Viewing 1 post (of 1 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے پیپلز پارٹی کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے حتمی فیصلے تک 26 مارچ کو حکومت کے خلاف ہونے والا اپنا لانگ مارچ ملتوی کر دیا ہے۔
    پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں لانگ مارچ کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ‘آج کا سربراہی اجلاس 26 مارچ کے لانگ مارچ کی حکمت عملی اور اس کے ساتھ اسمبلیوں سے استعفے دینے کے بارے میں تھا۔
    انھوں نے کہا کہ اجلاس میں لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کو وابستہ کرنے کے حوالے سے نو جماعتیں اس کے حق میں جبکہ پی پی پی کو اس سوچ پر تحفظات تھے اور انھوں نے حتمی فیصلے کے لیے وقت مانگا ہے کہ ہم اپنی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی سے رجوع کر کے پی ڈی ایم کو آگاہ کریں گے۔ لہٰذا 26 مارچ کا لانگ مارچ پیپلزپارٹی کے جواب تک ملتوی تصور کیا جائے۔
    مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سربراہی اجلاس میں نوازشریف، آصف زرداری، ڈاکٹر جمال الدین ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔
    اس اعلان کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمان پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔

    جس نے نواز شریف سے بات کرنی ہے پہلے مجھ سے بات کرے’:مریم نواز

    اس موقع پر سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے نواز شریف کے وطن واپس آنے کے مطالبے پر پوچھے گئے ایک سوال پر مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘انھوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی بلکہ ان کا کہنا تھا کہ باقی لوگ بھی واپس آئیں اور مل کر جدوجہد کرتے ہیں۔
    انھوں نے مزید کہا کہ ‘نواز شریف کو ملک واپس لانا ان کی زندگی کو خطرہ ہو گا۔ انھیں واپس بلانا ان کی زندگی کو ان قاتلوں کے حوالے کرنا ہو گا، نواز شریف کی جدوجہد اور قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
    میں بطور بیٹی سمجھتی ہوں کسی کو انھیں واپس بلانے کا حق نہیں ہے۔ ہم نواز شریف کو وطن واپس بلا کر ان کے قاتلوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔
    ان کا کہنا تھا کہ ‘نواز شریف خود لندن میں ہیں لیکن ان کی سیاسی جماعت ان کی قیادت میں یہاں متحد کھڑی ہے، میں مسلم لیگ کی نمائندہ ہوں، جس نے نواز شریف سے بات کرنی ہے پہلے مجھ سے بات کرے۔
    پی ڈی ایم میں اختلافات پر پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘پی ڈی ایم آپ کے سامنے کھڑی ہے اور حکومت ختم ہو گی، عملاً ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کریں گے۔
    بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے استعفوں کے فیصلے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘جب تک پیپلز پارٹی واپس آکر جواب نہیں دیتی وہ قیاس آرائی نہیں کرسکتی۔

    پارٹی کی سی ای سی سے مشاورت کے لیے وقت لیا ہے

    اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور نو منتخب سینیٹر یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ ‘میں نے پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں مشاورت کے لیے وقت لیا ہے اور جلد ہی ہم اس پر پی ڈی ایم کو آگاہ کر دیں گے۔
    انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہماری سی ای سی نے استعفے نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا لہذا ہم دوبارہ اپنی جماعت کی سی ای سی سے مشاورت کریں گے۔
    ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں نے پی ڈی ایم کی قیادت کا سینیٹ انتخاب میں حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور جیتنے پر شکریہ ادا کیا اور مبارکباد دی۔

    پی ڈی ایم کی جماعتوں کی راہیں جدا ہونی ہی تھیں‘: شفقت محمود

    اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں استعفوں کے معاملے پر اختلاف اور لانگ مارچ ملتوی کرنے کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ‘ پی ڈی ایم کا یا اس کے لانگ مارچ کا حکومت پر کوئی دباؤ نہیں تھا اور ہمیں پہلے بھی ان کے اختلافات کا پتہ تھا۔
    ان کا کہنا تھا کہ ‘پیپلز پارٹی کے سندھ میں سٹیک ہیں کیونکہ ان کی وہاں پر حکومت ہے لیکن مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے اس جمہوری نظام میں کوئی سٹیک نہیں ہیں اس لیے ان کی راہیں جدا ہونی ہی تھیں۔
    شفقت محممود کا کہنا تھا کہ ‘کوئی بھی یہ پیش گوئی کر سکتا تھا کہ یہ معاملہ زیادہ دیر چلے گا نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی نے استعفے دینے نہیں تھے اور فضل الرحمان کہتے ہیں کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ ہو نہیں سکتی۔
    پیپلز پارٹی کی جانب سے استعفے نہ دینے اور پارلیمانی طرز حکومت کے اندر رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کرنے کے فیصلے پر رائے دیتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ‘وہ صرف اپنے مفادات کی خاطر ایسا کر رہے ہیں، سندھ میں حکومت ان کا مفاد ہے، نظام کے اندر رہنا ان کے مفاد میں ہے، ایسا نہیں ہےکہ انھیں جمہوریت سے کوئی محبت ہے یا جمہوری قدریں ان کے لیے اہم ہیں۔

    پی ڈی ایم میں اختلاف رائے اور لانگ مارچ ؟

    سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس طرح کے اختلافات کا سامنے آنا اتحاد کے لیے اچھا نہیں ہے اور یہ پی ڈی ایم کے لیے ایک سیٹ بیک ثابت ہو سکتا ہے۔ بڑی سیدھی بات ہے کہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ استعفوں کا معاملہ اس وقت زیر بحث آئے جب نظام توڑنا ہو اور الیکشن قریب ہو، وہ نظام کو توڑنا نہیں چاہتے اور نظام کے اندر رہ کر لڑنا چاہتے ہیں۔
    سنیئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے موجودہ سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاں تک لانگ مارچ کی بات ہے تو مولانا فضل الرحمان نے اجلاس سے پہلے کہا تھا کہ اگر استعفے نہیں دینے ہیں تو اس لانگ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
    ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ڈی ایم اتحاد میں اختلاف سامنے آتا ہے اور وہ کوئی فیصلہ کن مرحلے کا آغاز نہیں کر پاتا تو حکومت کو اس سے خوشی اور تسلی ہو گی۔
    مجیب الرحمان شامی کا اس سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ اس وقت کے سیاسی نظام میں پیپلز پارٹی ایک بڑی سٹیک ہولڈر ہے کیونکہ اس کے پاس ایک صوبے کی حکمرانی ہے۔ جبکہ سیاسی بحران کی صورت میں مسلم لیگ ن کے سٹیکز زیادہ ہیں۔
    کیونکہ اگر کوئی بہت بڑا سیاسی بحران پیدا ہو جاتا ہے اور نئے انتخابات ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی چند قومی اسمبلی کی نشتوں میں ممکنہ اضافے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ایک صوبے میں حکومت ہی بنا سکے گی جبکہ مسلم لیگ ن خود کو تحریک انصاف کے متبادل کے طور پر سامنے لا رہی ہے اور مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
    انھوں نے مزید کہا کہ ’اس لیے پی ڈی ایم میں موجود دونوں بڑی جماعتوں کے طریقہ کار میں فرق ہے وہ اپنی اپنی جگہ پر حکومت پر دباؤ بڑھا کر ان کے خلاف کارروائیوں کی رفتار کم کرنا چاہتی ہیں، ریلیف حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن ان کے اپنے اپنے مفادات یہ بھی تقاضا کرتے ہیں کہ اس کے مطابق اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیا جائے جس میں وہ ایک دوسرے کی توانائی کے لیے اپنی توانائی ختم نہ کریں۔
    سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ آج ہی نظام کو توڑ کر اس سے باہر نکل کر بیٹھا جائے، تا کہ سٹیبلشمنٹ مجبور ہو جائے، وزیر اعظم عمران خان مجبور ہو جائیں لیکن اس میں ایک رسک موجود ہے۔
    ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے استعفوں کے ساتھ ساتھ پوری قوم ایک ساتھ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تو یہ ممکن اور سود مند ہے۔ تاہم اگر عوام نہ اٹھی تو یہ استعفے ضائع جائیں گے۔ جیسا کے عمران خان کی جانب سے دیئے گئے استعفے ایک مرتبہ ضائع گئے تھے۔
    سنیئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے پیپلز پارٹی کے استعفے نہ دینے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کا یہ فیصلہ کوئی نیا فیصلہ نہیں ہے بلکہ وہ چند ماہ قبل بھی پی ڈی ایم کو یہ کہہ چکی ہے کہ استعفوں کا آپشن آخری حربہ ہو گا اور لانگ مارچ کے بعد اس آپشن کو آزمایہ جائے گا۔
    ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد اچانک مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمان کی جانب سے استعفوں پر زور دیا جانے لگا جس پر پیپلزپارٹی نے متعدد سوال اٹھائے کہ استعفے دینے کے بعد کیا ہو گا، کیا ضمنی انتخاب ہوگا، کیا پی ڈی ایم اس ضمنی انتخاب کا بائیکاٹ کرے گی یا حصہ بنے گی۔ اگر بائیکاٹ کیا جائے گا تو اپوزیشن نظام کا حصہ نہیں بنے گی اور معاملات کس طرح سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

    پی ڈی ایم یا اپوزیشن کا مستقبل کیا ہے؟

    سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں آج کی صورتحال کے بعد پی ڈی ایم کا مستقبل کچھ زیادہ نہیں ہے، پیپلز پارٹی کا استعفوں کے متعلق وہی فیصلہ ہوگا جو اس سے پہلے ان کی جماعت کی سی ای سی کر چکی ہے۔
    ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم ایک طرح سے ٹوٹتی دکھائی دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی استعفوں پر رضامند ہو جاتی ہے تو ایک سوال جو اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سامنے ہوگا کہ اگر استعفوں اور لانگ مارچ سے بھی حکومت نہیں جاتی تو پھر ان کا مطمع نظر کیا ہوگا۔ ان کی جدوجہد کیا ہو گی؟ کیونکہ اگلے برس سے انتخابات کی تیاری کا سال شروع ہو جائے گا اس میں پی ڈی ایم کی حکمت عملی کیا ہو گا۔
    ان کا کہنا تھا ان تمام سوالوں کو مدنظر رکھتے پی ڈی ایم کا بقا بہت مشکل ہو گا۔
    اپوزیشن کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اتحاد ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا بہت فائدہ تحریک انصاف کی حکومت کو ہو گا۔
    انھوں نے مزید کہا کہ اگر گزشتہ چند ہفتوں کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیں تو سینیٹ انتخاب ہو یا چیئرمین سینیٹ کا انتخاب، پی ڈی ایم اتحاد حکومت کو اس نہج پر لے گیا تھا جہاں حکومت اپنے نمبرز گیم میں کمزور ہو گئی تھی۔

    ایسے میں اگر لانگ مارچ ہوتا تو حکومت کو ایک بڑا دھچکا لگ سکتا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر لانگ مارچ نہیں ہوتا اور پی ڈی ایم کا مشترکہ پلیٹ فارم برقرار رہتا ہے تو بجٹ کی منظوری کے وقت یہ اتحاد حکومت کو مشکل میں ڈال سکتا ہے کیونکہ اگر حکومت بجٹ منظور نہیں کروا سکتی تو حکومت کابینہ برطرف سمجھی جاتی ہے۔
    ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں پیپلزپارٹی نظام میں رہتے ہوئے انھی طریقوں سے پی ڈی ایم کو اپنی تحریک جاری رکھنے کی تجویز دے رہی تھی۔
    زرداری کے نواز شریف کے وطن واپس آنے کے مطالبے کا مقصد اور اثر کیا ہو سکتا ہے؟
    سہیل وڑائچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری کے اس مطالبےکا مقصد یہ ہے کہ نواز شریف بھی اس سیاسی جدوجہد میں ان کے ساتھ آخری حد تک جائیں اور ایک محفوظ جگہ پر نہ بیٹھے رہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی ملک میں آ کر برابری کے سطح پر اس سیاسی لڑائی میں ان کا ساتھ دیں۔

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56419095

Viewing 1 post (of 1 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi