Viewing 7 posts - 1 through 7 (of 7 total)
  • Author
    Posts
  • حسن داور
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1

    محرم شروع ہوتے ہی کچھ لوگ غم کرتے ہیں، کچھ ملمع تو کچھ طعن و تشنیع کو مذہبی عقیدت سے شروع کر دیتے ہیں۔ اک طعنہ اکثر شروع ہو جاتا ہے کہ سارا سال ملحد رہنے والے اب شیعہ ہو جائیں گے یا شیعہ ملحد بھی ہو جائے تو محرم میں شیعہ ہی نکلتا ہے۔ میرے کچھ دوست خصوصا ً بھائی مبشر علی زیدی اس تنقید کا نشانہ بنائے جاتے ہیں (گو مبشر قطعا ًملحد نہیں بلکہ متشکک ہیں جو ہر سوچنے والا انسان کبھی نا کبھی لازمی ہوتا ہے اور جو نہیں ہوتا انکے لیے ہی تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میری آئتوں پہ گرتے نہ پڑو ،سوچو کیونکہ وہ اللہ جانتا ہے کہ تشکیک سے حاصل ہوا ایمان بہت خالص اور مستقل ہوتا ہے)۔ گو میں ملحد نہیں، شیعہ نہیں، مگر دوستوں کے برعکس سمجھتا ہوں کہ جناب حسین ع کا غم محسوس کرنے کے لیے فقط شیعہ یا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کے ہو کر، کسی بھی مذہب کے نہ ہو کر بھی حسینی ہو سکتے ہیں۔
    جناب حسین ع کو مذہب سے علیحدہ کر لیجیے۔ ذرا بھول جائیے کہ وہ سیدنا رسول کریم ص کے نواسے ہیں۔ انکا خروج انکی بغاوت جس حکومت کے خلاف تھی اسے بھی اسلام سے الگ کر دیجیے۔ کیا کہانی سادہ ہو جاتی ہے؟ ہر گز نہیں۔۔۔
    اک بادشاہ ہے یزید، جو تخت پہ زبردستی قابض ہوا، یا ان اصول و قوانین کے خلاف تخت نشین ہوا جن پہ سماج کا اجتماع تھا۔ سماج نے طے کیا تھا کہ انتخاب ہو گا، نامزدگی نہیں ہو گی، الیکشن ہو گا سلیکشن نہیں ہو گی۔ مگر ایک والد نے اپنے اقتدار میں اپنے کپتر کو مسلط کر دیا۔ اس پہ سماج کی بنت میں خرابی آئی۔ آئندہ کےلیے ملوکیت کا دروازہ کھلتا ہوا نظر آیا، خاندانی اقتدار کی راہ ہموار ہوتی ہوئی دکھائی دی۔ لوگوں میں اس “غیر آئینی” حرکت پہ اضطراب تھا مگر جبر کے سامنے خاموشی تھی کہ عافیت کسے مطلوب نہ تھی۔ ہاں پائے تخت سے دور بیٹھا ہوا ایک مرد خاموش نہ تھا اور صاحب اقتدار جانتا تھا کہ جب تک اس کو جھکایا نہ گیا ،میرے اقتدار کو سند نہ ملے گی۔ ایسے میں وہ ایک شخص ڈٹ جاتا ہے، اپنے انکار کے حق کی مانگ کرتا ہے، دباؤ بڑھتا ہے تو اپنے گھر سے علاقے سے اپنے زن و بچہ سمیت نکل جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے حق ِانکار کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ حسین نام کے اس مرد جری کو جھکانے کےلیے مقتدر کی فوج میدان میں اتر آتی ہے۔ ہزاروں نا سہی سینکڑوں فوجیوں کا گروہ انکا گھیراؤکر لیتا ہے، سات دن نا سہی اک دن ہی کو تپتے ہوئے صحرا میں اس کے گروہ، اسکے ساتھیوں اور زن و بچہ پہ پانی بند کر دیا جاتا ہے اور مطالبہ فقط اک، کہ ایک غاصب کی حکومت کی اطاعت کرو۔
    مجھے اس ساری داستان میں کوئی ایک موقع نہیں نظر آتا جب حسین نام کے اس مرد جری نے اقتدار مانگا ہو، بلکہ اس نے تو فقط انکار مانگا ہے۔ اور جب کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہ اپنے ساتھیوں اور گھر کے مردوں کی اک مختصر سی جماعت کے ساتھ اپنے انکار کے حق کے لیے، فریڈم آف ایکسپریشن کےلیے، فریڈم آف اپوزیشن کےلیے بغاوت کا علم بلند کرتا ہے اور جان اس نظرئیے پہ وار دیتا ہے۔۔ کہیے، کیا کہانی اب بھی سادہ ہی رہی؟
    ملحد خدا کا منکر ہو سکتا ہے مگر وہ چند اصولوں کو پیار کرتا ہے۔ حقِ انکار کا اصول، آزادی کا اصول، حکومت ِ وقت کی اپوزیشن کا اصول، جبری اطاعت سے انکار کا اصول، فریڈم آف اسمبلی اور فریڈم آف اسپیچ کا اصول۔۔اور حسین نام کا یہ مرد جری ان اصولوں کےلیے جدوجہد کی راہ پہ ایک ایسا بُت ہے جس کے سامنے عقیدت کے پھول رکھے بنا مزید سفر ممکن ہی نہیں۔ مسلمان کو تو بنا کسی اصول ہی جناب حسین ع پیارے ہیں کہ سیدنا نبی کریم ص کے دلارے ہیں، اہل بیت پہ ہونے والا ہر ستم غم دیتا ہے کہ اسکے نبی کریم ص کے اہل بیت ہیں۔ مگر ملحد کو تو حسین کسی مذہبی عقیدت کے بنا بھی عزیز ہیں کہ ان سی قربانی کی مثال کربلا سے قبل شاید ہی ہو اور بعد از کربلا ایسی بغاوت ،ایسی قربانی کی پریرنا ہمیشہ جناب حسین ع ہی رہے۔ اب آپ کو اگر دکھ ہو کہ تاریخ نے حسین ع ہی کو یہ مقام کیوں بخشا تو بھائی تاریخ تو ایسی ہی ہے، کوئی اک نام چنتی ہے اور مہربان ہو جاتی ہے، رتبہ بلند ہے جسے بھی عطا ہوا۔
    دوست غلطی یہ کرتے ہیں کہ ملحد کو ہر اصول و قانون سے ہی فارغ سمجھ لیتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ جن اصولوں پہ جناب حسین ع نے قربانی دی وہ آفاقی ہیں اور جب تک وہ اصول برقرار ہیں، انکی طلب باقی ہے، کربلا زندہ ہے، حسین ع باقی ہیں، خواہ مسلمان کے ہوں ، متشکک کے یا ملحد کے۔

    بشکریہ ……. انعام رانا

    https://www.mukaalma.com/77173/

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2

    اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ انتہا درجے کا ظلم ہوا، انہیں بھوکے پیاسے قتل کردیا گیا۔۔۔ مگر اس طرح کے، بلکہ اس سے بھی زیادہ شدت کے ظلم انسانی تاریخ میں اور آج بھی آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔۔ اگر تو حسین کے معاملے پر آہ و زاری کی وجہ ظلم ہے تو پھر یہی ظلم کیوں، باقی ظلموں پر کیوں آہ و زاری نہیں کی جاتی۔۔۔؟۔ اقتدار کی لڑائیوں اور جنگوں میں تو ویسے بھی ہمیشہ سے ظلم و زیادتی ہوتی آئی ہے، جنگوں میں کب کوئی کسی پر رحم کرتا ہے اور جنابِ حسین کے نانا نے کونسا کوئی منفرد اصول یا الگ مثال قائم کی، وہ بھی تو اسی روایت پر چلتے رہے جس پر صدیوں سے اقتدار کی ہوس کے مارے طالع آزما جنگجو چلتے آئے ہیں۔۔سیرت النبی اٹھا کر دیکھ لیں، جنگوں میں خونریزی اور بے رحمی کی مثالیں ہی ملیں گی، بنوقریظہ کے سات سو لوگوں کا قتل، بچوں اور عورتوں تک کو نہیں چھوڑا گیا، ایک ہی دن میں خون کی ندیاں بہادیں گئیں۔ غزوہ خیبر میں ایک عورت جنابِ صفیہ کے پورے خاندان کو قتل کردیا جاتا ہے، اس کے خاوند، باپ اور بھائی سمیت خاندان کے دیگر بزرگ بھی قتل کردیئے جاتے ہیں، اور اس اجڑی پُجڑی جوان بیوہ کے ساتھ اسی رات جنابِ حسین کے نانا مباشرت فرماتے ہیں۔۔ جنگوں میں تو ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے، رحمدلی تلاش کئے سے بھی نہیں ملتی۔۔ پھر اپنے لئے مخالفوں سے رحم کی اپیلیں کیوں۔۔۔؟؟۔۔

    دماغوں سے گرد جھاڑنے اور یک رخی سوچ رکھنے والوں کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کیلئے تاریخ سے ذرا سی جھلک پیشِ خدمت ہے۔

    ﮐﻨﺎﻧﮧ ﺑﻦ ﺍﻟﺮﺑﯿﺢ، ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﮐﺎ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﻮ ﻧﻀﯿﺮﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﺗﮭﺎ، ﺍُﺳﮑﻮ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﭘﻮﭼﮫ ﮔﭽﮫ ﮐﯿﻠﺌﮯﺣﻀﻮﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮯﺧﺰﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﺒﯽؑ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﮯﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ) ﺍﻟﻄﺒﺮﯼ ﮐﮯ ﺑﻘﻮﻝ ، ﻻﯾﺎ ﮔﯿﺎ ( ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﻧﮯﮐﻨﺎﻧﮧ ﮐﻮ ﺭﻭﺯ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﮏ ﮐﮭﻨﮉﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﮐﻨﺎﻧﮧ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﻧﮧ ﻣﻼﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﮐﻨﺎﻧﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ “ﮨﺎﮞ ” ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯﮐﮭﻨﮉﺭ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﻣﻼ۔ ﺟﺐﮐﻨﺎﻧﮧ ﺳﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺧﺰﺍﻧﮯﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯿﺎ۔ ﻧﺒﯽؑ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺯﺑﯿﺮ ﺑﻦ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ” ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺗﺸﺪؔﺩ ﮐﺮﻭ ﺟﺐ ﺗﮏﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﺐ ﺍُﮔﻠﻮﺍ ﻧﮧ ﻟﻮ ” ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﮐﻨﺎﻧﮧ ﮐﯽﭼﮭﺎﺗﯽ ﮐﻮ ﮔﺮﻡ ﺳﻼﺧﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﺍﻏﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻭﮦ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﻟﻤﺮﮒ ﻧﮧﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺗﻦﺳﮯ ﺟُﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ “ ۔
    ﺳﯿﺮۃ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ، ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﺳﺤﺎﻕ، ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ 515
    ﻭَﺃَﻧﺰَﻝَ ﭐﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻇَﺎﻫَﺮُﻭﻫُﻢ ﻣِّﻦْ ﺃَﻫْﻞِ ﭐﻟْﻜِﺘَﺎﺏِ ﻣِﻦ ﺻَﻴَﺎﺻِﻴﻬِﻢْ ﻭَﻗَﺬَﻑَﻓِﻲ ﻗُﻠُﻮﺑِﻬِﻢُ ﭐﻟﺮُّﻋْﺐَ ﻓَﺮِﻳﻘﺎً ﺗَﻘْﺘُﻠُﻮﻥَ ﻭَﺗَﺄْﺳِﺮُﻭﻥَ ﻓَﺮِﻳﻘﺎً ﻭَﺃَﻭْﺭَﺛَﻜُﻢْﺃَﺭْﺿَﻬُﻢْ ﻭَﺩِﻳَﺎﺭَﻫُﻢْ ﻭَﺃَﻣْﻮَﺍﻟَﻬُﻢْ ﻭَﺃَﺭْﺿﺎً ﻟَّﻢْ ﺗَﻄَﺌُﻮﻫَﺎ ﻭَﻛَﺎﻥَ ﭐﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻰٰ ﻛُﻞِّﺷَﻲْﺀٍ ﻗَﺪِﻳﺮﺍً
    ﺍﻭﺭ ﺍُﺗﺎﺭ ﻻﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺍُﻥ ﺍﮨﻞ ﺍﻟﮑﺘﺎﺏ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺎﺗﮭﺎ ﺍُﻥ ﮐﺎ، ﺍﻭﺭ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﻋﺐ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﻮ ﺗُﻢ ﻧﮯﻗﺘﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺗُﻢ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﻮ،ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﮟ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭﺍُﻧﮑﮯ ﻣﺎﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺎ ﺟﺴﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﻣﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗُﻢ ﻧﮯﺍﻭﺭ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ
    ﺳﻮﺭۃ ﺍﺣﺰﺍﺏ، ﺁﮨﺖ ﻧﻤﺒﺮ 26۔ 27۔ “

    ﺩﯾﺤﯿﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ،ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﻣﺠﮭﮯ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮐﯽﺟﺎﺋﮯ، ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺟﻮ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺻﻔﯿﮧﺑﻨﺖ ﺣﯿﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ، ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﮨﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺩﯾﺤﯿﮧ ﮐﻮ ﺻﻔﯿﮧ ﺩﮮ ﺩﯼ ﮨﮯ۔ﻭﮦ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺑﻨﻮ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﻮﻧﻀﯿﺮ ﮐﯽ ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﺭﺋﯿﺴﮧ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺣﻘﺪﺍﺭﮨﮯ۔ ﺗﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺻﻔﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺤﯿﮧ، ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﮩﺎﮞﻻﺅ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝ ﺑﻦ ﺭﺍﺑﺢ )ﻣﻮﺫّﻥ ( ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ،ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﯾﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟﻣﺎﺭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺗﮭﭙﮍ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ، ﺍﺱ ﻧﮯﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﻣﭩﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﻟﯽ، ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯﺍُﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻏﺼﮧ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ “ﺍﺱ ﭼﮍﯾﻞ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﺮ ﺩﻭ ” ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻟﮍﮐﯽ( ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ) ﺻﺪﻣﮯ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﮔﻢ ﺻﻢ ﺗﮭﯽ ﺣﻀﺮﺕﺻﻔﯿﮧ ﮐﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﭘﺮﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯼ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﮐﻮﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺩﯾﺤﯿﮧ ﺳﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﮯ۔ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽؑ ﮐﺮﯾﻢﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝ ﮐﻮ ﺳﺮﺯﻧﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ” ﺗُﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﻧﮩﯿﮟﺍﻧﮑﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯﮨﻮ،ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺫﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﺗﺮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ” ۔ ”
    ﺍﺯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻃﺒﺮﯼ ﻭ ﺍﺑﻦ ﺍﺳﺤﺎﻕ
    ۔ “ ﺍُﺱ ﺭﺍﺕ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺍُﻡ ﺳﻠﯿﻢ ﻧﮯﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﮐﻮ ﺳﻨﻮﺍﺭﺍ، ﻭﮦ ﺭﺍﺕ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﮯ ﺧﯿﻤﮯﻣﯿﮟ ﺑﺴﺮ ﮐﯽ۔ “ﺍﺑﻮ ﺍﯾﻮﺏ، ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﺯﯾﺪ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟﺗﻠﻮﺍﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺢ ﺗﮏ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﮯ ﺧﯿﻤﮯ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﭼﮑﺮﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮩﺮﮦ ﺩﯾﺎ۔ ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﺟﺎﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽﻭﺟﮧ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺳﻼﻣﺘﯽﮐﺎ ﮈﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ، ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﺰﯾﺰ ﻭﺍﻗﺎﺭﺏ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻝﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﺗﮭﺎ، ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﯽﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﺍﺑﻮ ﺍﯾﻮﺏ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ،ﺍُﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻓﺮﻣﺎ ” ۔
    ﺳﯿﺮۃ ﺍﻟﻨﺒﻮﯾﮧ۔ ﺍﺑﻦ ﮨﺸﺎﻡ ﺻﻔﺤﮧ 766۔ “

    ۔ ” ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﮨﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﺣﺠﺎﺯ ﺳﮯﺗﻤﺎﻡ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻼ ﻭﻃﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎؕ ﺟﺐ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺧﯿﺒﺮﻓﺘﺢ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﯿﺒﺮ ﺳﮯﺟﻼﻭﻃﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻨﺖ ﺳﻤﺎﺟﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﯾﻨﮯ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽﮐﻤﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺁﺩﮬﺎ ﺣﺼﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ،ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﻢﺗﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮨﻢﭼﺎﮨﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﻭﮦ )ﯾﮩﻮﺩﯼ ( ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﺗﺎ ﺁﻧﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻴﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺃﺭﻳﺤﺎ )ﺷﺎﻡ ( ﺟﻼﻭﻃﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ” ۔
    ﺻﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ، ﺟﻠﺪ 3 ، ﮐﺘﺎﺏ 39 ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ 531
    ۔ ” ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮؓ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺮﯾﻢؐ ﻧﮯﺧﯿﺒﺮ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮﺳﭙﺮﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺮﭼﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝؐ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﻭﺍﺭ ﮐﺎ ﺁﺩﮬﺎ ﺣﺼﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ” ۔
    ﺳﻨﻦ ﻧﺴﺎﺋﯽ،ﺟﻠﺪ ﺳﻮﻡ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ۔ 3965

    اس ہلکی سی جھلک سے صرف تصویر کا دوسرا رخ دکھانا مقصود تھا کہ جنگوں اور لڑائیوں میں ہمیشہ ظلم و زیادتی ہی ہوتا آیا ہے اور اس معاملے میں کوئی بھی کسی پر رحم نہیں کرتا۔۔ ہمارے لوگوں کو دوسروں کا ظلم تو نظر آجاتا ہے پر اپنوں کا دوسروں پر کیا گیا ظلم نظر نہیں آتا۔۔۔۔ 

    • This reply was modified 54 years, 3 months ago by .
    Jack Sparrow
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3
    bluesheep
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #4

    اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ انتہا درجے کا ظلم ہوا، انہیں بھوکے پیاسے قتل کردیا گیا۔۔۔ مگر اس طرح کے، بلکہ اس سے بھی زیادہ شدت کے ظلم انسانی تاریخ میں اور آج بھی آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔۔ اگر تو حسین کے معاملے پر آہ و زاری کی وجہ ظلم ہے تو پھر یہی ظلم کیوں، باقی ظلموں پر کیوں آہ و زاری نہیں کی جاتی۔۔۔؟۔ اقتدار کی لڑائیوں اور جنگوں میں تو ویسے بھی ہمیشہ سے ظلم و زیادتی ہوتی آئی ہے، جنگوں میں کب کوئی کسی پر رحم کرتا ہے اور جنابِ حسین کے نانا نے کونسا کوئی منفرد اصول یا الگ مثال قائم کی، وہ بھی تو اسی روایت پر چلتے رہے جس پر صدیوں سے اقتدار کی ہوس کے مارے طالع آزما جنگجو چلتے آئے ہیں۔۔سیرت النبی اٹھا کر دیکھ لیں، جنگوں میں خونریزی اور بے رحمی کی مثالیں ہی ملیں گی، بنوقریظہ کے سات سو لوگوں کا قتل، بچوں اور عورتوں تک کو نہیں چھوڑا گیا، ایک ہی دن میں خون کی ندیاں بہادیں گئیں۔ غزوہ خیبر میں ایک عورت جنابِ صفیہ کے پورے خاندان کو قتل کردیا جاتا ہے، اس کے خاوند، باپ اور بھائی سمیت خاندان کے دیگر بزرگ بھی قتل کردیئے جاتے ہیں، اور اس اجڑی پُجڑی جوان بیوہ کے ساتھ اسی رات جنابِ حسین کے نانا مباشرت فرماتے ہیں۔۔ جنگوں میں تو ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے، رحمدلی تلاش کئے سے بھی نہیں ملتی۔۔ پھر اپنے لئے مخالفوں سے رحم کی اپیلیں کیوں۔۔۔؟؟۔۔

    دماغوں سے گرد جھاڑنے اور یک رخی سوچ رکھنے والوں کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کیلئے تاریخ سے ذرا سی جھلک پیشِ خدمت ہے۔

    ﮐﻨﺎﻧﮧ ﺑﻦ ﺍﻟﺮﺑﯿﺢ، ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﮐﺎ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﻮ ﻧﻀﯿﺮﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﺗﮭﺎ، ﺍُﺳﮑﻮ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﭘﻮﭼﮫ ﮔﭽﮫ ﮐﯿﻠﺌﮯﺣﻀﻮﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮯﺧﺰﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﺒﯽؑ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﮯﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ) ﺍﻟﻄﺒﺮﯼ ﮐﮯ ﺑﻘﻮﻝ ، ﻻﯾﺎ ﮔﯿﺎ ( ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﻧﮯﮐﻨﺎﻧﮧ ﮐﻮ ﺭﻭﺯ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﮏ ﮐﮭﻨﮉﺭ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﮐﻨﺎﻧﮧ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﻧﮧ ﻣﻼﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﮐﻨﺎﻧﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ “ﮨﺎﮞ ” ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯﮐﮭﻨﮉﺭ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﻣﻼ۔ ﺟﺐﮐﻨﺎﻧﮧ ﺳﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺧﺰﺍﻧﮯﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯿﺎ۔ ﻧﺒﯽؑ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﺯﺑﯿﺮ ﺑﻦ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ” ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺗﺸﺪؔﺩ ﮐﺮﻭ ﺟﺐ ﺗﮏﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﺐ ﺍُﮔﻠﻮﺍ ﻧﮧ ﻟﻮ ” ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﮐﻨﺎﻧﮧ ﮐﯽﭼﮭﺎﺗﯽ ﮐﻮ ﮔﺮﻡ ﺳﻼﺧﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﺍﻏﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ ﻭﮦ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﻟﻤﺮﮒ ﻧﮧﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺗﻦﺳﮯ ﺟُﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ “ ۔ ﺳﯿﺮۃ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ، ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﺳﺤﺎﻕ، ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ 515 ﻭَﺃَﻧﺰَﻝَ ﭐﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻇَﺎﻫَﺮُﻭﻫُﻢ ﻣِّﻦْ ﺃَﻫْﻞِ ﭐﻟْﻜِﺘَﺎﺏِ ﻣِﻦ ﺻَﻴَﺎﺻِﻴﻬِﻢْ ﻭَﻗَﺬَﻑَﻓِﻲ ﻗُﻠُﻮﺑِﻬِﻢُ ﭐﻟﺮُّﻋْﺐَ ﻓَﺮِﻳﻘﺎً ﺗَﻘْﺘُﻠُﻮﻥَ ﻭَﺗَﺄْﺳِﺮُﻭﻥَ ﻓَﺮِﻳﻘﺎً ﻭَﺃَﻭْﺭَﺛَﻜُﻢْﺃَﺭْﺿَﻬُﻢْ ﻭَﺩِﻳَﺎﺭَﻫُﻢْ ﻭَﺃَﻣْﻮَﺍﻟَﻬُﻢْ ﻭَﺃَﺭْﺿﺎً ﻟَّﻢْ ﺗَﻄَﺌُﻮﻫَﺎ ﻭَﻛَﺎﻥَ ﭐﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻰٰ ﻛُﻞِّﺷَﻲْﺀٍ ﻗَﺪِﻳﺮﺍً ﺍﻭﺭ ﺍُﺗﺎﺭ ﻻﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺍُﻥ ﺍﮨﻞ ﺍﻟﮑﺘﺎﺏ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺎﺗﮭﺎ ﺍُﻥ ﮐﺎ، ﺍﻭﺭ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﻋﺐ ﮐﮧ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﻮ ﺗُﻢ ﻧﮯﻗﺘﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺗُﻢ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﻮ،ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﮟ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭﺍُﻧﮑﮯ ﻣﺎﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺎ ﺟﺴﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﻣﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗُﻢ ﻧﮯﺍﻭﺭ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﺳﻮﺭۃ ﺍﺣﺰﺍﺏ، ﺁﮨﺖ ﻧﻤﺒﺮ 26۔ 27۔ “

    ﺩﯾﺤﯿﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ،ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﻣﺠﮭﮯ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮐﯽﺟﺎﺋﮯ، ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺟﻮ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺻﻔﯿﮧﺑﻨﺖ ﺣﯿﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ، ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﮨﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺩﯾﺤﯿﮧ ﮐﻮ ﺻﻔﯿﮧ ﺩﮮ ﺩﯼ ﮨﮯ۔ﻭﮦ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺑﻨﻮ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﻮﻧﻀﯿﺮ ﮐﯽ ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﺭﺋﯿﺴﮧ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺣﻘﺪﺍﺭﮨﮯ۔ ﺗﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺻﻔﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺤﯿﮧ، ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﮩﺎﮞﻻﺅ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝ ﺑﻦ ﺭﺍﺑﺢ )ﻣﻮﺫّﻥ ( ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ،ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﯾﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟﻣﺎﺭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﺗﮭﭙﮍ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ، ﺍﺱ ﻧﮯﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﻣﭩﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﻟﯽ، ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯﺍُﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻏﺼﮧ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ “ﺍﺱ ﭼﮍﯾﻞ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﺮ ﺩﻭ ” ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻟﮍﮐﯽ( ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ) ﺻﺪﻣﮯ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﮔﻢ ﺻﻢ ﺗﮭﯽ ﺣﻀﺮﺕﺻﻔﯿﮧ ﮐﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﭘﺮﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯼ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﮐﻮﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺩﯾﺤﯿﮧ ﺳﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﮯ۔ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽؑ ﮐﺮﯾﻢﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻼﻝ ﮐﻮ ﺳﺮﺯﻧﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ” ﺗُﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﻧﮩﯿﮟﺍﻧﮑﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯﮨﻮ،ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺫﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﺗﺮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ” ۔ ” ﺍﺯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻃﺒﺮﯼ ﻭ ﺍﺑﻦ ﺍﺳﺤﺎﻕ ۔ “ ﺍُﺱ ﺭﺍﺕ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺍُﻡ ﺳﻠﯿﻢ ﻧﮯﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﮐﻮ ﺳﻨﻮﺍﺭﺍ، ﻭﮦ ﺭﺍﺕ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﮯ ﺧﯿﻤﮯﻣﯿﮟ ﺑﺴﺮ ﮐﯽ۔ “ﺍﺑﻮ ﺍﯾﻮﺏ، ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﺯﯾﺪ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟﺗﻠﻮﺍﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺻﺒﺢ ﺗﮏ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﮯ ﺧﯿﻤﮯ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﭼﮑﺮﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮩﺮﮦ ﺩﯾﺎ۔ ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﺟﺎﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽﻭﺟﮧ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺳﻼﻣﺘﯽﮐﺎ ﮈﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ، ﺧﺎﻭﻧﺪ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﺰﯾﺰ ﻭﺍﻗﺎﺭﺏ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻝﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﺗﮭﺎ، ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﯽﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﺍﺑﻮ ﺍﯾﻮﺏ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ،ﺍُﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻓﺮﻣﺎ ” ۔ ﺳﯿﺮۃ ﺍﻟﻨﺒﻮﯾﮧ۔ ﺍﺑﻦ ﮨﺸﺎﻡ ﺻﻔﺤﮧ 766۔ “

    ۔ ” ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﮨﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﺣﺠﺎﺯ ﺳﮯﺗﻤﺎﻡ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻼ ﻭﻃﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎؕ ﺟﺐ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺧﯿﺒﺮﻓﺘﺢ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﯿﺒﺮ ﺳﮯﺟﻼﻭﻃﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻨﺖ ﺳﻤﺎﺟﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﯾﻨﮯ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽﮐﻤﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺁﺩﮬﺎ ﺣﺼﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ،ﺣﻀﻮﺭ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﻢﺗﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮨﻢﭼﺎﮨﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﻭﮦ )ﯾﮩﻮﺩﯼ ( ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﺗﺎ ﺁﻧﮑﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻴﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺃﺭﻳﺤﺎ )ﺷﺎﻡ ( ﺟﻼﻭﻃﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ” ۔ ﺻﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ، ﺟﻠﺪ 3 ، ﮐﺘﺎﺏ 39 ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ 531 ۔ ” ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮؓ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺮﯾﻢؐ ﻧﮯﺧﯿﺒﺮ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮﺳﭙﺮﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺮﭼﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝؐ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﻭﺍﺭ ﮐﺎ ﺁﺩﮬﺎ ﺣﺼﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ” ۔ ﺳﻨﻦ ﻧﺴﺎﺋﯽ،ﺟﻠﺪ ﺳﻮﻡ، ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ۔ 3965

    اس ہلکی سی جھلک سے صرف تصویر کا دوسرا رخ دکھانا مقصود تھا کہ جنگوں اور لڑائیوں میں ہمیشہ ظلم و زیادتی ہی ہوتا آیا ہے اور اس معاملے میں کوئی بھی کسی پر رحم نہیں کرتا۔۔ ہمارے لوگوں کو دوسروں کا ظلم تو نظر آجاتا ہے پر اپنوں کا دوسروں پر کیا گیا ظلم نظر نہیں آتا۔۔۔۔

    :angry_smile: :angry_smile:

    بےشرم انسان، الله تمہیں جنہم میں سب سے نچلے درجے کی آگ میں گھنٹوں جلائے، جنت کے باسیوں کی گرل پارٹی میں تمہیں جلانے والی لکڑی کے طور پر پیش کرے، تیرا ککھ نہ رے، ملحد کہیں کا، اسلامی قتل عام جائز ہوتا ہے، یہ تو بچے بچے کو پتا ہوتا ہے، آخر کسی نے تو گندگی کی صفائی کرنی ہے نہ ؟ جیسے کراچی میں پی ٹی آئ کر رہی ہے، ویسے ہی الله نے اس وقت کی گندگی کی صفائی کا ٹھیکہ عالی مرتبت کو دے دیا تھا.

    اب اگر تم کو برا لگے کے ملحدین، کفار، مشرکین کو گندگی کس کیلیے کہہ رہا ہوں تو بھائی قرآن میں آیا ہے کے مکے میں ان سب کا داخلہ انکی گندگی کی وجہ سے نہ منظور ہے، دیکھا کیسا پکا ثبوت ہے.

    Amir Ali
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #5

    یہ سمجھ نہیں آتی کے کسی پر ظلم ہوا ہے تو اس کو بنیاد بنا کر کچھ لوگ اپنے آپ کو چپیڑیں وغیرہ کیوں مارتے ہیں۔

    خلفائے راشدین کو شہید کیا گیا، تو کیا حسن یا حسین نے یہ روایت قائم کی؟

    روایت تو پھر قائم یہ کی گئی کے ظالم کے خلاف لڑو، جان کی قربانی دو، اپنی بھی اور خاندان کی بھی، تو اگر مومن بھائی اتنے ہیں مومن ہیں تو انہیں اس روایت کو برقرار رکھنا ہو گا۔ 

    Shirazi
    Participant
    Offline
    • Professional
    #6
    Bhuttos and Sharifs are criticized for inheritance in politics but Ali, Hassan, Hussain, Ayesha aren’t. Hussain even didn’t have numbers on his side. If Yazid was son of 5th Hussain was son of 4th caliph. It was pure and simple political battle between two golden boys, it’s baffling how religion was dragged into this. Zinda Rood is right Hussain reaped what his grand pa sowed.
    Athar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #7
    جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو حضرت وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے پسند فرمایا۔ کیونکہ وہ تمام اسیران جنگ میں ذی وقعت تھیں اسلئے بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’ یارسول اللہ! صفیہ بنی قریظہ اور بنو نضیر کی رئیسہ پے، خاندانی وقار اسکے بشرے سے عیاں ہے، وہ ہمارے سردار (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کیلئے موزوں ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ قبول فرما لیا۔ وحیہ بن کلبی رضی اللہ عنہ کو دوسری لونڈی عطا فرما کر حضرت صفیہ کو آزاد کردیا اور انہیں یہ اختیار دیا کہ وہ چاہے اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آجائیں۔ حضرت صفیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنا پسند کیا

    http://www.urdumajlis.net/threads/14750/

    سیدہ صفیہ کو اختیار:
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ قبول فرما لیا۔اور وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو دوسری لونڈی عطا فرما کر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کردیا اور یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے گھر چلی جائیں اور اگر چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آجائیں۔
    قبول اسلام:
    اسی موقع پر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے اسلام کو دل و جان سے قبول کر لیا اور اہل ایمان کی صف میں شامل ہو گئیں۔ابراهيم بن جعفر اپنے والد سے روایت كرتے ہیں، وہ كہتے ہیں: جب صفیہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے كہا:” تمہارے والد برابر میرے سخت ترین یہودی دشمنوں میں سے رہے، یہاں تك كہ اللہ نے انہیں ہلاک كردیا۔“
    پھر اللہ كےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا:” فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے، اگر تم اسلام قبول كرلو تو میں تمہیں اپنے پاس ہی روک لوں گا، اور اگر تم یہودیت پر برقرار رہنا چاہو، تو ایسا ہے كہ میں تمہیں آزاد كیے دیتا ہوں، تم اپنی قوم كے پاس چلی جاؤ۔“
    عرض كی کہ اے اللہ کے رسول! میں تو آپ کے دعوت دینےسے پہلے ہی سے اسلام کی مشتاق تھی اور دل سے آپ کی تصدیق کرچکی تھی۔ جب میں یہاں آئی ہوں تب بھی مجھے یہودیت میں کوئی رغبت نہیں تھی اور اب تو نہ ان میں کوئی میرا باپ ہے نہ بھائی۔ آپ نے مجھے کفر واسلام کے درمیان اختیار دیا ہے تو میرا فیصلہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول مجھے آزادی اور اپنی قوم میں لَوٹنے سے زیادہ عزیز ہیں۔

    http://library.ahnafmedia.com/223-books/ummahat-ul-momineen/2001-hazrat-safiyah-razi-allah-hanha

    ازدواجی زندگی
    ان کی پہلی شادی مشکم القرظی سے ہوئی۔ اس سے طلاق کے بعد کنانہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں آئیں جو جنگ خیبر میں قتل ہوا۔ حضرت صفیہ جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آزاد کر کے نکاح کیا۔

    https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D9%81%DB%8C%DB%81_%D8%A8%D9%86%D8%AA_%D8%AD%DB%8C%DB%8C_%D8%A8%D9%86_%D8%A7%D8%AE%D8%B7%D8%A8

Viewing 7 posts - 1 through 7 (of 7 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi