Viewing 13 posts - 1 through 13 (of 13 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    برطانوی ماہرِ حیاتیات جین گوڈال کا شمار ان چند گنے چنے سائنسی محققین میں ہے جنھوں نے اپنی زندگیاں جنگلی جانوروں کی عادات و اطوار اور ارتقا کا مطالعہ کرنے میں کھپا دی۔ دو روز پہلے ہی نیشنل جیوگرافی نے اس 82 سالہ محقق کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’جین گوڈال ایک امید ‘ کے نام سے دستاویزی فلم کا اجرا کیا۔
    اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جین گوڈال نے کہا کہ جب تک ہم جنگلی حیات کی توہین روک کر عزت نہیں دیں گے تب تک ایک کے بعد ایک وائرس پھیلتا رہے گا۔ ہم صرف ویکسین بنا کر وائرس نہیں روک سکتے۔
    جوں جوں جنگل کٹ رہے ہیں جنگلی جانوروں اور انسانوں میں جبری قربت بڑھتی جا رہی ہے اور وائرس ایک جنگلی جانور سے یا تو کسی پالتو جانور میں منتقل ہو کر انسان کو چمٹ رہا ہے یا پھر براہ راست جنگلی جانور کا گوشت استعمال کرنے یا اسے اپنے نزدیک رکھنے کے سبب یہ وائرس انسان کو منتقل ہو رہا ہے۔
    ایچ آئی وی ہو کہ ایبولا، سارس، مرس، سوائن فلو، برڈ فلو، ببونک پلیگ یا اب پھیلنے والا کرونا۔ ان سب کی جڑ جنگلی جانوروں سے قربت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سوائے دو یا تین وباؤں کے ہم کسی وبا کے بارے میں اب تک حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے کہ دراصل کون سا وائرس کس جانور سے چھلانگ مار کر انسان تک پہنچا۔
    مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ جب جنگلی بلیوں، چمگادڑوں، چیونٹی خوروں اور مرغیوں، بھیڑوں بکریوں سمیت ہر طرح کے پالتو یا جنگلی چرند پرند کو ایک ساتھ پنجروں میں رکھ کر فروخت کیا جائے گا یا ان میں موجود ممکنہ وائرس خاطر میں لائے بغیر قرنطینہ سے گزارنے کے بجائے براہِ راست غیر قانونی طور پر اسمگل کیا جائے گا۔
    یا پھر کروڑوں پالتو جانوروں کو بھی ایک ساتھ غیر صحت مند حالات میں رکھا یا منتقل کیا جائے گا اور ان کی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی اور غیر فطری طریقوں کا اندھا دھند استعمال کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خطرہ مول لے کر اسے اپنے گھروں تک لے آئے ہیں۔
    اگرچہ کرونا کے پھیلاؤ کے بعد چین، ویتنام، انڈونیشیا سمیت جنوب مشرقی ایشیا میں ایسی تمام منڈیاں بند کر دی گئی ہیں جن میں طرح طرح کے جنگلی جانور اور پرندے یا ان کا گوشت کھلے عام فروخت ہوتا ہے۔ چین میں ایسے غیر پالتو چرند و پرند کی افزائش کرنے والے 20 ہزار فارم بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ چین اس بارے میں قانون سازی بھی کر رہا ہے مگر اس قانون میں اگر سائنسی تجربات اور طبی مقاصد کے لیے نجی سطح پر جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت کو استسنی دیا گیا تو اس کاروبار کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جا سکے گا جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
    عجیب بات ہے کہ امریکہ میں جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت کی حوصلہ شکنی کے سخت قوانین پہلے سے لاگو ہیں مگر جنگلی حیات کی چین کے بعد دوسری بڑی منڈی امریکہ ہے۔ چین ہو کہ امریکہ اسمگل ہونے والی جنگلی حیات کی صرف دس فیصد کھیپ پکڑی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یا تو ا سمگلر چالاک ہیں یا پھر نگرانی کا نظام بد عنوان ہے۔
    عالمی سطح پر جنگلی جانوروں کے قانونی و غیر قانونی کاروبار کا حجم چوہتر ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ان جانوروں کو جنگل سے مقامی لوگ پکڑ کے   اسمگلروں کو فروخت کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کی اکثریت یہ کام غربت کے سبب کرتی ہے اور اس کا اپنا غذائی گزارہ بھی انہی جانوروں اور پرندوں پر ہے۔
    عالمی ادارہِ تجارت کا اندازہ ہے کہ کرونا وائرس عالمی معیشت کو کم ازکم چار ہزار ارب ڈالر ( چار ٹریلین ) کا نقصان پہنچائے گا۔ جبکہ جنگلی حیات کی تجارت اور اس سے وابستہ افراد کا سب خرچہ مل ملا کر ایک کھرب ڈالر کے لگ بھگ بنتا ہے۔
    جب تک ڈیمانڈ تب تک سپلائی۔ بھلے آپ کوئی بھی سخت سے سخت قانون بنا لیں۔لہذا شہریوں کو سمجھانا بہت ضروری ہے کہ جنگلی حیات سے دوستی کا یہی تقاضا ہے کہ آپ اسے اپنے دسترخوان یا ذاتی چڑیا گھر کی زینت بنانے کے بجائے اسے اپنے ہی فطری ماحول میں رہنے اور جینے دیں۔ ورنہ فطرت آپ کو نہیں جینے دے گی۔
    اگر کرونا جیسے سانحوں سے بچنا ہے تو محض عارضی اقدامات سے فائدہ نہیں ہونے کا۔ نہ تو یہ پہلی وبا ہے نہ آخری۔ اور نہ ہی اس کی ویکسین کسی اگلی وبا میں کارآمد ہو گی۔
    جنگلوں کی بے تحاشا کٹائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والی حیات کی بحالی اور اس کی تجارت کی بیخ کنی کو عالمی، علاقائی اور قومی سلامتی کے ایجنڈے میں شامل کرنا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے اگر عالمی برادری ایک سے ڈیڑھ کھرب ڈالر سالانہ بھی وقف کر دے تو شائد اگلے وائرس سے پہنچنے والے سات آٹھ ٹریلین ڈالر کے ممکنہ معاشی نقصان اور لاکھوں اموات سے بچا جا سکے۔
    اتنا سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اگر آپ قوتِ باہ بڑھانے کی آس میں سانڈے کا تیل ملنے یا چہرے کی جھریاں کم کرنے کے لیے سانپ کا گرم گرم خون پینے یا جنگلی بلی کا گوشت کھانے پر بضد ہیں تو آپ کی مرضی۔
    عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔

    بشکریہ …… وسعت اللہ خان

    https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52259718

    حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #3
    اللہ تعالی نے کوی بھی مخلوق بے فائدہ نہیں بنای اگر موجودہ حالات میں بہت زیادہ موضوع بحث چمگادڑ کو ہی لے لیں تو اسکے بھی بے شمار فوائد ہیں ایک چمگادڑ ایک رات میں ہزاروں مچھر کھا جاتی ہے جس سے ہمارے ملکوں میں سب سے زیادہ لوگ اور بچے بیمار ہوتے ہیں ملیریا کا پھیلاو مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے اسی طرح بہت سارے حشرات الارض کو کھانے والے دیگر جانور بھی جنگلات کی کٹای کی وجہ سے ناپید ہورہے ہیں ایک بہت بڑا خطرہ انٹارٹیکا میں گلئشئرز کے پگھلنے سے بھی پیدا ہورہا ہے کیونکہ ریسرچرز نے برف پگھلنے کے بعد ایسے وایرسز کے بھی دوبارہ پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کو جنکی وجہ سے بہت تباہی پھیلی تھی

    ابھی سائبیریا میں برفیلے علاقے سے برف کے پگھلنے کے بعد ایک ایسا وائرس دریافت ہوا ہے جس نے ساینسدانوں کو بھی اپنے سائز سے حیران کردیا تھا شائد اس علاقے میں کسی دور میں اموات اسی وائرس کی وجہ سے ہوی ہوں ابھی اس پر تحقیق جاری ہے

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #4
    اللہ تعالی نے کوی بھی مخلوق بے فائدہ نہیں بنای اگر موجودہ حالات میں بہت زیادہ موضوع بحث چمگادڑ کو ہی لے لیں تو اسکے بھی بے شمار فوائد ہیں ایک چمگادڑ ایک رات میں ہزاروں مچھر کھا جاتی ہے جس سے ہمارے ملکوں میں سب سے زیادہ لوگ اور بچے بیمار ہوتے ہیں ملیریا کا پھیلاو مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے اسی طرح بہت سارے حشرات الارض کو کھانے والے دیگر جانور بھی جنگلات کی کٹای کی وجہ سے ناپید ہورہے ہیں ایک بہت بڑا خطرہ انٹارٹیکا میں گلئشئرز کے پگھلنے سے بھی پیدا ہورہا ہے کیونکہ ریسرچرز نے برف پگھلنے کے بعد ایسے وایرسز کے بھی دوبارہ پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کو جنکی وجہ سے بہت تباہی پھیلی تھی ابھی سائبیریا میں برفیلے علاقے سے برف کے پگھلنے کے بعد ایک ایسا وائرس دریافت ہوا ہے جس نے ساینسدانوں کو بھی اپنے سائز سے حیران کردیا تھا شائد اس علاقے میں کسی دور میں اموات اسی وائرس کی وجہ سے ہوی ہوں ابھی اس پر تحقیق جاری ہے

    قاری صاحب ۔۔

    اپ کے اس جلسے کا  سانڈے کے تیل سے کیا تعلق ہے ۔۔۔ ۔۔میری نظر میں سانڈا اور چمگاڈر ایک فصول قسم کے جانور ہیں ۔۔۔۔۔۔میں نے تو چمگاڈر کو مچھر کھاتے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔عقل نوں ۔ہتھ مار ۔۔تے۔ ۔۔میں دے پاوئے توں۔ اٹھ کے  باہر کسی پارک وچ  تازہ  ہوا کھا ۔۔۔۔۔

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #5
    حسن بھیا

    نہ میں سانڈے کا تیل بیچتا ہوں اور نہ ہی استعمال کرتا ہوں، میرا نام آپ نے کس خوشی میں لکھ دیا ہے؟

    :thinking:

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #6
    اللہ تعالی نے کوی بھی مخلوق بے فائدہ نہیں بنای اگر موجودہ حالات میں بہت زیادہ موضوع بحث چمگادڑ کو ہی لے لیں تو اسکے بھی بے شمار فوائد ہیں ایک چمگادڑ ایک رات میں ہزاروں مچھر کھا جاتی ہے جس سے ہمارے ملکوں میں سب سے زیادہ لوگ اور بچے بیمار ہوتے ہیں ملیریا کا پھیلاو مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے اسی طرح بہت سارے حشرات الارض کو کھانے والے دیگر جانور بھی جنگلات کی کٹای کی وجہ سے ناپید ہورہے ہیں ایک بہت بڑا خطرہ انٹارٹیکا میں گلئشئرز کے پگھلنے سے بھی پیدا ہورہا ہے کیونکہ ریسرچرز نے برف پگھلنے کے بعد ایسے وایرسز کے بھی دوبارہ پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے کو جنکی وجہ سے بہت تباہی پھیلی تھی ابھی سائبیریا میں برفیلے علاقے سے برف کے پگھلنے کے بعد ایک ایسا وائرس دریافت ہوا ہے جس نے ساینسدانوں کو بھی اپنے سائز سے حیران کردیا تھا شائد اس علاقے میں کسی دور میں اموات اسی وائرس کی وجہ سے ہوی ہوں ابھی اس پر تحقیق جاری ہے

    بیلیور بھیا

    یہ کونسا وائرس ہے جس کے سائز نے سائنس دانوں کو حیران و پریشان کر دیا ہے؟

    :thinking:

    مچھر اتنا خطرناک نہیں ہے جتنی چمگادڑ خطرناک ہے۔ مچھر جسے کاٹتا ہے اس کے بچنے کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں کیونکہ مچھر کے کاٹنے سے ملیریا یا ویسٹ نائل وائرس کی بیماری ہو سکتی ہے لیکن چمگادڑ کے کاٹنے سے ریبیز ہوتی ہے جس میں بچنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں

    اب تو کرونا وائرس کا تعلق بھی چمگادڑ سے جوڑا جا رہا ہے

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Athar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #7
    ہر چیز اپنے اپنے ماحول میں ہی بہتر ہے سب سے بڑھا گھس بیٹھیا انسان ہے

    جس نے جنگلوں کا کاٹ کاٹ کر دریائوں کے رُخ موڑ موڑ اپنی مرضی چلائی جب قدرت اپنی مرضی چلاتی ہے تو پھر کہتے ہے

    ربا ایہہ کی کیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #8
    سلیم بھائی – آپ کبھی بیلیور کی طرح رات میں درختوں سے الٹا لٹکے ہیں ؟ اگر نہی تو آپ کو کوئی حق نہی کے بیلیور کی سائنس کی ایم سی بی سی کریں

    :lol:

    قاری صاحب ۔۔ اپ کے اس جلسے کا سانڈے کے تیل سے کیا تعلق ہے ۔۔۔ ۔۔میری نظر میں سانڈا اور چمگاڈر ایک فصول قسم کے جانور ہیں ۔۔۔۔۔۔میں نے تو چمگاڈر کو مچھر کھاتے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔عقل نوں ۔ہتھ مار ۔۔تے۔ ۔۔میں دے پاوئے توں۔ اٹھ کے باہر کسی پارک وچ تازہ ہوا کھا ۔۔۔۔۔
    shami11
    Participant
    Offline
    • Expert
    #9
    حسن پورے قصے میں سانڈے کے تیل کی افادیت پر کوئی بات نہی کی گئی ہے ، تمہیں شرم آنی چاہئیں ، ایسے لوگو ں کا ٹائم کھوٹا کرنے پر

    :serious:

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #10
    قاری صاحب ۔۔ اپ کے اس جلسے کا سانڈے کے تیل سے کیا تعلق ہے ۔۔۔ ۔۔میری نظر میں سانڈا اور چمگاڈر ایک فصول قسم کے جانور ہیں ۔۔۔۔۔۔میں نے تو چمگاڈر کو مچھر کھاتے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔عقل نوں ۔ہتھ مار ۔۔تے۔ ۔۔میں دے پاوئے توں۔ اٹھ کے باہر کسی پارک وچ تازہ ہوا کھا ۔۔۔۔۔

    میں واقعی کسی مسیط کا قاری ہوتا تو اس گستاخی پر آپ کو اپنے شاگردوں سے کٹوا کر انہیں کہتا کہ اس کو ٹانگوں سے پکڑ کر بازار سے گھسیٹتے ہوے اس کے گھر چھوڑ کر آو

    :angry_smile:

    Believer12
    Participant
    Offline
    • Expert
    #11
    قاری صاحب ۔۔ اپ کے اس جلسے کا سانڈے کے تیل سے کیا تعلق ہے ۔۔۔ ۔۔میری نظر میں سانڈا اور چمگاڈر ایک فصول قسم کے جانور ہیں ۔۔۔۔۔۔میں نے تو چمگاڈر کو مچھر کھاتے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔عقل نوں ۔ہتھ مار ۔۔تے۔ ۔۔میں دے پاوئے توں۔ اٹھ کے باہر کسی پارک وچ تازہ ہوا کھا ۔۔۔۔۔

    سوری غصے میں اصل بات بتانا بھول گیا، رات کو کبھی صحن میں سوئیں تو اوپر سے تمام وقت چمگادڑین جنگی طیاروں کی طرح نیچی پروازیں کرتی شمال سے جنوب کی طرف اور پھر واپس آتی دکھای دیتی ہیں، یہ ساری محنت وہ سمارٹ ہونے کیلئے نہیں کرتیں بلکہ مچھر جو عموما انسانوں کے اوپر ان کا خون پینے کیلئے جمع ہورہے ہوتے ہیں ان کو دوران پرواز بڑی مہارت اور تیزی سے کھاتی رہتی ہیں بار بار بھی اسی لئے آتی ہیں ، چمگادڑ کے ریڈار بہت ہی حساس اور مہنگا لگایا گیا ہے جو ابھی تک امریکہ کے پاس بھی نہیں اسی کی مدد سے وہ کیڑے اور مچھر ڈھونڈھ کر اٹیک کرتی ہے ویسے بھی چمگادڑ گوشت خور میمل ہے انسانی وائرس اس پر زندہ رہ سکتا ہے کیونکہ یہ انسانی خون سے بھرے مچھر کھا کھا کر انسانی جسم سے ملتی جلتی بہت ساری خصوصیات بھی بنا لیتی ہے مثلا درختوں پر الٹے لٹکنا بھی انسانوں سے سیکھا ہے فرق صرف سیچویشن کا ہے، گاوں میں آپ کو اسکول سے بھاگنے پر لٹکاتے ہونگے مگر چمگادڑ کو اس بات کا شائد علم نہیں

    SaleemRaza
    Participant
    Offline
    • Expert
    #12
    سوری غصے میں اصل بات بتانا بھول گیا، رات کو کبھی صحن میں سوئیں تو اوپر سے تمام وقت چمگادڑین جنگی طیاروں کی طرح نیچی پروازیں کرتی شمال سے جنوب کی طرف اور پھر واپس آتی دکھای دیتی ہیں، یہ ساری محنت وہ سمارٹ ہونے کیلئے نہیں کرتیں بلکہ مچھر جو عموما انسانوں کے اوپر ان کا خون پینے کیلئے جمع ہورہے ہوتے ہیں ان کو دوران پرواز بڑی مہارت اور تیزی سے کھاتی رہتی ہیں بار بار بھی اسی لئے آتی ہیں ، چمگادڑ کے ریڈار بہت ہی حساس اور مہنگا لگایا گیا ہے جو ابھی تک امریکہ کے پاس بھی نہیں اسی کی مدد سے وہ کیڑے اور مچھر ڈھونڈھ کر اٹیک کرتی ہے ویسے بھی چمگادڑ گوشت خور میمل ہے انسانی وائرس اس پر زندہ رہ سکتا ہے کیونکہ یہ انسانی خون سے بھرے مچھر کھا کھا کر انسانی جسم سے ملتی جلتی بہت ساری خصوصیات بھی بنا لیتی ہے مثلا درختوں پر الٹے لٹکنا بھی انسانوں سے سیکھا ہے فرق صرف سیچویشن کا ہے، گاوں میں آپ کو اسکول سے بھاگنے پر لٹکاتے ہونگے مگر چمگادڑ کو اس بات کا شائد علم نہیں

    خدا دا واسطہ ای ۔۔اے ۔۔کڑل ۔مارنے چھڈ ۔۔دے ۔۔ظلما اوین ۔۔۔تے ۔۔باز ۔آجا۔۔۔تیرے ان کرتوں کی وجہ سے کرونا  گھر کی دہلیز پر آکے بیٹھ گئی ہے

    ویسے  میں نے  اج تک چمگاڈر کو ا یف سولہ کی طرح ڈائی مار کے مچھر پکڑتے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔پتہ نہیں تم کس غار میں  مقیم ہو ۔۔۔۔

    یار ۔۔قسم سے ۔حد  ۔۔کر دیتے ہو ۔۔

    :facepalm: :facepalm:

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #13
    سوری غصے میں اصل بات بتانا بھول گیا، رات کو کبھی صحن میں سوئیں تو اوپر سے تمام وقت چمگادڑین جنگی طیاروں کی طرح نیچی پروازیں کرتی شمال سے جنوب کی طرف اور پھر واپس آتی دکھای دیتی ہیں، یہ ساری محنت وہ سمارٹ ہونے کیلئے نہیں کرتیں بلکہ مچھر جو عموما انسانوں کے اوپر ان کا خون پینے کیلئے جمع ہورہے ہوتے ہیں ان کو دوران پرواز بڑی مہارت اور تیزی سے کھاتی رہتی ہیں بار بار بھی اسی لئے آتی ہیں ، چمگادڑ کے ریڈار بہت ہی حساس اور مہنگا لگایا گیا ہے جو ابھی تک امریکہ کے پاس بھی نہیں اسی کی مدد سے وہ کیڑے اور مچھر ڈھونڈھ کر اٹیک کرتی ہے ویسے بھی چمگادڑ گوشت خور میمل ہے انسانی وائرس اس پر زندہ رہ سکتا ہے کیونکہ یہ انسانی خون سے بھرے مچھر کھا کھا کر انسانی جسم سے ملتی جلتی بہت ساری خصوصیات بھی بنا لیتی ہے مثلا درختوں پر الٹے لٹکنا بھی انسانوں سے سیکھا ہے فرق صرف سیچویشن کا ہے، گاوں میں آپ کو اسکول سے بھاگنے پر لٹکاتے ہونگے مگر چمگادڑ کو اس بات کا شائد علم نہیں

    چمگادڑوں سے دور رہنا چاہیے

    چمگادڑیں اس طرح غیر محسوس طریقے سے کاٹتی ہیں کہ انسان خصوصا بچوں کو چمگاڈر کے کاٹنے کا پتہ بھی نہیں چلتا ہے

    چمگاڈر کے کاٹنے کا اسوقت علم ہوتا ہے جب انسان ریبیز کی وجہ سے موت کے منہ میں پہنچنے والا ہوتا ہے

    اسوقت کوئی اعلاج کارآمد نہیں ہوتا ہے

    چمگاڈر کسی سے ٹکرا بھی جائے تو اسے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
Viewing 13 posts - 1 through 13 (of 13 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi