Viewing 5 posts - 1 through 5 (of 5 total)
  • Author
    Posts
  • Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #1
    multan

    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    Awan
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Professional
    #2
    شاہد بھاہی اپنا ملتان کا تجزیہ یہاں پیش کر دیں بھد میں ڈسٹرکٹ وائز تھریڈ میں منتقل کر دیں گے -شکریہ

    shahidabassi

    Abdul jabbar
    Participant
    Offline
    • Advanced
    #3
    Host
    Moderator
    Offline
      #4

      Thread has been shifted to Election 2018/ Punjab section.

      Awan
      Participant
      Offline
      Thread Starter
      • Professional
      #5
      معاملات ٹھیک کرنے کا آخری دن

      Khalid Masood Khan -Dunya News

      ملتان کی چھ قومی نشستوں سے پی ٹی آئی چار نشستیں جیت سکتی تھی لیکن اب زیادہ سے زیادہ دو سمجھیں۔ اور یہ سب کچھ صرف ایک شخص کی ہٹ دھرمی اور سازشوں کی وجہ سے ہو گا اور اس شخص کا نام شاہ محمود حسین قریشی ہے۔
      میں نے قریب ایک ماہ پہلے ایک کالم لکھا تھا اور اس میں یہ بات بھی لکھی تھی کہ پارٹی میں ورکر سے لیکر لیڈر تک‘ سب شاہ محمود قریشی کے خلاف ہیں اور وہ اس مخالفت میں یکسو بھی ہیں اور اکٹھے بھی۔ یوں سمجھیں کہ اس مسئلے پر قائدین اور ورکروں میں اجماع پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ میں بھی بلا وجہ شاہ محمود سے دلی کد رکھتا ہوں حالانکہ اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ میرا اس سے نہ کوئی سیاسی جھگڑا ہے اور نہ غیر سیاسی چپقلش۔ بس اس کی شخصیت میں کوئی ایسی چیز ضرور ہے جو اس کے بارے میں مثبت تاثر پیدا نہیں ہونے دیتی اور صرف مجھ پر ہی کیا موقوف؟ ملتان کا کوئی کالم لکھنے والا ایسا نہیں جو انیس بیس کے فرق سے میرے جیسے ہی جذبات نہ رکھتا ہو۔ حتیٰ کہ آپ کسی نہایت صلح جو اور مرنجاں مرنج قسم کے کالم نویس سے بھی پوچھیں تو وہ آپ کو رازدار نہ انداز میں کم سے کم یہ جملہ ضرور کہے گا”شاہ محمود قریشی صاحب ٹھیک آدمی نہیں ہیں‘‘
      میں نے اس دوران یعنی گزشتہ کالم کے بعد ایک بار پھر پی ٹی آئی کے ملتان کے ورکروں اور عہدیداروں سے پوچھا کہ آخر وہ دل کے اندر سے شاہ محمود قریشی کے خلاف کیوں ہیں؟ تقریباً سب کا جواب یہی تھا کہ ہمہ وقت منافقت کرتے ہیں اور پارٹی کی بہتری کے بجائے ذاتی حوالے سے خود کو پارٹی میں نمایاں اور مضبوط کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ چند لوگوں نے تو یہاں تک کہا کہ وہ پی ٹی آئی کو ہائی جیک کرنے کے چکر میں ہیں اور عمران خان کو بے لچک اور خود کو معتدل رہنما کے طور پر پیش کر کے مقتدر حلقوں کو یہ پیغام دینے میں لگے رہتے ہیںکہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے لیے وہ موزوں ترین شخص ہیں۔
      ملتان کے چار حلقوں میں نوے پچانوے فیصد اس کا ہی عمل دخل تھا اور یہاں اس نے وہ ”کھچوڑی‘‘ ماری ہے کہ رہے نام اللہ کا۔ حلقہ این اے 154 سے حلقہ این اے 157 تک شاہ محمود نے صرف اور صرف اپنی گیم کھیلی ہے اور اس کے ساتھ عامر ڈوگر بھی اس گیم کا پورا حصہ تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملتان کی تنظیم ہر روز شاہ محمود قریشی کے گھر کے باہر دھرنا دے رہی ہے۔ کبھی خواتین اور کبھی مرد حضرات۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے لیے پچھلے بارہ سال سے دھکے کھانے اور پیسہ خرچ کرنے والا ضلعی صدر اعجاز جنجوعہ بھی شاہ محمود قریشی کے گھر کے باہر دھرنا دینے اور نعرے مارنے والوں میں شامل تھا۔ اعجاز جنجوعہ وہ شخص ہے جو شاہ محمود قریشی گروپ سے وابستہ سمجھا جاتا تھا اور ایک بار خود اس نے مجھے اپنے منہ سے بتایا کہ وہ صرف شاہ محمود قریشی گروپ سے ہی متعلق نہیں ہے بلکہ وہ شاہ محمود قریشی کے اتنا قریب ہے کہ اسے آپ شاہ محمود کے گھر کا فرد سمجھ سکتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے آخر کار اپنے اس قریبی ساتھی، تنظیمی حوالوں سے نہایت انتھک ورکر اور مخلص کارکن کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور وعدے و عید کرنے اور لارے لگانے کے بعد صوبائی حلقہ پی پی 216 کا ٹکٹ ندیم قریشی کو دے دیا جو بقول پی ٹی آئی ورکرز کے ملتان میں پارٹی میں دھڑے بندی کروانے والوں میں سرفہرست تھا اور پارٹی کے مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کی پہلی صف میں تھا۔ لیکن شاہ محمود اور عامر ڈوگر کی آشیر باد کے طفیل ٹکٹ مارنے میں کامیاب ہو گیا اور اب اس سیٹ پر پی ٹی آئی کا اللہ حافظ ہے۔
      حلقہ این اے 154 پر بڑا ہنگامہ رہا۔ بنی گالہ کا محاصرہ ہوا اور ٹکٹ بالآخر احمد حسین ڈیہڑکو مل گیا۔ احمد حسین ڈیہڑ کو شاہ محمود قریشی کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی اور اس گھیرائو کے پیچھے منصوبہ بندی بھی اس کے ساتھ ساتھ اس حلقے کے نیچے صوبائی اسمبلی کے اڑھائی حلقے ہیں۔ پی پی 211 اور 212 پورے پورے اور 213 کی تین یونین کونسلیں اور پورا کنٹونمنٹ ۔پی پی 213 پر تو شاہ محمود کی پوری کوشش اور مخالفت کے باوجود وسیم خان بادوزئی کو ٹکٹ مل گیا لیکن پی پی 211 اور 212 پر شاہ محمود قریشی نے غیر متعلق اور غیر معروف لوگوں کو ٹکٹ دلوایا۔ حلقہ پی پی 211 سے خالد جاوید وڑائچ کو ٹکٹ دلوایا جو اس حلقہ کا رہائشی ہے اور نہ ہی اس کا ماضی میں اس حلقے میں کوئی عمل دخل رہا ہے۔ پرائیویٹ سکول کے مالک کی واحد خوبی یہ ہے کہ اس نے گزشتہ الیکشن میں شاہ محمود قریشی پر کافی خرچہ کیا تھا۔ سو کسی اور حلقے کے رہائشی کو اٹھا کر کسی اور حلقے سے ٹکٹ دلوا دیا۔ اس پر وہاں کے مقامی کارکنوں میں جو بے دلی پھیلی اور قیادت بارے جو جذبات ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ الیکشن میں این اے 154 (سابقہ این اے 151) سے پی ٹی آئی کا چالیس ہزار ووٹ لینے والا امیدوار سلمان قریشی کل مسلم لیگ ن میں شامل ہو گیا اور اب وہ مسلم لیگ کی طرف سے این اے 154 پر امیدوار ہے۔
      یہی حال پی پی 212 پر ہے جہاں سے گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار طاہر کھوکھر کو نظر انداز کر کے سلیم لابر جیسے غیر مقبول آدمی کو ٹکٹ دے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مونی شاہ اور کھوکھر برادری اس ٹکٹ کے خلاف یکجا ہو گئے اور آزاد پینل بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایسا شاید ممکن نہ ہو سکے مگر وہ پی ٹی آئی کے امیدوار کے لیے نہ تو گھر سے نکلیں گے اور نہ ہی اپنے زیر اثر لوگوں کو ایسا کرنے دیں گے۔ یہاں سے پیپلز پارٹی کے سید ناظم شاہ مضبوط امیدوار ہیں۔ این اے 154 پر احمد حسین ڈیہڑ کے سوتیلے بھائی عاصم ڈیہڑ پی ٹی آئی کے رہنما کیپٹن ناصر مہے، اسحاق بُچہ اور دیگر درجنوں لوگ احمد حسین ڈیہڑ کو ٹکٹ ملنے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ احمد حسین ڈیہڑ کو ٹکٹ دیتے وقت یہ کہا گیا کہ اگر سکندر بوسن کو ٹکٹ ملا تو پی ٹی آئی میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ سکندر بوسن نے کم از کم یہ سیٹ پی ٹی آئی کے لیے نکال لینی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پارٹی میں پھوٹ بھی پڑ چکی ہے اور اس سیٹ سے الیکشن بھی ہار جائیں گے۔ غیب کا علم تو خدا کو ہے لیکن بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ اب اس سیٹ پر مقابلہ سکندر بوسن اور عبدالقادر جیلانی میں ہو گا۔
      خود شاہ محمود کے اپنے حلقے این اے 156 پر یہ حال ہے کہ ساری انصاری برادری قومی اسمبلی پر مسلم لیگ کے امیدوار عامر سعید انصاری کو اور صوبائی حلقے پی پی 215 میں پی ٹی آئی کے امیدوار جاوید اختر انصاری کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیے بیٹھی ہے۔ پی پی 217 پر خود شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہے اور اس کے قریبی ساتھی از قسم رانا جبار وغیرہ ہر طرف یہی مشہور کر رہے ہیں کہ پنجاب کا اگلا وزیراعلیٰ شاہ محمود قریشی ہے۔ اس حلقے میں شاہ محمود قریشی کا فنانسر سلمان نعیم نمکو والا آزاد الیکشن لڑ رہا ہے۔ شنید ہے سلیم لابر کے لیے ڈاکٹر اختر ملک سفارشی تھا‘ جو شاہ محمود قریشی گروپ کا ہے‘ اور ندیم قریشی کے لیے ملک عامر ڈوگر سفارشی تھا۔ ملک عامر ڈوگر ضمنی انتخابات میں حلقہ 155 سے جاوید ہاشمی کو ہرا کر ممبر قومی اسمبلی بنا تھا۔ عالم یہ ہے کہ اس نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا ذاتی وفادار‘ آزاد گروپ کھڑا کیا۔ ہر جگہ اس کے آزاد امیدواروں نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے مقابلے میں الیکشن لڑا۔ اکثر جیت گئے اور ان میں سے بھی اکثر یونین کونسل چیئر مینوں نے مسلم لیگ ن کے میئر کے امیدوار کو ووٹ دیئے۔ اس کے باوجود اس کا بھائی میونسپل کارپوریشن ملتان کا اپوزیشن لیڈر بھی ہے۔
      ملتان میں پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھیرنے میں جو کام ٹکٹوں کی غلط تقسیم نے کیا ہے۔ اس کا نتیجہ پچیس جولائی کو سامنے آ جائے گا لیکن یہ سارا کام الحمد للہ شاہ محمود قریشی نے اکیلے سر انجام دیا ہے۔ عامر ڈوگر کوئی شاہ محمود قریشی سے الگ چیز نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے مخلص ورکر اس تقسیم کی ہیرا پھیری سے زیادہ شاہ محمود قریشی کی منافقت پرتبرا کر رہے ہیں۔ اب مجھے اچھی طرح سمجھ آ گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈر اور ورکر یکساں شاہ محمود قریشی کے بارے میں منفی خیالات کیوں رکھتے ہیں۔ آج ٹکٹیں بدلنے کے لیے میسر آخری دن ہے۔ اگر عمران خان گھر کے ا ندر اور گھر کے باہر والے پیروں کے اثر سے نکل کر

      فیصلے کر لے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے لیکن ایسا ہونا مشکل لگتا ہے۔

      http://dunya.com.pk/index.php/author/khalid-masood-khan/2018-06-29/23738/42099626#tab2

    Viewing 5 posts - 1 through 5 (of 5 total)

    You must be logged in to reply to this topic.

    ×
    arrow_upward DanishGardi