Viewing 20 posts - 21 through 40 (of 201 total)
  • Author
    Posts
  • Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #21

    اتھرا صاحب، کسی آسٹریلین یا یورپین اخبار / سورس کا لنک دیں تاکہ میں اس کیس کی اصل نوعیت جان سکوں، پاکستان میں مذہبیت اتنی سرائیت کرگئی ہے کہ اخبارات بھی اس سے محفوظ نہیں، اس لئے اس معاملے میں پاکستانی اخبارات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔۔

    https://www.nytimes.com/aponline/2018/10/25/world/europe/ap-eu-austria-free-speech.html

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #22

    اگر کسی کو اعتراض نہ ہو تو کیا میں اس خبر کا سادہ سا اردو ترجمہ یہاں پیش کرسکتا ہوں۔۔۔؟؟؟

    European Court Rejects Austrian’s Case Over Prophet Slur

    BERLIN — The European Court of Human Rights says an Austrian woman’s conviction for calling the prophet of Islam a pedophile didn’t breach her freedom of speech.

    The Strasbourg-based ECHR ruled Thursday that Austrian courts had “carefully balanced her right to freedom of expression with the right of others to have their religious feelings protected.”

    The woman in her late 40s, identified only as E.S., claimed during two public seminars in 2009 that the Prophet Muhammad’s marriage to a young girl was akin to “pedophilia.” A Vienna court convicted her in 2011 of disparaging religious doctrines, ordering her to pay a 480-euro ($547) fine, plus costs. The ruling was later upheld by an Austrian appeals court.

    The ECHR said the Austrian court’s decision “served the legitimate aim of preserving religious peace.”

    Source: https://www.nytimes.com/aponline/2018/10/25/world/europe/ap-eu-austria-free-speech.html

    Bawa
    Participant
    Offline
    • Expert
    #23
    یہاں پہلے کونسی کسی فکری بیوہ کے سیاپے پر پابندی ہے؟

    کوئی بھی فکری بیوہ خوشی سے اپنے سیاپے کو کلینیکل نشتر زنی کا نام دے سکتی ہے

    :hilar: :hilar:   :hilar:   :hilar:

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #24

    سب سے پہلے تو میں پاکستانی اخباروں کی فکری بددیانتی پر بات کرتا ہوں۔ پاکستانی اخباروں میں اس خبر کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسا کہ آسٹرین عدالت + یورپین عدالت میں عاشقانِ رسول ججز کا بینچ بیٹھا ہوا ہے، بینچ کی سربراہی کررہا ہے علامہ خادم رضوی اور آخر میں آنسوؤں سے تر تمام ججز فیصلہ سناتے ہیں کہ حضرت محمد کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی، نہ جب تک کٹ مریں ہم خواجہ یثرب کی حرمت پر، خدا شاہد ہے کامل ہمارا ایماں ہو نہیں سکتا۔۔ جبکہ اصل خبر ملاحظہ کریں اس میں ایسی کوئی بات ہی نہیں۔ حضرت محمد کی ناموس و حرمت  سے تو کسی کو لینا دینا نہیں، فیصلہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات اور امن عامہ کے قیام کے لئے لیا گیا اور خاتون کو چند سو یورو کی سزا سنا ئی گئی۔

    چونکہ فورم کے ایک “معزز” ممبر نے ہنستے ہنستے اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ اس خبر کا اردو ترجمہ کیا جاسکتا ہے تو میں اس کو فورم کے تمام مومنین کی طرف سے اجازت نامہ سمجھتے ہوئے خبر کا یہاں اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں، خبر میں ایک ایسا لفظ تھا جس سے مجھے خدشہ تھا کہ مومنین حضرات کے نازک جذبات بھڑک سکتے ہیں، اس لئے امنِ عامہ کے قیام کے نیک مقصد کی خاطر اجازت لینا ضروری سمجھا۔

      تھریڈ سٹارٹر اتھرا صاحب کے پاس چونکہ ہمیشہ بھاری بھرکم ذخیرہ الفاظ ہوتا ہے اس لئے وہ اس ترجمے کو مزید بہتر کرسکتے ہیں۔

    BERLIN — The European Court of Human Rights says an Austrian woman’s conviction for calling the prophet of Islam a pedophile didn’t breach her freedom of speech.

    The Strasbourg-based ECHR ruled Thursday that Austrian courts had “carefully balanced her right to freedom of expression with the right of others to have their religious feelings protected.”

    The woman in her late 40s, identified only as E.S., claimed during two public seminars in 2009 that the Prophet Muhammad’s marriage to a young girl was akin to “pedophilia.” A Vienna court convicted her in 2011 of disparaging religious doctrines, ordering her to pay a 480-euro ($547) fine, plus costs. The ruling was later upheld by an Austrian appeals court.

    The ECHR said the Austrian court’s decision “served the legitimate aim of preserving religious peace.”

    https://www.nytimes.com/aponline/2018/10/25/world/europe/ap-eu-austria-free-speech.html

    انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے کہا کہ پیغمبر اسلام کو پیڈوفائل کہنے پر آسٹریا کی  خاتون کو سزا اس کے آزادی اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی نہیں ۔
    انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے جمعرات کو فیصلے میں کہا کہ آسٹریا کی عدالت نے محتاط اندا ز میں خاتون کے آزادیِ اظہار رائے کے حق کو دوسروں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کےحق کے ساتھ متوازن کیا ہے۔
    چالیس سالہ خاتون جس کی شناخت ای ایس کے نام سے کی گئی ہے ، نے 2009میں دو پبلک سیمینارز کے دوران دعویٰ کیا کہ پیغمبر اسلام کی چھوٹی بچی کے ساتھ شادی پیڈوفیلیا کے مترادف ہے۔ 2011میں ویانا کی عدالت نے اسے مذہبی عقائد کی بد احترامی کرنے پر 480یورو کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔بعد میں آسٹریا کی اپیلز کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھا۔
    انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے کہا کہ آسٹرین عدالت کا فیصلہ مذہبی امن کو برقرار رکھنے کا جائز مقصد ادا کرتا ہے۔

    • This reply was modified 54 years, 4 months ago by .
    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #25

    اس فیصلے کی آخری لائن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ نظریہ ضرورت کے تحت لیا گیا ہے، سب جانتے ہیں کہ مسلمان ایک متشدد قوم ہے اور معمولی سی بات پر خون خرابہ پر اتر آتے ہیں، امن عامہ کو خراب کرتے ہیں، کچھ دن پہلے گیرٹ ویلڈرز نے بھی اسی وجہ سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کا مقابلہ کینسل کردیا تھا۔ اس میں مسلمانوں کے لئے کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ شرمندہ ہونے کی بات ہے۔۔ اسی لئے عدالت نے خاتون کو معمولی سا جرمانہ کیا اور ایک طرح سے توہینِ رسالت کے اس مقدمے کو (جو مسلمانوں نے زندگی اور موت کا مسئلہ بنایا ہوتا ہے)  ایک معمولی نوعیت کے جھگڑے کے برابر اہمیت دے کر قصہ نبٹا دیا۔

    ویسے اگر پاکستان میں یہی قانون لاگو ہوجائے کہ توہین مذہب یا توہین رسالت پر کچھ ہزار روپوں کا جرمانہ ہو تو میں اس کی بھرپور حمایت کروں گا۔ اتھرا صاحب۔۔ سوال تو یہ ہے کیا آپ بھی حمایت کریں گے یا نہیں۔۔؟

    Athar
    Participant
    Offline
    • Professional
    #26
    By the way, Nice Profile Picture! :clap: :clap: :clap:

    اندھیر نگری کی پرجا کا ہیرو ہے اس کا اتنا حق تو بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    Shah G
    Participant
    Offline
    • Professional
    #27
    اندھیر نگری کی پرجا کا ہیرو ہے اس کا اتنا حق تو بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    بس اب اسے بدلئے گا مت

    :lol: :lol:   :lol:   :lol:

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #28

    اتھرا صاحب، کسی آسٹرین یا یورپین اخبار / سورس کا لنک دیں تاکہ میں اس کیس کی اصل نوعیت جان سکوں، پاکستان میں مذہبیت اتنی سرائیت کرگئی ہے کہ اخبارات بھی اس سے محفوظ نہیں، اس لئے اس معاملے میں پاکستانی اخبارات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔۔

    پیغمبرِ اسلام کی توہین ’آزادیِ اظہار‘ نہیں ہے: یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (یہ بی بی سی کی خبر ہے) ۔ ۔ 

    یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی توہین ‘آزادیِ اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے،’ اور ‘اس کی وجہ سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے اور اس سے مذہبی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔’

    یہ فیصلہ عدالت نے جمعرات کے دن پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے والی آسٹریا سے تعلق رکھنے والی ای ایس نامی خاتون کے خلاف سزا کے فیصلے کی اپیل پر صادر کیا۔

    عدالت نے کہا کہ ای ایس کے خلاف فیصلہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

    فرانس کے شہر سٹراسبرگ میں واقع ای ایچ سی آر نے فیصلہ دیا کہ آسٹریا کی عدالت نے خاتون کو سزا دیتے وقت ‘ان کی آزادیِ اظہار اور دوسروں کے مذہبی احساسات کے تحفظ کے حق کا بڑی احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے۔’

    اس خاتون نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا اور انھیں صرف ای ایس کہا جاتا ہے، 2008 اور 2009 میں ’اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات‘ کے عنوان کے تحت مختلف تقاریر میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں چند کلمات ادا کیے تھے جن کی پاداش میں ان پر ویانا کی ایک عدالت میں مقدمہ چلا اور عدالت نے انھیں فروری 2011 میں مذہبی اصولوں کی تحقیر کا مجرم قرار دیتے ہوئے 480 یورو کا جرمانہ، بمع مقدمے کا خرچ، عائد کر دیا۔ اس فیصلے کو آسٹریا کی اپیل کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

    اس کے علاوہ 2013 میں سپریم کورٹ نے بھی اس مقدمے کو خارج کر دیا تھا۔

    اب ای سی ایچ آر نے کہا ہے کہ آسٹریا کی عدالت کا فیصلہ ‘مذہبی امن و امان برقرار رکھنے کا جائز مقصد ادا کرتا ہے۔’

    یہ فیصلہ ججوں کے سات رکنی پینل نے دیا۔

    اپنے فیصلے میں ای سی ایچ آر نے کہا کہ ‘عدالت کو معلوم ہوا کہ مقامی عدالتوں نے سائل کے بیانات کا بھرپور جائزہ لیا اور انھوں نے ان کی آزادیِ اظہار اور دوسروں کے مذہبی احساسات کو حق کے درمیان بڑی احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے، اور آسٹریا میں مذہبی امن و امن برقرار رکھنے کے جائز حق کی پاسداری کی ہے۔’

    اس کے بعد ای ایس نے یورپی یونین کے قانون کی انسانی حقوق کے بارے میں شق کا سہارا لیتے ہوئے یورپی عدالت میں اپیل کی تھی کہ مقامی عدالتیں ان کی آزادیِ اظہار کے حق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

    تاہم ای ایچ سی آر نے فیصلہ صادر کیا کہ ای ایس کے ‘بیانات معروضی بحث کی جائز حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور انھیں پیغمبرِ اسلام پر حملہ قرار دیا جا سکتا ہے، جس سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے۔

    یورپی عدالت نے قرار دیا کہ شق 10 کے تحت اس خاتون کے حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

    یورپی عدالتِ انصاف برائے انسانی حقوق ہے کیا؟
    یہ عدالت یورپی یونین کے تحت کام کرتی ہے اور اس کا کام افراد اور ملکوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں جاری کردہ مقدمات پر فیصلہ سنانا ہے۔ یہ عدالت خود کوئی کیس نہیں لے سکتی۔

    یہ عدالت یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کے تحت فیصلے سناتی ہے جس پر 47 ملکوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔ عدالت کے سامنے پیش کردہ مقدمات کے لیے ضروری ہو کہ ان میں کہا گیا کہ کسی ملک نے کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے جس سے کسی فرد یا گروہ کو قابلِ ذکر نقصان پہنچا ہو۔

    ای ایس نامی آسٹرین خاتون نے اسی سلسلے میں مقدمہ دائر کیا تھا کہ آسٹریا کی مقامی عدالتوں نے ان کے آزادیِ اظہار کے بنیادی حق کا تحفظ نہ کر کے یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم ان کی اپیل مسترد ہو گئی۔

    انسانی حقوق کی شق 10 کیا کہتی ہے؟
    اس شق کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ یہ ضرور کہتا ہے کہ ہر کسی اور آزادیِ اظہار کا حق حاصل ہے جس میں حکومت کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

    اسی شق کے دوسرے حصے میں آزادیِ اظہار پر قدغنیں بھی لگائی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ آزادیِ اظہار کے ساتھ فرائض اور حقوق بھی شامل ہیں، اور یہ آزادی کسی جمہوری معاشرے کے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے رسومات، حالات، ضوابط کے ماتحت ہے اور اس کی آڑ میں کسی کے جذبات مجروح نہیں کیے جا سکتے۔

    یورپ میں یہود دشمنی کے خلاف قوانین

    اس کی بجائے یورپ کے اکثر ملکوں میں ہولوکاسٹ (دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتلِ عام) سے انکار جرم کے زمرے میں آتا ہے۔

    اکثر ملکوں نے اس قانون کو نفرت پھیلانے اور اقلیتوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے کے پہلے سے موجود قوانین کے ساتھ ملا دیا ہے۔

    ڈوائچے ویلی کیلئے یہاں دیکھ لیں اور ڈیلی میل، یوکے کیلئے یہاں

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #29
    فورم کی انتظامیہ کو بھی اس عدالتی فیصلے کی روشنی میں خود احتسابی کرنی چاہئے۔

    میں اس مطالبے کی تائید کرتا ہوں کہ فورم انتظامیہ کو اس فیصلے کی روشنی میں غیر ضروری لیکچر میں تھوڑی سی ترمیم کر کے آزادیء اظہار کے باب میں ایک کم از کم خط ضرور کھینچ دینا چاہیے جو اس موضوع پر بات کرنے والے فریقین کے درمیان ایک کم از کم شائستگی برقرار رکھنے میں مدد دے

    Host Atif Qazi

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #30

    اگر کسی کو اعتراض نہ ہو تو کیا میں اس خبر کا سادہ سا اردو ترجمہ یہاں پیش کرسکتا ہوں۔۔۔؟؟؟

    European Court Rejects Austrian’s Case Over Prophet Slur

    BERLIN — The European Court of Human Rights says an Austrian woman’s conviction for calling the prophet of Islam a pedophile didn’t breach her freedom of speech.

    The Strasbourg-based ECHR ruled Thursday that Austrian courts had “carefully balanced her right to freedom of expression with the right of others to have their religious feelings protected.”

    The woman in her late 40s, identified only as E.S., claimed during two public seminars in 2009 that the Prophet Muhammad’s marriage to a young girl was akin to “pedophilia.” A Vienna court convicted her in 2011 of disparaging religious doctrines, ordering her to pay a 480-euro ($547) fine, plus costs. The ruling was later upheld by an Austrian appeals court.

    The ECHR said the Austrian court’s decision “served the legitimate aim of preserving religious peace.” Source: https://www.nytimes.com/aponline/2018/10/25/world/europe/ap-eu-austria-free-speech.html

    ایسا آپ کس مقصد کیلئے کرنا چاہتے ہیں؟؟

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #31

    سب سے پہلے تو میں پاکستانی اخباروں کی فکری بددیانتی پر بات کرتا ہوں۔ پاکستانی اخباروں میں اس خبر کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسا کہ آسٹرین عدالت + یورپین عدالت میں عاشقانِ رسول ججز کا بینچ بیٹھا ہوا ہے، بینچ کی سربراہی کررہا ہے علامہ خادم رضوی اور آخر میں آنسوؤں سے تر تمام ججز فیصلہ سناتے ہیں کہ حضرت محمد کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی، نہ جب تک کٹ مریں ہم خواجہ یثرب کی حرمت پر، خدا شاہد ہے کامل ہمارا ایماں ہو نہیں سکتا۔۔ جبکہ اصل خبر ملاحظہ کریں اس میں ایسی کوئی بات ہی نہیں۔ حضرت محمد کی ناموس و حرمت سے تو کسی کو لینا دینا نہیں، فیصلہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات اور امن عامہ کے قیام کے لئے لیا گیا اور خاتون کو چند سو یورو کی سزا سنا ئی گئی۔

    چونکہ فورم کے ایک “معزز” ممبر نے ہنستے ہنستے اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ اس خبر کا اردو ترجمہ کیا جاسکتا ہے تو میں اس کو فورم کے تمام مومنین کی طرف سے اجازت نامہ سمجھتے ہوئے خبر کا یہاں اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں، خبر میں ایک ایسا لفظ تھا جس سے مجھے خدشہ تھا کہ مومنین حضرات کے نازک جذبات بھڑک سکتے ہیں، اس لئے امنِ عامہ کے قیام کے نیک مقصد کی خاطر اجازت لینا ضروری سمجھا۔

    تھریڈ سٹارٹر اتھرا صاحب کے پاس چونکہ ہمیشہ بھاری بھرکم ذخیرہ الفاظ ہوتا ہے اس لئے وہ اس ترجمے کو مزید بہتر کرسکتے ہیں۔ BERLIN — The European Court of Human Rights says an Austrian woman’s conviction for calling the prophet of Islam a pedophile didn’t breach her freedom of speech. The Strasbourg-based ECHR ruled Thursday that Austrian courts had “carefully balanced her right to freedom of expression with the right of others to have their religious feelings protected.” The woman in her late 40s, identified only as E.S., claimed during two public seminars in 2009 that the Prophet Muhammad’s marriage to a young girl was akin to “pedophilia.” A Vienna court convicted her in 2011 of disparaging religious doctrines, ordering her to pay a 480-euro ($547) fine, plus costs. The ruling was later upheld by an Austrian appeals court. The ECHR said the Austrian court’s decision “served the legitimate aim of preserving religious peace.” https://www.nytimes.com/aponline/2018/10/25/world/europe/ap-eu-austria-free-speech.html

    انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے کہا کہ پیغمبر اسلام کو بچہ باز کہنے پر آسٹریا کی خاتون کو سزا اس کے آزادی اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی نہیں ۔ انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے جمعرات کو فیصلے میں کہا کہ آسٹریا کی عدالت نے محتاط اندا ز میں خاتون کے آزادیِ اظہار رائے کے حق کو دوسروں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کےحق کے ساتھ متوازن کیا ہے۔ چالیس سالہ خاتون جس کی شناخت ای ایس کے نام سے کی گئی ہے ، نے 2009میں دو پبلک سیمینارز کے دوران دعویٰ کیا کہ پیغمبر اسلام کی چھوٹی بچی کے ساتھ شادی بچہ بازی کے مترادف ہے۔ 2011میں ویانا کی عدالت نے اسے مذہبی عقائد کی بد احترامی کرنے پر 480یورو کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔بعد میں آسٹریا کی اپیلز کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھا۔ انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے کہا کہ آسٹرین عدالت کا فیصلہ مذہبی امن کو برقرار رکھنے کا جائز مقصد ادا کرتا ہے۔

    رود ۔ ۔ ۔ یہ ساری حرکتیں جو آپ اس فورم کے ممبران کو بچہ سمجھ کر فرما رہے ہیں بحث کو  اصل موضوع سے ہٹا کر فروعیات میں الجھانے کے حربے ہیں، یہ بات آخر آپ کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ  یہ کچے ذہنوں کا فورم نہیں ہے جہاں آپ اپنے پرچار کی سومناتی مہم سر کرنا چاہتے ہو، اگر آپ نے مکالمہ کرنا ہے تو اسے اپنی زبان و بیان کے تشدد سے منزّا ایک کم از کم شائستگی کی حد میں رکھو

    کسی ایک ممبر کی ہاہا کو آپ نے اپنے لُچ تلنے کا جواز بنا لیا؟ میں پہلے بھی پوچھ چکا ہوں کہ جب اصل ماخذ کا پتا پہیا کر دیا گیا تو آپ کو یہ ترجمہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر اپنی فکری دیانت (جس کا آپ نے پاکستانی اخبارات کے باب میں رونا رویا ہے) سے کام لیکر اس حرکت/حربے کے پیچھے اصل مقصد پر اک ذرا سی روشنی ڈال سکیں تو؟؟

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #32

    اس فیصلے کی آخری لائن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ نظریہ ضرورت کے تحت لیا گیا ہے، سب جانتے ہیں کہ مسلمان ایک متشدد قوم ہے اور معمولی سی بات پر خون خرابہ پر اتر آتے ہیں، امن عامہ کو خراب کرتے ہیں، کچھ دن پہلے گیرٹ ویلڈرز نے بھی اسی وجہ سے پیغمبر اسلام کے خاکوں کا مقابلہ کینسل کردیا تھا۔ اس میں مسلمانوں کے لئے کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ شرمندہ ہونے کی بات ہے۔۔ اسی لئے عدالت نے خاتون کو معمولی سا جرمانہ کیا اور ایک طرح سے توہینِ رسالت کے اس مقدمے کو (جو مسلمانوں نے زندگی اور موت کا مسئلہ بنایا ہوتا ہے) ایک معمولی نوعیت کے جھگڑے کے برابر اہمیت دے کر قصہ نبٹا دیا۔

    ویسے اگر پاکستان میں یہی قانون لاگو ہوجائے کہ توہین مذہب یا توہین رسالت پر کچھ ہزار روپوں کا جرمانہ ہو تو میں اس کی بھرپور حمایت کروں گا۔ اتھرا صاحب۔۔ سوال تو یہ ہے کیا آپ بھی حمایت کریں گے یا نہیں۔۔؟

    ۔ ۔ ۔ ۔  اور دہریہ بن کے بھی آپ اس نام نہاد تشدد کو اپنے اندر سے نکالنے میں ناکام ہیں؟

    کیوں؟ اس میں شرمندہ ہونے والی کیا بات ہے؟؟

    کیوں؟ آپ کس وجہ سے اس کی حمایت کریں گے؟؟

    میں بھی بالکل حمائت کروں گا اگر پاکستانی معاشرے کے عمومی شعور کی سطح مغربی یورپی معاشرے کے برابر ہو جائے، اور کچھ؟

    GeoG
    Participant
    Offline
    • Expert
    #33
    بس اب اسے بدلئے گا مت :lol: :lol: :lol: :lol:

    شاہ جی آپکی اور اطہر بھائی کی پروفائل تصویریں ایک ہیں بس ذرا دیکھنے کے انداز کا فرق ہے

    :lol: :lol:   :lol:

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #34
    ایسا آپ کس مقصد کیلئے کرنا چاہتے ہیں؟؟

    ظاہر سی بات ہے یہ ایک اردو فورم ہے، زیادہ تر گفت و شنید اردو میں ہوتی ہے تو اردو میں ترجمہ کیوں نہ کیا جائے؟ اگر آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے تو کھل کر بتایئے۔

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #35
    رود ۔ ۔ ۔ یہ ساری حرکتیں جو آپ اس فورم کے ممبران کو بچہ سمجھ کر فرما رہے ہیں بحث کو اصل موضوع سے ہٹا کر فروعیات میں الجھانے کے حربے ہیں، یہ بات آخر آپ کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ یہ کچے ذہنوں کا فورم نہیں ہے جہاں آپ اپنے پرچار کی سومناتی مہم سر کرنا چاہتے ہو، اگر آپ نے مکالمہ کرنا ہے تو اسے اپنی زبان و بیان کے تشدد سے منزّا ایک کم از کم شائستگی کی حد میں رکھو کسی ایک ممبر کی ہاہا کو آپ نے اپنے لُچ تلنے کا جواز بنا لیا؟ میں پہلے بھی پوچھ چکا ہوں کہ جب اصل ماخذ کا پتا پہیا کر دیا گیا تو آپ کو یہ ترجمہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر اپنی فکری دیانت (جس کا آپ نے پاکستانی اخبارات کے باب میں رونا رویا ہے) سے کام لیکر اس حرکت/حربے کے پیچھے اصل مقصد پر اک ذرا سی روشنی ڈال سکیں تو؟؟

    اتھرا صاحب۔۔ جب آپ کوئی موضوع شروع کرتے ہیں تو اس پر بحث کرنے کی ذرا سی ہمت بھی رکھا کیجئے۔۔ میں نے دیکھا ہے کہ مذہبی بحث میں آپ ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟۔۔  اب آپ کو کون سی بات سے ٹھیس پہنچ رہی ہے، جو لفظ انگلش میں لکھا ہے اس کو اردو میں لکھنے سے آپ کو کیا تکلیف لاحق ہورہی ہے؟ کیا انگلش میں اس کا مطلب بدل گیا ۔۔۔؟ 

    اَتھرا
    Participant
    Offline
    Thread Starter
    • Advanced
    #36

    سب سے پہلے تو میں پاکستانی اخباروں کی فکری بددیانتی پر بات کرتا ہوں۔ پاکستانی اخباروں میں اس خبر کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسا کہ آسٹرین عدالت + یورپین عدالت میں عاشقانِ رسول ججز کا بینچ بیٹھا ہوا ہے، بینچ کی سربراہی کررہا ہے علامہ خادم رضوی اور آخر میں آنسوؤں سے تر تمام ججز فیصلہ سناتے ہیں کہ حضرت محمد کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جاسکتی، نہ جب تک کٹ مریں ہم خواجہ یثرب کی حرمت پر، خدا شاہد ہے کامل ہمارا ایماں ہو نہیں سکتا۔۔ جبکہ اصل خبر ملاحظہ کریں اس میں ایسی کوئی بات ہی نہیں۔ حضرت محمد کی ناموس و حرمت سے تو کسی کو لینا دینا نہیں، فیصلہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات اور امن عامہ کے قیام کے لئے لیا گیا اور خاتون کو چند سو یورو کی سزا سنا ئی گئی۔

    چونکہ فورم کے ایک “معزز” ممبر نے ہنستے ہنستے اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ اس خبر کا اردو ترجمہ کیا جاسکتا ہے تو میں اس کو فورم کے تمام مومنین کی طرف سے اجازت نامہ سمجھتے ہوئے خبر کا یہاں اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں، خبر میں ایک ایسا لفظ تھا جس سے مجھے خدشہ تھا کہ مومنین حضرات کے نازک جذبات بھڑک سکتے ہیں، اس لئے امنِ عامہ کے قیام کے نیک مقصد کی خاطر اجازت لینا ضروری سمجھا۔

    تھریڈ سٹارٹر اتھرا صاحب کے پاس چونکہ ہمیشہ بھاری بھرکم ذخیرہ الفاظ ہوتا ہے اس لئے وہ اس ترجمے کو مزید بہتر کرسکتے ہیں۔ BERLIN — The European Court of Human Rights says an Austrian woman’s conviction for calling the prophet of Islam a pedophile didn’t breach her freedom of speech. The Strasbourg-based ECHR ruled Thursday that Austrian courts had “carefully balanced her right to freedom of expression with the right of others to have their religious feelings protected.” The woman in her late 40s, identified only as E.S., claimed during two public seminars in 2009 that the Prophet Muhammad’s marriage to a young girl was akin to “pedophilia.” A Vienna court convicted her in 2011 of disparaging religious doctrines, ordering her to pay a 480-euro ($547) fine, plus costs. The ruling was later upheld by an Austrian appeals court. The ECHR said the Austrian court’s decision “served the legitimate aim of preserving religious peace.” https://www.nytimes.com/aponline/2018/10/25/world/europe/ap-eu-austria-free-speech.html

    انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے کہا کہ پیغمبر اسلام کو بچہ باز کہنے پر آسٹریا کی خاتون کو سزا اس کے آزادی اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی نہیں ۔ انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے جمعرات کو فیصلے میں کہا کہ آسٹریا کی عدالت نے محتاط اندا ز میں خاتون کے آزادیِ اظہار رائے کے حق کو دوسروں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کےحق کے ساتھ متوازن کیا ہے۔ چالیس سالہ خاتون جس کی شناخت ای ایس کے نام سے کی گئی ہے ، نے 2009میں دو پبلک سیمینارز کے دوران دعویٰ کیا کہ پیغمبر اسلام کی چھوٹی بچی کے ساتھ شادی بچہ بازی کے مترادف ہے۔ 2011میں ویانا کی عدالت نے اسے مذہبی عقائد کی بد احترامی کرنے پر 480یورو کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔بعد میں آسٹریا کی اپیلز کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھا۔ انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے کہا کہ آسٹرین عدالت کا فیصلہ مذہبی امن کو برقرار رکھنے کا جائز مقصد ادا کرتا ہے۔

    بعینہیہ یہ ہے آپ کی فطرت کا وہ عنصر جسے شعوری طور پر آپ لاکھ چھپاؤ، وہ پھر لاشعوری طور پر آپ کا اظہار اسکی چغلی کھاتا ہے

    اپنی کسی سفلی جبلت کو تسکین دینے کی خاطر آپ نے اس ایک لفظ کو اردو میں کہنے/لکھنے کا چسکہ پورا کرنے کیلئے ایک آدھ گھنٹہ قارئین کی نظر میں اس فضول مشقت پر صرف کیا

    :yapping: :yapping:  بڑے ہو جاؤ یار، آپ نے مذہب کسی بڑے مقصد کیلئے چھوڑا ۔ ۔  ۔ تو بہتر ہے کہ حرکتیں بھی تھوڑی سی بڑی کر لو

    Zinda Rood
    Participant
    Offline
    • Professional
    #37
    ۔ ۔ ۔ ۔ اور دہریہ بن کے بھی آپ اس نام نہاد تشدد کو اپنے اندر سے نکالنے میں ناکام ہیں؟ کیوں؟ اس میں شرمندہ ہونے والی کیا بات ہے؟؟ کیوں؟ آپ کس وجہ سے اس کی حمایت کریں گے؟؟ میں بھی بالکل حمائت کروں گا اگر پاکستانی معاشرے کے عمومی شعور کی سطح مغربی یورپی معاشرے کے برابر ہو جائے، اور کچھ؟

    اتھرا صاحب۔۔ یہاں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جس پر آپ بھڑک رہے ہیں۔ سنجیدہ بحث ہورہی ہے اور کوئی بھی متشدد نہیں ہورہا۔۔

    ویسے یورپی عدالت کا فیصلہ بڑا مزیدار ہے، اس کا ایک حصہ یہاں پیش کررہا ہوں۔  ذرا غور �