Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 39 total)
  • Author
    Posts
  • JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    https://dailyurducolumns.com/column/ayaz-amir/nalaiqi-ka-talluq-na-jamhuriat-na-aamriyat-se.aspx

    ______________________________________________________________________________________________________________________

    محترم ایاز امیر صاحب کی ایک تحریر نظر سے گزری اور سوچا آپ سب کی خدمت میں پیش کی جاۓ اور آپکی راۓ سے سیکھوں

    . مجھے اندازہ ہے کے محترم ایاز امیر صاحب کو اس محفل میں کوئی زیادہ پزیرائی نہیں ملتی گو ان کی تحریروں میں کافی کچھ ہوتا ہے سوچنے کو. کوئی متفق ہو نہ ہو یہ ایک اور بات ہے. اس بار بھی محترم ایاز امیر صاحب نے کچھ مثالیں دے کر اپنی راۓ کو تقویت پہنچائی ہے.

    ذاتی طور پر میں اس تحریر سے کافی حد تک متفق ہوں

    • This topic was modified 54 years, 4 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #2

    پوری تحریر

    میں اتنا بڑا نالائق ہوں کے درست طریقے سے تحریر کی نقل کو یہاں چپساں بھی نہیں کر سکا

    _______________

    اکستان کا پرابلم نالائقی ہے۔ انفرادی ہنر ہم میں ہو گا لیکن ہماری تاریخ ثابت کرتی ہے کہ اجتماعی طور پہ ہم پرلے درجے کے نالائق لوگ ہیں۔ کوئی کام ہم سے سیدھا ہوتا ہے؟ سڑکوں سے لے کر دفتری کاموں تک، ہم کہیں بھی دیانتداری کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ کیفیت ایسی ہو تو نظامِ حکومت آپ جو مرضی لے آئیں نتیجہ وہی نکلے گا جو ہمارے اجتماعی حال میں نظر آتا ہے۔
    کوئی ایک ادارہ تو ہو جو ہماری نالائقی سے بچا ہو۔ انگریز اچھا بھلا نظام تعلیم دے گئے تھے، اس کا ہم نے بیڑہ غرق کر دیا۔ تعلیم کے حوالے سے غور کرنے کی بات یہ کہ ہمارے تمام تر مذہبی دعووں کے باوجود پاکستان میں جس کسی کی تھوڑی سی استطاعت ہو چاہتا ہے کہ اس کے بچے مشنری یا انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ پاکستان میں تعلیم کی معراج یہی مشنری سکول اور کالج رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مشنری سکولوں کو بھی ہم نے نہیں بخشا اور ان کا وہ معیارِ تعلیم و تدریس نہیں رہا جو گزرے وقتوں میں ہوا کرتاتھا۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ مولانا محمد خان شیرانی‘ جو جے یو آئی کے بڑے لیڈر ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے ہیں‘ نے اپنے ایک بیٹے کا داخلہ ایچی سن کالج لاہور میں کرایا۔ یعنی دوسروں کو تلقین مدرسوں کی تعلیم کی اور اپنا فرزند ملک کے صفِ اول کے انگریزی سکول میں۔ یہ الگ بات ہے کہ فرزند زیادہ دیر وہاں ٹھہر نہ سکا۔
    سڑکیں اور پل اچھے بھلے بنتے تھے۔ انگریزوں کے پرانے پلوں پہ ایک نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ تعمیر کے معیار کیا ہوا کرتے تھے۔ اب ان کاموں میں کتنے گھپلے ہوتے ہیں ہم سب جانتے ہیں۔ ریلوے نظام ہمارے ہاتھوں تباہ ہوا۔ اینگلو انڈین یعنی جنہیں ہم دیسی انگریز کہتے تھے ریلوے نظام میں کلیدی ذمہ داریاں سنبھالا کرتے تھے۔ وہ سب چھوڑ گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے تقریباً ساری اینگلو انڈین آبادی کو یہاں سے بھگا دیا۔ ریاست کا ماحول ہی ایسا بن گیا کہ اُن دیسی انگریزوں نے یہاں سے ہجرت کرنے میں اپنی بہتری سمجھی۔ ان کا رنگ ہمارے جیسا تھا لیکن انگریز اثر کی وجہ سے محنت اور ڈسپلن اُن کے مجموعی مزاج میں ہم پکے دیسیوں سے تھوڑا زیادہ تھا۔ ایک زمانے میں ریلویز کا بہت اچھا نظام ہوا کرتا تھا۔ پھر خرابی کیا بربادی آتی گئی اور آج ریلویز کا نظام کھنڈر بننے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
    یہ ذہن نشین رہے کہ آج بھی جو ادارے ہیں سارے کے سارے انگریزوں کے بنائے ہوئے تھے۔ قانون ان کے، عدالتی نظام ان کا، ضابطے کی کارروائیاں سب ان کی ترتیب کردہ۔ آفرین ہو ہماری اجتماعی صلاحیتوں پہ کہ کوئی ایک ادارہ نہیں جو ہماری اجتماعی نالائقی سے بچ گیا ہو۔ نہیں، صرف ایک ادارہ ہے جس نے اپنے آپ کو بچا رکھا ہے اور وہ ہے عسکری شعبہ۔ عسکری اداروں نے بہت حد تک انگریز کے ورثے کو سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔ نعرے جو بھی ہوں، ان اداروں کا مزاج یا جسے ہم انگریزی میں ethos کہتے ہیں وہی ہے جو انگریز کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ ہندوستان کی فوج ہو یا بنگلہ دیش اور پاکستان کی، اِن کی تنظیم اور ٹریننگ کے طریقہ کار وہی ہیں جو ہمیں ورثے میں ملے۔
    پی آئی اے واحد ادارہ ہے جو ہمارے ہاتھوں سے بنا۔ جب تک اس کے سربراہ وہ رہے جن کی تعلیم و تربیت انگریزی ماحول میں ہوئی تھی‘ اس کا معیار بلند رہا۔ ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان پاکستانی تربیت گاہوں کی پیداوار نہ تھے۔ ان کی سکولنگ اور تربیت انگریز اداروں میں ہوئی۔ جو مزاج ان کا وہاں بنا اُسی مزاج کو انہوں نے پی آئی اے کا حصہ بنایا۔ جب پاکستانی جمہوریت یونین بازی کی شکل میں پی آئی اے میں داخل ہوئی تو ہماری ایئر لائن بربادی کے راستے پہ چل نکلی۔ یہ بات بھی ہے کہ نور خان اور اصغر خان جیسے سربراہ پی آئی اے میں آنا بند ہو گئے۔ آتے بھی کیسے جب وہ ساری پود ہی ختم ہوتی گئی۔ جو ماحول ہم نے ملک کا بنا دیا ہے اُس میں کسی معجزے سے ہی کوئی نور خان یا اصغر خان پیدا ہوسکتا ہے۔ اب تو انہی پہ گزارا کرنا پڑتاہے جوموجود ہیں۔
    ایسے میں جمہوریت اورآمریت کی بحث بے معنی ہے۔ تاریخِ دنیا میں زیادہ کارنامے آمروں کے کھاتوں میں آتے ہیں۔ سکندرِ اعظم ہو یا چنگیز خان وہ سب آمر تھے۔ جولیئس سیزر، نپولین، آپ نام لیتے جائیں سارے کے سارے اپنے زمانوں کے مردِ آہن تھے۔ جمہوریت تو پچھلے سوسال کی پیداوار ہے۔ برطانیہ میں پہلے آئی اوریورپ کے دیگر ممالک میں بہت عرصے بعد اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ ہمارا المیہ یہ رہاہے کہ جمہوریت تو یہاں تھی ہی کمزور اورجو آمر آئے انہوں نے بھی نالائقی کے فن میں کمال کر دیا۔ کوئی سوچ، فکر، ویژن کسی ایک میں نہ تھا۔ مطلق العنانیت تو تب کسی کام کی کہ آپ کے سامنے کوئی سوچ ہو۔ مصطفی کمال اتاتُرک ایک آمر تھا۔ اندازہ لگائیے کہ ہٹلر جیسا آدمی بھی اتا تُرک کو ایک بڑا آدمی سمجھتا تھا۔ لیکن اتاتُرک جیسے کتنے اور لیڈر مسلم ممالک میں پیدا ہوئے ہیں؟ پچھلے سوسال میں اتاتُرک جیسا لیڈر کسی مسلم ملک کو نصیب نہیں ہوا۔ کامیاب جرنیل تو تھا ہی لیکن شکست کی راکھ سے اس نے ایک نئے وطن کی تعمیر بھی کی۔
    جاپان کو جمہوریت امریکیوں نے دی‘ نہیں تو وہ خالصتاً ایک آمرانہ ملک تھا۔ چین میں تو ہے ہی ایک پارٹی سسٹم۔ اور جو ہمارا تصورِ جمہوریت ہے اس کو تو چین مانتا ہی نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان میں آمریت ہونی چاہیے۔ جیسے عرض کیا‘ ہماری آمریتیں بھی نالائق نکلیں۔ چین جیسی آمریت کے ہم قابل نہیں۔ ہمارا وہ تاریخی پسِ منظر ہی نہیں جس کی بدولت ہم انقلاب کی راہوں پہ چل سکیں‘ لیکن ہمارا مسئلہ جمہوریت نہیں۔ یہاں آپ انگریز کی پارلیمنٹ لے آئیں ہم نے اس کو ناکارہ بنادینا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ محض جمہوریت کسی چیز کا حل نہیں۔ روس کی جمہوریت آئی اور سوویت یونین کی وحدت کا شیرازہ بکھر گیا۔ بورس یلسن جمہوری طور پہ روس کے صدر منتخب ہوئے تھے اور اُن سے نکماّ سربراہ پوری روس کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ روس کی تنزلی کو ولادیمیر پیوٹن نے روکا اور جمہوری طریقوں سے نہیں بلکہ ایک مردِآہن کے طورپر۔
    ہمارے شہروں کاگند کیسے صاف ہو؟ پاکستانی عوام کو صفائی کا درس کون دے گا؟ کراچی کے قدرتی نالے جوکہ بارشوں کا پانی سمندر میں لے جاتے تھے بند ہوئے تو چاہے ملک میں کوئی آمر حکومت کررہا تھا یا جمہوریت کی بہار تھی‘ لوٹ مار کا بازار ہر دور میں گرم رہا۔ آمر مسلط ہو یا انتخابات کا انعقاد ہورہا ہو، کبھی کرپشن کا خاتمہ اس ملک میں ہوا؟ پٹوار اورتھانے کا نظام ہر موسم میں ایک طرزکا رہا۔ پھر ہم جو مڈل کلاسیے یا خودساختہ دانشور ہیں جمہوریت اورآمریت کی بحث میں کیوں پڑے رہتے ہیں؟ 95 فیصد عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتاکہ یہاں کو ن سا نظامِ حکومت ہے۔ پاکستان میں کب چیزیں ہونے لگیں گی؟ ہرکام کی رفتار کب تیز ہوگی؟ بے ایمانی‘ جواب معاشرے میں اتنی پھیل چکی ہے‘ اس کی سطح کب تھوڑی نیچے آسکے گی؟ مسائل تو یہ ہیں۔ اِن کا حل کیا ہے؟
    ہم پنجابیوں میں خوبیاں بہت ہیں‘ لیکن کچھ کام ہمارے بس کی بات نہیں۔ ریاست ایسی بن چکی ہے، خاص طورپہ ایسٹ پاکستان کے الگ ہونے کے بعد، کہ ہم پنجابیوں کا پلڑا اس میں بھاری ہوگیا ہے۔ آبادی اوروسائل کے لحاظ سے باقی قومیتوں سے ہمارا وزن زیادہ ہے۔ اس بنا پہ ریاست چلانے کی ذمہ داری بھی ہمارے کندھوں پہ زیادہ ہے۔ لیکن تاریخِ پاکستان ثابت کرتی ہے کہ فنِ حکمرانی ہم پنجابیوں کو نہیں آتی۔ سکندراعظم سے لے کر آج تک ہم پنجابی مہاراجہ رنجیت سنگھ کو چھوڑ کر کبھی اقتدار میں نہیں رہے۔ حکمرانی کے جوہر پھر ہمیں کہاں سے آئیں گے؟

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #3
    آج تو آپ نے بھی ایک عدد بوٹ چاٹیا کالم لگادیا۔۔۔۔۔

    جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ اِس فورم کے عظیم جمہوریت پرستوں کو ایسی باتیں، ایسے کالم سخت ناگوار گذرتے ہیں۔۔۔۔۔

    حد ہی کردی آپ نے تو۔۔۔۔۔

    :cwl: ;-) :cwl: ™©

    JMP

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    جے بھیا،
    بہت اچّھا کالم ہے ایاز امیر صاحب نے بلکل درست نشاندھی کی ہے کہ من حیث الحجوم ہماری سابقہ قوم نالائقی کا شاہکار ہے نظام وغیرہ کی باتیں تو بیکار لوگوں کی ذہنی شجر کاری ہے بجا طور پر ایاز امیر صاحب نے انگریزوں کے سنہری دور کو یاد کرتے ہوے اپنا نوحہ پڑھا ہے کچھ سوالات کے جوابات مگر اپنی پیدائشی نالائقی کی وجہ مل نہیں پارہے ہیں
    انگریزوں کا دماغ خراب ہوا تھا یا انسانیت کی خدمت کا من کیا تھا کہ جو برطانیہ سے سیکڑوں کلومیٹر سمندر کے اس پار ہندوستانیوں کو ادارے ، ریلوے تعلیم دینے کے لئے آے تھے؟
    انگریز ہمیں مضبوط جمہوری ادارے کیوں نہیں دے گیا؟ کیوں مظبوط عسکری ادارہ دے گیا؟
    آئیے اپنے کولونیل ماسٹر کی زبانی سنتے ہیں اسکی اپنی کہانی
    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #5

    پاکستان کا مسلہ نالائقی بھی نہیں عقلی ہے … اور اس عقل کو کوئی ٹھیک سمت گامزن نہ کر سکا ….ملاؤں نے اس کو کسی اور سمت گامزن کیا … یہاں تک کہ اس قوم کے لیڈر بھی اس ملک کو کنفیوز کر کے چلے گے … اور اس ملک کے دانشور ٹھیک طریقے سے اس سارے مسلے کی جڑ کو بیان نہ کر سکے … کوئی شاعر بن کر لوگوں کو سمجتا رہا اور کوئی مفکر بن کر … لیکن سیدھے اور آسان الفاظ میں لوگوں کو بتانے سے سب ڈرتے رہے امریکا کے لیڈروں نے جب اپنے ملک کی بنیاد رکھی تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا مذھب کا ریاست سے کوئی معاملہ نہیں .. جب کہ ہمارے لیڈر ایک طرف سیکولر ملک بنانتے رہے اور دوسری طرف مذھب لیکچر دیتے رہے … ہمارا خاص مسلہ یہ ہے کہ ہماری قوم اس وقت دو کشتیوں کی مسافر ہے … انگریزوں کی مرھبانی تھی کہ انہوں نے ہمیں مغلوں جیسی عیاش قوم سے آزاد کرایا اور سائنس اور جدید تعلیم کی رہ پر گامزن کیا لیکن ہمارے اندر جو شخصیت اور اسلاف پرستی ختم نہ کر سکے … کیا اچھا ہوتا ہم عربوں کی جگہ انگریزوں کو تسلیم کر لیتے تھے تو دونوں لٹیرے ہی …. ایک لٹیروں کے لاے ہوے نظام کو ہم نے سر پر اٹھا لیا اور دوسرے سے بغاوت کر دی …. اور انگریزوں کے مشن اور ان کے نظام کو اگلے لے کر چلتے اور عربوں کو بھول جاتے تو ہمارا ملک ویسے ہی ترقی کر جاتا

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #6
    آج تو آپ نے بھی ایک عدد بوٹ چاٹیا کالم لگادیا۔۔۔۔۔ جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ اِس فورم کے عظیم جمہوریت پرستوں کو ایسی باتیں، ایسے کالم سخت ناگوار گذرتے ہیں۔۔۔۔۔ حد ہی کردی آپ نے تو۔۔۔۔۔ :cwl: ;-) :cwl: ™© JMP

    بلیک شیپ

    آپ کو گھیرنے کے لئے اور آپکی توجہ حاصل کرنے کے لئے ورنہ کہاں آپ اس مسکین پر توجہ فرماتے ہیں . آپ تو صرف صف اول کے مبصرین اور لکھنے والوں کی حد تک ہی اپنے کو محدود کر لیتے ہیں

    مذاق برطرف ، کسی کو کوئی نام وغیرہ دینا میرے لئے بہت آسان ہے مگر اس کی بات کو دلیل سے جواب دینا بہت مشکل .

    JMP
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #7
    جے بھیا، بہت اچّھا کالم ہے ایاز امیر صاحب نے بلکل درست نشاندھی کی ہے کہ من حیث الحجوم ہماری سابقہ قوم نالائقی کا شاہکار ہے نظام وغیرہ کی باتیں تو بیکار لوگوں کی ذہنی شجر کاری ہے بجا طور پر ایاز امیر صاحب نے انگریزوں کے سنہری دور کو یاد کرتے ہوے اپنا نوحہ پڑھا ہے کچھ سوالات کے جوابات مگر اپنی پیدائشی نالائقی کی وجہ مل نہیں پارہے ہیں انگریزوں کا دماغ خراب ہوا تھا یا انسانیت کی خدمت کا من کیا تھا کہ جو برطانیہ سے سیکڑوں کلومیٹر سمندر کے اس پار ہندوستانیوں کو ادارے ، ریلوے تعلیم دینے کے لئے آے تھے؟ انگریز ہمیں مضبوط جمہوری ادارے کیوں نہیں دے گیا؟ کیوں مظبوط عسکری ادارہ دے گیا؟ آئیے اپنے کولونیل ماسٹر کی زبانی سنتے ہیں اسکی اپنی کہانی

    Ghost Protocol sahib

    محترم گھوسٹ پروٹوکول صاحب

    اپنی راۓ دینے کا شکریہ. آپ ہمیشہ کرم کرتے ہیں کے میری تحریروں کو اکثر پڑھتے ہیں اور اکثر راۓ سے بھی نوازتے ہیں.

    مجھے لگ رہا ہے کے آپ شاید محترم ایاز صاحب کی راۓ سے متفق نہیں ہیں . آپکی راۓ میں سنجیدگی تو ہمیشہ کی طرح نمایاں ہے مگر ہلکا سا مگر بہت پر اثر طنز بھی لگ رہا ہے مجھے . میں غلط بھی ہو سکتا ہوں . آپکی راۓ کے حق اور راۓ دونوں کا احترم کرتا ہوں

    ١) میرے خیال میں انگریز ، بھارت میں عوام کو تعلیم اور ریل وغیرہ دینے بلکل نہیں آے تھے. وہ اپنے مفاد کی خاطر آے تھے . اسی مفاد کو حاصل اور پھر برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے تعلیم کو پروان چڑھایا اور ریل وغیرہ تعمیر کیں . تعلیم میرے خیال میں اس لئے کے انکو کاروبار حکومت چلانے کے لئے مقامی لوگوں کی بھی ضرورت تھی اور تعلیم یافتہ لوگ حکومت کو بہتر چلانے میں مدد دے سکتے تھے. ریل شاید اس لئے ضروری تھی کے اتنے بڑے ملک میں حکومت کو قائم رکھنا اور تجارت کو فروغ دینا اس کے بغیر ممکن نہیں تھا . اب دیکھیں کے جب یہی تعلیم یافتہ لوگ تقسیم بھارت کے بعد پاکستان آے تو ہم اپنے کاروبار حکومت کو شروع میں بہتر چلا پاے
    ٢) انگریز حکمران تھا اور اس نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے لئے ان اداروں کو مضبوط کیا جس کی ضرورت تھی. ویسے جو جمہوری ادارے ہم ابھی چلا رہے ہیں ان کی بنیاد بھی انگریز نے رکھی ورنہ جہاں تک مجھے علم ہے ہم تو بادشاہ سلامت اور راجوں مہاراجوں کے اقبال کو ہی بلند کرتے تھے .

    جو ویڈیو آپ نے پہنچائی ہے اس کا بہت شکریہ

    ١) کیا انگریزی سے پہلے ہندوستان کی تجارت زیادہ تھی یا کم. مرے خیال میں انگریز ہی نے اس تجارت کو بڑھایا. اپنا تو فائدہ ہوا مگر مقامی لوگوں کا بھی . کیا مغلوں یا کافروں کے مہاراجاؤں نے صنعت ، ریل، شاہراہیں ، تعلیم وغیرہ کے لئے کچھ کیا تھا . کیا ہندوستان کی اتنی دولت کے باوجود اس کے پاس بحری بیڑے تھے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت کو پروان چڑھا سکیں . کون سی مصنوعات برآمد اور درآمد کی جاتی تھیں .

    ٢) ہمارے پڑوسی دشمن اور ہم جس آزادی کا شکر ادا کرتے ہیں اس آزادی کے بعد ہم نے کونسی صنعتوں کو ترقی دی . ایک جوہری بم کے علاوہ کیا بنایا ہے ہم نے. کونسی ایجادات ہماری کاوشوں کی مرہون منت ہیں . یہی حال ہمارے پڑوسی ملک کا ہے جہاں غربت ابھی بھی عام ہے

    ٣) اگر آزادی حاصل کی تھی انگریزی سامراج سے تو ہم عسکری اداروں کو کیوں نہ سیاسی امور سے دور رکھ سکے . اپنے حاکموں کو تو مار بھگایا مگر ان کے نظام کو توڑ پھوڑ نہ سکے

    ماسٹر ہمیشہ ماسٹر ہوتا ہے چاہے وہ کولونیل ہو یا مقامی اور میرے خیال میں ہمارے مزاج میں حاکمیت اور غلامی بہت حد تک بسی ہوئی ہے. انگریز تو تہتر سال پہلے ہار کر چلا گیا اور ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کے انگریز کو ہم نے شکست دی مگر ملتان میں ایک پڑھے لکھے موجودہ دنیاوی تقاضوں سے ہم آہنگ حکومت کی ایک اہم شخصیت کے ہاتھ چومنے اور پیروں کو ہاتھ لگانے سے ہم کیوں نہیں جان چھڑاتے . کیا یہ بھی انگریز سکھا کر گیا تھا

    جہاں تک میں محترم ایاز صاحب کے مضمون کو سمجھ پایا ہوں، وہ یہ نہیں ہے کے جمہوریت اچھی ہے یا آمریت اور آمریت سے مرد صرف فوج نہیں ہے. وہ شاید یہ کہہ رہے ہیں کے جو بھی نظام ہم چنیں کیا اس نظام کو بہتر انداز میں چلانے کی سکت اور فضیلت ہم میں ہے یا نہیں

    EasyGo
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #8

    بلیک شیپ

    آپ کو گھیرنے کے لئے اور آپکی توجہ حاصل کرنے کے لئے ورنہ کہاں آپ اس مسکین پر توجہ فرماتے ہیں . آپ تو صرف صف اول کے مبصرین اور لکھنے والوں کی حد تک ہی اپنے کو محدود کر لیتے ہیں

    مذاق برطرف ، کسی کو کوئی نام وغیرہ دینا میرے لئے بہت آسان ہے مگر اس کی بات کو دلیل سے جواب دینا بہت مشکل .

    ایسے لاڈ پیار سے ہی بچے مغرور ہو جاتے ہیں

    کبھی کبھار ڈانٹ بھی ضروری ہے

    :bigsmile: :lol:

    unsafe
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #9
    جے بھیا، بہت اچّھا کالم ہے ایاز امیر صاحب نے بلکل درست نشاندھی کی ہے کہ من حیث الحجوم ہماری سابقہ قوم نالائقی کا شاہکار ہے نظام وغیرہ کی باتیں تو بیکار لوگوں کی ذہنی شجر کاری ہے بجا طور پر ایاز امیر صاحب نے انگریزوں کے سنہری دور کو یاد کرتے ہوے اپنا نوحہ پڑھا ہے کچھ سوالات کے جوابات مگر اپنی پیدائشی نالائقی کی وجہ مل نہیں پارہے ہیں انگریزوں کا دماغ خراب ہوا تھا یا انسانیت کی خدمت کا من کیا تھا کہ جو برطانیہ سے سیکڑوں کلومیٹر سمندر کے اس پار ہندوستانیوں کو ادارے ، ریلوے تعلیم دینے کے لئے آے تھے؟ انگریز ہمیں مضبوط جمہوری ادارے کیوں نہیں دے گیا؟ کیوں مظبوط عسکری ادارہ دے گیا؟ آئیے اپنے کولونیل ماسٹر کی زبانی سنتے ہیں اسکی اپنی کہانی

    جی پی بھائی اپ نے کبھی سوچا کہ برطانیہ کے بچوں کو ان کی اصلی اور سچی تاریخ پڑھائی جاتی ہے چاہے انہوں نے لوٹ مار کی ہو یا پھر کچھ اچھے کام اور آپ اپنی چھوتی کی معاشرتی علوم کی کتاب پڑھو اوپر سے نیچے تک جھوٹ … جس کی وجہ سے بچے اپنی اصل تاریخ کو قبول نہیں کرتے .. اور ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ ہمارے بزرگ تو جیسے کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتے … اور جب ان کو حقیقت بتائی جاتی تو پھر وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں

    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10
    Ghost Protocol sahib

    ١) میرے خیال میں انگریز ، بھارت میں عوام کو تعلیم اور ریل وغیرہ دینے بلکل نہیں آے تھے. وہ اپنے مفاد کی خاطر آے تھے . اسی مفاد کو حاصل اور پھر برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے تعلیم کو پروان چڑھایا اور ریل وغیرہ تعمیر کیں . تعلیم میرے خیال میں اس لئے کے انکو کاروبار حکومت چلانے کے لئے مقامی لوگوں کی بھی ضرورت تھی اور تعلیم یافتہ لوگ حکومت کو بہتر چلانے میں مدد دے سکتے تھے. ریل شاید اس لئے ضروری تھی کے اتنے بڑے ملک میں حکومت کو قائم رکھنا اور تجارت کو فروغ دینا اس کے بغیر ممکن نہیں تھا . اب دیکھیں کے جب یہی تعلیم یافتہ لوگ تقسیم بھارت کے بعد پاکستان آے تو ہم اپنے کاروبار حکومت کو شروع میں بہتر چلا پاے ٢) انگریز حکمران تھا اور اس نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے لئے ان اداروں کو مضبوط کیا جس کی ضرورت تھی. ویسے جو جمہوری ادارے ہم ابھی چلا رہے ہیں ان کی بنیاد بھی انگریز نے رکھی ورنہ جہاں تک مجھے علم ہے ہم تو بادشاہ سلامت اور راجوں مہاراجوں کے اقبال کو ہی بلند کرتے تھے .

    جے بھیا،
    اپنے پہلے نکتہ میں آپ نے سب کچھ واضح کردیا ہے صرف چند الفاظ کے چناؤ پر میرا اعتراض ہے کہ انگریز کے مقاصد میں تجارت کو فروغ دینے، یا حکومت کو بہتر طریقہ سے چلانے یا لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانے جیسے نیک اہداف بھی شامل تھے ، میرا نہیں خیال کہ ایسا کویی سین تھا .
    انگریز قبضہ گروپ تھا اور ہندوستان کو لوٹنا اور جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے اہم خطہ پر قبضہ برقرار رکھنا اسکا مقصد تھا اسکے علاوہ انگریز کے کردار کو کسی اور نظر سے دیکھنا میرے خیال میں خلاف حقیقت ہوگا.
    واضح رہے کہ میں یہاں اخلاقیات کی بات نہیں کررہا ہوں انگریز کی جنگی قابلیت ،قوت اور شاطری پر سوال کھڑے نہیں کررہا ہوں انہوں نے اپنی محنت سے قوت حاصل کر ہی لی تھی اور اپنے دفاع سے غافل قوم پر قبضہ حاصل کر لیا تھا تو رائج الوقت نظام اور روایات کے مطابق درست ہی کیا تھا اور اس قابلیت کا ایک پہلو مقامی آبادی کے ایک طبقہ کو مختلف ترغیبات کے ذرئیے ہمنوا بنا کر اپنے بڑے مقصد یعنی قبضہ کو دوام بخشنے کا کام بخوبی انجام دیا تھا
    میرا کہنا یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو ضرور کوسیں ، نالائقی کا نوحہ پڑھیں ، مسائل کی طرف توجہ دلایں مگر تاریخ کو انکے درست پس منظر میں بیان کریں کرداروں کو ٹیکٹیکل سے زیادہ اسٹراٹیجک نگاہ سے دیکھیں.

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #11

    پوری تحریر

    میں اتنا بڑا نالائق ہوں کے درست طریقے سے تحریر کی نقل کو یہاں چپساں بھی نہیں کر سکا

    _______________

    اکستان کا پرابلم نالائقی ہے۔ انفرادی ہنر ہم میں ہو گا لیکن ہماری تاریخ ثابت کرتی ہے کہ اجتماعی طور پہ ہم پرلے درجے کے نالائق لوگ ہیں۔ کوئی کام ہم سے سیدھا ہوتا ہے؟ سڑکوں سے لے کر دفتری کاموں تک، ہم کہیں بھی دیانتداری کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ کیفیت ایسی ہو تو نظامِ حکومت آپ جو مرضی لے آئیں نتیجہ وہی نکلے گا جو ہمارے اجتماعی حال میں نظر آتا ہے۔ کوئی ایک ادارہ تو ہو جو ہماری نالائقی سے بچا ہو۔ انگریز اچھا بھلا نظام تعلیم دے گئے تھے، اس کا ہم نے بیڑہ غرق کر دیا۔ تعلیم کے حوالے سے غور کرنے کی بات یہ کہ ہمارے تمام تر مذہبی دعووں کے باوجود پاکستان میں جس کسی کی تھوڑی سی استطاعت ہو چاہتا ہے کہ اس کے بچے مشنری یا انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ پاکستان میں تعلیم کی معراج یہی مشنری سکول اور کالج رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مشنری سکولوں کو بھی ہم نے نہیں بخشا اور ان کا وہ معیارِ تعلیم و تدریس نہیں رہا جو گزرے وقتوں میں ہوا کرتاتھا۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ مولانا محمد خان شیرانی‘ جو جے یو آئی کے بڑے لیڈر ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے ہیں‘ نے اپنے ایک بیٹے کا داخلہ ایچی سن کالج لاہور میں کرایا۔ یعنی دوسروں کو تلقین مدرسوں کی تعلیم کی اور اپنا فرزند ملک کے صفِ اول کے انگریزی سکول میں۔ یہ الگ بات ہے کہ فرزند زیادہ دیر وہاں ٹھہر نہ سکا۔ سڑکیں اور پل اچھے بھلے بنتے تھے۔ انگریزوں کے پرانے پلوں پہ ایک نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ تعمیر کے معیار کیا ہوا کرتے تھے۔ اب ان کاموں میں کتنے گھپلے ہوتے ہیں ہم سب جانتے ہیں۔ ریلوے نظام ہمارے ہاتھوں تباہ ہوا۔ اینگلو انڈین یعنی جنہیں ہم دیسی انگریز کہتے تھے ریلوے نظام میں کلیدی ذمہ داریاں سنبھالا کرتے تھے۔ وہ سب چھوڑ گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے تقریباً ساری اینگلو انڈین آبادی کو یہاں سے بھگا دیا۔ ریاست کا ماحول ہی ایسا بن گیا کہ اُن دیسی انگریزوں نے یہاں سے ہجرت کرنے میں اپنی بہتری سمجھی۔ ان کا رنگ ہمارے جیسا تھا لیکن انگریز اثر کی وجہ سے محنت اور ڈسپلن اُن کے مجموعی مزاج میں ہم پکے دیسیوں سے تھوڑا زیادہ تھا۔ ایک زمانے میں ریلویز کا بہت اچھا نظام ہوا کرتا تھا۔ پھر خرابی کیا بربادی آتی گئی اور آج ریلویز کا نظام کھنڈر بننے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ ذہن نشین رہے کہ آج بھی جو ادارے ہیں سارے کے سارے انگریزوں کے بنائے ہوئے تھے۔ قانون ان کے، عدالتی نظام ان کا، ضابطے کی کارروائیاں سب ان کی ترتیب کردہ۔ آفرین ہو ہماری اجتماعی صلاحیتوں پہ کہ کوئی ایک ادارہ نہیں جو ہماری اجتماعی نالائقی سے بچ گیا ہو۔ نہیں، صرف ایک ادارہ ہے جس نے اپنے آپ کو بچا رکھا ہے اور وہ ہے عسکری شعبہ۔ عسکری اداروں نے بہت حد تک انگریز کے ورثے کو سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔ نعرے جو بھی ہوں، ان اداروں کا مزاج یا جسے ہم انگریزی میں ethos کہتے ہیں وہی ہے جو انگریز کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ ہندوستان کی فوج ہو یا بنگلہ دیش اور پاکستان کی، اِن کی تنظیم اور ٹریننگ کے طریقہ کار وہی ہیں جو ہمیں ورثے میں ملے۔ پی آئی اے واحد ادارہ ہے جو ہمارے ہاتھوں سے بنا۔ جب تک اس کے سربراہ وہ رہے جن کی تعلیم و تربیت انگریزی ماحول میں ہوئی تھی‘ اس کا معیار بلند رہا۔ ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان پاکستانی تربیت گاہوں کی پیداوار نہ تھے۔ ان کی سکولنگ اور تربیت انگریز اداروں میں ہوئی۔ جو مزاج ان کا وہاں بنا اُسی مزاج کو انہوں نے پی آئی اے کا حصہ بنایا۔ جب پاکستانی جمہوریت یونین بازی کی شکل میں پی آئی اے میں داخل ہوئی تو ہماری ایئر لائن بربادی کے راستے پہ چل نکلی۔ یہ بات بھی ہے کہ نور خان اور اصغر خان جیسے سربراہ پی آئی اے میں آنا بند ہو گئے۔ آتے بھی کیسے جب وہ ساری پود ہی ختم ہوتی گئی۔ جو ماحول ہم نے ملک کا بنا دیا ہے اُس میں کسی معجزے سے ہی کوئی نور خان یا اصغر خان پیدا ہوسکتا ہے۔ اب تو انہی پہ گزارا کرنا پڑتاہے جوموجود ہیں۔ ایسے میں جمہوریت اورآمریت کی بحث بے معنی ہے۔ تاریخِ دنیا میں زیادہ کارنامے آمروں کے کھاتوں میں آتے ہیں۔ سکندرِ اعظم ہو یا چنگیز خان وہ سب آمر تھے۔ جولیئس سیزر، نپولین، آپ نام لیتے جائیں سارے کے سارے اپنے زمانوں کے مردِ آہن تھے۔ جمہوریت تو پچھلے سوسال کی پیداوار ہے۔ برطانیہ میں پہلے آئی اوریورپ کے دیگر ممالک میں بہت عرصے بعد اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ ہمارا المیہ یہ رہاہے کہ جمہوریت تو یہاں تھی ہی کمزور اورجو آمر آئے انہوں نے بھی نالائقی کے فن میں کمال کر دیا۔ کوئی سوچ، فکر، ویژن کسی ایک میں نہ تھا۔ مطلق العنانیت تو تب کسی کام کی کہ آپ کے سامنے کوئی سوچ ہو۔ مصطفی کمال اتاتُرک ایک آمر تھا۔ اندازہ لگائیے کہ ہٹلر جیسا آدمی بھی اتا تُرک کو ایک بڑا آدمی سمجھتا تھا۔ لیکن اتاتُرک جیسے کتنے اور لیڈر مسلم ممالک میں پیدا ہوئے ہیں؟ پچھلے سوسال میں اتاتُرک جیسا لیڈر کسی مسلم ملک کو نصیب نہیں ہوا۔ کامیاب جرنیل تو تھا ہی لیکن شکست کی راکھ سے اس نے ایک نئے وطن کی تعمیر بھی کی۔ جاپان کو جمہوریت امریکیوں نے دی‘ نہیں تو وہ خالصتاً ایک آمرانہ ملک تھا۔ چین میں تو ہے ہی ایک پارٹی سسٹم۔ اور جو ہمارا تصورِ جمہوریت ہے اس کو تو چین مانتا ہی نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان میں آمریت ہونی چاہیے۔ جیسے عرض کیا‘ ہماری آمریتیں بھی نالائق نکلیں۔ چین جیسی آمریت کے ہم قابل نہیں۔ ہمارا وہ تاریخی پسِ منظر ہی نہیں جس کی بدولت ہم انقلاب کی راہوں پہ چل سکیں‘ لیکن ہمارا مسئلہ جمہوریت نہیں۔ یہاں آپ انگریز کی پارلیمنٹ لے آئیں ہم نے اس کو ناکارہ بنادینا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ محض جمہوریت کسی چیز کا حل نہیں۔ روس کی جمہوریت آئی اور سوویت یونین کی وحدت کا شیرازہ بکھر گیا۔ بورس یلسن جمہوری طور پہ روس کے صدر منتخب ہوئے تھے اور اُن سے نکماّ سربراہ پوری روس کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ روس کی تنزلی کو ولادیمیر پیوٹن نے روکا اور جمہوری طریقوں سے نہیں بلکہ ایک مردِآہن کے طورپر۔ ہمارے شہروں کاگند کیسے صاف ہو؟ پاکستانی عوام کو صفائی کا درس کون دے گا؟ کراچی کے قدرتی نالے جوکہ بارشوں کا پانی سمندر میں لے جاتے تھے بند ہوئے تو چاہے ملک میں کوئی آمر حکومت کررہا تھا یا جمہوریت کی بہار تھی‘ لوٹ مار کا بازار ہر دور میں گرم رہا۔ آمر مسلط ہو یا انتخابات کا انعقاد ہورہا ہو، کبھی کرپشن کا خاتمہ اس ملک میں ہوا؟ پٹوار اورتھانے کا نظام ہر موسم میں ایک طرزکا رہا۔ پھر ہم جو مڈل کلاسیے یا خودساختہ دانشور ہیں جمہوریت اورآمریت کی بحث میں کیوں پڑے رہتے ہیں؟ 95 فیصد عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتاکہ یہاں کو ن سا نظامِ حکومت ہے۔ پاکستان میں کب چیزیں ہونے لگیں گی؟ ہرکام کی رفتار کب تیز ہوگی؟ بے ایمانی‘ جواب معاشرے میں اتنی پھیل چکی ہے‘ اس کی سطح کب تھوڑی نیچے آسکے گی؟ مسائل تو یہ ہیں۔ اِن کا حل کیا ہے؟ ہم پنجابیوں میں خوبیاں بہت ہیں‘ لیکن کچھ کام ہمارے بس کی بات نہیں۔ ریاست ایسی بن چکی ہے، خاص طورپہ ایسٹ پاکستان کے الگ ہونے کے بعد، کہ ہم پنجابیوں کا پلڑا اس میں بھاری ہوگیا ہے۔ آبادی اوروسائل کے لحاظ سے باقی قومیتوں سے ہمارا وزن زیادہ ہے۔ اس بنا پہ ریاست چلانے کی ذمہ داری بھی ہمارے کندھوں پہ زیادہ ہے۔ لیکن تاریخِ پاکستان ثابت کرتی ہے کہ فنِ حکمرانی ہم پنجابیوں کو نہیں آتی۔ سکندراعظم سے لے کر آج تک ہم پنجابی مہاراجہ رنجیت سنگھ کو چھوڑ کر کبھی اقتدار میں نہیں رہے۔ حکمرانی کے جوہر پھر ہمیں کہاں سے آئیں گے؟

    ایاز امیر کا کالم حسب معمول غلط توجیہات اور اخذ کردہ ناقص نتائج سے بھرپور ہے …صرف ایک بات پر میرا  اتفاق ہے کہ پاکستانی قوم بہت نالائق ہے

    میں چند چیدہ چیدہ نکات زیر بحث لانے کی کوشش کرتا ہوں
    موصوف نے یہ لکھا ہے کہ پاکستان کا ہر شعبہ ابتری کا  سوائے فوج کے جس نے اپنے آپ کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے …اب سوال یہ بنتا ہے کہ صاف ستھری وردی پہن کر …درجنوں میڈل سجا کر ..بینڈ باجوں والی پریڈ کروانا ہی ڈسپلن کا اور بہتری کا نام ہے تو فوج اس میں سب سے آگے ہے  اور بہترین ادارہ ہے …ورنہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر اس ادارے کو ملک کا دفاع کرنے کا پابند کرتی ہے مگر یہ بے غیرت ہر دوسرا کام کرتے ہوں سوائے اپنے اس اصل کام کے جس کے لیے اس ادارے کو بنایا گیا تھا …بے تحاشا رقوم خرچ کرنے کے باوجود فوج نے کسی ایک بھی مرحلے پر قوم کو سرخرو نہیں کیا …پے در پے شکستوں کی ذلتیں ہی دیکھی ہیں …میرے خیال میں سب سے زیادہ ابتری کا شکار اور شتر بے مہار محکمہ صرف فوج کا ہی ہے …یہاں ایاز امیر نے صرف  اپنے سابقہ فوجی ہونے کا حق ادا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے

    پھر ایاز امیر نے ہمیشہ کی طرح جمہوریت کی خرابیوں کا رنڈی رونا رویا ہے …یعنی جمہوریت کو آئے تو صرف سو  سال ھوئے ہیں ..ورنہ ماضی کی  دنیا تو صرف ڈکٹیٹروں کے سہارے چلتی رہی ہے …اس ڈفر کو اتنی معمولی سے بات سمجھ میں نہیں آتی کہ دنیا چلتی تو رہی تھی مگر کیا بڑے اعلیٰ طریقے سے چل رہی تھی؟ ان ماضی کی تمام سپر پاورز اور بادشاہتوں کے اندر عوام کس حال میں تھے؟ کیا ان کو بنیادی حقوق میسر تھے ؟ کیا اظہار راۓ کی آزادی تھی ..کیا مذہبی آزادی تھی؟ کیا مرد اور عورتوں کے حقوق کے درمیان  خلیج زیادہ گہری نہیں تھی؟
    میرا ایاز امیر سمیت پاکستانیوں سے ایک سوال ہے کہ اگر ایک  سو عام پاکستانیوں  کو یہ موقع دیا جاۓ کہ وہ برطانیہ  اور چین کے درمیان ایک ملک کا انتخاب کریں  جس میں وہ سیٹل ہونا چاہیں  تو یہ پاکستانی کس ملک کا انتخاب کریں گے؟ لازمی برطانیہ کا ..مگر کیوں؟ حالانکہ چین تو دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے ..برطانیہ سے تو وہ بہت آگے ہے ..پھر چین کیوں نہیں؟
    اگر روس اور سویڈن میں سے ایک ملک کے انتخاب کا موقع دیا جاۓ تو اکثریت پھر سویڈن کو چنے گی ..اس کیا کیا وجہ ہے؟ حالانکہ بقول ایاز امیر روس کے مرد آہن پوٹن نے تو روس کو امریکا کے ہم پلہ دنیا کی بڑی طاقت بنا رکھا ہے…پھر روس یا چین رہائش کے لیے …نوکری کے لیے …یا زندگی گزارنے کے لیے اولین ترجیح کیوں نہیں؟

    اس کی وجہ یہ ہے کہ ان آمریتوں نے ملکی سطح پر معاشی ترقی  تو ضرور لائی ہے مگر عوام پابندیوں میں جکڑے ھوئے ہیں …ہر پاکستانی کی خواہش ہوگی کہ وہ وہاں جاۓ جہاں اس کو آزادیاں ہوں …اقلیت کی حق تلفی نہ ہو ..مذہبی آزادیاں ہوں وغیرہ وغیرہ ..اور یہ بنیادی حقوق صرف ان ممالک میں ملتے ہیں جہاں جمہوریت ہے ..اسی وجہ سے پاکستانیوں کی ترجیح یورپ امریکا اور کینیڈا وغیرہ ہیں ..روس اور چین نہیں

    پتا نہیں جمہوریت کو ہمیشہ معاشی خوشحالی سے کیوں جوڑا جاتا ہے …اور ایاز امیر جیسے کالم نویسوں سمیت عوام کو بھی جمہوریت کی بنیادی ابجد سے واقفیت نہیں ہے …جمہوریت کا ایک بلواسطہ فائدہ ضرور ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہر جماعت نے پانچ سال بعد الیکشن میں جانا ہوتا ہے اس لیے ڈیلیور کرنا اس جماعت کی ضرورت ہوتی ہے …لیکن جمہوریت میں لازمی نہیں کوئی ڈیلیور کرے ..اگر کوئی لیڈر عوام کو بیوقوف بناکر ..اور صرف نعروں کی بنا پر جیت جاۓ تو شاید ڈیلیور نہ کرسکے مگر جمہوریت تو قصوروار نہیں …الزام تو عوام اپنے آپ کو دیں کہ کیوں ماموں بن گئے اور دھوکہ کھا گئے …جمہوریت میں اپنی اصلاح کا موقع ہوتا ہے ..ایک غلط فیصلہ کرلیا تو پانچ سال بعد الیکشن میں کسی اور کو موقع دیا جاسکتا ہے
    پھر ایاز امیر جیسے  لوگوں کا گھسا پٹا فقرہ کہ جمہوریت تو  صرف صنعتی انقلاب کی بائی پروڈکٹ ہے …او بھائی اب پاکستان میں تو صنعتی انقلاب پتا نہیں کتنی صدیوں بعد آئے گا تو اس وقت تک کیا امب چوپے جائیں؟ آمریت سے کام چلایا جاۓ؟ پھر یہ لوگ آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں کہ نہیں ہم یہ تو نہیں کہتے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہونی چاہیے…سوال یہ ہے کہ جمہوریت کو قبول کرتے وقت …اگر مگر چونکہ چنانچہ البتہ وغیرہ کیوں کرتے ہو؟

    موصوف ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ یونین بازی نے پی آئی اے کا بیڑا غرق کردیا حالانکہ ورکرز کے حقوق کے لیے یونینز  ایک بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں ورنہ بزنس مالکان زیادہ سے زیادہ منافع کی حرص میں ورکرز کو کچھ بھی نہ دیں …پی آئی اے کے زوال کی ایک بڑی وجہ اس کی نجکاری نہ ہونا ہے یونین بازی نہیں

    جہاں تک پنجابیوں کی بات کہ انہوں نے کبھی حکمرانی کی ہی نہیں لہٰذا انہیں کچھ پتا ہی نہیں ….اس پر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بھارت کو ہی دیکھ لیں ..ساری عمر باہر سے لوگ آکر حکمرانی کرتے رہے مگر اب وہ لوگ معاشی میدان اور فوجی میدان میں اپنے جھنڈے گاڑ رہے ہیں ..آخر انہیں حکمرانی کے آداب کیسے آگئے؟ دوسروں کے گھر کے سامنے لگی گھاس ہمیشہ زیادہ ہری  نظر آتی ہے

    پاکستانیوں کی نالائقی کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں …دنیا مذہب سے دور جارہی ہے مگر یہ مذہب سے چمٹتے جارہے ہیں …کون سا غیر ملکی ہے جو پاکستان آکر اغوا برائے تاوان کا خطرہ مول لے گا …ہم افغانستان میں اپنی پراکسی حکومت بنانے کے خواب نہیں چھوڑتے جس نے دہشت گردی کی ایسی فضا بنا دی ہے جو کسی بھی بیرونی انویسٹمنٹ کے لیے سازگار نہیں …بھارت سے صلح کرکے ہم اپنے لیے معاشی خوشحالی کا راستہ کھول سکتے ہیں جہاں ہمیں ایک بڑی فوج پالنے کی ضرورت نہیں ..مگر ایسا نہیں کرنا چاہتے ….فوج کے ہاتھوں متعدد بار ڈسے جانے کے باوجود گھوم پھر کر اسی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید کوئی مسیحا آجاۓ اور ملک کے سارے دلدر دور کردے …بنیادی ضرورت اپنی ترجیحات کو درست کرنے کی ہے
    جمہوریت ملک  میں قومی اتفاق راۓ پیدا کرتی ہے …معاشرے میں ہم آہنگی اور یگانگت کی فضا پیدا کرتی ہے …برداشت پیدا کرتی ہے ..عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیتی ہے
    جیسے صوبوں میں اختیارات اور مالی معاملات کس خوش اسلوبی سے آئین میں ترامیم کرکے حل کرلیے گئے …گیلانی حکومت میں بلوچوں کو ان کے کچھ حقوق دینے کی کوشش ہوئی اور ان کے تحفظات کا کچھ نہ کچھ ازالہ ہوا ..مگر اب یہ حالت ہے کہ اس موجودہ ملٹری جمہوریت ملک اغوانستان بن چکا ہے بلوچستان ہو یا اسلام
    آباد …شہریوں کو سر عام اٹھا لیا جاتا ہے
    ایاز امیر جیسے لوگ دل سے آمریت چاہتے ہیں جہاں ایک فوجی آمر سب کو “سیدھا” کردے …یہ لوگ  اشاروں کنایوں میں اس کی آرزو بھی کرتے ہیں ..لیکن جوتے پڑنے کے ڈر سے صاف صاف کہ نہیں سکتے
    یاد رکھیں کہ دیر پا تبدیلی صرف وقت سے آتی ہے اور ان جیسے نام نہاد دانشوروں کو  شارٹ کٹ نہیں ڈھونڈنا چاہئے

    نادان
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12
    ایاز امیر کا کالم حسب معمول غلط توجیہات اور اخذ کردہ ناقص نتائج سے بھرپور ہے …صرف ایک بات پر میرا اتفاق ہے کہ پاکستانی قوم بہت نالائق ہے میں چند چیدہ چیدہ نکات زیر بحث لانے کی کوشش کرتا ہوں موصوف نے یہ لکھا ہے کہ پاکستان کا ہر شعبہ ابتری کا سوائے فوج کے جس نے اپنے آپ کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے …اب سوال یہ بنتا ہے کہ صاف ستھری وردی پہن کر …درجنوں میڈل سجا کر ..بینڈ باجوں والی پریڈ کروانا ہی ڈسپلن کا اور بہتری کا نام ہے تو فوج اس میں سب سے آگے ہے اور بہترین ادارہ ہے …ورنہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر اس ادارے کو ملک کا دفاع کرنے کا پابند کرتی ہے مگر یہ بے غیرت ہر دوسرا کام کرتے ہوں سوائے اپنے اس اصل کام کے جس کے لیے اس ادارے کو بنایا گیا تھا …بے تحاشا رقوم خرچ کرنے کے باوجود فوج نے کسی ایک بھی مرحلے پر قوم کو سرخرو نہیں کیا …پے در پے شکستوں کی ذلتیں ہی دیکھی ہیں …میرے خیال میں سب سے زیادہ ابتری کا شکار اور شتر بے مہار محکمہ صرف فوج کا ہی ہے …یہاں ایاز امیر نے صرف اپنے سابقہ فوجی ہونے کا حق ادا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے پھر ایاز امیر نے ہمیشہ کی طرح جمہوریت کی خرابیوں کا رنڈی رونا رویا ہے …یعنی جمہوریت کو آئے تو صرف سو سال ھوئے ہیں ..ورنہ ماضی کی دنیا تو صرف ڈکٹیٹروں کے سہارے چلتی رہی ہے …اس ڈفر کو اتنی معمولی سے بات سمجھ میں نہیں آتی کہ دنیا چلتی تو رہی تھی مگر کیا بڑے اعلیٰ طریقے سے چل رہی تھی؟ ان ماضی کی تمام سپر پاورز اور بادشاہتوں کے اندر عوام کس حال میں تھے؟ کیا ان کو بنیادی حقوق میسر تھے ؟ کیا اظہار راۓ کی آزادی تھی ..کیا مذہبی آزادی تھی؟ کیا مرد اور عورتوں کے حقوق کے درمیان خلیج زیادہ گہری نہیں تھی؟ میرا ایاز امیر سمیت پاکستانیوں سے ایک سوال ہے کہ اگر ایک سو عام پاکستانیوں کو یہ موقع دیا جاۓ کہ وہ برطانیہ اور چین کے درمیان ایک ملک کا انتخاب کریں جس میں وہ سیٹل ہونا چاہیں تو یہ پاکستانی کس ملک کا انتخاب کریں گے؟ لازمی برطانیہ کا ..مگر کیوں؟ حالانکہ چین تو دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے ..برطانیہ سے تو وہ بہت آگے ہے ..پھر چین کیوں نہیں؟ اگر روس اور سویڈن میں سے ایک ملک کے انتخاب کا موقع دیا جاۓ تو اکثریت پھر سویڈن کو چنے گی ..اس کیا کیا وجہ ہے؟ حالانکہ بقول ایاز امیر روس کے مرد آہن پوٹن نے تو روس کو امریکا کے ہم پلہ دنیا کی بڑی طاقت بنا رکھا ہے…پھر روس یا چین رہائش کے لیے …نوکری کے لیے …یا زندگی گزارنے کے لیے اولین ترجیح کیوں نہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان آمریتوں نے ملکی سطح پر معاشی ترقی تو ضرور لائی ہے مگر عوام پابندیوں میں جکڑے ھوئے ہیں …ہر پاکستانی کی خواہش ہوگی کہ وہ وہاں جاۓ جہاں اس کو آزادیاں ہوں …اقلیت کی حق تلفی نہ ہو ..مذہبی آزادیاں ہوں وغیرہ وغیرہ ..اور یہ بنیادی حقوق صرف ان ممالک میں ملتے ہیں جہاں جمہوریت ہے ..اسی وجہ سے پاکستانیوں کی ترجیح یورپ امریکا اور کینیڈا وغیرہ ہیں ..روس اور چین نہیں پتا نہیں جمہوریت کو ہمیشہ معاشی خوشحالی سے کیوں جوڑا جاتا ہے …اور ایاز امیر جیسے کالم نویسوں سمیت عوام کو بھی جمہوریت کی بنیادی ابجد سے واقفیت نہیں ہے …جمہوریت کا ایک بلواسطہ فائدہ ضرور ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہر جماعت نے پانچ سال بعد الیکشن میں جانا ہوتا ہے اس لیے ڈیلیور کرنا اس جماعت کی ضرورت ہوتی ہے …لیکن جمہوریت میں لازمی نہیں کوئی ڈیلیور کرے ..اگر کوئی لیڈر عوام کو بیوقوف بناکر ..اور صرف نعروں کی بنا پر جیت جاۓ تو شاید ڈیلیور نہ کرسکے مگر جمہوریت تو قصوروار نہیں …الزام تو عوام اپنے آپ کو دیں کہ کیوں ماموں بن گئے اور دھوکہ کھا گئے …جمہوریت میں اپنی اصلاح کا موقع ہوتا ہے ..ایک غلط فیصلہ کرلیا تو پانچ سال بعد الیکشن میں کسی اور کو موقع دیا جاسکتا ہے پھر ایاز امیر جیسے لوگوں کا گھسا پٹا فقرہ کہ جمہوریت تو صرف صنعتی انقلاب کی بائی پروڈکٹ ہے …او بھائی اب پاکستان میں تو صنعتی انقلاب پتا نہیں کتنی صدیوں بعد آئے گا تو اس وقت تک کیا امب چوپے جائیں؟ آمریت سے کام چلایا جاۓ؟ پھر یہ لوگ آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں کہ نہیں ہم یہ تو نہیں کہتے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہونی چاہیے…سوال یہ ہے کہ جمہوریت کو قبول کرتے وقت …اگر مگر چونکہ چنانچہ البتہ وغیرہ کیوں کرتے ہو؟ موصوف ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ یونین بازی نے پی آئی اے کا بیڑا غرق کردیا حالانکہ ورکرز کے حقوق کے لیے یونینز ایک بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں ورنہ بزنس مالکان زیادہ سے زیادہ منافع کی حرص میں ورکرز کو کچھ بھی نہ دیں …پی آئی اے کے زوال کی ایک بڑی وجہ اس کی نجکاری نہ ہونا ہے یونین بازی نہیں جہاں تک پنجابیوں کی بات کہ انہوں نے کبھی حکمرانی کی ہی نہیں لہٰذا انہیں کچھ پتا ہی نہیں ….اس پر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بھارت کو ہی دیکھ لیں ..ساری عمر باہر سے لوگ آکر حکمرانی کرتے رہے مگر اب وہ لوگ معاشی میدان اور فوجی میدان میں اپنے جھنڈے گاڑ رہے ہیں ..آخر انہیں حکمرانی کے آداب کیسے آگئے؟ دوسروں کے گھر کے سامنے لگی گھاس ہمیشہ زیادہ ہری نظر آتی ہے پاکستانیوں کی نالائقی کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں …دنیا مذہب سے دور جارہی ہے مگر یہ مذہب سے چمٹتے جارہے ہیں …کون سا غیر ملکی ہے جو پاکستان آکر اغوا برائے تاوان کا خطرہ مول لے گا …ہم افغانستان میں اپنی پراکسی حکومت بنانے کے خواب نہیں چھوڑتے جس نے دہشت گردی کی ایسی فضا بنا دی ہے جو کسی بھی بیرونی انویسٹمنٹ کے لیے سازگار نہیں …بھارت سے صلح کرکے ہم اپنے لیے معاشی خوشحالی کا راستہ کھول سکتے ہیں جہاں ہمیں ایک بڑی فوج پالنے کی ضرورت نہیں ..مگر ایسا نہیں کرنا چاہتے ….فوج کے ہاتھوں متعدد بار ڈسے جانے کے باوجود گھوم پھر کر اسی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید کوئی مسیحا آجاۓ اور ملک کے سارے دلدر دور کردے …بنیادی ضرورت اپنی ترجیحات کو درست کرنے کی ہے جمہوریت ملک میں قومی اتفاق راۓ پیدا کرتی ہے …معاشرے میں ہم آہنگی اور یگانگت کی فضا پیدا کرتی ہے …برداشت پیدا کرتی ہے ..عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیتی ہے جیسے صوبوں میں اختیارات اور مالی معاملات کس خوش اسلوبی سے آئین میں ترامیم کرکے حل کرلیے گئے …گیلانی حکومت میں بلوچوں کو ان کے کچھ حقوق دینے کی کوشش ہوئی اور ان کے تحفظات کا کچھ نہ کچھ ازالہ ہوا ..مگر اب یہ حالت ہے کہ اس موجودہ ملٹری جمہوریت ملک اغوانستان بن چکا ہے بلوچستان ہو یا اسلام آباد …شہریوں کو سر عام اٹھا لیا جاتا ہے ایاز امیر جیسے لوگ دل سے آمریت چاہتے ہیں جہاں ایک فوجی آمر سب کو “سیدھا” کردے …یہ لوگ اشاروں کنایوں میں اس کی آرزو بھی کرتے ہیں ..لیکن جوتے پڑنے کے ڈر سے صاف صاف کہ نہیں سکتے یاد رکھیں کہ دیر پا تبدیلی صرف وقت سے آتی ہے اور ان جیسے نام نہاد دانشوروں کو شارٹ کٹ نہیں ڈھونڈنا چاہئے

    کچھ سمجھ نہیں آئی ..ایک طرف تو آپ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا نے معاشی اور فوجی میدان میں جھنڈے گاڑ  دیئے اور پاکستانی  اپنے مذھب سے چمٹے رہنے کی وجہ سے بد ترین نالائق قوم ہے ..

    شاید آپ نے آجکل انڈیا کے حالات پر توجہ دینی چھوڑ دی ہے ..جہاں ہندو مذہبی جنونی اپنے سوا سب سے جینے کا حق چھین  لینا چاہتے ہیں ..اصل پرابلم آپ کو مذھب سے نہیں اسلام سے ہے

    باقی آپ کی باتوں سے متفق ہوں

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #13
    کچھ سمجھ نہیں آئی ..ایک طرف تو آپ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا نے معاشی اور فوجی میدان میں جھنڈے گاڑ دیئے اور پاکستانی اپنے مذھب سے چمٹے رہنے کی وجہ سے بد ترین نالائق قوم ہے .. شاید آپ نے آجکل انڈیا کے حالات پر توجہ دینی چھوڑ دی ہے ..جہاں ہندو مذہبی جنونی اپنے سوا سب سے جینے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں ..اصل پرابلم آپ کو مذھب سے نہیں اسلام سے ہے باقی آپ کی باتوں سے متفق ہوں

    نادان جی …کیا آپ کے خیال میں بھارت کی ترقی اس وجہ سے ہورہی ہے کہ وہاں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے؟

    ربا اسیں کتھے چلے جائیے

    :o

    بھارت میں ترقی کی بنیاد راجیو گاندھی …نرسمہا راؤ .اور من موہن سنگھ ..اور کانگریسی ادوار میں رکھی گئی جب بھارت میں اتنی شدت پسندی نہیں تھی

    پاکستان کی دیکھا دیلھی اور کشمیر میں پاکستانی مداخلت کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو فروغ ملا

    ذرا تصور کریں کہ وہاں بھی جنونی مسلمان خود کش حملے وغیرہ شروع کر دیں یا ہندو انتہا پسند گاۓ کی توہین پر مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کردیں تو ساری ترقی رول بیک ہوجاۓ گی …کون اس افرا تفری میں بزنس کرنا چاہے گا

    میں مذہبی انتہا پسندی کو برا سمجھتا ہوں چاہے وہ ہندو مسلم یا یہودی کریں …اس پاکستانی فورم پر صرف پاکستانی ہیں تو صرف ان کا ہی مذھب زیر بحث آتا ہے …میری کوئی اسلام سے دشمنی نہیں ہے

    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #14
    نادان جی …کیا آپ کے خیال میں بھارت کی ترقی اس وجہ سے ہورہی ہے کہ وہاں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے؟ ربا اسیں کتھے چلے جائیے :o بھارت میں ترقی کی بنیاد راجیو گاندھی …نرسمہا راؤ .اور من موہن سنگھ ..اور کانگریسی ادوار میں رکھی گئی جب بھارت میں اتنی شدت پسندی نہیں تھی پاکستان کی دیکھا دیلھی اور کشمیر میں پاکستانی مداخلت کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو فروغ ملا ذرا تصور کریں کہ وہاں بھی جنونی مسلمان خود کش حملے وغیرہ شروع کر دیں یا ہندو انتہا پسند گاۓ کی توہین پر مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کردیں تو ساری ترقی رول بیک ہوجاۓ گی …کون اس افرا تفری میں بزنس کرنا چاہے گا میں مذہبی انتہا پسندی کو برا سمجھتا ہوں چاہے وہ ہندو مسلم یا یہودی کریں …اس پاکستانی فورم پر صرف پاکستانی ہیں تو صرف ان کا ہی مذھب زیر بحث آتا ہے …میری کوئی اسلام سے دشمنی نہیں ہے

    صرف دس سال پہلے تک پاکستان کی افرادی جی ڈی پی انڈیا سے زیادہ تھی۔ ۲۰۱۰ سے انڈٰیا واضح طور پر مغربی بلاک میں شامل ہوا اور امریکہ کو چائنا کے مقابل انڈیا کو معاشی طور پر اٹھانے کا خیال آیا۔ اس لئے یہ کہنا کہ انڈیا کی ترقی کی بنیاد راجیویا نرسمہا نے رکھی، بلکل غلط ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم مغرب کے نورِ نظر تھے تو ہم بھی آٹھ فیصد کے حساب سے ترقی کر رہے تھے۔ اب انڈٰیا ان کا منظورِ نظر ہے تو باری ان کی ہے۔ ہمیں افغانستان کی وجہ سے قیمت ادا کرنی پڑی ہے جہاں فوجی لحاظ سے تو شاید ہماری پالیسی صحیح تھی لیکن معاشی اور سماجی لحاظ سے اس کی قیمت بہت زیادہ تھی۔

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #15
    صرف دس سال پہلے تک پاکستان کی افرادی جی ڈی پی انڈیا سے زیادہ تھی۔ ۲۰۱۰ سے انڈٰیا واضح طور پر مغربی بلاک میں شامل ہوا اور امریکہ کو چائنا کے مقابل انڈیا کو معاشی طور پر اٹھانے کا خیال آیا۔ اس لئے یہ کہنا کہ انڈیا کی ترقی کی بنیاد راجیویا نرسمہا نے رکھی، بلکل غلط ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم مغرب کے نورِ نظر تھے تو ہم بھی آٹھ فیصد کے حساب سے ترقی کر رہے تھے۔ اب انڈٰیا ان کا منظورِ نظر ہے تو باری ان کی ہے۔ ہمیں افغانستان کی وجہ سے قیمت ادا کرنی پڑی ہے جہاں فوجی لحاظ سے تو شاید ہماری پالیسی صحیح تھی لیکن معاشی اور سماجی لحاظ سے اس کی قیمت بہت زیادہ تھی۔

    شاہد عباسی صاحب …کیا انفرا سٹرکچر اور ہیومن ڈویلپمنٹ صرف دس سال میں ممکن ہے؟

    چین نے انویسٹمنٹ اسی اور نوے کی دہائی میں کی جس کے ثمرات بعد میں ظاہر ھوئے …بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل پراسیسنگ میں انویسٹمنٹ نوے کے اواخر اور دو ہزار کے شروع والے سالوں میں ہوئی جس کی وجہ سے بیس بائیس بلین ڈالر کی صرف ایکسپورٹس ہیں …غالباً کل آبادی کا دس فیصد کپڑے کی صنعت سے وابستہ ہے

    بھارت کا بھی یہی معاملا ہے …ان کا آئی ٹی کا سیکٹر تو نوے کی دہائی سے ہی بہت اوپر تھا …عرصہ ہوا مائیکروسافٹ کے آپریٹنگ سسٹم وہیں ڈیولپ ہورہے ہیں …اب چین سستا نہیں رہا تو کمپنیاں بھارت کا رخ کر رہی ہیں

    اور اگر بھارت نے مغرب کی طرف جھکاؤ کرکے مزید مالی فوائد حاصل کیے ہیں تو پاکستان کو کون روک رہا ہے؟

    پر کیپیٹا جی ڈی پی صرف معیار زندگی کے بارے میں بتاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب اس کو قوت خرید ..ایکسچینج ریٹ وغیرہ سے ملاکر دیکھا جاۓ

    کیا آپ پتا ہے سری لنکا ..بھوٹان اور مالدیپ کا …پر کیپیٹا جی ڈی پی کیا ہے؟

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #16
    اس لئے یہ کہنا کہ انڈیا کی ترقی کی بنیاد راجیویا نرسمہا نے رکھی، بلکل غلط ہے۔

    شاہد صاحب۔۔۔۔۔

    مَیں آپ سے اِس نکتہ پر اختلاف کروں گا۔۔۔۔۔

    جب من موہن سنگھ، نرسہما راؤ کی حکومت میں وزیرِ خزانہ تھا تو اُس وقت انڈیا کو بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کھولا گیا تھا ورنہ اِس سے پہلے انڈیا کی معیشت بہت حد تک بند اور سوشلسٹ معاشی پالیسیوں پر مبنی تھی۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں یہ فیصلہ ہی انڈیا کی معاشی ترقی کا نقطہِ آغاز تھا۔۔۔۔۔ اور یہ ویسا ہی نقطہِ آغاز تھا جیسا ڈینگ ژیاؤ پینگ نے انیس سو اٹھتر میں چائنہ کے حوالے سے کیا تھا کہ چائنہ کو بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کھولا جائے۔۔۔۔۔

    مَیں بین الاقوامی سیاست کے اثرات سے بالکل انکار نہیں کرتا مگر سرمائے کا کوئی مذہب، رشتہ ناطہ نہیں ہوتا سوائے ایک کے۔۔۔۔۔ وہ اِکلوتا رشتہ یہ کہ سرمایہ وہاں جاتا ہے جہاں بڑھوتری کا امکان ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور نوے کی دہائی میں انڈیا کی پچاسی نوے کڑور کی آبادی ایک بہت زیادہ بڑی مارکیٹ تھی سرمایہ کاری کے حوالے سے۔۔۔۔۔

    اور پھر اتنی بڑی آبادی میں اگر ایک قابلِ ذکر تعداد میں ہُنرمند ہیں تو یہ اَیج ملک کو کہاں سے کہاں سے پہنچا سکتا ہے۔۔۔۔۔ ویسے معاشی حوالے سے آمریت کے فوائد بہت اچھی طرح سامنے آتے ہیں۔۔۔۔۔ چائنہ کے حوالے سے یہی ہوا ہے۔۔۔۔۔ چینی کمیونسٹ پارٹی بھی ایک کھلی آمریت ہے مگر ڈینگ ژیاؤ پینگ کے وقت اُس آمریت کے پاس ویژن تھا جس کہ وجہ سے چائنہ کی یہ بے مثال معاشی ترقی ممکن ہوئی۔۔۔۔۔ اگر ایک آمر ویژن رکھتا ہو تو اُس کے پاس جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کھلا میدان ہوتا ہے جہاں وہ اپنی پالیسیوں پر آرام سے عمل درآمد کراسکے۔۔۔۔۔ ایاز امیر، جنرل مشرف کے حوالے سے یہی نکتہ اٹھاتا ہے کہ تاریخ کے کٹہرے میں مشرف کا جرم مارشل لاء یا ایمرجنسی پلس لگانا نہیں ہوگا بلکہ یہ ہوگا کہ جنرل مشرف بذاتِ خود ایک آزاد خیال شخص کے ہوتے ہوئے اور اپنے تمام تر اختیار کے باوجود پاکستانی معاشرے کو بہتری کی جانب نہ دھکیل سکے۔۔۔۔۔ بلاوجہ کے مذہبی قوانین کی وجہ سے جو گھٹن معاشرے میں پیدا ہوچکی ہے اُس کو ختم نہیں کرسکے۔۔۔۔۔ اور یہ کرنے کیلئے جو بہترین وقت ہوتا ہے وہ کسی بھی مارشل لاء یا حکومت کے ابتدائی سال ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اُس کے بعد تو سمجھوتے ہی رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔

    مگر خیال رہے کہ یہاں ایک متضاد نکتہ بھی ہے۔۔۔۔۔ ڈنڈے کے زور پر جو تبدیلی لائی جاتی ہے وہ شاید اتنی دَیرپا بھی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ اور لوگ ڈنڈا ہٹنے کے بعد واپس پیچھے کی طرف باؤنس بَیک بھی کرجاتے ہیں۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    shahidabassi
    Participant
    Offline
    • Expert
    #17
    شاہد صاحب۔۔۔۔۔ مَیں آپ سے اِس نکتہ پر اختلاف کروں گا۔۔۔۔۔ جب من موہن سنگھ، نرسہما راؤ کی حکومت میں وزیرِ خزانہ تھا تو اُس وقت انڈیا کو بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کھولا گیا تھا ورنہ اِس سے پہلے انڈیا کی معیشت بہت حد تک بند اور سوشلسٹ معاشی پالیسیوں پر مبنی تھی۔۔۔۔۔ اور میرے خیال میں یہ فیصلہ ہی انڈیا کی معاشی ترقی کا نقطہِ آغاز تھا۔۔۔۔۔ اور یہ ویسا ہی نقطہِ آغاز تھا جیسا ڈینگ ژیاؤ پینگ نے انیس سو اٹھتر میں چائنہ کے حوالے سے کیا تھا کہ چائنہ کو بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کھولا جائے۔۔۔۔۔ مَیں بین الاقوامی سیاست کے اثرات سے بالکل انکار نہیں کرتا مگر سرمائے کا کوئی مذہب، رشتہ ناطہ نہیں ہوتا سوائے ایک کے۔۔۔۔۔ وہ اِکلوتا رشتہ یہ کہ سرمایہ وہاں جاتا ہے جہاں بڑھوتری کا امکان ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور نوے کی دہائی میں انڈیا کی پچاسی نوے کڑور کی آبادی ایک بہت زیادہ بڑی مارکیٹ تھی سرمایہ کاری کے حوالے سے۔۔۔۔۔ اور پھر اتنی بڑی آبادی میں اگر ایک قابلِ ذکر تعداد میں ہُنرمند ہیں تو یہ اَیج ملک کو کہاں سے کہاں سے پہنچا سکتا ہے۔۔۔۔۔ ویسے معاشی حوالے سے آمریت کے فوائد بہت اچھی طرح سامنے آتے ہیں۔۔۔۔۔ چائنہ کے حوالے سے یہی ہوا ہے۔۔۔۔۔ چینی کمیونسٹ پارٹی بھی ایک کھلی آمریت ہے مگر ڈینگ ژیاؤ پینگ کے وقت اِس آمریت کے پاس ویژن تھا جس کہ وجہ سے چائنہ کی یہ بے مثال معاشی ترقی ممکن ہوئی۔۔۔۔۔ اگر ایک آمر ویژن رکھتا ہو تو اُس کے پاس جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کھلا میدان ہوتا ہے جہاں وہ اپنی پالیسیوں پر آرام سے عمل درآمد کراسکے۔۔۔۔۔ ایاز امیر، جنرل مشرف کے حوالے سے یہی نکتہ اٹھاتا ہے کہ تاریخ کے کٹہرے میں مشرف کا جرم مارشل لاء یا ایمرجنسی پلس لگانا نہیں ہوگا بلکہ یہ ہوگا کہ جنرل مشرف بذاتِ خود ایک آزاد خیال شخص کے ہوتے ہوئے اور اپنے تمام تر اختیار کے باوجود پاکستانی معاشرے کو بہتری کی جانب نہ دھکیل سکے۔۔۔۔۔ بلاوجہ کے مذہبی قوانین کی وجہ سے جو گھٹن معاشرے میں پیدا ہوچکی ہے اُس کو ختم نہیں کرسکے۔۔۔۔۔ اور یہ کرنے کیلئے جو بہترین وقت ہوتا ہے وہ کسی بھی مارشل لاء یا حکومت کے ابتدائی سال ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اُس کے بعد تو سمجھوتے ہی رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔ مگر خیال رہے کہ یہاں ایک متضاد نکتہ بھی ہے۔۔۔۔۔ ڈنڈے کے زور پر جو تبدیلی لائی جاتی ہے وہ شاید اتنی دَیرپا بھی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ اور لوگ ڈنڈا ہٹنے کے بعد واپس پیچھے کی طرف باؤنس بَیک بھی کرجاتے ہیں۔۔۔۔۔

    آُپ انڈیا کے حوالے سے صحیح کہہ رہے ہیں لیکن اس صورت کہ آپ راجیو کو اس سے نکال دیں۔ میرا قرار صاحب کو لکھا کمنٹ انہی کے معیار کو مدِنظر رکھ کر لکھا گیا تھا۔ کیونکہ انہیں موجودہ حکومت کا وہی کچھ کیا غلط لگتا ہے جو نرسیمہا راؤ اور من موہن نے مل کر ۱۹۹۱ سے ۱۹۹۶ تک کیا۔ جون ۱۹۹۱ میں نرسیمہا راؤ کو حکومت ملی تو انڈیا دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ ان کے ریزروز ایک بلین ڈالر تھے اور فوری ادائیگیاں اس سے چار گنا زیادہ تھیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ دس ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ امپورٹس آسمان سے باتیں کر رہی تھیں اور ایکسپورٹس کم ہورہی تھیں۔ من موہن نے کیا کیا؟ بلکل وہی کچھ جو آج ہم کر رہے ہیں۔ روپئے کو فری چھوڑا، امپورٹس دبا دیں اور ریزروز بنانے شروع کئے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر سٹرکچرل ریفارمز کیں اور بہتری کا سفر شروع کیا۔ اب جب کہ یہ سب کچھ قرار صاحب کو برا لگتا ہے تو میری کیا مجال کہ من موہن کو کوئی کریڈٹ دے دوں۔ یہاں بھی قرار صاحب کا ہیرو راجیو ہونا چاہیئے کیونکہ اس نے بھی معیشت کے ساتھ وہی کیا تھا جو ہاتھ ن لیگ ہمارے ساتھ کر گئی۔
    رہی بات مشرف کی آمرانہ حکومت کی تو اس نے معاشی محاظ پر بہت سے اچھے کام کئے تھے۔ گروتھ چھ سے سات فیصد تھی اور قرض چھ ہزار ارب تک رکھا (جو کہ آج پینتالیس ہزار ارب ہے)۔ بحرحال اصل بات یہی ہے کہ ہمیں افغان پالیسی تیس سال کا اچھا خاصہ ٹیکا لگا گئی ہے۔ سارے مسائل کی جڑ یہی ہے اور اس سے ہمارے سماج کا چہرہ مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔

    Qarar

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Ghost Protocol
    Participant
    Offline
    • Expert
    #18
    ہندوستانی معاشی ترقی کی بنیادیں من موہن سے بہت پہلے نہرو کے زمانے میں ہی زرعی اصلاحات اور سوشلسٹ پالیسیوں میں ہی رکھ دی گئی تھیں
    آزادی کے بعد سے نوے کی دھائی تک ہندوستان نے افرادی قوت اور مقامی پیداوار میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے نتیجتا دنیا کے ہر شعبه کے ماہرین کی ایک کثیر تعداد ہندوستان میں موجود ہے جب آپ کے پاس اعلی صلا حیتوں کی حامل افرادی قوت موجود ہوگی تو وہ اپنا راستہ خود ہی بنالیتی ہے نوے کی دھائی سے قبل کی پالیسیوں نے ہندوستان کو رنوے تک پہنچادیا تھا بعد کی پالیسیوں نے اسکو ٹیک آف کروادیا ہے
    پاکستان میں چونکہ اعلی ہنر مند افرادی قوت یا تو نمو نہیں پاتی یا ٹہرتی نہیں ہے لہذا ہماری معاشی ترقی ہماری کرکٹ ٹیم کی طرح عدم تسلسل کا شکار رہیں گی اور یہی وہ نالائقی ہے جسکی طرف اس جوتئے ایاز امیر نے توجہ دلوائی ہے
    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #19
    میرا قرار صاحب کو لکھا کمنٹ انہی کے معیار کو مدِنظر رکھ کر لکھا گیا تھا۔ کیونکہ انہیں موجودہ حکومت کا وہی کچھ کیا غلط لگتا ہے جو نرسیمہا راؤ اور من موہن نے مل کر ۱۹۹۱ سے ۲۰۰۰ تک کیا۔ جون ۱۹۹۱ میں نرسیمہا راؤ کو حکومت ملی تو انڈیا دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ ان کے ریزروز ایک بلین ڈالر تھے اور فوری ادائیگیاں اس سے چار گنا زیادہ تھیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ دس ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ امپورٹس آسمان سے باتیں کر رہی تھیں اور ایکسپورٹس کم ہورہی تھیں۔ من موہن نے کیا کیا؟ بلکل وہی کچھ جو آج ہم کر رہے ہیں۔ روپئے کو فری چھوڑا، امپورٹس دبا دیں اور ریزروز بنانے شروع کئے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر سٹرکچرل ریفارمز کیں اور بہتری کا سفر شروع کیا۔ اب جب کہ یہ سب کچھ قرار صاحب کو برا لگتا ہے تو میری کیا مجال کہ من موہن کو کوئی کریڈٹ دے دوں۔ یہاں بھی قرار صاحب کا ہیرو راجیو ہونا چاہیئے کیونکہ اس نے بھی معیشت کے ساتھ وہی کیا تھا جو ہاتھ ن لیگ ہمارے ساتھ کر گئی۔

    قرار صاحب یہ سب عشقِ جمہوریت میں کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ عشق ایک لازوال جذبہ ہے۔۔۔۔۔

    اِسی لیے تو کہتے ہیں عشق نہ پُچھے ذات، نہ ویکھے تخت، نہ ویکھے تاج۔۔۔۔۔

    بُلھے شاہ نے بھی کہا۔۔۔۔۔ ذات مذہب اَیہہ عشق نہ پُچھدا، عشق شرع دا ویری۔۔۔۔۔

    لیکن قرار صاحب کا عشقِ کامل، شبیر کی طرح کچھ دیکھے نہ دیکھے، فوجی بوٹ ضرور دیکھتا ہے۔۔۔۔۔

    :cwl: ;-) :cwl: ™©

    مگر خیر دُنیا کی کوئی بھی عدالت، جو ذرا بھی شریفانہ مزاج رکھتی ہو، وہ قرار صاحب کے اِن معصوم گناہوں پر سزا نہیں سُنا سکتی۔۔۔۔۔

    اِس پر تو عام معافی ہے۔۔۔۔۔

    :) ;-) :) ™©

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #20
    جون ۱۹۹۱ میں نرسیمہا راؤ کو حکومت ملی تو انڈیا دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ ان کے ریزروز ایک بلین ڈالر تھے اور فوری ادائیگیاں اس سے چار گنا زیادہ تھیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ دس ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ امپورٹس آسمان سے باتیں کر رہی تھیں اور ایکسپورٹس کم ہورہی تھیں۔ من موہن نے کیا کیا؟ بلکل وہی کچھ جو آج ہم کر رہے ہیں۔ روپئے کو فری چھوڑا، امپورٹس دبا دیں اور ریزروز بنانے شروع کئے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر سٹرکچرل ریفارمز کیں اور بہتری کا سفر شروع کیا۔

    ہاں اُس وقت انڈیا کے معاشی حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ کچھ ویسے ہی جیسے ابھی ڈیڑھ دو سال پہلے پاکستان کے تھے۔۔۔۔۔

    اتنے خراب کہ نرسہما راؤ سے پچھلی حکومت، چندرا شیکھر کی حکومت کو انڈیا کا سونا گروی رکھوانا پڑا تھا۔۔۔۔۔ وہ سونا برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ منتقل ہوا تھا۔۔۔۔۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
Viewing 20 posts - 1 through 20 (of 39 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi