- This topic has 47 replies, 11 voices, and was last updated 5 years, 7 months ago by shami11.
-
AuthorPosts
-
3 Sep, 2018 at 7:45 pm #1
پاکستان میں سب کی نظریں اس دن پر ٹکی ہوئی ہیں جس دن مریم نواز جیل سے رہا ہوں گی۔ PPP، PTI اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے۔ ن لیگ کے لوگ بھی اڈیالہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اویس توحید pic.twitter.com/Yq5zj3seZV
— Mian SamiUllahSharif (@Sami_PML_N) September 3, 2018
- thumb_up 1
- thumb_up GeoG liked this post
3 Sep, 2018 at 7:51 pm #2اسیر باپ بیٹی سے ملاقاتسیاسی قیدیوں کو اپنی آغوش میں پناہ دینے والی راولپنڈی میں واقع اڈیالہ جیل ان دنوں تین بار ملک کے منتخب وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور ان کے ساتھی حنیف عباسی کی میزبان ہے۔ مجھ جیسے صحافیوں کو سیاسی قیدیوں سے ملنے کیلئے اسلئے بھی بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس قلم کی صورت میں بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔اڈیالہ جیل میں اسیر باپ بیٹی سے ملاقات کی کوشش میں بھی یہی مفاد کارفرما تھا کہ یہ کھوج لگائی جائے کہ تین بار وزیر اعظم کے منصب پہ فائز رہنے والے نواز شریف اور نازو نعم میں پلی ان کی بیٹی مریم نواز کے جیل میں شب و روز کیسے گزر رہے ہیں۔ اس ملاقات کو ممکن بنانے کیلئے ایک با اثر دوست کی خدمات حاصل کیں ۔ ملاقاتیوں کی فہرست میں نام شامل ہونے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز تک پہنچنے کیلئے اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر پانچ پر گاڑیوں کی طویل قطار میں لگنے سے انتظار گاہ پہنچنے تک کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتظار گاہ سے دس سے پندرہ افراد کو گروپوں کی شکل میں دو تین سو میٹر کے فاصلے پر واقع ملاقات کی جگہ لے جایا جاتا ہے جہاں داخل ہونے سے پہلے ایک بار پھر جسمانی تلاشی لینے کے ساتھ آپ کے ہاتھ پرانٹری اسٹیمپ لگائی جاتی ہے۔ راہداری میں داخل ہو کر بالآخر آپ اس ہال میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں ایون فیلڈ پراپرٹیز کے مقدمے میں احتساب عدالت سے دس اور سات سال کی سزا پانے والے سابق وزیرا عظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ملاقاتیوں کے ہمراہ موجود ہوتے ہیں۔
میٹنگ روم کی طرز پر قائم اس ہال میں چار قطاروں میں لگی کرسیوں پر تقریباً تیس سے پینتیس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس میں ایک ایئر کنڈیشن اور دو پنکھے
لگائے گئے ہیں، ملاقاتیوں کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ کیلئے کلوز سرکٹ کیمرے بھی دکھائی دیتے ہیں جبکہ قیدیوں اور ملاقاتیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سننے کیلئے متعلقہ عملہ بھی ارد گرد ہی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اونچی آواز میں صرف غیر سیاسی گفتگو ہی کی جا سکتی ہے۔ ہال میں داخل ہونے پرمیاں صاحب نے قلم کار کو خصوصی عزت دیتے ہوئے مریم نواز کی قریبی نشست پر بیٹھنے کا کہا جس سے مریم نواز اور میاں صاحب سے دبے لفظوں میں طویل گفتگو کا موقع مل گیا۔ ایفی ڈرین کیس میں سزا پانے والے حنیف عباسی جیل میں بھی اپنے مخصوص پرتپاک انداز میں بغل گیر ہوئے۔ ہال میں مریم اورنگزیب، محمد زبیر، جاوید لطیف، شیخ آفتاب،بلیغ الرحمان، زیب جعفر،ثانیہ عاشق ، زیب النساء اور دیگر لیگی رہنما اور تین چار کارکنان بھی اپنے قائد اور ان کی بیٹی کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے نظر آئے۔ نواز شریف اور مریم نواز کے وزن میں نمایاں کمی کو دیکھ کرجیل کے شب وروز کا اندازہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن باپ بیٹی استفسار کے باوجود کوئی حرف شکایت زبان پرنہ لائے۔ مروت کے قائل نواز شریف ہر ملاقاتی سے کھڑے ہو کر سلام دعا کرتے جبکہ ان کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرنے پر خود ان کی ہمت بندھاتے اور ملاقاتیوں سے صرف دعا کرنے کی درخواست کرتے۔
نواز شریف کے ہاتھ میں چھوٹی تسبیح تھی جبکہ وہ آسمانی رنگ کی اپنی پسندیدہ شلوار قمیص میں ملبوس تھے جس کی سامنے والی جیب میں لگی عینک دیکھ کر مجھے 1999ءمیں لانڈھی جیل میں بطور قیدی ان کا اندراج کرتے سپرنٹنڈنٹ جیل کا وہ تضحیک آمیز جملہ یاد آ گیا جب اس نے نواز شریف کی جیب میں لگے پین کو دیکھ کر ادا کیا تھا۔ تب والی غلطی انیس سال بعد ضد بن کر نواز شریف کو پھر اسی مقام پر لے آئی ہے تاہم اس بار فرق یہ ہے کہ تب وہ اٹک قلعے کی صعوبتوں ،لانڈھی جیل کی تضحیک اور ہتھکڑیوں سے باندھ کر کراچی کی خصوصی عدالت میں پیشی جیسے تحقیر آمیز سلوک کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے آمر پرویز مشرف سے دس سالہ جلا وطنی کا معاہدہ کر کے جدہ روانہ ہو گئے تھے تاہم اس بار جیل اور اسیری کی کٹھن بھری زندگی کا راستہ انہوں نے خود چنا ہے۔ تب وہ بطور باپ وزیر اعظم ہاؤس سے اپنے ساتھ حراست میں لئے گئے اپنے بیٹے حسین نواز کیلئے فکر مند تھے توآج انہیں ساتھ سزا کاٹنے والی اپنی بیٹی مریم نواز کو دیکھ کر پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔
تاریخ کے اس دہرائے جانےکے بارے میں،میں نے مریم سے استفسار کیا کہ کیا خود احتسابی کے دوران باور ہوا کہ اس ہونی کو روکا جا سکتا تھا توایک توقف کے بعد ٹھوس لہجے میں نفی میں جواب دیتے انہوں نے کہا کہ وہ کچھ بھی کر لیتے ہونا یہی تھا کیونکہ کرنیوالے ،طے کر چکے تھے۔ اپنی ضمانت پر رہائی کے بارے میں باپ بیٹی بدستور بے یقینی کا شکار نظر آئے لیکن اپنے مقصد کو پانے کا عزم ایسا غیرمتزلزل کہ کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ بطور انسان دونوں صرف نازک رشتوں کے باعث کمزور پڑتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لندن میں زیر علاج اپنی اہلیہ کے ذکر پر نواز شریف متفکر اور بطور بیٹی اپنی والدہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کی آواز رندھ جاتی ہے اور وہ کوشش کرتی ہیں کہ آنسو ان کی آنکھوں سے باہرنہ چھلکنے پائیں۔ مریم نواز نے بتایا کہ ان کے دل پر صرف ایک بوجھ ہے کہ ان کی والدہ کلثوم نواز سوچتی ہیں کہ ہر روز ان سے ویڈیو کال پر بات کرنے والی ان کی بیٹی سیاسی زندگی میں اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ اب ہفتے میں صرف ایک دن چند منٹ کیلئے ان کا حال پوچھنے کیلئے کال کرتی ہے۔ میاں صاحب نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن 20منٹ کیلئے جیل کے پی سی او سے ٹیلی فون کر سکتے ہیں اور براستہ لاہور لائن ملنے سے اس میں سے بھی تین چار منٹ صرف ہوجاتے ہیں۔ ان کیلئے عید الضحی پر میاں صاحب کی والدہ ( آپی جی) کی جیل میں ان سے ملاقات کو یاد کرنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ جب وہ جیل میں بیٹے اور پوتی سے ملیں تو پوری جیل میں ان کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ بیٹے اور پوتی کو جیل میں چھوڑ کر واپس جانے کیلئے بھی تیار نہ تھیں اور بضد تھیں کہ ان کیساتھ ہی رہیں گی۔ جب روتی ہوئی والدہ کوزبردستی واپس بھیجا جا رہا تھا تو تب بیٹے کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ میاں صاحب سے معلوم ہوا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اورباپ بیٹی کو ایک دوسرے سے صرف اتوار کو ملاقات کرنے کی اجازت ہے جو عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
مریم نواز نے بچوں کو پڑھانیکی تردید کی اور واضح کیا کہ ان کی اور میاں صاحب کی بیرک میں چھ ، چھ کمرے ہیں جن میں سے ایک ایک میں وہ رہتے ہیں باقی تمام خالی ہیں اور مغرب کے وقت بیرک کو لاک کر دیا جاتا ہے جو صبح فجر کے وقت کھولاجاتا ہے اس لئے کسی سے بات چیت تک نہیں ہوتی۔ انہیں جنگ اور ایک دوسرا اردو اخبار پڑھنے کو ملتا ہے جبکہ اسیری کے دوران وہ عبادت کے علاوہ تاریخ اور اہم سیاسی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرنے میں وقت صرف کرتی ہیں۔ ان سے یادداشتیں قلمبند کرنے کے بارے میں پوچھا تو مریم نواز نے جواب دیا کہ کتابیں پڑھنے کے دوران نوٹس لینے کیلئے وہ کاغذ قلم مانگتی ہیں تو بہت تردد کے بعد انہیں نمبر لگا کر پرچیاں دی جاتی ہیں۔ دوران گفتگو ایک موقع پر خواجہ آصف نے ایک چٹ پر لکھی بنی اسرائیل کی سورت کی ایک آیت میاں صاحب کو وظیفہ کرنے کیلئے تھمائی جنہوں نے ابتدائی الفاظ ادا کئے تو مریم نواز نے پوری آیت سنا دی۔
باپ بیٹی کی اسیری کی زندگی کے مزید پہلو وا کرنے کیلئے میرے سوالات جاری تھے کہ ہال میں مریم نواز کی بیٹیاں مہرو اور ماہ نور داخل ہو گئیں جن کے بارے میں وہ بتا چکی تھیں کہ جیل میں وہ سب سے شدت سے انہیں مس کرتی ہیں۔ واپسی کیلئے ہال سے باہر آیا تو راہداری میں کیپٹن صفدر سے آمنا سامنا ہو گیا جو بیماری کے باعث انتہائی نحیف ہو چکے ہیں۔ انکی خیریت معلوم کرنے کے بعد جب اڈیالہ جیل کی اونچی فصیلوں سے باہر نکل رہا تھا تو میرے کانوں میں سورۃ آل عمران کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ؛ اور یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں؛۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
- local_florist 2
- local_florist GeoG, Believer12 thanked this post
3 Sep, 2018 at 8:02 pm #3واہ واہ کیا رعونت ہے، منافقت کی انتہا ہے اور چاپلوسی کی معراج تک لوگ پہنچنے ہوے ہیں، لیکن جب راوی تھک ہار کر اس دیومالائی کہانی کی کتاب کو پرے رکھتا ہے تو ہنس پڑتا ہے، بات ہورہی تھی ڈاکوؤں اور لٹیروں کی جو بل آخر ذلیل اور رسوا ہوکر اپنے انجام کو پہنچنے.
- thumb_up 1
- thumb_up SaleemRaza liked this post
3 Sep, 2018 at 8:06 pm #4واہ واہ کیا رعونت ہے، منافقت کی انتہا ہے اور چاپلوسی کی معراج تک لوگ پہنچنے ہوے ہیں، لیکن جب راوی تھک ہار کر اس دیومالائی کہانی کی کتاب کو پرے رکھتا ہے تو ہنس پڑتا ہے، بات ہورہی تھی ڈاکوؤں اور لٹیروں کی جو بل آخر ذلیل اور رسوا ہوکر اپنے انجام کو پہنچنے.
دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان، کتنا بدل گیا کپتان۔
سناؤ مشرف کے درباری تم بھی قید میں تھے ؟
بیرون ملک پاکستانیوں بینک کے ذریعے نہیں بلکہ ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجو ۔ 2014 کا عمران خان
عمران خان نے ہنڈی اور کرنسی کی سمگلنگ روکنے کے لیے اجلاس طلب کرلیا
کتنا بدل گیا ہے نا کپتان pic.twitter.com/RABwdsLsCs— 🇵🇰 علی خاکسار 🇵🇰 (@WarMachinex1) September 1, 2018
3 Sep, 2018 at 8:10 pm #5دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان، کتنا بدل گیا کپتان۔ سناؤ مشرف کے درباری تم بھی قید میں تھے ؟یار نواز لوہار کے بوٹ چاٹنے والے، بات یہ ہے کے لوگوں کو ہمارا کھرا بولنا اچھا نہیں لگتا، اب ہر کوئی آپ کی طرح زبان سے بوٹ تو پالش نہیں کر سکتا نہ، اور سناؤ تکلیف میں کچھ افاقہ ہے یا دن گزارنے کے ساتھ تکلیف بھی بڑھتی جارہی ہے ؟ میں الله سے خصوصی دعا کرنا کا سوچوں گا.
- mood 2
- mood Zinda Rood, SaleemRaza react this post
3 Sep, 2018 at 8:12 pm #6یار نواز لوہار کے بوٹ چاٹنے والے، بات یہ ہے کے لوگوں کو ہمارا کھرا بولنا اچھا نہیں لگتا، اب ہر کوئی آپ کی طرح زبان سے بوٹ تو پالش نہیں کر سکتا نہ، اور سناؤ تکلیف میں کچھ افاقہ ہے یا دن گزارنے کے ساتھ تکلیف بھی بڑھتی جارہی ہے ؟ میں الله سے خصوصی دعا کرنا کا سوچوں گا.فوجیوں کے بوٹ چاٹنے والے کب سے سچ بولنے لگ گئے ؟
اور سناؤ قید کیسے کٹی ؟
کمر درد کا بہانہ بنا کر جیل سے ہسپتال تو نہیں بھاگ گئے تھے
- thumb_up 3 mood 1
- thumb_up Sohraab, GeoG, Malik495 liked this post
- mood shahidabassi react this post
3 Sep, 2018 at 8:15 pm #7فوجیوں کے بوٹ چاٹنے والے کب سے سچ بولنے لگ گئے ؟ اور سناؤ قید کیسے کٹی ؟ کمر درد کا بہانہ بنا کر جیل سے ہسپتال تو نہیں بھاگ گئے تھےآپ سناؤ، کہہ رہے کے نواز لوہار اور مرہم لٹیری بس اب باہر کے کل باہر، کیا ہوا بیچاروں کا ؟ سنا ہے بیچاروں پر مشقت کی جارہی ہے جیل میں ؟
- mood 1
- mood shahidabassi react this post
3 Sep, 2018 at 8:17 pm #8آپ سناؤ، کہہ رہے کے نواز لوہار اور مرہم لٹیری بس اب باہر کے کل باہر، کیا ہوا بیچاروں کا ؟ سنا ہے بیچاروں پر مشقت کی جارہی ہے جیل میں ؟
کم از کم پاکستان میں قید کاٹ رہے ہیں
تمھارے پھٹو لیڈر کی طرح کمر درد کا بہانہ بنا کر بھاگ نہیں گیے
3 Sep, 2018 at 8:21 pm #9کم از کم پاکستان میں قید کاٹ رہے ہیں تمھارے پھٹو لیڈر کی طرح کمر درد کا بہانہ بنا کر بھاگ نہیں گیےکام کی بات بتاؤ یار، آپ بول رہے تھے کے آج باہر کے کل، کافی دن ہوگیے، جیل والوں نے تو حد ہی کردی ہے، اتنا ذلیل کر رہے ہیں بیچارے تین دفا کے وزیر اعظم کو، اور تو اور اسکو پھولوں سے نازک بٹیا کو بھی مشقت میں دھر لیا ہے، واقع بڑے افسوس کی بات ہے، مجھے آپ لوگوں سے دلی ہمدردی ہے، کس طرح آپ کی دن رات گزرتے ہونگے، واقع، الله آپکو اور صبر جمیل عطا فرماۓ، لیکن پھر بھی، باہر کب آرہے ہیں ؟
3 Sep, 2018 at 8:23 pm #10کام کی بات بتاؤ یار، آپ بول رہے تھے کے آج باہر کے کل، کافی دن ہوگیے، جیل والوں نے تو حد ہی کردی ہے، اتنا ذلیل کر رہے ہیں بیچارے تین دفا کے وزیر اعظم کو، اور تو اور اسکو پھولوں سے نازک بٹیا کو بھی مشقت میں دھر لیا ہے، واقع بڑے افسوس کی بات ہے، مجھے آپ لوگوں سے دلی ہمدردی ہے، کس طرح آپ کی دن رات گزرتے ہونگے، واقع، الله آپکو اور صبر جمیل عطا فرماۓ، لیکن پھر بھی، باہر کب آرہے ہیں ؟
سیاستدان ہی جیلوں میں جاتے ہیں پھٹو کمانڈو تو امی کے پاش جانا ہے بول کر بھاگ جاتے ہیں
3 Sep, 2018 at 8:26 pm #11سیاستدان ہی جیلوں میں جاتے ہیں پھٹو کمانڈو تو امی کے پاش جانا ہے بول کر بھاگ جاتے ہیںلگتا ہے اب تو آپ نے ہمت ہار دی ہے، چلو افسوس ہوا سن کر، الله آپ کو ہمت دے اور آپکی اور نواز لوہار بمع مریم لٹیری مشقتوں میں آسانی پیدا کرے، آمین
3 Sep, 2018 at 8:34 pm #13مریم نواز جیل میں بے انتہا صعوبتیں کاٹ رہی ہے، سنا ہے محترمہ کو میک اپ کا پورا سامان بھی نہیں دیا جاتا۔۔۔
اف بھگوان۔۔ کیا اتنا ظلم کائنات میں کسی اور پر ہوا ہوگا۔۔۔۔۔
اے مریم کے پیشہ ور نوحہ گرو۔۔۔۔ سینہ کوبی کرکرکے پھیپھڑے پھاڑ ڈالو۔۔۔۔
- mood 5
- mood Aamir Siddique, shami11, Qarar, shahidabassi, Ghost Protocol react this post
3 Sep, 2018 at 8:42 pm #15کم از کم پاکستان میں قید کاٹ رہے ہیں تمھارے پھٹو لیڈر کی طرح کمر درد کا بہانہ بنا کر بھاگ نہیں گیےابھی تو دو مہینے نہیں ہوئے ، ان سے بہادر تو وہ لوگ ہیں جو کئی سال سے جیل میں پڑے ہیں کیونکہ فائن پے کرنے کے پیسے نہیں ، انہیں لیڈر بنا لو
3 Sep, 2018 at 8:43 pm #16ہمیں ایسا ہی لیڈر چاہیے جس کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نا ہو3 Sep, 2018 at 8:44 pm #17ابھی تو دو مہینے نہیں ہوئے ، ان سے بہادر تو وہ لوگ ہیں جو کئی سال سے جیل میں پڑے ہیں کیونکہ فائن پے کرنے کے پیسے نہیں ، انہیں لیڈر بنا لووہ کونسا بھاگ گئے ہیں قید میں ہے ہیں
اور میں مستقبل کا سوال پوچھ رہا ہوں آج کا نہیں
- thumb_up 2 mood 1
- thumb_up GeoG, Malik495 liked this post
- mood Aamir Siddique react this post
3 Sep, 2018 at 8:46 pm #18وہ کونسا بھاگ گئے ہیں قید میں ہے ہیں اور میں مستقبل کا سوال پوچھ رہا ہوں آج کا نہیںبھاگ جاتے تو کاروبار کا کیا ہوتا ، واپس تو آنا ہی تھا ، اپنی سیاست ، اپنا کاروبار بچانے آئے ہیں عوام کے لئے نہیں
اگر انہیں تھوڑا سا بھی یقین ہوتا کہ دس سال جیل میں گزارنا پڑیں گے تو کبھی نا آتے
- mood 1
- mood barca react this post
3 Sep, 2018 at 8:50 pm #19بھاگ جاتے تو کاروبار کا کیا ہوتا ، واپس تو آنا ہی تھا ، اپنی سیاست ، اپنا کاروبار بچانے آئے ہیں عوام کے لئے نہیں اگر انہیں تھوڑا سا بھی یقین ہوتا کہ دس سال جیل میں گزارنا پڑیں گے تو کبھی نا آتےعجیب تضاد ہے کبھی کہتے ہو ساری دولت باہر ہے کبھی کہتے ہو سارا کاروبار انڈیا میں ہے کبھی پاکستان میں ؟
سب کو پتا ہے اپنی سیاست بچانے آئیں ہیں پھر جھوٹ کیوں ؟
ان کو سب پتا تھا کیا ہونا ہے
- thumb_up 2 mood 1
- thumb_up GeoG, Malik495 liked this post
- mood Aamir Siddique react this post
3 Sep, 2018 at 11:25 pm #20دونوں جس حال میں بھی ہیں کبھی ان کی طرف سے سہولتیں مانگنے کی بات نہیں آیی بلکے شروع میں مریم کی طرف سے عام قیدی کی طرح رکھے جانے کی ڈیمانڈ آیی – سیاستدان کبھی کرپشن میں کبھی انتقامی کاروائی کبھی کس جرم میں جیل جاتے ہے -کبھی بہترین زندگی کبھی بدترین – اتار چڑھاؤ آتے ہیں کبی دوتہا ہی اکثریت کبھی سیٹیں سکڑ کر صرف اٹھارہ – سیاست چالیس پچاس سال کی کہانی ہے دو چار سالوں کی اتنی اہمیت نہیں – -
AuthorPosts
You must be logged in to reply to this topic.