Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)
  • Author
    Posts
  • SaleemRaza
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Expert
    #1
    عرض کیا، ”کچھ بھی ہو، میں گھر میں مرغیاں پالنے کا روادار نہیں۔ میرا راسخ عقیدہ ہے کہ ان کا صحیح مقام پیٹ اور پلیٹ ہے اور شاید۔‘‘
    ”اس راسخ عقیدے میں میری طرف سے پتیلی کا اور اضافہ کرلیجیے۔‘‘ انہوں نے بات کاٹی۔
    پھر عرض کیا، ”اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی مرغی عمر طبعی کو نہیں پہنچ پاتی۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ ہماری ضیافتوں میں میزبان کے اخلاص و ایثار کا اندازہ مرغیوں اور مہمانوں کی تعداد اور ان کے تناسب سے لگایا جاتا ہے۔‘‘
    فرمایا، ”یہ صحیح ہے کہ انسان روٹی پر ہی زندہ نہیں رہتا۔ اسے مرغ مسلّم کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ اگر آپ کا عقیدہ ہے کہ خدا نے مرغی کو محض انسان کے کھانے کے لیے پیدا کیا تو مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ صاحب! مرغی تو درکنار۔ میں تو انڈے کو بھی دنیا کی سب سے بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔ تازے خود کھائیے۔ گندے ہوجائیں تو ہوٹلوں اور سیاسی جلسوں کے لیے دگنے داموں بیچئے۔ یوں تو اس میں، میرا مطلب ہے تازے انڈے میں،
    ہزاروں خوبیاں ایسی کہ ہر خوبی پہ دم نکلے
    مگر سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پھوہڑ سے پھوہڑ عورت کسی طرح بھی پکائے یقینا مزے دار پکے گا۔ آملیٹ، نیم برشت، تلا ہوا، خاگینہ، حلوا۔‘‘
    اس کے بعد انہوں نے ایک نہایت پیچیدہ اور گنجلک تقریر کی جس کا ماحصل یہ تھا کہ آملیٹ اور خاگینہ وغیرہ بگاڑنے کے لیے غیر معمولی سلیقہ اور صلاحیت درکار ہے جو فی زمانہ مفقود ہے۔
    اختلاف کی گنجائش نظر نہ آئی تو میں نے پہلو بچا کر وار کیا، ”یہ سب درست! لیکن اگر مرغیاں کھانے پر اتر آئیں تو ایک ہی ماہ میں ڈربے کے ڈربے صاف ہوجائیں گے۔‘‘
    کہنے لگے، ”یہ نسل مٹائے نہیں مٹتی۔ جہاں تک اس جنس کا تعلق ہے دو اور دو چار نہیں بلکہ چالیس ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود حساب کرکے دیکھ لیجیے۔ فرض کیجیے کہ آپ دس مرغیوں سے مرغبانی کی ابتدا کرتے ہیں۔ ایک اعلیٰ نسل کی مرغی سال میں اوسطاً دو سو سے ڈھائی سو تک انڈے دیتی ہے۔ لیکن آپ چونکہ فطرتاً قنوطی واقع ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ مانے لیتے ہیں کہ آپ کی مرغی ڈیڑھ سو انڈے دے گی۔‘‘
    میں نے ٹوکا، ”مگر میری قنوطیت کا مرغی کی انڈے دینے کی صلاحیت سے کیا تعلق؟‘‘
    بولے، ”بھئی آپ تو قدم قدم پر الجھتے ہیں۔ قنوطی سے ایسا شخص مراد ہے جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں رونے کے لیے بنائی ہیں۔ خیر۔ اس کو جانے دیجیے۔ مطلب یہ ہے کہ اس حساب سے پہلے سال میں ڈیڑھ ہزار انڈے ہوں گے اور دوسرے سال ان انڈوں سے جو مرغیاں نکلیں گی وہ دو لاکھ پچیس ہزار انڈے دیں گی۔ جن سے تیسرے سال اسی محتاط اندازے کے مطابق، تین کروڑ سینتیس لاکھ پچاس ہزار چوزے نکلیں گے۔ بالکل سیدھا سا حساب ہے۔‘‘
    ”مگر یہ سب کھائیں گے کیا؟‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔
    ارشاد ہوا، … ان کی خوبی یہی ہے کہ اپنا رزق آپ تلاش کرتے ہیں۔ آپ پال کر تو دیکھیے۔
    دانہ دنکّا، کیڑے مکوڑے، کنکر، پتھر چگ کر اپنا پیٹ بھرلیں گے۔‘‘
    پوچھا، ”اگر مرغیاں پالنا اس قدر آسان و نفع بخش ہے تو آپ اپنی مرغیاں مجھے کیوں دینا چاہتے ہیں۔‘‘
    فرمایا، ”یہ آپ نے پہلے ہی کیوں نہ پوچھ لیا، ناحق رد و قدح کی۔ آپ جانتے ہیں میرا مکان پہلے ہی کس قدر مختصر ہے۔ آدھے میں ہم رہتے ہیں اور آدھے میں مرغیاں۔ اب مشکل یہ آ پڑی ہے کہ کل کچھ سسرالی عزیز چھٹیاں گزارنے آرہے ہیں۔ اس لیے۔۔۔‘‘
    اور دوسرے دن ان کے نصف مکان میں سسرالی عزیز اور ہمارے گھر میں مرغیاں آگئیں۔
    اب اس کو میری سادہ لوحی کہیے یا خلوص نیت کہ شروع شروع میں میرا خیال تھا کہ انسان محبت کا بھوکا ہے اور جانور اس واسطے پالتا ہے کہ اپنے مالک کو پہچانے اور اس کا حکم بجا لائے۔ گھوڑا اپنے سوار کا آسن اور ہاتھی اپنے مہاوت کا آنکس پہچانتا ہے۔ کتا اپنے مالک کو دیکھتے ہی دم ہلانے لگتا ہے۔ جس سے مالک کو روحانی خوشی ہوتی ہے۔ سانپ بھی سپیرے سے ہِل جاتا ہے۔ لیکن مرغیاں!
    میں نے آج تک کوئی مرغی ایسی نہیں دیکھی جو مرغ کے سوا کسی اور کو پہچانے اور نہ ایسا مرغ نظر سے گزرا جس کو اپنے پرائے کی تمیز ہو۔ مہینوں ان کی داشت اور سنبھال کیجیے۔ برسوں ہتھیلیوں پر چگائیے۔ لیکن کیا مجال کہ آپ سے ذرا بھی مانوس ہوجائیں۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ میں یہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ میرے دہلیز پر قدم رکھتے ہی مرغ سرکس کے طوطے کی مانند توپ چلا کر سلامی دیں گے، یا چوزے میرے پاؤں میں وفادار کتے کی طرح لوٹیں گے، اور مرغیاں اپنے اپنے انڈے ”سپردم بتو مایۂ خویش را‘‘ کہتی ہوئی مجھے سونپ کر الٹے قدموں واپس چلی جائیں گی۔ تاہم پالتو جانور سے خواہ وہ شرعاً حلال ہی کیوں نہ ہو یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ ہر چمکتی چیز کو چھری سمجھ کر بدکنے لگے اور مہینوں کی پرورش و پرداخت کے باوجود محض اپنے جبلی تعصب کی بنا پر ہر ایک کو اپنے خون کا پیاسا تصور کرے۔
    انہیں مانوس کرنے کے خیال سے بچوں نے ہر ایک مرغ کا علیٰحدہ نام رکھ چھوڑا تھا۔ اکثر کے نام سابق لیڈروں اور خاندان کے بزرگوں پر رکھے گئے۔ گو ان بزرگوں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا مگر ہمارے دوست مرزا عبدالودود بیگ کا کہنا تھا کہ یہ بیچارے مرغوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ لیکن ان ناموں کے باوصف مجھے ایک ہی نسل کے مرغوں میں آج تک کوئی ایسی خصوصیت نظر نہ آئی جو ایک مرغ کو دوسرے سے ممّیز کرسکے… اور انہیں دیکھ کر اپنی بینائی اور حافظے پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی شناخت اور تشخیص کے لیے خاص مہارت و ملکہ درکار ہو۔ جس کی خود میں تاب نہ پاکر اپنے حواس خمسہ سے مایوس ہوجاتا ہوں۔
    (”چراغ تلے‘‘ سے اقتباس)
    • This topic was modified 54 years, 3 months ago by .
    Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    • Professional
    #2
    میرے خیال سے عنوان کچھ یوں تھا
    “اور آنا گھر میں مرغیوں کا”

    :thinking:

    Muhammad Hafeez
    Participant
    Offline
    • Professional
    #3

    اب کچھ جگ بیتی بھی سن لیجئے۔جھوٹ سچ کاحال خدا جانے۔ لیکن ایک دوست اپناتجربہ بیان کرتے ہیں کہ دوماہ قبل ان کے گلے میں خراش ہوگئی،جوان کے نزدیک بدمزہ کھانے اورگھروالوں کے خیال میں سگرٹ کی زیادتی کانتیجہ تھی۔شروع میں توانھیں اپنی بیٹھی ہوئی آوازبہت بھلی معلوم ہوئی اورکیوں نہ ہوتی؟سنتے چلے آئے ہیں کی بیٹھی ہوئی (HUSKY)آوازمیں بے پناہ جنسی کشش ہوتی ہے۔خداکی دین تھی کہ گھربیٹھے آوازبیٹھ گئی ۔ورنہ امریکہ میں تولوگ کوکاکولاکی طرح ڈالربہاتے ہیں جب کہیں آوازمیں یہ مستقل زکام کی سی کیفیت پیداہوتی ہے۔لہٰذاجب ذراافاقہ محسوس ہواتوانھوں نے راتوں کوگڑگڑا گڑگڑاکر،بلکہ خنخنا خنخنا کر دعائیں مانگیں:
    ”بارالہٰا!تیری شان کریمی کے صدقے! یہ سوزش بھلے ہی کم ہوجائے،مگربھراہٹ یونہی قائم رہے!“
    لیکن چنددن بعدجب ان کاگلاخالی نل کی طرح بھق بھق کرنے لگاتوانھیں بھی تشویش ہوئی۔کسی نے کہا”لقمان کاقول ہے کہ پانی پیتے وقت ایک ہاتھ سے ناک بندکرلینے سے گلاکبھی خراب نہیں ہوتا۔“
    ایک صاحب نے ارشادفرمایا”سارافتورپھل نہ کھانے کے سبب ہے۔میں توروزانہ نہارمنہ پندرہ فٹ گناکھاتاہوں۔معدہ اوردانت دونوں صاف رہتے ہیں۔“اورثبوت میں انھوں نے اپنے مصنوعی دانت دکھائے جوواقعی بہت صاف تھے۔
    ایک اورخیرخواہ نے اطلاع دی کہ زکام ایک زہریلے وائرس سے ہوتاہے جوکسی دواسے نہیں مرتا۔لہذاجوشاندہ پیجئے کہ انسان کے علاوہ کوئی جانداراس کاذائقہ چکھ کرزندہ نہیں رہ سکتا۔
    بقیہ رودادانہی کی زبان سے سنئے:
    ”اورجن کرم فرماوں نے ازراہ کسرنفسی دوائیں تجویزنہیں کیں۔وہ حکیموں اورڈاکٹروں کے نام اورپتے بتاکراپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوگئے۔کسی نے اصرارکیاکہ وایورویدک علاج کراو۔‘بڑی مشکل سے انھیں سمجھایاکہ میں طبعی موت مرناچاہتاہوں۔کسی نے مشورہ دیاکہ’حکیم نباض ملت سے رجوع کیجئے ۔نبض پرانگلی رکھتے ہی مریض کاشجرہ نسب بتادیتے ہیں(اسی وجہ سے کراچی میں ان کی طبابت ٹھپ ہے)قارورے پرنظرڈالتے ہی مریض کی آمدنی کااندازہ کرلیتے ہیں۔‘آوازاگرساتھ دیتی تومیں ضرورعرض کرتاکہ ایسے کام کے آدمی کوتوانکم ٹیکس کے محکمہ میں ہوناچاہیے ۔
    ”غرضیکہ جتنے منہ ان سے کہیں زیادہ باتیں!اورتواورسامنے کے فلیٹ میں رہنے والی اسٹینوگرافر(جوچست سویٹراورجنیزپہن کر،بقول مرزاعبدالودودبیگ،انگریزی کا ایس معلوم ہوتی ہے)بھی مزاج پرسی کوآئی اورکہنے لگی’حکیموں کے چکرمیں نہ پڑیئے۔آنکھ بندکرکے ڈاکٹردلاورکے پاس جائیے۔تین مہینے ہوئے،آوازبنانے کی خاطرمیں نے املی کھاکھاکرگلے کاناس مارلیاتھا۔میری خوش نصیبی کہئے کہ ایک سہیلی نے ان کاپتہ بتادیا۔اب بہت افاقہ ہے۔‘
    ”اس بیان کی تائیدکچھ دن بعدمرزاعبدالودودبیگ نے بھی کی۔انھوں نے تصدیق کی ڈاکٹرصاحب امریکی طریقہ سے علاج کرتے ہیں اورہرکیس کوبڑی توجہ سے دیکھتے ہیں۔چنانچہ سینڈل کے علاوہ ہرچیزاترواکرانھوں نے اسٹینوگرافرکے حلق کابغورمعائنہ کیا۔علاج سے واقعی کافی افاقہ ہوااوروہ اس سلسلے میں ابھی تک پیٹھ پربنفشی شعاعوں سے سینک کرائے جاتی ہے۔“
    مجھے یقین ہے کہ اس طریقہ علاج سے ڈاکٹرموصوف کوکافی افاقہ ہواہوگا!

Viewing 3 posts - 1 through 3 (of 3 total)

You must be logged in to reply to this topic.

×
arrow_upward DanishGardi