Viewing 20 posts - 21 through 40 (of 91 total)
  • Author
    Posts
  • Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #21
    باوا جی کونسا شیر ہے جیسے ہی زنجیر کھلی دم دبا کے بھاگ گیا اب واپس بھی نہیں آتا

    ہاہاہاہاہاہاہا

    سات ارب مانگنے والوں کے منہ پر ان کی اوقات کے مطابق پچاس پچاس روپے کے دو اشٹام انکے منہ پر مار کر چلا گیا

    :bigsmile:

    فدو لوگ اس کے جیل کے کمرے سے اے سی اتارنے نکلے تھے اور پاوں پڑ کر باہر بھیجنے پر مجبور ہو گئے

    یوتھئیے بات ہی اتنی کیا کریں جتنی ان کی اوقات ہے۔ بڑی بڑی بھڑکیں مار کر بعد میں پچاس روپے والے اشٹام لے کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں

    :bigthumb:

    اب یوتھئیے نواز شریف کی ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے اور پارک میں چہل قدمی کرتے کی تصویریں دیکھ دیکھ کر کھسیانی بلیوں کی طرح کھمبے نوچ رہے ہوتے ہیں

    :lol: :hilar:

    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #22
    ایک اور یوتھیا پی ٹی آئی کی حمایت کرنے پر اپنے اوپر لعنت ڈالتا ہوا

    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #23
    شیخ رشید نے بھی عمران خان کو مائنس کرنے کے آپشن کے موجود ہونے انکار نہیں کیا ہے

    یہ مائنس تھری میں کون کون آتا ہے؟

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #24
    باوا جی …کتا کنویں سے نکلنا ضروری ہے مگر یہ نیک اور بابرکت کام کون کرے گا؟

    پچپن میں ایک لطیفہ سنا تھا  بڑے گپ باز ایک دوسرے کو متاثر کرنے کے لیے گپیں ہانک رہے تھے …پہلا گپی یہ کہتا ہے کہ یار میرے نانا اپنی سائکل  سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلا سکتے تھے ….دوسرا گپی کہنے لگا کہ میرے دادا کے پاس تو ایسی موٹر سائیکل تھی جوکہ پانی سے چلتی تھی
    پہلا گپی دوسری گپ چھوڑتا ہے کہ یار میرے نانا کے پاس ایسی دوربین تھی جس سے وہ چاند پر رہنے والی خلائی مخلوق کو دیکھ سکتے تھے …دوسرا گپی اس سے بھی بڑی چھوڑتے ھوئے بولا کہ یار میرے دادا کے پاس تو ایسا فون تھا  تھی جس سا وہ سورج پر رہنے والی مخلوق سے باتیں کیا کرتے تھے
    پہلا شخص تیسری گپ لگاتا ہے کہ میرے نانا کے پاس ایسی گھڑی تھی جوکہ سمندر میں گر گئی لیکن دس سال بعد  نکالی تو بھی چل رہی تھی
    دوسرا شخص نے جواباً کہا کہ یار تم گھڑی کی بات کرتے ہو ..میرے دادا تو خود سمندر میں گر گئے تھے ..دس سال بعد نکالا تو پھر بھی زندہ تھے

    اب پہلے شخص سے رہا نہیں جاتا اور وہ حیرانگی سے پوچھتا ہے…یار تمہارے دادا دس سال سمندر میں کیا کرتے رہے؟
    اس پر دوسرا شخص جواب دیتا ہے کہ ..یار وہ تمہارے نانا کی گھڑی کی کو روزانہ چابی دیا کرتے تھے

    بہرحال ..یہ تو ایک لطیفہ تھا جس کو سنانے کا مقصد یہ تھا کہ لمبی چھوڑنے کی کوئی انتہا نہیں ہوتی …لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی  جاۓ یہ کہنا بھی درست ہے کہ فوجیوں کے تلوے چاٹنے کی بھی کوئی انتہا نہیں …حکومتی جماعت پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نون لیگ کے درمیان اس وقت مقابلہ ہے کہ کون فوج کا سب سے بڑا وفادار ہے …عمران خان کا  ہر دوسرے دن یہ بیان سامنے آتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں …پہلے نواز شریف کی لندن روانگی ، مریم نواز کی خاموشی ..اور پھر شہباز شریف کی واپسی سے یہ افواہیں گرم ہیں کہ نون کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ …بقول شاعر …ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں
    اگر ایک فریق فوجی بوٹوں کو چوم رہا ہے تو دوسرا چاٹ رہا ہے …حکومتی  مس مینجمنٹ …مہنگائی اور سکینڈلز اتنے ہیں کہ اگر کوئی اور اپوزیشن ہوتی تو ایک اچھی خاصی  عوامی تحریک کے تمام لوازمات موجود تھے مگر شہباز گروپ  صرف  اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کا منتظر ہے

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #25
    فوج کا تسلط ختم کرنا ہے تو پہلے مرحلے میں عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ ختم کرنا ہو گا

    باجوے کے دور میں تو فوج کا زہر ملک کے تقریباً ہر محکمے اور ادارے میں سرایت کرچکا ہے …سپریم کورٹ کے سبق جج اعجاز چودھری کے حالیہ انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ائی ایس آئی کس طرح ہائی کورٹ کے ججوں کی نامزدگی میں دلچسپی لیتی ہے اور اپنی لسٹیں فراہم کرتی ہے ..اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہی عدلیہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ براہ راست مارشل لاء کی بجاۓ عدلیہ کے ذریعے جمہوری حکمرانوں کو کنٹرول کیا جاۓ …سوشل میڈیا میں کافی عرصے سے خبریں ہیں کہ ہائی کورٹ کے ججوں کی نامزدگی رکی ہوئی ہے کیونکہ فوج کو ججوں کی اپنی مرتب کی گئی لسٹ پر اعتراض ہے اور فوج نے عدلیہ کو پیغام دیا ہے کہ اس لسٹ کو بھول جاؤ ….ایک کمپرومائز کے طور پر عدلیہ نے ففٹی ففٹی کی تجویز فوج کو پیش کی ہے کہ آدھے جج تمہارے آدھے ہمارے

    عدلیہ کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر الیکشن کمیشن سے دھاندلی پر نا اہل ہونے کے باوجود ابھی تک ایک سال سے سپریم کورٹ کے سٹے پر کام کر رہا ہے ….فیصل واوڈا کی امریکی شہریت بر وقت نہ چھوڑنے اور بیان حلفی میں غلط بیانی پورے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے مگر سپریم کورٹ ..ہائی کورٹ یا  الیکشن کمیشن میں اتنی جرات نہیں کہ کہ کیس چلا سکے

    عاصم باجوہ تین تین پوسٹیں ہڑپ کرچکا ہے…اپنی بھاری بھرکم فوجی پنشن بھی لے رہا ہے …سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین بھی بنا ہوا ہے اور لاکھوں روپے ماہانہ وصول کر رہا ہے …اب عمران خان کا میڈیا ایڈوائزر بھی بن گیا ہے اور یہ بھی بلا ماوضہ نہیں ہوگا …لیکن سب سے بڑی  بات یہ کہ اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سال بھی مکمل نہیں کیے اور ان پرکشش پوسٹس پر اپائنٹمنٹ بھی ہو گئی …کسی ایک بھی مائی کے لعل میں اتنی سکت نہیں کہ عدلیہ میں درخواست ڈال دے کہ حضور یہ صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کا وقفہ لیے بغیر کیسے سیاسی آپوینٹمنٹ پر آ سکتے ہیں ..لیکن مسئلہ یہ ہے جس دن بھی درخواست آئی اسی دن وہ درخواست گزار  اغوا ہوجاۓ گا

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #26
    اسلام آباد (انصار عباسی) معلوم ہوا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر نے مبینہ طور پر نون لیگ کی سینئر قیادت کو وزیراعظم عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی پیشکش کی ہے۔ ایک باخبر ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ وفاقی وزیر نے حال ہی میں نون لیگ کی سینئر رہنما کی فیملی کے ایک رکن سے اس معاملے پر بات کی ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو پی ٹی آئی کے کئی ارکان قومی اسمبلی بھی اس کی حمایت کریں گے، پی ٹی آئی کے اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ پیغام نواز شریف، شہباز شریف اور خواجہ آصف تک پہنچا دیا گیا ہے۔ نون لیگ نے اب تک وفاقی وزیر کے اس ’’خیال‘‘ کا جواب نہیں دیا اور فی الحال کیلئے ’’ انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی کو ترجیح دے رہی ہے۔ اس نمائندے نے مذکورہ وزیر سے رابطہ کیا تاہم انہوں نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ انہوں نے شریف فیملی والوں کو ایسا کوئی پیغام پہنچایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ وزیر نے نون لیگ کی سینئر قیادت کے خاندان کے فرد سے رابطے کیلئے اپنا ذاتی موبائل فون استعمال کیا۔ ان کی نون لیگ کے مذکورہ شخص کے ساتھ پرانی وابستگی ہے اور بظاہر اسی تعلق کی وجہ سے ان کو نون لیگ تک یہ پیغام پہنچانے کی ترغیب ملی۔ ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ ایوان میں تبدیلی کیلئے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے 12؍ سے زائد ارکان اسمبلی تیار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے وفاقی وزیر کا پس منظر میں نون لیگ والوں کے ساتھ رابطہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کیلئے پریشانی کا باعث بنے کچھ تنازعات کے دوران ہی سامنے آیا ہے۔ ایک طرف اتحادی جماعت بی این پی مینگل نے پہلے ہی حکومت چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے تو دوسری طرف ق لیگ والوں کا سیاسی موڈ بھی پی ٹی آئی حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ایسے میں ’’مائنس ون‘‘ فارمولے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں اور اس میں بھی کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان نے خود قومی اسمبلی میں اپنے حالیہ بیان میں اس بابت بات کی۔ انہوں نے ’’مائنس ون‘‘ فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے ’’مافیائوں‘‘ اور ’’کارٹل‘‘ کیخلاف کارروائی کی بات کی۔ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے حالیہ بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں معاملات اچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹوایا اور جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہد محمود قریشی کی آپسی لڑائی کی وجہ سے پارٹی کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔ فواد چوہدری نے عمران خان حکومت کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان سے بڑی توقعات تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ عوام نے پی ٹی آئی اور عمران خان کو نٹ بولٹ کسنے کیلئے نہیں بلکہ نظام میں اصلاحات لانے کیلئے منتخب کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بڑے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت جس میں اسد عمر، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی شامل ہیں، کے درمیان آپسی لڑائی جاری ہے، لہٰذا اس صورتحال سے سیاسی خلا پیدا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب سیاسی خلا پیدا ہوگا تو اسے نئے لوگ پُر کریں گے جن کا سیاست سے تعلق نہیں ہوگا، جب آپ کی بنیادی (کور) ٹیم میں مسائل ہوں گے تو اس میں نئے لوگ آئیں گے جو خیالات سے ہم آہنگ نہیں ہوں گے اور وہ کام کر پائیں گے اور نہ ان میں صلاحیت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس آپسی لڑائی نے پارٹی کو اور بالخصوص سیاسی کلاس کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہفتے کو وزیر ریلوے شیخ رشید نے بیان دیا تھا جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ حکمران اتحاد میں معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ ممکنہ ون کی صورت میں ممکنہ طور پر مائنس تھری کی وارننگ دیتے ہوئے شیخ رشید نے پی ٹی آئی کے وزیروں کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے گندے کپڑے میڈیا کے سامنے نہ دھوئیں۔ رشید نے کہا کہ ہم آخری چوائس نہیں ہیں، کچھ وزراء وہ کام کر رہے ہیں جو اپوزیشن والے بھی نہیں کر پائے۔

    https://jang.com.pk/news/792666

    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #27
    باوا جی …کتا کنویں سے نکلنا ضروری ہے مگر یہ نیک اور بابرکت کام کون کرے گا؟ پچپن میں ایک لطیفہ سنا تھا بڑے گپ باز ایک دوسرے کو متاثر کرنے کے لیے گپیں ہانک رہے تھے …پہلا گپی یہ کہتا ہے کہ یار میرے نانا اپنی سائکل سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلا سکتے تھے ….دوسرا گپی کہنے لگا کہ میرے دادا کے پاس تو ایسی موٹر سائیکل تھی جوکہ پانی سے چلتی تھی پہلا گپی دوسری گپ چھوڑتا ہے کہ یار میرے نانا کے پاس ایسی دوربین تھی جس سے وہ چاند پر رہنے والی خلائی مخلوق کو دیکھ سکتے تھے …دوسرا گپی اس سے بھی بڑی چھوڑتے ھوئے بولا کہ یار میرے دادا کے پاس تو ایسا فون تھا تھی جس سا وہ سورج پر رہنے والی مخلوق سے باتیں کیا کرتے تھے پہلا شخص تیسری گپ لگاتا ہے کہ میرے نانا کے پاس ایسی گھڑی تھی جوکہ سمندر میں گر گئی لیکن دس سال بعد نکالی تو بھی چل رہی تھی دوسرا شخص نے جواباً کہا کہ یار تم گھڑی کی بات کرتے ہو ..میرے دادا تو خود سمندر میں گر گئے تھے ..دس سال بعد نکالا تو پھر بھی زندہ تھے اب پہلے شخص سے رہا نہیں جاتا اور وہ حیرانگی سے پوچھتا ہے…یار تمہارے دادا دس سال سمندر میں کیا کرتے رہے؟ اس پر دوسرا شخص جواب دیتا ہے کہ ..یار وہ تمہارے نانا کی گھڑی کی کو روزانہ چابی دیا کرتے تھے بہرحال ..یہ تو ایک لطیفہ تھا جس کو سنانے کا مقصد یہ تھا کہ لمبی چھوڑنے کی کوئی انتہا نہیں ہوتی …لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جاۓ یہ کہنا بھی درست ہے کہ فوجیوں کے تلوے چاٹنے کی بھی کوئی انتہا نہیں …حکومتی جماعت پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نون لیگ کے درمیان اس وقت مقابلہ ہے کہ کون فوج کا سب سے بڑا وفادار ہے …عمران خان کا ہر دوسرے دن یہ بیان سامنے آتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں …پہلے نواز شریف کی لندن روانگی ، مریم نواز کی خاموشی ..اور پھر شہباز شریف کی واپسی سے یہ افواہیں گرم ہیں کہ نون کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ …بقول شاعر …ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں اگر ایک فریق فوجی بوٹوں کو چوم رہا ہے تو دوسرا چاٹ رہا ہے …حکومتی مس مینجمنٹ …مہنگائی اور سکینڈلز اتنے ہیں کہ اگر کوئی اور اپوزیشن ہوتی تو ایک اچھی خاصی عوامی تحریک کے تمام لوازمات موجود تھے مگر شہباز گروپ صرف اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کا منتظر ہے

    قرار جی

    اصل مسئلہ واقعی وردی پوش کتوں کو سیاسی کنویں سے نکالنے کا ہی ہے

    فوج نے نواز شریف کو حکومت اور سیاست سے نکال کر عوام اور سیاست دانوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ آئین، قانون، پارلیمنٹ، عوام کے فیصلوں اور عوام کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے. اگر کسی سیاست دان نے حکومت میں آنا ہے اور حکومت میں رہنا ہے تو اسے سر جھکا کر فوج کے بوٹ چاٹنے ہونگے ورنہ ان کا انجام بھی بھٹو اور نواز شریف والا ہو سکتا ہے

    اب یہ تو سیاست دانوں اور عوام پر منحصر ہے کہ اگر انہوں نے اس وردی پوش کتوں سے ملک آزاد کروانا ہے تو وہ ہمت کریں، بنگالی بنیں، فوج سے ٹکرائیں، ان وردی پوش دہشتگرد بھیڑیوں کے ٹینک اور توپوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی جانوں کا نذرانہ اور اپنی خواتین کی عزتوں کی قربانی دیں، ان کے ساتھ پلٹن گراونڈ والی کریں اور ان کی پتلونیں اتروا کر اپنے میوزیم میں سجائیں

    کیا ہمارے سیاست دان اور عوام یہ قربانی دینے کو تیار ہیں؟

    ابھی شاید وہ مرحلہ نہیں آیا ہے لیکن فوج کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے اور عوام کے فیصلوں کی توہین کرکے کٹھ پتلی حکمران عوام پر سوار کرنے کی وجہ سے جس تیزی سے عوام میں فوج کی نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ امید ضرور ہے کہ اب وہ وقت زیادہ دور بھی نہیں ہے

    ایک زمانہ تھا جب عوام تک پہنچنے والی خبروں کے ذرائع محدود ہوا کرتے تھے. ملک میں سرکاری اشتہارات پر چلنے والے اخبارات، سرکاری ریڈیو اور سرکاری ٹی وی کی عوام کیلیے خبروں کا ذریعہ ہوتے تھے. فوج کے کرتوت نیشنل میڈیا پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے عوام سے چھپے رہتے تھے

    اب سوشل میڈیا کی ترقی کی وجہ سے کوئی بات عوام سے چھپی نہیں رہتی ہے اور فوج کے سب کرتوت عوام کے سامنے آ جاتے ہیں. جتنا زیادہ فوج کا گھٹیا کردار عوام کے سامنے آئے گا اتنی ہی زیادہ عوام میں فوج کے خلاف نفرت بڑھے گی اور اتنا ہی شدید عوام کا ردعمل سامنے آئے گا

    جب کوئی فوج عوام کی حمایت سے محروم ہو کر عوام کی نفرت کا شکار ہو جاتی ہے تو پھر فوج کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو مشرقی پاکستان میں ہو چکا ہے. تین صوبوں میں تو پہلے ہی فوج سے نفرت پائی جاتی ہے اور پنجاب میں یہ نفرت دن بدن بڑھ رہی ہے. کسی بھی وقت فوج سے نفرت کا یہ لاوا پھٹ سکتا ہے. یہ صورتحال اسوقت اور بھی خطرناک ہو سکتی ہے جب عوام پر کسی سیاست دان کا کنٹرول نہیں ہوگا

    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #28
    امریکی سپریم کورٹ نے آج الیکٹرز کی حیثیت کے بارے میں متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے جس میں الیکٹرول کالج کے نمائندگان کو ریاست کے ووٹرز کی پسند کا ہر صورت خیال رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور الیکٹرز کے دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ انہیں ریاست کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کو چننے کا آئینی حق حاصل ہے. امریکہ میں عوام براہ راست صدر اور نائب صدر کا انتخاب نہیں کرتے ہیں بلکہ انکا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے. جسٹس ایلینا کیگن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکٹرز کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہے. انہیں اسی امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہوگا جسے ریاست کی عوام نے چنا ہو. یہ فیصلہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات میں دس الیکترز لوٹے بن گئے تھے اور انہوں نے اپنے امید وار کی بجائے دوسرے امید وار کو ووٹ دیے تھے

    https://www.latimes.com/politics/story/2020-07-06/supreme-court-electoral-college-states-voters

    اس فورم کے امریکی ممبرز اس فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس فیصلے کے امریکی سیاست، جمہوریت اور نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر کیا اثرات ہونگے؟

    Shirazi

    Qarar

    SaleemRaza

    نادان

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #29
    امریکی سپریم کورٹ نے آج الیکٹرز کی حیثیت کے بارے میں متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے جس میں الیکٹرول کالج کے نمائندگان کو ریاست کے ووٹرز کی پسند کا ہر صورت خیال رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور الیکٹرز کے دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ انہیں ریاست کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کو چننے کا آئینی حق حاصل ہے. امریکہ میں عوام براہ راست صدر اور نائب صدر کا انتخاب نہیں کرتے ہیں بلکہ انکا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے. جسٹس ایلینا کیگن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکٹرز کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہے. انہیں اسی امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہوگا جسے ریاست کی عوام نے چنا ہو. یہ فیصلہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات میں دس الیکترز لوٹے بن گئے تھے اور انہوں نے اپنے امید وار کی بجائے دوسرے امید وار کو ووٹ دیے تھے https://www.latimes.com/politics/story/2020-07-06/supreme-court-electoral-college-states-voters اس فورم کے امریکی ممبرز اس فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس فیصلے کے امریکی سیاست، جمہوریت اور نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر کیا اثرات ہونگے؟ Shirazi Qarar SaleemRaza نادان

    Bawa Bhai, relevant to the subject that there has been four occasions that popular vote winner was the loser in electoral votes and each time Republicans were beneficiaries.

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #30
    Bawa Qarar BlackSheep باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے نوبت یہ آگئی ہے کہ تنکے کا سہارہ ایازامیر بھی باغبانوں کو کوسنے لگ گیا ہے ، یہ سوچ کر ہی کرب محسوس ہوتا ہے کہ کہ اگلی مرتبہ فلسفہ بوٹ چاٹی کے حق میں ارشاد بھٹی کا کالم پڑھنا پڑے گا :cry: :bigsmile: :cry:

    گھوسٹ  صاحب …اس بات پر تو ایک ٹویٹ پوسٹ کرنا ہی بنتا ہے

    :bigsmile:

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #31
    کچھ یار لوگوں کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو گئی ہے …پٹواریوں کی امید کا دیا بھی روشن

    https://twitter.com/ShafiqAhmadAdv3/status/1280388994094645248?s=20

    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #32
    Bawa Bhai, relevant to the subject that there has been four occasions that popular vote winner was the loser in electoral votes and each time Republicans were beneficiaries.

    جیو جی بھائی

    آپ کی بات درست ہے لیکن کیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے اب وہی امیدوار صدر منتخب ہوگا جسے پاپولر ووٹ زیادہ ملے ہونگے یا ابھی بھی الیکٹرز اپنی اسٹیٹ کے فیصلے کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی سے صدارتی الیکشن میں ووٹ دے سکیں گے؟

    امریکی آئین اس معاملے میں کیا کہتا ہے؟ کیا اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے آئین کو مد نظر رکھا ہے یا اپنی آئینی حدود سے نکل کر کسی بلیک لاء ڈکشنری سے مدد لے کر یہ فیصلہ کیا ہے؟

    بظاہر تو یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل دو اور بارہویں ترمیم کے مطابق لگتا ہے لیکن کیا آئین کا کوئی اور آرٹیکل الیکٹرز کو آزادانہ فیصلہ کرنے کا حق دیتا ہے؟

    مجھے نہیں سمجھ آتی ہے کہ امریکی عوام براہ راست صدر کا انتخاب کیوں نہیں کرتی ہے اور درمیان میں اس الیکٹورل کالج کو کیوں ڈال رکھا ہے جو عوام کی اکثریت کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے؟

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #33
    قرار جی اصل مسئلہ واقعی وردی پوش کتوں کو سیاسی کنویں سے نکالنے کا ہی ہے فوج نے نواز شریف کو حکومت اور سیاست سے نکال کر عوام اور سیاست دانوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ آئین، قانون، پارلیمنٹ، عوام کے فیصلوں اور عوام کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے. اگر کسی سیاست دان نے حکومت میں آنا ہے اور حکومت میں رہنا ہے تو اسے سر جھکا کر فوج کے بوٹ چاٹنے ہونگے ورنہ ان کا انجام بھی بھٹو اور نواز شریف والا ہو سکتا ہے اب یہ تو سیاست دانوں اور عوام پر منحصر ہے کہ اگر انہوں نے اس وردی پوش کتوں سے ملک آزاد کروانا ہے تو وہ ہمت کریں، بنگالی بنیں، فوج سے ٹکرائیں، ان وردی پوش دہشتگرد بھیڑیوں کے ٹینک اور توپوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی جانوں کا نذرانہ اور اپنی خواتین کی عزتوں کی قربانی دیں، ان کے ساتھ پلٹن گراونڈ والی کریں اور ان کی پتلونیں اتروا کر اپنے میوزیم میں سجائیں کیا ہمارے سیاست دان اور عوام یہ قربانی دینے کو تیار ہیں؟ ابھی شاید وہ مرحلہ نہیں آیا ہے لیکن فوج کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے اور عوام کے فیصلوں کی توہین کرکے کٹھ پتلی حکمران عوام پر سوار کرنے کی وجہ سے جس تیزی سے عوام میں فوج کی نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ امید ضرور ہے کہ اب وہ وقت زیادہ دور بھی نہیں ہے ایک زمانہ تھا جب عوام تک پہنچنے والی خبروں کے ذرائع محدود ہوا کرتے تھے. ملک میں سرکاری اشتہارات پر چلنے والے اخبارات، سرکاری ریڈیو اور سرکاری ٹی وی کی عوام کیلیے خبروں کا ذریعہ ہوتے تھے. فوج کے کرتوت نیشنل میڈیا پر کنٹرول ہونے کی وجہ سے عوام سے چھپے رہتے تھے اب سوشل میڈیا کی ترقی کی وجہ سے کوئی بات عوام سے چھپی نہیں رہتی ہے اور فوج کے سب کرتوت عوام کے سامنے آ جاتے ہیں. جتنا زیادہ فوج کا گھٹیا کردار عوام کے سامنے آئے گا اتنی ہی زیادہ عوام میں فوج کے خلاف نفرت بڑھے گی اور اتنا ہی شدید عوام کا ردعمل سامنے آئے گا جب کوئی فوج عوام کی حمایت سے محروم ہو کر عوام کی نفرت کا شکار ہو جاتی ہے تو پھر فوج کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو مشرقی پاکستان میں ہو چکا ہے. تین صوبوں میں تو پہلے ہی فوج سے نفرت پائی جاتی ہے اور پنجاب میں یہ نفرت دن بدن بڑھ رہی ہے. کسی بھی وقت فوج سے نفرت کا یہ لاوا پھٹ سکتا ہے. یہ صورتحال اسوقت اور بھی خطرناک ہو سکتی ہے جب عوام پر کسی سیاست دان کا کنٹرول نہیں ہوگا

    بهولے باوا جی …کہاں بنگالی اور کہاں  پنجابی ….یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ پاکستانی عوام فوج سے متنفر ہونا شروع ہو چکے ہیں …شاید باقی صوبوں کی حد تو تو یہ درست ہے مگر تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک پنجابی اپنی بے غیرتی نہیں چھوڑیں گے ….یہ لوگ چمگادڑوں کی طرح توہین رسالت پر عیسائیوں احمدیوں اور ہندوؤں کے گھر جلانے تو دو سیکنڈ کے نوٹس پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں مگر فوجیوں کے خلاف انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے …تو اس کے دو ہی مطلب نکالے جاسکتے ہیں …نمبر ایک ..کہ پجابیوں کی اکثریت فوج کے اقدامات کے ساتھ ہے اور انہیں کوئی بڑا مسئلہ نہیں
    نمبر دو ..پنجابی بزدل (یا سمجھدار) ہیں اور ..سرف جمہوریت کے لیے بنگالیوں کی طرح اپنی عورتوں کی عزتیں لٹانا …یا اپنے عزیزوں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھنا انہیں قبول نہیں
    اب آپ ہی فیصلہ کرلیں کہ ان دونوں میں سے اصلی وجہ کون سی ہے ..ورنہ اور کیا وجہ ہے کہ اپنے ہی مسلمان بلوچی بھائیوں کی سالوں سے ہونے والی نسل کشی پر پنجابی میڈیا موثر آواز بلند کرنے سے قاصر ہے

    آج ہی پاکستان اور مسلم دنیا سے دو اچھی اچھی خبریں ملی ہیں ..انجونے کریں

    وفاقی کابینہ نے پی آئی اے کی سربراہی اس ایئر مارشل کو تین سال کے لیے پکڑا دی ہے …حکومت سے پوچھنا بنتا ہے کہ کیا کوئی سویلین محکمہ رہ تو نہیں گیا جس کی سربراہی حاضر سروس یہ ریٹائرڈ فوجی کے پاس نہ ہو

    مصر سے ایک زبردست خبر آئی ہے کہ حاضر سروس فوجی افسران کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی ہے …یعنی اب انہیں مارشل لا لگانے کی ضرورت نہیں …پارلیمان میں بھی فوجی بیٹھا کریں گے

    BlackSheep
    Participant
    Offline
    • Professional
    #34
    مگر تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک پنجابی اپنی بے غیرتی نہیں چھوڑیں گے

    قرار صاحب۔۔۔۔۔

    کیا اِس صورتحال کو مستقبل قریب تک کیلئے کونسٹینٹ کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔

    یا دانشگردی کی فرہنگِ جمہوریہ میں یہ کم بخت لفظ لینا ابھی بھی حرام ہے۔۔۔۔۔

    :) ;-) :) ™©

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #35
    بهولے باوا جی …کہاں بنگالی اور کہاں پنجابی ….یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ پاکستانی عوام فوج سے متنفر ہونا شروع ہو چکے ہیں …شاید باقی صوبوں کی حد تو تو یہ درست ہے مگر تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک پنجابی اپنی بے غیرتی نہیں چھوڑیں گے ….یہ لوگ چمگادڑوں کی طرح توہین رسالت پر عیسائیوں احمدیوں اور ہندوؤں کے گھر جلانے تو دو سیکنڈ کے نوٹس پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں مگر فوجیوں کے خلاف انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے …تو اس کے دو ہی مطلب نکالے جاسکتے ہیں …نمبر ایک ..کہ پجابیوں کی اکثریت فوج کے اقدامات کے ساتھ ہے اور انہیں کوئی بڑا مسئلہ نہیں نمبر دو ..پنجابی بزدل (یا سمجھدار) ہیں اور ..سرف جمہوریت کے لیے بنگالیوں کی طرح اپنی عورتوں کی عزتیں لٹانا …یا اپنے عزیزوں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھنا انہیں قبول نہیں اب آپ ہی فیصلہ کرلیں کہ ان دونوں میں سے اصلی وجہ کون سی ہے ..ورنہ اور کیا وجہ ہے کہ اپنے ہی مسلمان بلوچی بھائیوں کی سالوں سے ہونے والی نسل کشی پر پنجابی میڈیا موثر آواز بلند کرنے سے قاصر ہے آج ہی پاکستان اور مسلم دنیا سے دو اچھی اچھی خبریں ملی ہیں ..انجونے کریں وفاقی کابینہ نے پی آئی اے کی سربراہی اس ایئر مارشل کو تین سال کے لیے پکڑا دی ہے …حکومت سے پوچھنا بنتا ہے کہ کیا کوئی سویلین محکمہ رہ تو نہیں گیا جس کی سربراہی حاضر سروس یہ ریٹائرڈ فوجی کے پاس نہ ہو مصر سے ایک زبردست خبر آئی ہے کہ حاضر سروس فوجی افسران کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی ہے …یعنی اب انہیں مارشل لا لگانے کی ضرورت نہیں …پارلیمان میں بھی فوجی بیٹھا کریں گے

    قرار جی

    آپ پنجابیوں کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہے ہیں

    فوج کیا چیز ہے پنجابیوں نے تو اسکندر اعظم کے پچھواڑے میں تیر گھسا کر اسے موت کے منہ میں پہنچا دیا تھا

    وہ پنجابی ہی تھے جنہوں نے دنیا فتح کرنے نکلے ہوئے اسکندر اعظم کے پچھواڑے میں تیر گھسا کر اسکا دنیا فتح کرنے کا خواب خاک میں ملا دیا تھا اور اسے دنیا فتح کرکے اپنے آبائی شہر مقدونیہ واپس جانے کے اپنے خواب آنکھوں میں موت کے منہ میں جانا پڑا تھا

    پنجابیوں کا غسایا ہوا یہ تیر لاکھ کوشش کے باوجود اسکندر اعظم اپنے پچھواڑے سے نہ نکال سکا تھا اور اس تیر کو کاٹ کر نکالنا پڑا تھا لیکن پھر بھی اسکا کچھ حصہ اسکے پچھواڑے کے اندر ہی رہا تھا جو اسے مرتے دم تک یاد دلاتا رہا تھا کہ

    پنجابیوں سے پنگا لینا اسکندر اعظم کو بھی منہگا پڑتا ہے

    :bigthumb:

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #36
    قرار صاحب۔۔۔۔۔ کیا اِس صورتحال کو مستقبل قریب تک کیلئے کونسٹینٹ کہا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔ یا دانشگردی کی فرہنگِ جمہوریہ میں یہ کم بخت لفظ لینا ابھی بھی حرام ہے۔۔۔۔۔ :) ;-) :) ™©

    بلیک شیپ صاحب …اگر آپ مستقبل قریب والی شرائط ڈال دیں تو پھر کانسٹنٹ کانسٹنٹ نہیں رہتا …کیونکہ سوچ تو تبدیل ہو رہی ہے مگر اس رفتار سے نہیں جس کی توقع ہے

    مجھے کبھی بھی الفاظ سے مسئلہ نہیں تھا …آپ کا موقف یہ ہے کہ کانسٹنٹ جس کے پاس ڈنڈا بھی ہے کو چھوڑ کر تنقید مسکینوں پر کی جاۓ …میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ کانسٹنٹ پر سب سے زیادہ تنقید ہونی چاہیے تاکہ وہ کانسٹنٹ نہ رہے

    ورنہ مذہب سب سے بڑا کانسٹنٹ ہے اس پر تو آپ خوب تبریٰ بھیجتے رہتے ہیں …بقول سہیل ورائچ یہ کھلا تضاد نہیں؟

    :)

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #37
    قرار جی آپ پنجابیوں کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہے ہیں فوج کیا چیز ہے پنجابیوں نے تو اسکندر اعظم کے پچھواڑے میں تیر گھسا کر اسے موت کے منہ میں پہنچا دیا تھا وہ پنجابی ہی تھے جنہوں نے دنیا فتح کرنے نکلے ہوئے اسکندر اعظم کے پچھواڑے میں تیر گھسا کر اسکا دنیا فتح کرنے کا خواب خاک میں ملا دیا تھا اور اسے دنیا فتح کرکے اپنے آبائی شہر مقدونیہ واپس جانے کے اپنے خواب آنکھوں میں موت کے منہ میں جانا پڑا تھا پنجابیوں کا غسایا ہوا یہ تیر لاکھ کوشش کے باوجود اسکندر اعظم اپنے پچھواڑے سے نہ نکال سکا تھا اور اس تیر کو کاٹ کر نکالنا پڑا تھا لیکن پھر بھی اسکا کچھ حصہ اسکے پچھواڑے کے اندر ہی رہا تھا جو اسے مرتے دم تک یاد دلاتا رہا تھا کہ پنجابیوں سے پنگا لینا اسکندر اعظم کو بھی منہگا پڑتا ہے :bigthumb:

    سکندر غیر تھا اور باجوہ “اپنا” ہے بات تو تب ہے کہ باجوے کے پچھواڑے میں بھی کچھ گھسایا جاۓ

    :bigsmile:

    Qarar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #38
    امریکی سپریم کورٹ نے آج الیکٹرز کی حیثیت کے بارے میں متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے جس میں الیکٹرول کالج کے نمائندگان کو ریاست کے ووٹرز کی پسند کا ہر صورت خیال رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور الیکٹرز کے دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ انہیں ریاست کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کو چننے کا آئینی حق حاصل ہے. امریکہ میں عوام براہ راست صدر اور نائب صدر کا انتخاب نہیں کرتے ہیں بلکہ انکا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے. جسٹس ایلینا کیگن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکٹرز کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہے. انہیں اسی امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہوگا جسے ریاست کی عوام نے چنا ہو. یہ فیصلہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات میں دس الیکترز لوٹے بن گئے تھے اور انہوں نے اپنے امید وار کی بجائے دوسرے امید وار کو ووٹ دیے تھے https://www.latimes.com/politics/story/2020-07-06/supreme-court-electoral-college-states-voters اس فورم کے امریکی ممبرز اس فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس فیصلے کے امریکی سیاست، جمہوریت اور نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر کیا اثرات ہونگے؟ Shirazi Qarar SaleemRaza نادان

    باوا جی اس فیصلے سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں …عام طور پر اکثریتی ووٹ لینے والا امیدوار الیکٹورل کالج میں بھی اکثریت لے لیتا ہے مگر جب مقابلہ سخت ہو تو ایسا امکان ہوتا ہے کہ زیادہ ووٹ لینے والے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل نہ کرسکے ..جیساک کہ جیسا کہ حالیہ  ایک دو الیکشنز میں ہوا ہے  ایل گور اور ہیلری کلنٹن بڑی بڑی ریاستوں میں بھری اکثریت سے جیتے ..اس طرح انہیں ووٹ تو زیادہ ملے مگر اتنی ریاستوں میں کامیابی  نہیں ملی جن کی انہیں الیکٹورل کالج میں ضرورت تھی

    امریکا میں آئین میں ترمیم کے لیے ایوان نمائندگان ..سینٹ ..کی دو تہائی اور ساتھ ساتھ پچاس ریاستوں میں سے دو تہائی ریاستوں کی ریاستی اسمبلیوں سے منظوری لازمی ہے ..جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے جبتک کہ دونوں پارٹیوں میں سو فیصد اتفاق نہ ہو …ریپبلکن پارٹی الیکٹورل کالج کی بینیفشری ہے کیونکہ بہت ساری چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں ریپبلکن پارٹی کا مکمل کنٹرول  ہے جہاں سے پچھلے سو سو سالوں میں ریپبلکن امیدوار کبھی ہارے نہیں …ان تمام چھوٹی ریاستوں کو تین تین الیکٹورل سیٹیں ملی ہوئی ہیں ..جوکہ ان کی آبادی کے حساب سے کہیں زیادہ ہیں ..آبادی کے لحاظ  سے الیکٹورل کالج بنایا جاۓ ان ریاستوں کو آدھی سیٹ بھی شاید نہ ملے …لہٰذا ریپبلکن امیدوار کو ان چھوٹی ریاستوں میں جیتنے کی وجہ سے الیکٹورل کالج میں زیادہ ووٹ مل جاتے ہیں

    جہاں تک سپریم پورٹ کے فیصلے کا تعلق ہے ..اس نے الیکٹورل کالج کے نمائندوں کو اپنی مرضی سے ووٹ سوئچ کرنے سے روک دیا ہے …یعنی اگر فرض کیا ٹرمپ ریاست فلوریڈا میں جیت جاتا ہے تو اس ریاست کے نامزد کردہ تمام کے تمام انتیس الیکٹرز (مندوبین) الیکٹورل کالج کی ووٹنگ میں ٹرمپ کو ووٹ دینے کے پابند ہیں …یہ ریاست کے نامزد کردہ پارٹی ورکرز اور عھدے داران ہی ہوتے ہیں …جن میں سے ایک دو ممبر ہر دفعہ دل پشوری کے لیے الیکٹورل کالج کی ووٹنگ کے دوران اپنا ووٹ سوئچ کرلیتے ہیں …لیکن موڈرن زمانے میں اس سے مجموعی نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتا …سپریم کورٹ نے انہیں ووٹ سوئچ کرنے سے روک دیا ہے تاکہ مستقبل میں اس سے خرابی نہ ہو

    الیکٹورل کالج پرانے زمانے کا ایک سلیکشن پراسیس ہوتا تھا ..جن میں ہر ریاست اپنی مرضی سے… ریاست کو الاٹ کردہ مندوبین کی تعداد کے مطابق اپنے لوگ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کے لیے واشنگٹن ڈی سی بھیجا کرتے تھے ..جہاں بولی لگتی تھی ..اتحاد بنتے تھے ..لیں دین ہوتا تھا ..اور پھر ووٹنگ میں جس کے بھی زیادہ مندوبین ہوتے وو صدر اور نائب صدر بن جاتا
    ابراہام لنکن ابتدا میں الیکٹورل کالج میں دوسرے نمبر پر تھا …لیکن کسی کو بھی پچاس فیصد ووٹ حاصل نہیں ھوئے ..لیں دیں کے بعد وہ صدر بن گیا …لیکن ظاہر ہے موجودہ جمہوریت   اور دو صدی پرانی جمہوریت میں فرق تھا ..پرانے زمانے میں تو نہ کالوں کو ووٹ کا حق تھا اور نہ عورتوں کو …امریکا میں موجودہ الیکٹورل کالج کے  حمایتی کوئی خاص تعداد میں نہیں مگر آئینی ترمیم نہ ہوسکنے کی وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں آسکتی

    Bawa
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #39
    سکندر غیر تھا اور باجوہ “اپنا” ہے بات تو تب ہے کہ باجوے کے پچھواڑے میں بھی کچھ گھسایا جاۓ :bigsmile:

    وہ وقت بھی ضرور آئے گا

    جب تک فوجی لٹیرے میرے وطن کو گھیرے ہیں
    اپنی جنگ رہے گی، اپنی جنگ رہے گی

    :bigthumb:

    Shirazi
    Participant
    Offline
    • Professional
    #40
    امریکی سپریم کورٹ نے آج الیکٹرز کی حیثیت کے بارے میں متفقہ طور پر فیصلہ سنایا ہے جس میں الیکٹرول کالج کے نمائندگان کو ریاست کے ووٹرز کی پسند کا ہر صورت خیال رکھنے کا پابند کیا گیا ہے اور الیکٹرز کے دعوے کو مسترد کیا گیا ہے کہ انہیں ریاست کی مرضی کے خلاف اپنی پسند کے صدارتی امیدوار کو چننے کا آئینی حق حاصل ہے. امریکہ میں عوام براہ راست صدر اور نائب صدر کا انتخاب نہیں کرتے ہیں بلکہ انکا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے. جسٹس ایلینا کیگن نے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکٹرز کی کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہے. انہیں اسی امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہوگا جسے ریاست کی عوام نے چنا ہو. یہ فیصلہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ پچھلے صدارتی انتخابات میں دس الیکترز لوٹے بن گئے تھے اور انہوں نے اپنے امید وار کی بجائے دوسرے امید وار کو ووٹ دیے تھے https://www.latimes.com/politics/story/2020-07-06/supreme-court-electoral-college-states-voters اس فورم کے امریکی ممبرز اس فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس فیصلے کے امریکی سیاست، جمہوریت اور نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر کیا اثرات ہونگے؟ Shirazi Qarar SaleemRaza نادان

    I don’t see much implications. In practice that’s how it has always been. The bigger change would be to take electoral college out altogether and decide elections on just popular vote. I know many people from NY or California or Texas who don’t vote because those are not swing states and the outcome is pretty obvious. But if popular votes were the deciding factor they would vote. The founding fathers added electoral college to give smaller states value in the process but practically that disenfranchises bigger states. Hillary Clinton and AlGore won popular vote and lost elections. I am sure this could happen in Parliamentary democracy but it’s a flaw especially in 2-party system.

Viewing 20 posts - 21 through 40 (of 91 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi