Thread: مڈ ٹرم الیکشن یا مائنس ون؟
- This topic has 90 replies, 14 voices, and was last updated 3 years, 9 months ago by JMP.
-
AuthorPosts
-
5 Jul, 2020 at 2:32 am #21باوا جی کونسا شیر ہے جیسے ہی زنجیر کھلی دم دبا کے بھاگ گیا اب واپس بھی نہیں آتا
ہاہاہاہاہاہاہا
سات ارب مانگنے والوں کے منہ پر ان کی اوقات کے مطابق پچاس پچاس روپے کے دو اشٹام انکے منہ پر مار کر چلا گیا
فدو لوگ اس کے جیل کے کمرے سے اے سی اتارنے نکلے تھے اور پاوں پڑ کر باہر بھیجنے پر مجبور ہو گئے
یوتھئیے بات ہی اتنی کیا کریں جتنی ان کی اوقات ہے۔ بڑی بڑی بھڑکیں مار کر بعد میں پچاس روپے والے اشٹام لے کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں
اب یوتھئیے نواز شریف کی ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے اور پارک میں چہل قدمی کرتے کی تصویریں دیکھ دیکھ کر کھسیانی بلیوں کی طرح کھمبے نوچ رہے ہوتے ہیں
- mood 4
- mood GeoG, Ghost Protocol, Aamir Siddique, shami11 react this post
5 Jul, 2020 at 11:43 am #22ایک اور یوتھیا پی ٹی آئی کی حمایت کرنے پر اپنے اوپر لعنت ڈالتا ہواایک یوتھیئے کو اللّٰہ پاک نے ہدایت دے دی ہے۔۔
اللہ تعالیٰ باقی یوتھیوں کو بھی ہدایت دے دیں آمین#ورلڈکپ92کی_تباہ_کاریاں pic.twitter.com/vptoiBc47w
— 𝐌𝐮𝐡𝐚𝐦𝐦𝐚𝐝 𝐌𝐚𝐢𝐫𝐚𝐣 🪐 (@MairajPpp) July 4, 2020
5 Jul, 2020 at 11:51 am #23شیخ رشید نے بھی عمران خان کو مائنس کرنے کے آپشن کے موجود ہونے انکار نہیں کیا ہےیہ مائنس تھری میں کون کون آتا ہے؟
کرپٹ اپوزیشن اس ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اگر عمران خان کو مائنس کیا گیا تو پھر مائنس تھری ہوگا۔ pic.twitter.com/UYZ0PnRD9Y
— Sheikh Rashid Ahmed (@ShkhRasheed) July 4, 2020
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
- thumb_up 1
- thumb_up GeoG liked this post
6 Jul, 2020 at 7:31 am #24باوا جی …کتا کنویں سے نکلنا ضروری ہے مگر یہ نیک اور بابرکت کام کون کرے گا؟پچپن میں ایک لطیفہ سنا تھا بڑے گپ باز ایک دوسرے کو متاثر کرنے کے لیے گپیں ہانک رہے تھے …پہلا گپی یہ کہتا ہے کہ یار میرے نانا اپنی سائکل سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلا سکتے تھے ….دوسرا گپی کہنے لگا کہ میرے دادا کے پاس تو ایسی موٹر سائیکل تھی جوکہ پانی سے چلتی تھی
پہلا گپی دوسری گپ چھوڑتا ہے کہ یار میرے نانا کے پاس ایسی دوربین تھی جس سے وہ چاند پر رہنے والی خلائی مخلوق کو دیکھ سکتے تھے …دوسرا گپی اس سے بھی بڑی چھوڑتے ھوئے بولا کہ یار میرے دادا کے پاس تو ایسا فون تھا تھی جس سا وہ سورج پر رہنے والی مخلوق سے باتیں کیا کرتے تھے
پہلا شخص تیسری گپ لگاتا ہے کہ میرے نانا کے پاس ایسی گھڑی تھی جوکہ سمندر میں گر گئی لیکن دس سال بعد نکالی تو بھی چل رہی تھی
دوسرا شخص نے جواباً کہا کہ یار تم گھڑی کی بات کرتے ہو ..میرے دادا تو خود سمندر میں گر گئے تھے ..دس سال بعد نکالا تو پھر بھی زندہ تھےاب پہلے شخص سے رہا نہیں جاتا اور وہ حیرانگی سے پوچھتا ہے…یار تمہارے دادا دس سال سمندر میں کیا کرتے رہے؟
اس پر دوسرا شخص جواب دیتا ہے کہ ..یار وہ تمہارے نانا کی گھڑی کی کو روزانہ چابی دیا کرتے تھےبہرحال ..یہ تو ایک لطیفہ تھا جس کو سنانے کا مقصد یہ تھا کہ لمبی چھوڑنے کی کوئی انتہا نہیں ہوتی …لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جاۓ یہ کہنا بھی درست ہے کہ فوجیوں کے تلوے چاٹنے کی بھی کوئی انتہا نہیں …حکومتی جماعت پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نون لیگ کے درمیان اس وقت مقابلہ ہے کہ کون فوج کا سب سے بڑا وفادار ہے …عمران خان کا ہر دوسرے دن یہ بیان سامنے آتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں …پہلے نواز شریف کی لندن روانگی ، مریم نواز کی خاموشی ..اور پھر شہباز شریف کی واپسی سے یہ افواہیں گرم ہیں کہ نون کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ …بقول شاعر …ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں
اگر ایک فریق فوجی بوٹوں کو چوم رہا ہے تو دوسرا چاٹ رہا ہے …حکومتی مس مینجمنٹ …مہنگائی اور سکینڈلز اتنے ہیں کہ اگر کوئی اور اپوزیشن ہوتی تو ایک اچھی خاصی عوامی تحریک کے تمام لوازمات موجود تھے مگر شہباز گروپ صرف اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کا منتظر ہے6 Jul, 2020 at 7:33 am #25فوج کا تسلط ختم کرنا ہے تو پہلے مرحلے میں عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ ختم کرنا ہو گاباجوے کے دور میں تو فوج کا زہر ملک کے تقریباً ہر محکمے اور ادارے میں سرایت کرچکا ہے …سپریم کورٹ کے سبق جج اعجاز چودھری کے حالیہ انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ائی ایس آئی کس طرح ہائی کورٹ کے ججوں کی نامزدگی میں دلچسپی لیتی ہے اور اپنی لسٹیں فراہم کرتی ہے ..اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہی عدلیہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ براہ راست مارشل لاء کی بجاۓ عدلیہ کے ذریعے جمہوری حکمرانوں کو کنٹرول کیا جاۓ …سوشل میڈیا میں کافی عرصے سے خبریں ہیں کہ ہائی کورٹ کے ججوں کی نامزدگی رکی ہوئی ہے کیونکہ فوج کو ججوں کی اپنی مرتب کی گئی لسٹ پر اعتراض ہے اور فوج نے عدلیہ کو پیغام دیا ہے کہ اس لسٹ کو بھول جاؤ ….ایک کمپرومائز کے طور پر عدلیہ نے ففٹی ففٹی کی تجویز فوج کو پیش کی ہے کہ آدھے جج تمہارے آدھے ہمارے
عدلیہ کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر الیکشن کمیشن سے دھاندلی پر نا اہل ہونے کے باوجود ابھی تک ایک سال سے سپریم کورٹ کے سٹے پر کام کر رہا ہے ….فیصل واوڈا کی امریکی شہریت بر وقت نہ چھوڑنے اور بیان حلفی میں غلط بیانی پورے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے مگر سپریم کورٹ ..ہائی کورٹ یا الیکشن کمیشن میں اتنی جرات نہیں کہ کہ کیس چلا سکے
عاصم باجوہ تین تین پوسٹیں ہڑپ کرچکا ہے…اپنی بھاری بھرکم فوجی پنشن بھی لے رہا ہے …سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین بھی بنا ہوا ہے اور لاکھوں روپے ماہانہ وصول کر رہا ہے …اب عمران خان کا میڈیا ایڈوائزر بھی بن گیا ہے اور یہ بھی بلا ماوضہ نہیں ہوگا …لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سال بھی مکمل نہیں کیے اور ان پرکشش پوسٹس پر اپائنٹمنٹ بھی ہو گئی …کسی ایک بھی مائی کے لعل میں اتنی سکت نہیں کہ عدلیہ میں درخواست ڈال دے کہ حضور یہ صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کا وقفہ لیے بغیر کیسے سیاسی آپوینٹمنٹ پر آ سکتے ہیں ..لیکن مسئلہ یہ ہے جس دن بھی درخواست آئی اسی دن وہ درخواست گزار اغوا ہوجاۓ گا
6 Jul, 2020 at 7:58 am #26اسلام آباد (انصار عباسی) معلوم ہوا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر نے مبینہ طور پر نون لیگ کی سینئر قیادت کو وزیراعظم عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی پیشکش کی ہے۔ ایک باخبر ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ وفاقی وزیر نے حال ہی میں نون لیگ کی سینئر رہنما کی فیملی کے ایک رکن سے اس معاملے پر بات کی ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو پی ٹی آئی کے کئی ارکان قومی اسمبلی بھی اس کی حمایت کریں گے، پی ٹی آئی کے اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ پیغام نواز شریف، شہباز شریف اور خواجہ آصف تک پہنچا دیا گیا ہے۔ نون لیگ نے اب تک وفاقی وزیر کے اس ’’خیال‘‘ کا جواب نہیں دیا اور فی الحال کیلئے ’’ انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی کو ترجیح دے رہی ہے۔ اس نمائندے نے مذکورہ وزیر سے رابطہ کیا تاہم انہوں نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ انہوں نے شریف فیملی والوں کو ایسا کوئی پیغام پہنچایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ وزیر نے نون لیگ کی سینئر قیادت کے خاندان کے فرد سے رابطے کیلئے اپنا ذاتی موبائل فون استعمال کیا۔ ان کی نون لیگ کے مذکورہ شخص کے ساتھ پرانی وابستگی ہے اور بظاہر اسی تعلق کی وجہ سے ان کو نون لیگ تک یہ پیغام پہنچانے کی ترغیب ملی۔ ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ ایوان میں تبدیلی کیلئے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے 12؍ سے زائد ارکان اسمبلی تیار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے وفاقی وزیر کا پس منظر میں نون لیگ والوں کے ساتھ رابطہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کیلئے پریشانی کا باعث بنے کچھ تنازعات کے دوران ہی سامنے آیا ہے۔ ایک طرف اتحادی جماعت بی این پی مینگل نے پہلے ہی حکومت چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے تو دوسری طرف ق لیگ والوں کا سیاسی موڈ بھی پی ٹی آئی حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ایسے میں ’’مائنس ون‘‘ فارمولے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں اور اس میں بھی کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان نے خود قومی اسمبلی میں اپنے حالیہ بیان میں اس بابت بات کی۔ انہوں نے ’’مائنس ون‘‘ فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے ’’مافیائوں‘‘ اور ’’کارٹل‘‘ کیخلاف کارروائی کی بات کی۔ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے حالیہ بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں معاملات اچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹوایا اور جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہد محمود قریشی کی آپسی لڑائی کی وجہ سے پارٹی کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔ فواد چوہدری نے عمران خان حکومت کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان سے بڑی توقعات تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ عوام نے پی ٹی آئی اور عمران خان کو نٹ بولٹ کسنے کیلئے نہیں بلکہ نظام میں اصلاحات لانے کیلئے منتخب کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بڑے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت جس میں اسد عمر، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی شامل ہیں، کے درمیان آپسی لڑائی جاری ہے، لہٰذا اس صورتحال سے سیاسی خلا پیدا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب سیاسی خلا پیدا ہوگا تو اسے نئے لوگ پُر کریں گے جن کا سیاست سے تعلق نہیں ہوگا، جب آپ کی بنیادی (کور) ٹیم میں مسائل ہوں گے تو اس میں نئے لوگ آئیں گے جو خیالات سے ہم آہنگ نہیں ہوں گے اور وہ کام کر پائیں گے اور نہ ان میں صلاحیت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس آپسی لڑائی نے پارٹی کو اور بالخصوص سیاسی کلاس کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہفتے کو وزیر ریلوے شیخ رشید نے بیان دیا تھا جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ حکمران اتحاد میں معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ ممکنہ ون کی صورت میں ممکنہ طور پر مائنس تھری کی وارننگ دیتے ہوئے شیخ رشید نے پی ٹی آئی کے وزیروں کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے گندے کپڑے میڈیا کے سامنے نہ دھوئیں۔ رشید نے کہا کہ ہم آخری چوائس نہیں ہیں، کچھ وزراء وہ کام کر رہے ہیں جو اپوزیشن والے بھی نہیں کر پائے۔6 Jul, 2020 at 11:07 am #27باوا جی …کتا کنویں سے نکلنا ضروری ہے مگر یہ نیک اور بابرکت کام کون کرے گا؟ پچپن میں ایک لطیفہ سنا تھا بڑے گپ باز ایک دوسرے کو متاثر کرنے کے لیے گپیں ہانک رہے تھے …پہلا گپی یہ کہتا ہے کہ یار میرے نانا اپنی سائکل سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلا سکتے تھے ….دوسرا گپی کہنے لگا کہ میرے دادا کے پاس تو ایسی موٹر سائیکل تھی جوکہ پانی سے چلتی تھی پہلا گپی دوسری گپ چھوڑتا ہے کہ یار میرے نانا کے پاس ایسی دوربین تھی جس سے وہ چاند پر رہنے والی خلائی مخلوق کو دیکھ سکتے تھے …دوسرا گپی اس سے بھی بڑی چھوڑتے ھوئے بولا کہ یار میرے دادا کے پاس تو ایسا فون تھا تھی جس سا وہ سورج پر رہنے والی مخلوق سے باتیں کیا کرتے تھے پہلا شخص تیسری گپ لگاتا ہے کہ میرے نانا کے پاس ایسی گھڑی تھی جوکہ سمندر میں گر گئی لیکن دس سال بعد نکالی تو بھی چل رہی تھی دوسرا شخص نے جواباً کہا کہ یار تم گھڑی کی بات کرتے ہو ..میرے دادا تو خود سمندر میں گر گئے تھے ..دس سال بعد نکالا تو پھر بھی زندہ تھے اب پہلے شخص سے رہا نہیں جاتا اور وہ حیرانگی سے پوچھتا ہے…یار تمہارے دادا دس سال سمندر میں کیا کرتے رہے؟ اس پر دوسرا شخص جواب دیتا ہے کہ ..یار وہ تمہارے نانا کی گھڑی کی کو روزانہ چابی دیا کرتے تھے بہرحال ..یہ تو ایک لطیفہ تھا جس کو سنانے کا مقصد یہ تھا کہ لمبی چھوڑنے کی کوئی انتہا نہیں ہوتی …لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جاۓ یہ کہنا بھی درست ہے کہ فوجیوں کے تلوے چاٹنے کی بھی کوئی انتہا نہیں …حکومتی جماعت پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نون لیگ کے درمیان اس وقت مقابلہ ہے کہ کون فوج کا سب سے بڑا وفادار ہے …عمران خان کا ہر دوسرے دن یہ بیان سامنے آتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں …پہلے نواز شریف کی لندن روانگی ، مریم نواز کی خاموشی ..اور پھر شہباز شریف کی واپسی سے یہ افواہیں گرم ہیں کہ نون کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ …بقول شاعر …ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں اگر ایک فریق فوجی بوٹوں کو چوم رہا ہے تو دوسرا چاٹ رہا ہے …حکومتی مس مینجمنٹ …مہنگائی اور سکینڈلز اتنے ہیں کہ اگر کوئی اور اپوزیشن ہوتی تو ایک اچھی خاصی عوامی تحریک کے تمام لوازمات موجود تھے مگر شہباز گروپ صرف اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کا منتظر ہےقرار جی
اصل مسئلہ واقعی وردی پوش کتوں کو سیاسی کنویں سے نکالنے کا ہی ہے
فوج نے نواز شریف کو حکومت اور سیاست سے نکال کر عوام اور سیاست دانوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ آئین، قانون، پارلیمنٹ، عوام کے فیصلوں اور عوام کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے. اگر کسی سیاست دان نے حکومت میں آنا ہے اور حکومت میں رہنا ہے تو اسے سر جھکا کر فوج کے بوٹ چاٹنے ہونگے ورنہ ان کا انجام بھی بھٹو اور نواز شریف والا ہو سکتا ہے
اب یہ تو سیاست دانوں اور عوام پر منحصر ہے کہ اگر انہوں نے اس وردی پوش کتوں سے ملک آزاد کروانا ہے تو وہ ہمت کریں، بنگالی بنیں، فوج سے ٹکرائیں، ان وردی پوش دہشتگرد بھیڑیوں کے ٹینک اور توپوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی جانوں کا نذرانہ اور اپنی خواتین کی عزتوں کی قربانی دیں، ان کے ساتھ پلٹن گراونڈ والی کریں اور ان کی پتلونیں اتروا کر اپنے میوزیم میں سجائیں
کیا ہمارے سیاست دان اور عوام یہ قربانی دینے کو تیار ہیں؟
ابھی شاید وہ مرحلہ نہیں آیا ہے لیکن فوج کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے اور عوام کے فیصلوں کی توہین کرکے کٹھ پتلی حکمران عوام پر سوار کرنے کی وجہ سے جس تیزی سے عوام میں فوج کی نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ امید ضرور ہے کہ اب وہ وقت زیادہ دور بھی نہیں ہے
ایک زمانہ تھا جب عوام تک پہنچنے والی خبروں کے ذرائع محدود ہوا کرتے تھے. ملک میں سرکاری اشتہارات پر چلنے والے اخبارات، سرکاری ریڈیو اور سرکاری ٹی وی کی عوام کیلیے خبروں کا ذریعہ ہوتے تھے. فوج کے کرتوت نیشنل میڈیا پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے عوام سے چھپے رہتے تھے
اب سوشل میڈیا کی ترقی کی وجہ سے کوئی بات عوام سے چھپی نہیں رہتی ہے اور فوج کے سب کرتوت عوام کے سامنے آ جاتے ہیں. جتنا زیادہ فوج کا گھٹیا کردار عوام کے سامنے آئے گا اتنی ہی زیادہ عوام میں فوج کے خلاف نفرت بڑھے گی اور اتنا ہی شدید عوام کا ردعمل سامنے آئے گا
جب کوئی فوج عوام کی حمایت سے محروم ہو کر عوام کی نفرت کا شکار ہو جاتی ہے تو پھر فوج کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو مشرقی پاکستان میں ہو چکا ہے. تین صوبوں میں تو پہلے ہی فوج سے نفرت پائی جاتی ہے اور پنجاب میں یہ نفرت دن بدن بڑھ رہی ہے. کسی بھی وقت فوج سے نفرت کا یہ لاوا پھٹ سکتا ہے. یہ صورتحال اسوقت اور بھی خطرناک ہو سکتی ہے جب عوام پر کسی سیاست دان کا کنٹرول نہیں ہوگا
- thumb_up 1
- thumb_up GeoG liked this post
7 Jul, 2020 at 1:47 pm #28امریکی سپریم کورٹ نے آج الیکٹرز کی حیثیت کے بارے میں متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے جس میں الیکٹرول کالج کے نمائندگان کو ریاست کے ووٹرز کی پسند کا ہر صورت خیال رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور الیکٹرز کے دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ انہیں ریاست کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کو چننے کا آئینی حق حاصل ہے. امریکہ میں عوام براہ راست صدر اور نائب صدر کا انتخاب نہیں کرتے ہیں بلکہ انکا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے. جسٹس ایلینا کیگن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکٹرز کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہے. انہیں اسی امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہوگا جسے ریاست کی عوام نے چنا ہو. یہ فیصلہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات میں دس الیکترز لوٹے بن گئے تھے اور انہوں نے اپنے امید وار کی بجائے دوسرے امید وار کو ووٹ دیے تھےhttps://www.latimes.com/politics/story/2020-07-06/supreme-court-electoral-college-states-voters
اس فورم کے امریکی ممبرز اس فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس فیصلے کے امریکی سیاست، جمہوریت اور نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر کیا اثرات ہونگے؟
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
- thumb_up 1
- thumb_up GeoG liked this post
7 Jul, 2020 at 4:47 pm #29امریکی سپریم کورٹ نے آج الیکٹرز کی حیثیت کے بارے میں متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے جس میں الیکٹرول کالج کے نمائندگان کو ریاست کے ووٹرز کی پسند کا ہر صورت خیال رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور الیکٹرز کے دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ انہیں ریاست کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کو چننے کا آئینی حق حاصل ہے. امریکہ میں عوام براہ راست صدر اور نائب صدر کا انتخاب نہیں کرتے ہیں بلکہ انکا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے. جسٹس ایلینا کیگن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکٹرز کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہے. انہیں اسی امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہوگا جسے ریاست کی عوام نے چنا ہو. یہ فیصلہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات میں دس الیکترز لوٹے بن گئے تھے اور انہوں نے اپنے امید وار کی بجائے دوسرے امید وار کو ووٹ دیے تھے https://www.latimes.com/politics/story/2020-07-06/supreme-court-electoral-college-states-voters اس فورم کے امریکی ممبرز اس فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس فیصلے کے امریکی سیاست، جمہوریت اور نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر کیا اثرات ہونگے؟ Shirazi Qarar SaleemRaza نادانBawa Bhai, relevant to the subject that there has been four occasions that popular vote winner was the loser in electoral votes and each time Republicans were beneficiaries.
- thumb_up 1
- thumb_up Bawa liked this post
7 Jul, 2020 at 9:03 pm #30Bawa Qarar BlackSheep باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے نوبت یہ آگئی ہے کہ تنکے کا سہارہ ایازامیر بھی باغبانوں کو کوسنے لگ گیا ہے ، یہ سوچ کر ہی کرب محسوس ہوتا ہے کہ کہ اگلی مرتبہ فلسفہ بوٹ چاٹی کے حق میں ارشاد بھٹی کا کالم پڑھنا پڑے گاگھوسٹ صاحب …اس بات پر تو ایک ٹویٹ پوسٹ کرنا ہی بنتا ہے
یہ جتنے اینکر پہلے عمران کے حامی تھے اور آج مخالف ہیں وہ سب کے سب آج بھی اتنے ہی گدھے ہیں جتنے کل تھے۔ کل جس کے کہنے پر حامی تھے آج اسی کے کہنے پر مخالف ہیں اس لیے ان کی حالت کے منقلب ہونے کی وجہ عقل آنا مت سمجھیں۔۔۔
— Salman Haider (@SalmanHydr) July 6, 2020
- thumb_up 1
- thumb_up Bawa liked this post
7 Jul, 2020 at 9:07 pm #31کچھ یار لوگوں کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو گئی ہے …پٹواریوں کی امید کا دیا بھی روشنhttps://twitter.com/ShafiqAhmadAdv3/status/1280388994094645248?s=20
- mood 1
- mood Bawa react this post
7 Jul, 2020 at 9:11 pm #32Bawa Bhai, relevant to the subject that there has been four occasions that popular vote winner was the loser in electoral votes and each time Republicans were beneficiaries.جیو جی بھائی
آپ کی بات درست ہے لیکن کیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اب وہی امیدوار صدر منتخب ہوگا جسے پاپولر ووٹ زیادہ ملے ہونگے یا ابھی بھی الیکٹرز اپنی اسٹیٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی سے صدارتی الیکشن میں ووٹ دے سکیں گے؟
امریکی آئین اس معاملے میں کیا کہتا ہے؟ کیا اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے آئین کو مد نظر رکھا ہے یا اپنی آئینی حدود سے نکل کر کسی بلیک لاء ڈکشنری سے مدد لے کر یہ فیصلہ کیا ہے؟
بظاہر تو یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل دو اور بارہویں ترمیم کے مطابق لگتا ہے لیکن کیا آئین کا کوئی اور آرٹیکل الیکٹرز کو آزادانہ فیصلہ کرنے کا حق دیتا ہے؟
مجھے نہیں سمجھ آتی ہے کہ امریکی عوام براہ راست صدر کا انتخاب کیوں نہیں کرتی ہے اور درمیان میں اس الیکٹورل کالج کو کیوں ڈال رکھا ہے جو عوام کی اکثریت کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے؟
- thumb_up 1
- thumb_up GeoG liked this post
7 Jul, 2020 at 9:11 pm #33قرار جی اصل مسئلہ واقعی وردی پوش کتوں کو سیاسی کنویں سے نکالنے کا ہی ہے فوج نے نواز شریف کو حکومت اور سیاست سے نکال کر عوام اور سیاست دانوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ آئین، قانون، پارلیمنٹ، عوام کے فیصلوں اور عوام کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے. اگر کسی سیاست دان نے حکومت میں آنا ہے اور حکومت میں رہنا ہے تو اسے سر جھکا کر فوج کے بوٹ چاٹنے ہونگے ورنہ ان کا انجام بھی بھٹو اور نواز شریف والا ہو سکتا ہے اب یہ تو سیاست دانوں اور عوام پر منحصر ہے کہ اگر انہوں نے اس وردی پوش کتوں سے ملک آزاد کروانا ہے تو وہ ہمت کریں، بنگالی بنیں، فوج سے ٹکرائیں، ان وردی پوش دہشتگرد بھیڑیوں کے ٹینک اور توپوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی جانوں کا نذرانہ اور اپنی خواتین کی عزتوں کی قربانی دیں، ان کے ساتھ پلٹن گراونڈ والی کریں اور ان کی پتلونیں اتروا کر اپنے میوزیم میں سجائیں کیا ہمارے سیاست دان اور عوام یہ قربانی دینے کو تیار ہیں؟ ابھی شاید وہ مرحلہ نہیں آیا ہے لیکن فوج کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے اور عوام کے فیصلوں کی توہین کرکے کٹھ پتلی حکمران عوام پر سوار کرنے کی وجہ سے جس تیزی سے عوام میں فوج کی نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ امید ضرور ہے کہ اب وہ وقت زیادہ دور بھی نہیں ہے ایک زمانہ تھا جب عوام تک پہنچنے والی خبروں کے ذرائع محدود ہوا کرتے تھے. ملک میں سرکاری اشتہارات پر چلنے والے اخبارات، سرکاری ریڈیو اور سرکاری ٹی وی کی عوام کیلیے خبروں کا ذریعہ ہوتے تھے. فوج کے کرتوت نیشنل میڈیا پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے عوام سے چھپے رہتے تھے اب سوشل میڈیا کی ترقی کی وجہ سے کوئی بات عوام سے چھپی نہیں رہتی ہے اور فوج کے سب کرتوت عوام کے سامنے آ جاتے ہیں. جتنا زیادہ فوج کا گھٹیا کردار عوام کے سامنے آئے گا اتنی ہی زیادہ عوام میں فوج کے خلاف نفرت بڑھے گی اور اتنا ہی شدید عوام کا ردعمل سامنے آئے گا جب کوئی فوج عوام کی حمایت سے محروم ہو کر عوام کی نفرت کا شکار ہو جاتی ہے تو پھر فوج کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو مشرقی پاکستان میں ہو چکا ہے. تین صوبوں میں تو پہلے ہی فوج سے نفرت پائی جاتی ہے اور پنجاب میں یہ نفرت دن بدن بڑھ رہی ہے. کسی بھی وقت فوج سے نفرت کا یہ لاوا پھٹ سکتا ہے. یہ صورتحال اسوقت اور بھی خطرناک ہو سکتی ہے جب عوام پر کسی سیاست دان کا کنٹرول نہیں ہوگابهولے باوا جی …کہاں بنگالی اور کہاں پنجابی ….یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ پاکستانی عوام فوج سے متنفر ہونا شروع ہو چکے ہیں …شاید باقی صوبوں کی حد تو تو یہ درست ہے مگر تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک پنجابی اپنی بے غیرتی نہیں چھوڑیں گے ….یہ لوگ چمگادڑوں کی طرح توہین رسالت پر عیسائیوں احمدیوں اور ہندوؤں کے گھر جلانے تو دو سیکنڈ کے نوٹس پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں مگر فوجیوں کے خلاف انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے …تو اس کے دو ہی مطلب نکالے جاسکتے ہیں …نمبر ایک ..کہ پجابیوں کی اکثریت فوج کے اقدامات کے ساتھ ہے اور انہیں کوئی بڑا مسئلہ نہیں
نمبر دو ..پنجابی بزدل (یا سمجھدار) ہیں اور ..سرف جمہوریت کے لیے بنگالیوں کی طرح اپنی عورتوں کی عزتیں لٹانا …یا اپنے عزیزوں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھنا انہیں قبول نہیں
اب آپ ہی فیصلہ کرلیں کہ ان دونوں میں سے اصلی وجہ کون سی ہے ..ورنہ اور کیا وجہ ہے کہ اپنے ہی مسلمان بلوچی بھائیوں کی سالوں سے ہونے والی نسل کشی پر پنجابی میڈیا موثر آواز بلند کرنے سے قاصر ہےآج ہی پاکستان اور مسلم دنیا سے دو اچھی اچھی خبریں ملی ہیں ..انجونے کریں
وفاقی کابینہ نے پی آئی اے کی سربراہی اس ایئر مارشل کو تین سال کے لیے پکڑا دی ہے …حکومت سے پوچھنا بنتا ہے کہ کیا کوئی سویلین محکمہ رہ تو نہیں گیا جس کی سربراہی حاضر سروس یہ ریٹائرڈ فوجی کے پاس نہ ہو
مصر سے ایک زبردست خبر آئی ہے کہ حاضر سروس فوجی افسران کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی ہے …یعنی اب انہیں مارشل لا لگانے کی ضرورت نہیں …پارلیمان میں بھی فوجی بیٹھا کریں گے
- mood 1
- mood Bawa react this post
7 Jul, 2020 at 9:21 pm #34مگر تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک پنجابی اپنی بے غیرتی نہیں چھوڑیں گےقرار صاحب۔۔۔۔۔
کیا اِس صورتحال کو مستقبل قریب تک کیلئے کونسٹینٹ کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔
یا دانشگردی کی فرہنگِ جمہوریہ میں یہ کم بخت لفظ لینا ابھی بھی حرام ہے۔۔۔۔۔
™©
- This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
- mood 1
- mood Qarar react this post
7 Jul, 2020 at 9:46 pm #35بهولے باوا جی …کہاں بنگالی اور کہاں پنجابی ….یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ پاکستانی عوام فوج سے متنفر ہونا شروع ہو چکے ہیں …شاید باقی صوبوں کی حد تو تو یہ درست ہے مگر تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک پنجابی اپنی بے غیرتی نہیں چھوڑیں گے ….یہ لوگ چمگادڑوں کی طرح توہین رسالت پر عیسائیوں احمدیوں اور ہندوؤں کے گھر جلانے تو دو سیکنڈ کے نوٹس پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں مگر فوجیوں کے خلاف انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے …تو اس کے دو ہی مطلب نکالے جاسکتے ہیں …نمبر ایک ..کہ پجابیوں کی اکثریت فوج کے اقدامات کے ساتھ ہے اور انہیں کوئی بڑا مسئلہ نہیں نمبر دو ..پنجابی بزدل (یا سمجھدار) ہیں اور ..سرف جمہوریت کے لیے بنگالیوں کی طرح اپنی عورتوں کی عزتیں لٹانا …یا اپنے عزیزوں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھنا انہیں قبول نہیں اب آپ ہی فیصلہ کرلیں کہ ان دونوں میں سے اصلی وجہ کون سی ہے ..ورنہ اور کیا وجہ ہے کہ اپنے ہی مسلمان بلوچی بھائیوں کی سالوں سے ہونے والی نسل کشی پر پنجابی میڈیا موثر آواز بلند کرنے سے قاصر ہے آج ہی پاکستان اور مسلم دنیا سے دو اچھی اچھی خبریں ملی ہیں ..انجونے کریں وفاقی کابینہ نے پی آئی اے کی سربراہی اس ایئر مارشل کو تین سال کے لیے پکڑا دی ہے …حکومت سے پوچھنا بنتا ہے کہ کیا کوئی سویلین محکمہ رہ تو نہیں گیا جس کی سربراہی حاضر سروس یہ ریٹائرڈ فوجی کے پاس نہ ہو مصر سے ایک زبردست خبر آئی ہے کہ حاضر سروس فوجی افسران کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی ہے …یعنی اب انہیں مارشل لا لگانے کی ضرورت نہیں …پارلیمان میں بھی فوجی بیٹھا کریں گےقرار جی
آپ پنجابیوں کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہے ہیں
فوج کیا چیز ہے پنجابیوں نے تو اسکندر اعظم کے پچھواڑے میں تیر گھسا کر اسے موت کے منہ میں پہنچا دیا تھا
وہ پنجابی ہی تھے جنہوں نے دنیا فتح کرنے نکلے ہوئے اسکندر اعظم کے پچھواڑے میں تیر گھسا کر اسکا دنیا فتح کرنے کا خواب خاک میں ملا دیا تھا اور اسے دنیا فتح کرکے اپنے آبائی شہر مقدونیہ واپس جانے کے اپنے خواب آنکھوں میں موت کے منہ میں جانا پڑا تھا
پنجابیوں کا غسایا ہوا یہ تیر لاکھ کوشش کے باوجود اسکندر اعظم اپنے پچھواڑے سے نہ نکال سکا تھا اور اس تیر کو کاٹ کر نکالنا پڑا تھا لیکن پھر بھی اسکا کچھ حصہ اسکے پچھواڑے کے اندر ہی رہا تھا جو اسے مرتے دم تک یاد دلاتا رہا تھا کہ
پنجابیوں سے پنگا لینا اسکندر اعظم کو بھی منہگا پڑتا ہے
- mood 3
- mood Ghost Protocol, Qarar, GeoG react this post
7 Jul, 2020 at 9:49 pm #36قرار صاحب۔۔۔۔۔ کیا اِس صورتحال کو مستقبل قریب تک کیلئے کونسٹینٹ کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔ یا دانشگردی کی فرہنگِ جمہوریہ میں یہ کم بخت لفظ لینا ابھی بھی حرام ہے۔۔۔۔۔ ™©بلیک شیپ صاحب …اگر آپ مستقبل قریب والی شرائط ڈال دیں تو پھر کانسٹنٹ کانسٹنٹ نہیں رہتا …کیونکہ سوچ تو تبدیل ہو رہی ہے مگر اس رفتار سے نہیں جس کی توقع ہے
مجھے کبھی بھی الفاظ سے مسئلہ نہیں تھا …آپ کا موقف یہ ہے کہ کانسٹنٹ جس کے پاس ڈنڈا بھی ہے کو چھوڑ کر تنقید مسکینوں پر کی جاۓ …میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ کانسٹنٹ پر سب سے زیادہ تنقید ہونی چاہیے تاکہ وہ کانسٹنٹ نہ رہے
ورنہ مذہب سب سے بڑا کانسٹنٹ ہے اس پر تو آپ خوب تبریٰ بھیجتے رہتے ہیں …بقول سہیل ورائچ یہ کھلا تضاد نہیں؟
- mood 1
- mood Ghost Protocol react this post
7 Jul, 2020 at 9:53 pm #37قرار جی آپ پنجابیوں کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہے ہیں فوج کیا چیز ہے پنجابیوں نے تو اسکندر اعظم کے پچھواڑے میں تیر گھسا کر اسے موت کے منہ میں پہنچا دیا تھا وہ پنجابی ہی تھے جنہوں نے دنیا فتح کرنے نکلے ہوئے اسکندر اعظم کے پچھواڑے میں تیر گھسا کر اسکا دنیا فتح کرنے کا خواب خاک میں ملا دیا تھا اور اسے دنیا فتح کرکے اپنے آبائی شہر مقدونیہ واپس جانے کے اپنے خواب آنکھوں میں موت کے منہ میں جانا پڑا تھا پنجابیوں کا غسایا ہوا یہ تیر لاکھ کوشش کے باوجود اسکندر اعظم اپنے پچھواڑے سے نہ نکال سکا تھا اور اس تیر کو کاٹ کر نکالنا پڑا تھا لیکن پھر بھی اسکا کچھ حصہ اسکے پچھواڑے کے اندر ہی رہا تھا جو اسے مرتے دم تک یاد دلاتا رہا تھا کہ پنجابیوں سے پنگا لینا اسکندر اعظم کو بھی منہگا پڑتا ہےسکندر غیر تھا اور باجوہ “اپنا” ہے بات تو تب ہے کہ باجوے کے پچھواڑے میں بھی کچھ گھسایا جاۓ
- thumb_up 2
- thumb_up Ghost Protocol, Bawa liked this post
7 Jul, 2020 at 10:30 pm #38امریکی سپریم کورٹ نے آج الیکٹرز کی حیثیت کے بارے میں متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے جس میں الیکٹرول کالج کے نمائندگان کو ریاست کے ووٹرز کی پسند کا ہر صورت خیال رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور الیکٹرز کے دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ انہیں ریاست کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کو چننے کا آئینی حق حاصل ہے. امریکہ میں عوام براہ راست صدر اور نائب صدر کا انتخاب نہیں کرتے ہیں بلکہ انکا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے. جسٹس ایلینا کیگن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکٹرز کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہے. انہیں اسی امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہوگا جسے ریاست کی عوام نے چنا ہو. یہ فیصلہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات میں دس الیکترز لوٹے بن گئے تھے اور انہوں نے اپنے امید وار کی بجائے دوسرے امید وار کو ووٹ دیے تھے https://www.latimes.com/politics/story/2020-07-06/supreme-court-electoral-college-states-voters اس فورم کے امریکی ممبرز اس فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس فیصلے کے امریکی سیاست، جمہوریت اور نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر کیا اثرات ہونگے؟ Shirazi Qarar SaleemRaza نادانباوا جی اس فیصلے سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں …عام طور پر اکثریتی ووٹ لینے والا امیدوار الیکٹورل کالج میں بھی اکثریت لے لیتا ہے مگر جب مقابلہ سخت ہو تو ایسا امکان ہوتا ہے کہ زیادہ ووٹ لینے والے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل نہ کرسکے ..جیساک کہ جیسا کہ حالیہ ایک دو الیکشنز میں ہوا ہے ایل گور اور ہیلری کلنٹن بڑی بڑی ریاستوں میں بھری اکثریت سے جیتے ..اس طرح انہیں ووٹ تو زیادہ ملے مگر اتنی ریاستوں میں کامیابی نہیں ملی جن کی انہیں الیکٹورل کالج میں ضرورت تھی
امریکا میں آئین میں ترمیم کے لیے ایوان نمائندگان ..سینٹ ..کی دو تہائی اور ساتھ ساتھ پچاس ریاستوں میں سے دو تہائی ریاستوں کی ریاستی اسمبلیوں سے منظوری لازمی ہے ..جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے جبتک کہ دونوں پارٹیوں میں سو فیصد اتفاق نہ ہو …ریپبلکن پارٹی الیکٹورل کالج کی بینیفشری ہے کیونکہ بہت ساری چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں ریپبلکن پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے جہاں سے پچھلے سو سو سالوں میں ریپبلکن امیدوار کبھی ہارے نہیں …ان تمام چھوٹی ریاستوں کو تین تین الیکٹورل سیٹیں ملی ہوئی ہیں ..جوکہ ان کی آبادی کے حساب سے کہیں زیادہ ہیں ..آبادی کے لحاظ سے الیکٹورل کالج بنایا جاۓ ان ریاستوں کو آدھی سیٹ بھی شاید نہ ملے …لہٰذا ریپبلکن امیدوار کو ان چھوٹی ریاستوں میں جیتنے کی وجہ سے الیکٹورل کالج میں زیادہ ووٹ مل جاتے ہیں
جہاں تک سپریم پورٹ کے فیصلے کا تعلق ہے ..اس نے الیکٹورل کالج کے نمائندوں کو اپنی مرضی سے ووٹ سوئچ کرنے سے روک دیا ہے …یعنی اگر فرض کیا ٹرمپ ریاست فلوریڈا میں جیت جاتا ہے تو اس ریاست کے نامزد کردہ تمام کے تمام انتیس الیکٹرز (مندوبین) الیکٹورل کالج کی ووٹنگ میں ٹرمپ کو ووٹ دینے کے پابند ہیں …یہ ریاست کے نامزد کردہ پارٹی ورکرز اور عھدے داران ہی ہوتے ہیں …جن میں سے ایک دو ممبر ہر دفعہ دل پشوری کے لیے الیکٹورل کالج کی ووٹنگ کے دوران اپنا ووٹ سوئچ کرلیتے ہیں …لیکن موڈرن زمانے میں اس سے مجموعی نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتا …سپریم کورٹ نے انہیں ووٹ سوئچ کرنے سے روک دیا ہے تاکہ مستقبل میں اس سے خرابی نہ ہو
الیکٹورل کالج پرانے زمانے کا ایک سلیکشن پراسیس ہوتا تھا ..جن میں ہر ریاست اپنی مرضی سے… ریاست کو الاٹ کردہ مندوبین کی تعداد کے مطابق اپنے لوگ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کے لیے واشنگٹن ڈی سی بھیجا کرتے تھے ..جہاں بولی لگتی تھی ..اتحاد بنتے تھے ..لیں دین ہوتا تھا ..اور پھر ووٹنگ میں جس کے بھی زیادہ مندوبین ہوتے وو صدر اور نائب صدر بن جاتا
ابراہام لنکن ابتدا میں الیکٹورل کالج میں دوسرے نمبر پر تھا …لیکن کسی کو بھی پچاس فیصد ووٹ حاصل نہیں ھوئے ..لیں دیں کے بعد وہ صدر بن گیا …لیکن ظاہر ہے موجودہ جمہوریت اور دو صدی پرانی جمہوریت میں فرق تھا ..پرانے زمانے میں تو نہ کالوں کو ووٹ کا حق تھا اور نہ عورتوں کو …امریکا میں موجودہ الیکٹورل کالج کے حمایتی کوئی خاص تعداد میں نہیں مگر آئینی ترمیم نہ ہوسکنے کی وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں آسکتی- local_florist 1
- local_florist Bawa thanked this post
7 Jul, 2020 at 10:35 pm #39سکندر غیر تھا اور باجوہ “اپنا” ہے بات تو تب ہے کہ باجوے کے پچھواڑے میں بھی کچھ گھسایا جاۓوہ وقت بھی ضرور آئے گا
جب تک فوجی لٹیرے میرے وطن کو گھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی، اپنی جنگ رہے گی7 Jul, 2020 at 10:45 pm #40امریکی سپریم کورٹ نے آج الیکٹرز کی حیثیت کے بارے میں متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے جس میں الیکٹرول کالج کے نمائندگان کو ریاست کے ووٹرز کی پسند کا ہر صورت خیال رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور الیکٹرز کے دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ انہیں ریاست کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کو چننے کا آئینی حق حاصل ہے. امریکہ میں عوام براہ راست صدر اور نائب صدر کا انتخاب نہیں کرتے ہیں بلکہ انکا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے. جسٹس ایلینا کیگن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکٹرز کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہے. انہیں اسی امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہوگا جسے ریاست کی عوام نے چنا ہو. یہ فیصلہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات میں دس الیکترز لوٹے بن گئے تھے اور انہوں نے اپنے امید وار کی بجائے دوسرے امید وار کو ووٹ دیے تھے https://www.latimes.com/politics/story/2020-07-06/supreme-court-electoral-college-states-voters اس فورم کے امریکی ممبرز اس فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس فیصلے کے امریکی سیاست، جمہوریت اور نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر کیا اثرات ہونگے؟ Shirazi Qarar SaleemRaza نادانI don’t see much implications. In practice that’s how it has always been. The bigger change would be to take electoral college out altogether and decide elections on just popular vote. I know many people from NY or California or Texas who don’t vote because those are not swing states and the outcome is pretty obvious. But if popular votes were the deciding factor they would vote. The founding fathers added electoral college to give smaller states value in the process but practically that disenfranchises bigger states. Hillary Clinton and AlGore won popular vote and lost elections. I am sure this could happen in Parliamentary democracy but it’s a flaw especially in 2-party system.
- local_florist 1
- local_florist Bawa thanked this post
-
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.