملک کو تباہی کی طرف دھکیلا ( جس کے جواز میں آپ نے ڈاکٹر اشفاق کے ایک بیان کو پیش کیا ہے ) کسی بھی طرح سے سنجیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ غلطیوں سے کوئ مبرا نہیں ، لیکن دوسروں پر الزامات اور بہتان لگانا عمران خان کی پرانی عادت ہے ۔

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #25
    گھوسٹ صاحب آپ کے اس تجزئیے سے متفق نہی ہوں کہ فوج کے کچھ عناصر اپنی کمانڈ کی پالیسی کے مخالف جا کر نواز شریف اور مریم کو ان کی تحریک میں مدد کر رہے ہونگے۔ میرے خیال میں پاکستان فوج میں ایسا نہی ہوتا سوائے اس بات کے کہ پچھلے چوہتر سال میں ایسا ایک آدھ واقعہ ہو گیا ہو۔ پاکستان کی افغان اور کشمیر پالیسی میں امریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے اس بیانئے کو ایک عزر کے طور پر ضرور پیش کیا ہے کہ ہائی کمانڈ پر الزام سے بچا جائے لیکن درحقیقت ایسا ہے نہی۔ آپ کی دوسری بات کہ سیاست دان کے مفادات اور عوامی مفادات میں زیادہ اشتراک ہوتا ہے پر یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ بات اصولی طور پر اور مغربی ممالک تک تو صحیح ہے لیکن پاکستان کی حد تک اس میں کوئی سچائی نہی۔ عوام کا سب سے زیادہ مفاد بلدیاتی نظام میں ہے ہوتا ہے لیکن پاکستان میں جب بھی سیاست دان کی حکومت آئی ہے تو بلدیاتی نظام کو یا تو بے بس کر دیا گیا یا پھر چلتا ہی کر دیا گیا۔ اسی طرح باقی معاملات میں بھی یا تو ذاتی مالی مفاد دیکھا گیا ہے یا پھر ان پڑھ عوام سے ایسی دھوکا دہی کہ عوام خوش تو ہو جائیں گے لیکن دور رس نتائج عوام کی تباہی ہوگا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ن لیگ نے بجلی کے جتنے بھی منصوبے لگائے ان کی اوسط فی کلو واٹ قیمت ۱۱ اعشاریہ ۲۸ پینس ہے جبکہ اسی عرصے میں انڈیا میں جتنے بھی بجلی کے منصوبے لگے ان کی قیمت ساڑھے چار پینس سے سات پینس تک ہے۔اسی طرح ڈان لیکس کے بعد ن لیگ نے یہ معلوم پڑنے کے بعد کہ اگلی حکومت ان کی نہی بلکہ عمران خان کی ہے، ملک کی معیشت کے ساتھ جو کچھ کیا اور اس کا جو عوام نے خمیازہ پچھلے دو سال میں بھگتا وہ پری پلانڈ بھی تھا اور عوام کے مفادات کا قتل بھی۔ پی پی پی نے بیس پچیس سال میں سندھ کا جو حشر کیا ہے یا کراچی ہی کی مثال لے لیں تو پاکستان کے سیاست دان کا اپنا دولت اور طاقت کا بھوکا مفاد عوامی مفاد سے بہت کم ملتا نظر آئے گا۔ . یہی وجہ ہے کہ آج بھی عوام یہ فیصلہ نہی کر پا رہے کہ ہمیں آمریت چاہئیے یا آمریت نما جمہوریت۔

    shahidabassi sahib

    محترم شاہد صاحب

    آپکا یہ جملہ بہت شاندار ہے

    جب تک عوام کا ذہنی رجحان اور رویہ مکمل جمہوریت کی طرف مائل ہو عوام اسی تذبب کا شکار رہے گی میرے خیال میں

    جس طرح ماؤں کا انتخاب نسل در نسل ڈالڈا رہا ہے، ہمر نسلوں کو بھی حاکمیت سے واسطہ رہا ہے جہاں حاکم سب کچھ ہوتا ہے اور باقی سب رہے نام اللہ کا. میرے خیال میں ہمیں ابھی کافی وقت چاہے جمہوریت کا مفہوم، عوامل، اس کے بنیادی عناصر ، اس کی ضروریات، اسکے ثمر وغیرہ سمجھنے میں اور یہ بھی طے کرنے میں کے ہمارے لئے کس قدر جمہوریت فائدہ مند ہے میرے خیال میں ہم قدم تو اٹھا رہے ہیں اس سمت مگر کبھی کبھار سمت تبدیل کر لیتے ہیں یا تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک آدھ بار واپسی کی طرف بھی گامزن ہو گئے ہیں .

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #26

    ویسے مجھے اس نسل در نسل سیاسی خاندانوں کا سیاست میں عمل دخل کچھ خاص پسند نہیں اورخاص طور پر ورثہ میں ملی سیاسی رہنمائی کا حق لیکن غور کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کے اگر یہ امیر طاقتور سیاسی خاندان نہ ہوتے تو کیا کوئی عام آدمی اتنی جدوجہد کر سکتا تھا کے نہیں جو یہ طاقتور اور امیر لوگ کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں کیا ہمارا معاشرہ جس کا میں بھی ایک فرد ہوں کسی عام آدمی کو اپنا سیاسی رہنما قبول کر سکتا تھا. میرے خیال میں نہیں اور اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو شاید ہی کسی عام شخصیت کو سیاسی سطح پر کوئی پزیرائی ملی ہے .

    شاید محترم الطاف حسین صاحب کی مثال دی جاۓ مگر انکی پزیرائی بھی ایک خاص علاقہ اور عوام تک محدود رہی.

    ہم عوام کو بھی یا تو طاقتور نام چاہیں یا کرشماتی شخصیت جیسے محترم خان صاحب. ہم اس بات سے مرعوب نہیں ہوتے کے کس میں کیا قابلیت ہے یا نہیں البتہ رنگ، نام ، دولت، سماجی حیثیت ، سحر وغیرہ وغیرہ سے بہت شغف رکھتے ہیں ورنہ محترمہ مریم صاحبہ یا بلاول یا محترم خان صاحب میں ایسا کیا ہے جو انکو ہمارا رہنما بنا سکے

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #27
     لیکن فوج کے ڈسپلن میں ایسا نہی ہوتا کہ کچھ اہل کار فوج کے خلاف کسی پارٹی یا اتحاد کو سپورٹ کر رہے ہوں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ظاہری طور پر انٹیلیجنس اداروں کے کچھ اہل کار پی ڈی ایم سے رابطے میں رہتے ہوں اور انہیں گائیڈ بھی کرتے ہوں لیکن ایسا وہ فوج ہی کی وسیع تر حکمت عملی کے تحت کر رہے ہوتے ہیں کہ کسی دھڑے کو فوجی چاہے نا پسند بھی کرتے ہوں تو اس میں بھی اپنا اثرورسوخ بنائے رکھتے ہیں اور ان کا ہاتھ ہمیشہ ایک سے زیادہ پارٹیوں پر ہوتا ہے۔۔۔

    شاہد بھائی،

    کان اسطرح سے نہیں تو اسطرح سے پکڑ لیں – فوج کو سیاسی لوگوں کو (مس) گائیڈ کا کام نہیں کرنا چاہئے .

    رہی بات کہ کیا ہمارے سیاست دانوں کے فوجی فیکٹریوں سے نکلنا اس بات کی وجہ ہے کہ ان کے مفادات عوامی مفادات سے مسابقت کم ہی رکھتے ہیں تو میں اس لاجک کو سمجھنے سے آری ہوں کہ اگر نواز شریف اور بھٹوفوجی فیکٹری سے نکلے تھے تو اس کی وجہ سے ان کے مفادات عوام کے مفادات سے متصادم کیوں ہونگے

    میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کو اتنی سیدھی بات سمجھ کیوں نہیں آی؟ بھائی جب انتخابی امیدوار بننے، انتخاب جیتنے، وزیر بننے، ٹھیکے لینے، اپنے جرائم کی پردہ پوشی کرنے، مقدمات کو ختم کرنے، اپنے حق میں فیصلے لینے کے لئے آپ کو صرف بوٹ پالش کرنا پڑیں گے تو عوام کے مفاد کا سوچنے کے لئے کس کے پاس وقت، توانائی یا کس کی ترجیح ہوگا قبلہ جب راولپنڈی ٹہرا تو عوام کی کس کو فکر ہے؟
    ہاں ایک بات ہے کہ اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ فوج کے چند نیم خواندہ اور رعونت بھرے جنرلز کے ذاتی یا ادارہ جاتی مفادات کے گرد گھومتے تصور قومی مفادات اور عوامی مفاد ایک ہی چڑیا کا نام ہے تو شائد یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ فوجی گملوں میں اگے سیاست دانوں کا مفاد اور عوامی مفاد ایک ہی ہو . مگر سورج مغرب سے نہیں نکلتا ہے . ایک نکتہ اور عرض کردوں کہ اگر ان مفادات میں تضاد نہ ہوتا تو یہ سیاست کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کیوں کر کرتے؟ اس کی ایک مثال اور بھی دی جاسکتی ہے کہ کسی ادارہ میں جہاں مزدوروں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے یونین سازی کرنے کی اجازت ہو وہاں پر مزدور رہنماؤں کا اولین مقصد اور فرض مزدوروں کے جائز اور قانونی حقوق کے لئے انتظامیہ سے مذاکرات کرکے زیادہ سے زیادہ سہولتوں کا حصول ہے . مگر یہ بھی کویی ڈھکا چھپا راز نہیں ہے کہ آجر کوشش کرتے ہیں کہ یا تو مزدور رہنماؤں کو کچھ اضافی مراعات دے کر انکے مطالبات کو نرم کروالیا جائے یا براہ راست اپنا ہی بندہ یونین میں اوپر لایا جائے اب ظاہر سی بات ہے کہ اسطرح کے رہنما مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کریں گے یا انتظامیہ کے؟ یہاں مفادات کا ٹکراؤ ہے .

    لکل اسی طرح اب دو سال ہونے کو ہیں تو پنجاب اور کے پی میں پاور اور فنانسز کوبلدیاتی سطع پر تقسیم کرنے میں اس حکومت کے رشتے میں کیا چیز حائل ہے؟ میرے خیال میں ہمارے سیاست دان کو طاقت کا نشہ اور پیسے کی ہوس اس قدر زیادہ ہے کہ یہ عوام سے زیادہ اپنے منافع کے تابع رہتے ہیں اور اس عادت کا فوج کی فیکٹری سے کوئی تعلق نہی

    آپ کے موجودہ سیاسی رہنماؤں کے (بد)کردار پر اٹھائے گئے سوالات خصوصا طاقت کے ارتکاز اور بلدیاتی نظام میں روڑے اٹکانے پر بلکل جائز ہیں آجکل کے ماحول کے حوالے سے میں اسمیں سیاسی سرگرمیوں کے لئے جلسے جلوسوں کو بھی شامل کرلیں خصوصا جب کورونا کی دوسری لہر بہت زیادہ شدت سے بڑھ رہی ہے اور ایسے میں دنیا بھر میں سماجی میل ملاپ کو کم سے کم کیا جارہا ہے مگر مملکت خداداد میں ڈرون کے ذرئیے لئے جانے والے شاٹس دنیا کو دکھا کر اپنی سیاسی برتری کے حصول کے لئے یہ لوگ اپنی جھوٹی انا کے لئے انسانی جانوں کو قربان کرنے کے لئے بلکل بھی نہیں ہچکچا رہے ہیں اسمیں کیا حکومت کیا حزب اختلاف دونوں ایک ہی گھوڑے کے سوار دکھتے ہیں – مگر میرا آرگیو منٹ یہاں یہ ہے کہ مو جودہ سیاسی پود کے اعمال کی بنیاد پر سیاسی عمل میں فوجی مداخلت کو جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ کے پاس ہمیشہ ایسی ہی سیاسی پود رہے گی اور انکی نا اہلیوں، کرپشن کو بنیاد بنا کر ہمیشہ متبادل کے طور پر فوجی دروازہ کھلا رہے گا. اسکا مطلب ہے کہ سیاسی طور پر کرپٹ اور نااہل لوگ اور فوجی بیک گراونڈ کے لوگ اس نظام کو برقرار رکھنے کے لئے لازم و ملزوم ہیں.

    سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ فرشتے ہمیں کب اور کسطرح نصیب ہوں گے جنکی پاکستانیوں کو تلاش ہے؟
    تو فرشتے تو شاید مرنے کے بعد ہی نصیب ہوں مگر شائد غیر فوجی نارمل قسم کے سیاستدان پاکستان کو بھی ایک دو دھائیوں میں نصیب ھوجائیں . میری سمجھ کے مطابق ایسا ہونے کے لئے ایک ٹرانزیشن دور ضروری ہے جسمیں فوجی گملے کے سیاستدان آمادہ بغاوت ہوں گے اور اس نیک کام کے لئے میاں نواز شریف سے بہتر اسناد رکھنے والا سیاستدان ہو نہیں سکتا اور اس عمل میں عمران خان سے بڑی رکاوٹ موجودہ دور میں کویی نہیں ہے کہ جب معاشرے کے ہر ہر طبقہ سے اعلانیہ فوجی مداخلت پر اعتراض اٹھائے جارہے ہیں ، عمران خان انکے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا سبب بنا اور بن رہا ہے اور میرا عمران کو لے کر یہی سب سے بڑا اختلاف ہے اگر یہ فوجی کٹھ پتلی نہ بھی ہوتا تو پھر بھی اسکے بونگے پن ،اسکی سطحی سوچ اور کھوکلے نعروں میں میرے لئے کویی خاص کشش نہیں تھی

    آپکے معیشت کو لے کر لکھے گئے نقاط پر بھی وقت کی فراہمی کے ساتھ ہی کچھ گزارشات سپرد قلم کرنے کی کوشش کروں گا

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #28

    اگر اصل تے وڈے میاں صاحب کسی پس پردہ سمجھوتے کے تحت باہر گئے ہیں اور اگر محترم مریم صاحبہ ایک عرصہ تک خاموش کسی سبب تھیں اور اگر تین سال کی بڑھوتی دینے والوں میں بھی ان جمہوری فرشتوں کا ہاتھ تھا اور اگر گوجرانوالہ کے جلسے سے کچھ روز قبل تک کم اصل اور چھوٹے میاں صاحب تگ و دو میں مصروف تھے تو ان سے یہ امید لگانا کے اس بار اس جمہوری بیان بازی میں خالص نیت شامل ہے اور پچھلے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی خواہش و ترغیب ہے اور جستجو ہے تو مجھے آپ کی سادگی پر کامل یقین ہیں

    اگر کسی کو اپنے اقتدار کے حصول کے لئے اتنا مچلتے دیکھا ہے یا پچھلے ادوار میں ہر طرح کی ساز باز کرتے دیکھا ہے تو وہ صرف اور صرف موجودہ دور کے سب سے بہترین سیاست داں کو دیکھا ہے اور اب ایک نئی نسل بھی شامل ہو گئی ہے اس عوام کی حقوق اور بہبود کی جنگ لڑنے والوں میں

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #29

    اگر اصل تے وڈے میاں صاحب کسی پس پردہ سمجھوتے کے تحت باہر گئے ہیں اور اگر محترم مریم صاحبہ ایک عرصہ تک خاموش کسی سبب تھیں اور اگر تین سال کی بڑھوتی دینے والوں میں بھی ان جمہوری فرشتوں کا ہاتھ تھا اور اگر گوجرانوالہ کے جلسے سے کچھ روز قبل تک کم اصل اور چھوٹے میاں صاحب تگ و دو میں مصروف تھے تو ان سے یہ امید لگانا کے اس بار اس جمہوری بیان بازی میں خالص نیت شامل ہے اور پچھلے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی خواہش و ترغیب ہے اور جستجو ہے تو مجھے آپ کی سادگی پر کامل یقین ہیں

    اگر کسی کو اپنے اقتدار کے حصول کے لئے اتنا مچلتے دیکھا ہے یا پچھلے ادوار میں ہر طرح کی ساز باز کرتے دیکھا ہے تو وہ صرف اور صرف موجودہ دور کے سب سے بہترین سیاست داں کو دیکھا ہے اور اب ایک نئی نسل بھی شامل ہو گئی ہے اس عوام کی حقوق اور بہبود کی جنگ لڑنے والوں میں

    نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز

    یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

    جے بھیا،
    اپنے علامہ سیالکوٹی صاحب نے رہنما کی جو خوبیاں بیان کیں تھیں یا رہنمائی کے بین الاقوامی معیار آئ ایس او مینڈیلا ١٩١٨ سے موازنا کریں گے تو مایوسی ہوگی . فلحال آئ ایس او گوالمنڈی ٢٠١٨  ہی اپلائی ہوتا ہے

    JMP
    Participant
    Offline
    • Professional
    #30
    نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے جے بھیا، اپنے علامہ سیالکوٹی صاحب نے رہنما کی جو خوبیاں بیان کیں تھیں یا رہنمائی کے بین الاقوامی معیار آئ ایس او مینڈیلا ١٩١٨ سے موازنا کریں گے تو مایوسی ہوگی . فلحال آئ ایس او گوالمنڈی ٢٠١٨ ہی اپلائی ہوتا ہے

    Ghost Protocol sahib

    محترم گھوسٹ پروٹوکول صاحب

    بہت شکریہ

    مجھ کم عقل کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے یا افسوس کا مقام ہے

    پچھلے تیس چالیس سالوں کی سیاست میں بھٹو کے ملک توڑنے میں مبینہ کردار ، آصف زرداری کی مبینہ بد عنوانی ، بینظیر کے غیر جمہوری کردار ، محترم عمران خان صاحب کی پچھلے چند سالوں کی سیاسی پیش و رفت اور انکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ ساز باز اور سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ کردار پر اس اور کچھ اور محفلوں میں بہت کچھ پڑھنے کو ملا ہے مختلف معتبر ، منفرد، معزز، محترم مبصروں سے . شاید ان سب سیاسی اور غیر سیاسی کرداروں کے نا پسندیدہ اعمال کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اور اب اس کا کفارہ اس وقت کے سب سے بہترین سیاست داں محترم نواز شریف صاحب اپنی قربانیوں سے ادا کرنے کی ایک انتھک جدوجہد میں مصروف ہیں.

    میں ٹھہرا کافر تو میری دعاؤں میں تو اثر نہیں ہے مگر پھر بھی دعا ہے کے ان نیک اور بے داغ سیاسی ماضی کے حامل عہد حاضر کے سب سے بڑے جمہوری رہنما محترم میاں نواز شریف صاحب کو کامیابی حاصل ہو اور انکی، محترم شہباز شریف صاحب ، محترم حمزہ صاحب ، محترم صفدر صاحب، محترمہ مریم نواز صاحبہ کی قربانیوں اور جدوجہد سے ملک میں جمہوریت اور عوام کی حکومت قائم ہو

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #31
    Ghost Protocol sahib

    محترم گھوسٹ پروٹوکول صاحب

    بہت شکریہ

    مجھ کم عقل کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے یا افسوس کا مقام ہے

    پچھلے تیس چالیس سالوں کی سیاست میں بھٹو کے ملک توڑنے میں مبینہ کردار ، آصف زرداری کی مبینہ بد عنوانی ، بینظیر کے غیر جمہوری کردار ، محترم عمران خان صاحب کی پچھلے چند سالوں کی سیاسی پیش و رفت اور انکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ ساز باز اور سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ کردار پر اس اور کچھ اور محفلوں میں بہت کچھ پڑھنے کو ملا ہے مختلف معتبر ، منفرد، معزز، محترم مبصروں سے . شاید ان سب سیاسی اور غیر سیاسی کرداروں کے نا پسندیدہ اعمال کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اور اب اس کا کفارہ اس وقت کے سب سے بہترین سیاست داں محترم نواز شریف صاحب اپنی قربانیوں سے ادا کرنے کی ایک انتھک جدوجہد میں مصروف ہیں.

    میں ٹھہرا کافر تو میری دعاؤں میں تو اثر نہیں ہے مگر پھر بھی دعا ہے کے ان نیک اور بے داغ سیاسی ماضی کے حامل عہد حاضر کے سب سے بڑے جمہوری رہنما محترم میاں نواز شریف صاحب کو کامیابی حاصل ہو اور انکی، محترم شہباز شریف صاحب ، محترم حمزہ صاحب ، محترم صفدر صاحب، محترمہ مریم نواز صاحبہ کی قربانیوں اور جدوجہد سے ملک میں جمہوریت اور عوام کی حکومت قائم ہو

    جے بھیا،
    بظاہر ہم نے ممولے کو جمہوری کہہ کہہ کر شہباز سے لڑوا تو دیا ہے

    ہور تساں بچے دی جاں کڈنی ہے

    :bigsmile: :bigsmile: :bigsmile:

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #32
    Ghost Protocol sahib

    محترم گھوسٹ پروٹوکول صاحب

    بہت شکریہ

    مجھ کم عقل کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے یا افسوس کا مقام ہے

    پچھلے تیس چالیس سالوں کی سیاست میں بھٹو کے ملک توڑنے میں مبینہ کردار ، آصف زرداری کی مبینہ بد عنوانی ، بینظیر کے غیر جمہوری کردار ، محترم عمران خان صاحب کی پچھلے چند سالوں کی سیاسی پیش و رفت اور انکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ ساز باز اور سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ کردار پر اس اور کچھ اور محفلوں میں بہت کچھ پڑھنے کو ملا ہے مختلف معتبر ، منفرد، معزز، محترم مبصروں سے . شاید ان سب سیاسی اور غیر سیاسی کرداروں کے نا پسندیدہ اعمال کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اور اب اس کا کفارہ اس وقت کے سب سے بہترین سیاست داں محترم نواز شریف صاحب اپنی قربانیوں سے ادا کرنے کی ایک انتھک جدوجہد میں مصروف ہیں.

    میں ٹھہرا کافر تو میری دعاؤں میں تو اثر نہیں ہے مگر پھر بھی دعا ہے کے ان نیک اور بے داغ سیاسی ماضی کے حامل عہد حاضر کے سب سے بڑے جمہوری رہنما محترم میاں نواز شریف صاحب کو کامیابی حاصل ہو اور انکی، محترم شہباز شریف صاحب ، محترم حمزہ صاحب ، محترم صفدر صاحب، محترمہ مریم نواز صاحبہ کی قربانیوں اور جدوجہد سے ملک میں جمہوریت اور عوام کی حکومت قائم ہو

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #33
    حزب مخالف جسطرح جلسے جلوسوں کو منعقد کرنے پر بضد ہے میرا شک مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ انکو روحانی بشارتیں ملی ہویی ہیں کہ
    ناؤ اور نیور
    اس مرحلہ پر واپس جانے کا مطلب پچھلے کچھ مہینوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کے ضیاع کا خدشہ ہے
    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
Viewing 13 posts - 21 through 33 (of 33 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi